Monday, March 18, 2013

نازش کڈپوی



نازش کڈپوی
تعارف: 5-2-1936 نازش کڈپوی کی تاریخ پیدائش تھی۔ جن کا اصلی نام کے۔ محبوب علی خان تھا۔ والد کا نام کے۔ احمد علی خان تھا۔ انٹر میڈیٹ تک تعلیم حاصل کی۔ کڈپہ میڈیکل اینڈ ہیلتھ ڈپارٹمنٹ سے  ہیلتھ سپر وائزر کی حیثیت سے  رٹائرڈ ہوئے۔ شعر گوئی کا آغاز ۱۹۶۵ء سے  کیا۔ شاعری میں  حضرت طرفہ قریشی، حضرت شفاؔ  گوالیاری سے  اکتسابِ فن کیا۔ 
۲۰۰۳ء میں  نازش کا مجموعۂ کلام شائع ہوا۔ جس کے  مرتبین یوسف صفی اور محمود شاہد تھے۔ آئیے  نازشؔ  کی شاعری کا تفصیلی مطالعہ کرتے  ہیں۔ 
عشق، عشق ایک ایسی شے  ہے  جس کی عظمت و اہمیت کے  بارے  میں  ہر شاعر نے  کچھ نہ کچھ لکھا ہے۔ عشق وہ روشنی ہے  جس سے  ہر شاعر کا دل منور ہے، عشق وہ آگ ہے  جو خوش قسمت لوگوں  کے  دامن میں  پناہ لیتی ہے، عشق وہ نورانی کیفیت ہے  جو مجاز سے  حقیقت کا سفر لمحوں  میں  طے  کراتی ہے۔ اسی اہمیت کے  پیشِ نظر نازش نے  عشق کے  حوالے  سے  مختلف کیفیات کو اپنی شاعری میں  پرو یا ہے۔ آئیے  کلامِ نازشؔ  کی چند موتیوں  سے  نظروں  میں  روشنی بھرتے  ہیں۔ 
دل کسی پر اے  زاہد سوچ کر نہیں  آتا
یہ خطا ارے  ناداں  جان کر نہیں  ہوتی
منزل عشق کا کچھ فاصلہ کم ہو جائے 
رہنما کاش ترا نقش قدم مل جائے 
مسکراتے  ہوئے  جھیلیں  گے  ترا نقش قدم
ہم کو رکھنا ہے  بہر حال محبت کا بھرم
وہ آگ جس پہ تکیہ تھا الحاد و کفر کا
اے  عشق تو نے  اس کو گلستاں  بنا دیا
اس قدر جلے  ہیں  ہم عشق میں  کہ اب ہم کو
دھوپ دوپہر کی بھی چاند کا اجالا ہے 
ناز کر غم دوراں  ناز کر غم جاناں 
زخم اب مرے  دل کا پھول بننے  والا ہے 
لڑکھڑا رہا تھا وہ زندگی کی را ہوں  پر
ہر قدم پہ نازشؔ  کو آپ نے  سنبھالا ہے 
نازش سے  نہ پوچھ مجھ سے  مری بندگیٔ عشق
سران کا پائے  ناز پہ خم کر چکا ہوں  میں 
محبت کر محبت ہے  عبادت
کسی کی دشمنی تو درد سر ہے 
نازش محبوب کی یاد میں  گزرنے  والے  لمحات کو زیست کا حاصل گردانتے  ہیں۔ دراصل محبوب کی یاد میں  ایک ایسی مٹھاس پوشیدہ ہے  جو وقت گزرنے  کا احساس نہیں  ہونے  دیتی۔ محبوب کی یاد ایک ایسی لذت سے  مملوء ہے  جس کا لفظوں  میں  اظہار کرنا شاید ممکن نہیں۔ نازشؔ  ان میٹھے  لمحات کا ذکر اپنے  مخصوص انداز میں  اس طرح کرتے  ہیں ؂
جو تری یاد سے  خالی ہو ترے  ذکر سے  دور
وہ لمحہ کیوں  نہ جہاں  پر حرام ہو جائے 
حاصلِ عمر حقیقت میں  وہ لمحہ ہو گا
جو تری فکر تری یاد میں  گزرا ہو گا
معشوق کی یاد کو ایک اور مقام پر نازشؔ  نے  ناسور سے  تشبیہ دی ہے۔ ؂
ناسور بن کے  رہ گئی نازشؔ  کسی کی یاد
شعلے  بھڑک رہے  ہیں  دلِ بے  قرار میں 
عشق جب اپنی انتہاء کو پہونچ جاتا ہے  تو آدمی خود کو محبوب تصور کرنے  لگتا ہے، ایسے  عالم میں  سوائے  ذکر معشوق کے  دوسری اشیاء کو آدمی اپنے  اوپر حرام کر لیتا ہے۔ جب محبوب کا نام لبوں  سے  مس کرتا ہے  تو گویا بہار آ جاتی ہے۔ اور جب محبوب کا ذکر نہیں  ہوتا تو خزاں  ہوتی ہے۔ نازشؔ  نے  اس جذبے  کے  اظہار کے  لیے  دوسرے  لفظوں  کا سہارا لیا ہے ؂
تمہارا نام لیا تھا تو چھٹ گئی ظلمت
تمہیں  جو بھول گیا تو روشنی نہ ملی
شراب کی مستی اور لذت سے  زیادہ محبوب کی مستی، محبوب کے  نخرے، ناز و انداز زیادہ کیف آمیز وسرور بخش ہوتے  ہیں۔ محبوب کا التفات کائنات بھر خوشی کے  مماثل ہے۔ ان کی بے  وفائی اور اداسی غم کا دریا ہے ؂
بجھتے  ہوئے  چراغ بھی محفل میں  جل اٹھے 
جب مسکرا کے  آپ گلے  مجھ سے  کیا ملے 
جس سمت دیکھتا ہوں  نظر آ رہے  ہیں  وہ
اے  بے  خودیِ شوق اب اپنا پتہ ملے 
وہ جب بھی بات کرتے  ہیں  تو منہ سے  پھول جھڑتے  ہیں 
وہ جب گیسو جھٹکتے  ہیں  تو دن میں  رات ہوتی ہے 
حضرت میرؔ  (۱۱۳۷ء؁-۱۲۲۵ء؁) نے  فرمایا تھا ؂
میرؔ  ان نیم باز آنکھوں  میں 
ساری مستی شراب کی سی ہے 
اسی مفہوم کو حضرت نازشؔ  نے  اپنے  مخصوص انداز میں  اس طرح بیان فرمایا ہے ؂
میں  کوئی رند نہیں  پھر بھی آ رہا ہے  سرور
تمہاری آنکھوں  سے  یہ کیسی شراب ڈھلتی ہے 
غم اور آنسو سے  نازشؔ  کا بہت گہرا رشتہ ہے۔ غم کو وہ عظیم دولت تصور کرتے  ہیں۔ ظاہر ہے  غم جس کا سرمایۂ حیات ہو، آنسوؤں  سے  اس کا بڑا گہرا رشتہ ہو گا۔ نازشؔ  نے  آنسوؤں  کا ذکر کثرت سے  کیا ہے۔ آنسو غم و الم کے  اظہار کا ذریعہ ہیں۔ نازشؔ  نے  عاشق کے  آنسوؤں  کا تذکرہ بڑے  گداز کے  ساتھ درد بھرے  انداز میں  کیا ہے۔ اشکوں  کو نازشؔ  نے  کبھی آگ سے، کبھی ستارے  اور کبھی چراغ سے  تشبیہ دی ہے۔ اور کبھی اشکوں  کو اپنی کل کائنات بتایا ہے۔ ؂
دونوں  عالم کی ضیاء آئے  گی کھنچ کر نازشؔ 
اشک جو آنکھ سے  ٹپکا وہ ستارہ ہو گا
چین ملتا ہے  غم کے  ماروں  کو
درد جب آنسوؤں  میں  ڈھلتا ہے 
راہ تاریک ہے  بھٹکیں  نہ مسافر نازشؔ 
اس کو اشکوں  کے  چراغوں  سے  سنوارا جائے 
آنکھوں  میں  اشک پاؤں  میں  چھالے  جگر میں  داغ
نازشؔ  مرے  لیے  تو وہی کائنات ہے 
اوروں  کی طرح دیکھو ہمارا یہ غم نہیں 
اک ایک اشک اپنا سمندر سے  کم نہیں 
نازش ہمارے  اشکوں  میں  ڈوبی ہے  کائنات
پھر بھی غمِ حیات کا ساغر نہیں  بھرا
حفیظؔ  میرٹھی کا ایک شعر ہے ؂
شیشہ ٹوٹے  غل مچ جائے 
دل ٹوٹے  آواز نہ آئے 
اس مضمون کو الگ لفظیات سے  نازشؔ نے  اس طرح سنوارا ہے ؂
لو کانپ اٹھی شمع کے  بجھنے  سے  پیشتر
دل کا دیا بجھا تو دھواں  تک اٹھا نہیں 
انسانیت! آج دنیا کسی چیز کی شدید محتاج ہے  تو وہ ہے  انسانیت۔  خلوص، مروت، مہر و وفا ایسے  جذبے  ہیں  جو آدمیت کے  لوازمات میں  شمار ہوتے  ہیں۔ آدمیت کے  دشمن جذبات کی آج فراوانی ہے۔ لہو ستا ہے، پانی مہنگا ہے۔ خون خرابہ، شور شرابہ اور برائیوں  کا ایسا  بھنور ہے  جس میں  آدمی پھنستا ہی چلا جا رہا ہے۔ ایسے  بھیانک اور خطرناک دور میں  کوئی انسانیت کی بات کرتا ہے  تو ساری دنیا اس کی طرف لپکتی ہے۔ نازشؔ  نے  اس حوالے  سے  بڑے  اچھے  شعر کہے  ہیں۔ ان کے  نزدیک ایک آدمی کا مرتبہ چاند ستاروں  سے  بلند ہے۔ ؂ 
مہ و نجوم کی دنیا جو مل گئی تو کیا
مزا تو جب ہے  کہ نازشؔ  وہ آدمی سے  ملیں 
یہ بات سب سے  بڑی ہے  زمانے  کی
خلوص آج بھی لازم ہے  آدمی کے  لیے 
بغض و فریب آج کمالات ہو گئے 
یہ کیسے  آدمی کے  خیالات ہو گئے 
اک دوسرے  کو دیکھ کے  کیچڑ اچھالنا
نازشؔ  یہ دوستوں  کے  خیالات ہو گئے 
شہرِ وفا کے  لوگوں  کی فطرت کو کیا ہوا
تھوڑی سی دشمنی سے  فسادات ہو گئے 
میں  چاہتا ہوں  فریقین میں  بڑھے  الفت
کدورتوں  کا زمانہ تمام ہو جائے 
کچھ شر پسند لوگوں  نے  بستی جلائی تھی
اشکوں  سے  اپنے  آگ بجھانے  لگے  تھے  ہم
کسی کے  وقت پہ جو شخص کام آتا ہے 
مری نظر میں  وہ انساں  نہیں  فرشتہ ہے 
سحاب  قزلباش نے  دل جلانے  کی بات کی تھی ؂
بجھ رہے  ہیں  چراغ دیر و حرم
دل جلاؤ کہ روشنی کم ہے 
نازشؔ  اپنی شاعری سے  زمانے  میں  اجالا بکھیرنا چاہتے  ہیں ؂
نازشؔ  میں  چاہتا ہوں  اجالا ہو ہر طرف
دل ہم نے  جلایا تو اجالا یہ ہوا ہے 
زندگی کے  مختلف روپ ہیں۔ کسی کے  لیے  زندگی پھلوں  کی سیج ہے، تو کسی کے  لیے  کانٹوں  کا میدان۔ زندگی کے  بارے  میں  مختلف دانشوروں  نے  مختلف آراء کا ذکر کیا ہے۔ مگر زندگی کیا ہے ؟ آج تک کوئی اس کی حقیقت کو نہیں  پہونچ سکا۔ مسعودہ حیات (دہلی) نے  زندگی کے  حوالے  سے  بڑا پیارا شعر کہا ہے ؂
زندگی کی حقیقت بھی کیا چیز ہے،
ہر نظر کا الگ ہے  بیاں  دوستو!
ہے  کسی کے  لیے  یہ فقط رنگ و بو
 اور کسی کے  لیے  امتحاں  دوستو!
لیکن جناب نازشؔ  زندگی کو مسلسل سزا تصور کرتے  ہیں ؂
اب اس سے  بڑھ کے  قیامت ہی کیا ہے  میرے  لیے 
یہ زندگی تو مسلسل سزا ہے  میرے  لیے 
آگے  چل کر حق سے  وہ ایسی زندگی طلب کرتے  ہیں  جو اس کی خوشنودی اور رضا میں  صرف ہو، ایسی حیات سے  وہ پناہ مانگتے  ہیں  جس میں  حق شناسی نہ ہو، حق کی آگہی نہ ہو، رب کی رضا نہ ہو ۔ ؂
اس زندگی کی مجھ کو ضرورت نہیں  کوئی
جس میں  رضائے  حق نہ ہو، حق آگہی نہ ہو
حق پرستی سب سے  غیر سود مند شیوہ ہے۔ حق گو انسان کے  دوست نہ ہونے  کے  برابر ہوتے  ہیں۔ حق پرستی بہت بڑی چیز ہے۔ سچ کہنے  کا حوسلہ اپنے  اندر پیدا کرنا آسان کام نہیں۔ نازشؔ  نے  حق پرستی کے  حوالے  سے  زمانے  پر بڑا گہرا طنز کیا ہے۔ ؂
زمانہ سخت مخالف ہے  حق پرستوں  کا
یہ بات سچ ہے  کہ اب جھوٹ بولیے  یارو!
آواز حق بلند کرنے  کے  لیے  اللہ کی مد کی ضرورت ہے، نازشؔ  آواز حق کو ایک اعجاز تصور کرتے  ہیں ؂
ساری دنیا گوش بر آواز ہے 
حق کی ہر آواز اک اعجاز ہے 
مشاہیر کی آراء
(۱) ’’ نازشؔ  کڈپوی سوچ سمجھ کر شعر کہتے  ہیں۔ ان کی شاعری دل کی کم دماغ کی شاعری زیادہ ہے۔ وہ خود بھی غور وفکر سے  کام لیتے  ہیں  اور قاری کو بھی دعوتِ فکر دیتے  ہیں۔ انہوں  نے  روایت کے  احترام کے  ساتھ ساتھ اجتہاد سے  بھی کام لیا ہے۔ زبان وبیان پر ان کی گرفت مضبوط ہے  اور ان کا اسلوب تازہ کار۔ نازشؔ  کی غزلوں  کی ایک اور خوبی تغزل ہے۔ ان کا تغزل محض شاعرانہ روایتی یا رسمی نہیں  ہے، نئے  رنگ اور آہنگ کا حامل ہے۔ مصرعوں  کا دروبست ہی کچھ ایسا ہوتا ہے  کہ اک سماں  بندھ جاتا ہے ‘‘ (پروفیسر سلیمان اطہر جاوید)
(۲) ’’نازشؔ  انقلاب کا شاعر ہے۔ امید اور حوصلے  کا علمبردار، اور پھر جذبۂ خودی کا۔ صحت اگر ساتھ دیتی تو ان کا یہ کلام حسنِ کمال کی اور بھی بلندیوں  کو چھو سکتا، اگر چہ کہ جو کچھ نازشؔ  نے  کہا ہے  وہ بہت خوب ہے، بہت خوب ہے، لازوال ہے۔ ‘‘
(پروفیسر انور اللہ انورؔ )
(۳) ’’نازشؔ  کی شاعری انسان دوستی سے  لبریز ہے، قابلِ تحسین بات یہ ہے  کہ نازش عملی زندگی میں  بھی انسان وست واقع ہوئے  ہیں۔ اس بات کا اقرار دوست ہی نہیں  دشمن بھی کرتے  ہیں۔ ‘‘ (محمود شاہد)
(۴) ’’نازشؔ  ایک اچھے  اور پر گو غزل کے  شاعر ہیں۔ آپ کی تمام غزلیں  سادہ مگر معنیٰ سے  پر ہیں۔ ہر غزل کا مطلع اک شان، اک اٹھان لیے  ہوئے  ہے۔ اور اسی طرح آپ کی غزلوں  کا ہر مقطع آپ کی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ آپ کے  اسلوب بیان میں  ایک تاثر،کیفیت، وجدان اور روحانیت ہے  جو سامع اور قاری کے  دل کو چھو لیتی ہے۔ ‘‘ (عبید صدیقی)
(۵) ’’ نازشؔ  دوراں  کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے  کہ یہ کتاب حواس پر چھا جانے  والی ہے۔ اس کتاب کی غزلیں  شعریت کا دامن تھامے  ہوئے  ہیں۔ جس کی تائید عقل و منطق و ذوق و وجدان سے  ہوتی ہے۔ اس سے  طبع سامع کا خلجان دور ہوتا ہے۔۔۔۔ الفاظ کے  دروبست کے  معاملے  میں  نازشؔ  صاحب احتیاط سے  کام لیتے  ہیں۔ اسے  آپ لفظوں  کا تقویٰ کہیں  یا معنی کا فتویٰ، نازشؔ  صاحب نے  غزل کو نیم وحشی نہیں  سلجھا، ان کی غزل ریاضی کیش ہے۔ ‘‘ (ڈاکٹر ساغرؔ  جیدی)
٭٭٭


No comments:

Post a Comment