Wednesday, March 27, 2013


قرآن وحدیث کی روشنی میں 
مسلمان اپنا جائزہ لیں 

مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری


برادرانِ ملت! اسلام کے بارے میں ہمارا جو یہ تصور ہے کہ یہ چند دعاؤں یا چند عبادتوں کا نام ہے یااس کا تعلق لباس وپوشاک سے ہے تو ایسی بات نہیں ہے ،جو اسلام کو صرف اتنا ہی سمجھتے ہیں وہ اس زندگی میں کوئی انقلاب نہیں لاسکتے اور نہ وہ ماحول پر اثر ہوسکتے ہیں ،اسلام تو ایک ایک پورے ماحول ومعاشرے کو تبدیل کرنے کا نام ہے ،ذہن ودماغ میں انقلاب واصلاح کا نام ہے ،آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ جب اسلام اس دنیا میں آیا تو زمانہ جاہلیت کے بے حساب رسم ورواج تھے ۔طرح طرح کے رسم ورواج اور اہام وخرافات میں وہ لوگ گھرے ہوئے تھے ،زندگی ان لوگوں کے لیے وبال اور مصیبت تھی اسلام نے جو انھیں تعلیم دی قرآن ان کے بارے میں کہتا ہے ’’ویضع عنہم اصرھم والأغلال التی کانت علیہم ‘‘کہ وہ مختلف زنجروں میں جکڑے ہوئے تھے ،ان کی گردن پر رسم ورواج کا بہت بوجھ تھا تو اسلام اسے ہٹانے کے لیے آیا آج ہمیں اپنے اسلام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔اور جب جائزہ لیں گے تو معلوم ہوگا کہ جو زمانۂ جاہلیت میں ان کا عقیدہ تھا آج ہمارا عقیدہ ان سے مختلف نہیں ہے ،بلکہ ہم نے انہیں چیزوں کو چن چن کرلیا ہے ،اسلام نے کن چیزوں کو مٹایا یہ ہم نے دیکھا بلکہ ہم نے دیکھا کہ اسلام آنے سے پہلے انسان کن عقائد ،کن خیالات اور کن معتقدات کا پابند تھا یہ کہ اس ملک کے اندر جو صحیح اسلام آیا اس کو ہم نے قبول نہیں کیا۔
سچی بات یہ ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات سے ایسای متاثر نہیں ہوئے جیساکہ ہم اس ملک کے ماحول سے متأثر ہوئے،ہمارے اس ملک میں جو کچھ ہوتا ہے ہم اسی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں مثلاً ہمارے ملک کے لوگ اگر ہر مہینہ ایک عید کرتے ہیں تو ہم نے بھی ضروری سمجھا کہ ماہانہ ایک عید منانی چاہئے، اسلام کہتا ہے کہ جاہلیت میں بھی اس قسم کی عیدیں تھیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صرد دو عیدیں ہیں جن میں خوشی منانے کا تمہیں حق پہنچتا ہے ۔اس تعلیم سے متأثر ہونے کے بجائے ہم اس ملک کے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ہر ماہ کتنی عیدیں مناتے ہیں اس کے مطابق ہم بھی چاہتے کہ محرم کی کوئی عید ہو صفر کی کوئی عید ہو، ربیع الاول کو کوئی عید ہو اور اسی طرح ہر مہینہ کوئی نہ کوئی عید ہوتی رہے ۔
گرض زمانہ جاہلیت کے لوگ کسی ایک مہینہ کو منحوس سمجھتے تھے اور اس ملک کا غیر مسلم بھی کسی ایک مہینہ کو منحوس سمجھتا تھا تو ہم بھی ضروری سمجھا کہ کسی ایک مہینے کو منحوس سمجھیں ۔اگر اس ملک کا باشندہ جو تعلیم سے بے بہرہ اور عقل ودانش سے دورہے اگر وہ کسی دن کو منحوس سمجھتا ہے تو ہم چاہتے ہیں کہ اس کے مقابلے میں ہم بھی کسی ایک دن کو منحوس سمجھیں ،سوچیے کہاں ہیں ہم اور کہاں ہے اسلامی تعلیم جب تک ہمارے ذہن ودماغ اس قسم کے اوہام وخرافات سے پاک نہیں ہوں گے اس وقت تک اسلام جن برکتوں کا وعدہ کرتا ہے اور جن رحمتوں کی یقین دہانی کراتا ہے کہ اپنے ماننے والے کو یہ عطا کرے گا ،اور اس اس طرح سے نوازے گا،تو یہ چیزیں ہمیں صرف چند عبادتوں کے اپنانے سے حاصل نہیں ہوسکتیں ۔
اپنے ذہن ودماغ سے ان تمام لعنتوں اور خرافات کو دور کرنا ہوگا جو ہمارے دماغوں میں بسے ہوئے ہیں ،مثلاً ماہ محرم کو ماتم کا مہینہ کہا جاتا ہے اور وہ ماہ صفر کو مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت منحوس سمجھتی ہے ۔آپ اندازہ لگائیے کہ وہ قوم کیسے ترقی کرسکتی ہے کہ جس کے سال کا پہلا مہینہ ماتم سے شروع ہوتا ہے ۔لوگ کہتے ہیں یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور اپنے آپ کو بہت مہذب بتاتے ہیں لیکن اپنی حرکتوں میں شیطانوں سے بدترہیں ،غرض ماتم کے ساتھ ہمارا سال شروع ہوتا ہے ،ہمارے اندر نہ کوئی حوصلہ ہے نہ کوئی استقلال، نہ کوئی امنگ ہے نہ لگن، بس ماتم ہی ماتم ہے ،اور اس کے بعد دوسرا مہینہ آتا ہے تو ہم نفرت کے ساتھ اس کا استقبال کرتے ہیں کیونکہ ہمارے عقیدے کے مطابق اس کے تیزہ دن بہت ہی منحوس ہوتے ہیں ان میں خیر وبرکت کا کوئی کام نہیں کرنا چاہئے ،حالانکہ یہ عقیدہ تو جاہلیت کے اندر تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ اس قسم کا عقیدہ غلط ہے تو انہوں نے توبہ کی تھی ار یہ بات ان کے ذہن ودماغ سے نکل گئی تھی ،آج ہمارے سامنے دو باتیں ہیں ایک تو یہ کہ جاہلیت کی طرح صفر کے مہینے کو منحوس سمجھا جائے اور دوسری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ،آپ نے فرمایا کہ ’’ لاھامۃ ولا عدویٰ ولا صفر ‘‘ لیکن افسوس کہ ہم زمانہ جاہلیت کے رسم ورواج کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر ترجیح دیتے ہیں اور پھر زمانۂ جاہلیت کا انسان بغیر کسی دلیل اور بغیر کسی حجت کے صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتا تھا تو آج ہم عقلی اور بے بنیاد دلائل پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسی مہینے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مرض کا حملہ ہوا تھا ،لہذا یہ مہینہ منحوس ہے حالانکہ ایسی باتوں کا دین وایمان سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
اگر آپ تحقیق کی نگاہوں سے دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ صفر کے ابتدائی دنوں میں آپ پر مرض کا حملہ نہیں ہوا تھا اور حدیث وتاریخ کی تمام معتبر کتابوں میں یہی ہے بلکہ حقیقت یوں ہے کہ صفر کے آخری دنوں میں آپ پر بیماری کا حملہ ہواتھا لیکن ہمارے یہاں جو سرسری علم ہے وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری چہارشنبہ کو صحت یاب ہوئے تھے اس لیے ہمارے یہاں کے لوگ اس دن گھروں سے باہر نکلنے کو بہت متبرک سمجھتے ہیں ۔
اس مہینے کو منحوس سمجھتے ہوئے کوئی مسلمان شادی بیاہ کرنا نہیں چاہتا ،اس میں کوئی کاروبار شروع کرنا نہیں چاہتا تو کیا یہ دنیا اور سارے کام انسان کے خیالات کے تابع ہیں، کتنے کام ہیں کہ انسان نہیں چاہتا لیکن وہ ہوتے ہی رہتے ہیں ،آپ واقعی اگر ان تیزہ دنوں کو منحوس سمجھتے ہیں تو انھیں دونوں میں کوئی اولاد پیدا ہو تو کیا اس کی پرچھائیں کو منحوس سمجھیں گے ؟ ان تیرہ دنوں میں کتنے مریضوں کو صحت ملے گی، کتنے لوگوں کو ترقی کا پروانہ ملے گا ،انسان اپنی آنکھیں کھلی رکھے کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اللہ کے حکم سے ہورہا ہے ، انسان کو جو نفع ونقصان ،صحت وبیماری ،عزت وذلت جو کچھ بھی ملتی ہے وہ سب اللہ کے حکم سے ہے اور وہ بہت پہلے لکھا جاچکا ہے ۔
مسلمان اپنے اسلام پر ناز کرتا ہے اور جہاں کہیں اسلام کے خلاف بات سنتا ہے تو جان ہتھیلی پر رکھ کر نکل پڑتا ہے یہ سب قابل قدر ہے لیکن اسے سب سے پہلے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہئے ۔ اسلام وہی ہے جو قرآن میں ہے اور سنت سے چابت ہے اس کی ہر بات روز روشن کی طرح عیاں ہے ،آپ نے فرمایا کہ ’’لیلھا کنھارھا‘‘ یہ بات اندھیرے کی نہیں ہے اس میں کوئی خفیہ اور پیچیدہ بات نہیں ہے بلکہ ہر بات سمجھ میں آنیوالی ہے اس کی پوری تعلیمات کو سمجھ کر اس کے مطابق زندگی بسر کرنی چاہئے ہمیں اپنے پڑوسیوں اور ماحول کے باشندوں کے ساتھ مقابلہ نہیں کرنا چاہئے کہ ان کے کتنے معبود ہیں ان کی عبادتوں کے کیا کیا طریقے ہیں،وہ کن کن چوکھٹوں پر اپنی پیشانی رگڑتے ہیں ،ان کے کیا کیا تماشے ہیں اور اگر یہ اپنی عیدمیں آتش بازی کرتے ہیں تو ہم بھی شب براء ت میں ضرور آتش بازی کریں۔ ان ہی سب غلط باتوں کی وجہ سے ہم اسلام سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔
اللہ نے اپنی جن نعمتوں کو اپنے ماننے والوں پر ظاہر کیا وہ فقیر تھے کنگال تھے مفلش تھے اور کسی چیز کے مالک نہیں تھے لیکن جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو اللہ نے انہیں تخت وتاج کا وارث بنادیا اور سربلند وباعزت بنادیا اور ہر چیز کا انھیں مالک بنادیا وہی اسلام ہمارے پاس بھی ہے لیکن افسوس کہ ہم پورے اسلام پر عمل کرنے کے بجائے صرف اسلام کی چند چیزیں جو ہمیں پسند آتی ہیں انھیں پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور اسلام کو اس کے اصل سے حاصل کرنے ے بجائے اپنے آباء واجداد کے رسوم ورواج کو اسلام سمجھ لیا حالانکہ اسلام ان تمام رسوم ورواج سے بری ہے ۔
دوستو! اسلام نے جو وعدہ کیا ہے اور اللہ نے جو وعدہ کیا ہے ہمیں اس کا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس دنیا میں سب سے بلند رکھنا چاہتا ہے جیساکہ فرمایا ہے ’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس ‘‘ اس کے لیے ہمیں ضروری ہے کہ اپنی کمزوریوں کی اصلاح کریں اور سب سے پہلے ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں کہ ہماری زندگیوں میں کیا کیا برائیاں ہیں انھیں ختم کریں اور پھر معاشرے سے ان کا خاتمہ کریں ،اگر ایسا ہوسکا تو آج مسلمان کے لیے وہی سربلندی انتظار کرتی ہے جو کبھی مسلمانوں کا نصیب اور ان کا مقدر تھا، اگر ہم نے صحیح اسلام کو نہیں اپنایا اور اپنے ذہن سے گھر سے ماحول اور معاشرے سے ان اوہام وخرافات کا خاتمہ نہیں کیا تو کبھی بھی ہم اللہ کی رحمت کے مستحق نہیں ہوسکتے اس ملک میں عزت وشرف کے ساتھ نہیں جی سکتے اور دنیا کے امام وقائد بن سکتے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان تمام اوہام وخرافات سے محفوظ رہنے اور اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا کرے ، آمین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment