Showing posts with label انعامی باؤنڈز. Show all posts
Showing posts with label انعامی باؤنڈز. Show all posts

Friday, March 22, 2013

انعامی باؤنڈز


انعامی باؤنڈز
سوال۳؂:(ایضاً)
ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں نے کئی سال سے’’قومی انعامی باؤنڈ‘‘کے نام سے ایک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ اس وقت صرف پاکستان اسکیم کے بارے میں معلومات کرتی ہے۔
شاید آپ کو بھی معلوم ہو ‘حکومت نے یہ طریقہ کیا ہے کہ نوٹ سے مشابہ پاؤنڈ ز تیار کرائے ہیں جن پر ان کی متعینہ قیمت درج ہوتیہے اس طرح یہ پاؤند ز اسی مقررہ قیمت کے کرنسی نوٹ کے مساوی ہوتے ہیں جو ان پر درج ہے ۔ جو شخص یہ بونڈ خریڈ تا ہے وہ اس کا مجاز رکھتا ہے کہ روپئے کی ضروت پڑنے پر وہ جب بھی جہاں سے چاہے اسے کیش کراسکتا ہے ۔ زرِ مبادلہ میں اسے اتنے ہی روپئے مل جائیں گے جتنے کا اس نے یہ خریدا تھا ۔حکومت کی مقرر کردہ معیادوں پر سال میں چ ار مرتبہ تمام فروخت شدہ بونڈوں کی قرعہ اندازی ہوتی ہے اور تعداد مقررہ کے مطابق قرعہ اندازی مین نکلنے والے بونڈوں کے نمبروں کے بوند جس کے پاس بھی ہوں وہ اسے دکھا کر اپنا ناعام وصول کرسکتا ہے ۔ ایک بار انعام نہ نکلنے کے بعدیہ بونڈ بے کار نہیں ہوتے بلکہ بعد کی قرعہ اندازی میں بھی شریکہوتے ہیں اور اگر انعام پانے والا شخص چاہے تو ایک یا دو بار انعام حاصل کرنے کے باوجود بغیر کسی سودی لین دین کے انھین کسی بینک میں یا نجی طور پر فروخت کر کے اپنی اصل قیمتِ خرید وصول کرلے۔مختصر یہ کہ کوئی شخص خواہ انعام حاصل کرے یا نہ کرے اس کی اصل رقم بہر حال محفوظ رہتی ہے اور وہ جب بھی چاہے ایک پیسہ بھی سود کاٹے یا دیتے بغیر اسے وصول کرسکتا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوت ہے کہ ان بونڈوں کی خرید و فروخت جائز ہے یا ناجائز ۔ اگر ناجائز ہے تو اس کی کیا وجہ ہے؟ 
الجواب:۔اس پر پہلے بھی تجلی مین اظہار کیال کیا جاچکا ہے ، لیکن اب تک کسی ایسے سبب کا علم نہیں ہوا جس کی بنیاد پر ان باؤنڈوں کی خرید وفروخت کو حرام قرار دیا جائے ۔ اس معاملے کی جو ہری مشابہت نہ سود سے ہے نہ قمار س نہ بیع فاسد کا کوئی ایسا عنصر اس میں پایا جاہے جس کی تاویل نہ ہوسکے ۔ لہٰذا سبب حرمت سے آگاہ ہوئے بغیر تو ہم اسے جائز ہی کہیں گے ۔ سنا ہے کہ بعض حضرات جواز کے قائل نہیں ۔ معلوم نہیں ان کے دلائل کی ہیں۔
فال اور استخارہ 
سوال :۔ (ایضاً)
شریعت میں استخارہ کے کیا کیاحیثیت ہے کیا ہر شخص استخارہ کرنے کا مجاز ہے ؟ استخارہ کس طرح کرنا چاہئے اور کس قسم کے معاملات ہیں ؟بعض لوگ ہرمعاملہ میں استخارہ کرانے قائل ہوتے ہیں اور خاص طورپر شادی بیاہ کے معاملات میں خواہ شادی کرنے والے راضی ہوں لیکن وہ لوگ بغیر استخارہ کرائے بات کرنے پر راضی نہیں ہوتے اور بعد میں کہہ دیتے ہیں کہ استخارہ بہت خراب آیا ہے وغیرہ ۔ کیا اس طرح ہر بات پر چاہے جس سے استخارہ کرالینا درست ہے؟
الجواب:۔ہمیں اس بات میا8 صرف اتنا معلوم ہے کہ قرآن وغیرہ سے فال نکالنا بے بنیاد ہے اور بعض حالتوں میں اس کی حرمت کا قول کیا جائیگا۔رہا استخارہ تو ایسے امور میں جن کا کرنا نہ کرنا شرعاً میاج ہو اس کا جواز ہے ۔ گوکہ اس سے حاصل شدہ فیصلیکی حیثیت تکمین وظن سے زیادہ نہیں ۔ترکیب کا ہمیں علم نہیں کسی اور صاحبِ علم سے دریافت کی جائے۔