جامعہ دارالسلام کا ادبی منظر نامہ


جامعہ دارالسلام کا ادبی منظر نامہ


        جامعہ دارالسلام عمرآباد کا ایک ایسا ادارہ ہے  جہاں  قال اللہ قال الرسول کی تعلیم دی جاتی ہے۔ مذہبی منافرت اور تعصب سے  بالاتر ہو کر یہ ادارہ ان تمام تشنگان علم کو اپنے  دامن میں  پناہ دیتا ہے  جو حصول علم کی خاطر اس کی طرف لپکتے  ہیں۔ آٹھ سال کی طویل مدت گزارنے  کے  بعد ان کو عمری کا زریں  لقب عنایت کر کے  دنیا سے  اختلافات مٹا کر امن و امان کو پروان چڑھانے  کے  لئے  بھیج دیتا ہے۔
        ۱۹۲۴ء میں  جامعہ دارالسلام کی بنیاد رکھی گئی، اس کے  بانی کاکا عمر تھے۔ جو اپنے  آپ میں  ایک جہان تھے، انہوں  نے  جامعہ دارالسلام کی نشو و نما میں  بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔ ان کے  خلوص کی ہی بدولت جامعہ دارالسلام کا نام ساری دنیا میں  عزت و احترام سے  لیا جاتا ہے۔ اس کے  فارغین کو مدینہ منورہ میں  تعلیم کے  مواقع خاص طور سے  میسر آتے  ہیں۔
        جامعہ دارالسلام کسی خاص مسلک یعنی حنفی مسلک، مسلک بریلویت، شیعہ مسلک، یا کسی اور مسلک کا داعی و حامی نہیں  ہے۔ جامعہ دارالسلام صرف اور صرف قرآن وسنت کی تعلیم دیتا ہے۔ ہر مسلک کے  ماننے  والے  جامعہ دارالسلام کو اپنا ادارہ سمجھ کر آتے  ہیں۔ قرآن و حدیث کے  تر و تازہ سرچشموں  سے  فیض یاب ہوتے  ہیں۔ ان کے  مسلکی تعصب اور منافرت میں  کمی آتی ہے۔ اور وہ ساری امت کے  لئے  اتحاد کا پیغام لے  کر جامعہ سے  سند فراغت حاصل کرتے  ہیں۔
        جامعہ کے  اساتذہ سے  طلبہ نہ خوف کھاتے  ہیں ، نہ گھبراتے  ہیں، نہ دور بھاگتے  ہیں۔ بلکہ ان کو اپنا سچا ہمدرد و خیرخواہ سمجھتے  ہیں۔ ان سے  اپنے  مسائل کا ذکر کرتے  ہیں۔ کوئی سبق اگر دوران درس سمجھ میں  نہیں  آتا تو متعلقہ استاذ سے  درس کے  بعد دوسرے  اوقات میں  استفسار کرتے  ہیں۔ اپنی علمی تشنگی بجھاتے  ہیں۔ اگر درس کے  علاوہ دیگر اوقات میں  آپ جامعہ دارالسلام کی زیارت کریں  اور اساتذہ کو تلاش کرنا چاہیں  تو یہ کام آپ کے  لئے  مشکل ہو گا۔ کیونکہ طلبہ اور اساتذہ ایسے  گھل مل کر رہتے  ہیں  اس طرح آپس میں  گفتگو کرتے  ہیں  کہ احساس ہی نہیں  ہوتا کہ ان میں  استاذ کون ہے  اور شاگرد کون؟۔
        اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں  کہ طلبہ کے  دلوں  میں  اساتذہ کا احترام نہیں  ہے  بلکہ اساتذہ کا احترام جامعہ دارالسلام کے  طلبہ کچھ زیادہ ہی کرتے  ہیں۔ بچوں  کو تقریر کی تیاری کرنے  کا مسئلہ ہو یا مضمون نویسی کا، مقالہ نگاری کا مسئلہ ہو یا مطالعے  کا، اساتذہ ہمیشہ طلبہ کا تعاون کرتے  ہیں۔ ان کی رہنمائی کرتے  ہیں۔ مراجع کی نشاندہی کرتے  ہیں، مضمون نویسی کا انداز سکھاتے  ہیں، تقریر کرنے  کا ڈھنگ صحیح طریقے  سے  سکھانے  کی پوری کوشش اور محنت کرتے  ہیں۔ اساتذہ اور طلبہ کا آپسی تعلق جیسے  جامعہ دارالسلام میں  ہے  کسی اور ادارے  میں  شاید ہی ملے۔
        جامعہ دارالسلام کے  طلبہ دین کے  ساتھ ساتھ ادب سے  بھی گہری وابستگی رکھتے  ہیں۔ ابتداء میں  جامعہ کے  اساتذہ اور طلبہ میں  شاعری کا رجحان کثرت سے  پایا جاتا تھا۔ طلبہ میں  ۷۵ فیصد طلبہ شاعر ہوا کرتے  تھے۔ ماہانہ مشاعرے  منعقد ہوا کرتے  تھے۔ اور بڑی کامیابی کے  ساتھ اختتام پذیر ہوا کرتے  تھے۔  آج بھی جامعہ دارالسلام میں  سالانہ مشاعرے  مولانا ابو البیان حمادؔ  عمری کی رہنمائی میں  بڑے  تزک و احتشام کے  ساتھ منعقد ہوتے  ہیں۔ طلبہ کی دلچسپی کا یہ عالم کہ اکثر مشاعرے  فجر کی نماز کے  ساتھ ختم ہوتے  ہیں۔ اور طلبہ فجر کی نماز پڑھنے  کے  بعد بستر کی صورت دیکھتے  ہیں۔
        جامعہ کے  اہل قلم کی بات کرتے  ہیں  تو سب سے  پہلے  علامہ شا کر نائطی کا نام افق پر چمکنے  لگتا ہے۔ آپ جامعہ کے  پہلے  شیخ الادب تھے۔ اردو، عربی زبانوں  پر کامل عبور رکھتے  تھے۔ شاعری ایسی کی کہ جنوب کے  غالب کہلائے۔ مصحف نامی علمی ادبی جریدے  کا اجراء کیا۔ اچھے  اچھے  اہل قلم کو چونکا دیا کہ تمل ناڈو کی سرزمین باوجود سخت اور پتھریلی ہونے  کے  اپنے  اندر کتنے  ہیرے  جواہرات رکھتی ہے۔ آپ نے  صحابۂ کرام کی شاعری کا ایک مجموعہ ’’ الانابۃ الیٰ شعر الصحابۃ‘‘ ترتیب دیا۔ جو آج بھی جامعہ کے  نصاب میں  شامل ہے۔ زبان کا سلیقہ اگر کوئی سیکھنا چاہتا ہے  تو علامہ شا کر نائطی سے  سیکھے۔ حال ہی میں  آپ کے  فرزند سالک نائطی نے  آپ کا دیوان ’’ دیوانِ شا کر‘‘ کے  نام سے  شائع کر کے  اصحاب ذوق پر احسان کیا ہے۔ علامہ کے  چند شعر   ؂
الفت میں  بگڑ کر بھی اک وضع نکالی ہے
دیوانے  کی سج دھج ہی دنیا سے  نرالی ہے
ڈالی ہے  دو عالم پر مٹی ابھی ڈالی ہے
اب کچھ بھی نہیں  ہم میں  یا ہمت عالی ہے
ملتی ہے  بڑی راحت اب خاک نشینی میں
میں  نے  تو طبیعت ہی مٹی کی بنا لی ہے
اس گھر میں  بہت کم ہے  اب آمدورفت اس کی
دنیا کی طرف ہم نے  دیوار اٹھا لی ہے
حاصل ہے  کرم اس کو اک مرشدِ کامل کا
شا کرؔ  کی دعا لے  لو شا کرؔ  نے  دعا لی ہے
        آپ کے  فرزند خالد شا کر نائطی نے  ۱۹۶۲ء میں  جامعہ سے  فراغت حاصل کی۔ مدینہ المنورہ میں  تعلیم حاصل کی۔ جامعہ محمدیہ رائیدرگ کے  مدرس رہے۔ کاظم نائطی نے  ’’ لہجہ تراش‘‘ لکھ کر اپنا لوہا منوایا۔ طالب نائطی نے  غزلوں  اور مزاحیہ مضامین کے  ذریعہ اہل ادب سے  داد وصول کی۔ طالب نائطی کی غزلیں  اپنے  سلیقے  کے  لئے  مشہور ہیں۔    ؂
پہلے  بیداری میں  اک منظر کھلا
خواب میں  سارا پسِ منظر کھلا
دشت بھی خود رہ گیا حیرت زدہ
بند عرصے  سے  مرا جو گھر کھلا
کھل گئی تیری ادھوری شخصیت
جب ترے  اخلاق کا جوہر کھلا
دل کے  سارے  زخم آخر کھل گئے
چوٹ کھا کر جو کسی کا سر کھلا
        اللہ بخش نوری عمری (۱۹۲۲ء۔۔۔ -۱۹۸۵ء) جامعہ دارالسلام میں  ایک عرسے  تک وارڈن کی خدمت انجام دیتے  رہے۔ دو تین دیوان اشاعت کے  لئے  تیار ہیں۔ مگر ان کے  فرزندوں  میں  سے  کسی نے  بھی ان کا کلام شائع کرنے  کی طرف توجہ نہیں  دی۔ نظم کے  بڑے  خوبصورت شاعر تھے۔ کئی کامیاب نظمیں  اردو ادب کو دے  چکے  ہیں۔ آپ کی ایک غزل کے  چند شعر اس طرح ہیں۔        ؂
پردہ جو پڑ گیا ہے  زمانے  کی عقل پر
بے  پردگی کو آج حیا کہہ رہے  ہیں  لوگ
کانٹے  رہ حیات میں  ہیں  خیمہ زن مگر
کس سادگی سے  گل کی صدا کہہ رہے  ہیں  لوگ
        اسماعیل رفیعی عمری انگریزی اور اردو دونوں  زبانوں  سے  اچھی خاصی واقفیت رکھتے  تھے۔ آپ وہ پہلے  شاعر ہیں  جنہوں  نے  تمل زبان کے  شاہکار ’’ ترولّور‘‘ کا پہلی مرتبہ اردو والوں  کے  سامنے  تعارف پیش کیا۔ ایک زمانے  میں آپ شب خون اور نگار میں  نظمیں  اور مضامین لکھا کرتے  تھے۔
        ڈاکٹر رونق اعظمی نے  جامعہ دارالسلام سے  فراغت کے  بعد طبیہ کالج کرنول سے  B.U.MS کا امتحان پاس کیا۔ مدراس میں  یونانی کالج کے  پروفیسر مقرر ہوئے۔ وظیفہ یاب ہونے  کے  بعد بوند ملی نامی مقام میں  مطب کرتے  ہوئے  خالق حقیقی سے  جا ملے۔ آپ کی ایک غزل اس طرح ہے۔    ؂
کل شب نہ آنکھ لگ سکی پل بھر تمام رات
سوتا رہا ہمارا مقدر تمام رات
تھا آسماں  پہ چاند منور تمام رات
ظلمت کدہ تھا پھر بھی مرا گھر تمام رات
تاروں  کے  ساتھ آنکھ مچولی میں  شب کٹی
تنہا پڑا رہا مرا بستر تمام رات
خوشبو ترے  بدن کی فضاء میں  بسی رہی
ماحول کس قدر تھا معطر تمام رات
حیران ہوں  کہ شیشۂ دل پھر بھی بچ گیا
پھینکے  گئے  تھے  ظلم کے  پتھر تمام رات
        حفیظ الرحمن اعظمی عمری نہایت منکسر المزاج انسان ہیں۔ اپنی علمی ادبی قابلیت کا ڈھنڈورا پیٹنا ان کو پسند نہیں  ہے۔ عربی اور اردو زبانوں  سے  واقفیت رکھتے  ہیں۔ مولانا آزاد کے  خاص معتقد ہیں۔ غلام رسول مہرؔ  سے  ان کی کافی عرصے  تک خط و کتابت ہوتی رہی۔ طالب علمی کے  زمانے  سے  ہی کئی مشاہیرِ ادب جیسے  نیاز فتح پوری، عبد الماجد دریاآبادی وغیرہ سے  علمی ادبی مسائل پر مراسلہ نگاری کرتے  رہے۔ مشہور زمانہ اخبار ’’مدینہ‘‘ بجنور میں  آپ کے  مضامین شائع ہوتے  رہے۔ چند دن ’’دعوت‘‘ میں  بھی کام کیا۔ ماہنامہ ’’ راہ اعتدال‘‘ میں  مستقل مضامین لکھتے  ہیں۔  راہ اعتدال میں  لکھے  گئے  وہ مضامین جو مدینہ المنورہ میں  بیتے  دنوں  کی یادوں  پر مبنی ہیں  اہل ذوق کے  لئے  خاصے  کی چیز ہیں۔ آپ شاعری بھی کرتے  ہیں  مگر مستقل نہیں  کبھی کبھی۔                 ؂
چاہت کا جن کی بھرتے  تھے  ہم دم کبھی کبھی
ملتا ہے  ان کی یاد سے  مرہم کبھی کبھی
ترک تعلقات کا طعنہ نہ دے  کوئی
ملتے  رہیں  تو اچھا ہے  کم کم کبھی کبھی
بدنامیِ حیات سے  ممکن نہیں  فرار
کانٹوں  میں  کھینچی جاتی ہے  مریم کبھی کبھی
آتش میں  جانے  عشق کی جادو ہے  کیا حفیظؔ
شعلے  بھی بن ہی جاتے  ہیں  شبنم کبھی کبھی
        مولانا حفیظ الرحمن اعظمی تقریر و تحریر کی یکساں  صلاحیت رکھتے  ہیں۔ جو بولتے  ہیں  وہ لکھتے  ہیں  اور جو لکھتے  ہیں  وہ بولتے  ہیں۔ بولتے  ہیں  تو ایسا لگتا ہے  کہ پھول جھڑ رہے  ہیں، موتی برس رہے  ہیں، ایسی فصیح و بلیغ زبان استعمال کرتے  ہیں۔ اس سلیقے  سے  تقریر کرتے  ہیں  کہ سننے  والے  ششدر رہ جاتے  ہیں۔
         آپ کے  بھائی حبیب الرحمن زاہدؔ  اعظمی جامعہ دارالسلام کے  ترجمان ’’ راہِ اعتدال‘‘ کے  مدیر ہیں۔ ہزاروں  مضامین ادبی، علمی، اور مذہبی لکھ چکے  ہیں۔ مگر ان میں  تکبر نام کو نہیں۔ اپنے  چھوٹوں  سے  اس انداز سے  ملتے  ہیں  کہ ملاقاتی کا خواہ مخواہ جی چاہتا ہے  کہ وہ اپنے  آپ کو بڑا سمجھے۔ نہایت منکسر المزاج انسان ہیں۔ نہایت ذہین ہیں۔ اپنے  حافظے  میں  لاکھوں  خوبصورت اور نہایت معیاری اشعار کا ذخیرہ رکھتے  ہیں۔ آپ اگر ان سے  ملاقات کریں  گے  اور کسی موضوع پر گفتگو کرنا چاہیں  گے  تو وہ متعلقہ موضوع کے  بارے  میں  ایسی معلومات پیش کریں  گے  کہ آپ حیران رہ جائیں  گے۔ موضوع خواہ ادب ہو یا مذہب  ہو، سیاست ہو، سیر و تفریح ہو یا جغرافیہ، ہر موضوع پر آپ کا اتنا گہرا اور وسیع مطالعہ ہے  کہ اچھے  سے  اچھا مطالعہ کرنے  والا اپنے  آپ کو تہی داماں  محسوس کرے  گا۔ شاعری میں  آپ نے  اپنے  ذوق کو استاذ بنایا ہے۔ تقریباً تمام اساتذہ کے  دواوین کا تحقیق کے  ساتھ مطالعہ کر چکے  ہیں۔ غزل کہتے  ہیں  تو ایسی پھڑک دار کہ طبیعت بے  اختیار نہال ہو جائے۔ ان کی شاعری کا محور غم ہے۔ خواہ غم ذات کا ہو یا کائنات کا۔ آپ کی شاعری کے  پیش نظر اگر آپ کو اسیر غم کہا جائے  تو بے  جا نہ ہو گا۔ غم کے  تعلق سے  فرماتے  ہیں۔     ؂
زندگی میں  خوشی کی نہ کر جستجو
جستجو تیری ناکام ہو جائے  گی
غم کی دولت نہیں  جب کہ سب کے  لئے
پھر مسرت ہی کیوں  عام ہو جائے  گی
        آپ کے  چند وہ شعر پیش کرنا چا ہوں  گا جو مجھے  پسند ہیں۔
اک داغ ہے  دل پر جو مٹایا نہیں  جاتا
اس بھولنے  والے  کو بھلایا نہیں  جاتا
یا چین ہمارے  ہی مقدر میں  نہیں  ہے
یا چین زمانے  ہی میں  پایا نہیں  جاتا
مرے  رب تو رب عظیم ہے  تری شان شان کریم ہے
ترا لطف سب پہ ہے  بیکراں  ترا فیض فیض عمیم ہے
ترا بندہ زاہدؔ  بے  نوا ہے  سراپا معصیت و خطاء
اسے  بخش دے  تو مرے  خدا تو رؤف ہے  تو رحیم ہے
        آپ کی شاعری کا لطف لینے  کے  لئے  ایک مکمل غزل کا مطالعہ ضروری ہے۔
نہیں  قرار جہاں  میں  کسی بھی تن کے  لیے
نہ سیم تن کے  لیے  ہے  نہ گل بدن کے  لیے
ہر ایک خار بھی اپنی جگہ بہت کچھ ہے
چمن کا پھول ہی سب کچھ نہیں  چمن کے  لیے
وہیں  سے  آج بجھے  دل کے  ساتھ اٹھے  ہیں
کیا تھا دل کو فروزاں  جس انجمن کے  لیے
گلِ چمن کہیں  بارِ چمن نہ بن جائے
وطن کو چھوڑ کے  آیا ہوں  وطن کے  لیے
سمجھ سکو تو یہ کتنی بڑی تسلی ہے
خیال کنج لحد ایک بے  وطن کے  لیے
کسی کی قبر پہ چڑھتی رہی ردائے  گل
کسی کی لاش ترستی رہی کفن کے  لیے
رلاتی ہے  مجھے  گل کی یہ بے  بسی زاہدؔ
چمن میں  کھل کے  بھی کھلتا نہیں  چمن کے  لیے
        مولانا ابوالبیان حمادؔ  عمری جامعہ دارالسلام کے  استاذ شاعر ہیں۔ نہ صرف شاعر ہیں  بلکہ شاعر گر ہیں۔ دینی مضامین کو ادب کی چاشنی کے  ساتھ پر لطف بنانے  میں  آپ کو کمال حاصل ہے۔ تاریخی مضامین بھی لکھتے  ہیں۔ آج کل ’’راہِ اعتدال‘‘ کے  سرپرست ہیں۔ آپ کی یہ کتابیں  شائع ہو چکی ہیں، ’’ بھارت کی تاریخ کا ایک گمشدہ ورق‘‘، ’’ تازیانے ‘‘ (حافظ ابن حجرؒ عسقلانی کی کتاب ’المنبہات‘ کا سب سے  خوبصورت اور دلکش ترجمہ)، ’’ نغماتِ حمد و نعت‘‘۔ راہِ اعتدال (عمرآباد)، غزل (بنگلور)، سالار(بنگلور)، پیش رفت (دہلی)، میں  آپ کی شعری تخلیقات نمایاں  طور پر شائع ہوتی ہیں۔
کیا ملا ہے  سعیٔ آزادی کا حاصل دیکھیے
دست قاتل دیکھیے  پھر رقصِ بسمل دیکھیے
عمر گزری جستجوئے  منزلِ مقصود میں
اور کتنی دور ہو گی اپنی منزل دیکھیے
ہم تڑپ سکتے  ہیں پر خاموش رہ سکتے  نہیں
پیش آئی ہائے  کیسی سخت مشکل دیکھیے
خون کے  دریا بھی ہیں  اور آتشِ نمرود بھی
راہ حق میں  آئیں  گے  کتنے  مراحل دیکھیے
میرے  دل میں  کھل گئے  ہیں  کس قدر زخموں  کے  پھول
دیکھنا ممکن جو ہو تو پھر مرا دل دیکھیے
        عبد الرحمن خاں  تشنہؔ  بڑے  قابل آدمی تھے۔ علامہ شا کر نائطی سے  فیض حاصل کیا تھا۔ آپ کی زبان صاف و شفاف کوثر و تسنیم سے  دھلی ہوئی تھی۔
اب اپنی زندگی کا بھی سامان کریں  گے  ہم
باطل کی قوتوں  کو پریشاں  کریں  گے  ہم
ظالم ترے  ستم کو نہ بھولیں  گے  ہم کبھی
محشر میں  تجھ کو خود بھی پشیماں  کریں  گے  ہم
        مولانا امین احمد امینؔ  دارالسلام کے  ان سپوتوں  میں  شمار کیے  جاتے  ہیں  جو اردو کے  ساتھ ساتھ عربی میں  بھی نہایت معیاری شاعری کرتے  تھے۔ عربی میں  ایک خوبصورت دیوان یادگار چھوڑا ہے۔ نہایت مخلص اور طلبہ کے  ساتھ بڑی اپنائیت کے  ساتھ ملتے۔ ان سے  گفتگو کرتے  اور کبھی کبھی ڈانٹتے  بھی۔ لیکن ان کی ڈانٹ بھی ایسی ہوتی تھی کہ اس پر ہزار شاباشیاں  نثار کی جا سکتی ہیں۔
خدا کا کرم اور نوازش ہے
مری شامِ غم کی سحر ہو گئی
اطاعت کے  لمحے  بہت کم ملے
گنا ہوں  میں  شام اور سحر ہو گئی
ترے  صحن گلشن کی ہر اک گلی
مرے  حق میں  برق و شرر ہو گئی
        پٹیل خلیل اللہ اصغرؔ  ایسے  خوش نصیب عمری  برادر ہیں  کہ جن کو ۱۹۷۴ء سے  ۲۰۰۶ء تک حرمین کی خدمت کا موقعہ ملا۔ آپ کی تصنیف ’’حرمین کی تاریخ‘‘ بھی جلد شائع ہونے  والی ہے۔ حرمین میں  طویل عرصہ گزارنے  کے  بعد بھی شاعری سے  ناطہ نہیں  توڑا بلکہ ادب سے  جڑے  رہے۔ ادب سے  ان کا یہ تعلق یقیناً جامعہ دارالسلام کا فیض ہے۔
مجھے  کچھ خزاں  کا الم نہیں  کسی اور کا کوئی غم نہیں
مری زندگی کی بہار ہی مری زندگی کے  خلاف ہے
مرے  لفظ لفظ کا کام ہے  کہ دلوں  کو مہر و وفا ملے
جو دلوں  پہ چوٹ لگائے  وہ مری شاعری کے  خلاف ہے
وہ احد ہے  اور اکیلا ہے  کوئی اس کے  جیسا ہوا نہیں
مرے  رب کی ذات ہمیشہ ہی سے  ہر اک دوئی کے  خلاف ہے
جو طلب ہو اصغرؔ  خوش نوا وہ خدا کی ذات سے  کیجیے
کسی آستاں  پہ جھکے  نہ سر کہ یہی خودی کے  خلاف ہے
        یعقوب اسلم عمری نے  جامعہ سے  فراغت کے  بعد ’’ مدراس یونیورسٹی‘‘ سے  منشی، فاضل اور بی۔ اے  کے  امتحانات پاس کیے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے  ایم۔ اے  کیا۔ عمری برادران میں  آپ کا نام زیادہ اخبارات ورسائل کی زینت بنتا رہا ہے۔ شاعری کی طرح نثر نگاری کی طرف بھی خصوصی طور پر توجہ کی۔ کئی کتابیں  لکھیں  جن میں  قابلِ ذکر یہ ہیں۔ ۱۔ ایک مفکر، مدرس اور رہنما، ۲۔ عکس در عکس، ۳۔ چہروں  کی دیوار، ۴۔ رسول عربی ﷺ، ۵۔ محاورات اور ضرب الامثال، ۶۔ امر کہانیاں، ۷۔ بزم نو کا ادبی سفر نامہ
        افسانہ نگاری،تحقیق و تنقید، طنز و مزاح اور تبصرہ نگاری سے  خصوصی شغف رکھتے  ہیں۔ ادبی حلقوں  میں  زیادہ فعال اور متحرک تصور کیے  جاتے  ہیں۔ انہوں  نے  غیر اردو دانوں  سے  لے  کر اردو دانوں  تک، بچوں  سے  لے  کر جوانوں  تک سب کے  لیے  لکھا اور معیاری لکھا۔ جامعہ دارالسلام کے  طرحی و غیر طرحی مشاعروں  میں  پابندی کے  ساتھ شرکت کر کے  اپنی ادب دوستی، مادر علمی سے  محبت کا ثبوت پیش کرتے  ہیں۔ حال ہی میں  جامعہ دارالسلام کے  مشاعرے  کی آپ نے  صدارت کی۔ اور ’’ شاعری، مشاعرے  اور سامعین‘‘ کے  عنوان پر نہایت جاندار خطبۂ صدارت پیش کیا۔ جس کا ایک اہم اقتباس ذیل میں  درج کیا جا رہا ہے۔
        ’’ اب رہا یہ سوال کہ تعلیمی اداروں  اور کالجوں  میں  مشاعرے  کیوں  منعقد کیے  جاتے  ہیں ؟ کیا یہ بھی تعلیمی اور درسی ضرورتوں  کا ایک حصہ ہیں ؟ تو اس کے  جواب میں  عرض کروں  گا: ہاں  ! یہ تعلیمی اور درسی ضرورتوں  کا ایک عنصر ہیں۔ عوامی مشاعرات کی بات الگ، لیکن تعلیمی اداروں  کے  مشاعرے  بھی طالب علموں  کی تعلیم و تربیت کا ایک ضروری حصہ ہوتے  ہیں۔ اور ان مشاعروں  کے  ذریعے  مختلف مقامات کے  شاعروں  کو بلا کر طلبہ کو ان کے  پڑھنے، شعر کہنے  اور شعرسنانے  کے  انداز سے  واقف کرایا جاتا ہے۔ ان کے  اندر اگر موزونیِ طبع اور شعر کہنے  کی صلاحیت موجود ہے  تو اسے  ابھارنے  اور اس کی نشو و نما کرنے  کا کام انجام دیا جاتا ہے۔ ‘‘
        آپ کی ایک غزل پیش کرنے  کا جی چاہتا ہے۔
ان کا آنچل جو کبھی سر سے  پھسل جاتا ہے
رنگ اور نور کا دریا سا ابل آتا ہے
جو نگاہوں  سے  گرا اس کا سنبھلنا مشکل
آدمی گرتا ہے  اٹھتا ہے  سنبھل جاتا ہے
عمر بھر کے  لیے  جلنا ہے  مقدر اپنا
وہ ہے  پروانہ جو لمحات میں  جل جاتا ہے
خود غزل وہ ہے  غزل سے  اسے  کیا مطلب
بزم میں  اس کے  لیے  کون غزل گاتا ہے
آپ کے  آنے  کی امید تھی اب تک دل میں
ایک ارمان تھا اب وہ بھی نکل جاتا ہے
جو ہے  معصوم ضمانت بھی نہیں  اس کے  لیے
جو حقیقت میں  ہے  مجرم وہ نکل جاتا ہے
        ان کے  علاوہ جامعہ دارالسلام کے  ابھرتے  ہوئے  شعراء میں  مخلصؔ عمری، حافظؔ  عمری، ثاقبؔ  عمری، ساحلؔ  عمری، ہلالؔ  عمری، نسیم عمری، عفانؔ  عمری، دانشؔ  عمری قابلِ ذکر ہیں۔ حافظؔ  عمری کا پورا نام عبد العظیم عمری ہے۔ جو ہسکوٹہ سے  تعلق رکھتے  ہیں۔ شاعری کی فطری صلاحیت رکھتے  ہیں۔ علامہ البانیؒ کی وفات پر ایک طویل نظم ان کی یاد میں  لکھ کر اپنے  موزوں  طبع ہونے  کا ثبوت دیا۔ صنفِ نازک پر ڈھائے  گئے  مظالم پر ان کی ایک مشہور درد و الم سے  بھر پور نظم ہے  جس کے  چند شعر  ؂
صنف نازک کی پہچاں  مٹا دی گئی
قدر و قیمت ہی اس کی بھلا دی گئی
جوڑے  گھوڑے  کی لعنت ستم ڈھا گئی
مائی حوا کی بیٹی جلائی گئی
شکوہ حافظؔ  کا بے  جا نہیں  دوستو!
جو حقیقت بجا تھی سنا دی گئی
        عنایت اللہ بیگ نسیمؔ  عمری کے  یہاں  اقبالؔ ؒ کا درد بھرا انداز ملتا ہے۔ امت مسلمہ کے  کرب کو انہوں  نے  اپنی اکثر غزلوں  میں  پیش کرنے  کی سعی کی ہے۔ کم غزلیں  کہی ہیں  مگر ان کی ہر غزل بے  اختیار اقبالؔ کی یاد دلاتی ہے۔
        جاوید اختر اعظمی عمری نہایت متواضع انسان ہیں۔ تنقیدی،تحقیقی مضامین، کہانیاں  اور افسانے  لکھتے  ہیں۔ نور، بتول، الحسنات، نوائے  اسلام اور امنگ میں  عام طور پر چھپتے  ہیں۔ دینی مضامین بھی تحریر کرتے  ہیں۔ مؤ سے  تعلق ہونے  کی وجہ سے  دوہے  کہنے  کی طرف رغبت زیادہ ہے۔ عمری برادران میں  شاید آپ واحد شاعر ہیں  جنہوں  نے  ماہیے، ہائیکو کہے  ہیں۔
        راقم الحروف بھی جامعہ دارالسلام کا ادنیٰ سا طالب علم ہے،جو جامعہ دارالسلام کے  قلمی ماہنامے  ’’تنویر‘‘ کا مدیر رہا۔ تذکیرِ نعمت کے  طور پر اس بات کا ذکر کرنا چا ہوں  گا کہ طالب علمی کے  دور میں  ہی راقم کے  مضامین، افسا نے  و کہانیاں  قرطاس(ناگپور)، سفیر اردو(لندن)، صدائے  اردو (بھوپال)، بین الاقوامی صدا(کشمیر)، سالار ویکلی (بنگلور)، عبارت سہ ماہی (جمشید پور)، نور (رامپور)، بتول (رامپور)، الحسنات (رامپور)، اعتماد (حیدرآباد، ادبی ایڈیشن)، اخبار مشرق (کولکاتہ، ادبی ایڈیشن)، آبشار (کولکاتہ ادبی ایڈیشن)، گلشن اطفال (مالیگاؤں )، بزم اطفال (مالیگاؤں )، خیر اندیش (مالیگاؤں )، نونہال (حیدرآباد)، آج اور کل کے  فن کار (گوالیار)، میں  شائع ہوتے  رہے  ہیں۔ اسی دور میں  انور احمد علوی کی مزاحیہ تصنیف ’’جملہ حقوق غیر محفوظ‘‘ میں  پیش لفظ راقم کا لکھا ہوا شامل تھا۔ یہ کتاب دوسری مرتبہ اکادمی بازیافت کراچی (پاکستان)، سے  شائع ہوئی ہے۔ راقم کا رجحان ابتدا میں  غزل کی طرف تھا۔ مگر اب نا چیز بالکلیہ نثر کے  لیے  وقف ہو کر رہ گیا ہے۔
        اس مختصر منظر نامے  کے  مطالعے  سے  یہ نہ سمجھ لیا جائے  کہ جامعہ کے  فارغین میں  نثر نگاروں  کی قلت ہے۔ بلکہ عمری برادران کے  نثر نگاروں میں  اولیت اگر کسی کو دی جا سکتی ہے  تو وہ مولانا ثناء اللہ عمری ہیں۔ جس رسالے  میں  دیکھیے  ان کا نام جگمگا رہا ہے۔ کبھی کسی کا خاکہ لکھ رہے  ہیں، کبھی کسی اہم موضوع پر مضمون لکھ رہے  ہیں، کبھی نومسلم!نومسلمہ کی روداد کا ترجمہ کر رہے  ہیں۔ کبھی رودادِ سفر بیان کر رہے  ہیں۔ الغرض آپ کا قلم بڑی روانی کے  ساتھ کسی نہ کسی تعلق سے  ہر دم رواں  دواں  رہتا ہے۔
        عارف الدین کلیم عمری کے  مضامین راہ اعتدال میں  وقتاً فوقتاً شائع ہوتے  رہتے  ہیں۔ جو زیادہ تر تاریخی اور مذہبی نوعیت کے  ہوتے  ہیں۔ مولانا ضمیر الدین عمری کے  مضامین البلاغ میں  شائع ہو کر قبول عام حاصل کرتے  ہیں۔ جلال الدین عمری کی متعدد تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ عبد الرب ثاقب عمری کی ’’ اسلام کے  معاشرتی مسائل‘‘ مولانا ثناء اللہ عمری کی ’’ مجھے  یاد آنے  والے ‘‘، ’’قرآن اور دعا‘‘، ’’ رشید رضا‘‘، مولوی وصی اللہ بختیاری کی ’’ ڈاکٹر ساغرجیدی کی دوہا نگاری‘‘، ’’ نظر نظر کے  چراغ‘‘، وغیرہ اس بات پر اصرار کرتے  ہیں  کہ جامعہ دارالسلام کی جس طرح شعری خدمات قابل تقلید ہیں، ٹھیک اسی طرح اس کی نثری خدمات بھی درخشندہ ہیں۔
        مصحف (مدیر: علامہ شا کر نائطی)، راہ اعتدال(حبیب الرحمن اعظمی)، صحیفہ (مرتب: ابوابیان حماد عمری)، قلمی ماہنامہ تنویر، اور ’’دارالسلام‘‘ سالنامہ جامعہ دارالسلام کی ادبی خدمات کی توسیع ہیں۔
        ڈاکٹر اسلم شاد عمری نے  جامعہ دارالسلام کی تاریخ و خدمات پر Ph.D کی ہے۔ تو محی الدین حسینی عمری نے  جامعہ دارالسلام کی صحافتی خدمت پر M. Phil کا مقالہ پیش کیا ہے۔ حال ہی میں  عزیزم عارف عمری نے  راہ اعتدال کی ادبی خدمات کے  لیے  M. Phil کا مقالہ پیش کیا ہے۔
        اخیر میں  دعا گو ہوں  کہ اللہ تعالی جامعہ دارالسلام سے  ایسے  قابل ذکر فرزند پیدا کرے  جو اس کی ادبی، علمی، اصلاحی خدمات کی توسیع کر سکیں۔ آمین
٭٭٭


2 comments: