Sunday, May 26, 2013

میں نے لندن میں بادنگٹن کے علاقے میں رہائش رکھی ہوئی تھی

میں نے لندن میں بادنگٹن کے علاقے میں رہائش رکھی ہوئی تھی۔ آمدورفت کیلئے روزانہ زیر زمین ٹرین استعمال کرتا تھا۔ میں جس اسٹیشن سے سوار ہوتا تھا وہاں پر ایک عمر رسیدہ عورت کے سٹال سے ہو کر گزرنا پڑتا تھا۔ اُسکے سٹال پر ٹھہر کر اُس سے چند باتیں کرنا میرا معمول تھا اور ساتھ ہی میں روزانہ اُس سے ایک چاکلیٹ بھی خرید کر کھایا کرتا تھا جس کی قیمت ۱۸ پنس ہوا کرتی تھی۔ چاکلیٹ کے یہ بار قیمت کی آویزاں تختی کے ساتھ ایک شیلف پر ترتیب سے رکھے ہوا کرتے تھا۔ گاہک قیمت دیکھ کر اپنی پسند کا خود فیصلہ کر کے خرید لیتے تھے۔
حسب معمول ایک دن وہاں سے گُزرتے ہوئے میں اس عورت کے سٹال پر ٹھہرا اور اپنا پسندیدہ چاکلیٹ بار لینے کیلئے ہاتھ بڑھایا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آج وہ چاکلیٹ دو مختلف شیلف میں رکھے ہوئے تھے۔ ایک شیلف میں رکھے ہوئے کی قیمت حسبِ معمول ۱۸ پنس ہی تھی مگر دوسرے شیلف میں رکھے ہوئے کی قیمت ۲۰ پنس لکھی ہوئی تھی۔
میں نے حیرت کے ساتھ اُس عورت سے پوچھا؛ کیا یہ چاکلیٹ مختلف اقسام کی ہیں؟ تو اُس نے مختصرا کہا نہیں بالکل وہی ہیں۔ اچھا تو دونوں کے وزن میں اختلاف ہو گا؟ نہیں دونوں کے وزن ایک بھی جیسے ہیں۔ تو پھر یقینایہ دونوں مختلف فیکٹریوں کے بنے ہوئے ہونگے؟ نہیں دونوں ایک ہی فیکٹری کے بنے ہوئے ہیں۔
میری حیرت دیدنی تھی اور میں حقیقت جاننا چاہتا تھ، اسلیئے میں نے اس بار تفصیل سے سوال کر ڈالا؛ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ایک شیلف میں رکھے ہوئے چاکلیٹ کی قیمت ۱۸ پنس ہے جبکہ دوسرے شیلف میں رکھے ہوؤں کی قیمت ۲۰ پنس! ایسا کیوں ہے؟
اس بار اُس عورت نے بھی مُجھے پوری صورتحال بتانے کی غرض سے تفصیلی جواب دیتے ہوئے ہوئے کہا کہ آجکل نائجیریا میں جہاں سے کاکاؤ آتا ہے کُچھ مسائل چل رہے ہیں جس سے وجہ سے چاکلیٹ کی قیمتوں میں ناگہانی طور پر اضافہ ہو گیا ہے۔
میں نے یہاں عورت کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ مادام، آپ سے بیس پنس کی چاکلیٹ کون خریدے گا جبکہ وہی اٹھارہ پنس کی بھی موجود ہے؟ عورت نے کہا؛ میں جانتی ہوں ایسا کوئی بھی نہیں کرے گا۔ مگر جیسے ہی پُرانی قیمت والے چاکلیٹ ختم ہوں گے لوگ خود بخود نئی قیمتوں والے خریدنے لگیں گے۔
اپنی فطرت اور ماحول پروردہ خوبیوں کے ساتھ، روانی میں کہیئے یا اپنی عادتوں سے مجبور، میں نے کہا؛ مادام، آپ دونوں چاکلیٹ ایک ہی خانے میں رکھ کر بیس پنس والی نئی قیمت پر کیوں نہیں بیچ لیتیں؟
میری بات سُننا تھی کہ عورت کے تیور بدلے، چہرے پر موت جیسی پیلاہٹ مگر آنکھوں میں خوف اور غصے کی ملی جُلی کیفیت کے ساتھ لرزتی ہوئی آواز میں مُجھ سے بولی؛ کیا تو چور ہے؟
اب آپ خود ہی سوچ کر بتائیے کیا میں چور ہوں؟ یا وہ عورت جاہل اور پاگل تھی؟ اور شاید عقل و سمجھ سے نا بلد، گھاس چرنے والی حیوان
عورت!
اچھا میں مان لیتا ہوں کہ میں چور ہوں تو یہ سب کون ہیں جو غلہ اور اجناس خریدتے ہی اس وجہ سے ہیں کہ کل مہنگی ہونے پر بیچیں گے۔
کس جہنم میں ڈالنے کیلئے پیاز خرید کر رکھے جاتے ہیں جو مہنگے ہونے پر پھر نکال کر بیچتے ہیں۔
اُن لوگوں کیلئے تو میں کوئی ایک حرف بھی نہیں لکھنا چاہتا جن کی چینی گوداموں میں پڑے پڑے ہی مہنگی ہوجاتی ہے۔ نہ ہی مُجھے اُن لوگوں پر کوئی غصہ ہے جو قیمت بڑھاتے وقت تو نہیں دیکھتے کہ پہلی قیمت والا کتنا سٹاک پڑا ہے مگر قیمتیں کم ہونے پر ضرور سوچتے ہیں کہ پہلے مہنگے والا تو ختم کر لیں پھر سستا کریں گے۔
کیا ہمارے تجار نہیں جانتے کہ مخلوق خدا کو غلہ و اجناس کی ضرورت ہو اور وہ خرید کر اس نیت سے اپنے پاس روک رکھیںکہ جب او ر زیادہ گرانی ہو گی تو اسے بیچیں گے یہ احتکار کہلاتا ہے۔ روزِ محشر شفاعت کے طلبگار شافعیِ محشر صلی اللہ علیہ وسلم کاغلہ کے احتکار اور ذخیرہ اندوزی پر کیا فرمان اور کیا وعید ہے کو تو نہیں سُننا چاہتے کیونکہ وہ فی الحال اپنی توندوں اور تجوریوں کو جہنم کی آگ سے بھرنے میں جو لگے ہوئے ہیں۔
مُجھے کسی پر غصہ اور کسی سے کوئی ناراضگی نہیں، میں تو اُس جاہل عورت پر ناراض ہوں جس نے محض میرے مشورے پر مُجھے چور کا خطاب دیدیا۔ اچھا ہے جو وہ برطانیہ میں رہتی تھی، ادھر آتی تو حیرت سے دیکھتی اور سوچتی کہ وہ کس کس کو چور کہے! اور اُسے کیا پتہ کہ جسے بھی وہ چور کہنا چاہے گی وہ چور نہیں بلکہ ہمارے سید، پیر، مخدوم، شیخ، حکام اور ہمارے راہنما ہیں۔
جاہل کہیں کی!

Saturday, May 18, 2013

سابقہ بالی ووڈ سٹار کے قبول اسلام کی ایمان افروز داستان


سابقہ بالی ووڈ سٹار کے قبول اسلام کی ایمان افروز داستان
علی عمران شاہین کے قلم سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انہوں نے فون نمبر بڑی جان جوکھم سے حاصل کیا تھا کیونکہ وہ جسے فون کرنا چاہ رہے تھے، اس نے اپنا نمبر بدل کر نیا نمبر کسی پرانے تعلق دار کو نہیں دیا تھا۔ اب اس کے فون کی گھنٹی بار بار بج رہی تھی لیکن وہ جس کے ہاتھ میں تھا وہ ہاتھ فون سننے پر تیار نہ تھا.... فون کرنے والے بھی مصر تھے کہ وہ بات کر کے چھوڑیں گے۔ جب معاملہ حد سے بڑھا تو اس نے فون سن ہی لیا لیکن جب فون کرنے والوں کو جواب مکمل ”نہیں“ میں ملا تو جیسے ان کے قدموں تلے سے زمین ہی نکل گئی ہو۔
یہ فون دبئی میں کیا جا رہا تھا، جہاں بڑے بڑے میوزک شو کرنے والا ایک ایونٹ آرگنائزر سخت پریشان تھا کہ اس نے پروگرام ترتیب دیا ہے۔ لوگوں کو بھاری معاوضے پر ٹکٹ فروخت کر کے یقینی دعوت بھی دے دی گئی ہے لیکن وہ مرکزی کردار جس سے ساری محفل ”سجنی“ تھی، وہ تو اب الٹ راہوں پر چل پڑا تھا۔ کل تک سٹیج سجانے اور آج کا فون نہ سننے والی شخصیت نے جو جواب دیا تھا وہ تو سب پر بجلی گرا دینے والا تھا۔ 
”میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور ایک نو مسلم سے شادی بھی کر لی ہے، اس کے بعد اب میں ایسے کسی شو حصہ نہیں لوں گی“
یہ جواب تھا دنیا کی سب سے بڑے فلم نگری بالی ووڈ کی ماضی کی ہیروئن اور آج کی بہترین سٹیج اداکارہ ممتا کلکرنی کا، جس نے 10مئی کو باقاعدہ؟ قبول اسلام کر کا اعلان کر دیا تھا۔ 10 مئی کو یہ خبر کیا آئی ممتا کلکرنی کے قبول اسلام نے بھارت میں بھی شدید پریشانی کی لہر دوڑا دی تھی۔
ممتا کلکرنی 20اپریل 1972ءکو ممبئی میں پیدا ہوئی۔ اس نے زندگی کا بیشتر حصہ ممبئی میں ہی گزارا۔ اس نے اپنے اس دور میں فلمی دنیا میں قدم رکھا تو فحاشی و آوارگی کے وہ ریکارڈ قائم کئے تھے کہ ساری بالی ووڈ ہل کر رہ گئی تھی اور پھر اسے تصویر کشی کے دوران قانونی حدود ”عبور“ کرنے کی پاداش میں قانونی کارروائی کا سامنا ہوا تو مختلف ہندو مذہبی گروپوں اور عورتوں کی تنظیموں تک اس پر حملے کئے ۔ اس پر اس خاتون ممتا کلکرنی نے سب کو ”منافق“ قرار دیا۔ جولائی 2000ءمیں اس پر عدالت نے 15ہزار کا جرمانہ عائد کیا۔ ایک موقع پر ممتا کلکرنی نے جان بچانے کے لئے عدالت میں آتے وقت برقعہ کا استعمال کیا جس پر بہت لے دے ہوئی۔ مقامی مسلم کمیونٹی نے اس پر احتجاج بھی کیا کہ اس نے پردے کا غلط استعمال کیا ہے۔ بالآخر جنوری 2004ءمیں اسے ممبئی ہائیکورٹ نے بری کر دیا۔
برقعہ کا استعمال اور پھر اس کے ذریعے دفاع اور تحفظ نے ممتا کلکرنی کے ذہن اور سوچوں کے دھاروں کو تبدیل کرنا شروع کر دیا کہ اس کی جان تک کو جب خطرہ لاحق تھا تو اس کا تحفظ برقعہ نے کیا تھا۔ وہ ان حالات سے دلبرداشتہ ہو کر اکثر وقت دبئی گزارنے۔ پھر کئی سال بعد گمنامی کے بعد سٹیج پروگراموں میں شریک ہونے لگی۔ دبئی میں بھی اس نے زمینوں کی خریدوفروخت کا وسیع کاروبار بھی شروع کر دیا تو ساتھ ہی اسلام کی محبت اس کے دل میں داخل ہو چکی تھی اسی لئے اس نے اسلام کا مطالعہ شروع کر رکھا تھا۔ یہیں اس کا رابطہ دبئی کی جیل میں بند عالمی شہرت یافتہ منشیات سمگلرو کی گوسوامی سے ہوا جسے متحدہ عرب امارات کی حکومت نے 1997ءمیں گرفتار کر کے 25سال قید کی سزا سنا رکھی تھی۔ اس پر 6 ملین ڈالر مالیت کی 11.7ٹن مالیت کی منشیات سمگل کرنے کا الزام ثابت ہو چکا تھا۔ متحدہ عرب امارات میں یہ قانون موجود ہے کہ جو غیر مسلم قیدی اسلام قبول کرے یا مسلم قیدی اسلام کا مطالعہ کرے یا قرآن حفظ کرے تو اسے سزا میں رعایت دے دی جاتی ہے۔ بے تحاشہ دولت کے مالک گوسوامی سے رابطے کے بعد ممتا نے اپنے ساتھ اسے بھی اسلام کے مطالعہ کی پیشکش کی اور قرآن مجید کے ساتھ ساتھ اسلامی لٹریچر اسے پہنچایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے گوسوامی کی زندگی بھی بدلنے لگی۔ 16سال سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بڑے گوسوامی نے اسلام قبول کیا تو اسے رہائی کا مژدہ سنایا گیا۔ اسی دوران ممتا کلکرنی نے بھی اسلام قبول کر لیا اور پھر سرکاری گواہوں کی موجودگی میں دونوں کا نکاح کرا دیا گیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد دونوں بین الاقوامی شہرت یافتہ شخصیات نیروبی پہنچ گئیں اور پھر 10مئی کو ساری دنیا نے یہ حیرت ناک خبر سنی کہ قبول اسلام کے بعد ان کی شادی بھی ہو چکی ہے۔ ممتا کی ایک شادی اس سے قبل امریکہ میں ایک بھارتی نژاد ہندو شخص سے کی تھی جو کامیاب نہ ہو سکی تھی، شاید اللہ نے اس کے لئے کسی اور راہ کا انتخاب کیا تھا۔ آج ایک عالم، ایک جہاں، سکتے میں ہے کہ یہ کیا ہوا؟.... اسلام نے کیسے ان دلوں کو فتح کر لیا کہ جو دنیا کی عیش و آرام کی معراج پر تھے۔ کل تک جسم کی نمائش سے شہرت پانے والی ممتا آج اسلام کے پردے میں کیسے لپٹ کر باپردہ ہو گئیں....؟
یقینا یہ وہ روشنی ہے کہ جس نے بالآخر سارے جہاں کو منور کرنا ہے۔ اس کا سلسلہ جاری ہے، چاہئے کسی کو پسند ہو یا نہ ہو.... روشنی کا سفر جاری ہے اور جاری رہے گا۔
ان دونوں نے اسلام قبول کر لیا ہے تو ہم سب کو بھی ان کی استقامت کے لئے دعاگو رہنا چاہئے کہ اللہ انہیں استقامت دے کیونکہ ایسے لوگوں پر شیطانی پیروکاروں اور شیطان کے وار انتہائی سخت اور تباہ کن ہوتے ہیں۔ ہم اگر دعا کر سکتے ہیں تو وہی کر کے ان کے ایمان کے تحفظ و دفاع میں حصہ ڈال لیں

نیٹ ، فیس بک کے ذریعے فحاشی پھیلاتے بھیڑیوں سے اپنی بہن، بیٹیوں کو بچائیے !!


نیٹ ، فیس بک کے ذریعے فحاشی پھیلاتے بھیڑیوں سے اپنی بہن، بیٹیوں کو بچائیے !!
------------------------------­------------------------------­-----------------
دوستو اس پوسٹ کو غور سے پڑھنا اور اسکی حساسیت کو سمجھنا پلیز اور کوئی غلط کومنٹ کرنے سے پہلے اپنے گھر میں موجود بہن ، بیٹی پر بھی نظر ڈال لینا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کی اپنی ہی بہن ، بیٹی آپ کی لاعلمی میں ایسے کسی شخص کا شکار بن چکی ہو !
اس ...پوسٹ میں لڑکیوں کی کوئی وکالت نہیں کی جارہی کیونکہ اس میں قصوروار وہ خود بھی ہوتی ہیں ، یہ پوسٹ خاص طور پر ان نادان یا بیوقوف لڑکیوں کو خبردار کرنے کیلئے کی جا رہی ہے جو بعض اوقات اپنے گھریلو حالات سے پریشان ہوتی ہیں اور جو بھی پیار سے بات کرے اسی کو ہمدرد سمجھ کر اعتبار کر لیتی ہیں اور اپنی نادانی میں غلیظ مردوں کی ہوس کا شکار بن جاتی ہیں !

عام زندگی کے علاوہ یہاں نیٹ پر بھی کئی بد کردار ، آوارہ اور عیاش فطرت لوگ صرف لڑکیاں پھنسانے اور انکی معصومیت سے فائدہ اٹھانے کیلئے آتے ہیں ، ان کا ایک خاص طریقہ کار ہوتا ہے ، جس پر عمل کر کے وہ لڑکی کو با آسانی شیشے میں اتار لیتے ہیں
کبھی مذھب کا لبادہ اوڑھ کر خود کو پارسا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی بہت میٹھا ، با اخلاق بن کر اعتماد جیتا جاتا ہے ، پھر Inbox Messages شروع ہو جاتے ہیں ، فون نمبر مانگا جاتا ہے ، پھر تصاویر مانگی جاتی ہیں اور لڑکی کو یقین دلانے کیلئے الله اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جھوٹی قسمیں تک کھائی جاتی ہیں کہ صرف میں ہی دیکھوں گا اور کسی کو نہیں دکھاؤں گا ، اب جو لڑکی بیوقوف ہوتی ہے یا اپنے حالات کی ستائی ہوتی ہے وہ ان باتوں میں آ جاتی ہے اور ان بے غیرتوں کو ہمدرد سمجھ کر اپنے حالات شئیر کر لیتی ہے اور اعتبار کر کے اپنی تباہی کا سامان کر لیتی ہے
اور پھرجب وہ لڑکی مکمل طور پر ان کے بس میں آ جاتی ہے تو ملاقات پر اصرار کیا جاتا ہے ، ملنے سے انکار پر لڑکی کے گھر والوں کو بتانے کی دھمکیاں دے کر اس لڑکی کو باہر بلا کر اس کی عزت کا جنازہ نکال دیا جاتا ہے اور اس کی بھی ویڈیو اور تصاویر بنا لی جاتی ہیں جن کو مستقبل کی بلیک میلنگ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، یعنی ایک شریف لڑکی کو جسم فروشی کی اس دلدل میں دھکیل دیا جاتا ہے ، جس سے وہ چاہ کر بھی نہیں نکل سکتی ، لڑکی صرف اس ڈر کی وجہ سے کہ کہیں گھر والوں کو پتا نہ چل جائے ، بس تڑپتی ہے اور اپنی قسمت کو کوستی ہے کہ کس لمحے اس سے یہ غلطی ہوئی اور ہر لمحے موت کی دعا مانگتی ہے

لہٰذا میری بہنوں نیٹ پر کسی شخص کا اعتبار نہ کریں جو آپ سے محبت کے نام پر گفتگو کرتا ہو یا مذھب کا سہارا لے کر آپ کے قریب ہونے کی کوشش کر رہا ہو ، یہ بھی ممکن ہے وہ آپ کے ساتھ اور بہت سی لڑکیوں کو بیوقوف بنا رہا ہو اسلئے خود بھی بچیں اور اپنی دوستوں کو بھی بچائیں !
براہ مہربانی نیٹ پر لڑکوں سے رشتے داریاں نہ بنائیں ، نہ ہی ان کو اپنے فوٹو وغیرہ دکھائیں ،
ضرورت کیا ہے آخر ، خود کو نمائش کیلئے پیش کرنے کی ؟؟؟
کیا آپ کو ہونے والے ان نقصانات کا اندازہ ہے جو کل آپ کی آنے والی زندگی تک تباہ کر سکتے ہیں ؟؟؟
اپنی تصاویر اپنی فیملی کے لئے رکھیں ، نیٹ پر ان تصاویرکا بنا اجازت کاپی کر کے غلط استعمال بھی ہو سکتا ہے اور آپ کو خبر تک نہیں ہوتی اور یہ چیز آپ کے لئے نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہے !!! ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جہاں لڑکیوں کی تصاویر یا وڈیو بنائی گئی اور پھر انھیں بلیک میل کر کے غلط کام کرنے پر مجبور کیا گیا جس کے نتیجے میں کئی لڑکیوں نےخودکشی کر لی !

میری بہنو فرض کریں کہ
اگر آپ ایسی ہی ایک لڑکی ہو جو ایسے کسی بے غیرت انسان کے ہتھے چڑھ گئی ہوں اور گھر والوں کے ڈر سے کسی کو بتا بھی نہیں سکتی کہ کیسے ان لوگوں یا حالات سے چھٹکارا پایا جائے ، تو میری بہنو ایک غلطی تو آپ سے ہو چکی ، جیسے بھی ہوئی مگر اب اس ڈر سے کہ گھر والے کیا کہیں گے ، آپ خاموش نہ رہیں پلیز ،اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے آپ اپنی امی ، بہن وغیرہ کو بتا کر ان سے مدد مانگیں ، ان کا غصہ وقتی ہو گا مگر ہو گا آپ ہی کی بھلائی میں ، اور آپ کو اس غلاظت سے نکلنے میں مدد دے گا اور آئندہ کیلئے ایک سبق بھی . باقی معاف کرنے والی ذات الله پاک کی ہے وہ بہت مہربان اور معاف کرنے والا ہے !

---------------------------------
اب آخر میں
آوارہ اوباش لڑکوں اور مردوں کے لئے ایک پیغام !!!
عورت مقدّس ہے اسکے تقدّس کو اپنے اعمال سے پامال مت کیجئے !
یاد رکھو !!! کہ آپ آج جس طرح کسی اور کی بہن ، بیٹی کو ورغلا رہے ہو، اس کے ساتھ زنا کرنا چاھتے ہو کل کو یہی سب آپ کے گھر Repaet ہو گا کیوں کہ دنیا مکافات عمل ہے ، کسی کی بیٹی کے تن سے چادر ہٹا نے سے پہلے سوچنا کہ کل یہی کچھ آپ کی بہن بیٹی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہی نہیں بلکہ لازمی ہو گا !

آج اگر آپ کسی کی بچی کی زندگی خراب کرو گے تو کل آپ کی اپنی بیٹی بھی
اسی مقام پر کھڑی ہو گی اور آپ کے پاس سوائے سر پیٹنے کے کوئی چارہ نہ ہو گا !
ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﮐﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻌﺾ ﮔﻨﺎﮦ ﺻﺮﻑ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ
ﻭﮦ ﻭﺭﺍﺛﺖ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭘﺎﺗﺎﻝ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺁ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﮐﮧ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺼﻮﺭ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ۔ !

اگر آپ اپنے لئے ایک نیک بیوی اور نیک بیٹی کی کی آرزو رکھتے ہو تو
دوسروں کی ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کو بھی عزت دینا سیکھو کیونکہ قران پاک میں ہے

الخَبيثٰتُ لِلخَبيثينَ وَالخَبيثونَ لِلخَبيثٰتِ ۖ وَالطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبينَ وَالطَّيِّبونَ لِلطَّيِّبٰتِ ۚ
﴿٢٦﴾ سورة النور

(ترجمہ) ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے ہیں اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لئے ہیں۔
اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے ہیں۔ —

الله پاک ہم سب کی ماؤں ، بہنوں ، بیٹیوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے .
آمین یارب العالمین صلی اللہ علیہ وسلما تسلیما کثیر

سبق آموز تحریر



سبق آموز تحریر۔۔۔


سالوں پہلے کی بات ہے جب ایک امام مسجد صاحب روزگار کیلئے برطانیہ کے شہر لندن پُہنچے تو روازانہ گھر سے مسجد جانے کیلئے بس پر سوار ہونا اُنکا معمول بن گیا۔
لندن پہنچنے کے ہفتوں بعد، لگے بندھے وقت اور ایک ہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا کہ بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا۔
ایک مرتبہ یہ امام صاحب بس پر سوار ہوئے، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لیکر ایک نشست پر جا کر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور کے دیئے ہوئے باقی کے پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھے تو پتہ چلا کہ بیس پنس زیادہ آگئے ہیں۔
امام صاحب سوچ میں پڑ گئے، پھر اپنے آپ سے کہا کہ یہ بیس پنس وہ اترتے ہوئے ڈرائیور کو واپس کر دیں گے کیونکہ یہ اُن کا حق نہیں بنتے۔ پھر ایک سوچ یہ بھی آئی کہ بھول جاؤ ان تھوڑے سے پیسوں کو، اتنے تھوڑے سے پیسوں کی کون پرواہ کرتا ہے!!!
ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی بھی تو ہے، ان تھوڑے سے پیسوں سے اُن کی کمائی میں کیا فرق پڑ جائے گا؟ اور میں ان پیسوں کو اللہ کی طرف سے انعام سمجھ کر جیب میں ڈالتا ہوں اور چپ ہی رہتا ہوں...۔
بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو امام صاحب نے اُترنے سے پہلے ڈرائیور کو بیس پنس واپس کرتے ہوئے کہا؛ یہ لیجیئے بیس پنس، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے ہیں۔
ڈرائیور نے بیس پنس واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا؛کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟ میں بہت عرصہ سے آپ کی مسجد میں آ کر اسلام کے بارے میں معلومات لینا چاہ رہا تھا۔ یہ بیس پنس میں نے جان بوجھ کر تمہیں زیادہ دیئے تھے تاکہ تمہارا اس معمولی رقم کے بارے میں رویہ پرکھ سکوں۔
اور امام صاحب جیسے ہی بس سے نیچے اُترا، اُنہیں ایسے لگا جیسے اُنکی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے، گرنے سے بچنے کیلئے ایک کھمبے کا سہارا لیا، آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر روتے ہوئے دُعا کی، یا اللہ مُجھے معاف کر دینا، میں ابھی اسلام کو بیس پنس میں بیچنے لگا تھا۔۔۔

ہو سکتا ہے کہ ہم کبھی بھی اپنے افعال پر لوگوں کے رد فعل کی پرواہ نہ کرتے ہوں۔
مگر یاد رکھیئے کہ بعض اوقات لوگ صرف قرآن پڑھ کر اسلام کے بارے میں جانتے ہیں۔
یا غیر مسلم ہم مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کا تصور باندھتے ہوں۔
اس طرح تو ہم سب کو دوسروں کیلئے ایک اچھی مثال ہونا چاہیئے۔۔
اور ہمیشہ اپنے معاملات میں سچے اور کھرے بھی۔۔
صرف اتنا ہی ذہن میں رکھ کر، کہیں کوئی ہمارے رویوں کے تعاقب میں تو نہیں؟ اور ہمارے شخصی تصرف کو سب مسلمانوں کی مثال نہ سمجھ بیٹھے۔
یا پھر اسلام کی تصویر ہمارے تصرفات اور رویئے کے مُطابق ذہن میں نہ بٹھا لے!!

Tuesday, May 7, 2013

یہ اردو شعراء کی ایک فہرست ہے


یہ
 اردو شعراء کی ایک فہرست ہے جو ان کی تاریخ پیدائش کے حساب سے مرتب کی گئی ہے۔ شاعر کے نام کے بعد جو ترچھی لکھائی دی گئی ہے وہ اس شاعر کا تخلص ہے۔

تیرہویں صدی
·         امیر خسرو (1253–1325)
سولہویں صدی
·         محمد قلی قطب شاہ (1565–1611), ابتدائی طور پر انہوں نے فارسی اور ہندی زبان میں شاعری کی۔
سترہویں صدی
·         ولی محمد ولیولی دکنی (1667–1707)
·         مرزا مظہر جانِ جاناں (1699–1781)
·         اٹھارویں صدی
·         مرزا محمد رفیع، سودا (1713–1780)
·         سراج اورنگ آبادی (1715–1763)
·         خواجہ میر درددرد (1721–1785)
·         میر تقی میرمیر (1723–1810)
·         نظیر اکبر آبادینظیر (1740–1830)
·         بہادر شاہ ظفرظفر' (1775–1862)
·         امام بخش ناسخناسخ (1776–1838)
·         خواجہ حیدر علی آتش، آتش (1778–1846)
·         محمد ابراہیم خانذوق (1789–1854)
·         مرزا اسد اللہ خاں غالب، غالب (1796–1869)

انیسویں صدی
·         برج نارائن چکبست, (1882–1926)
·         دیا شنکر کول نسیم, (1811–1845)
·         مومن خان مومن مومن (1801–1852)
·         مرزا سلامت علی دبیر(مرزا سلامت علیدبیر (1803–1875)
·         میر ببر علی انیس انیس (1803–1874)
·         امیر مینائی (1828–1900)
·         داغ دہلوی(نواب مرزا داغداغ (1831–1905)
·         الطاف حسین حالی (حالی پانی پتیحالی (1837–1914)
·         بیخود بدایونی(محمد عبد الحئی صدیقی), بیخود (1857–1912)
·         اکبر الہ آبادی(سید اکبر حسین)اکبر (1846–1921)
·         ریاض خیرآبادی(سید ریاض احمد) (1853-1934)
·         بیخود دہلوی(سید وحید الدین احمد) (1863-1955)
·         سائل دہلوی(نواب سراج الدین احمد خان) (1868-1945)
·         جلیل منیکپوری(جلیل حسین)جلیل (1869-1946)
·         ثاقب لکھنوی(مرزا ذاکر حسین قزلباش) (1869-1949)
·         فانی بدایونی(شوکت علی خان)فانی(1879-1941)
·         سیماب اکبرآبادی(عاشق حسین) (1882-1951)
·         یگانہ چنگیزی(مرزا واجد حسین یاسیاس(1883-1956)
·         فراق گورکھپوری(رگھوپتی سہائےفراق(1896–1982)
·         حسرت موہانی(سید فضل الحسینحسرت (1875–1951)
·         شبلی نعمانی(علامہ شبلی نعمانی)(1857–1914)
·         سید غلام بھیک نیرنگ (1875–1952)
·         ڈاکٹر محمد اقبال (1873–1938)
·         تلوک چند محروم (1885–1966)
·         جگر مراد آبادی(علی سکندرجگر (1890–1960)
·         مصطفے رضا خاننوری (1892–1981)
·         جوش ملیح آبادی(شبیر حسین خانجوش (1894–1982)

Monday, May 6, 2013

میں مسلمان کیوں ہوئی وہ 20 اپریل 1985ءمیں ہندوستان کے شہر رشی کیش میں پیدا ہوئی


میں مسلمان کیوں ہوئی 
وہ 20 اپریل 1985ءمیں ہندوستان کے شہر رشی کیش میں پیدا ہوئی جو شرک و بت پرستی کا سب سے بڑا مرکز سمجھا جاتا ہے، اس نے جس گھر میں آنکھ کھولی، اس کے سربراہ یعنی اس کے والد ایک بہت بڑے پنڈت اور ہندو سادھوں کے ایک بڑے مرکز (آشرم) کے مالک و منتظم تھے۔ اس کا بچپن، لڑکپن اور جوانی کے ابتدائی دن اسی ماحول میں بسر ہوئے اور اس نے اسکول و کالج کی تعلیم کے مراحل یہیں رہ کر طے کیے۔ گھر سے لے کر کالج تک اس کا واسطہ ان لوگوں سے اور ایسے ماحول سے تھا، جہاں سوائے شرک و بت پرستی کے کچھ نہ تھا۔ ایسے ماحول میں وہ تو کیا بلکہ کوئی بھی یہ تصور نہیں کر سکتا تھا کہ اس کے قلب و ذہن میں ہدایت و توحید کا خورشید طلوع ہوگا، جس کی کرنیں اس کی کایا پلٹ کر رکھ دیں گی۔ ایک ناز و نعم میں پلی ہوئی، کھاتے پیتے گھرانے کی اعلیٰ تعلیم یافتہ بچی اس قدر عزم و استقلال اور ہمت و عزیمت کا مظاہرہ کرے گی کہ اسلام کے ابتدائی دور کے اہل ایمان کی یادیں تازہ ہو جائیں گی، کسی نے سوچا بھی نہ تھا مگر سبحان تیری قدرت! تو جس سے جو کام لینا چاہے.... کہ تیرے ارادے کا نام وجود ہے اور تیرا فضل کسی حد و سرحد اور رکاوٹ کا پابند نہیں؟!
 
وہ ایم ایس سی کے پہلے سال میں تھی کہ اس کی زندگی میں ہدایت کی کرن پھوٹنا شروع ہوئی، جس کا سبب یہ ہوا کہ اس کے والد کی زیرنگرانی جوآشرم تھا، اس میں ایک سادھو نے وہاں پوجا کیلئے آنے والی ایک خاتون اور اس کی جوان العمر بیٹی کے ساتھ حیا سوز گھنانا کھیل کھیلا۔ یہ بات لمحوں میں مشہور ہو گئی جو بلاشبہ آشرم کیلئے کلنک کا ٹیکا تھی، جب اسے یہ بات معلوم ہوئی تو اس پر اس بات کا غیر معمولی اثر ہوا، اس نے اپنے باپ سے کہا کہ پوجا کے نام پر عزت نیلام کرنے والے مرکز اور اس کے تمام سادھوں کو نذر آتش کرنا چاہئے، بلکہ ہم سب کو بھی سزا کے طور پر جل جانا چاہئے کیونکہ یہ سب کچھ ہمارے ادارے میں ہوا ہے۔ اس کو اس روح فرسا واقعے کے بعد آشرم سے نفرت ہو گئی اور اس نے پوجا کیلئے وہاں جانا چھوڑ دیا۔
ایک رات وہ اسی سوچ میں تھی کہ آخر عبادت گاہوں میں بھی عزتیں محفوظ نہیں ہیں تو وہ کون سی جگہ اور دین ہے جہاں حوا کی بیٹی کی عزت و ناموس محفوظ ہو.... کہ اچانک اس کی آنکھ لگ گئی۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ پوجا کےلئے آشرم میں موجود ہے اور دو سادھو اس کے پیچھے لگ گئے ہیں، وہ اسے پکڑنا اور اپنی ہوس کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں اور وہ ان سے بھاگ رہی ہے، وہ میلوں دوڑتی رہی اور سادھو بھی بدستور اس کا پیچھا کرتے رہے۔ اس کی ہمت جواب دے رہی تھی اور اس کا خوف یقین میں بدلنے والا تھا۔ قریب تھا کہ وہ پکڑی جاتی کہ اس کی نظر ایک شخص پر پڑ گئی، جو مسجد کے دروازے پر کھڑے ہیں اور اسے کہہ رہے ہیں کہ بیٹی! مسجد کے اندر آ جا، یہاں تمہیں کوئی نہیں پکڑ سکتا۔ وہ مسجد میں داخل ہو جاتی ہے اور وہ شخص دروازہ بند کرکے اس کی ہمت بندھاتا ہے کہ بیٹی! یہ تمہارا اپنا گھر ہے، مطمئن رہو، یہاں کوئی نہیں آ سکتا۔

اتنے میں اس کی آنکھ کھل گئی، اسے یوں لگا کہ یہ محض خواب نہیں بلکہ حقیقت ہے کیونکہ وہ خود کو ایک انجانے سکون و اطمینان سے سرشار پا رہی تھی۔ اس کا ضمیر اسے بار بار جھنجھوڑ رہا تھا کہ اسے سپنا سمجھ کر طاق نسیاں میں نہ ڈالنا، یہ اگرچہ ایک خواب ہے، مگر ایسا خواب جس پر کئی حقیقتیں قربان کی جا سکتی ہیں۔ ضمیر کی کسک اسے کچھ کرنے پر ابھار رہی تھی کہ اب اس شرک و بت پرستی کے گڑھ سے نکلو، یہاں اندھیرا ہے اور صرف اندھیرا۔ اس پر تین حرف بھیجو اور روشنی میں آ، ایسی روشنی جو تمہیں حقیقی کامیابیوں سے ہمکنار کر دے۔ وہ اس خیال کو دل و دماغ سے محو کرنے کی لاکھ کوشش کرتی، مگر کامیاب نہ ہوتی۔ اس رات عقل و دل اور جسد و ضمیر کی یہ کشمکش جاری رہی اور بالآخر اس نے ایک فیصلہ کر لیا کہ ہاں! واقعی مجھے اس ندھیرے سے اب نکل جانا چاہئے، جہاں میری عزت تک محفوظ نہیں اور اس کیلئے صبح سے ہی کوشش شروع کرنی چاہئے۔
وہ دن کے دس بجے تک اس ادھیڑ بن میں رہی کہ وہ کس طرح کفر و شرک کے اس اندھیرے اور عزت و ناموس کے ان ڈاکوں کے جنگل سے نکلے، جنہوں نے بظاہر عبادت گزاروں کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے لیکن ان کا باطن شیطانی عزائم سے سیاہ ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے دل ہی دل میں دعا بھی کرتی رہی کہ اے میرے مالک! تو ہی میری مزید رہنمائی فرما اور مجھے اس گندے ماحول اور گمراہ لوگوں کے چنگل سے چھڑا کر ایمان و یقین کی روشنی عطا فرما۔ اے مالک! میرے لیے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دے۔ ابھی وہ دعا ہی کر رہی تھی کہ مالک لم یزل نے اس کے دل میں یہ خیال ڈالا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر اپنے موبائل سے ایسے ہی کسی کا نمبر ڈائل کرے، اگر کسی مسلمان سے رابطہ ہوا تو امید کی کرن روشن ہوگی اور مجھے یقین ہو جائے گا کہ ان شاءاللہ میرے لیے ایمان و ہدایت کی راہ ہموار ہوگی اور اگر یہ نمبر کسی ہندو مشرک وغیرہ کا ہوا تو میں سمجھوں گی کہ ابھی میرے خواب کی تعبیر کا وقت نہیں آیا۔ یہ سوچ کر اس نے ایک فرضی نمبر ملایا، فون اٹھانے والے سے اس نے پوچھا کہ آپ کون بات کر رہے ہیں؟ آگے سے جواب تھا، میں مظفر نگر سے محمود بات کر رہا ہوں۔ ”محمود“ نام سن کر اس کے دل کو یک گونہ اطمینان ہوا کہ میرے مالک نے میری مزید رہنمائی فرما دی ہے۔ اس نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ان سے اپنا مدعا بیان کیا۔ مزید تفصیلات اس کی زبانی ملاحظہ فرمائیے۔
وہ کہتی ہے:میں نے کہا: مجھے مسلمان ہونا ہے، وہ بولے: مسلمان کیوں ہونا چاہتی ہو؟ میں نے کہا کہ اسلام سچا دھرم ہے اور اسلام ہی میں ایک لڑکی کی عزت بچ سکتی ہے۔ وہ بولے: تم کہاں سے بول رہی ہو؟
میں نے کہا: رشی کیش سے۔
انہوں نے بتایا کہ مسلمان ہونے کیلئے آپ کو پھلت ہمارے حضرت کے پاس جانا ہوگا، ان کا نام مولوی محمد کلیم صدیقی ہے۔ پھلت ضلع مظفر نگر میں کھتولی کے پاس گاؤں ہے، میں ان کا فون نمبر آپ کو دے دوں گا۔ میں نے کہا: دے دیجئے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی میرے پاس نہیں ہے۔ ایک گھنٹے بعد تم فون کر لینا، میں تلاش کر لوں گا۔ میں نے ان سے کہا کہ میں اگر اسلام قبول کروں گی تو میرے گھر والے تو مجھے نہیں رکھ سکتے، میں پھر کہاں رہوں گی؟
انہوں نے کہا: میرا ایک بڑا بیٹا تو ایکسیڈنٹ میں انتقال کر گیا ہے، میرا ایک دوسرا لڑکا ہے، جس کی عمر ابھی پندرہ سال ہے۔ اگر تو مسلمان ہو گئی تو میں تمہاری اس سے شادی کر دوں گا اور تم میرے گھر میں رہنا۔ میں نے کہا کہ وعدہ یاد رکھنا۔ انہوں نے کہا کہ یاد رہے گا۔ مجھے بے چینی تھی، مجھے ایک گھنٹہ انتظار کرنا مشکل ہوگیا۔ پچاس منٹ کے بعد میں نے فون کیا، مگر مولوی صاحب کا فون نہ مل سکا۔ اس کے بعد گھنٹہ آدھ گھنٹہ بعد میں فون کرتی رہی اور معذرت بھی کرتی رہی کہ آپ کو پریشان کر دیا، مگر مجھ سے بغیر اسلام کے رہا نہیں جاتا۔ انہوں نے کہا: صبح کو میں خود تمہیں فون کروں گا۔ بڑی مشکل سے صبح ہوئی، نو بجے تک میں انتظار کرتی رہی، نو بجے کے بعد میں نے پر فون کیا، فون اب بھی نہ ملا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے آدمی بھیجا ہے، بڈولی، وہ وہاں سے نمبر لے کر آئے گا۔ ساڑھے گیارہ بجے فون ملا۔
میں نے فون نمبر لے کر مولوی کلیم صاحب کو فون کیا۔ فون کی گھنٹی بجی، مولوی صاحب نے فون اٹھاتے ہی کہا: السلام علیکم!میں نے کہا: جی سلام، کیا آپ مولوی کلیم ہی بول رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: جی کلیم بول رہا ہوں۔ میں نے کہا کہ مجھے مسلمان ہونا ہے۔
مولوی صاحب نے کہا: آپ کہاں سے بول رہی ہیں؟ میں نے کہا: رش کیش سے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ آپ کیسے آئیں گی؟
میں نے کہا: اکیلے ہی آں گی۔
مولوی صاحب نے کہا: فون پر ہی آپ کلمہ پڑھ لیجئے۔
میں نے کہا کہ فون پر بھی مسلمان ہو سکتے ہیں؟
کہا کہ ہاں، کیوں نہیں ہو سکتے، بس اپنے مالک کیلئے جو دلوں کے بھید جاننے والا ہے، اس کو حاضر و ناظر جان کر سچے دل سے کلمہ پڑھ لیجئے کہ اب میں مسلمان بن کر قرآن اور اس کے سچے نبی کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزاروں گی۔
میں نے کہا: پڑھائےے! مولوی صاحب نے کلمہ پڑھایا اور کہا کہ اب ہندی میں اس کا ارتھ (ترجمہ) بھی کہہ لیجئے، ابھی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ میرے فون میں پیسے ختم ہو گئے اور بات کٹ گئی۔ میں جلدی سے بازار گئی اور فون میں پیسے ڈلوائے، مگر اس کے بعد مولوی احب کا فون نہیں مل سکا۔ میں بہت تلملاتی رہی اور اپنے کو کوستی رہی کہ انجو! تیرے من میں ضرور کوئی کھوٹ ہے، تبھی تو تیرا ایمان ادھورا رہا۔ میں اپنے مالک سے دعا کرتی رہی، میرے سچے مالک! آپ نے کہاں اندھیرے میں میرے لیے ایمان کا نور نکالا، میں تو گناہ گار ہوں، میں ایمان کے لائق کہاں ہوں، مگر آپ تو داتا ہیں، جس کو چاہیں بھیک دے سکتے ہیں۔
تیسرے روز میں نے آنکھ بند کرکے رو رو کر دعا کی اور فون ملایا تو فون مل گیا۔ میں بہت خوش ہوئی، میں نے کہا: مولوی صاحب! میری گناہ گار آتما (روح) کی وجہ سے میرا ایمان ادھورا رہ گیا تھا۔ فون میں پیسے ختم ہو گئے تھے۔ اس کے بعد لگاتار آپ کو فون کرتی رہی مگر ملتا نہیں تھا۔ مولوی صاحب نے بڑے پیار سے کہا: بیٹا! آپ کا ایمان بالکل پورا ہو گیا تھا۔ میں خود سوچ رہا تھا کہ میں ادھر سے فون ملاں، مگر میں اس وقت نوئیڈا میں ایک پروگرام میں جا رہا تھا۔
ہمارے ساتھی ایک ضروری بات کر رہے تھے، اس کی وہ سے میں فون نہ کر سکا۔ پھر ایسی مصروفیت رہی کہ فون بس برائے نام کھولا۔ میں نے کہا: پھر بھی آپ مجھے دوبارہ کلمہ پڑھا دیجئے۔ فون دوبارہ کٹ گیا۔ میرا حال خراب ہو گیا۔ میری ہچکیاں بندھ گئیں۔ میں اپنے مالک سے فریاد کر رہی تھی: میرے مالک! کیا آج بھی میرا ایمان ادھورا ہی رہ جائے گا کہ اچانک مولوی صاحبً کا فون آیا۔ میں نے خوشی سے رسیو کیا۔ مولوی صاحب نے بتایا کہ میں نے فون کاٹ دیا تھا کہ پتا نہیں کہ آج بھی تمہارے پاس فون میں پیسے ہوں گے کہ نہیں۔ اس لیے اپنی طرف سے فون کروں، کلمہ پڑھ لو۔ میں نے کلمہ پڑھا۔ ہندی میں عہد لیا اور پھر کفروشرک اور سب گناہوں سے مجھے توبہ کرائی اور اللہ تعالیٰ اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعات و فرمانبرداری کا عہد لیا۔
 بشکریہ کراچی اپ ڈیٹس

--