Wednesday, March 27, 2013

نبیوں کی سر زمین فلسطین کی کہانی



نبیوں کی سر زمین فلسطین کی کہانی
مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری
بندر جب انصاف کی کرسی پر بیٹھتا ہے تو بڑے کرتب اور کرشمے دکھاتا ہے اور یہ کرشمے ہنساتے نہیں رلاتے ہیں ،اور وہ بھی خون کے آنسو ۔ انصاف کا خونِ ناحق انسانیت کی آنکھوں سے خشک ہوئے بغیر ٹپکتا چلاجاتا ہے ،تاریخ بتاتی ہے کہ ہر دور میں اکثر بندر ہی انصاف کی کرسی پر براجمان ہوا ہے ۔ مولانا آزاد ؒ رقم طراز ہیں : ’’ تاریخِ عالم کی سب سے بڑی نا انصافیاں میدانِ جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں ہی میں ہوئی ہیں ۔ دنیا کے مقدس بانیانِ مذہب سے لے کر سائنس کے محققین اور مکتشفین تک ،کوئی پاک اور حق پسند جماعت نہیں ہے جو مجرموں کی طرح عدالت کے سامنے کھڑی نہ کی گئی ہو‘‘۔(قول فیصل :۳۴)
کرسی جتنی چاہے اونچی بنالیجیے مگر وہاں تک پہنچنے میں بندر کے لیے رکاوٹ ہی کیا ہے ۔ بندر بانٹ کی ایک ایسی ہی المناک تاریخی کہانی آج آپ کو سنانی ہے جو آپ کی نیند ہی نہیں ہوش بھی اڑادے گی ۔
اقوامِ عالم میں یہودی قوم اپنی سرکشی اور سازشی ذہن کی بدولت بڑی شہرت یافتہ ہے ،خود غرضی اس کی فطرت ہے اور حق تلفی اس کی عادت ۔ انبیاء ورسل کو ستایا ، تنگ کیا اور قتل تک کردیا ،اپنے محسنین کی احسان ناشناسی کی حد کردی ،جس برتن میں کھاتے اسی میں چھید کرنے سے ان کے لیے کوئی اخلاق مانع نہیں تھا ۔ موسیٰ علیہ السلام ان کے محسنِ اعظم تھے ،ذلت وپستی اور بدترین غلامی کی زندگی سے ان کو نجات دلائی ،کوئی اور قوم ہوتی تو موسیٰ کی پوجا کرتی مگر انہوں نے ایسے محسن کو بھی بہت ستایا اور پریشان کیا ۔ ان کا کوئی حکم اور مشورہ قبول کرنے سے انکار کرتے رہے ،بلکہ الٹا ان کی شان میں گستاخانہ رویہ اور جارحانہ ناشائستہ لب ولہجہ اختیار کیے ہوئے تھے ،غلامی کی طویل مدت نے انہیں نزدل بھی اتنا بنادیا تھا کہ موسیٰ نے انہیں اللہ کا فیصلہ سنایا کہ سرزمین فلسطین کو اللہ نے تمہارے حق میں کردیا ہے ،ذراسء جرأت وہمت کا مظاہرہ کرو، کامیاب ہوجاؤ گے۔ ایسی بشارت سن کر بھی ان کی ہمت نہیں ہوئی۔جواب میں کہا:وہاں کی قوم زبردست ہے ،اس مقام کا ایک ایک شخص جب تک باہر نہیں نکل جائے گا ہم داخل ہونے کا خطرہ مول نہیں لیں گے ۔موسیٰ نے اپنی بے بسی کا حال اللہ سے بیان کیا تو فرمان الہی صادر ہوا:قال فانھا محرمۃ علیھم اربعین سنۃ یتیھون فی الارض فلاتاس علی القوم الفاسقین ۔(المائدہ :۲۶) ’’اچھا تو وہ ملک (فلسطین)چالیس سال تک ان پر حرام ہے ، یہ زمین میں مارے مارے پھریں گے، ان نافرمانوں کی حالت پر ہرگز ترس نہ کھاؤ‘‘۔
پورے چالیس برس بھٹکتے رہنے اور دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد یہود فلسطین میں داخل ہوئے ۔چند سو سال چین سے گزرے ہوں گے کہ سن ۵۸۶ ؁ ق م میں آشوریوں اور اہل بابل کے ہاتھوں بڑی ہولناک تباہی سے دوچار ہوئے ۔پھر رومیوں نے سن ۷۰ ؁ء میں یہودیوں کو مار مار کر فلسطین سے نکال باہر کیا ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ملاحظہ ہو :ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الزِّ لَّۃُُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْ آ اِلَّا بِِحَبْلٍٍِ مِّنَ اللّٰہِ و حَبْلٍٍ مِِّنَا لنَّا سِ وَبَآ ءُ وْ بِغَضَبٍٍ مِِّنَ اللّٰہِ وَ ضُرِِ بَتْ عَلَیْھِمُ الْمَسْکَنَۃُ ذٰلِکَ بِاَ نَّھُمْ کَا نُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰ یٰتِ اللّٰہِ وَیَقْتُلُوْنَ الْاَ نْبِیَآ ءَ بِغَیْرِ ھَقٍّ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْ اوَّ کَا نُوْ ا یَعْتَدَُوْنَ (آل عمرآن :۱۱۲)’’یہ جہاں بھی پائے گئے اِن پر ذلت کی مارہی پڑی ،کہیں اللہ کے ذمے یا انسانوں کے ذمہّ میں پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے ۔ یہ اللہ کے غضب میں گھرچکے ہیں ،ان پر محتاجی ومغلوبی مسلط کردی گئی ہے اور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا ہے کہ یہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے رہے اور انہوں نے پیغمبروں کو ناحق قتل کیا ۔یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام ہے ۔‘‘
’’ یعنی دنیا میں اگر کہیں ان کو تھوڑا بہت امن وچین نصیب ہوا بھی تو وہ ان کے اپنے بل بوتے پر قائم کیا ہوا امن وچین نہیں ہے بلکہ دوسروں کی حمایت اور مہربانی کا نتیجہ ہے ،کہیں کسی مسلم حکومت نے ان کو خدا کے نام پر امان دے دی ،اور کہیں کسی غیر مسلم حکومت نے اپنے طور پر انہیں اپنی حمایت میں لے لیا ۔ اسی طرح بسا اوقات انہیں دنیا میں کہیں زور پکڑنے کا موقع بھی مل گیا ہے ،لیکن وہ بھی اپنے زورِ بازو سے نہیں بلکہ محض ’’ بپائے مردی ہمسایہ ‘‘۔ (تفہیم القرآن :۱/۲۸۰)
یہی حقیقت اس یہودی ریاست کی ہے جو اسرائیل کے نام سے محض امریکہ ،برطانیہ اورروس کی حمایت سے قائم ہوئی۔
اللہ رب العزت کے اس فرمان کی صداقت ابدی ہے ،اتنی بڑی دنیا میں یہودیوں کا کوئی ٹھور ٹھکانا نہیں رہا ، جہاں بھی تھے وہ بدیسی اور پردیس کی حیثیت سے تھے ،دنیا کے ہرخطے اور گوشے میں اکے دکے پھیل گئے،ان کو مظلوم جان کر سب نے بھر پور تعاون دیا ،ہمدردی اور دستگیری کی ،مقام ومنصب سے سرفراز کیا ،مگر یہ قوم اپنی فطرت سے مجبور تھی ،بدعہدی ،بدخواہی ،بے وفائی ،خود غرضی اور محسن کشی کی خصلت کے ہاتھوں محسنوں کو نقصان پہنچانے کے لیے سازشون کا جال بننے میں ہمہ تن مصروف ہوگئی ۔ ان کے رہنما ہدایات بھیجتے تھے کہ اپنی اولاد کو دین ،طب اور اقتصاد کے شعبوں میں داخل کراؤ،تاکہ دنیا کے تمام مذاہب میں شکوک وشبہات پیدا کرکے لوگوں کو مذہب بیزار کردیں۔ طب کے ذریعے غیر یہود کے جسم وعقل اور سوچنے کی طاقت اور تعمیری صلاحیت کو کمزور کریں اور اقتصاد میں مہارت حاصل کرکے ہر ملک کی معیشت کو تباہ برباد کرنے کا فریضہ انجام دیتے رہیں ۔
ان کی خفیہ تحریکوں کے خطوط پکڑے گئے ،ناپاک منصوبے ظاہر ہوے،میزبان اور مہربان ممالک زبردست بحران سے دوچار ہوئے ،توسب کی آنکھیں کھلیں ،مغرب کے عیار ذہن کو ان سے ہمدردی تو نہیں تھی اور ہمدردی ہو بھی نہیں سکتی ، کیوں کہ یہود ونصاری کے بنیادی عقائد آگ اور پانی سے بھی آگے ہیں ۔مریم اور عیسیٰ علیہما السلام کو عیسائی الوہیت کی بلندی تک پہنچاکر بھی بس نہیں کرتے ،اور یہودی ان دونوں کو پستی کے اس مقام پر لانا چاہتے ہیں اور ایسا گھناؤنا الزام دیتے ہیں کہ لکھتے ہوئے قلم کانپ جاتا ہے ،اور بولتے ہوئے زبان لڑکھڑانے لگتی ہے ، اس لیے قیامت تک دونوں کی دوستی کا سوال ہی نہیں ہوتا ،مگر وہ جو کہا جاتا ہے علی کی محبت میں نہیں ،معاویہ کی عداوت میں ہمیں یہ کر گزرنا ہے ،علی کا بھلا ہوجائے تو بلا سے ،ہمارے انتقام کی آگ تو ٹھنڈی ہوجائے گی۔مغرب کے دانشور سر جوڑ کے بیٹھے اور ایک تیر سے دوشکار کرنے کی ان مکار شکاریوں کی پرانی عادت ہے ،طے کرلیا کہ یہود کے مکروہ فریب ،شرارت اور سازش سے محفوظ ہونا ہے تو ان کو عربوں کے سروں پر مسلط کردینا چاہئیے،پھر ہم چین کی بانسری بجاتے رہیں گے اور عرب کبھی سر نہیں اٹھاسکیں گے،یہودی عربوں کے سینوں پر زندگی بھر مونگ دلتے رہیں گے ۔
غریب کی بیوی سب کی بھابی ،فلسطین کے عوام فریب ونکبت کا شکار تھے ،شاطر شکاریوں کی نظر اسی طرف گئی ۔یہود کی قدیم تاریخ اس سے وابستہ تھی اور ان کے مذہبی جذبات بھی اسی سے معلق تھے ،وہ بصد مسرت یہاں آبادکاری کے لیے آمادہ تھے ۔بیسویں صدی کے اوائل میں فلسطین دولت آل عثمان کا ایک حصہ تھا ۔شکاری ہر قسم کے جال کے ساتھ سلطان عبد الحمید کے دربار میں پہنچے، سلطان نے ان کی چال کو بھانپ لیا ،ذلت کے ساتھ انہیں بے نیل مرام واپس کردیا ،ارکانِ وفد کو اتنا سخت اور سست کہا کہ وہ مایوس ہو کر کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے ۔
۱۹۱۴ ؁ء میں پہلی جنگ عظیم کے شعلے بھڑکے ،ساری دنیا اس کی لپیٹ میں آگئی ،برے انقلابات بساط عالم میں رونما ہوئے ،مئی ۱۹۱۶ ؁ء کے ’’سایکس ییکو‘‘ معاہدے کے تحت برطانیہ کی جھولی میں ’’مرد بیمار‘‘ ترکی کا ترکہ آگیا اور یہود کی بن آگئی ،امید یں بندھ گئیں اور حوصلے بڑھ گئے ع
سیاں ہوئے کتوال اب ڈرکا ہے کا 
فارسی زبان کے شاعر نے بہت پہلے پتہ نہیں کیسے کہہ دیا ع
بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند
ہمارے شہر کے کفن چوروں نے قبروں کی تقسیم کے لیے ایک انجمن (یونین)بنالی ہے، بالکل اسی طرح فلسطین کی ایک اڈہاک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے اپنے دستاویزی دستور کے دوسرے پیراگراف میں اعلان کردیا ’’اڈہاک کمیٹی یعنی برطانیہ کی ذمہ داری ہے کہ فلسطین کی سیاسی ،اقتصادی اور سلامتی امور میں ایسے قوانین ہوں گے جو یہود کے قومی وطن کے نشو ونما کی ضمانت دیں گے۔‘‘
دستور کے پانچویں مادے کی عبارت ہے :’’یہود کی لائق جمعیت کو ایک عمومی جمعیت کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے گا ،وہ فلسطینی محکمہ کی اقتصادی اور اجتماعی امور وغیرہ میں مشیرومعاون کی حیثیت سے شریک رہے ،تاکہ یہود کے قومی وطن کی بنیاد میں اور یہودی باشندوں کے مسائل کی فلسطین میں نگران رہے ۔‘‘
یہ قوانین اور حقوق اس وقت محفوظ کیے جارہے ہیں جب فلسطین میں یہود کی آبادی ۶فیصد کے اندر تھی۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ بلفور (Balfour)نے ۲/نومبر ۱۹۱۷ ؁ء کو یہودی لیڈر( Rothschild)کو لکھا :’’اعلی حضرت کی حکومت فلسطین میں یہود کے ایک قومی وطن کی بنیاد کے لیے نظر کرم رکھتی ہے اور مہربان بھی ہے ۔ساتھ ہی یہ بھی ذہن میں رہے کہ وہاں ایسا کام انجام نہیں دیا جائے گا جو وہاں کی غیر یہودآبادی کے شہری اور مذہبی حقوق کو نقصان پہنچائے اور نہ ان حقوق اور سیاسی حالات کو جن سے یہودی دیگر ممالک میں بہروہ ور ہیں،چھیڑا جائے گا ۔‘‘
مورخ لکھتا ہے کہ آنکھوں میں دھول جھونکنا شاید اسی کو کہتے ہیں ،خالص مسلم ملک میں یہودی وطن کے قیام کا اعلان سب سے بڑا ظلم ،نقصان اور خیانت ہے ۔ اس کے قیام کے بعد یہ نہیں ہونا چاہیے ،وہ نہیں ہونا چاہیے،کھلونے دے کر بہلانے کی بات ہے ۔
ایک طرف یہ سب ہورہا تھا ،دوسری طرف عربوں کی تسلی اور تھپکی دی جارہی تھی کہ قومی وطن سے آپ لوگ یہ نہ سمجھ لیں کہ یہودیوں کی حکومت قائم ہونے جارہی ہے ۔یہ تو صرف ایک روحانی تعلق کے قیام کی بات ہے ،جیسے کرسچن کے لیے واٹیکان ہے اور مسلمانوں کے لیے مکہ، تاکہ یہود مذہبی اور ثقافتی آزادی کے احساس کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکیں۔ ۱۹۳۰ ؁ء میں برطانیہ کے نو آبادیاتی وزیر باسفیلد نے کتاب ابیض میں لکھ دیا کہ ’’ان سب تجاویز اور کارگزاریوں کا مقصد یہودی حکومت کا قیام ہرگز نہیں،کیوں کہ ایسی کوئی بھی بات یا اقدام عربوں سے کیے گئے عہد وپیمان کی خلاف ورزی سمجھی جائے گی۔‘‘
عرب حکومتوں سے صرف وعدے ہوتے رہے اور یہود سے وعدہ وفائی ہوتی رہی ،فلسطین کے اداروں میں یہودی اور یہود نواز انگریزوں کا تقرر زوروں پر شروع ہو گیا ،باہر کے یہودکو ہر قسم کا لالچ دے کر فلسطین میں آباد ہونے کی دعوت عام دی گئی ۔ ۱۹۱۶ء میں پچاس ہزار کے اندر یہودی آبادی تھی ،دیکھتے دیکھتے ۱۹۴۰ ؁ء میں پانچ لاکھ سے اوپر ہوگئی ۔اصلی عرب باشندوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے باہر کرتے رہے ،مسلمانوں کی جائیداد کو منہ مانگی قیمت دینے کے لیے دنیا کے گوشے گوشے میں گھوم گھوم کر فنڈس جمع کیے گئے ۔برطانوی حکومت بنفس نفیس اس مہم کی سرپرستی کرتی رہی ۔عربوں کے دلوں میں بھی مسلمانوں سے روپیہ پیسہ جمع کرکے فلسطینی مسلمانوں کو خوش حال بنانے کا خیال آیا ۔ ۱۹۳۳ ؁ء مین بیت المقدس میں اس سلسلے میں ایک عالمی اسلامی کانفرنس ہوئی ۔ہندوستان جو وفدآیا اس کی یہاں خوب آؤ بھگت ہوئی ،نظامِ حیدرآباد نے دس لاکھ روپئے،طاہر سیف الدین نے پانچ لاکھ روپیئے کا عطیہ دیا ،لاکھ دو لاکھ دینے والوں کے ساتھ ہزاروں میں دینے والے بے حساب تھے ،جلد ہی برطانیہ حکومت اس خطرے کو بھانپ گئی ،وائیسراکو سخت تاکید کی کہ اس کا روائی پر ہرممکن ذریعے سے پابندی لگائی جائے ،کیوں کہ یہ کام تاجِ برطانیہ کی سیاست کے بالکل خلاف ہے ۔
تاریخی حقائق بڑے تلخ ہیں۔ حکومت برطانیہ کے مظالم کی داستانِ ظلم وعدوان کافی دردناک ہے ،یہود کی زمینوں پر برائے نام ٹیکس رکھا گیا ،مسلمانوں کی زمینوں کا ٹیکس ضرورت سے زیادہ تھا ،عدم ادائیگی کی صورت میں زمین سے محروم کردیے جاتے تھے ۔اہم محکمے یہود کے حوالے کردیے گئے ،کلیدی مناصب پر وہی فائز ہوگئے ،اصلی باشندے اپنے ہی وطن میں اجنبی کی طرح کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ،چاروں اطراف مسلمانوں کی حکومتیں تھیں،سب خوابِ غفلت میں یا غرور ونخوت میں مست وسرشار تھے ،حساس اور غیرت مندوں نے جھنجوڑا تو وہی ہنوز دلی دوراست کا جواب دیا ۔دشمن کو بہت حقیر سمجھتے تھے ،کبھی کہتے ’’ان کے مقابلے میں ہمیں خون جلانے کی کیا ضرورت ہے ،ہم بارہ کروڑ سے زائد ہیں ،صرف ایک بار ادھر منہ کرکے دھوک دیں گے تو وہ سب ہمارے تھوک میں غرق ہوکر ختم ہوجائیں گے ‘‘۔ سمندر میں غرق کرنے کی بات آتی تو تحقیر کے ساتھ کہتے :’’ایسا نہ کرو ،ورنہ سمندر ہمیشہ کے لیے نجس ہوجائیں گے‘‘۔غرض عرب باتیں کرتے رہے اور یہودی تیاری کرتے رہے ۔گفتار کے غازی ہمیشہ منہ کھاتے رہے ہیں ،یہاں بھی یہی ہوا ۔ جون ۱۹۶۷ ؁ء میں اسرائیل نے عربوں پر حملہ کردیا ،گھنٹوں میں شام،لبنان،اردن اور مصر کی حکومتوں کو خاک چٹادی اور ایک بہت بڑے حصے پر قابض ہوگیا ۔ حملے کا رعب عربوں پر ایسا بیٹھا کہ اسے ناقابلِ تسخیر سمجھ بیٹھے ۔اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب کی جگہ ’’بیت المقدس ‘‘قرارپائی ،مسلمانوں کا قبلۂ اول اور مقاماتِ مقدسہ کی حرمت یہود کے ناپاک عزائم دیکھ کر کراہنے لگے ،اور دہائی دینے لگے۔
عرب حکمرانوں مین شیر ،چیتے ،ہاتھی نام کے بہت سے رہنما ہیں ،مگر ان میں کوئی معتصم ،محمد بن قاسم اور صلاح الدین نہیں ہے ۔امت جب ایسے جیالوں اور دلاوروں سے محروم ہوجائے گی تو ظلم وستم کے لیے تختۂ مشق ہی کا کام انجام دے سکتی ہے ۔آج کامرانی اور کامیابی کی ہرچیز دشمن کے ہاتھ میں ہے ۔ہمارے پاس کیا ہے ؟نہتے بیٹھے تماشہ ہی دیکھ سکتے ہیں ،یا شاعری کرسکتے ہیں کہ ’’مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی ‘‘ اور ’’نگاہ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں ۔‘‘
جدید اسلحہ تو دور کی بات ،قرطاس وقلم کی طاقت سے بھی ہم محروم ہیں ،ورنہ ظلم کا مظاہرہ نہیں تو مظلومیت کا نقشہ ہی کھینچ کر ماحول کو متاثر کرسکتے تھے ۔
شیخ سعدی ؒ کہتے ہیں کہ ایک شخص کے آگے بڑا خوبصورت آدمی آیا اور بتایا کہ وہ شیطان ہے ،دیکھنے والے نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟شیطان کا چہرہ تو انتہائی خوفناک اور مکروہ ہوتا ہے ۔شیطان نے بہت زور کا قہقہہ لگایا اور کہا ؂
بخندید وگفت آں نہ شکل منست ولیکن قلم درکفِ دشمن است 
میرا اصلی چہرہ تو یہی ہے جس میں میں ظاہر ہوا مگر قلم چوں کہ میرا دشمن کے ہاتھ میں ہے اس لیے وہ اپنی مرضی کے مطابق میری تصویر بناتا ہے ۔
میں نے ایک سنجیدہ اور تلخ مضمون میں یہ لطیفہ ہنسانے کے لیے نہیں رلانے کے لیے نقل کیا ہے ۔قلم (ذرائع ابلاغ)ہمارے ہاتھوں میں نہ ہونے کی وجہ سے 
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا 
فلسطینی مسلمان اپنے وطن میں اپنی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے ایک آدھ لٹیرے کو اس کی اوقات دکھائے تو اس کا نام ٹیررسٹ ،آتنگ واد،دہشت گرد کہلائے ،اور ایک لٹیرا معصوم ومظلوم کو اس کے گھرمیں گھس کر سارے اہل خانہ کے سامنے گولیوں سے بھون دے تو وہ بہادر اور جواں مردکہلائے۔ یہ سب زبان وقلم ہی کا تو کرشمہ ہے ۔داددیجیے اس بندر بانٹ کی اور دہرے معیار کی ،واہ رے انصاف ! ؂
بڑی مکار ہے یہ زعفرانی رنگ کی بلی 
میں سیدھی راہ چلتا ہوں تو رستہ کاٹ دیتی ہے
تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے میں نے کچھ تاریخی حقائق قلمبند کردیے ہیں ،سیاست میرا موضوع نہیں ہے ،کچھ کہنے کی جسارت کروں گا تو دخل درنا معقولات شمار ہوگا ،مگر دنیا یہ کہتی ہے کہ آج اسرائیل کے مقابلے میں مسلم حکومتوں کا سکونت کچھ خوف ودہشت کی وجہ سے ہے ۔یعنی اسرائیل کی طاقت کا خوف اورمغربی آقاؤں کی ناراضگی کا خوف ،کیوں کہ وہی ان کی کرسیوں کے محافظ سمجھے جاتے ہیں ،لیکن اصل سبب اتحاد کا فقدان اور مسلم بھائی چارے کا عدمِ احساس ہے اور اپنی اَنا کو قومی مفادات اور دینی ترجحات پر غالب کرنے کا ایک جنون ہے ۔ تجربہ نگار بتاتے ہیں کہ غزہ اسرائیل کے موجودہ حملے کی بابت مصرکی صدر حسنی مبارک کہتے ہیں کہ ’’ غزہ کے لیڈروں نے ہماری بات ٹھکرائی ،جس کی سزاوہ بھگت رہے ہیں ‘‘۔ اگر واقعہ یہی ہے تو مشورہ ٹھکرانے کی سزا اسرائیلی درندوں اور جلادوں سے کیوں دلائی جارہی ہے ؟؟ ایک چھوٹی غلطی کی اتنی بڑی سزا؟؟؟؟

قرآن وحدیث کی روشنی میں 
مسلمان اپنا جائزہ لیں 

مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری


برادرانِ ملت! اسلام کے بارے میں ہمارا جو یہ تصور ہے کہ یہ چند دعاؤں یا چند عبادتوں کا نام ہے یااس کا تعلق لباس وپوشاک سے ہے تو ایسی بات نہیں ہے ،جو اسلام کو صرف اتنا ہی سمجھتے ہیں وہ اس زندگی میں کوئی انقلاب نہیں لاسکتے اور نہ وہ ماحول پر اثر ہوسکتے ہیں ،اسلام تو ایک ایک پورے ماحول ومعاشرے کو تبدیل کرنے کا نام ہے ،ذہن ودماغ میں انقلاب واصلاح کا نام ہے ،آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ جب اسلام اس دنیا میں آیا تو زمانہ جاہلیت کے بے حساب رسم ورواج تھے ۔طرح طرح کے رسم ورواج اور اہام وخرافات میں وہ لوگ گھرے ہوئے تھے ،زندگی ان لوگوں کے لیے وبال اور مصیبت تھی اسلام نے جو انھیں تعلیم دی قرآن ان کے بارے میں کہتا ہے ’’ویضع عنہم اصرھم والأغلال التی کانت علیہم ‘‘کہ وہ مختلف زنجروں میں جکڑے ہوئے تھے ،ان کی گردن پر رسم ورواج کا بہت بوجھ تھا تو اسلام اسے ہٹانے کے لیے آیا آج ہمیں اپنے اسلام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔اور جب جائزہ لیں گے تو معلوم ہوگا کہ جو زمانۂ جاہلیت میں ان کا عقیدہ تھا آج ہمارا عقیدہ ان سے مختلف نہیں ہے ،بلکہ ہم نے انہیں چیزوں کو چن چن کرلیا ہے ،اسلام نے کن چیزوں کو مٹایا یہ ہم نے دیکھا بلکہ ہم نے دیکھا کہ اسلام آنے سے پہلے انسان کن عقائد ،کن خیالات اور کن معتقدات کا پابند تھا یہ کہ اس ملک کے اندر جو صحیح اسلام آیا اس کو ہم نے قبول نہیں کیا۔
سچی بات یہ ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات سے ایسای متاثر نہیں ہوئے جیساکہ ہم اس ملک کے ماحول سے متأثر ہوئے،ہمارے اس ملک میں جو کچھ ہوتا ہے ہم اسی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں مثلاً ہمارے ملک کے لوگ اگر ہر مہینہ ایک عید کرتے ہیں تو ہم نے بھی ضروری سمجھا کہ ماہانہ ایک عید منانی چاہئے، اسلام کہتا ہے کہ جاہلیت میں بھی اس قسم کی عیدیں تھیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صرد دو عیدیں ہیں جن میں خوشی منانے کا تمہیں حق پہنچتا ہے ۔اس تعلیم سے متأثر ہونے کے بجائے ہم اس ملک کے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ہر ماہ کتنی عیدیں مناتے ہیں اس کے مطابق ہم بھی چاہتے کہ محرم کی کوئی عید ہو صفر کی کوئی عید ہو، ربیع الاول کو کوئی عید ہو اور اسی طرح ہر مہینہ کوئی نہ کوئی عید ہوتی رہے ۔
گرض زمانہ جاہلیت کے لوگ کسی ایک مہینہ کو منحوس سمجھتے تھے اور اس ملک کا غیر مسلم بھی کسی ایک مہینہ کو منحوس سمجھتا تھا تو ہم بھی ضروری سمجھا کہ کسی ایک مہینے کو منحوس سمجھیں ۔اگر اس ملک کا باشندہ جو تعلیم سے بے بہرہ اور عقل ودانش سے دورہے اگر وہ کسی دن کو منحوس سمجھتا ہے تو ہم چاہتے ہیں کہ اس کے مقابلے میں ہم بھی کسی ایک دن کو منحوس سمجھیں ،سوچیے کہاں ہیں ہم اور کہاں ہے اسلامی تعلیم جب تک ہمارے ذہن ودماغ اس قسم کے اوہام وخرافات سے پاک نہیں ہوں گے اس وقت تک اسلام جن برکتوں کا وعدہ کرتا ہے اور جن رحمتوں کی یقین دہانی کراتا ہے کہ اپنے ماننے والے کو یہ عطا کرے گا ،اور اس اس طرح سے نوازے گا،تو یہ چیزیں ہمیں صرف چند عبادتوں کے اپنانے سے حاصل نہیں ہوسکتیں ۔
اپنے ذہن ودماغ سے ان تمام لعنتوں اور خرافات کو دور کرنا ہوگا جو ہمارے دماغوں میں بسے ہوئے ہیں ،مثلاً ماہ محرم کو ماتم کا مہینہ کہا جاتا ہے اور وہ ماہ صفر کو مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت منحوس سمجھتی ہے ۔آپ اندازہ لگائیے کہ وہ قوم کیسے ترقی کرسکتی ہے کہ جس کے سال کا پہلا مہینہ ماتم سے شروع ہوتا ہے ۔لوگ کہتے ہیں یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور اپنے آپ کو بہت مہذب بتاتے ہیں لیکن اپنی حرکتوں میں شیطانوں سے بدترہیں ،غرض ماتم کے ساتھ ہمارا سال شروع ہوتا ہے ،ہمارے اندر نہ کوئی حوصلہ ہے نہ کوئی استقلال، نہ کوئی امنگ ہے نہ لگن، بس ماتم ہی ماتم ہے ،اور اس کے بعد دوسرا مہینہ آتا ہے تو ہم نفرت کے ساتھ اس کا استقبال کرتے ہیں کیونکہ ہمارے عقیدے کے مطابق اس کے تیزہ دن بہت ہی منحوس ہوتے ہیں ان میں خیر وبرکت کا کوئی کام نہیں کرنا چاہئے ،حالانکہ یہ عقیدہ تو جاہلیت کے اندر تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ اس قسم کا عقیدہ غلط ہے تو انہوں نے توبہ کی تھی ار یہ بات ان کے ذہن ودماغ سے نکل گئی تھی ،آج ہمارے سامنے دو باتیں ہیں ایک تو یہ کہ جاہلیت کی طرح صفر کے مہینے کو منحوس سمجھا جائے اور دوسری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ،آپ نے فرمایا کہ ’’ لاھامۃ ولا عدویٰ ولا صفر ‘‘ لیکن افسوس کہ ہم زمانہ جاہلیت کے رسم ورواج کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر ترجیح دیتے ہیں اور پھر زمانۂ جاہلیت کا انسان بغیر کسی دلیل اور بغیر کسی حجت کے صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتا تھا تو آج ہم عقلی اور بے بنیاد دلائل پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسی مہینے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مرض کا حملہ ہوا تھا ،لہذا یہ مہینہ منحوس ہے حالانکہ ایسی باتوں کا دین وایمان سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
اگر آپ تحقیق کی نگاہوں سے دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ صفر کے ابتدائی دنوں میں آپ پر مرض کا حملہ نہیں ہوا تھا اور حدیث وتاریخ کی تمام معتبر کتابوں میں یہی ہے بلکہ حقیقت یوں ہے کہ صفر کے آخری دنوں میں آپ پر بیماری کا حملہ ہواتھا لیکن ہمارے یہاں جو سرسری علم ہے وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری چہارشنبہ کو صحت یاب ہوئے تھے اس لیے ہمارے یہاں کے لوگ اس دن گھروں سے باہر نکلنے کو بہت متبرک سمجھتے ہیں ۔
اس مہینے کو منحوس سمجھتے ہوئے کوئی مسلمان شادی بیاہ کرنا نہیں چاہتا ،اس میں کوئی کاروبار شروع کرنا نہیں چاہتا تو کیا یہ دنیا اور سارے کام انسان کے خیالات کے تابع ہیں، کتنے کام ہیں کہ انسان نہیں چاہتا لیکن وہ ہوتے ہی رہتے ہیں ،آپ واقعی اگر ان تیزہ دنوں کو منحوس سمجھتے ہیں تو انھیں دونوں میں کوئی اولاد پیدا ہو تو کیا اس کی پرچھائیں کو منحوس سمجھیں گے ؟ ان تیرہ دنوں میں کتنے مریضوں کو صحت ملے گی، کتنے لوگوں کو ترقی کا پروانہ ملے گا ،انسان اپنی آنکھیں کھلی رکھے کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اللہ کے حکم سے ہورہا ہے ، انسان کو جو نفع ونقصان ،صحت وبیماری ،عزت وذلت جو کچھ بھی ملتی ہے وہ سب اللہ کے حکم سے ہے اور وہ بہت پہلے لکھا جاچکا ہے ۔
مسلمان اپنے اسلام پر ناز کرتا ہے اور جہاں کہیں اسلام کے خلاف بات سنتا ہے تو جان ہتھیلی پر رکھ کر نکل پڑتا ہے یہ سب قابل قدر ہے لیکن اسے سب سے پہلے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہئے ۔ اسلام وہی ہے جو قرآن میں ہے اور سنت سے چابت ہے اس کی ہر بات روز روشن کی طرح عیاں ہے ،آپ نے فرمایا کہ ’’لیلھا کنھارھا‘‘ یہ بات اندھیرے کی نہیں ہے اس میں کوئی خفیہ اور پیچیدہ بات نہیں ہے بلکہ ہر بات سمجھ میں آنیوالی ہے اس کی پوری تعلیمات کو سمجھ کر اس کے مطابق زندگی بسر کرنی چاہئے ہمیں اپنے پڑوسیوں اور ماحول کے باشندوں کے ساتھ مقابلہ نہیں کرنا چاہئے کہ ان کے کتنے معبود ہیں ان کی عبادتوں کے کیا کیا طریقے ہیں،وہ کن کن چوکھٹوں پر اپنی پیشانی رگڑتے ہیں ،ان کے کیا کیا تماشے ہیں اور اگر یہ اپنی عیدمیں آتش بازی کرتے ہیں تو ہم بھی شب براء ت میں ضرور آتش بازی کریں۔ ان ہی سب غلط باتوں کی وجہ سے ہم اسلام سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔
اللہ نے اپنی جن نعمتوں کو اپنے ماننے والوں پر ظاہر کیا وہ فقیر تھے کنگال تھے مفلش تھے اور کسی چیز کے مالک نہیں تھے لیکن جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو اللہ نے انہیں تخت وتاج کا وارث بنادیا اور سربلند وباعزت بنادیا اور ہر چیز کا انھیں مالک بنادیا وہی اسلام ہمارے پاس بھی ہے لیکن افسوس کہ ہم پورے اسلام پر عمل کرنے کے بجائے صرف اسلام کی چند چیزیں جو ہمیں پسند آتی ہیں انھیں پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور اسلام کو اس کے اصل سے حاصل کرنے ے بجائے اپنے آباء واجداد کے رسوم ورواج کو اسلام سمجھ لیا حالانکہ اسلام ان تمام رسوم ورواج سے بری ہے ۔
دوستو! اسلام نے جو وعدہ کیا ہے اور اللہ نے جو وعدہ کیا ہے ہمیں اس کا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس دنیا میں سب سے بلند رکھنا چاہتا ہے جیساکہ فرمایا ہے ’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس ‘‘ اس کے لیے ہمیں ضروری ہے کہ اپنی کمزوریوں کی اصلاح کریں اور سب سے پہلے ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں کہ ہماری زندگیوں میں کیا کیا برائیاں ہیں انھیں ختم کریں اور پھر معاشرے سے ان کا خاتمہ کریں ،اگر ایسا ہوسکا تو آج مسلمان کے لیے وہی سربلندی انتظار کرتی ہے جو کبھی مسلمانوں کا نصیب اور ان کا مقدر تھا، اگر ہم نے صحیح اسلام کو نہیں اپنایا اور اپنے ذہن سے گھر سے ماحول اور معاشرے سے ان اوہام وخرافات کا خاتمہ نہیں کیا تو کبھی بھی ہم اللہ کی رحمت کے مستحق نہیں ہوسکتے اس ملک میں عزت وشرف کے ساتھ نہیں جی سکتے اور دنیا کے امام وقائد بن سکتے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان تمام اوہام وخرافات سے محفوظ رہنے اور اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا کرے ، آمین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کھیت سوکھ گیا .......کامقدمہ


یہ کھیت سوکھ گیا .......کامقدمہ

مقدمہ

خواجہ معین الدین 
مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی کا نام ادبی حلقوں میں بہت احترام سے لیا جاتا ہے،مولانا گم نامی کو پسند کرتے ہیں ،اس لیے شہرت کے کاموں سے بہت دور دور رہتے ہیں ،بہت عرصے بعد مولانا کی ایک کتاب ارض حرم میں پہلا قدم شائع ہوئی تھی جس میں حرمین کے تعلق سے اپنی یادداشوں کو مولانا نے قید تحریر میں لایا تھا ،ماہنامہ راہ اعتدال میں مولانا کے ادبی اور دینی مضامین عموماً شائع ہوتے ہیں ،آپ کی تحریروں میں جو ادبی چاشنی اور حلاوت ہے وہ بہت کم لوگوں کو میسر ہوتی ہے ،زبان وبیان پر آپ کی قدرت فطری بات ہے۔
مولانا اردو کے ساتھ عربی زبان بولنے اور لکھنے پر بھی قادر ہیں ،آپ بولتے ہیں تو لگتا ہے جیسے کوئی عرب بول رہا ہے ،مولانا کے چند دینی مضامین بھی اس کتاب میں شامل کرلیئے گئے ہیں ،تاکہ مردرِ زمانہ کی دست وبرد سے محفوظ ہوجائیں ،آپ نے جن شخصیات کی وفات پر نثری مرثیے تحریر فرمائے ہیں ،انہیں بھی شامل کتاب کیا گیا ہے ،ان میں قابل ذکر فضا ابن فیضی ،ڈاکٹر ازہری ،کاکا عمر ،شیخ بن باز،کاکا شاہد قابل ذکر ہیں ،مولانا کس کی خوبیاں گناتے ہیں تو اس میں مبالغے سے کام نہیں لیتے،جہاں تک ہوسکے ،حق بات کہنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔
اپنے مضامین کا انوکھا عنوان رکھنا آپ کا امتیاز ہے ،جیسے چند عناوین بطور مثال دیکھیں :
شاہد جاں باز
یہ کھیت سوکھ گیا بادلوں کی بستی میں 
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن۔۔۔۔۔۔
قسمت میں مری کتنے عزیزوں کے ہیں ماتم
اک کارواں کو چھوڑکے رہبر چلا گیا
ساحل سے طوفاں تک
ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی
مولانا بہت نرم مزاج کے مالک ہیں ،آپ نے مشہور زمانہ اخبار ’’مدینہ ‘‘ میں بھی کچھ دن کے لیے کام کیا تھا ،’’مدینہ ‘‘ کے علاوہ دعوت میں بھی چند دن کام کرنے کا آپ کو موقع ملا ،آپ نے عربی زبان کی چند بہترین کتابوں کا اردو ترجمہ بھی کیا ہے ،طہ جابر علوانی کی مشہور کتاب ادب الاختلاف فی الاسلام کا ترجمہ آپ کے قلم کامرہون منت ہے ،یہ کتاب رابطہ عالم الاسلامی سے بار بار شائع ہوئی اور لاکھوں کی تعداد میں تقسیم ہوئی۔
الغز والفکری ایک کتاب ہے اس کا بھی آپ نے ترجمہ فرمایا،آپ نے غلام رسول مہرؔ سے ایک لمبے عرصے تک خط وکتابت کی ،غبار خاطر کی طرز پر آپ نے غلام رسول مہر کی خود نوشت بھی ترتیب دی تھی ،مگر اب اس کا پتہ نہیں کہ کہاں کھوگئی ،آپ طہ حسین کے بڑے مداح تھے ،ان کی تحریروں کو مسلسل پڑھاکرتے تھے ،ان کے اسلوب کو پسند کرتے تھے ،مگر جب سے مصطفی صادق رافعی کی کتابیں پڑھیں ،طہ حسین کی خامیاں نظر آئیں اور طہ حسین کو آپ نے رد کردیا۔
آپ کے اسلوب کی لطافت ونزاکت دیکھنے کے لیے چند مثالیں پیش کرنا چاہوں گا :
(۱) ’’اشخاص واعلام کی خوبیوں ،نیکیوں اور ان کی مخلصانہ خدمات سے متأثر ہوتے ہیں ،تو ان کی سوانح بیان کرنے کے لیے قلم اُٹھاتے ہیں ،انھیں اس کی مطلق پرواہ نہیں ہوتی کہ ان کا ممداح ان کا ہم مسلک ،ہم مشرب،ہم خیال ہے یا بالکل ان سے مختلف ہے ،کرائے پر لکھنے والے اپنے ذاتی تأثر کو باہر رکھ کر گوناگوں افراد کی سوانح عمریاں مکمل کرسکتے ہیں ۔‘‘
شورش کاشمیری کی تصانیف پر اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا نے لکھا ہے :
’’شورش کی پرورش،کیا بچپن کیا جوانی ،بے بسی کے ڈیرے اور کمپرسی کے سائے میں ہوئی ،اپنی تصانیف میں خود ہی ان باتوں کا برملا افراد وظہار کرتے ہیں ،سنگین حالات کی تصویر ایسے الفاظ میں کھینچتے ہیں کہ حساس قاری کے لیے آنسو روکنامشکل ہوجاتا ہے ‘‘
مولانا نے’’ عمرآباد میں علم وادب کی روایت ‘‘ کے بعنوان مضمون نہایت مختصر طور پر جامع الفاظ میں عمرآباد میں علمی روایات اور ادبی روایات پیش کی ہیں ،عمرآباد کے بڑے بڑے علما اور شعرا اور ان کی شاعری پر مختصر طور پر روشنی ڈالی اور ان کے محاسن وامتیازات بیان کیے ہیں 
مولانا کی زبان سادگی وپر کاری کی عمدہ مثال ہے ،تعقیدسے مولانا کو چڑ ہے ،جو کہنا چاہتے ہیں برملا اور صاف طور پر کہتے ہیں ،اس میں کس طرح کے تکلف کوحارج ہونے نہیں دیتے ،وضاحت وصفائی آپ کی تحریروں کی خوبی ہے ،اپنے موضوع سے متعلق کی طرح کی تشنگی نہیں چھوڑتے ،ہر زاوئے سے مکمل ومدلل تحریر کرنا آپ کی خاصیت ہے ۔
’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے ‘‘ علامہ البانی اور ان کے کارناموں پر لکھا گیا مضمون ہے ،اس میں علامہ البانی کے حوالے سے مشہور واقعات بھی موصوف نے پیش کیے ہیں ،علامہ البانی پر موصوف اس لیے صحیح بات لکھ سکتے ہیں کیونکہ موصوف آپ کے شاگردتھے ۔علامہ البانی سے استفادہ کرنے کا شرف مولانا حفیظ الرحمن اعظمی کو ملا ۔
موصوف کی نثر میں اچھی نثر کی تمام خوبیاں اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ جلوہ ریزہیں ،اچھی اور معیاری نثر لکھنا ہر کس کے بس کی بات نہیں ہے ،آپ جیسی شخصیات کا دم اردو ادب کے لیے غنیمت ہے ،مولانا آزاد کی تحریروں سے آپ متأثر ہیں ،تحریر کے بیچ میں عربی واردو اشعار ایسے پروتے ہیں جیسے ایک ہار میں موتیاں پر وئی جاتی ہیں مولانا کے اسلوب کا تبتع کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہے ۔
مولانا کی تحریروں کا یہ دوسرا مجموعہ ہے جو شائع ہونے جارہا ہے ،اس کتاب کی اشاعت کے بعد ان شاء اللہ مولانا کا دیگر تحریروں کو بھی کتابی شکل دی جائے گی۔
والسلام
دعاگو
خواجہ معین الدین

جرأت مند شہزادہ



جرأت مند شہزادہ
ایس۔ایم۔ظفر
چاروں شہزادوں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا تھا۔ شہنشاہ پریشان تھا کہ کس شہزادے کو اپنا ولیعہد مقرر کرے اس نے ایک دن اپنے سبھی درباریوں کو طلب کیا اور ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا۔ شہنشاہ خود اپنے بڑے بیٹے کو چاہتا تھا لیکن اس کی خواہش یہ بھی تھی کہ تمام درباری اتفاق رائے سے ولیعہد کا انتخاب کریں۔ درباریوں کو بھی یہ بات معلوم تھی مگر وہ اپنے منھ سے کسی ایک شہزادے کا نام لیکر باقی شہزادوں کی مخالفت مول لینا نہیں چاہتے تھے۔ بہت سوچ کر قاضی نے جو سب سے سمجھدار انسان تھا اور اکثر ایسے مشکل فیصلوں سے دوچار ہوتا رہتا تھا شہنشاہ سے پوچھاکہ وہ خود کس شہزادے سے زیادہ محبت کرتا ہے؟ اب پھر کہانی بادشاہ کے پالے میں آگئی۔ بادشاہ بھی سمجھدار انسان تھا۔ اس نے سوچ کر فیصلہ کیا کہ دربار ہال خالی کیا جائے اور چاروں شہزادوں کو طلب کیاجائے اور ان سے کہا جائے کہ وہ خالی دربار ہال میں جو نشست بھی اپنے لئے پسند کریں اس پر بیٹھ جائیں۔ اور ہم سب باہر سے یہ دیکھیں گے کہ کون شہزادہ کس نشست پر بیٹھنے کی ہمت کرپاتا ہے اس سے شہزادوں کی ذہانت کا صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔درباریوں کو یہ تجویز پسند آئی۔ تمام شہزادوں کو طلب کیا گیا اور ان سے یہی کہا گیا۔ پہلے تو شہزادے بغیر شہنشاہ کی عدم موجودگی میں دربار میں جانے سے کچھ پریشان ہوئے لیکن جب شہنشاہ نے اصرار کیا تو شہزادے دربار ہال میں داخل ہوگئے۔ دربار ہال میں داخل ہونے سے قبل ایک شہزادے سوال کیا’’بابا حضور جب ہم کسی نشست پر بیٹھ جائینگے تو جب اس نشست پر بیٹھنے والا شخص جب دربار میں آئیگا تو کیا ہم کو اٹھادیا جائیگا۔‘‘
’’ہرگز نہیں۔‘‘شہنشاہ نے جواب دیا۔
شہزادوں نے دربار میں داخل ہونے کے بعد تمام نشستوں پر ایک نظر ڈالی۔ ابھی شہزادے نشستوں کو دیکھ ہی رہے تھے کہ بڑا شہزادہ آگے بڑھ کر وزیر اعظم کی نشست پر بیٹھ گیا۔ دوسرے شہزادے نے سپہ سالاراعظم کی نشست پر قبضہ کرلیا۔ اب بھی دو شہزادے باقی تھے اور اعلیٰ عہدیداران کی نشستوں میں سے صرف ایک نشست قاضی کی بچی ہوئی تھی۔ یہی وہ تین نشستیں تھیں جن پر بیٹھنے والے اپنے معاملات میں صرف شہنشاہ ہی کو جوابدہ تھے۔ ایک شہزادے نے بڑھ کر قاضی کی نشست حاصل کرلی۔ اب اعلیٰ عہدیداران کی سب نشستیں بھر چکی تھی اور ایک شہزادہ باقی تھا۔ یہ وہ شہزادہ تھا جس نے دربار میں داخل ہونے سے قبل شہنشاہ سے سوال کیا تھا۔
شہزادہ آہستہ آہستہ انتہائی پروقار انداز میں قدم اٹھائے ہوئے آگے بڑھا اور پھر چشم زدن میں شہنشاہ کے تخت پر جلوہ افروز ہوگیا۔ باقی شہزادے نے اس حرکت پر ناراضگی کا اظہار کیا اور بدتمیزی سے تعبیر کیا۔
اس شہزادے نے کہا تم سب عہدیداران کی نشستوں پر بیٹھے میں نے تو کسی پر اعتراض نہیں کیا۔
لیکن ہم نے بابا حضور کے تخت پر بیٹھنے کی جرأت تو نہیں کی۔ بڑے شہزادے نے غضبناک نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
شہزادے نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: ’’اس میں ناراضگی کی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ نے ٹھیک ہی فرمایا کہ آپ میں بابا حضور کے تخت پر بیٹھنے کی جرأت نہیں ہے اور نا ہی آپ یہ جرأت کرسکتے ہیں۔
اسی وقت شہنشاہ اپنے تمام درباریوں کے ساتھ دربار ہال میں داخل ہوا۔ اس کی پہلی نظر اپنے تخت پر ہی گئی جس پر ایک شہزادہ جلوہ افروز تھا شہنشاہ نے اپنے درباریوں سے پوچھا: ’’شہزادوں کی نشستیں دیکھ لیں آپ حضرات نے؟‘‘ ’’جی ہاں! عالی جاہ‘‘
اس کے بعد کسی اور سے کچھ کہے بغیر شہنشاہ نے دربار برخواست کردیا۔
یہ شہنشاہ شاہجہاں اور شہزادہ اورنگ زیب تھا۔

اسلام پسندادیب



اسلام پسندادیب
محمد رفیع الدین مجاہدؔ 
میں اسلام پسند ادیب ہوں ۔لکھتا ہوں، خوب لکھتا ہوں اور خوب چھپتا بھی ہوں۔بچّے جن میں اسکول کے طلبہ ہوتے ہیں اور کالج کے طلبہ بھی میرے پاس آتے رہتے ہیں۔ کبھی تقریر لکھوا کر لے جاتے ہیں تو کبھی مضمون کے لئے بے حد اصرار کرتے ہیں۔ وہ اس وقت آتے جس وقت ان کی اسکول یا کالج میں کوئی فنکشن یا پھر سیرت النبیؐ پر جلسہ ہوتا ہے۔ دوتین ردز قبل آتے ہیں مگر جلد سے جلد کوئی تقریر یا مضمون لکھ کردینے کی فرمائش کرتے ہیں۔ صبح آئیں گے تو کہیں گے ’’بس شام تک لکھ کر دیجئے۔ بڑا احسان ہوگا۔‘‘معمول کے مطابق میں غصّہ ہوجاتا ہوں۔
تمہیں اب ہوش آرہا ہے؟ ایک ہفتہ قبل آنا چاہیے تھا! وقت پر سب گڑبڑہوجاتی ہے۔ اتنی جلدی میں تمہیں کچھ لکھ کر جو معیاری بھی ہو اور تمہیں انعام و اعزاز کا حق دار بھی بنادے،کیسے اور کیوں کر لکھ کردے سکتا ہوں؟ میرا دماغ کوئی کمپیوٹر تو ہے نہیں اور نہ ہی میری انگلیاں ٹائپ رائٹر کی طرح کام کرتی ہیں!‘‘لیکن وہ بھی معمول کے مطابق ممنانے لگتے ہیں اور پھر میری تعریفیں شروع کر دیتے ہیں۔’’آپ تو یوں ہیں۔۔۔تیوں ہیں۔۔۔فلاں ہیں۔ اور آپ ۔۔۔’’بس۔۔۔!‘‘میں انہیں ڈانٹ دیتا ہوں۔ ’’فضول تعریفیں نہ کرو۔ میں لکھ دوں گا۔وہ خوش ہوجاتے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح میں اپنی شرط رکھتا ہوں کہ تقریر یامضمون میں تمہیں جو کچھ لکھ کردوں گا اس کی فوٹو کاپی مجھے فوراً لاکردینی ہوگی۔ وہ اس لئے کہ جب کبھی اس تقریر یا مضمون کی مجھے ضرورت محسوس ہوتو دوبارہ الفاظ یاد کرنے نہ پڑیں۔ آخر ایک مرتبہ کا لکھا لکھنے والا بھلا کب تک یادرکھے گا؟ اس کا دماغ کمپیوٹرنہیں کہ جب چاہا اور جو چاہا فوراً اگلوالیا۔ نقل کی ضرورت دو طرح سے پڑسکتی ہے۔ ایک اگر مہینے یاسال بھر کے بعد اس تقریر کو کسی اور نے مانگا تو فوراً اسے دے سکوں ۔ دوسرے اسے کسی اخبار یارسالہ میں بہ غرض اشاعت بھیج سکوں۔ کیوں کہ مضمون نویسی کے مقابلے میں یا تقریری مقابلے میں بھلے ہی میرے لکھے کو فرسٹ پرائز مل جائے۔ مگر چوں کہ میں ادیب ہوں اس لئے جب تک میرا لکھا چھپ نہیں جاتا، مجھے سچی خوشی نصیب نہیں ہوتی۔ اسے میری مجبوری کہہ لیجئے یا مجھ جیسے تمام ادیبوں کی۔
میں مانگنے والے کے معیار کوملحوظ رکھتے ہوئے تقریر یا مضمون کا معیار مقرر کرتا ہوں اور صرف انہی کو دیتا ہوں جو باصلاحیت ہوں اور کچھ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ ورنہ جنہیں یاد ہی نہ ہواور جو یاد کرکے بھی حرکات وسکنات کا مظاہرہ نہ کرسکیں اور نہایت بونے ثابت ہوں۔ اُنہیں میں ٹال دیتا ہوں۔ ایسی بات نہیں کہ میرا لکھا فرسٹ، سیکنڈ، تھرڈ یا امتیازی انعام حاصل نہیں کرتا ہے بلکہ زیادہ تر فرسٹ پرائز ہی حاصل کرتا ہے میرا لکھا ہوا ضائع نہیں جاتا، خدا کا شکر ہے۔ میں آٹھویں تا دسویں اور گیارہویں تا سینئر کالج کے بچوں اور لڑکوں کو ہی اکثر تقریر یا مضمون لکھ کردیتاہوں۔ پرائمری کے بچوں کو بالکل نہیں دیتا کہ پھر انہیں کون یاد کرائے گا؟ پانچویں تا ساتویں کلاس کے بچوں کو کبھی کبھار ہی کچھ لکھ کردیتا ہوں۔ مختصراً یہ کہ جو میری فصیح وبلیغ اردو اور معیاری زبان وبیان کو سمجھنے اور سمجھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں اُنہی کو میں کچھ لکھ کر دیتا ہوں اور اُن سے کچھ لیتا ہوں۔ اصل کاپی کی ایک نقل کاپی!
مجھے یاد آتا ہے کہ دسویں کے ایک لڑکے کو میں نے تقریر لکھ کردی تھی۔ اس نے پوری کوچنگ کلاسیز کے مقابلے میں فرسٹ پرائز حاصل کیاتھا۔ وہی تقریر دوسرے سال ایک لڑکی کو دی تو اس نے کمال کردیا۔ شہری سطح پر فرسٹ پرائز حاصل کیا۔ اسی طرح بہت سارے مواقع آتے رہتے ہیں۔
چند روز قبل ہی کی تو بات ہے۔ میرا بھانجا، جو نویں کلاس میں پڑھتا ہے بھاگا بھاگا میرے پاس آیااور مجھے شیلڈ، سرٹیفکٹ اور دوسری انعامی چیزیں دکھانے لگا۔ وہ بہت خوش تھا۔ اسے پہلا انعام ملاتھا۔ شہری سطح پر سیرت النبیؐ پر جلسہ ہوا تھا اور سبھی کے دو دو بچے اس میں شریک ہوئے تھے۔اسی جلسہ میں دسویں اور بارہویں میں میرٹ اور فرسٹ آنے والے طلبہ کا اعزاز بھی کیا گیا تھا۔ اچھاخاصا بڑا جلسہ ہوا تھا۔ میرے بھانجے کو وہ تقریر میں نے ہی لکھ کردی تھی اور حرکات وسکنات کے ساتھاسے تھوڑا بہت تیار بھی کیا تھا کہ یہ گھر کا بچّہ تھا اور پھر گویا میری ناک کا بھی سوال تھا۔ اس کی تقریر کا عنوان تھا اسلامی دہشت گردی کا پروپگینڈہ اور حضرت محمدؐ کی دعوت۔
جلسہ کی نوعیت منتظمین نے مجھے پہلے ہی بتا دی تھی۔ صدارت شہر کے مفتی کررہے تھے۔ اور مہمانانِ خصوصی کی شکل میں شہر کے مشہور ومعروف ہندی اخبار کے مقامی ایڈیٹر تھے۔ لہٰذامیں نے اس تقریر کو سادہ وسلیس زبان میں منتقل کردیا تھا اور جابہ جا ہندی زبان کا بھی استعمال کیا تھا۔ مفتی صاحب مہاپور اور ایڈیٹر صاحب نے اپنی اپنی تقاریر میں اس تقریر کا خصوصی نوٹس لیا تھا اور حالاتِ حاضرہ پر اس تقریر کی افادیت کو اجاگر کیا تھا۔ حیرت اس وقت ہوئی جب دوسرے دن کے اسی ہندی اخبار میں میری لکھی تقریر کی بنیاد پر خبر شائع ہوئی تھی۔ جب کہ چند نکات پر اعتراض کے تحت مختصراً بحث بھی کی گئی تھی۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مجھے خوش ہونا چاہیے جب کہ میں تو متفکر ہونے لگا ہوں۔ اس لئے کہ میری شناخت ایک اسلام پسند ادیب کی حیثیت سے ہے میری تحریروں کی اشاعت ان پر ملنے والے اعزازات اور میری تحریر کردہ نگارشات پر طلبہ کو ملنے والے اعزازات میرے اندر خود ستائی اور خود نمائی کا جذبہ پیدا کررہے ہیں۔ میرے اندر احساس برتری پنپ رہا ہے۔ میرے لکھئے ہوئے کو بے شک انعامات واعزازت مل رہے ہیں مگر روزِ محشر مجھے اس پر انعام نہ مل سکا تو اگر مجھ سے پوچھا گیاکہ نبیؐ کی سیرت پر تو خوب لکھتا تھا اور اس پر انعامات بھی ملتے تھے۔ لیکن عمل کتنا کرتا تھا؟ تو میں کیا جواب دوں گا؟ اگر مجھ سے پوچھا گیا کہ:
ان تحریروں کا مقصد کیا تھا۔ نام نمود، شہرت اور عزت کا حصول یا اللہ کے بندوں کی اصلاح، دعوت وتبلیغ، دوسروں کی مدد؟ تو میں کیا جواب دوں گا؟ میں اسی لئے متفکر ہوں اور بہت دیر سے سوچ رہا ہوں۔

احسان کے ہاتھوں


احسان کے ہاتھوں
سعید ریاض
شارق کئی دن سے بہت پریشان تھا۔ اس کی ذراسی غلطی نے اُسے اس طرح الجھادیا تھا کہ وہ جتنا سوچتا ڈور اتنی ہی الجھتی جارہی تھی۔۔۔وہ کیا کرے؟ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ گزرے وقت کا ایک ایک لمحہ اس کے احساس کو زخمی کررہا تھا۔ اُسے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی اس سے کہہ رہا ہو شارق جذبات اور اُجلت میں کئے گئے فیصلے کبھی کبھی کربناک ہوجاتے ہیں کاش! تم اپنے دوست انور کا مشورہ مان لیتے۔ تم نے اس کی صحیح بات ٹھکرادی اور پھر غلط ہاتھوں میں پھنس گئے۔ اس بات پر شارق کو یاد آیا کہ ایک بار اس کے ابو نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہاتھا۔۔۔
’’شارق بیٹا بُرے لوگوں کا ساتھ بھی بُرا ہوتا ہے ہمیشہ اچھے لڑکوں کے ساتھ رہا کرو۔ اس لئے کبھی کبھی بُرے لڑکوں کی صحبت میں رہنے سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔‘‘
آج اسے اپنے ابو کی بات کی سچائی بھی معلوم ہوگئی تھی۔ شارق نے جذبات اور جلد بازی میں کالج کے ایک بدمعاش لڑکے جاوید سے ایک معاملے میں مدد لی تھی اور یہی شارق کی غلطی تھی۔اس لئے کہ اب جاوید اپنی ذرا سی مددکی بھر پور قیمت وصول کررہا تھا۔
شارق مقامی انٹر کالج میں دسویں کلاس کا طالب علم تھا۔ کالج میں اس کے کئی دوست تھے مگر انور اور صادق اس کے جگری دوست تھے۔صادق ایک غریب لڑکا تھا۔بہت ذہین اسے اپنی پڑھائی جارہی رکھنے کے لئے کبھی کبھی بہت پریشانی اٹھانی پڑتی تھی۔ وہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے چھوٹے بچوں کی ٹیوشن کرکے اپنا خرچ چلاتا تھاکچھ اس کے ابو کرتے تھے وہ مزدور تھے۔ انہیں کبھی کبھی کئی کئی دن مزدوری سے محروم رہنا پڑتا تھا۔ شارق رحم دل لڑکا تھا دوسروں کی مدد کرنا اس کی عادت تھی۔ ایک دن وہ کالج آیا تو اس نے اپنے دوست صادق کو کچھ پریشان دیکھا۔ تو اس نے صادق سے پوچھا۔
’’کیا بات ہے صادق! آج بہت پریشان نظر آرہا ہو؟‘‘
’’کچھ نہیں!‘‘ صادق اتنا کہہ کر خاموش ہوگیا تھا مگر شارق نے محسوس کیا کہ صادق کی آنکھوں میں آنسوآگئے تھے یہ دیکھ کر شارق کو اور دکھ ہوا اس نے پھر اس سے کہا۔
’’صادق تم میرے دوست ہو، دوستوں سے دکھ چھپائے نہیں جاتے۔ مجھے بتاؤ کیا بات ہے۔ میں جس قابل ہوں تمہاری مدد کروں گا۔‘‘
’’شارق بات یہ ہے کہ ۔۔۔صادق اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکا اور خاموش ہوگیا۔ اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ وہ کچھ کہنا چاہتا چھا مگر نہ جانے کیا بات تھی کہ دل کی بات زبان پر نہیں آرہی تھی۔ اس پر شارق نے اس سے کہا۔
’’دیکھو دوست!اگر ایک دوست پریشانی میں اپنے دوست کا ساتھ نہ دے تو وہ دوستی بیکار ہے۔ تم بے جھجک کہو۔‘‘شارق کی اس بات پر اس نے بڑی مایوس نظروں سے اس کی جانب دیکھا اور بولا۔
’’شارق!مجھے اس وقت کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔‘‘
’’کتنے پیسوں کی؟‘‘ شارق نے پوچھا۔
’’صرف سوروپیہ کی۔‘‘ تو اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے اللہ مددگار ہے۔ شارق نے صادق کو تسلی دیتے ہوئے کہا ۔’’شام کو تمہیں مل جائیں گے۔‘‘
’’تمہارا بہت بہت شکریہ ! شارق تمہارے پیسے ایک ہفتہ میں لوٹا دوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے صادق ۔ پیسے وقت پر ہی لوٹانے کی کوشش کرنا چونکہ میں یہ پیسے تمہیں کسی سے لے کردوں گا۔‘‘
اس بات کو ایک ماہ گزرگیا ۔ مگر صادق پیسے نہیں لوٹاسکا۔ وہ اپنی کوئی نہ کوئی مجبوری ظاہر کرتا رہا اور حقیقت بھی یہی تھی کہ صادق نے جس بھروسہ پر قرض لیا تھا وہاں سے پیسے ملنے میں دیر ہوگئی تھی۔ اس کے ابو جہاں کام کررہے تھے وہاں سے بھی مزدوری نہیں ملی تھی۔ مگر شارق کو اب شک ہونے لگا تھا کہ شاید صادق پیسے دینا نہیں چاہتا۔ وہ ٹال رہا ہے۔ اسی بات کو سوچ کر وہ پریشان تھا۔
ایک دن شارق بہت صبح اسکول پہنچ گیا تھا تاکہ وہ صادق سے پیسوں کی بات کرلے۔ آج وہ کچھ پریشان ساتھا۔ وہ کلاس کے باہر کھڑا کچھ سوچ رہاتھا کہ ۔۔۔ ایک ساتھی طاہر آگیااور اس نے شارق سے کہا ’’آج تم کالج بہت پہلے آگئے ۔ کیا بات ہے؟‘‘اس پر شارق نے اسے ساری بات بتائی اور بولا۔۔۔
’’اگر اب صادق نے پیسے نہیں دیئے تو میں جاوید سے کیا کہوں گا‘‘ یہ سن کر طاہر نے ایک دم کہا ’’شارق ایسی غلطی مت کرنا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘شارق نے اچانک سوال کیا۔
’’شارق ! طارق نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ تم جانتے ہو جاوید اچھا لڑکا نہیں وہ آوارہ مزاج لڑکا ہے۔ تمہارے پیسے تو مل جائیں گے مگر غریب صادق کو پریشانی اُٹھانی پڑے گی اور تم بھی پریشان ہوجاؤگے۔ ذرا سوچو!اگر جاوید نے تم سے ایک معمولی سے احسان کی قیمت مانگی تو کیا ہوگا؟‘‘
مگر شارق نے طاہر کی بات پر توجہ نہیں دی۔ تھوڑی دیر بعد ۔ جاوید آگیا تو شارق نے جاوید کے سامنے اپنی بات رکھی۔اس پر جاوید نے کہا’’کل تمہارے پیسے مل جائیں گے۔‘‘
اور پھر دوسرے دن صادق نے شارق کی رقم لوٹادی مگر اس کے بعد کئی دن تک کالج نہیں آیا ۔ اور آیا بھی تو چہرہ کچھ اداس ، مرجھایا ہواتھا۔وہ خاموش آیا اور سیٹ پر بیٹھ گیا۔ وہ کئی دن تک ایسے ہی اداس رہا۔ اس سے شارق کو بھی کچھ احساس ہوا۔ اس نے کئی بار سوچا صادق اس کا دوست ہے۔ اس کا فرض ہے کہ اپنے دوست کی پریشانی پر اس سے معلوم تو کرے۔ مگر وہ ہمت نہ کرسکا۔
وقت گزرتا رہا مگر شارق کے دل میں ایک خلش ہوگئی تھی اس لئے کہ صادق نہ صرف کلاس میں خاموش رہنے لگا تھا بلکہ اس نے شارق سے ملنا جلنا ہی کم کردیا تھا۔صادق کے ساتھ ہی طاہر بھی اس سے کھچا کھچا رہنے لگاتھا۔ اب اسے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اس کی ذرا سی غلطی اور جلد بازی نے اُسے دواچھے دوستوں سے محروم کردیا تھا۔ دوسری جانب جاوید کی مدد اس کے لئے ایک عذاب بن چکی تھی۔ کیونکہ جاوید قرض کے نام پر شارق سے کئی بارپیسے لے چکا تھا۔
اس دن شارق پھر پریشان تھا۔ اس لئے کہ جاوید نے آج پھر اس سے کچھ پیسوں کا مطالبہ کیاتھا۔ شارق سوچ رہاتھا کہ جاوید نے اسے صادق سے اس کے سوروپیہ دلائے تھے۔وہ اس احسان کے بدلے میں اس سے ڈیڑھ سو(۱۵۰) روپے قرض کے بہانے لے چکا ہے۔ وہ قرض جس کی وصولیابی ممکن ہی نہیں تھی۔ اب وہ اسے اور پیسے کہاں سے دے۔ وہ تو اپنی جیب خرچ کے بجائے ساری پونجی تو جاوید کو دے چکا ہے۔شارق ایک انجانے خوف سے کانپ رہا تھا۔ اس لئے کہ جاوید نے دھمکی دی تھی کہ اگر تم نے پیسے نہیں دیئے تو اچھا نہیں ہوگا۔ میں نے تمہاری ڈوبی ہوئی رقم دلائی تھی۔
شارق کے کانوں میں جاوید کے الفاظ گردش کررہے تھے۔ میں نے تمہاری ڈوبی ہوئی رقم واپس دلائی تھی۔ مگر اسے یوں لگ رہاتھا اس کی ڈوبی ہوئی رقم تو مل گئی مگر وہ خود ایسے پانی میں ڈوب گیا تھا جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ ہی نظر نہیں آرہا تھا۔ اس کے دوست طاہر کے الفاظ اس کانوں میں باز گشت کررہے تھے۔’’بُرے لوگوں کی مدد سے فائدہ نہیں بڑا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔‘‘ شارق کی آنکھوں میں آنسوں آگئے تھے۔ اس کی نظروں میں غریب صادق کا معصوم چہرہ گھوم رہا تھا۔ اداس پریشان۔ بے ساختہ اس کی منھ نکل گیا۔ اللہ تو مجھے معاف کردے۔‘‘ندامت کے آنسو اس کے گالوں سے پھل کر دامن میں جذب ہورہے تھے۔

مے آئی گوٹو (May I Go to)


مے آئی گوٹو (May I Go to) 
پرویز اشرفی
اسکول میں آج اس کا پہلا دن تھا۔ پرنسپل نے پہلے ہی گھنٹہ میں نویں درجہ میں پڑھانے کا حکم دیا۔ جیسے ہی درجہ میں اُس نے قدم رکھا پورے کلاس نے خاموشی کی چادر اوڑھ لی۔پیچھے بیٹھے ہوئے چند شرارتی طلباء اپنے نئے اُستاد کو دیکھ کر کھسر پھسر کرنے لگے۔ اکثر نئے اُستادیا طلباء جب کسی اسکول میں پہلی بار جاتے ہیں تو اس قسم کے ماحول سے سابقہ پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ تھا۔ بچوں کی خاموشی اور اُن کے تجسس کو دیکھتے ہوئے اپناتعارف کرایا۔’’میرا نام سرفراز حسین ہے اور میں آپ لوگوں کو تاریخ پڑھاؤں گا۔‘‘ اس مختصر تعارف کے بعد سرفراز نے بلیک بورڈ کارُخ کیا اور مضمون کا عنوان لکھنے لگا۔
بچو! آج میں آپ کو دوسری جنگ عظیم کے بارے میں پڑھاؤں گا۔ اس کے اسباب اور نتائج پر بھی روشنی ڈالوں گا۔ لیکن اس سے پہلے میرا آپ سے ایک سوال ہے
’’سائنس اور تاریخ میں کون زیادہ اہم ہے؟ درجہ پر سکوت طاری تھا۔ سبھی بچے غور کرنے لگے۔ ایک بچے نے ہاتھ اُٹھایا۔ سرفراز صاحب نے سب سے پہلے اُس کا نام پوچھا۔
ؔ ؔ ’’میرا نام محسن ہے۔‘‘
’’بہت خوب! ماشاء اللہ بڑا پیارا نام ہے۔اچھا بیٹے بتاؤ کون اہم ہے؟‘‘
’’سائنس‘‘ بڑے اعتماد سے اُس نے جواب دیا۔
اسی طرح باری باری کئی لڑکوں سے سوال پوچھا سبھی نے تاریخ کو بورنگ، روکھا اور بے کار مضمون قرار دیا جس کی کوئی اہمیت نہیں لیکن سائنس کی اہمیت پر سب کا اتفاق تھا ۔ ایک طالب علم نے ہمت کرکے سرفراز سے ہی سوال کردیا۔
’’سر!آپ کا نظریہ کیا ہے؟‘‘
’’ہاں!تم نے بہت اچھا سوال کیا۔ میرے نزدیک ایک علم کا دوسرے علم سے ٹکراؤ نہیں ہوتا مگرہر ایک علم کی اپنی افادیت ہوتی ہے سبھی علوم کے ایک دوسرے سے رشتے ہوتے ہیں۔ ان میں تاریخ سب پر فوقیت رکھتا ہے۔‘‘
’’وہ کیسے۔۔۔سر؟‘‘ کئی بچوں نے جاننا چاہا۔
’’سرفراز نے سمجھاتے ہوئے کہا’’جتنے بھی علوم ہیں سب کی اپنی ذاتی اہمیت ہے۔ وہ صرف اپنے ہی بارے میں بتاتے ہیں۔ سائنس ہو یا جغرافیہ، علم کیمیاہویا علم طبیعات، ریاضی ہو یا جیومیٹری لیکن تاریخ ایسا مضمون ہے جو تمام علوم کے ذخیرہ کو محفوظ رکھتا ہے۔ اگر تاریخ نہ ہوتا تو ان تمام علوم وفنون کو کون جانتا۔ سرآئزک نیوٹن، البرٹ آئسٹائن، جیمس واٹ، تھامس الوایڈیسن، الیگزنڈر فلیمنگ،لوئس پاسچر، جابربن حیان،ابن الہیشم، بوعلی سینا، عمرخیام، الرازی، یوری گاگارین، نیل آرم اسٹرانگ، مائکل کولن، ایلون ایلڈرین جیسے سائنسدانوں کو کون جانتا، کون جانتا کہ چاند کی دھرتی پر قدم رکھنے والا پہلا آدمی نیل آرمسڑانگ ہے۔دنیا کہ دوسرا آدمی وہ ہے جس نے چاند کی سر زمین پر قدم رکھا جسے ایلون ایلڈرن کہتے ہیں اور مائیکل کولن وہ خلاباز ہے جو چاند کے مدار میں چکر کاٹتا رہا لیکن چاند پر اترانہیں۔ یہ تاریخ ہی ہے جس نے ہمیں بتایا ہے۔ ان تمام معلومات کو سجا کر اپنے سنہرے اوراق میں تاریخ نے ہی محفوظ رکھا ہے۔اس لئے تاریخ ایک اہم مضمون ہے۔ ہاں!ایک بات اور تم لوگوں نے تو ضرور سنا ہوگا کہ ۱۹۴۵ ؁ء ۶؍اگست کو جاپان کے شہر ہیرو شیماپر پہلا ایٹم بم امریکہ نے گرایا تھا۔ کیا تم میں کوئی بتائے گاکہ اس ایٹم بم کا نام کیاتھا؟‘‘ سبھی بچے میں سر ہلارہے تھے۔وہ پھر گویا ہوئے۔’’تو سنو زمین کے اُس دشمن کانام تھا لٹل بوائے۔’’(Littlee boy) اب سمجھ میں آیا کہ تاریخ کیوں ضروری ہے؟بچوں نے ایک آواز میں جواب دیا یس سر۔ سرفراز اب دوسری جنگ عظیم کی تمہید بتارہے تھے کہ کلاس کے سکوت کو توڑتی ہوئی ایک آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔May I go to drik water sir?(کیا میں پانی پینے جاسکتا ہوں جناب) سرفراز نے تختہ سیاہ کی جانب سے رخ ہٹایا درجہ کے درمیانی حصہ میں ایک چدہ پندرہ سال کی عمر کا طالب علم ملتجی آنکھوں س اُس کی طرف دیکھ رہاتھا۔ چہرے کے تاثرات بتارہے تھے کہ وہ کچھ ڑرا سہما سا ہے۔ سرفراز نے اُسے غور سے دیکھا اور پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ دھیمے قدموں سے چل کر طالب علم کے نزدیک پہنچایکایک اُسے محسوس ہوا کہ وہ آئینہ جنکے ٹکڑوں نے اس کے جسم کو لہو لہان کردیا تھا ان کی کرچیاں یکجا ہو کر پھر سے آئینہ میں تبدیل ہوگئیں اور وہ اس میں صاف صاف اپنے ماضی کے گزرے دنوں کو دیکھ رہاتھا۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد تلاش روزگار کی جد وجہد مقصد بن گئی ۔ مختلف مقابلہ جاتی امتحانات دیئے اور کامیابی بھی ملی لیکن قسمت دغا دے گئی یا شاید اللہ کی مرضی نہ تھی۔ اُدھر سماج کے لوگ والدین سے مختلف سوالات کرکے اُنہیں پریشان کررہے تھے۔ بیٹے کو نوکری ملی یا کب تک جاب مل جائے گا۔ اب سرفراز کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ میرا بیٹا ماشاء اللہ اچھا کمارہا ہے‘‘وغیرہ وغیرہ ۔ دن بھر نوکری کی تلاش کے بعد گھر میں داخل ہوتا تو والدین بھی محلّہ والوں کی کہی باتوں کو اس کے سامنے دہراتے۔ ایسی باتیں اُسے ذہنی پریشانی میں مبتلا کردیتیں۔ لوگوں کے طعن اور بے روزگاری نے اُسے متزلزل کردیا۔ ایک دن اس نے اپنے والد سے جھلاتے ہوئے کہا’’ابو میں کیا کروں۔ اتنی کوشش کے باوجود نوکری نہیں مل رہی تو آپ ہی میرے لئے کچھ کریں۔‘‘ نتیجے میں ابو نے ایک شراب کی دکان میں سیلز مین کی حیثیت سے مقرر کردیا۔ حالانکہ یہ کام اُسے قطعی پسند نہ تھا لیکن معاشرے کے نام نہاد عقلمند لوگوں کے بہکاوے میں ابو نے یہ فیصلہ کرلیا۔ مگر وہ جگہ سرفراز کو راس نہیں آئی۔ ایک بار یوں ہوا کہ بارش میں شراب کے شوقین لوگوں کے لئے بھنے ہوئے مرغ اور آملیٹ کی دوپلیٹیں اپنے دونوں ہاتھ میں ہوٹل سے لاکر اُن کے ٹیبل پر پیش کرنا پڑیں۔ مالک کا حکم تو اس نے مان لیا لیکن وہ یہ سوچ کر رونے لگا کہ ’’کیا زندگی کے بیس قیمتی سال حصول علم میں اسی دن کے لئے صرف کئے تھے کہ شرابیوں کے آگے انڈے، مرغ اور شراب کی بوتلیں پیش کروں لعنت ہے میری زندگی پر اس نے والدین سے معذرت چاہ لی۔’’ابو مجھے زہر دے کر ماردیں لیکن اللہ کے واسطے مجھ سے یہ کام نہ ہوگا۔ جو لوگ یہ مشورہ آپ کو دیتے ہیں انہیں ہی مبارک ۔ مجھے اللہ کی ذات پر بھروسہ ہے وہ ضرور کوئی بہتر انتظام کرے گا۔ کچھ ہی دنوں کی کوشش کے بعد سرفراز کو ایک دوا کے ڈسٹریبوٹر کے یہاں ملازمت مل گئی۔ مالک نے اُسے کام کے بارے میں سمجھادیا ۔ یہاں آکر اسے زندگی کا ایک اور تجربہ ہوا کہ ہر ایک آدمی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ہی کسی کی ہمدردی کرتا ہے۔دوا کے اس ڈسٹری بیوٹر نے ویسے تو صرف ٹیبل ورک کرنے کی بات کہی تھی لیکن دن گزرنے کے ساتھ دوکان میں جھاڑو لگانا۔ گھر کی سبزی لانا اس کے بچوں کو اسکول پہنچانا اور واپس لانا۔ دوا کے خریدار آئیں تو ان کے لئے چائے پان پیش کرنا بھی کام میں شمار ہوگیا۔ مجبوری انسان سے سب کچھ کراتی ہے اللہ کی رضا سمجھ کر وہ یہ سب کام کرنے لگا۔ وہ بھول گیا کہ کبھی اس نے انگلش میں ایم۔اے کیاتھااور ایم۔بی۔اے کا کورس پاس کیا تھا۔ وہ توحقیقت کی دنیا میں جی رہا تھا اور حقیقت یہ تھی کہ وہ ایک معمولی نوکر تھا جس کی فرمانبرداری کے عوض ہر ماہ اسکے ہاتھ پر پانچ سو روپئے رکھ دئے جاتے اور وہ اسے اپنا مقدرسمجھ کر خدا کا شکر ادا کرتا۔ دوپہر کے دوگھنٹے کے وقفے میں وہ مطالعہ کرتا تھا تاکہ ملازمت کے مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کرسکے۔ وقت گزرتا رہا۔ اور تین سال کی مدت گزرگئی۔ اسی درمیان لوک سیوا آیوگ میں ہائی اسکول میں اساتذہ کی تقرری کے لئے امتحانات ہوچکے تھے۔ سرفراز نے بھی امتحان دیا اور واپس آکر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ ایمانداری اور وقت کی پابندی کے باعث سرفراز کا مالک اُسے بہت پسند کرتا تھا اور اکثر باہر کے کام سے جاتے وقت دوکان کی ذمہ داری اس پر سونپ جاتا۔ اس بار بھی وہ بزنس کے سلسلے میں ایک ہفتہ کے لئے باہر جارہا تھا۔ اس نے سرفراز کو تمام باتیں سمجھادیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ میرا ایک بھتیجاروی اپنے گھر سے چھٹیوں میں آیا ہوا ہے میری غیر موجودگی میں وہ بھی آفس میں رہے گا ذرا تم اس پر دھیان دینا۔
گرمی اپنے پورے شباب پر تھی۔گرم ہوائیں سائیں سائیں کررہی تھیں۔ سرفراز نے دوپہر وقفہ کے وقت گھر جانے کا ارداہ کیا۔ اس کی مصروفیت کو دیکھتے ہوئے مالک کے بھتیجے روی نے روکھے انداز میں سوال کیا’’کیا بات ہے سرفراز کہیں جانا ہے؟‘‘
ہاں! دوپہر کا وقفہ ہوگیاہے لنچ کے لئے گھر جارہا ہوں۔‘‘سرفراز نے جواب دیا۔
’’تم کہیں نہیں جارہے ہو۔ ابھی بہت کام ہے۔ ایسا کرو جتنے آرڈردوائیں کے آئے ہیں وہ ساری دوائیں نکال کر پیک کردو۔‘‘ روی نے متکبر انداز میں کہا۔
’’لیکن۔۔۔ویکن میں کچھ نہیں جانتا۔ تمہیںیہ سب کام ابھی کرنا ہے اور آج گھر جانے کا ارداہ ترک کردو۔ ایک کم عمر لڑکے کا یہ انداز گفتگو۔۔۔سرفراز حیرت زدہ تھا۔ بہر حال اس نے گھر جانے کا اردہ ترک کردیا۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اتنی مشکل سے جو ملازمت ملی ہے وہ ہاتھ سے جاتی رہے اور معاشرے کے لوگوں کو طعن وتشنیع کرنے کا موقع ملے اور لوگ اُسے ایک بیکار اور ناکارہ انسان تصور کریں۔ اس نے روی کی بات مان لینے میں ہی عافیت سمجھی۔
’’ٹھیک ہے میں نہیں جارہا لایئے آرڈر دیجئے میں دوائیاں نکالتا ہوں۔‘‘
سرفرازنے دوائیاں نکال کر سب کی پیکنگ کردی۔ بجلی بھی صبح سے گل تھی وہ پسینے سے بھیک گیاتھا۔ ابھی وہ بیٹھا ہی تھا کہ روی نے ریوالونگ چیئر پر جنبش کرتے ہوئے آواز دی۔
سرفراز۔۔۔!’’آیا روی بابو۔‘‘جب وہ نزدیک پانی لینے کے لئے مڑا۔ گرمی بہت تھی۔ بجلی بھی نہیں تھی لہذا اس نے جھجھرسے پانی لے کر گلاس روی کو پیش کردیا۔ روی نے جیسے ہی پانی کا گھونٹ حلق میں اُتاراتلماکر رہ گیا۔اس نے غضبناک نظروں سے سرفراز کو دیکھا۔Stupid man تم سے فریز سے پانی لانے میں ہاتھ ٹوٹ رہا تھا۔ وہ جھلاتے ہوئے چیخا۔’’روی بابو یہ تو جھجھر کا پانی ہے۔ بجلی گل ہے اس لئے فریز بند ہے۔‘‘سرفراز نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’دیکھو سرفراز میں چاچا نہیں ہوں، روی ہوں۔ تم ہمارے نوکر ہو اور نوکر کی طرح رہو۔‘‘ کہتے ہوئے گلاس میں بچا جوٹھا پانی سرفراز کے منھ پر پھینک دیا جس سے ا س کا چہرہ اور سامنے کے کپڑے گیلے ہوگئے۔ سرفرازنے خاموشی سے نظریں جھکالیں پانی سے بھیگے چہرے کو اپنی آستین سے خشک کیا اور دل ہی دل میں اللہ کو یاد کرتا رہا کہاں ہے تو ، دیکھ تیری دی ہوئی دولت پر یہ کم عمر لڑکا کس قدر نازاں ہے کہ انسانی مرتبہ کا بھی لحاظ نہیں تجھے کیسے پکاروں، تیرا ہی وعدہ ہے کہ تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے‘‘ کیا میں تیرے اس انعام کا حقدار نہیں۔ زبان بند تھی مگر دل رورہا تھا۔
******
سرفراز کے ابو بہت خوش تھے۔ اُن کے بیٹے کی تقرری ایک ہائی اسکول میں ہوگئی تھی محنت اور صبر کا پھل اللہ نے سرفراز کو عطا کردیا تھا۔وہ اب جانے کی تیاری کررہا تھا۔ اس نے اپنے مالک کو بھی یہ خبر سنائی ۔ مالک نے اپنی خوشی کا اظہار کیا ساتھ یہ بھی دریافت کیا کہ اس کی غیر موجودگی میں کوئی دقت تو پیش نہیں آئی۔ ایک لمحے کے لئے سرفراز کے سامنے وہ تمام مناظر گھوم گئے لیکن وہ خاموش رہا اور رخصت لے کر گھر لوٹ آیا۔ والد نے پٹنہ جانے والی بس پر سوار کراتے ہوئے ہدایت کردی کہ اسکول جوائن کرنے کے بعد فوراً اطلاع کردینا۔May I go to drik water sir (کیا میں پانی پینے کے لئے جاسکتا ہوں جناب) دوبارہ اس آواز نے اسے ماضی سے حال میں لاکھڑا کیا۔ یہ آواز جانی پہچانی تھی۔ سرفراز نے نزدیک جاکر اس سے پوچھا تم روی ہونا۔۔۔؟روی کی نگاہیں خوف وشرمندگی سے جھک گئیں اور درجہ میں دوسری باوقار آواز گونجی۔yes,you can go (ہاں ہاں تم پانی پینے جاسکتے ہو)روی بھاری قدموں سے درجہ کے باہر جارہا تھا۔ سرفراز کی آنکھیں آسمان پر اُٹھی ہوئی تھیںآنکھوں میں شکر کا سیلاب امنڈرہا تھا۔ اور ہونٹ لرزرہے تھے بیشک تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے تو جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔‘‘
گھنٹے کی آواز نے احساس کرایا کہ تاریخ کا گھنٹہ مکمل ہوچکا ۔سرفراز تیز تیز قدموں سے باہر نکل نکل گیا۔

رام راج کو روک لو (بچوں کی کہانی)


رام راج کو روک لو
تسکین زیدی
آج وہ اداس اور بے چین بیٹھا ہوا اسکول کی ایک ایک کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے یہ منظر اب کچھ لمحوں میں اس سے روپوش ہوجائے گا۔ اس جدائی کے احساس نے اس کے دل کا سکون منتشر کردیا تھا۔
وہ تب چونکا جب آفس کے پردیپ بابو نے اسے پکار کرکہا’’کہاں کھوئے ہوئے ہو رام راج دادا؟وقت ہوگیا ہے گھنٹی بجاؤ ورنہ پرنسپل صاحب ناراض ہوں گے۔‘‘
وہ بوجھل قدموں سے اٹھا سے اور گھنٹی بجانے لگا۔
’’ٹن۔۔۔ٹن۔۔۔ٹن۔۔۔‘‘گھنٹی بج اٹھی۔ لڑکے ایک کلاس سے دوسرے کلاس میں آنے جانے لگے اور وہ آپس میں باتیں کرنے لگے۔ گفتگو کا موضوع یہی گھنٹی کی آواز تھی۔
’’آج یہ گھنٹی کی آواز کو کیا ہوگیا، عجیب سی گھٹی گھٹی سی آواز ہے جیسے کسی نے کریاردکراسے بجایا ہو۔ کیا رام راج نے سوتے سے اٹھ کر گھنٹی بجائی ہے؟‘‘
وہ یہ سر گوشی سن کر چونک پڑا۔پھر بڑبڑانے لگا۔
’’ٹھیک کہو ہو بچو!‘‘اب تو میں بہت تھک گیا ہوں۔ بوڑھاہوگیا ہوں۔۔۔اس اسکول میں میرا آج آخری دن ہے کل میں کہاں ہوں گا اوریہ کہاں ؟ تم لوگ بھی مجھ سے دور ہوجاؤ گے۔ اس احساس نے میرے ہاتھوں کی مانوجان ہی نکل لی ہے۔ کانپتے ہاتھوں سے جب گھنٹی بجائی جائے گی تو یوں یہی مدھم سی آواز نکلے گی۔‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ پھر اپنی جگہ آکر بیٹھ گیا اور خیالوں میں کھو گیا۔ اس کے تیس برس اس اسکول میں گزرے ہیں اور آج اس سے جدا ہوتے ایسا لگ رہا ہے کہ اب اس سے اس کا کوئی رشتہ ہی نہیں رہ گہا ہو۔ اب تو باقی زندگی گاؤں کے چھپرے گھرے کچے بوسیدہ مکان میں گزرے گی۔ پنشن ضرور ملے گی مگر اتنی کم ہوگی کہ دونوں وقت کا کھانا بھی مشکل سے بن پائے گا اور پنشن ملنے میں بھی سال بھر لگ جائے گا۔ فنڈ تو لڑکی کی شادی میں ہی ختم ہوچکا ہے باقی بیوی کی بیماری کھا گئی ۔ کاش کہ اس وقت کا کوئی لڑکا ہوتا تو اس کا سہارا بنتا۔۔۔گاؤں کا ماحول بھی کافی بدل چکا ہے اب وہاں وہ پہلا ساپیار کہاں رہ گیا ہے۔ گاؤں کا آدمی بھی بہت چالاک ہوگیا ہے ہر وقت اپنا الّو سیدھا کرنے میں لگا رہتا ہے۔ وہاں اس ماحول میں وہ کیسے باقی زندگی بتاسکے گا؟ یہاں تو دن بھر بچوں کے درمیان ایسا مصروف رہتا ہے کہ اپنا بھی ہوش نہیں رہتا۔
رام راج کو پرنسپل سے لے کر ٹیچرس اور طلباء سبھی دل سے چاہتے تھے ویسے اس اسکول میں اس طرح کے پانچ چھ چپراسی اور بھی تھے مگر اس کا برتاؤ نرم تھا کہ سب اسی کو ہر کا کے لئے پکارتے تھے اور وہ بھی کسی کو کسی کام کے لئے منع نہیں کرتا تھا۔ اس لئے سب اسی کا خیال رکھتے تھے۔ اب تو پرنسپل بھی اس کے کام سے متاثر ہوکر اس کو ’’رام راج دادا‘‘کہنے لگے تھے۔ اب اس سے کوئی چھوٹا کام نہیں لیتے تھے۔ وہ بھی ہر وقت اسکول کی بھلائی کا خیال رکھتا تھا اور کب آرام کرتا تھا۔ اسکول گیٹ کی نگرانی، آفس کا سامان کی دیکھ بھال۔۔۔ایک آدمی میں فرائض کی ادئیگی کا اتنا احساس کم ہی دیکھایا سنا گیا ہے۔
اسکول میں ہی گیٹ کے پاس ایک چھوٹی سی کوٹھری تھی جس میں تھک کر وہ لیٹ جاتا تھا۔ کھانا وہ خود ہی اپنے ہاتھوں سے پکاتا تھا۔۔۔معمولی کپڑا پہنتا۔ دھوتی اور بنیان میں ہی اس نے اپنی ساری زندگی بتادی۔۔۔کبھی کسی نے اسے پیروں میں چپلیں یا جوتا پہنتے نہیں دیکھا تھا۔
ٍ وہ بڑا ایماندار تھا۔ کبھی کسی کی کوئی چیز بھولے سے رہ جاتی تو او اسے اٹھا کر رکھ دیتا تھا یا آفس میں جمع کردیتا تھا۔ پھر اس کی یہ کوشش بھی رہتی تھی کہ جس کی چیز ہے اس تک جلد سے جلد پہنچ جائے۔
ایک بار کلاس میں کسی لڑکے کا پرس رہ گیا۔ وہ کسی مالدار گھرانے کا تھااس میں ڈھائی سوروپے تھے۔ رام راج جب شام کو کمرہ بند کرنے آیا تو اسے میز پر یہ بٹوا پڑا ہو ملا ۔ اس نے اسے اٹھا کر اپنے پاس رکھ لیا اور دوسرے دن اس لڑکے کو ڈھونڈکر دے دیا۔ اس نے خوشی ہو کراسے دس روپے کا نوٹ انعام میں دینا چاہا تو وہ ناراض ہوکر بولا۔۔۔ ’’جاؤ بچہ ! خوش رہو۔ تم میرے بچے ہو کوئی اپنے نچوں سے بھی بخشیش لیتا ہے۔‘‘
ایک لڑکی کا سونے کا کان کا بالا بھی گرگیا تھا اسے بھی اس نے سنبھال کر رکھا تھا۔ دوسرے دن جب اس کے ڈیڈی اسے پہنچانے آئے اور انہوں نے بالے کے بارے میں اس سے پوچھا تو رام راج نے آفس سے لاکر اسے دے دیا۔ لڑکی کے باپ بھی کچھ انعام دینا چاہتے تھے۔ ان سے اس نے بڑی عاجزی سے کہا:’’انعام کیسا صاحب ! یہ تو میرا فرض تھا۔‘‘
’’حضور ! میں تو آپ کا نوکر ہوں۔‘‘ وہ آہستہ سے بولا۔ اس کی آواز رندھی ہوئی تھی۔ پرنسپل نے اس کے گلے میں پھولوں کاہار ڈال دیا۔
رام راج نے حیرت سے چاروں طرف دیکھا پتہ نہیں کیوں کانپ رہاتھا۔ اس قدر منزلت کے لئے وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آنسواس کی پلکوں پرٹھہرے ہوئے تھے اور دل نہ جانے کیوں زور زور سے دھڑک رہاتھا۔
’’دادا رام راج! تم تو اس سے بھی زیادہ عزت کے مستحق ہو۔ اسکول کے لئے تمہاری خدمات کیا یہ اسکول ٹیچرس اور طلبہ آسانی سے بھلا سیکں گے؟ کبھی نہیں۔۔۔ہمیں تم پر ناز ہے۔ہمارے بچوں کو تمہاری مثالی زندگی سے سبق لینا چاہیے۔‘‘ پرنسپل صاحب بولتے بولتے رکے اور پھر انہوں نے طالب علموں سے مخاطب ہوکر کہا’’آج جو یہ ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے ہیں تو ہم کیوں ان کی عزت کررہے ہیں؟ یہ عزت ان کی نہیں اس کے کام کی ہے، ان کی ایمانداری ، محنت اور لگن کی ہے۔‘‘ پھر اسے مخاطب کرتے ہوئے بولے۔
’’لو یہ ہماری جانب سے چھوٹا سا تحفہ قبول کرو۔‘‘ ایک شال او ر ہاتھ کی گھڑی انہوں نے اسے پہنادی۔ اس کے بعد ٹیچرس کی طرف سے ایک دھوتی کرتہ اور پانچ سو روپے کا چیک پیش کیا گیا۔ پھر لڑکوں کی باری آئی۔
ایک لڑکے نے سب کی طرف سے کچھ کپڑے اور پانچ سو ایک روپے لفافے میں رکھ کر اسے پیش کئے۔
رام راج کو اتنے تحفے اورنقد ملا کہ وہ ریٹائر ہونے کے بعد کئی مہینے تک آرام سے کھا پی سکتا تھا۔
اب وہ حیرت بھری نظروں سے ان تحفوں کو دیکھ رہاتھا۔ اس سے جب سب نے دولفظ بولنے کے لئے کہا تو اس کی زبان گنگ ہوگئی۔ ہمت کر کے اس نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ جوڑے اور کہا۔
’’ان تحفوں کے لئے آپ سب کا شکریہ ۔۔۔مجھے یہ سب کچھ نہیں چاہیے۔ مجھے میرا اسکول چاہیے۔ مجھے یہ بچے چاہئیں۔ اس لئے کہ میرا پریم میری چاہ ان ہی سے ہے۔ آپ یہ نہیں دے سکتے تو۔۔۔‘‘ رام راج کی آواز بھر آگئی لیکن وہ رویا نہیں، بس ایک دم اسٹیج سے اترا اور تیز تیز قدموں سے ہال سے نکل گیا۔

Sunday, March 24, 2013

حسن کی بارگاہیں گلی درگلی لالہ وگل کے جلوے چمن درچمن


عامرعثمانی کی شاعری
(۴)
حسن کی بارگاہیں گلی درگلی لالہ وگل کے جلوے چمن درچمن
جنتیں اس جہاں میں بہت ہیں مگر آپ کی انجمن آپ کی انجمن
وقت کی گردشوں کابھروسہ ہی کیامطمئن ہو کے بیٹھیں نہ اہل چمن
ہم نے دیکھے ہیں ایسے بھی کچھ حادثے کھوگئے رہ نما لٹ گئے راہ زن
چندفرضی لکیروں کو سجدے نہ کرچند خاکی حدوں کاپجاری نہ بن
آدمیت ہے اک موجۂ بے کراں ساری دنیا ہے انسانیت کا وطن
کتنے شاہیں بسیرے کوترساکئے باغ پر چھاگئے کتنے زاغ وزغن
کتنے اہل وفا دارپرچڑھ گئے کتنے اہل ہوس بن گئے نورتن
صرف شہر سیاست کا ماتم نہیں ہرنگرہرڈگر ایک ساحال ہے 
کتنی قبروں پہ چڑھتی رہیں چادریں کتنے لاشے پڑے رہ گئے بے کفن
دیجئے ترک تقوی کا طعنہ مگر شیخ کا حسن تاویل تو دیکھئے 
جب قدم زہد کے لڑکھڑانے لگے رکھ دیا حسن کا نام تو بہ شکن
بزم میں ایک جوئے رواں ہے جنوں عزم میں ایک برق تپاں ہے جنوں
یہ تماشا ہے عامرؔ جنوں تونہیں مچ گئی ہاؤ ہو پھٹ گئے پیرہن

ماتھے پر تحریر ہے غم کی خشک ہیں لب آنکھیں نم ہیں


عامرعثمانی کی شاعری 
(۳)
ماتھے پر تحریر ہے غم کی خشک ہیں لب آنکھیں نم ہیں
ہم سے ہمارا حال نہ پوچھوہم توسراپاماتم ہیں
روحیں بے کل ،ذہن پریشاں ،سینے کرب مجسم ہیں
اوربظاہراس دنیا کو کیا کیا عیش فراہم ہیں
وہم و گماں کے شیش محل ہیں ریت کے تودوں پرقائم 
او ریقیں کے تاج محل کی بنیادیں مستحکم ہیں
آج کے دور علم وہنر میں مہرو وفاکانام نہ لے
آج پرانے وقت کی ساری قدریں درہم برہم ہیں
فکر و نظر کیاقلب و جگر کیا؟سب ہیں اسیر زلف بتاں
سچ تو یہ ہے صحن حرم صرف ہمارے سر خم ہیں
کل تک جن کی تشنہ لبی کودریا بھی ناکافی تھے 
آج وہی ارباب عزیمت شکر گزار شبنم ہیں
گل چینوں کا شکوہ بے جا ،صیادوں کا ذکر فضول
میرے چمن کے مالی عامرؔ صید نفاق باہم ہیں

نہ سکت ہے ضبط غم کی ،نہ مجال اشک باری


عامرعثمانی کی شاعری 
(۲)

نہ سکت ہے ضبط غم کی ،نہ مجال اشک باری 
یہ عجیب کیفیت ہے نہ سکوں نہ بے قراری
ترا ایک ہی ستم ہے ترے ہرکرم سے بھاری 
غم دوجہاں سے دیدی مجھے تونے رستگاری
مری زندگی کا حاصل ترے غم کی پاسداری
ترے غم کی آبرو ہے مجھے ہر خوشی سے پیاری
یہ قدم قدم بلائیں یہ سواد کوئے جاناں
وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری
ترے جاں نوازوعدے مجھے کیا فریب دیتے
ترے کام آگئی ہے مری زود اعتباری
مری رات منتظر ہے کسی اورصبح نوکی 
یہ سحر تجھے مبارک جو ہے ظلمتوں کی ماری
مری عافیت کے دشمن مجھے چین آچلاہے 
کوئی اور زخم تازہ کوئی اورضرب کاری
جو غنی ہوماسواسے وہ گدا گدا نہیں ہے
جواسیر ماسوا ہو وہ امیر بھی بھکاری

جینا بھی اسی کا حق ہے جسے ، مرنے کا سلیقہ آتا ہے


عامرعثمانی کی شاعری 
(۱)
جینا بھی اسی کا حق ہے جسے ، مرنے کا سلیقہ آتا ہے 
جومرنے سے گھبراتا ہے ،وہ جیتے جی مرجاتا ہے 
بے سوز و تپش ، بے درد و خلش، بے عمرابد بھی لاحاصل 
آغاز وہی ہے جینے ک ، جب دل کو تڑپنا آتا ہے 
جو پاک خدا کے بندوں پر ، کرتے تھے خدائی کے دعوے 
اب ان کا سفینہ اپنے ہی‘دریا میں تھپیڑے کھاتا ہے 
وہ دیکھ !افق سے آگ اٹھی ، بادل گرجا ،طوفاں آئے 
وہ دیکھ ! نظامِ کہنہ کو ، کس رنگ سے بدلا جاتا ہے 
تھا وہ بھی زمانہ اے عامرؔ !بازو تھے ہمارے تیغ وسناں 
اب تیغ وسناں کی صورت کو دیکھے سے پسینہ آتا ہے

Saturday, March 23, 2013

حیدرآباد کے چند اہم جدیدغزل گو


حیدرآباد کے چند اہم جدیدغزل گو 
ظہیر دانشؔ عمری
حیدرآباد فرخندۂ بنیاد مختلف تہذیبوں کا جامع شہر ہے، جس کا سنگ بنیاد ابراہیم قلی قطب شاہ(1580-1550) کے تیسرے فرزند محمد قلی قطب شاہ(1611-1580) نے رکھا، حیدرآباد کی تعمیر 1000ھ میں چار مینار کی تعمیرسے شروع ہوئی، جس کا اختتام 1007ھ میں ہوا(۱)اردو کے حوالے سے حیدرآبادکو مرکز کی حیثیت پہلے بھی حاصل تھی اورآج بھی ہے، جامعہ عثمانیہ وہ پہلی یونیورسٹی ہے جس میں اردو زبان کو ذریعۂ تعلیم کی حیثیت سے اختیار کیا گیا، یہاں کے حکمرانوں نے جیسی اردو کی سر پرستی کی اس کے لیے اپنے خزانے کھول دئے تواردو کے بیشتر ارباب کمال نے حیدرآباد کا رخ کیا اور ان کی خوب قدرافزائی کی گئی، جن میں سے چند قابل ذکر نام یہ ہیں: داغ دہلوی، امیرمینائی، فانی بدایونی، جوش ملیح آبادی ، صدف جائسی۔
دکنی شاعروں سے لے کر آج تک حیدرآباد کے شعرانے غزل سے جیسی محبت وعشق کا اظہار کیا ہے، غزل کو جس نزاکت کے ساتھ استعمال کیا ہے، اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ذیل کے مضمون میں حیدرآباد اہم ترین جدید غزل کے شاعروں کا تذکرہ مختصر طور پر کیا جاتا ہے۔
جدید غزل کے شاعروں میں خورشید احمدجامی(۱۹۱۰۔۱۹۷۰) کو صفِ اول میں جگہ دی جاسکتی ہے موصوف مشاعروں میں بہت کم شرکت کرتے تھے، البتہ رسائل وجرائد کو اپنا کلام پابندی سے ارسال کیاکرتے تھے، غزل کو نئے استعاروں اور تشبیہات کے ذریعے آپ نے ثروت مند بنایا، آپ کے شعری مجموعے ’’رخسار سحر‘‘ ’’برگ آوار‘‘ ’’یاد کی خوشبو‘‘ ’’قسمت عرض ہند‘‘ آج کل نایاب ہیں، اپنی شاعری کے تعلق سے موصوف نے لکھا ہے: ’’نئے ذہن اور نئے شعور کے سویرے میں ایسی ہی ایک حقیر سی کوشش میری غزلوں میں نظر آئے گی۔ میرے فن نے تجربات کی دھوپ میں جوزخم چنے ہیں ان کو پیار کی خوشبو سے مہکا کر نذرحیات کرتا ہوں‘‘(۲)
تمھارے درد کو سورج کیا ہے نیا اسلوب غزلوں کودیا ہے
کچھ نہیں ان راستوں میں دور تک کھڑا کھڑاتے خشک پتوں کے سوا 
بہت دنوں سے میرے دل کے پاس ہوتی ہے کوئی نگاہ کسی حسرت بیاں کی طرح
کوئی ہلچل ہے نہ آہٹ نہ صداہے کوئی دل کی دہلیز پہ چپ چاپ کھڑا ہے کوئی
مخدوم محی الدین، سکندر علی وجہ، شاذتمکنت اور سلیمان اریب کی شاعری میں جدیدیت کی گہری چھاپ نظر آتی ہے، خواہ شاعری کے موضوعات ہوں یا اسلوب، ان کی شاعری جدت طرازی سے آراستہ ہے، سلیمان اریب (۱۹۲۲۔۱۹۷۰) ترقی پسند تحریک کے روح رواں تھے، اس کے لیے آپ کوکئی مرتبہ زنداں کا قیدی بھی بنایا گیا۔ چاررسائل کے مدیر رہے۔ اخیر میں اپنا رسالہ صبا جاری کیا۔ جو آخری تک نکالتے رہے۔ شاعری کے دو مجموعے ’’پاس گریباں‘‘ ’’کڑوی خوشبو‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔
لب پر آہیں، سینے خالی ایسے عاشق عام بہت ہیں
ویسے پینا جرم نہیں ہے لیکن ہم بدنام بہت ہیں
ہم سے آوارہ مزاجی کا بھرم ہے ساقی اپنی پرواز میں جبریل کا دم ہے ساقی
لڑکھڑاتے ہوئے اُٹھے تو فلک تک پہونچے یہ بھی تیری نگہہ لطف وکرم ہے ساقی
سلیمان اریب نے آزاد نظم، نثری نظم، رباعی اور قطعہ میں بھی طبع آزمائی کی۔
’’موسم سنگ‘‘ اور ’’ایک سخن اور‘‘ کے شاعر مضطر مجاز(پ:۱۹۳۵) جدید غزل کے اہم شاعر ہیں آپ نے منظوم ترجمے کی جانب بھی توجہ دی، علامہ اقبال کے فارسی مجموعے طلوع مشرق، پیام مشرق، اارمغان مجاز اور جاوید نامہ کے ترجمے کیے، فی الحال روز نامہ منصف کے ادبی صفحے کی ادارت آپ کے ذمے ہے، منصف کے معتبر ومعیاری ادبی صفحے سے آپ کی ادبی صلاحیتوں کا ہلکا سا اندازہ ہوتا ہے۔ عالم خوند میری، پروفیسر سید وحیدالدین سلیم، ڈاکٹر مغنی تبسم نے آپ کی شعری وترجمہ نگاری کی صلاحیتوں کو تسلیم کیا اور آپ کی توصیف کی، موصوف نے اپنی غزل میں استعارات کے ساتھ ساتھ جدید دور کے مختلف واقعات کو بطور تلمیح اپنی غزل میں برتا ہے، آپ کی غزل میں اسلامی مزاج رکھنے والے بیشتر شعر بھی ہمیں ملتے ہیں۔
اس چمن میں کیا یہی دستورہے پھول کے تم مستحق پتھر کے ہم
میں نگاہ باغباں میں کوئی اور ہوگیاہوں ابھی چاردن ہوئے کہ جلا ہے آشیانہ
رؤف خیر ؔ (پ:۱۹۴۸) نے بکثرت لکھا اور متعدد ادبی رسائل وجرائد میں مسلسل چھپتے رہے۔غزل کے ساتھ ساتھ نظم ،رباعی ہائیکو کے علاوہ بیشتر نئی اصناف سخن میں اپنے تخلیقی جوہر دکھائے،اقرا (۱۹۷۷) ایلاف (۱۹۸۲) شہداب(۱۹۹۱) سخن ملتوی (۲۰۰۴) خیریات(۲۰۱۰) آپ کی شاعری کے صحیفے ہیں، آپ کسی بھی موضوع کو بشرطیکہ وہ اچھوتا اور انوکھا ہو بڑی بے ساختگی کے ساتھ اپنی شاعری کا حصّہ بناتے ہیں، آپ کی غزلوں میں مذہبیات سے متعلق بہت سے شعر مل جاتے ہیں،مسلکاً اہلحدیث ہونے کے سبب اپنی شاعری کو قرآن وسنت کا ترجمان بنانے میں بہت حدتک کامیاب نظر آتے ہیں، اپنی شاعری کے بارے میں رؤف خیر یو ں لکھتے ہیں:
’’میرے اپنے محسوسات، جذبات ، تجربات ومشاہدات دسروں سے کسی نہ کسی سطح پر مختلف ہیں۔یہی میرے ہونے کا جواز ہے۔۔۔میں کوشش یہی کرتا ہوں کہ کوئی ایسی بات نہ کہوں جو کہی ہوئی ہے میری تخلیقات گواہ ہیں کہ خود اپنے آپ کو بھی میں کبھی نہیں دہراتا میں شاعری میں آزری کا نہیں بت شکنی کا قائل ہوں۔ اس کے باوجود زبان وبیان کی تمام تر باریکیوں کا لحاظ رکھنے کی امکان بھر کوشش کرتا ہوں، میں چونکہ زبان وبیان سے کھلواڑ نہیں کرتا اس لیے اہل نظر میرے شعر کو پسند کا درجہ دیتے ہیں‘‘(۳)رؤف خیر کی شخصیت اور ان کے فن پر صبیحہ سلطانہ ایم۔فل کی ڈگری حیدرآبادسنٹرل یونیورسٹی سے حاصل کی ہے۔
اب رتجکے ہیں جیسے لہو میں رچے ہوئے کیا رات تھی کہ ایک کہانی میں کٹ گئی 
کیا بھرے اشجار آخر ہاتھ خالی ہوگئے بس ہوا گزری تھی یونہی ڈالی ڈالی کھیلتے
دوقدم چلتے ہی اب تو پھولنے لگتی ہے سانس ہاتھ پاؤں میں اگر دم ہوتا کچھ بھی کھیلتے
سورج ہے کہ بس نوک پہ سوئی کی کھڑا ہے اب فرصت کم کم بھی میرے بھائی کہاں ہے
خوں چوستے لمحوں سے کہو ہاتھ پساریں احساس کی صورت ابھی زردائی کہاں ہے
وہ شخص بڑے چاؤ سے کچھ پوچھ رہا ہے تو ایسے میں اے لذت گویائی کہاں ہے
رؤف خیر کی ہر غزل کی خاصیت یہی ہے کہ اس میں کم از کم دوتین شعر ضرور ایسے مل جاتے ہیں جو اُن کی شناخت کا وسیلہ بنتے ہیں۔
اسد ثنائی کی شاعری میں خود شناسی وخود اعتمادی کا جو احساس ہے وہ ان کے معاصرین میں کم ہی ملتاہے، اپنے متنوع اسالیب، موضوعات کے سبب اسد کی غزل اور نعت یگانہ محسوس ہوتی ہے۔ آپ کی غزلیات کا مجموعہ شہر جاں کی سرحدیں ۲۰۰۳ میں شائع ہواتھا۔ جس کے بعد نعتوں کا مجموعہ مشک آسماں ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا ہے’’ الأنصار‘‘ نامی نہایت خوب صورت، معیاری اور ضخیم سالنامہ شائع کرتے ہیں جو تسلسل کے ساتھ اشاعت پذیر ہورہا ہے، مناظر عاشق ہرگانوی ،جمیل الدین شرفی، سکندر احمد، شہزاد سلیم نے آپ کی غزل ونعت کی کھل کر تعریف کی ہے۔ حیدرآباد کے جدید غزل کے معاصر شعرامیں آپ کانام نمایاں ہے، غزل میں آپ کا کمال فن انتہا کو پہونچتا ہوا محسوس ہوتا ہے بقولِ مناظر عاشق ہرگانوی: ’’اسدثنائی کی نظموں اور غزلوں میں تیقن ملتا ہے۔ جذبے کے لطیف ترین عنصر کی فراونی ملتی ہے اور فکری بلندی کی قوت سے بو قلموں نکات ومسائل میں بے ساختہ پن ملتا ہے ۔کلاسیکت اور جدیدیت کے رجحان کے امتزاج کی پاسداریہ غزلیں اور نظمیں فکر انگیز اور مثبت سوچ رکھتی ہیں‘‘ (۴) راہی فدائی نے آپ کے کی نعت کے حوالے سے لکھا ہے: ’’اسد ثنائی نے غزلوں کے علاو نعتوں میں بھی جدت طرازیاں دکھلائی ہیں‘‘(۵)
درد کے آتش کدے سے اب دھواں اُٹھتا نہیں جسم زندہ ہے مگر احساس مردہ ہوگیا
نئے مزاج نئے راستوں کی خواہش میں جدیدیت کا پیمبر بنا ہنر سے گیا
آنکھ بے خواب ہوگئی ایسی جسم ہو جیسے بے لباس کوئی
عمر بھر جس کا ساتھ میں نے دیا زندگی کیا ہے ! ناسپاس کوئی
رات بھر جاگتا ہے دیوانہ اپنی آنکھوں میں لے کے پیاس کوئی 
اس محفل کے سب سے کم عمر اور آخری شاعر سردار سلیم ہیں۔جنہوں نے بہت ہی کم عمری میں اپنی شاعری کے ذریعے بڑے بڑے نقادوں اور شاعروں کو اپنا معتقد بنالیا ہے، ’’دھیان کی رحل‘‘ ’’راگ بدن‘‘ اور ’’رات رانی‘‘ آپ کے شعری مجموعے ہیں، سردار سلیم کی غزل میں ہلکا سا طنز موجودہ معاشرے پر ملتا ہے، اس کے علاوہ قدیم وجدید موضوعات بھی آپ کے مخصوص اسلوب میں غزلاتے گئے ہیں، آپ کے تیسرے مجموعے’’رات رانی‘‘ کاپیش لفظ مولانا سید جمیل الدین شرفی نے لکھا ہے، نوجوان شاعر کی خوب توصیف کی اور انصاف پسندی سے کام لیا، ورنہ عام طور پر بڑی عمر والے لوگ کم عمروں کی تحقیر کرتے نظر آتے ہیں۔
حضرت جمیل الدین شرفی کا مختصر اقتباس پیش کیا جاتا ہے: ’’سردار سلیم اپنے مجموعہائے شعری سے ثابت کرچکے ہیں کہ وہ اردو زبان وادب میں اضافے اور ترقی کا باعث ہیں، ان کا فن اور زبان کو برتنے کا ڈھنگ خوب سے خوب تر ہے، غزل ہوکہ نظم دوہا ہو کہ گیت ہر صنف میں اپنی پہچان آپ ہیں۔ جدید آزاد لہجے پر بھی عبور کے مالک ہیں، پابند اور روایتی اسلوب میں بھی وہ یکتا ہیں‘‘(۶)
اور خود سردار سلیم کو اس بات کی بڑی شکایت ہے کہ ان کے ہمعصروں میں حیدرآباد میں ان کے علاوہ کوئی ایسا شاعر نہیں ہے، جس سے امیدکی جاسکتی ہے کہ سچی اور اچھی شاعری سے اردو ادب کو مالامال کرے گا، ان کا یہ خیال واحساس کچھ غلط بھی نہیں ہے، بقول سردار سلیم: ’’سچ کہوں تو میرے آس پاس کے ماحول میں شاعری کی بہتات ہے مگرمیں نہ جانے کیوں اسے قحط شعر کا عہد کہنے پر مجبور ہوں۔۔خصوصاًمیرے دیار محبت حیدرآباد میں شاذؔ ، جائی اور مخدومؔ کے بعدآنے والی کھیب میں چند ایک میرے پسندیدہ شاعر ہیں لیکن اس کے بعد والی جس سے میرا تعلق ہے نہایت کمزور اور بے جان ہے‘‘(۷)
؂ اناج پانی وفا آبروراحت یہاں کسی نہ کسی شئے کا کال چلتا رہا
ہوس ہرن کی طرح پھرتی رہی تھیں چوکڑیاں خمیر مست قلندر کی چال چلتا رہا
زباں اب کھلی جبکہ تم جارہے ہو تو پہلی دفعہ آخری بات کرلیں؟
مجھ کو جی بھر کے دیکھ لینے دو گفتگو مت کرو،مگر بیٹھو
دل کو اتنا ہی چین ملتا ہے اس کی محفل میں جس قدر بیٹھو
آج خود کو جواب دینا ہے آج دنیا سے بے خبر بیٹھو
یہ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے اہم ترین جدید غزل گو تھے، جن کا ذکر بہر حال ضروری تھا۔ ان کے علاوہ بھی کچھ اور جدید غزل گو ہوسکتے ہیں۔ جن کے یہاں جدید رجحانات واحساسات کا پتہ چلتاہو لیکن فہرست سازی میرا مقصد اور کام نہیں ہے۔
***
حواشی
(۱) مآثر دکنی سید علی اصغر بلگرامی، ص:۷
(۲) انتخاب کلام جامی، مئی ۱۹۹۶، ص:۵۶
(۳) خیر یات، رؤف خیر، ۲۰۱۰، ص:۵ اور ۶
(۴) شہر جاں کی سرحدیں، اسد ثنائی، ۲۰۰۳، ص :۱۴
(۵) مشک آسماں، اسد ثنائی، ۲۰۰۶،ص:۱۵۷
(۶) رات رانی، سردار سلیم، ۲۰۰۶،ص:۹
(۷) رات رانی، سردار سلیم، ۲۰۰۶،ص:۴
Zaheer danish Umari,8/209-5,Almas pet,Bismilla Nagar,Kadapa 516001(A.P)Cell:9701065617 E-mail:zaheer_dani@yahoo.co