Wednesday, April 24, 2013

8جامعہ دارالسلام کا ایک دن

8جامعہ دارالسلام کا ایک دن
مولانا حقیقت میں ہرفن مولیٰ ہیں، آپ کو سیر وسیاحت سے دلچسپی ہے، شکاریات سے دلچسپی ہے، قدیم اور مختلف ممالک کے سکے جمع کرنے سے دلچسپی ہے، ڈاک ٹکٹ جمع کرنے سے دلچسپی ہے، طب سے دلچسپی ہے، فن خطابت میں بھی درک رکھتے ہیں، عطر بنانے میں بھی ماہر ہیں، عطریات میں آپ کی پہلی پسند ناگ چمپا ہے، آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ منہ کے چھالے کی دوا دیتے ہیں، ناچیز نے اور احسان خان نے بھی غالباً ایک آدھ مرتبہ منہ کے چھالے کی دوا آپ سے لی تھی، الحمد للہ اللہ کے فضل سے جلد شفا بھی ہو گئی۔
ابتداء سے راہ اعتدال کے مدیر چلے آرہے ہیں، راہ اعتدال میں اس وقت سے آج تک مسلسل اداریے لکھتے آ رہے ہیں، مگر احتیاط کا یہ عالم کہ آپ کے اداریے ہر آج تک کسی کو حرف گیری کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔
شاعری میں آپ نے اپنے ذوق کو استاد بنایا، غالباً ایک آدھ غزل علامہ شاکر نائطی کو بھی دکھائی، آپ نے شعر کے دواوین بہت گہرائی سے پڑھے، لغت سے دوستی کی، آسان زبان میں شاعری کی، خوب شہرت حاصل کی، آپ کی شاعری ہر خاص وعام کو مطالعے کی دعوت دیتی ہے، آپ بتکلف گاڑھے موٹے الفاظ استعمال نہیں کرتے۔ ناچیز نے عبدالرحیم عمریؔ کی آواز میں ’’درد کی لہریں‘‘ نامی ایک کیسٹ بنائی تھی، جو جامعہ دارالسلام میں بہت مقبول ہوئی، اس کی ابتداء مولانا کی حمد، ابوالمجاہد زاہدؔ کی نعت سے ہوتی ہے، مولانا نے جب یہ کیسٹ سنی بہت خوش ہوئے، ناچیز کے سلیقے کو سراہا، مولانا کی حمد کے دو شعر دیکھیں ؂
مرے رب تو ربّ عظیم ہے، تری شان شان قدیم ہے
ترا لطف سب پہ ہے بیکراں، ترا فیض فیض عمیم ہے
ترا بندہ زاہد بے نوا، ہے سراپا معصیت وخطا
اسے بخش دے تو مرے خدا، تو روؤف ہے تو رحیم ہے
عبدالرحیم جب بھی یہ حمد انجمنوں میں ، جلسوں میں پڑھتے تھے تو سماں بندھ جاتا تھا، مجمعے پر خاموشی طاری ہو جاتی تھی، کبھی کبھی سامعین کی آنکھوں سے آنسو بھی چھلک پڑتے تھے۔
غم آپ کی شاعری کا محور ہے، غم کو کبھی آپ نے شدت کے ساتھ پیش کیا ہے، تو کبھی غم کی ہلکی سی جھلک اپنی شاعری میں دکھاتے ہیں، غم کو وہ دولت تصور کرتے ہیں ؂
زندگی میں خوشی کی نہ کر جستجو، جستجو تیری ناکام ہو جائے گی
غم کی دولت نہیں جب کہ سب کے لیے، پھر مسرت ہی کیوں عام ہو جائے گی
یقیناًاللہ تعالیٰ نے مولانا کو جو شعری ملکہ عطا فرمایا ہے وہ بہت کم لوگوں کو میسر آتا ہے۔
آپ بنیادی طور پر سلیقہ پسند ہیں، آپ کا کمرہ دیکھ لیجئے! ہر چیز قرینے سے سجی نظر آئے گی، جوتوں کے لیے مخصوص مقام ہے، اخبارات کے لیے متعین جگہ، صاف وشفاف شکن سے پاک بستر، کتابیں اہتمام سے سجی ہوئی ہیں، راہ اعتدال کا دفتر بھی آپ کے سلیقے کا غماز ہے، لکھتے بھی بہت سلیقے سے ہیں، بہت سلیقے سے گفتگو کرتے ہیں، آپ کی جتنی غزلیں، آپ کے جتنے مضامین مختلف رسالوں میں شائع ہوئے ہیں ان تمام کو آپ نے محفوظ کر رکھا ہے، اپنے خصوصی احباب کو فرمائش کرنے پر ان نوادرات کی زیارت کراتے ہیں، ڈائری لکھنا بھی آپ کے معمولات میں شامل ہے، جامعہ دارالسلام میں کب کون سا مہمان آیا، کس جلسے میں کون صدر تھے، وفود کب آئے، انجمنوں میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے کون کب تشریف لائے، ان تمام کی تفصیلات آپ کو مولانا کی ڈائری میں مل جائیں گی، مولانا کو قدرت نے زبردست ذوق مطالعہ سے نوازا ہے، سینکڑوں بلکہ ہزاروں کتابیں آپ پڑھ چکے ہیں، اپنے اس شوق میں کبھی اپنے احباب کو بھی شریک کر لیتے ہیں، ناچیز کو بھی آپ نے برائے مطالعہ اپنی کتابوں سے نوازا، ’’دَربار دُربار‘‘ ، ’’ہمہ یاران دوزخ‘‘ ناچیز کو آپ سے لے کر پڑھنے کا شرف حاصل ہوا، میں نے جس کتاب کے بارے میں بھی مولانا سے پوچھا اس کے بارے میں اپنے سے زیادہ مولانا کو باخبر پایا۔
رات کے کھانے کا وقت ہو رہا تھا، اس لیے میں نے مولانا سے رخصت چاہی، اور آپ کے کمرے سے باہر نکل آیا، عموماً رات کا کھانا بھی میں باہر ہی کھایا کرتا تھا، عطاء اللہ کے ہوٹل میں دو روٹیاں کھا لیتے، یہی ہمارا عشائیہ تھا، میں تیز تیز چلتا ہوا جامعہ کے احاطے سے باہر نکل آیا، مجھے مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمریؔ سے ملاقات کرنی تھی، ان کے مکان کی جانب میں گامزن ہوں، احسان خان S.T.Dمیں بیٹھے ہوئے نظر آئے، ’’حفیظ صاحب کے پاس چل رئیں؟‘‘ میں نے استفسار کیا۔ ’’چلو‘‘ احسان خان کا جواب تھا۔ یہ مولانا کا مکان ہے، ہم نے آہستہ سے دروازہ کھٹکھٹایا، ’’کون؟‘‘ اندر سے آواز آئی۔ ایک طالب علم نے دروازہ کھولا، ہم مسکراتے ہوئے سلام کرتے ہوئے اندر داخل ہوئے، مولانا نے مسکراتے ہوئے ہمارا استقبال کیا، نمکین چیزیں پیش کیں، اگرچہ کہ ہم نے بے حد انکار کیا، اپنے مہمانوں کی تواضع کرنے کو وہ بے حد ضروری خیال کرتے ہیں، مولانا سے ترمذی، مصطلح پڑھنے کا اتفاق ہوا، حال ہی میں آپ کی تصنیف ’’ارض حرم میں پہلا قدم‘‘ منظر عام پر آئی ہے، میری یہ شدید خواہش تھی کہ مولانا کے محفوظات جو راہ اعتدال میں قسطوار شائع ہوئے ہیں، ان کو کتابی شکل دوں، اللہ کا شکر ہے کہ جامعہ والوں نے یہ کام دیر سے ہی سہی انجام دیا، مولانا کے اسلوب سے میں ہی نہیں جامعہ دارالسلام کا ہر طالب علم متأثر ہے، میرے پاس خود محفوظات کی تمام قسطیں محفوظ ہیں، دو تین مرتبہ اس کتاب کو پڑھنے کے باوجود پھر پڑھنے کا جی چاہتا ہے، اس کے علاوہ آپ نے کئی ایک عربی کتابوں کا ترجمہ کیا ہے۔
عربی ادب اور اردو ادب کا آپ نے گہرائی سے مطالعہ کیا ہے، ابتدائی دور میں مولانا طہٰ حسین سے بے حد متأثر تھے، طہٰ کی تمام کتابیں آپ کے پاس محفوظ تھیں، پھر اللہ کا کرم ہو اکہ آپ نے مصطفی صادق رافعی کو پڑھا، طہٰ کی اغلاط اور طہٰ کے تسامحات آپ پر واضح ہوئے، طہٰ حسین کا میں نے جامعہ دارالسلام سے قبل صرف نام سن رکھا تھا، نہ اس کی کسی تحریر کو پڑھنے اتفاق ہوا، نہ اس کی شخصیت پر سے پردہ اٹھا مگر مولانا کی زبانی طہٰ حسین کے بارے میں کافی تفصیلات معلوم ہوئیں، انہیں معلومات کو سامنے رکھ کر میں نے ’’طہٰ حسین! بدنصیب ذہین‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جو سالار ویکلی کے ساتھ کئی رسالوں میں شائع ہوا۔
جامعہ دارالسلام میں داخلے سے قبل مولانا کو محفوظات کے توسط سے ہی جانتا تھا، شخصیت کے خدوخال واضح نہیں ہوئے تھے، جب ملاقات ہوئی تو آپ کی شخصیت سے ، عادات واطوار سے، طرز گفتگو سے کافی متأثر ہوا، جب کبھی راہ اعتدال میں آپ کی تحریرں دیکھتا ہوں تو اس تأثر میں مسلسل اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے بولنے اور لکھنے پر یکساں قدرت دی ہے، آپ جو بولتے ہیں وہ لکھتے ہیں اور جو لکھتے ہیں وہ بولتے ہیں، جامعہ کے کسی اجلاس میں آپ خطاب کرتے ہیں تو لگتا ہے کہ پھول جھڑ رہے ہیں، ناچیز نے کئی بار آپ کو سنا اس کے باوجود آپ کو سننے کی تمنا اور آرزو اب بھی اپنے دل میں رکھتا ہوں۔
بڑے بڑے علماء کو آپ نے دیکھا ہوگا کہ ان کے کچھ تفردات ہوتے ہیں، جیسے علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ، ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ وغیرہ کے تفردات ہیں، مولاناحفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی کے بھی کچھ تفردات ہیں، اب ہم اس کے بارے میں گفتگو کرنا مناسب نہیں سمجھتے کہ آخر وہ تفردات کیا ہیں؟ مگر اتنا ضرور ہے کہ وہ اپنے تفردات کے حق میں بڑے زبردست دلائل بھی رکھتے ہیں۔
آپ تھوڑے سے نازک مزاج واقع ہوئے ہیں، کلاس میں آپ جب بھی آتے ہیں آپ کے جانے تک ایک تناؤ کی کیفیت محسوس ہوتی ہے، بظاہر آپ ہنستے مسکراتے رہتے ہیں مگر کبھی کسی معمولی بات پر بھی بے حد غصے میں آ جاتے ہیں، اس لیے ہم آپ کی کلاس میں حد درجہ محتاط رہتے ہیں، آپ سے ملاقات کے وقت بھی تقریباً یہی کیفیت ہوتی ہے۔
آپ الجامعۃ الاسلامیۃ مدینہ منورہ کی پہلی بیچ کے فارغ ہیں، علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ مدینہ منورہ میں آپ کے جونیررہ چکے ہیں، فراغت کے بعد آپ نے چند دن سہ روزہ دعوت میں بھی کام کیا، کئی ایک کتابوں پر تبصرے لکھے، اس کا تفصیلی تذکرہ ’’ارض حرم میں پہلا قدم‘‘ میں آپ نے کیا ہے، طالب علمی کے زمانے میں بڑے بڑے مشاہیر سے آپ کے تعلقات رہ چکے ہیں، غلام رسول مہر سے مستقل خط وکتابت تھی، ’’غبار خاطر‘‘ کے طرز پر غلام رسول مہرؔ کی سوانح حیات ترتیب دینا چاہتے تھے، پھر نہ جانے کیا ہوا؟ آپ نے یہ کام مکمل نہیں کیا، جامعہ دارالسلام کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں مولانا آزادؔ کے شیدائیان کی کثرت ہے، طلباء اور اساتذہ آزادؔ کی کتابیں پڑھتے ہیں، ان کے سحر میں گرفتار ہیں، مولانا بھی مولانا آزادؔ کے بڑے معتقد ہیں، ان کے خلاف ایک لفظ بھی سننا انہیں گوارا نہیں، اگر کوئی آپ کے سامنے مولانا آزادؔ کے خلاف ایک لفظ بھی بولتا ہے تو اس کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتے ہیں، جب میں نے اپنی کتاب ’’دس عالم شعراء‘‘ مکمل کی تو مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری کو ایک نظر دکھانے کے لیے گیا، مگر مولانا آزادؔ کی تاریخ وفات میں نے غلط لکھ دی تھی، ان کی صحیح تاریخ وفات ۱۹۵۸ء ہے اور میں نے ۱۹۵۷ء لکھ دی تھی، آپ نے غلطی کی نشاندہی کی تو میں نے کہہ دیا کہ نہیں ! ۱۹۵۷ء ہی صحیح ہے، آپ نے فوری طور پر خلیق انجم کی مرتبہ کتاب دکھائی جس میں مولانا آزادؔ کی تاریخ وفات ۱۹۵۸ء لکھی ہوئی تھی ، پھر آ پ نے کہا’’مولانا آزادؔ کے بارے میں ہم اتنی بڑی غلط فہمی کا شکار ہوں ، یہ ناممکن ہے‘‘۔ ناچیز کو اپنی غلطی پر بضد رہنے پر بڑی ندامت ہوئی۔
عشاء کی نماز کا وقت ہوا چاہتا ہے، اذان ہو رہی ہے، ہم دونوں مولانا کے یہاں سے رخصت ہوئے، طلباء عموماً عشاء کے قریب سڑک پر چہل قدمی کرتے ہوئے گپ شپ میں مصروف، چائے پیتے ہوئے، فون کرتے ہوئے ملیں گے، بعض طلباء سونے سے قبل دودھ پینا ضروری خیال کرتے ہیں، وہ دودھ والے سے دودھ لا رہے ہیں، ہمارے عارف الحق صاحب بھی ایسے ہی طالب علم ہیں، جو روزانہ سونے سے قبل دودھ پینے کو لازم خیال کرتے ہیں، وہ دودھ لے کر دوڑتے ہوئے آرہے ہیں، ہم تیز تیز چلتے ہوئے مساجد کی طرف جارہے ہیں، شاید نماز میں ابھی دو منٹ باقی ہیں، جلدی سے کمرے کا رخ کرنا ہے، اپنی کتابیں لینی ہیں، مسجد جانا ہے، عشاء کے بعد مسجد کے صحن میں عشاء کا ہال ہوتا ہے، جس میں ہم اپنے تازہ پڑھے ہوئے اسباق کا اعادہ کرتے ہیں،عشاء سے قبل عموماً طلباء کمروں سے اپنی کتابیں لے کر آتے ہیں، عشاء کے بعد کتابیں لانے کی اجازت نہیں ہے، یہ کلیہ صرف کلیہ کے طلباء کے لیے ہے، ثانویہ کے طلباء کا ہال انہیں کی بلڈنگ میں منعقد ہوتا ہے، اس لیے وہ اس کلیے سے مستثنیٰ ہیں۔

No comments:

Post a Comment