Wednesday, April 24, 2013

5جامعہ دارالسلام کا ایک دن

5جامعہ دارالسلام کا ایک دن
اگر آپ درس کے اوقات کے علاوہ دیگر اوقات میں جامعہ دارالسلام تشریف لائیں گے تو آپ کو استاد وشاگرد میں تفریق کرنے میں بڑی مشکل پیش آئے گی، اس کے لیے آپ کو پوچھنا پڑے گا کہ فلاں استاد کون ہیں، آپ کو پتہ چلے گا کہ جو صاحب طلباسے گفتگو میں منہمک ہیں وہ بخاری کے استاد ہیں، جو صاحب طلباء کے ساتھ چائے پی رہے ہیں وہ حدیث کے استاذ ہیں، جو صاحب طلباء کے ساتھ والی بال کھیل رہے ہیں وہ فقہ کے استاذ ہیں، جو صاحب طلباء کے ہمراہ چہل قدمی کر رہے ہیں وہ ادب کے استاذ ہیں، اللہ کرے ہمارے اساتذہ اور طلباء کا تعلق یونہی برقرار رہے، اس میں کسی قسم کا انقطاع نہ آنے پائے۔ آمین!

یہ مولانا کلیم اللہ عمری مدنی ہیں، جن کی کئی کتابیں تادم تحریر منظر عام پر آچکی ہیں، بڑے ہی قناعت پسند اور طلباء کی ترقی کے خواہاں انسان ہیں، بہت مخلص ہیں۔یہ آپ ہی کے بھائی مولانا قمر علی عمری ہیں جو ذہانت میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ یہ آئی، ٹی، آئی کے استاذ مولانا زکریا صاحب عمری ہیں، جو کمپیوٹر کی رگ رگ سے واقفیت رکھتے ہیں، بڑے ملنسار انسان ہیں۔ یہ بزرگ مولانا عبدالصمد صاحب عمری ہیں، بہار کے رہنے والے ہیں، درس کے لیے پوری تیاری سے آتے ہیں، میں نے آپ سے مرقاۃ پڑھی ہے، عموماً طلباء آپ کی گھنٹی میں بوریت کا شکار ہوتے، عدم توجہی کا مظاہرہ کرتے، مگر وہ بڑے مستقل مزاج تھے، بچوں کی توجہ، بوریت کا احساس کیے بغیر جتنا سبق پڑھانا ہوتا باقاعدہ پڑھا کر جاتے، آج کل جامعہ محمدیہ بنگلور میں خدمت انجام دے رہے ہیں۔
یہ پڈنہ کے ڈاکٹر سعید احمد عمری مدنی ہیں، دعوت دین سے خاص لگاؤ ہے، مسلک سلف کے شیدائی ہیں، پڈنہ میں ایک مدرسہ درالبر کے نام سے قائم کر چکے ہیں، کھلے دل والے انسان ہیں، ادیان آپ کا خاص موضوع ہے، عقیدہ بڑے دلکش انداز میں پڑھاتے ہیں۔
یہ ہشاش بشاش انسان مولانا اسلم عمری ہیں، جامعہ دارالسلام کی خدمات پر Ph.Dکر چکے ہیں۔ معمولی بات کو بھی مزاحیہ پیرائے میں بیان کرنا آپ کو خوب آتا ہے، جو بھی ملتا ہے وہ ہشاش بشاش واپس لوٹتا ہے، بلا کا حافظہ پایا ہے۔ کتابوں کا مطالعہ بڑے انہماک سے کرتے ہیں، سنا ہے کہ آپ کے ڈاکٹریٹ کا مقالہ عنقریب شائع ہو رہا ہے، اللہ کرے کہ یہ خبر صحیح ہو، جس طرح آپ ذہین ہیں بالکل اسی طرح آپ کے فرزندان بھی ذہین ہیں ۔
یہ بڑی سی عینک لگائے جو بزرگ خراماں خراماں چلے آ رہے ہیں، وہ مولانا عبدالرحمن خان ابوالبیان حماد عمری ہیں، کافی عمر رسیدہ ہیں، شاعری بڑی پیاری کرتے ہیں، پیش رفت میں عموماً آپ کی نعتیں/غزلیں شائع ہوتی ہیں، آپ کی یہ کتابیں چھپ چکی ہیں، (۱)تازیانے (المنبہات کا ترجمہ) (۲) نغمات حمد ونعت (۳) سفرنامۂ ایران وحجاز (۴)بانگ حرا(۵)فردوس تغزل۔ جامعہ دارالسلام کے سالانہ مشاعرے آپ ہی کے زیر نگرانی سر انجام پاتے ہیں، اگر آپ سے ملاقات کیجئے گا تو ایک ہی سانس میں آپ سے کئی سوال کریں گے اور خود ہی فوری اس کا جواب بھی دیں گے۔ راہِ اعتدال کے جتنے خاص شمارے شائع ہوئے ہیں ان میں زیادہ تر آپ کی موضوعاتی نظمیں موجود ہیں۔
یہ سائیکل سوار مولانا عبدالواحد صاحب عمری مدنی ہیں، اپنی دنیا میں مست رہتے ہیں، بڑے بھولے، سیدھے انسان ہیں، ، آپ میں للہیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، اپنے آرام کے لیے طلباء کو تکلیف دینا کبھی گوارا نہیں کیا، ہر شخص کی بات پر بہت جلد یقین کر لیتے ہیں، جماعت چہارم میں آپ ہمارے کلاس ٹیچر تھے، کوئی چرب زبان طالب علم آپ کو جو کہتا اس پر ہاں! ہاں! کی گردام کیے جاتے۔
یہ جو گاڑی میں تیزی سے نکلے جا رہے ہیں ماسٹر مختار صاحب ہیں، جو بڑے حساب سے حساب پڑھاتے ہیں، حساب پڑھانے کے دوران نہ جانے کہاں کہاں سے مثالیں ڈھونڈ کر لاتے ہیں کہ ہنسی آ جاتی ہے، بڑے ذہین انسان ہیں، بڑی سادگی سے گفتگو کرتے ہیں۔
ہم کلاس سے باہر آ گئے، مطبخ کی طرف جارہے ہیں، آج اتوار کا دن ہے، یقیناًگوشت پکا ہوگا، جامعہ کے مطبخ میں ایک ہفتے کا شیڈول متعین ہے کہ فلاں دن فلاں چیز پکائی جائے گی، عارف میاں اپنے کمرے میں داخل ہوئے، میں اپنے کمرے میں، بستر پر نگاہ ڈالی کہ کہیں کسی کا کوئی خط تو نہیں آیا ، عموماً روزانہ مجھے ڈاک کا انتظار رہتا تھا، کیونکہ کثرت سے خط وکتابت کرنا میری عادت تھی، عام طور پر شعراء ادباء کی کتابیں بھی میرے نام کثرت سے آیا کرتی تھیں، تبصرہ کرنا، تعارفی مضمون لکھنا مجھے از حد پسند تھا، اس دور مین میرے مضامین اور تبصرے بہت سے معیاری رسائل وجرائد، روزناموں، ماہناموں میں شائع ہوا کرتے تھے۔
آج کسی کا خط نہیں آیا تھا، میں عارف کے کمرے کی طرف گیا، ’’باہر چل رئیں‘‘ میں نے کہا۔ ’’چلو! دبا کے بھوک لگ رئی‘‘ عارف نے کہا۔ ہم سست روی کے ساتھ باہر کی طرف جارہے ہیں، مسعود بھائی کی بریانی عموماً ہم لوگ کھایا کرتے تھے، بِل عموماً عارف الحق ادا کیا کرتے تھے۔
ہم ہوٹل میں داخل ہو چکے ہیں، ’’دو بریانی مسعود بھائی‘‘ عارف نے کہا۔ ’’دے رؤں جناب!‘‘ مسعود بھائی نے کہا۔ وہ عموماً فصیح اردو بولنے کی ناکام کوشش کرتے تھے، باسمتی چاولوں کی دو بہترین ، خوشبو دار، لذیذ بریانیاں ہمارے سامنے ہیں، بسم اللہ کر کے ہم نے کھانا شروع کیا، ’’ماشاء اللہ کیا مزیدار ہے!‘‘ میں نے کہا، ’’جلدی کھاؤیار! جا کے سونا ہے‘‘ عارف نے کہا۔ بریانی کا لطف پیاز کے ساتھ دوبالا ہو جاتا ہے، بریانی ختم ہو گئی، ہم نے ہاتھ دھونے سے فراغت حاصل کر لی، عارف الحق نے بل ادا کر دی۔ ’’چائے پئیں گے یا شربت‘‘ عارف نے کہا۔ ’’شربت‘‘ میں نے کہا۔ گرم گرم بریانی کے بعد ٹھنڈے ٹھنڈے نناری کے شربت کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے، وہ بھی عمرآباد کا شربت، جس میں ہلکا سا بادام کا گوند ملا ہوا ہوتا ہے۔ شربت حاضر ہو گیا، ہم نے چسکیاں لے لے کر یہ ٹھنڈا فرحت بخش شربت نوش کیا۔
اس کے بعد ہم دونوں چلتے ہوئے ہاسٹل میں داخل ہوئے، وہ اپنے کمرے کی طرف، میں اپنے کمرے کی طرف استراحت کرنے کی غرض سے گئے۔ بچے مطبخ سے کھانا کھا کر واپس ہو رہے ہیں، کوئی سونے کے لیے کمرے کی طرف لپک رہا ہے ، کوئی چائے پینے کی غرض سے باہر جا رہا ہے، کوئی کتابیں لیے مسجد کی راہ پر گامزن ہے، اور ہم نیند کے مزے لے رہے ہیں، جامعہ میں نیند کا مسئلہ بڑا نازک مسئلہ ہے، اگر دوپہر چند منٹ بھی آرام کے لیے میسر نہ ہوں تو دوپہر کی گھنٹیاں اونگھنے میں گزر جاتی ہیں، ہلکا سا سر میں درد بھی ہوتا ہے، اس لیے ایک یا دو منٹ بھی اگر اذان کے لیے وقت ہوتا ہے تو ہم بستر پر لیٹ جاتے ہیں، کم از کم تکان تو اتر جاتی ہے، راحت کا احساس تو ہوتا ہے، کمرے کے ساتھی بھی کھانا کھانے سے قبل بستر پر دراز ہیں، کیونکہ آٹھویں جماعت کے کھانے کی دوسری گھنٹی ہے، تقریباً ۲۰ منٹ کا وقت ملتا ہے جس میں ہماری جماعت کے اکثر وبیشتر ساتھی آرام کرتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment