Wednesday, April 24, 2013

7جامعہ دارالسلام کا ایک دن


7جامعہ دارالسلام کا ایک دن
آپ فطرتاً نرم دل ہیں، بہت کم طلباء پر سختی کرتے ہیں، سختی کرتے بھی ہیں تو اس میں ان کی فطری نرمی شامل ہوتی ہے، آپ نے یہ معمول بنا لیا ہے ہر سال آٹھویں جماعت کے طلباء کی بھرپور دعوت کرتے ہیں، ہمیں آپ کی دعوت سے فیضیاب ہونے کا موقع ملا، اپنے شاندار گھر میں اپنے مہمانوں کا دل سے استقبال کرتے ہیں، جو مہمان بھی ایک بار ان کے گھر جاتا ہے وہ یہی کہتا ہوا واپس آتا ہے کہ ’’ایک بار کھایا ہے، بار بارکھانے
کی ہوس ہے‘‘۔

تجوید کی گھنٹی ختم ہوا چاہتی ہے، بلکہ ختم ہو چکی ہے، مولانا اپنی بیگ سنبھالے باہر کی طرف جا رہے ہیں، ہم کمرے کی طرف گامزن ہیں، کمرے میں مصحف رکھنے کے بعد عارف کے کمرے میں داخل ہوتا ہوں، معاً وہ کہتے ہیں ’’باہر نئیں چل رئیں‘‘ ۔ ’’ابھی آ رہا ہوں‘‘ میں کہتا ہوں، البلاغ (طلباء کی لائبریری) سے مجھے ایک کتاب لینی تھی، اس لیے اس سے قبل لی ہوئی کتاب جمع کر وادیتا ہوں، ’’دلاورفگار‘‘ کا کلیات لے لیتا ہوں، پھر ہم دونوں باہر کی طرف جاناچاہتے ہیں کہ اچانک ناصرالدین محمد، احسان خاں اوپر سے اترتے ہیں، ’’باہر جا رئیں؟‘‘ وہ پوچھتے ہیں، ’’آ رئیں‘‘ عارف کا جواب ہوتا ہے، اس طرح ہم چار لوگ باہر کی طرف جا رہے ہیں، جہاں ماش کے وڈے، انڈے کے بھونڈے ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔

’’مسعود بھائی! چار انڈے، آٹھ ماش کے بڑے‘‘ عارف کی آوازابھرتی ہے، ’’ابھی دے رہا ہوں مولوی صاب‘‘ مسعود بھائی جواب دیتے ہیں، احسان خان سیونی کے واقعات بیان کر رہے ہیں، کہیں کہیں وہ مبالغے سے بھی کام لیتے ہیں، خوب مرچ مسالہ لگا کر وہ اپنے شہر کے واقعات بیان کر رہے ہیں، ناصر الدین محمد شاہ آباد کے قصے سنا رہے ہیں، شاہ آباد کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملا رہے ہیں، میں کہاں چپ رہنے والا تھا، میں نے بھی کڈپہ کی عظمت بیان کرتے ہوئے دو تین واقعات سنائے، عارف الحق ایسے مواقع پر خاموش رہیںیہ ناممکن ہے، وہ کہنے لگے’’ بس کرو یارو یارو! ہمارا بالے ہنور کشمیر سے کم نہیں‘‘ یہ نوک جھونک جاری تھی کہ مسعود بھائی نے انڈے اور ماش کے وڈے پیش کر دئے۔
’’باتیں کم کرو، کھانا شروع کرو‘‘ عارف نے کہا، ماش کے گرم گرم بڑے مزے لے لے کر کھائے جا رہے ہیں، بڑے ختم ہونے کے بعد اب انڈے کی باری ہے، اس سے انصاف کرنا بہت ضروری ہے، آہستہ آہستہ ہم اسے بھی ختم کر دیتے ہیں، ’’چائے لیں رئیں یا چائے نا‘‘ عارف نے میری طرف اشارہ کر کے سوال کیا، میں نے کہا ’’چائے نا‘‘۔’’تم کیا لے آئیں‘‘ ناصر اور احسان کی طرف دیکھ کر انہوں نے سوال داغا، احسان اور ناصرنے کہا ’’چائے!‘‘ ۔ ’’مسعود بھائی! تین چائے ایک چائے نا‘‘ عارف نے کہا، ’’ایک ڈبل شکر کیا مولوی صاب‘‘ وینکٹیش نے سوال کیا، عارف نے اس کے جواب میں فقط سر ہلایا۔
دودھ اور چائے نوشی سے فراغت کے بعد ہم ہوٹل سے باہر نکل آئے، عصر بعد تفریح کے لیے ہم لوگ عموماً گڑھ آمبور کا رخ کرتے تھے، بسا اوقات ایسا ہوتا کہ نریم پیٹ تک ٹہلتے ٹہلتے چلے جاتے، احمد اللہ کا مکان نریم پیٹ میں ہے، ان سے ملاقات کر لیتے، وہ بھی حق میزبانی خوب ادا کرتے تھے، اور کبھی مغرب کا وقت گڑھ آمبور میں ہی ہو جایا کرتا تھا تو مسجد گڑھ آمبور میں مغرب پڑھ لیتے، مسجد کے بالمقابل جو تلے ہوئے گوشت کی دکان ہے اس میں داخل ہو جاتے، سیر ہو کرتلا ہوا گوشت کھاتے، سویاں بھی کبھی ساتھ میں نوش کر لیا کرتے، کبھی اس کے بغیر کام چلا لیا کرتے۔
ہم گڑھ آمبور کی طرف جارہے ہیں، دارالسلام ہسپتال کا احاطہ ختم ہوا، تھوڑا سا آگے بڑھتے ہیں تو عمرآباد کا قبرستان نظر آتا ہے، یہ قبرستان عام قبرستانوں سے ممتاز قبرستان ہے، کیونکہ یہاں آرام فرما ہستیاں اپنے وقت کی بڑی اہم ، بلند پایہ اور عظیم ہستیاں ہیں، اس قبرستان کی مٹی پر مجھے بڑا رشک آتا ہے کہ یہاں کیسے کیسے خزانے مدفون ہیں، کیسے کیسے جواہرات اس مٹی میں پوشیدہ ہیں، ایسی ایسی ہستیاں اس مٹی کی زینت ہیں جو خلوص، للٰہیت کا مجسمہ تھیں، جنہوں نے زندگی میں کبھی شہرت کی حرص نہیں کی، عمر ساری گمنامی میں بسر کر دی، مجھے اس وقت زاہدؔ اعظمی عمری کے یہ شعر یاد آرہے ہیں ؂
جبین دہر پہ فخر جہاں عمرآباد
زمیں کی گود میں اک آسماں عمرآباد
یہ اہل دانش وارباب فکر وفن کی زمیں
نشانِ عظمتِ ہندوستاں عمرآباد
علامہ شاکر نائطیؔ جو ؔ ؔ جنوب کے غالبؔ ‘‘ ، ’’جنوب کے شبلی نعمانی‘‘ کے القاب سے یا د کیے جاتے ہیں، جو علم وادب کے بحر ذخار تھے، جن کی شاعری پر جنوب کی سرزمین جتنا بھی فخر کرے کم ہے، جو جامعہ دارالسلام کے شیخ الادب تھے، ماہنامہ مصحف آپ ہی کی ادارت میں عمرآباد سے نکلتا تھا، عمرآباد کی شان بڑھاتا تھا، آپ اردو زبان کے ساتھ ساتھ عربی ، فارسی کا انسائیکلوپیڈیا تھے، کیسے پیارے شعر آپ کہہ گئے ہیں، پڑھتا ہوں تو دل بار بارآپ کی عظمت، آپ کے احترام، آپ کے ادب میں جھک جاتا ہے ؂
کوئی صورت تو نکالی جائے گی
جائے گی آشفتہ حالی جائے گی
دل کی حسرت کیا نکالی جائے گی
کیا غریبوں کی دعالی جائے گی
ہے کٹھن راہ وفا تو کیا ہوا
ہر کڑی آفت اٹھالی جائے گی
کیا نہیں آئے گا مجھ کو دور جام
فکر رند لا ابالی جائے گی
کون ہے دنیا میں ایسا خوش نصیب
آپ سے کس کی دعا لی جائے گی
الفت میں بگڑ کر بھی اک وضع نکالی ہے
دیوانے کی سج دھج ہی دنیا سے نرالی ہے
ڈالی ہے دو عالم پہ مٹی ابھی ڈالی ہے
بس کچھ نہیں اب ہم میں یا ہمت عالی ہے
ملتی ہے بڑی راحت اس خاک نشینی میں
میں نے تو طبیعت ہی مٹی کی بنا لی ہے
***
کبھی تھا بتاؤ ایماں بھی ٹھکانے پر کسی کے
یہ کہاں تھے اہل ایماں مری کافری سے پہلے
وہی روگ ہے کہ رونا ہمیں آج تک ہے جس کا
کہیں دل لگا لیا تھا کسی دل لگی سے پہلے
جامعہ دارالسلام کے ناظم اول مولانا فضل اللہ صاحب بھی یہیں مدفون ہیں،مولانا عبدا لسبحان اعظمی، مولانا محمد نعمان اعظمی، بے مثال شاعر، عربی، فارسی واردو میں یکساں دسترس رکھنے والے شاعر مولانا حافظ سید امین ، حافظ قاری عبیدا للہ، مولانا احمد اللہ خان، مولانا اللہ بخش نوری عمری رحمہم اللہ S یہیں آرام فرما ہیں۔
مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی نے اپنے مضمون ’’عمرآباد‘‘ میں ان بزرگوں کے اسمائے گرامی کا تذکرہ کرنے کے بعد بہت ہی پیارا شعر نقل کیا ہے، جو یوں ہے ؂
ہیں اس کی خاک میں مدفون عظمتوں کے منار
یہ وہ زمین ہے جہاں آسمان سوتے ہیں
انہیں خیالات میں غلطاں وپیچاں بادیدۂ نم اس قبرستان سے آگے بڑھتے ہیں۔
احسان خان کو قدیم وجدید شعراء کے بہت سے اشعار یاد ہیں، جن کو وہ سناتے جا رہے ہیں، ہم خاموشی سے سنتے جا رہے ہیں، ناصرالدین محمد آج نہ جانے کیوں خاموش ہیں، ورنہ وہ بہت بولنے والے شخص ہیں، عارف الحق کسی سے فون پر گفتگو کرنے میں مصروف ہیں۔ ’’جلدی چلو! مغرب تک واپس ہونا ہے‘‘ میں نے کہا، ’’کیوں؟‘‘ عارف الحق نے سوال کیا، ’’حبیب صاحب اور حفیظ صاحب سے ملنا ہے‘‘ میں نے کہا، ’’اچھا‘‘ عارف کا جواب تھا۔
مغرب کا وقت ہوا چاہتا ہے، ہم تیز چلتے ہوئے مسجد سلطان کا رخ کر رہے ہیں، طلباء جماعت در جماعت گراؤنڈ سے واپس آرہے ہیں، کسی کی سانس پھولی ہے کوئی پسینے سے تربتر ہے، کسی کے ہاتھ میں فٹ بال ہے تو کسی کے ہاتھ میں والی بال ہے، (کرکٹ کا بلا، گیند اس لیے دکھائی نہیں دیتا کہ جامعہ میں کرکٹ کھیلنا سخت منع ہے، اس کے باوجود چوری چھپے بسا اوقات ہمارے بچے کرکٹ کھیل لیتے ہیں، بلکہ کرکٹ کے ٹورنامنٹ بھی منعقد کیے جاتے ہیں) افسوس کی بات یہ ہے کہ پانچ سال جامعہ میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود مجھے نہ فٹ بال کھیلنا آتا ہے اور نہ والی بال۔
ہم لوگ تیزی سے مسجد کے رخ پر جارہے ہیں، طلباء میں سے بعض مسجد کی طرف ، بعض کمروں کی طرف جا رہے ہیں، پسینے سے شرابور طلباء نہا کر تازہ دم ہورہے ہیں، لیجئے! مؤذن صاحب اپنی میٹھی آواز میں اذان دے رہے ہیں، ہم مسجد پہونچ گئے، اذان جاری ہے، طلباء، اساتذہ سرعت کے ساتھ مسجد کی طرف لپکتے ہوئے وسارعوا الی مغفرۃ من ربکم ۔۔۔ کا نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ اذان ختم ہو چکی، ساتھی سنت ادا کر رہے ہیں۔
مغرب کی نماز کے لیے اقامت کہی جا رہی ہے، لیجئے! جماعت ٹھہر گئی، عارف الحق نے پہلی رکعت میں سورۂ اعلیٰ اور دوسری میں سورۃ الغاشیہ پڑھی، امام صاحب کے سلام پھیرنے کے ساتھ ہم سب نے سلام پھیرا، ذکر واذکار کے بعد سنن ونوافل ادا کیے جا رہے ہیں، نوافل ادا کرنے کے بعد عارف الحق کو میں نے ڈھونڈا، وہ قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف ہیں، ابھی مجھے حبیب الرحمن صاحب اعظمی عمری سے ملاقات کرنی تھی، عموماً میں احسان خان کے ساتھ ان سے ملاقات کے لیے بعد مغرب جا یا کرتا تھا، احسان خان کی تلاش میں نظریں ادھر ادھر دوڑائیں، خان صاحب کا دور دور تک پتہ نہ تھا، مسجد تقریباً آدھی خالی ہو چکی تھی، بعض طلباء لائبریری جا چکے تھے، بعض جا رہے تھے، بعض اپنے کمروں کا رخ کر رہے تھے، میں مسجد سے باہر نکل آیا، سوچا کہ احسان خان ضرور اپنے کمرے میں ہوں گے ،احسان کا کمرہ اوپر تھا، میں نے وہاں پہونچ کر دیکھا تو وہ اپنے کمرے میں لیٹے ہوئے تھے، میں نے کہا ’’حبیب صاحب کے پاس جا رہا ہوں، آپ آئیں گے؟‘‘ ’’نہیں آج سر میں شدید درد ہے۔‘‘ احسان نے جواب دیا۔ سر کا درد احسان خان کو عموماً بے حد پریشان کرتا تھا۔ ’’ٹھیک ہے میں جا رہا ہوں‘‘ یہ کہہ کر میں نیچے اتر آیا، اب مولانا حبیب الرحمن اعظمی عمری سے ملاقات کے لیے ان کے کمرے کا رخ کرتے ہیں، میں نے آپ کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا، مولانا نے دھیرے سے پوچھا ’’ کون؟‘‘ ۔ ’’ظہیر! ظہیر دانشؔ ‘‘ میں نے کہا، وہ کمرے سے باہر نکل آئے، مجھے دیکھا ’’چلئے آ رہا ہوں‘‘ ان کی زبان سے نکلا ۔ کچھ دیر بعد ادارہ تحقیقات اسلامی کی چابی لے کر آئے جو راہ اعتدال کا دفتر بھی تھا، انہوں نے خوود اپنے ہاتھ سے تالا کھولا، دروازے وا کیے، ’’آئیے!‘‘ کہہ کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے، رسائل میز پر سلیقے سے رکھے ہوئے تھے، ’’ کیا بھئی کوئی رسالہ چاہیے؟‘‘ میں نے کہا ‘‘نہیں!‘‘ اس کے بعد میں جو موضوع چھیڑتا مولانا اس پر اس وقت تک بولتے رہتے جب تک کہ کھانے کا وقت نہ ہو جائے، عموماً اردو ادب پر گفتگو ہوتی، کبھی شمیم کرہانی کے شعر سنا رہے ہیں، کبھی عندلیب شادانی کا حوالہ دیا جا رہا ہے، کبھی جوش ملیح آبادی کے حوالے سے گفتگو ہو رہی ہے، عندلیب شادانی کی یہ غزل مولانا اکثر سنایا کرتے تھے ؂
چاند اپنا سفر ختم کرتا رہا، شمع جلتی رہی، رات ڈھلتی رہی
دل میں یادوں کے نشتر سے ٹوٹا کیے، اک تمنا کلیجہ مسلتی رہی
آرزو ہائے کیا چیز ہے آرزو! زندگی کی تڑپ زندگی کا لہو
آرزو سے رہا دل ہمیشہ جواں، عمر گو چھاؤں کی طرح ڈھلتی رہی
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، مہکی مہکی فضا، چاندنی کا فسوں، آرزو کا جنوں
یہ نہ پوچھو خدا را کہ پھر کیا ہوا؟ کچھ نہیں بس یوں ہی رات ڈھلتی رہی
آگ پانی سے بجھتی ہے بیشک مگر، آتش غم نہ اشکوں سے ٹھنڈی ہوئی
ہم نے دیکھا شب غم یہ نیرنگ خود مینہ برستا رہا آگ جلتی رہی
شمیم کرہانی کے یہ چار مصرعے مولانا سے سن کر ہی ہمیں یاد ہوئے، جنہیں ہم اکثر گنگنایا کرتے تھے ؂
روداد غم دوراں کرتا ہوں رقم تنہا
مقتل سے گذرتا ہے میرا ہی قلم تنہا
ساقی ہے نہ صہبا ہے کیا دور شمیمؔ آیا
میخانے میں بیٹھے ہیں بادیدۂ نم تنہا
آپ کی ایک غزل بہت مشہور ہوئی، جس کا مطلع یہ ہے ؂
اک داغ ہے دل پر جو مٹایا نہیں جاتا
اس بھولنے والے کو بھلایا نہیں جاتا
میں نے جب یہ غزل کسی طالب علم کی زبانی سنی تو میں بھی بہت متأثر ہوا، جب یہ معلوم ہوا کہ اس غزل کے تخلیق کار مولانا ہیں تو خوشی کی انتہاء نہ رہی، مولانا کے ذہن میں بلامبالغہ ہزاروں بہترین اشعار محفوظ ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کے اہل خاندان کو زبردست قوت حافظہ کا مالک بنایا ہے، جب بھی کوئی اچھا شعر پڑھتے ہیں تو خودبخود وہ ذہن میں محفوظ ہو جاتا ہے، بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شعر سناتے ہیں تو ساتھ میں اس کا پس منظر بھی بیان کر دیتے ہیں، مثلاً ماہر القادری جدہ کے ایک مشاعرے میں شریک تھے، احسان دانش بھی وہاں آئے ہوئے تھے، ماہرؔ نے احسان دانش کے ان اشعار پر کھل کر داد دی ؂
دل کے بے نور چراغوں کو ضیاء دی جائے
نہ کہ ہمسائے کی قندیل بجھا دی جائے
چوکھٹے قبر کے خالی ہیں اسے مت بھولو
جانے کب کون سی تصویر لگا دی جائے
کچھ دیر بعد ہی ماہر القادری کا انتقال ہو گیا۔

No comments:

Post a Comment