Wednesday, April 24, 2013

4جامعہ دارالسلام کا ایک دن


4جامعہ دارالسلام کا ایک دن
چوتھی گھنٹی صحیح مسلم کی گھنٹی ہے، مولانا خلیل الرحمن اعظمی سابق ناظم جامعہ آیا چاہتے ہیں، طلباء جلدی جلدی صحیح مسلم کی کاپی نکال رہے ہیں،
 میں نے بھی اپنی کاپی نکالی، یہ دیکھیے! یہ لمبے سے مولانا پیچھے ہاتھ باندھے تشریف لا رہے ہیں، آپ کی چال میں وقار، متانت اور سنجیدگی ہے، کالی لمبی ٹوپی لگاتے ہیں، جو تملناڈو کے شرفاء کی شناخت ہے، درسگاہ میں داخل ہونے کے ساتھ ’’السلام علیکم‘‘ کہتے ہیں، بردباری سے اپنے مقام پر بیٹھ جاتے ہیں، طلباء صحیح مسلم آگے بڑھاتے ہیں، ’’آج کس کی باری با؟‘‘ مولانا پوچھتے ہیں، ’’مصدق حسین کی ‘‘ ہم جواب دیتے ہیں، مصدق حسین عبارت پڑھنا شروع کرتے ہیں، آپ احادیث کے ترجمے سے ساتھ الفاظ کی تشریح، احادیث کی تشریح کرتے جاتے ہیں، اگر عبارت میں غلطی ہو 

جائے تو وجہ اعراب پوچھتے ہیں جس سے طالب علم خودبخود اپنی غلطی سے آگاہ ہو جاتا ہے۔

آپ کو اور آپ کے خانوادے کو اللہ تعالیٰ نے بے حد ذہانت سے نوازا ہے۔آپ کے خانوادے کا ہر فرد ذہانت میں یکتائے روزگار ہے، ذہانت کے ساتھ ساتھ بے شمار صلاحیتیں آپ کے خانوادے کی شناخت ہیں، آپ کے فرزند دکتور محمد الیاس اعظمی عمری مدنی الجامعۃ الاسلامیہ مدینہ منورہ کے ممتاز طالب علم رہے ہیں، آپ کو جائزۃ المدینۃ المنورۃ بھی دیا گیا تھا، آج کل آپ جامعہ میں ہی درس وتدریس کی خدمت انجام دے رہے ہیں، ہم نے آپ سے بدایۃ المجتہد اور اصول فقہ پڑھی ہے۔
آپ طلباء سے بیحد شفقت سے بات کرتے، فارسی زبان کے کئی شعر دوران درس سنایا کرتے، تلگو، کنڑ، بنگالی اور ملیالم زبانوں کے کچھ لفظ آپ کے ذہن میں محفوظ تھے، موقع ومحل کی مناسبت سے ان زبانوں کے الفاظ بول کر ہمیں حیرت میں مبتلا کرتے تھے، آپ وسیع التجربہ بزرگ ہیں، ہر علاقے کی تہذیب، رہن، سہن، عادات واطوار کے بارے میں آپ کو جانکاری حاصل ہے۔
آپ کئی سال جامعہ دارالسلام کے ناظم رہے، طلباء پر آپ کا بڑا رعب تھا، اور رہے بڑے سے بڑا جلسہ ہو رہا ہو، طلباء شور مچا رہے ہوں، تو آپ کی صرف ایک آواز طلباء کو خاموش کرانے کے لیے کافی تھی، آپ جب ناظم تھے تو منٹوں میں مسائل حل کر دیا کرتے تھے، مسئلہ کتنا بھی بڑا ہو چٹکیوں میں اسے حل کرنا آپ کو خوب آتا تھا۔ آپ کے دور میں طلباء دفتر نظامت جانے کے لیے کانپتے تھے، دفتر میں اگر طلبی ہوتی تو یقیناًوہ بڑا مسئلہ ہی ہوتا، چھوٹے چھوٹے مسائل وارڈن صاحب خود حل کر لیا کرتے تھے، آپ کا رعب ودبدبہ صرف طلباء پر ہی نہیں تھا بلکہ اساتذہ پر بھی تھا، بسااوقات آپ اساتذہ کو بھی ڈانٹ دیا کرتے تھے، آپ قانون کی بے احترامی بہرصورت برداشت نہیں کرتے تھے، طالب علم خواہ امیر ہو یا غریب، بڑی جماعت کا ہو یا چھوٹی جماعت کا آپ کی نظر میں یکساں تھا۔
اب پانچویں گھنٹی شروع ہو گئی ہے، جو ہدایہ کی گھنٹی ہے، مولانا ظفر الحق طالبؔ نائطی عمری ابن علامہ شاکرؔ نائطی آیا چاہتے ہیں، یہی ہیں مولانا جو سنجیدہ چہرے کے ساتھ پروقار انداز میں کلاس میں داخل ہو رہے ہیں، آپ کا انداز تدریس سب سے دلچسپ، سب سے جدا ہے۔ گھنٹی ہدایہ کی ہے مگر اس میں نحو صرف کے قواعد بیان ہو رہے ہیں، قرآن وحدیث کی بات ہو رہی ہے، ادب کے حوالے سے گفتگو ہو رہی ہے، وہ طلباء میں دلچسپی پیدا کرنے کے فن سے بخوبی واقف ہیں، جب یہ دیکھتے ہیں کہ طلباء پڑھتے پڑھتے بور ہو رہے ہیں، کوئی اونگھ رہا ہے، کسی کے چہرے پر بیزاری طاری ہے، تو فوری سے بہترین لطیفہ سناتے ہیں جس سے محفل زعفران زار ہو جاتی ہے، سارے بچوں کے چہرے پر چستی محسوس کرتے ہیں تو دوبارہ سبق پڑھانا شروع کرتے ہیں، اردو ادب میں آپ کو خاص مہارت حاصل ہے، آپ کا مطالعہ نہایت وسیع ہے، آپ قابل باپ کے قابل فرزند ہیں، بڑی خوبصورت شاعری کرتے ہیں، آپ کے والد صاحب کے کلام کا کافی حصہ آپ کے ذہن میں محفوظ ہے، کبھی کبھی موڈ میں ہوتے ہیں تو والد مرحوم کے اشعار سے مسلسل نوازتے ہیں ؂
کیا رکھا تھا اس ڈورے میں پابند وفا کب تک رہتا
آخر وہ آہو وحشی تھا جو توڑ کے رسی چھوٹ گیا
خدا سے لے کے خدائی سے دور لا کے مجھے
بتوں نے چھوڑ دیا نام پر خدا کے مجھے
اس دل میں بہت کم ہے اب آمد ورفت اس کی
دنیا کی طرف ہم نے دیوار اٹھا لی ہے
ہوں سب میں اور سب سے جدا سب سے بے نیاز
میں ہوں بھرے جہان میں تنہا کہیں جسے
بات جب اردو ادب یا اردو شاعری کی ہوتی تو بطور خاص ناچیز کو مخاطب کرتے ، جسے ناچیز اپنے لیے ایک اعزاز گردانتا ہے۔
آپ کی شاعری، مضامین عموماً ماہنامہ راہ اعتدال میں شائع ہوتے ہیں، طنز ومزاح سے بھی کافی لگاؤ ہے اس لیے وقتاً فوقتاًمزاحیہ مضامین بھی تحریر فرماتے ہیں، جماعت چہارم میں ناچیز نے آپ سے مشکوٰۃ پڑھی ہے۔
کھانے کا وقت قریب ہوتا جا رہا تھا، مولانا نے کتاب بند کر دی، مختلف لذیذ کھانے بنانے کی ترکیب بتلانے لگے جسے سن کر ہمارے منھ میں پانی آنے لگا، کبھی بریانی کا ذکر کرتے ہیں، کبھی کسی چٹنی کو بنانے کی ترکیب بتا رہے ہیں، اب وقت ہوا چاہتا ہے، نقیب صاحب چھٹی کی گھنٹی بجایا چاہتے ہیں، لیجئے! گھنٹی بج گئی، مولانا کلاس سے باہر آ گئے، ہم اپنے ساتھی عارف الحق کے ساتھ کلاس سے باہر نکل آئے۔
یہ دیکھئے! جامعہ کے اساتذہ اپنی اپنی جماعتوں سے نکل رہے ہیں، یہ مولانا عبدالعظیم عمری مدنی ہیں، جو تیزی سے کتابیں سینے سے چمٹائے گھر کی طرف جارہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی زبردست صلاحیتوں سے نوازا ہے، تقریر وتحریر میں یکساں مہارت رکھتے ہیں، اردو کے ساتھ ساتھ عربی اتنی روانی سے بولتے ہیں کہ سننے والا ششدر رہ جاتا ہے، آپ عموماً جمعہ کے خطبے چار مینار مسجد بنگلور میں دیا کرتے ہیں، وہاں لوگوں کی کافی بڑی تعداد آپ کی تقریر سننے کے لیے جمع ہوتی ہے، راہ اعتدال میں درس حدیث بھی لکھتے ہیں، شاعری بھی کرتے ہیں، جامعہ دارالسلام کے سالانہ مشاعروں میں عموماً آپ کی نظمیں، غزلیں طلباء پیش کرتے ہیں، علامہ البانی پر آپ کی ایک کتاب منظر عام پر آ چکی ہے، رابطہ عالم اسلامی کی جانب سے سیرت نگاری کا عالمی مقابلہ ہوا تو اس کے لیے ایک مقالہ ’’نبي الرحمۃ لا نبي الملحمۃ‘‘ تحریر فرمایا ہے، مگر بروقت مقالہ رابطہ کو نہ بھیج سکے۔ بے حد بااخلاق انسان ہیں، جو بھی ان سے ملتا ہے یہی آرزو کرتا ہے کہ دوسری ملاقات کا موقع کب ملے گا؟ دوسری بار ملنے والا تیسری بار ملنے کی آرزو لے کر واپس ہوتا ہے۔
طلباء کے ساتھ آپ بڑی ہمدردی وغمگساری سے پیش آتے ہیں، ان کے مسائل سنتے ہیں، انہیں مشورے دیتے ہیں، میں نے آپ سے منتقی پڑھی ہے، حدیث پڑھانے کا آپ کا خاص انداز ہے، خصوصاً احادیث کا ترجمہ بہت روانی کے ساتھ بہت خوبصورت انداز میں کرتے ہیں، آپ کے ترجمے میں ذرہ برابر بھی سقم یا جھول محسوس نہیں ہوتا، ابھی ابھی آپ نے من ہو اللہ نامی عربی کتاب کا اردو زبان میں ترجمہ کیا ہے جو شاید ہماری اس کتاب کی اشاعت تک شائع ہو کر منظر عام پرآچکی ہوگی۔
جامعہ دارالسلام کے اساتذہ کو آپ عام مدارس کے اساتذہ پر قیاس نہ کریں، یہ اساتذہ بہت خاص ہیں، ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ علم کا سمندر ہے، اپنے موضوع کا متخصص وماہر ہے، اس کے باوجود ان میں ریاکاری بالکل نہیں، بالکل سادگی پسند ہیں، سادہ لباس پہنتے ہیں، سادہ انداز میں زندگی گزارتے ہیں، اپنے اور طلباء کے مابین کوئی حدفاصل نہیں رکھتے، میں نے بہت سے مدارس میں دیکھا ہے کہ طلباء اپنے اساتذہ سے احترام کے نام پر کبھی ملاقات نہیں کرتے، اگر وہ راستے میں آ رہے ہوتے ہیں تو ان سے ایک دو میٹر کی دوری پر ہو جاتے ہیں، اسے وہ احترام کا نام دیتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment