Wednesday, April 24, 2013

9جامعہ دارالسلام کا ایک دن


(last)9جامعہ دارالسلام کا ایک دن
چنانچہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہم وضو کر کے مسجد میں داخل ہو گئے، طلباء جلد از جلد جماعت میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، قاری صاحب آج لمبی قرأت فرما رہے ہیں، تقریباً تمام طلباء پہلی رکعت میں امام صاحب کے ساتھ شامل ہو گئے، چہار گانہ ادا کرنے کے بعد طلباء تسبیحات میں مصروف ہیں، بعض طلباء مراقبے میں جانے کے لیے پر تول رہے ہیں، کیونکہ عشاء سے قبل کھانا کھا کر ٹہلتے ہیں تو غنودگی کی کیفیت طاری ہو جایا کرتی ہے، سنت پڑھنے والے سنت پڑھ رہے ہیں، نفل ادا کرنے والے نفل ادا کر رہے ہیں، مراقبے میں جانے والے
طلباء یوں بیٹھے ہوئے ہیں جیسے ذکر کر ہے ہوں، مؤذن صاحب نے مسجد کی لائٹیں بند کر دی ہیں، دعا کرنے والے خوب خشوع وخضوع کے ساتھ دعا کر رہے ہیں، طلباء آہستہ آہستہ مسجد کے صحن میں اکٹھا ہو رہے ہیں، اپنی کتابیں لیے ہوئے اپنے متعینہ مقام پر بیٹھ رہے ہیں، باری پڑھانے والے طلباء پوری تیاری کو ساتھ آئے ہوئے ہیں، ہماری جماعت میں شکیب عالم، مظہر، ناصرالدین محمد، اسماعیل کروٹلہ باری پڑھاتے تھے، ناصرالدین محمد، عارف الحق، ظہیر دانش، عبید اللہ اور احمد بن محمد ایک باری میں بیٹھتے تھے، ناصر تیزی سے ساری کتابیں پڑھا دیتے، اس کے بعد باتوں کا دور چلتا جو عشاء کے ہال کے ساتھ ختم ہوتا ، چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتیں، لطیفوں کا دور چلتا، واقعات گوش گذار کیے جاتے، لیکن یہ معمول عام دنوں کا تھا، امتحانات قریب ہوتے تو یا تو ساتھ مل کر پڑھ کر رہے ہوتے یا الگ الگ بہر حال ! باتوں کا دور نہ چلتا، اگر مطالعے والی کتاب ہوتی تو بڑی تیزی سے مطالعہ کرتے، ہر کتاب کے دو تین دورے ہوتے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ میرے اور ساتھی تو باتوں میں مصروف ہیں اور مجھے نیند کی دیوی نے آگھیرا اور خوابوں کی دنیا کی سیر کرانے لگی، اور یہ نیند تبھی منقطع ہوتی جب ہال ختم ہوتا، ہم سے ذرا سے فاصلے پر ہمارے آسامی بھائی بلال الدین صاحب کوئی کتاب بڑے زوروں میں رٹ رہے ہیں، ان کی پریشانی یہ تھی کہ عموماً وہ سمجھے بغیر رٹاکرتے تھے، رٹنے کے حوالے سے ہمارے چہارم کے ساتھی برہان الدین کا ایک لطیفہ ہمیں جب بھی یاد آتا ہے بیساختہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے، ہوا یوں کہ ایک مرتبہ وہ مرقات کی ایک عبارت رٹ رہے تھے، عبارت تھی: اعلم ان ارسطا طالیس الحکیم دون ہذا الفن اور وہ پڑھ اس طرح سے رہے تھے: اعلم ان ارسطاطا یہاں رک کر لیس بحکیم ، ان کی اس حرکت کے نتیجے میں ارسطو جیسا عظیم فلسفی غیر حکیم ٹھہرتا تھا۔ حالانکہ جہاں تک رٹنے کا سوال ہے جامعہ میں رٹنا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا، عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ جامعہ کے طلباء کسی امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے صرف تین دن کافی سمجھتے ہیں، اور بعض طلباء تو اتنے ذہین ہیں کہ ان کے لیے ایک رات ہی کافی ہے، افضل العلماء کا امتحان ہم لوگ بغیر کتاب دیکھے لکھ کر آتے تھے اور ممتاز نمبرات سے پاس بھی ہوتے تھے، تجربہ شاہد ہے کہ جامعہ کا ادنیٰ طالب علم بھی جب دیگر جامعات کا رخ کرتا ہے تو وہاں امتیازی نمبرات حاصل کر لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج بھی جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں عمری طلباء بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، عمری برادران کی وہاں ایک امیج بن گئی ہے جسے ہمارے بھائیوں نے کبھی خراب ہونے نہیں دی۔

عشاء کا ہال ختم ہو چکا ہے، طلباء اپنی کتابیں سنبھالے ہاسٹل کا رخ کررہے ہیں، عارف الحق، ناصرالدین محمد، احمد بن محمد، عبید اللہ اور ناچیز بھی ہاسٹل کی جانب رواں دواں ہیں، ہم ہاسٹل میں داخل ہو گئے، عشاء کا ہال دس بجے ختم ہوتا ہے، دس سے گیارہ بجے تک کل ایک گھنٹہ مطالعہ کے لیے یا گپ شپ کے لیے مخصوص ہوتا، عموماً ہم لوگ یعنی ناصرالدین محمد، ظہیر دانشؔ ، عارف الحق کے کمرے میں جمع ہو جاتے، ابوبکر امین بھی اسی کمرے کے مکین تھے جو اپنی شرارتوں میں مصروف رہتے، کبھی عارف الحق کو پریشان کر رہے ہیں تو کبھی مجھے کسی جملے سے نواز دیتے ہیں، کبھی ناصر الدین محمد کی طرف کوئی چٹپٹا سا جملہ اچھال دیتے ہیں، بہر کیف! یہ ایک گھنٹہ یوں ہی ہنسی مذاق میں گذر جاتا، اگر آم کا موسم ہوتا تو کم از کم دو تین کلو آم ضرور لائے جاتے جن کے ساتھ انصاف کرنا ہمیں خوب آتا تھا، عارف الحق آم کاٹ کاٹ کر پلیٹ میں رکھتے جاتے اور ہم نوش کرتے جاتے، مگر عارف الحق بھی کم ہوشیار نہیں تھے جناب! وہ ہاتھ کے ساتھ منھ بھی چلاتے رہتے ، ہماری اس محفل میں احسان خان کی حاضری بھی لازمی تھی۔
عارف کے کمرے سے متصل شکیب عالم کا کمرہ تھا، جس میں ارشاد (آدھونی) اور احمد بن محمد (حیدرآباد) بھی رہتے تھے، ہنسی مذاق میں ، ایک دوسرے کو تنگ کرنے میں ان کا جواب نہیں، اکثر ان کے کمرے سے قہقہے کی آوازیں سننے کو ملتیں، ارشاد صاحب ہر شخص سے بہت جلد گھل مل جاتے، بڑے ہمدرد مزاج کے واقع ہوئے ہیں، میرے لکھنے پڑھنے کے ذوق کو وہ بڑا پسند کرتے تھے، میری حوصلہ افزائی کرتے رہتے تھے، حالانکہ میرے بیشتر ساتھی ادب سے میرے لگاؤ کو بہت زیادہ پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے، لیکن میں یہ سوچ کر مطمئن ہوں کہ ہر انسان کا سوچنے اور سمجھنے کا اپنا اپنا نظریہ ہوتا ہے، ضروری نہیں کہ ایک چیز مجھے پسند ہو تو وہ باقی لوگوں کو بھی مرغوب ہو۔
۱۱ بج گئے، مولانا ابوا لفضل متنبہ کرتے ہوئے آرہے ہیں کہ ’’گیارہ بج چکے ہیں، لائٹ آف کر دیں‘‘ میں اپنے کمرے کی طرف چلا آیا، کمرے کے ساتھی آر محمد یعقوب پٹیل، احمد اللہ، ناصرالدین محمد، ہدایت اللہ، افضال احمد اعظمی اپنے اپنے بستروں پر دراز ہیں، میں بھی اپنے بستر پر جاتا ہوں، آہستہ سے اپنا سر تکیے پر رکھتا ہوں، ’’لائٹ آف کر دیں؟‘‘ افضال کی آواز گونجتی ہے۔ ’’ہاں‘‘ کمرے کے ساتھی مجموعی طور پر آواز لگاتے ہیں، لائٹ آف ہو جاتی ہے، میری آنکھیں دھیرے دھیرے خوابوں کے جہان کی سیر میں مصروف ہو جاتی ہیں۔

No comments:

Post a Comment