Wednesday, April 24, 2013

1جامعہ دارالسلام کا ایک دن


 1جامعہ دارالسلام کا ایک دن

(ایک حقیقت، ایک تخیل)


ٹھک ٹھک ٹھک۔۔۔ نقیب صاحب دروازے کو کھٹکھٹا رہے ہیں، ان کی آواز گونج رہی ہے ’’اٹھ جاؤ‘‘ ’’اٹھ جاؤ‘‘ ، اسی دوران اذان کی سریلی اور میٹھی آواز سماعت سے مصافحہ کرتی ہے، الصلوٰۃ خیر من النوم کی صدا جب کانوں سے ٹکراتی ہے تو رہی سہی نیند بھاگ جاتی ہے، میں اپنا بستر چھوڑ دیتا ہوں، کمرے کے ساتھ یعقوب، ناصرالدین، احمد اللہ، افضال اور ہدایت اللہ بھی نیند کی وادیوں سے ابھی ابھی لوٹے ہیں، جلدی سے برش لے کر وہ حمام کا رخ کرتے ہیں، ضرورت سے فارغ ہو کر مسجد کی جانب بڑھتے ہیں، اتنے میں ہمارے وارڈن بہت ہی محترم انسان ابو الفضل صاحب 
کمروں کا معائنہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں، اگر کوئی سوتا ہوا مل جاتا ہے تو اس کا نام لے کر آگاہ کرتے ہیں پھر آگے بڑھ جاتے ہیں۔


میں بھی دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ مسجد پہونچ جاتا ہوں، سبحان اللہ! کیسی شاندار اور عظیم مسجد ہے، اس مسجد کا نام مسجد سلطان ہے، وسیع وعریض حوض کے ساتھ بیت الخلاء کی سہولت، اس حوض کا پانی موسم سرما میں اور ٹھنڈا ہو جاتا ہے، حوض سے وضو کرنا سرما کے موسم میں ہمارے لیے ایک آزمائش سے کم نہیں ہے۔ مسجد میں جماعت ٹھہر چکی ہے۔غالباً آج ہمارے قریبی دوست عارف الحق کی باری ہے، جو اپنی شیریں آواز میں نماز فجر پڑھا رہے ہیں، طلباء دوڑتے ہوئے آ رہے ہیں، کسی کو اپنی ٹوپی کا ہوش نہیں تو کوئی کرتے کے سارے بٹن لگانا بھول گیا ہے، بھاگتے ہوئے آکر جماعت میں شامل ہو رہے ہیں تاکہ جماعت نہ چھوٹ جائے اور نام نہ نوٹ ہو جائے۔
جی ہاں! جس شخص کی ایک رکعت بھی چھوٹ جاتی ہے اس کا نام نوٹ کر لیا جاتا ہے اور اسے دفتر نظامت میں حاضری دینی ہوتی ہے، ہمارے ناظم دکتور عبد اللہ جولم صاحب نماز کے معاملے میں بڑے سخت واقع ہوئے ہیں، وہ طلباء سے نماز کے علاوہ دوسری کسی بھی چیز میں کوتاہی برداشت کر سکتے ہیں ۔ ویسے یہ بات صحیح بھی ہے کہ اسلام میں نماز کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے غالباً اسی لیے وہ نماز کے سلسلے میں اتنی سختی کرتے ہیں۔
امام صاحب نے سلام پھیرا، سارے ساتھی اپنی تسبیحات مکمل کرنے میں لگے ہوئے ہیں، کوئی اونگھ رہا ہے، کسی کی انگلیاں حرکت کر رہی ہیں اور ذہن سو رہا ہے، پھر دفعۃ ایک ایک کر کے بچے کھڑے ہو رہے ہیں، لپک لپک کر قرآن کریم اپنے ہاتھوں میں اٹھا رہے ہیں، اپنے مقرر کردہ مقام پر بیٹھ رہے ہیں، اصل میں ہر جماعت کے طلباء کے لیے ایک صف مخصوص کر دی جاتی ہے ، اس میں بھی وہ سیٹ کی ترتیب سے بیٹھتے ہیں، قرآن پڑھنے والے پڑھ رہے ہیں، درسی کتابوں کا مطالعہ کرنے والے اپنے شغل میں منہمک ہیں، چند بچے آپس میں گفتگو میں مصروف ہیں، مجھے بھی آج قرآن کے ہال میں نیند آرہی ہے، اصل میں رات سوتے ہوئے بہت دیر ہو گئی تھی ، تنویر کا تازہ شمارہ آنے والا تھا، میں آخری سال اس رسالے کا مدیر تھا، تصحیح وادارت کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی تھی، میرے نائبین مقصود حسین اور افضل خان تھے، افضل خان بس نام کے نائب مدیر تھے، ان سے کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہوتا تھا مگر تھے بڑے ذہین، مقصود حسین دبلے پتلے منحنی سے آدمی تھے، بہت فعال، چست، تنویر کا بیشتر کام وہ اکیلے کر دیا کرتے تھے، مجھے ان سے بہت سہولت رہی۔
فجر کا ہال ختم ہو گیا، عارف الحق نے کہا ’’ چائے پینے نہیں چل رئیں‘‘۔ ’’بالکل‘‘ میں نے کہا۔ میں، عارف الحق، ناصرا لدین چائے پینے کے لیے ہوٹل کی طرف رواوں دواں ہیں، یہ ہمارا معمول ہے، ہم مسجد کے باب الداخلہ سے آہستہ آہستہ نیچے اتر رہے ہیں، بائیں طرف کلیہ کا ہاسٹل ہے، دائیں طرف آئی۔ ٹی۔ آئی دعوہ کی عمارتیں ہیں، تھوڑا آگے بڑھیں تو کلیہ کی درسگاہ ہے، یہ درختوں کی طویل قطار ہے، نہایت سلیقے سے تراشے ہوئے درخت خاندان کاکا عمر کے باغبانی کے شوق پر دلالت کرتے ہیں، اب ہم مالک بھائی کے ہوٹل تک پہونچ گئے ہیں، ’’مالک بھائی! دو چائے ایک چائے نا‘‘ (چائے نا، عمرآباد اور اطراف کے علاقوں میں دودھ کو کہتے ہیں) عارف الحق نے آواز دی۔ پھر وہ ورقی لینے کے لیے آگے بڑھے، تین زبردست ورقیاں کاغذات میں لپیٹ کر انہوں نے ہماری طرف بڑھائیں، ہم ورقی توڑ توڑ کر کھا رہے تھے، ورقی کا لطف اور مزہ ہی اور ہے، جامعہ دارالسلام کی صبح اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ ورقی نہ کھائی جائے، عمرآباد میں جیسی ورقی کھانے کو ملتی ہے ویسی ورقی میں نے کہیں بھی نہیں کھائی، جب ہوٹل تک پہونچ ہی گئے ہیں تو چائے کی قسمیں جانتے چلیں، چائے کی یہاں کئی قسمیں ہیں، ڈسکو، لائٹ، میڈیم، ڈبل شکر، ملائی مار کے وغیرہ۔ میں سمجھتا ہوں کہ مولانا ابولکلام آزادؔ اگر عمرآباد آتے ، عمرآباد کی چائے پیتے تو یقیناًیہاں کی چائے کے قائل ہو جاتے۔
چائے سے فراغت کے بعد ہم اٹھ کھڑے ہوئے، طلباء جوق درجوق آرہے ہیں، شراب ’’الصالحین ‘‘(۱)سے اپنی پیاس بجھا رہے ہیں، ہم ہوٹل سے باہر نکلے، بائیں طرف کل تین عمارتیں نظر آرہی ہیں، ایک مسجد عمرآباد ہے، دوسری تحفیظ القرآن کی بلڈنگ ہے، تیسری خوبصورت دیدہ زیب عمارت کاکا عمر لائبریری کی ہے۔ ’’لائبریری جانا ہے‘‘ میں نے کہا۔ ’’سونا ہے‘‘ عارف الحق نے کہا۔ عارف الحق کو اللہ تعالیٰ نے بے حد ذہانت سے نوازا تھا، مگر مشکل یہ تھی کہ وہ سوتے بہت تھے، امتحان ہال میں جانے کے لیے ابھی دس منٹ باقی ہیں تو وہ پانچ منٹ سوتے تھے، پھر امتحان ہال کی راہ لیتے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں کم سوتا تھا، نہیں! میں بھی سونے میں کسی سے کم نہیں تھا، کلاس کی پہلی گھنٹی آٹھ دس کو لگتی، اور دوسری آٹھ بج کر پندرہ منٹ پر، میں برابر آٹھ دس تک سوتا رہتا تھا، رہے ناصر الدین محمد تو وہ کبھی سونے کے لیے نکل جاتے، کبھی تفریح کے 
لیے جاتے یا کبھی میرے ساتھ لائبریری آتے۔


No comments:

Post a Comment