Friday, March 22, 2013

لایعنی:۔


لایعنی:۔
سوال ۶؂: از۔محمد ظہیر دیو بندی۔
قصص الانبیاء (اردو ) میں لکھا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نور محمد یﷺ پیدا کیا وہ نور محمد بارہ ہزار برس تک علم تجردی میں خدا کی عبدت میں مشغول رہا پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی چار قسم کر کے ایک سے عرش پید اکیا دوسری سے قلم ۔ تیسری سے بہشت ۔ چوتھی سے عالمِ ارواح اور ساری مخلوق اور پھر ان چار میں سے چار قسم نکال کر ۳سے عقل ، شرم ،عشق اور ایک سے میرے تئیں پیدا کیا ‘‘۔ کیا یہ سب صحیح ہے ؟ کسی حدیث صحیح سے اس کا ثبوت ملتا ہے اور کیا’’ لولاک لما خلقت الا فلاک‘‘ حدیث صحیح ہے ؟ اور انا من نوراللہ الخ بھی حدیث صحیح ہے ؟ کیا یہ بھی کسی حدیث صحیح سے ثابت ہیکہ زمین ایک گائے کہ سینگ پر قائم ہے اور جب اس کا سینگ دکھ جاتا ہے تو دوسرے سینگ پر لے لیتی ہے جوز لزلہ کی صورت میں ظاہر ہوتاہے یا فرشتہ ہاتھو ں پر لئے کھرا ہے کیا یہ صحیح ہے ؟ براہِ مہربانی آپ اپنی معلومات سے مطلع فرمایئے کہ زمین آخر کس چیز پر قائم ہے احادث صحیح اس کے بارے مین کیا کہتی ہے ۔ نیز موجودہ دور کے سائنسداں کیا کہتے ہیں کہ زمین کس چیز پر قائم ہے ۔ بڑی ہی مہربانی ہوگی اگر آپ قصص الانبی�أ کا پہلا باب ’’کائنات اور نورمحمدی ﷺ کی پیدائش ‘‘ پورا ملا حظہ فرمالیں اور پورے باب پر تبصرہ فرماویں ۔ مجھے تو یہ سب باتیں خارج از عقل معلوم ہوتی ہیں میں آج کل قصص الانبی�أ مطبوعہ کتنجانہ کا دیو بند کا مطالعہ کررہاہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی صداقت میں بہت شک مجھے امید ہے کہ آں محترم بذریعہ تجلی اس شک کو رفع کرنے کی سعی فرمائیں گے۔
الجواب:۔ کا دن ہوئے ہم نے قصص الانبی�أ کے کچھ اوراق کا مطالعہ کیا تھا اور بیچ بیچ میں سے متعد د مقامات پر نظر ڈالی تھی ۔ اس سرسری جائزے نے ہمیں اس نتیجے پر پہنچایا کہ یہ ان غیر معتمد کتابوں میں سے ہے جس کا مطالعہ وقت کے زباں اور خیالات کے انتشار سے زیادہ کوئی فائدہ نہیں دیتا ۔ اس میں نہ صرف ضعیف و منقطع روایات کی بہتات ہے ، بلکہ کتنی ہی روایات تو ا س نوع کی ہیں کہ انھیں فن کی ترازو می تولے بغیر ہی ایک مسلیم الطبع آدمی اساطیر الاولین کا نام دے سکتا ہے ۔ اس کتاب کا اندازِ بیان بھی ایسا غیر ثقہ ہے کہ عامیاور کندقسم کے لوگ ہی اس سے لطف اندوس ہوسکتے ہیں ‘ ورنہ ج شخص کے اندر شئی لطیف کی رمق بھی ہے وہ بلا کبیدگی اس کا مطالعہ نہ کرسکے گا۔تجلی کے صفحات میں ایک دو بار ضمناً اور مختصر اس کا ذکر آیا ہے تفصیلی ذکر و نقد کی یہ مستحق بھی نہیں ہے ۔
لولا ک لما کے بارے میں گذشتہ ہی شمارے میں میں کچھ عرض کیا جاچکا ہے ۔ اسے پڑھ لیجئے ۔ اگر یہ کافی نہو تو اس سے زیادہ کی امید فی الوقت ہم سے نہ کیجئے ۔ رہا گائے کے سینگ پر دنیا کے قائم ہونے کا معاملہ تو یہ خیال محض تو ہماوت ہفوات میں سے ہے اس کے لئے کوئی علمی و عقلی بنیاد موجود نہیں ہے ۔ حدیث سے اس طرح کی لغو باتیں ثابت ہونے کا اندیشہ وہی کرسکتا ہے جسے علم حدیث سے کوئی مس نہ ہو۔ خوب سمجھ لیجئے اللہ کے سچے بنی کے ارشادات مبارکہ اس طرح کی ہفوات سے بلند و برتر ہین اور ایسی فضول بوتوں پر مشتمل دوایات کو رد کرنے کے لئے روالوں گی تنقید میں وقت ضائع کے منہ پر مار دینا چاہئے ۔
حضور ؐ نے اس کی کوئی اطلاع نہیں دی کہ زمین کس چیز پر قائم ہے ۔ نہ اس طرح کی اطلاعیں دینے حضور ؐ مبعوث ہوئے تھے ۔ سائنس دانوں کی کنج کاوی نے اس باب میں جو اطلع بہم پہنچائی ہے وہ یہ ہے کہ یہ زمین اور چاند سورج وغیرہ جذب و کشش کے ایک مہتم بالشان اور محیر العقول نظام کے تحت بیکراں فضا کی پہنائیوں میں اپنے اپنے وظیف�ۂ حیات کو انتہائی صحت اور ضبط و انتظام کے ساتھ پورا کرنے میں مصروف ہیں ۔ زمین کسی ٹھوس چیز پر ٹکی ہوئی نہیں ہے ، بلکہ فضا میں حرکت کناں ہے ۔ اس کی دو طرح کی حرکتیں سائنس نے دریافت کی ہیں ۔ ایک اپنے محور پر مدور شکل میں اور ایک آگے کو بڑھتی ہوئی مستطیل انداز کی ۔ جس طرح ایک لٹو گھومتا ہوا ۔۔۔۔۔۔ ہوا سی شکل میں زمین دوہری جنبش و حرکت کے ساتھ نظم کا ئناب میں اپنا مقصدِ حیات پورا کررہی ہے۔ 
سائنس کے بے شمار نظریات اٹل ہیں ۔ انھیں ہم دریافت کا نام دیتے ہیں ۔ ان کی تردید ممکن نہیں ہے، لیکن بے شمار نظریات غیر یقینی ہیں ۔ ان کا تعلق دریافت سے نہیں ، بلکہ سائنس ہی بسااوقات ان کی تکذیب کر کے نئے نظریات پیش کرتی رہتی ہے ۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ زمین اور جرام فلکی کے نظام اور ان کے باہمی تعلق اور ان کی حرکت جنبش کے بارے میں جو کچھ سائنس کہتی ہے وہ دوسری قسم میں داخل ہے ۔ ہوسکتا ہے مزید تحقیق و تجسس کے بعد اب تک کے قائم کردہ اندازوں اور فارمولوں میں ترمیم و تنسیخ کی ضرورت پیش آئے ۔ 
لیکن جب تک یہ ترمیم و تنسیخ سامنے نہیں آتی ہمارے لئے اس مفر نہیں ہے کہ سائنس کے د عاوی کو تسلیم کرلیں یا کم سے کم خاموشی اختیار کریں ۔ مذہب نے ہمیں کوئی ایسی اطلاع نہیں دی ہے جو ان سائنسی دعاوی کے منافی ہو۔ 
قصص الانبی�أ جیسی غیر معتبر کتابوں کا مطالعہ کبھی نہ کیجئے ورنہ حدیث رسولؐ کے بارے میں ریب و تذبذب کا دروازہ کھل جائے گا۔ ہمارے بعض بزرگوں نے اپنی حد سے زیادہ معصومیت کے باعث بے شمار اسرائیلی اور دیو بالائی روایات کو حدیث سمجھ کے سینے سے لگا لیا ہے ۔ اس کے نتیجے میں احادیثِ صحیحہ کی صداقت و عظمت بھی ماثر ہوئی ۔ یہ جواب دید نیا بہت آسان ہے کہ اہلِ فن نے کھرے کھوٹے کی تمیز کا معیار مقرر کردیا ہے ۔ اور محققین نے موضوعات کے مجموعے بھی مدون فرمادئے ہیں اس لئے نفسِ حدیث سے بدگمان ہونے کا کوئی موقع نہیں ، لیکن اس تلخ حقیقت سے آنکھیں کیسے بند کی جاسکتی ہیں کہ بے شمار ناقابل اعتبار روایاتآج بھی ہمارے بعض حلقوں میں سریایۂ جاں سمجھی جارہی ہیں اور یہ حلقے جہل�أ کے نہیں بلکہ ایسے علماء کے ہیں ج کے اسماء گرامی کے ساتھ دو دو سطر کے بھاری بھر کم انقلاب لکھے جاتے ہیں ۔
نورمحمدیﷺ اور ’’امین کا قیام‘‘ تو خیر نظری مسائل ہیں جن کا کوئی جوڑ عملی مسائل سے نہیں ملتا، لیکن قیامت تو آئی ہوئی ہے کہ وہ ضعیف و سقیم روایات بھی بریلوی مکتبِ فکر کے بزرگوں کی آنکھوں کا نور اور دلِ کا سرور بنی ہوئی ہیں جن کے غیر واضح مفاہیم کو وہی و کج فکری کی خراد پر چڑھا کر اللہ کے آخری پیغمبر کو حاضر و ناظر اور عالم الغیب وغیرہ بنادیا جاتاہے ۔ العیاذ باللہ۔قبوری شریعت کا پوراقصرِ نشاط ایسی ہی روایات کی اساس پہ قائم ہے اور قبوری علماء اسی پر بس نہیں کرتے کہ ان روایات کے صریح مطالب سے واسطہ رکھیں ، بلکہ تک بندی اور کج بحثی کے ذریعہ ان کی تہہ سے وہ وہ کوڑی لاتے ہیں کہ عقل سلیم دنگ رہ جاتی ہے ۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنے مرغوب خیالات و تصورات کو عینِ حق ثابت کر دیں اور شرک و بدعت کا جوروگ ان کے دل و دماغ کو لگا ہوا ہے اس کے لئے قولِ رسولؐ سے سند مل جائے۔
اللہ تعالیٰ فکر و نظر کی نا مسلمانی سے ہر مسلما کو محفوط رکھے اور متشا بہات میں پڑ کر دین و دنیا غارت کرنے کی بجائے محکمات کے منبع اور غیر مشتبہ افکار و اعمال سے لو لگانے کی توفیقِ نیک عطا فرمائے۔

یہ نام نہاد دیوبندی


یہ نام نہاد دیوبندی 
سوال۵؂: از:۔ عبد الوحید ۔ ضلع بہر ائچ
الحمد للہ ناچیز نے جب سے ہوش سنبھالا ہے علمائے دیوبند کا معتقد رہا ہے ۔ شرک و بدعت ، میلہ و اعراس کے متعلق جو نظر یہ علمائے دیو بند کا ہے ناچیز بھی اس سے بالکل متفق ہے یہ سمجھ کر کہ یہی نظر یہ اسلام کا ہے ۔ کچھ عرصہ سے مولانا ابو الو فا صاحب شاہ جہان پوری اور مولانا محمد قاسم صاب ناظم جمعیۃالعلماء یو‘پی وعظ کے سلسلے سے عرس کے موقع پر درگاہ سید سالار مسعود غازی ؒ پر تشریف لاتے ہیں اور درگاہ میں جو عام لنگر جاری ہوتا ہے اسی میں سے کھاتے ہیں اور ایک صد روپیہ نظرنہ وصول کرتے ہیں رقم جو نذرانے کے طور پرلیتے ہیں اور جس سے لنگر پکتا ہے وہ سب چڑھا وے کی آمدنی ہوتی ہے جس کو ہم سب درست نہیں سمجھتے ہیں ۔ امسال عرس کے موعقہ پر تو کمال ہی ہوگیا وہ یہ کہ مزار پو مولانا محمد قاسم صاحب خود چڑھا وا چڑھوا رہے تھے ، مولانا کا یہ رویہ دیکھ کر بہت سے لوگ جو مزارات پر چڑھا واچڑھانے اور چڑھی ہوئی چیزوں کو اپنے استعمال میں لانے کوبرا سمجھنے لگے تھے اب تذبذب میں پڑگئے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ جب ایک دیو بندی عالم مزار پر چڑھا وا چڑھوا تا ہے اور چڑھی ہوئی رقم میں سے نذرانہ لیتا ہے تو ہمیں چڑھاوا چڑھا نے اور چڑھی ہوئی چیزوں کو استعمال کرنے میں کیا حرج ہے ۔ یہ بھی واضح ہو کہ مزار پر چڑھی ہوئی چادر بھی مذکورہ بالا مولوی صاحبان برابر لے جاتے ہیں ۔
براہِ مہر بانی آپ اپنے رسالہ تجلی کے ذریعہ اس کی شرعی حیثیت سے روشناس فرمایئے تاکہ میرا اور ان تمام لوگوں کا شک و شبہ دو ر ہوسکے جو مولانا مووف کے رویہ کے بعد پید ہوگیا ہے ؟
الجواب:۔ محترم دوست! جس طرح بریلوی علماء کے ذہن و فکر کی مٹی شیطان نے پلیدکی ہے اسی طرح وہ ظالم علمائے دیوبند کے کے پیچھے بھی لگا ہوا ہے ۔ اور چاہتا ہے کہ ان کا خانہ خراب کردے کچھ دنوں پہلے علمائے دیو بند کی قوت عمل زیادہ جاندار تھی ، وہ زہد و تقویٰ کو دانتوں سے پکڑ ے اس مسافر کی سی زندگی گذاررہے تھے جسے راستے کی دلفریبیوں سے سروکار نہیں ہوتا ،بلکہ اپنی منزل کی دھنلگی رہتی ہے ۔ لیکن پھر زمانے کی ہوا نے ان کے تنفس کو بھی مسموم کیا اور شیطان کی مسلسل و سیسہ کاریوں نے انھین بھی شرک و بدعت سے مفاہمت کی راہ پر لگادیا ۔ پہلے پہلے یہ مفاہمت درپردہ تھی کم کم تھی ۔ پھر یہ پرَ پرُ زے نکالتی گئی ۔ پھیلتی بڑھتی گئی اور اب آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ رکن حدوں کو پھلانگ کر کہاں تک جاپہنچی ہے ۔
مولانا ابوالوفا اور مولانا محمد قاسم ۔۔۔واقعۃً دیوبندی کتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں یا نہیں ؟ اس میں ہمیں شک ہے ۔ لیکن اگر واقعۃً ان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ دیوبندی مسلک کے آدمی ہیں اور دوسرے لوگ بھی انھیں دیو بندی ہی مسلک کا ترجمان سمجھتے ہیں تو اچھی طرح سن لیجئے کہ دیو بند یت کسی نسلی یا وطنی خصوصیت کا نام نہیں جو ایک بار چپکنے کے بعد مرتے دم تک چھٹنے ہی کا نام نہ لے ۔ قبوری بدعتوں کی حوصلہ افزائی ، عرسوں میں شرکت اور نذر و نیاز کے مذموم جھمیلوں سے تعلق خاطر کا گھنا ؤ نا نظارہ دیکھنے کے بعد ہر عاقل و بالغ بلاتامل کہہ سکتا ہے کہ اگر یہ لوگ پہلے ’’دیو بندی ‘تھے تو اب نہیں رہے ۔دیو بند جس طرز فکر کا نام ہے اس میں ان بدعات کی کوئی گنجائش نہیں کوئی شخص دیو بند یت کا دعویدار ہوتیہوئے بھی اس طرزِ فکر کا عملی مظاہرہ کرتا ہے تو دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں ۔ یا تو وہ صریحاً دھوکادے رہا ہے یا وہ ابن الوقت ہے کہ گنگا گئے تو گنگارام اور جمنا گئے تو جمنا داس۔
جو لوگ مذکورہ دونوں علماء کا ر ودی دیکھ کر تذبذب میں پڑگئے ہیں ان سے پوچھئے کہ کیا وہ بے شمار مسلمانوں کو فسق و معصیت میں مبتلا دیکھ کر نفسِ اسلام ہی کے بارے میں تذبذب کا شکار ہوگئے ہیں ۔۔ اگر نہیں تو پھر دو علماء کی متذکرہ حرکات سے انھین ان عقائد کے بارے میں کیوں تذبذب لاحق ہوا جو دیو بند یوں کے اپنے گھڑے ہوئے نہیں ، بلکہ قرآن و سنت کے پاکیزہ سر چشمے سے نکلے ہوئے ہیں ۔
یاد رکھئے ۔ قبروں کے عرس، چڑھاوے اور دیگر مروجہ طور طریق بدعت و معصیت ہی رہیں گے چاہے سہارا دیو بند مل کر بھی ڈھنڈورا پیٹے کہ یہ چیزیں جائز ہیں ۔ مسلمانوں کا شراب پینا ‘ سود لینا ‘ گالی بکنا اگر یہ معنی نہیں رکھتا کہ اسلام میں یہ چیزیں جائز ہوگئی ہیں تو کسی نام نہاد دیو بندی عالم کا قبوری شریعت اور مردہ پرستی کی سر پرستی کرنا یہ معنی کیوں کر رکھ سکتا ہے کہ یہ بدعات و خرافات دیو بندی مسلک میں رو اقرار پا گئی ہیں ۔
متذکرہ دونوں علماء کے ذاتی اوصاف و احوال سے ہمیں واقفیت نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ ہوسکتا ہے یہ حضرات اربابِ زہد و تقویٰ میں سے ہوں اور علم و فہم کے اعتبار سے بھی ممتا ز درجہ رکھتے ہوں ، لیکن یہ بہر حال یاد رکھئے کہ شیطان کے مکر وفن کی زد سے کوئی باہر نہیں ہے وہ اچھے اچھے صالحین کو ادنیٰ تر منافع اور حقیر ترین مصالح کے پیچھے دوڑا دیتا ہے ۔ ابن الوقتی کا سبق دینا تو اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور ساتھ ہی وہ فقہی رعایتوں اور حیلوں کا ایک تھیلا بھی آگے بڑھا دیتا ہے کہ لو اس میں تمہارے فعل و عمل کی تصویب و تائید کے لئے گھڑے گھڑائے دلائل کا بہت سا ذخیرہ موجودہے ، جو منہ آئے اسے دلائل کی مارد دوا اور اپنی ابن الوقتی کو عین حکمت و دور اندیشی ثابت کر کے معترضین کو ’’وہابی‘ ‘قرار دے ڈالو۔ 
عرس بازی ، لنگر بازی اور قبوری نذر و نیاز کی ہر بازی ہر حال میں بدعت ہی رہے گی ، چاہے دو دیوبندی نہیں ، بلکہ سارا دیو بند شریعت قبویکے آستانے پر گھٹنے ٹیک دے ۔ دین ہم دیو بندیوں کے فکر و عمل کا نام نہیں ہے ۔ دین تو اللہ اور رسول کے فرامین و ہدایان کا نام ہے۔ وہ اٹل ہیں غیر متبدل ہیں ‘ لافانی ہیں ۔ ان قبوری میلوں اور من گھڑت ہنگاموں اور بے اصل اجتماعوں کا کوئی جواز اللہ کے دین مبین میں نہیں ہیجنھیں آج مسلمانوں کے بہت برے انبوہ نے عین ثواب جان کر حرز جان بنالیا ہے ۔ زوال آمادہ قوموں کا اس طرح کی گمراہوں میں سر گرداں ہونا یک تاریخی کلیہ ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکت ۔ تھیٹر ، سینما ، کلب گھر اور شراب خانے اتنے خطر ناک مقامات نہین ہیں جتنے اولیأ اللہ کے مزارات بن کے رہ گے ہیں ۔ اول الذکر کی قباحت وشناخت کو ہر مسلمان جانتا ہے او بد قسمتی سے اگر ان تک پہنچ بھی جاتا ہے تو اس جہل مرکب میں گرفتار ہیں ہوتا کہ میں کوئی فعلِ خیر انجام دے رہا ہوں ، بلکہ یہی سمجھتا رہتا ہے کہ گناہ کررہا ہوں ۔ لیکن مزارات کے میلے تو وہ سسین دلدل بن کے رہ گئے ہیں کہ صراطِ مستقیم سے ہٹے ہوئے لوگ اس میں گلے گلے دھنس جانے کے بعد بھی یہی سمجھتے رہتے ہیں ہم روح القدر کے پروں پر سوا ر ہیں اور ثواب و برکت کے بے حساب خزانے آخرتمیں ہمارا انتظار کررہے ہیں ۔
حالاں کہ خدا محفوط رکھے شرک ہی وہ سب سے ملعون معصیت سے جس کی معافی کا کوئی امکان ہی نہیں ، اگر جہنم اور محاسبۂ آخرت پر یقین کی طرح یقین ہوتا تو ہر صاحب ایمان کو اس پر خطر گھای سے کوسوں دور بھاگنا چہئے تھا جہاں شرک کی زہریلی ہوا کا معمولی سابھی اندیشہ ہو، مگر ہو یہ رہا ہے کہ کج فکر ، کم نظر اور بے پوا علماء کی ایک فوج عوام کو غول درغول ان قبوری ہنگامہ آرائیوں کی طرف ہنگامے لئے جارہی ہے جہاں خدائی کے تمام اوصاف مردہ بزرگوں کے ہاتھ میں دیدئے گئیہیں اور عقیدہ تو حید محض کھلونے کے طور پر ذہن و قلبکی محرابوں میں سجا کر رکھ دیاگیا ہے ۔
یہ رو۔۔۔ یہ طوفانِ ضلالت۔۔۔ یہ طغیانِ جہل ابھی اور آگے بڑھے گا ۔ اس کیلئے ہر آج گذشتہ کل سے زیادہ ساز گار ہے ۔ اس کے خروش کو تیز تر کرنے ولے عناصر بدلتے ہی جارہے ہیں ۔
ہم سے جہاں تک ہوسکتا ہے فریضہ ابلاح ادا کئے جارہے ہیں ، لیکن تنکوں سے طوفان کے منہ نہیں پھرا کرتے کسی کاجی چاہے تو ہماری معروجات پر دھیان دے لے ۔ نہ چاہے تو اسے اختیار ہے ۔ واللہ یھدی من یشاء الیٰ صراط مستقیم۔ 

ایک حیرت ناک صورتِ حال :۔


ایک حیرت ناک صورتِ حال :۔
سوال ۴؂
عجیب بات ہے کہ جو لوگ صرف نام کے مسلمان ہیں جن کا مزہب محض نمازِ عید تک محدود ہے اور پوری زندگی غیر اسلامی طریقے پر گذارتے ہیں وہ تو مزے کر رہے ہیں ۔ ان کے پاس مال ، اولاد ،آرام سبھی کچھ ہے ، آسائش ہے ، عزت ہے ۔ مگر جو لوگ احکام خداوندی کی پیروی میں لگے ہوئے ہیں اور واقعۃًمومنوں کی سی زندگی گذارنے میں کوشاں ہیں ان کا عالم یہ ہے کہ فراغت و آسائش تو درکنار ضروریات ِ زندگی گذارتے ہیں اور مصیبت و افلاس کا شکار رہتے ہیں ۔
الجواب:۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو قاعدہ کلیہ آپ نے بیان فرمایا وہی واقعات کی روشنی میں صحیح ثابت نہیں ہوتا ۔ معاشرے میں بے شمار مسلمان آپ کو ایسے ملیں گے جو پکے دنیا دار اور بد عمل ہونے کے باوجود خوش حالی و آسائش کی زندگی نہیں گذاررہے بلکہ نوع بہ نوع آلام و افکار کا شکار ہیں ۔ اور بہت مسلمان ایسے ملیں گے جو بفضلہ تعالیٰ نیکوکار ہیں ، پابندِ شریعت ہیں مگر خوشحالی و آرام کی زندگی گذاررہیہیں ۔ قصہ دراصل یہ ہے کہ نام کے مسلمانوں کی تعداد تو بہت ہے ۔ اور اچھے مسلمانوں کی گنتی بہت کم ۔ فرض کیجئے ایک لاکھ بھیڑوں کے ریوڑ میں بیس ہزار بھیڑیں بیمار ہوجائیں تو ان کی بیاری اتنی نمایا نہیں ہوگی جتنی ایک ہزار کے ریوڑ میں ڈیڑ سو بھیڑوں کی بیماری ۔ حالاں کہ مریض بھیڑوں کا فیصد اوسظ پہلے ریوڑ میں زیادہ ہے اور دوسرے مین کم ۔ اسی طرح نام کے مسلمانوں میں اگر چہ کشتگانِ آلام و آفات کا تناسب مقالۃً کم نہیں ہے لیکن وہ کم اس لئے معلوم ہوتا ہیکہ مجموعی تعداد و افر ہے اور اچھے مسلمانوں میں یہ تناسب اگر چہ کم ہے ، لیکن زیادہ نمایا محسوس ہوتا ہے کیوں کہ مجموعی تعدا ہی تھوڑی ہے ۔
ایک بڑا مغالطہ یہ ہے کہ ہم رنج و راحت کو صرف ظاہری طمطراق اور مال و دولت کے پیمانوں سے ناپنے کے عادی ہوگئے ہیں ۔ ہماری نگہ میں وہ شخص جس کے پاس موٹر ہے ، کوٹھی ہے ، قیمتی ملبوسات اور سامانِ آسائش کی بہتات ہے اس شخص کے مقابلہ میں یقینی طور پر زیادہ راحت و آسائش میں ہے جسکے پاس یہ سب سامان نہیں ہے بلہ موٹا جھوٹا کھا پہن کر اپنی اور اپنے اہل و عیال کی گذر بسر کررہا ہے ۔ حالانکہ فی الحقیقت یہ فیصلہ ہر حال میں درست نہیں ہوتا ۔ رنج و راحت کا تعلق دلوں کی کیفیات سے ہے ۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ اول الذکر قسم کے لوگ فراوانیِ اسبات کے باوجود اتنی زیادہ مطمئن و مسرور زندگی نہیں گذارتے جتنی ثانی الذکر قسم کے لوگ گزار جاتے ہیں ۔ ایک مزدور دن بھر محنت کرنے کے بعد بال بچوں کے درمیان بیٹھا ہوا اگر باسی دال روٹ ہنس ہنس کر کھا رہا ہے اور اس کے بچوں کے جس موں پر بہت گھٹیا کپڑے ہیں تو یقین کیجئے اکثر حالات میں وہ اس موٹر نشین سے زیادہ مسرور و مطمئن ہوتا ہے جو جاہ ودولت کی دوڑ میں اپنے کسی ہم پیشہ حریف سے پیچھے رہ گیا ہے۔اور آگے بڑھنے کی ادھڑی بن میں گرفتار ہے ۔ نئی تہذیب کے مظاہر نے ہمیں ہت دھوکے میں ڈالا ہے ۔ رات بھر کھلنے والے ایک کلب میں جگ مگ کرتا ہوا ما چول ‘ رقص و سرود‘ لذیذ مشروبات ‘ خوش پوش مردوزن ‘ قہقہے اور عیش و طرب کے مظاہر ہمیں یقین دلاتے ہین کہ یہ جنت ہے اور یہاں دادِ عیش دینے عوالا ہر فرد بہترین لذت و راحت کی زندگی گذار رہا ہے ، لیکن ان ’’اہلِ جنت‘‘ کی پوست کندہ زندگی کا غائر مطالعہ اگر کوئی کر سکے تو اسے پتہ چلے گا کہ ان میں کی اکثریت حد درجہ غیر متوازن حالات کا ہدف ہے ، نوع بہ نوع مسائل نشتر بن کر اس کے لیجے میں اترے ہوئے ہیں ۔ حقیقی احساسِ راحت و انبساط سے اس کے زہن و قلب محروم ہیں ، کتنے ہی کانٹے اس کے رگِ احساس میں پے بہ پے کھٹکتے رہتیہیں ، نوع بہ نوع ذہنی کلفتوں کے مارے لوگ ایک ظاہر فریب ماحول میں اس شرابی کی طرح آتے ہیں جونشہ کے ذریعے غم و آلام کی تلخی فراموش کردینا چاہتا ہے اور ان سے کہیں زیادہ مسرور مطمئن وہ غریب اور ’’غیر مہذب ‘‘ افراد ہیں جن کی زندگی بظاہر تو کشمکشِ حیات ہی میں کٹ رہی ہے ، لیکن گھریلو ماحول میں وہ چند سانس حقیقی اطمینان و مسرت کے بھی لے ہی لیتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ کی فرض کردہ صورتِ حال کو واقعہ ہی تسلیم کرلیا جاے تب بھیکوئی الجھن ایسی نہیں سامنے آتی جس کی عقدہ کشائی ممکن نہ ہو۔ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمیں ان نعمتوں اور عذابوں پر پورا ایمان ہونا چاہئے جن کا ذکر قرآن و سنت میں آیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ آخرت کی معمولی نعمتیں بھی دنیا کی بہترین نعمتوں سے کہیں اعلیٰ اور آخرت کا معمولی عذاب بھی دنیا کی شدید ترین مصیبتوں سے کہیں شدید ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے نافرمان بندوں کو کچھدنوں دنیا کی معمولی نعمتوں کے بارے میں ڈھیل دے دے ۔اور پھر آخرت کے سخت عذاب سے دو چار کردے تو ان کی حالت قابل رشک ہے یا ان فرمانبردار بندوں کو قابل رشل سمجھنا چاہئے جو دنیا کی قلیل المد زندگی تو تکلیف سے گذر جائیں ، لیکن آخرت کی بہترین نعمتوں سے بہرہ ور ہوں اور ان طویل ایام میں چین کا سانس لیں ، جن کا ایک ایک لمحہ بعض حالتوں میں سالوں کی وسعت رکھتا ہے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص دنیا ہی کی زندگی کو سب کچھ یا بہت کچھ سمجھ کر اسلامی مسائل پر گفتگو کرے گا اور آخرت کو نظر انداز کردے گا یا محض ضمنی حیثیت دے ڈالے گا وہ ضرور سفسطے اور غلط فہمی میں گرفتار ہوگا ۔ آخرت اور اس کی زندگی کو فی الحقیقت وہی اہمیت دی جائے جو اسلام دیتا ہے تو ہرا لجھن اور مالطے کا استیصال ہوجائے گا ۔ اور کچھ نہیں تو اسے آزمائش ہی سمجھ لیجئے کہ نکو کاروں کو قدم قدم پر مصائب و آلام کا سامنا ہو اور دین و اخلاق کا دامن تھامے رہنا مشکل ہوجائے ۔ آخر آزمائش تو سختیوں ہی کا نام ہے ۔ انعام و اکرام کا وہی مستحق ہوگا جا سخت مراحل کو صبر و استقامت سے طے کر جائے گا اور پیش پا افتادہ لذات و نعم پر اپنے دین و ایمان کی قربانی دینے کی بجائے ان دیر میں حاصل ہونے والی لذتوں اور نعمتوں پر نظر رکھے گا جو امتحان میں پورا اترنے پر ہی نصیب ہونے والی ہیں ۔

پیشۂ وکالت :۔


پیشۂ وکالت :۔
سوال ۳؂: از محمد یحییٰ ۔حیدرآباد ۔دکن۔
ایک ایسے ملک میں جہاں کی حکومت غیر اسلامی و لادینی ہو کیا قانون کی تعلیم حاصل کر کے وکالت کا پیشہ کرنا جائز ہے ؟
الجواب:۔ جہاں تک نظری پہلو کا تعلق ہیہم پیشۂ وکالت کو اس قید کے ساتھ جائز سمجھتے ہیں کہ صرف ان قوانین کی وکالت کی جائے جو اسلام کی تردید اور کفر و شرک کی تصدیق کرنے الے نہ ہوں اور وکیل ان تمام نا جائز ہتھکنڈوں سے بچارہے جو فی زمانہ لازمۂوکالت ہوکر رہ گئے ہیں ۔
کسی غیر اسلامی حکومت کے تمام ہی قوانین اسلام شکن نہیں ہوتے ۔ کسی قانون کا اسلامی نہ ہونا اور بات ہے لیکن اسلام شکن ہونا بالکل اور۔ اسلام شکن قوانین کی وکالت تو فسقِ جلی ہے ۔ اگر وکیل اس فعل کو برا سمجھتے ہوئے کررہا ہے اورکفرِ صریح ہے اگر وہ اسے برا بھی نہیں سمجھتا ۔ 
لیکن یہ محض نظر سطح کی گفتگو تھی ۔ عملی اعتبار سے بہت مشکل ہوگیا ہے کہ آج کا وکیل نوع بہ نوع ذمائم و قبائح سے ملوث ہوئے بغیر اپنا کام چلا سکے ۔ماحول اس قدر بگڑ چکا ہے کہ شاذ و نادر لوگ سلامت روی کا عزم لے کر اس میدان میں آتے ہیں وہ بھی زیادہ دیر اس عزم کو نہیں نبھاسکتے اور دو ہی راہیں ان کے آگے رہ جاتی ہیں ۔ یا تواپنے نیک تصورات کا بستہ بغل میں دبائے اس میدان سے بھاگ جائیں یا پھر ایمان و اخلاق کی قدروں کو بالائے طاق رکھ کر ماحول کے تمام برے تقاضو ں کو اپنا لیں ۔
اس عام صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ پیشۂ وکالت سے دور بھاگنا ہی ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو زندہ ضمیری کی زندگی گذارنا چاہتیہیں اور مرنے کے بعد محاسبے پر یقین رکھتے ہیں ۔ واللہ اعلم۔