Friday, March 22, 2013

یہ نام نہاد دیوبندی


یہ نام نہاد دیوبندی 
سوال۵؂: از:۔ عبد الوحید ۔ ضلع بہر ائچ
الحمد للہ ناچیز نے جب سے ہوش سنبھالا ہے علمائے دیوبند کا معتقد رہا ہے ۔ شرک و بدعت ، میلہ و اعراس کے متعلق جو نظر یہ علمائے دیو بند کا ہے ناچیز بھی اس سے بالکل متفق ہے یہ سمجھ کر کہ یہی نظر یہ اسلام کا ہے ۔ کچھ عرصہ سے مولانا ابو الو فا صاحب شاہ جہان پوری اور مولانا محمد قاسم صاب ناظم جمعیۃالعلماء یو‘پی وعظ کے سلسلے سے عرس کے موقع پر درگاہ سید سالار مسعود غازی ؒ پر تشریف لاتے ہیں اور درگاہ میں جو عام لنگر جاری ہوتا ہے اسی میں سے کھاتے ہیں اور ایک صد روپیہ نظرنہ وصول کرتے ہیں رقم جو نذرانے کے طور پرلیتے ہیں اور جس سے لنگر پکتا ہے وہ سب چڑھا وے کی آمدنی ہوتی ہے جس کو ہم سب درست نہیں سمجھتے ہیں ۔ امسال عرس کے موعقہ پر تو کمال ہی ہوگیا وہ یہ کہ مزار پو مولانا محمد قاسم صاحب خود چڑھا وا چڑھوا رہے تھے ، مولانا کا یہ رویہ دیکھ کر بہت سے لوگ جو مزارات پر چڑھا واچڑھانے اور چڑھی ہوئی چیزوں کو اپنے استعمال میں لانے کوبرا سمجھنے لگے تھے اب تذبذب میں پڑگئے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ جب ایک دیو بندی عالم مزار پر چڑھا وا چڑھوا تا ہے اور چڑھی ہوئی رقم میں سے نذرانہ لیتا ہے تو ہمیں چڑھاوا چڑھا نے اور چڑھی ہوئی چیزوں کو استعمال کرنے میں کیا حرج ہے ۔ یہ بھی واضح ہو کہ مزار پر چڑھی ہوئی چادر بھی مذکورہ بالا مولوی صاحبان برابر لے جاتے ہیں ۔
براہِ مہر بانی آپ اپنے رسالہ تجلی کے ذریعہ اس کی شرعی حیثیت سے روشناس فرمایئے تاکہ میرا اور ان تمام لوگوں کا شک و شبہ دو ر ہوسکے جو مولانا مووف کے رویہ کے بعد پید ہوگیا ہے ؟
الجواب:۔ محترم دوست! جس طرح بریلوی علماء کے ذہن و فکر کی مٹی شیطان نے پلیدکی ہے اسی طرح وہ ظالم علمائے دیوبند کے کے پیچھے بھی لگا ہوا ہے ۔ اور چاہتا ہے کہ ان کا خانہ خراب کردے کچھ دنوں پہلے علمائے دیو بند کی قوت عمل زیادہ جاندار تھی ، وہ زہد و تقویٰ کو دانتوں سے پکڑ ے اس مسافر کی سی زندگی گذاررہے تھے جسے راستے کی دلفریبیوں سے سروکار نہیں ہوتا ،بلکہ اپنی منزل کی دھنلگی رہتی ہے ۔ لیکن پھر زمانے کی ہوا نے ان کے تنفس کو بھی مسموم کیا اور شیطان کی مسلسل و سیسہ کاریوں نے انھین بھی شرک و بدعت سے مفاہمت کی راہ پر لگادیا ۔ پہلے پہلے یہ مفاہمت درپردہ تھی کم کم تھی ۔ پھر یہ پرَ پرُ زے نکالتی گئی ۔ پھیلتی بڑھتی گئی اور اب آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ رکن حدوں کو پھلانگ کر کہاں تک جاپہنچی ہے ۔
مولانا ابوالوفا اور مولانا محمد قاسم ۔۔۔واقعۃً دیوبندی کتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں یا نہیں ؟ اس میں ہمیں شک ہے ۔ لیکن اگر واقعۃً ان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ دیوبندی مسلک کے آدمی ہیں اور دوسرے لوگ بھی انھیں دیو بندی ہی مسلک کا ترجمان سمجھتے ہیں تو اچھی طرح سن لیجئے کہ دیو بند یت کسی نسلی یا وطنی خصوصیت کا نام نہیں جو ایک بار چپکنے کے بعد مرتے دم تک چھٹنے ہی کا نام نہ لے ۔ قبوری بدعتوں کی حوصلہ افزائی ، عرسوں میں شرکت اور نذر و نیاز کے مذموم جھمیلوں سے تعلق خاطر کا گھنا ؤ نا نظارہ دیکھنے کے بعد ہر عاقل و بالغ بلاتامل کہہ سکتا ہے کہ اگر یہ لوگ پہلے ’’دیو بندی ‘تھے تو اب نہیں رہے ۔دیو بند جس طرز فکر کا نام ہے اس میں ان بدعات کی کوئی گنجائش نہیں کوئی شخص دیو بند یت کا دعویدار ہوتیہوئے بھی اس طرزِ فکر کا عملی مظاہرہ کرتا ہے تو دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں ۔ یا تو وہ صریحاً دھوکادے رہا ہے یا وہ ابن الوقت ہے کہ گنگا گئے تو گنگارام اور جمنا گئے تو جمنا داس۔
جو لوگ مذکورہ دونوں علماء کا ر ودی دیکھ کر تذبذب میں پڑگئے ہیں ان سے پوچھئے کہ کیا وہ بے شمار مسلمانوں کو فسق و معصیت میں مبتلا دیکھ کر نفسِ اسلام ہی کے بارے میں تذبذب کا شکار ہوگئے ہیں ۔۔ اگر نہیں تو پھر دو علماء کی متذکرہ حرکات سے انھین ان عقائد کے بارے میں کیوں تذبذب لاحق ہوا جو دیو بند یوں کے اپنے گھڑے ہوئے نہیں ، بلکہ قرآن و سنت کے پاکیزہ سر چشمے سے نکلے ہوئے ہیں ۔
یاد رکھئے ۔ قبروں کے عرس، چڑھاوے اور دیگر مروجہ طور طریق بدعت و معصیت ہی رہیں گے چاہے سہارا دیو بند مل کر بھی ڈھنڈورا پیٹے کہ یہ چیزیں جائز ہیں ۔ مسلمانوں کا شراب پینا ‘ سود لینا ‘ گالی بکنا اگر یہ معنی نہیں رکھتا کہ اسلام میں یہ چیزیں جائز ہوگئی ہیں تو کسی نام نہاد دیو بندی عالم کا قبوری شریعت اور مردہ پرستی کی سر پرستی کرنا یہ معنی کیوں کر رکھ سکتا ہے کہ یہ بدعات و خرافات دیو بندی مسلک میں رو اقرار پا گئی ہیں ۔
متذکرہ دونوں علماء کے ذاتی اوصاف و احوال سے ہمیں واقفیت نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ ہوسکتا ہے یہ حضرات اربابِ زہد و تقویٰ میں سے ہوں اور علم و فہم کے اعتبار سے بھی ممتا ز درجہ رکھتے ہوں ، لیکن یہ بہر حال یاد رکھئے کہ شیطان کے مکر وفن کی زد سے کوئی باہر نہیں ہے وہ اچھے اچھے صالحین کو ادنیٰ تر منافع اور حقیر ترین مصالح کے پیچھے دوڑا دیتا ہے ۔ ابن الوقتی کا سبق دینا تو اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور ساتھ ہی وہ فقہی رعایتوں اور حیلوں کا ایک تھیلا بھی آگے بڑھا دیتا ہے کہ لو اس میں تمہارے فعل و عمل کی تصویب و تائید کے لئے گھڑے گھڑائے دلائل کا بہت سا ذخیرہ موجودہے ، جو منہ آئے اسے دلائل کی مارد دوا اور اپنی ابن الوقتی کو عین حکمت و دور اندیشی ثابت کر کے معترضین کو ’’وہابی‘ ‘قرار دے ڈالو۔ 
عرس بازی ، لنگر بازی اور قبوری نذر و نیاز کی ہر بازی ہر حال میں بدعت ہی رہے گی ، چاہے دو دیوبندی نہیں ، بلکہ سارا دیو بند شریعت قبویکے آستانے پر گھٹنے ٹیک دے ۔ دین ہم دیو بندیوں کے فکر و عمل کا نام نہیں ہے ۔ دین تو اللہ اور رسول کے فرامین و ہدایان کا نام ہے۔ وہ اٹل ہیں غیر متبدل ہیں ‘ لافانی ہیں ۔ ان قبوری میلوں اور من گھڑت ہنگاموں اور بے اصل اجتماعوں کا کوئی جواز اللہ کے دین مبین میں نہیں ہیجنھیں آج مسلمانوں کے بہت برے انبوہ نے عین ثواب جان کر حرز جان بنالیا ہے ۔ زوال آمادہ قوموں کا اس طرح کی گمراہوں میں سر گرداں ہونا یک تاریخی کلیہ ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکت ۔ تھیٹر ، سینما ، کلب گھر اور شراب خانے اتنے خطر ناک مقامات نہین ہیں جتنے اولیأ اللہ کے مزارات بن کے رہ گے ہیں ۔ اول الذکر کی قباحت وشناخت کو ہر مسلمان جانتا ہے او بد قسمتی سے اگر ان تک پہنچ بھی جاتا ہے تو اس جہل مرکب میں گرفتار ہیں ہوتا کہ میں کوئی فعلِ خیر انجام دے رہا ہوں ، بلکہ یہی سمجھتا رہتا ہے کہ گناہ کررہا ہوں ۔ لیکن مزارات کے میلے تو وہ سسین دلدل بن کے رہ گئے ہیں کہ صراطِ مستقیم سے ہٹے ہوئے لوگ اس میں گلے گلے دھنس جانے کے بعد بھی یہی سمجھتے رہتے ہیں ہم روح القدر کے پروں پر سوا ر ہیں اور ثواب و برکت کے بے حساب خزانے آخرتمیں ہمارا انتظار کررہے ہیں ۔
حالاں کہ خدا محفوط رکھے شرک ہی وہ سب سے ملعون معصیت سے جس کی معافی کا کوئی امکان ہی نہیں ، اگر جہنم اور محاسبۂ آخرت پر یقین کی طرح یقین ہوتا تو ہر صاحب ایمان کو اس پر خطر گھای سے کوسوں دور بھاگنا چہئے تھا جہاں شرک کی زہریلی ہوا کا معمولی سابھی اندیشہ ہو، مگر ہو یہ رہا ہے کہ کج فکر ، کم نظر اور بے پوا علماء کی ایک فوج عوام کو غول درغول ان قبوری ہنگامہ آرائیوں کی طرف ہنگامے لئے جارہی ہے جہاں خدائی کے تمام اوصاف مردہ بزرگوں کے ہاتھ میں دیدئے گئیہیں اور عقیدہ تو حید محض کھلونے کے طور پر ذہن و قلبکی محرابوں میں سجا کر رکھ دیاگیا ہے ۔
یہ رو۔۔۔ یہ طوفانِ ضلالت۔۔۔ یہ طغیانِ جہل ابھی اور آگے بڑھے گا ۔ اس کیلئے ہر آج گذشتہ کل سے زیادہ ساز گار ہے ۔ اس کے خروش کو تیز تر کرنے ولے عناصر بدلتے ہی جارہے ہیں ۔
ہم سے جہاں تک ہوسکتا ہے فریضہ ابلاح ادا کئے جارہے ہیں ، لیکن تنکوں سے طوفان کے منہ نہیں پھرا کرتے کسی کاجی چاہے تو ہماری معروجات پر دھیان دے لے ۔ نہ چاہے تو اسے اختیار ہے ۔ واللہ یھدی من یشاء الیٰ صراط مستقیم۔ 

ایک حیرت ناک صورتِ حال :۔


ایک حیرت ناک صورتِ حال :۔
سوال ۴؂
عجیب بات ہے کہ جو لوگ صرف نام کے مسلمان ہیں جن کا مزہب محض نمازِ عید تک محدود ہے اور پوری زندگی غیر اسلامی طریقے پر گذارتے ہیں وہ تو مزے کر رہے ہیں ۔ ان کے پاس مال ، اولاد ،آرام سبھی کچھ ہے ، آسائش ہے ، عزت ہے ۔ مگر جو لوگ احکام خداوندی کی پیروی میں لگے ہوئے ہیں اور واقعۃًمومنوں کی سی زندگی گذارنے میں کوشاں ہیں ان کا عالم یہ ہے کہ فراغت و آسائش تو درکنار ضروریات ِ زندگی گذارتے ہیں اور مصیبت و افلاس کا شکار رہتے ہیں ۔
الجواب:۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو قاعدہ کلیہ آپ نے بیان فرمایا وہی واقعات کی روشنی میں صحیح ثابت نہیں ہوتا ۔ معاشرے میں بے شمار مسلمان آپ کو ایسے ملیں گے جو پکے دنیا دار اور بد عمل ہونے کے باوجود خوش حالی و آسائش کی زندگی نہیں گذاررہے بلکہ نوع بہ نوع آلام و افکار کا شکار ہیں ۔ اور بہت مسلمان ایسے ملیں گے جو بفضلہ تعالیٰ نیکوکار ہیں ، پابندِ شریعت ہیں مگر خوشحالی و آرام کی زندگی گذاررہیہیں ۔ قصہ دراصل یہ ہے کہ نام کے مسلمانوں کی تعداد تو بہت ہے ۔ اور اچھے مسلمانوں کی گنتی بہت کم ۔ فرض کیجئے ایک لاکھ بھیڑوں کے ریوڑ میں بیس ہزار بھیڑیں بیمار ہوجائیں تو ان کی بیاری اتنی نمایا نہیں ہوگی جتنی ایک ہزار کے ریوڑ میں ڈیڑ سو بھیڑوں کی بیماری ۔ حالاں کہ مریض بھیڑوں کا فیصد اوسظ پہلے ریوڑ میں زیادہ ہے اور دوسرے مین کم ۔ اسی طرح نام کے مسلمانوں میں اگر چہ کشتگانِ آلام و آفات کا تناسب مقالۃً کم نہیں ہے لیکن وہ کم اس لئے معلوم ہوتا ہیکہ مجموعی تعداد و افر ہے اور اچھے مسلمانوں میں یہ تناسب اگر چہ کم ہے ، لیکن زیادہ نمایا محسوس ہوتا ہے کیوں کہ مجموعی تعدا ہی تھوڑی ہے ۔
ایک بڑا مغالطہ یہ ہے کہ ہم رنج و راحت کو صرف ظاہری طمطراق اور مال و دولت کے پیمانوں سے ناپنے کے عادی ہوگئے ہیں ۔ ہماری نگہ میں وہ شخص جس کے پاس موٹر ہے ، کوٹھی ہے ، قیمتی ملبوسات اور سامانِ آسائش کی بہتات ہے اس شخص کے مقابلہ میں یقینی طور پر زیادہ راحت و آسائش میں ہے جسکے پاس یہ سب سامان نہیں ہے بلہ موٹا جھوٹا کھا پہن کر اپنی اور اپنے اہل و عیال کی گذر بسر کررہا ہے ۔ حالانکہ فی الحقیقت یہ فیصلہ ہر حال میں درست نہیں ہوتا ۔ رنج و راحت کا تعلق دلوں کی کیفیات سے ہے ۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ اول الذکر قسم کے لوگ فراوانیِ اسبات کے باوجود اتنی زیادہ مطمئن و مسرور زندگی نہیں گذارتے جتنی ثانی الذکر قسم کے لوگ گزار جاتے ہیں ۔ ایک مزدور دن بھر محنت کرنے کے بعد بال بچوں کے درمیان بیٹھا ہوا اگر باسی دال روٹ ہنس ہنس کر کھا رہا ہے اور اس کے بچوں کے جس موں پر بہت گھٹیا کپڑے ہیں تو یقین کیجئے اکثر حالات میں وہ اس موٹر نشین سے زیادہ مسرور و مطمئن ہوتا ہے جو جاہ ودولت کی دوڑ میں اپنے کسی ہم پیشہ حریف سے پیچھے رہ گیا ہے۔اور آگے بڑھنے کی ادھڑی بن میں گرفتار ہے ۔ نئی تہذیب کے مظاہر نے ہمیں ہت دھوکے میں ڈالا ہے ۔ رات بھر کھلنے والے ایک کلب میں جگ مگ کرتا ہوا ما چول ‘ رقص و سرود‘ لذیذ مشروبات ‘ خوش پوش مردوزن ‘ قہقہے اور عیش و طرب کے مظاہر ہمیں یقین دلاتے ہین کہ یہ جنت ہے اور یہاں دادِ عیش دینے عوالا ہر فرد بہترین لذت و راحت کی زندگی گذار رہا ہے ، لیکن ان ’’اہلِ جنت‘‘ کی پوست کندہ زندگی کا غائر مطالعہ اگر کوئی کر سکے تو اسے پتہ چلے گا کہ ان میں کی اکثریت حد درجہ غیر متوازن حالات کا ہدف ہے ، نوع بہ نوع مسائل نشتر بن کر اس کے لیجے میں اترے ہوئے ہیں ۔ حقیقی احساسِ راحت و انبساط سے اس کے زہن و قلب محروم ہیں ، کتنے ہی کانٹے اس کے رگِ احساس میں پے بہ پے کھٹکتے رہتیہیں ، نوع بہ نوع ذہنی کلفتوں کے مارے لوگ ایک ظاہر فریب ماحول میں اس شرابی کی طرح آتے ہیں جونشہ کے ذریعے غم و آلام کی تلخی فراموش کردینا چاہتا ہے اور ان سے کہیں زیادہ مسرور مطمئن وہ غریب اور ’’غیر مہذب ‘‘ افراد ہیں جن کی زندگی بظاہر تو کشمکشِ حیات ہی میں کٹ رہی ہے ، لیکن گھریلو ماحول میں وہ چند سانس حقیقی اطمینان و مسرت کے بھی لے ہی لیتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ کی فرض کردہ صورتِ حال کو واقعہ ہی تسلیم کرلیا جاے تب بھیکوئی الجھن ایسی نہیں سامنے آتی جس کی عقدہ کشائی ممکن نہ ہو۔ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمیں ان نعمتوں اور عذابوں پر پورا ایمان ہونا چاہئے جن کا ذکر قرآن و سنت میں آیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ آخرت کی معمولی نعمتیں بھی دنیا کی بہترین نعمتوں سے کہیں اعلیٰ اور آخرت کا معمولی عذاب بھی دنیا کی شدید ترین مصیبتوں سے کہیں شدید ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے نافرمان بندوں کو کچھدنوں دنیا کی معمولی نعمتوں کے بارے میں ڈھیل دے دے ۔اور پھر آخرت کے سخت عذاب سے دو چار کردے تو ان کی حالت قابل رشک ہے یا ان فرمانبردار بندوں کو قابل رشل سمجھنا چاہئے جو دنیا کی قلیل المد زندگی تو تکلیف سے گذر جائیں ، لیکن آخرت کی بہترین نعمتوں سے بہرہ ور ہوں اور ان طویل ایام میں چین کا سانس لیں ، جن کا ایک ایک لمحہ بعض حالتوں میں سالوں کی وسعت رکھتا ہے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص دنیا ہی کی زندگی کو سب کچھ یا بہت کچھ سمجھ کر اسلامی مسائل پر گفتگو کرے گا اور آخرت کو نظر انداز کردے گا یا محض ضمنی حیثیت دے ڈالے گا وہ ضرور سفسطے اور غلط فہمی میں گرفتار ہوگا ۔ آخرت اور اس کی زندگی کو فی الحقیقت وہی اہمیت دی جائے جو اسلام دیتا ہے تو ہرا لجھن اور مالطے کا استیصال ہوجائے گا ۔ اور کچھ نہیں تو اسے آزمائش ہی سمجھ لیجئے کہ نکو کاروں کو قدم قدم پر مصائب و آلام کا سامنا ہو اور دین و اخلاق کا دامن تھامے رہنا مشکل ہوجائے ۔ آخر آزمائش تو سختیوں ہی کا نام ہے ۔ انعام و اکرام کا وہی مستحق ہوگا جا سخت مراحل کو صبر و استقامت سے طے کر جائے گا اور پیش پا افتادہ لذات و نعم پر اپنے دین و ایمان کی قربانی دینے کی بجائے ان دیر میں حاصل ہونے والی لذتوں اور نعمتوں پر نظر رکھے گا جو امتحان میں پورا اترنے پر ہی نصیب ہونے والی ہیں ۔

پیشۂ وکالت :۔


پیشۂ وکالت :۔
سوال ۳؂: از محمد یحییٰ ۔حیدرآباد ۔دکن۔
ایک ایسے ملک میں جہاں کی حکومت غیر اسلامی و لادینی ہو کیا قانون کی تعلیم حاصل کر کے وکالت کا پیشہ کرنا جائز ہے ؟
الجواب:۔ جہاں تک نظری پہلو کا تعلق ہیہم پیشۂ وکالت کو اس قید کے ساتھ جائز سمجھتے ہیں کہ صرف ان قوانین کی وکالت کی جائے جو اسلام کی تردید اور کفر و شرک کی تصدیق کرنے الے نہ ہوں اور وکیل ان تمام نا جائز ہتھکنڈوں سے بچارہے جو فی زمانہ لازمۂوکالت ہوکر رہ گئے ہیں ۔
کسی غیر اسلامی حکومت کے تمام ہی قوانین اسلام شکن نہیں ہوتے ۔ کسی قانون کا اسلامی نہ ہونا اور بات ہے لیکن اسلام شکن ہونا بالکل اور۔ اسلام شکن قوانین کی وکالت تو فسقِ جلی ہے ۔ اگر وکیل اس فعل کو برا سمجھتے ہوئے کررہا ہے اورکفرِ صریح ہے اگر وہ اسے برا بھی نہیں سمجھتا ۔ 
لیکن یہ محض نظر سطح کی گفتگو تھی ۔ عملی اعتبار سے بہت مشکل ہوگیا ہے کہ آج کا وکیل نوع بہ نوع ذمائم و قبائح سے ملوث ہوئے بغیر اپنا کام چلا سکے ۔ماحول اس قدر بگڑ چکا ہے کہ شاذ و نادر لوگ سلامت روی کا عزم لے کر اس میدان میں آتے ہیں وہ بھی زیادہ دیر اس عزم کو نہیں نبھاسکتے اور دو ہی راہیں ان کے آگے رہ جاتی ہیں ۔ یا تواپنے نیک تصورات کا بستہ بغل میں دبائے اس میدان سے بھاگ جائیں یا پھر ایمان و اخلاق کی قدروں کو بالائے طاق رکھ کر ماحول کے تمام برے تقاضو ں کو اپنا لیں ۔
اس عام صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ پیشۂ وکالت سے دور بھاگنا ہی ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو زندہ ضمیری کی زندگی گذارنا چاہتیہیں اور مرنے کے بعد محاسبے پر یقین رکھتے ہیں ۔ واللہ اعلم۔

احتیاط الظہر


احتیاط الظہر
سوال ۲؂:۔ از مولوی سیف الرحمن ۔ ضلع جہلم ۔ مغربی پاکستان ۔
آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان و ہندوستان میں حضرات احناف اپنے فقہاء کے مسلک کے مطابق شہروں اور چھوٹے بڑے قصبات میں نماز جمعہ کی رسم تو ادا کرتے چلے آرہے ہیں اور ساتھ ہی نمز کے بعد احتیاط الظہر بھی ادا کرنی ضروری سمجھتے ہیں ۔ اس خیال پر کہ امام کی عدم موجودگی جمعہ کی ضروری شرط ’’مسلمان امام کا ہونا ‘‘ ضروری ہے چونکہ مفقود ہے اس لئے احتیاطً نمازِ ظہر ادا کرلینی چاہئے ۔ کیا پاکستان میں جو حکومت مسلمانوں نے قائم کی ہے اس میں بھی احتیاط الظہر کی ادائیگی ضروری ہے ؟ جبکہ مسلمانوں کی حکومت میں اسلامی قونین کا اجرا نہیں ۔نیز یہ بھی واضح فرمائیں کہ وجود امام کی شرط کا قول حضرت امام اعظم ؒ کا ہے یا بعد کے فقہا ء کا اضافہہے ۔ اس مسئلہ پر جو بھی فقہی اور تاریخی مواد آپ کے مطالعہ میں آئے مدلل تحریر فرمائیں ۔ بعض جگہ تو نماز جمعہ کے بعد احتیاط الظہر باقاعدہ اقامت کے بعد با جماعت ادا کی جاتی ہے ۔ اس کا کیا حکم ہے ؟ ہر جگہ احتیاط الظہر کے تارک کو وہابی کے لقب سے ملقب کیا جاتاہے ۔کیا فی الحقیقت یہ ایسا ہی مسئلہ ہے جو کہ سنی اور وہابی کی علامت ہے ؟

الجواب:۔
یہ کہنا قطعاً خلافِ واقعہ ہے کہ حضرات احناف ادائے گیِ جمعہ کے بعد احتیاط الظہر بھی ادا کرنی ضروری سمجھتے ہیں ۔ آپ کو غلط فہمی شایس اس لئے ہوئی کہ جن لوگوں کو آپ نے احتیاط الظہر کا پابند دیکھا وہ خود کو حنفی کہتے ہیں اس لئے آپ نے قیاس کیا کہ واقعی تمام احناف کے نزدیک احتیاط الظہر ضروری ہے ، لیکن خوب سمجھ لیجئے کہ احتیاط الظہر نہ فقہ حنفی میں کوئی حقیقت رکھتی ہے نہ فقہ شافعی میں ۔ بلکہ یہ ایک بدعت ہے جسے لوگوں نے خواہ مخواہ گھڑ لیا ہے اور حقیقت کے ساتھ اس کو جوڑ لگا کر امام اعظم ؒ کی فقہکو بدنام کرتے ہیں ۔ آپ جے جو بتایا کہ احتیاط الظہرکے تارک کو وہابی کا لقب دیا جاتا ہے تو اس سے بھی ثابت ہوا کہ یہ انھی کا ریگروں کی حرکت ہے جو قبوری شریعت کی تمام بدعتوں میں گلے گلے اترے ہوئے ہیں مگر خود کو اہل سنت اور حنفی کہتے کہتے ان کے منہ خشک ہوئے جاتے ہیں ۔ یہ وہی لوگ ہیں کہ اصحاب علم و قعل کی گرفت سے بچنے کے لئے انہوں نے ’’وہابی ‘‘ کی پھبتی گھڑلی ہے ۔ ان کی مثال اس معاملہ میں روسیوں جیسی ہے کہ جہاں وہ کسی کے خلاف ہوئے اسے رجعت پسند اور بوژوا اور سامراج کا یجنٹ قرار دیا۔خوب سمجھ لیجئے جو شخص مسائل پر سنجیدہ علمی و عقلی گفتگو کر نے کے بجائے اپنے سے اختلاف رکھنے والوں کو ’’وہابی ‘‘ کہہ کر جان بچا بھاگتا ہے اس کے دل و دماغ کو قبوری شریعت کا مالی خولیا ہوچکا ہے اور علمی متانت کی اس سے کوئی توقع نہیں کی جاسکتی ۔
آپ پاکستان کی بات کرتے ہیں جہاں بفضلہ تعالیٰ مسلمانوں کی حکومت ہے ۔ ہم تو ہندوستان کے بارے میں کہتے ہیں کہ آج بھی جب کہ یہاں ہندو اکثریت مقتدر ہے اور گذشتہ کل بھی جب یہاں انگریز کا راج تھا احتیاط الظہر کی کوئی حقیقت نہیں تھی نہ آج ہے ۔ 
جن حنفی علما نے اولاً اسے ایجاد کیا ان کی نیت پر ہمیں کوئی شبہ نہیں ، لیکن یہ بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ ان کی یہ ایجاد غیر ضروری احتیاط پر مبنی تھی ۔ اور حنفی زاویۂ فکر جس شے کا نام ہے اس کے دائرے میں اس کے لئے کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی ۔
آخر یہ وہابیت کی زڑلگانے والے ہمیں علمی سطح پر سمجھائیں تو کہ احتیاط الظہر کیا چیز ہے ۔ کیوں ایک ایسی نماز ایجا کی گئی ہے جس کے لئے حدیث آچار صحابہ ،اقوالائمہ اور فرموداتِ مجتہدین میں کوئی حکم ، کوئی ترغیب کوئی نظی نہیں ملتی ۔
اگر یہ کہتے ہیں کہ مذہب حنفیہ میں امام یا اس کا نائب شروطِ جمعہ میں سے ہے اور یہ امام یا نائب ان کے نزدیک مسلمان ہونا بھی ضروری ہے تو پھر کسلئے یہ ہندوستان میں نمازِ جمعہ ادا کرتے رہے ہیں ۔ دیانت کی بات تو یہ تھی کہ جمعہ کا قصہ ہی ختم کرتے اور بقیہ چھ دنوں کی طرح جمعہ کے دن بھی ظہر ہی کی جماعتیں ہواکرتیں ۔یہ کیا بات ہوئی کہ حنفی ہونے کے باوجود وہ جمعہ بھی قائم کرتے رہے اور عبادت سے روحِ یقین نکالنے کے لئے احتیاط الظہر کا بھی قضیہ کھڑا کیا۔
کھلی بات ہے کہ انہوں نے قیام جمعہ میں حنفی مسلک کو چھوڑا اور ان ائمہ کا مسلک اختیار کیا جو امام کو شروطِ جمعہ میں داخل نہیں کرتے ۔اگر یہ وطیرہ ان کے نزدیک درست تھا تو پھر شک میں نہیں پڑنا چاہئے تھا کہ جمعہ ہوا یا نہیں ۔ غالباً وہ شک میں اسلئے پڑے کہ جن دوسرے ائمہ کا مسلک انہوں نے اختیار کیا تھا ان کے نزدیک شہر میں متعدد جگہ جمعہ درست نہیں ہے ۔ جس نے پہلے جمعہ ادا کرلیا اس کا ادا ہوا باقیوں کا ادا نہ ہوا۔اور ان پر ظہر کی نماز باقی رہی ۔اب شہروں میں یہ ٹھیک ٹھیک پتہ چلانا تو دشوار ہے کہ کس کا جمعہ پہلے ہوا ‘ لہذا انہوں نے احتیاط الظہر کی راہ نکالی کہ اگر جمعہ نہ ہوا ہو تو ظہر ہی ادا ہوجا ئے ۔ یہ بظاہر مستحسن فعل تھا ، لیکن اس میں وہی قباحت موجود تھی جو ظاہر ہوکر رہی یعنی احتیاط الظہر ایک نمازِ مستقل بن گئی اور ہر ہفتے ایک دن ایسا آنے لگا کہ جس میں پانچ کی بجائے چھ فرض نمازیں پڑھی جانیلگیں ۔ یہ دین میں اضافہ نہیں تو اضافہ کس چیز کا نام ہے۔
اب سن لیجئے کہ جن علمأ کے ذریعہ یہ معلوم ہوا کہ امام یا اس کے نائب کا وجود جمعہ کے لئے شرط ہے ۔ انھیں علمأ سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ امام یا اس کا نائب نہ ہوتو مسلمان اپنا امامِ جمعہ مقرر کر کے نماز پڑھ لیں ۔ اب بتایئے ، کیا شک رہا جمعہ کی ادائیگی میں ۔ کیا ہند و پاک سبھی سجہ مسلمان اپنا ایک امامِ جمعہ مقرر کر کے جمعہ ادا نہیں کرتے ؟ اگر خواہ مخواہ یہ کہا جاے کہ مذکورہ علمأ کا ہم یہ دوسرا قول نہیں مانتے تو پھر ان کا یہ پہلا ہی قول کیوں مان لیاجائے کہ جمعہ کے لئے ’’امام‘‘ (خلیفہ) شرط ہے ۔ یہ قول بھی رد کردیجئے ۔ جمعہ پھر بھی غیر مشکوک طور پر ادا ہوا ۔
صاف سی بات ہے کہ اگر مدعیانِ حنفیت کے نزدیک ’’امام‘‘ کا وجود واقعی شرطِ جمعہ ہے اور یہ امام م�ؤمن بھی ہونا چاہئے ۔ تو پھر ہندوستان جیسے جگہوں میں انگریز یا اہل ہنود کے غلبۂ و اقتدار کی صورت میں جمعہ پڑھنا ہی نہ چاہئے ، کیوں کہ جب شرط موجود نہیں تو یہ دور کعتیں محض نفل ہوں گی ۔ہر ساتویں روز نفلوں کو جماعت کثیرہ کے ساتھ ادا کرنا کس امام نے بتایا ہے ؟ کیوں نہ ظہر ہی کی جماعت کی جائے اور جمعہ کو خلیف�ۂ مؤمن کے ظہور تک تہہ کر کے رکھ دیا جائے۔
ہم سے پوچھتے تو کتب حنفیہ میں جس خلیفہ و امام کو شرط جمعہ قرار دیا جاتا ہے اس کا مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے ۔ مسلک حنفی کی ترجمانی کرنے ولای جامع الرموز میں ہے :۔ ’’لفظ خلیفہ وامام کے اطلاق سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام شرط نہیں ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ خلیفہ و امام کی شرط اس صورت میں ہے جب کہ اس سے اجازت لینا ممکن ہو رورنہ سلطان شرط نہیں ہے حتیٰ کہ اگر سب کسی شخص کے بارے میں متفق ہوجائیں اوراس کے پیچھے نماز پڑھ لیں تو نماز ہوجائے گی ۔جیسا کہ جلالی میں ہے ‘‘
رؔ دالمحتار میں مبسوط سے نقل کیاگیا ہے ۔’’اگر والی کافر ہوں تو بھی مسلمانوں کو نماز جمعہ جائز ہے ۔‘‘
اگر مسلمان خلیفہو امام ہی جوازِ جمعہ کی شر ط ہوتو اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہوگا کہ فرضیت جمعہ جغرافی اعتبار سے انتہائی محدود ہوجائے حالاں کہ جمعہ کی فرجیت دوسری ہی فرض نمازوں کی طرح نصوصِ صریح سے ثابت ہے اور کسی آیت یا حدیث سے واضھ نہیں ہوتا کہ اس کا انعقاد بس مسلمان ہی کی ممالک میں ہونا چاہئے ۔
یہ گفتگو تو ہندوستان جیسے ملک کے تعلق سے تھی ۔ لیکن پاکستان میں بھی جو لوگ ادائے گیِ جمعہ میں متردد ہیں اور احتیاط الظہر با جماعت تک کی نوبت پہنچائے ہوئے ہیں انھیں انہ صرف یہ کہ فہم مسائل سے عاری سمجھنا چاہئے بلکہ وہ اس لائق ہیں کہ وہاں کی مسلمان حکومت اس سے باز پرس کرے ۔ پاکستان میں اول تو احکام کفر رائج نہیں ہیں ۔۱؂ (۱؂)ابھی ۔۔۔۔۔کمیشن کی جس پورٹ کو پاکستان میں آئینی شکل دی گئی ہے اسے ہم شریعت میں در انداز ی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)مسلمانوں کو اپنے دینی امور میں خاصی آزادی ہے اور حکومت اسلام کی برتری اور حقانیت کی کھلم کھلا قائل ہے وہاں کے والی و حکام بلاریب مسلمان ہیں ۔ ان کی موجودگی میں ادائیگیِ جمعہ شمہ برابر بھی مشکوک نہیں جو احتیاط الظہر کی نچ لگائی جائے ‘‘ لیکن اگر کچھ نادان یہ گمان کرے ہیں کہ وہاں بعض خلافِ اسلام قوانین موجو دہیں اور نئے انداز کا جمہوری نظام رائج ہے اس لئے وہاں کے والی و حکام کا وجود ادائے گی جمعہ کے لئے کافی نہیں تو اسے صاف صاف بتانا چاہئے کہ جن احناف نے والی و امام کو شروطِ جمعہ میں داخل کیا ہے انہوں نے یہ قید کہاں لگائی ہے کہ یہ والی و امام اسی وقت شرطں جمعہ کو پورا کرسکتے ہین جب کہ انہوں نے خلافتا8 راشدہ کا نظام قائم اور خالص قرآنی دستور نانذ کیا ہو۔
کیا مسخرہ پن ہے ۔ مملکت مسلمان ۔ عمال و خھام مسلمان ، مگر بے یقینی اور تذبذب کے مارے لوگ احتیاط الظہر کی بدعت پہ جمے ہوئے ہیں وہاں کے حکام کو ان متشککین سے پوچھنا چاہئے کہ کیا تم ہمیں کافر سمجھتے ہو مسلمان نہیں مانتے ؟ اگر مسلمان مانتے ہو تو پھر کیوں جمعہ کی ادائے گی میں متردد ہو اور کس بنیاد پر احتیاط الظہر کا قضیہ کھڑا کرتے ہو۔
خوب سمجھ لیجئے اعمال کی روح یقین و طمانیت ہے ۔ شک بیچ میں آگیا تو خشوع و خضوع غارت ہوا ۔ اگر مقصود کج بحثی نہیں بلکہ اللہ کی عبادت ہے تو ایک بار پوری طرھ سوچ سمجھ لیجئے کہ جہاں آپ ہیں وہاں نمازِ جمدہ ہوسکتی ہے یا نہیں ۔ اگر فیصلہ یہ ہو کہ نہین ہوسکتی تو جمعہ کا دکھا وا ختم کردیجئے اور محض ظہر پڑھا کیجئے ۔ اور اگر فیصلہ اس کے خلاف ہوتا پھر پورے وثوق و ایمان کے ساتھ جمعہ ادا کیجئے۔ احتیاط الظہر کا شوشہ مت چھوڑیئے ۔ان لوگوں کو نمازِ جمعہ کے لئے کیا رغبت اور شوق اور ذوق ہوسکتا ہے جنھیں سر ے سے اسی میں تردد ہوکہ یہ فریضہ ادا بھی ہوتا ہے یا نہیں ۔
ہمارے علم کی حد تک جمعہ کے لئے امام یا نائب کی شرط امام اعظم ؒ سے منقول نہیں بعد کے علمائے احناف نے ظاہر فرمائی ہے ۔ لیکن س کی بنیادی وجہ اختلاف و نزاع کا دروازہ بند کرنا تھا ۔ اب جب کہ ہم مسلماں بلا لڑے جھگڑے کسی ایک مسلمان کو امامِ جمعہ بنا کر نماز پڑھ لیتے ہیں تووہ وجہ ہی ختم ہوئیجس کیلئے شرط کا اضافہ کیا گیا تھا۔
’’وہابی الی بات سے ظاہر ہی ہوگیا کہ تذکرہ ان کا ریگروں کا ہے جو اپنی ہر بدعت و گمرا ہی کا جواز و ہابیت کی چلتی ہوئی پھبتی کے ذریعہنکالتے ہیں ۔ یہ لوگ حنفیتو برائے نام ہیں دراصلاپنے تو ہمات کے غلام ہیں ۔ ورنہ اسی احتیاط الظہر کے مسئلہ پر وہ احناف کی متد اول کتابیں اٹھا کر دیکھ لیتے تو حقیقت واضح ہوجاتی ۔ ان کتابوں میں ہے کہ نماز احتیاطی ہر گز درست نہیں کسی طرح جائز نہیں ۔ بحرالرائقؔ میں اس سے روکا گیا ہے ۔ تاتار خانیہ میں کہاگیا ہے کہ احتیاطی نماز تو نہ عقلا درست ہے نہ نقلاً نہ کشفاًنہ الہاماً ۔اور یہ بھی بعض علمائے احناف نے کہا ہے کہ ادائے گی جمعہ میں تردد (جس کے نتیجے میں احتیاط الظہر کا قصہہ کھڑا ہوں وسوس�ۂ شیطانی ہے ۔ بحرؔ الرائق میں کہا گیا ہے کہ ’’نماز جمعہ کے بعد احتیاط الظہر کا فتویٰ دینا ہر گز درست نہیں ہے کیوں کہ اس سے عوام کے دل میں جمعہ کے لئے بے رغبتی پید اہوگی اور انھیں خیال ہگا کہ جمعہ فرج نہیں ہے اور ظہر کافی ہے ۔توجسے جمعہ کی فرضیت میں شک ہو اس کے کفر مین کیا شک ہے ۔‘‘
اسی نوع کی تنبیہات فتح القدیر اور عرفانی شرح سلطانی میں بھی ملتی ہیں ۔ اسکندریہ اور فضولِ عمادی میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ چاہے تمام شرائط معدوم ہوں تب بھیجمعہ کی فرضیت ساقط نہیں ہوتی ۔
جب یہ حال فرضیت جمعہ کا ہو تو ان شک پسندوں کے بارے میں جو اچھے خاصے اجتماع کے ساتھ امام کے پیچھے نماز جمعہ ادا کر کے بھی ادائے گی جمعہ میں مشکوک ہیں اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہیکہ انھیں ریب و بے یقینی کی بیماری ہوگئی ہے ۔
جن علمائیاحناف نے احتیاط الطہر کو ایک مستحسن فعل سمجھا جماعت سے پڑھنا تو ان کا بھی مسلک نہیں ۔ وہ فرادی فرادیٰ پڑھنے کا اذن دیتے ہیں ، لیکن بدعت پسند دماغ نچلا بیٹھنے والا کہاں اس نے ایک قدم بڑھ کر جماعت بھی شروع کردی اور اب جو اس نا رو ا حرکت پر ٹوکے وہ ’’وہابی ‘‘!۔۔۔۔۔۔۔۔۔نعوذباللہ من شرور انفسنا۔