Wednesday, March 27, 2013


قرآن وحدیث کی روشنی میں 
مسلمان اپنا جائزہ لیں 

مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری


برادرانِ ملت! اسلام کے بارے میں ہمارا جو یہ تصور ہے کہ یہ چند دعاؤں یا چند عبادتوں کا نام ہے یااس کا تعلق لباس وپوشاک سے ہے تو ایسی بات نہیں ہے ،جو اسلام کو صرف اتنا ہی سمجھتے ہیں وہ اس زندگی میں کوئی انقلاب نہیں لاسکتے اور نہ وہ ماحول پر اثر ہوسکتے ہیں ،اسلام تو ایک ایک پورے ماحول ومعاشرے کو تبدیل کرنے کا نام ہے ،ذہن ودماغ میں انقلاب واصلاح کا نام ہے ،آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ جب اسلام اس دنیا میں آیا تو زمانہ جاہلیت کے بے حساب رسم ورواج تھے ۔طرح طرح کے رسم ورواج اور اہام وخرافات میں وہ لوگ گھرے ہوئے تھے ،زندگی ان لوگوں کے لیے وبال اور مصیبت تھی اسلام نے جو انھیں تعلیم دی قرآن ان کے بارے میں کہتا ہے ’’ویضع عنہم اصرھم والأغلال التی کانت علیہم ‘‘کہ وہ مختلف زنجروں میں جکڑے ہوئے تھے ،ان کی گردن پر رسم ورواج کا بہت بوجھ تھا تو اسلام اسے ہٹانے کے لیے آیا آج ہمیں اپنے اسلام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔اور جب جائزہ لیں گے تو معلوم ہوگا کہ جو زمانۂ جاہلیت میں ان کا عقیدہ تھا آج ہمارا عقیدہ ان سے مختلف نہیں ہے ،بلکہ ہم نے انہیں چیزوں کو چن چن کرلیا ہے ،اسلام نے کن چیزوں کو مٹایا یہ ہم نے دیکھا بلکہ ہم نے دیکھا کہ اسلام آنے سے پہلے انسان کن عقائد ،کن خیالات اور کن معتقدات کا پابند تھا یہ کہ اس ملک کے اندر جو صحیح اسلام آیا اس کو ہم نے قبول نہیں کیا۔
سچی بات یہ ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات سے ایسای متاثر نہیں ہوئے جیساکہ ہم اس ملک کے ماحول سے متأثر ہوئے،ہمارے اس ملک میں جو کچھ ہوتا ہے ہم اسی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں مثلاً ہمارے ملک کے لوگ اگر ہر مہینہ ایک عید کرتے ہیں تو ہم نے بھی ضروری سمجھا کہ ماہانہ ایک عید منانی چاہئے، اسلام کہتا ہے کہ جاہلیت میں بھی اس قسم کی عیدیں تھیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صرد دو عیدیں ہیں جن میں خوشی منانے کا تمہیں حق پہنچتا ہے ۔اس تعلیم سے متأثر ہونے کے بجائے ہم اس ملک کے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ہر ماہ کتنی عیدیں مناتے ہیں اس کے مطابق ہم بھی چاہتے کہ محرم کی کوئی عید ہو صفر کی کوئی عید ہو، ربیع الاول کو کوئی عید ہو اور اسی طرح ہر مہینہ کوئی نہ کوئی عید ہوتی رہے ۔
گرض زمانہ جاہلیت کے لوگ کسی ایک مہینہ کو منحوس سمجھتے تھے اور اس ملک کا غیر مسلم بھی کسی ایک مہینہ کو منحوس سمجھتا تھا تو ہم بھی ضروری سمجھا کہ کسی ایک مہینے کو منحوس سمجھیں ۔اگر اس ملک کا باشندہ جو تعلیم سے بے بہرہ اور عقل ودانش سے دورہے اگر وہ کسی دن کو منحوس سمجھتا ہے تو ہم چاہتے ہیں کہ اس کے مقابلے میں ہم بھی کسی ایک دن کو منحوس سمجھیں ،سوچیے کہاں ہیں ہم اور کہاں ہے اسلامی تعلیم جب تک ہمارے ذہن ودماغ اس قسم کے اوہام وخرافات سے پاک نہیں ہوں گے اس وقت تک اسلام جن برکتوں کا وعدہ کرتا ہے اور جن رحمتوں کی یقین دہانی کراتا ہے کہ اپنے ماننے والے کو یہ عطا کرے گا ،اور اس اس طرح سے نوازے گا،تو یہ چیزیں ہمیں صرف چند عبادتوں کے اپنانے سے حاصل نہیں ہوسکتیں ۔
اپنے ذہن ودماغ سے ان تمام لعنتوں اور خرافات کو دور کرنا ہوگا جو ہمارے دماغوں میں بسے ہوئے ہیں ،مثلاً ماہ محرم کو ماتم کا مہینہ کہا جاتا ہے اور وہ ماہ صفر کو مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت منحوس سمجھتی ہے ۔آپ اندازہ لگائیے کہ وہ قوم کیسے ترقی کرسکتی ہے کہ جس کے سال کا پہلا مہینہ ماتم سے شروع ہوتا ہے ۔لوگ کہتے ہیں یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور اپنے آپ کو بہت مہذب بتاتے ہیں لیکن اپنی حرکتوں میں شیطانوں سے بدترہیں ،غرض ماتم کے ساتھ ہمارا سال شروع ہوتا ہے ،ہمارے اندر نہ کوئی حوصلہ ہے نہ کوئی استقلال، نہ کوئی امنگ ہے نہ لگن، بس ماتم ہی ماتم ہے ،اور اس کے بعد دوسرا مہینہ آتا ہے تو ہم نفرت کے ساتھ اس کا استقبال کرتے ہیں کیونکہ ہمارے عقیدے کے مطابق اس کے تیزہ دن بہت ہی منحوس ہوتے ہیں ان میں خیر وبرکت کا کوئی کام نہیں کرنا چاہئے ،حالانکہ یہ عقیدہ تو جاہلیت کے اندر تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ اس قسم کا عقیدہ غلط ہے تو انہوں نے توبہ کی تھی ار یہ بات ان کے ذہن ودماغ سے نکل گئی تھی ،آج ہمارے سامنے دو باتیں ہیں ایک تو یہ کہ جاہلیت کی طرح صفر کے مہینے کو منحوس سمجھا جائے اور دوسری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ،آپ نے فرمایا کہ ’’ لاھامۃ ولا عدویٰ ولا صفر ‘‘ لیکن افسوس کہ ہم زمانہ جاہلیت کے رسم ورواج کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر ترجیح دیتے ہیں اور پھر زمانۂ جاہلیت کا انسان بغیر کسی دلیل اور بغیر کسی حجت کے صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتا تھا تو آج ہم عقلی اور بے بنیاد دلائل پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسی مہینے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مرض کا حملہ ہوا تھا ،لہذا یہ مہینہ منحوس ہے حالانکہ ایسی باتوں کا دین وایمان سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
اگر آپ تحقیق کی نگاہوں سے دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ صفر کے ابتدائی دنوں میں آپ پر مرض کا حملہ نہیں ہوا تھا اور حدیث وتاریخ کی تمام معتبر کتابوں میں یہی ہے بلکہ حقیقت یوں ہے کہ صفر کے آخری دنوں میں آپ پر بیماری کا حملہ ہواتھا لیکن ہمارے یہاں جو سرسری علم ہے وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری چہارشنبہ کو صحت یاب ہوئے تھے اس لیے ہمارے یہاں کے لوگ اس دن گھروں سے باہر نکلنے کو بہت متبرک سمجھتے ہیں ۔
اس مہینے کو منحوس سمجھتے ہوئے کوئی مسلمان شادی بیاہ کرنا نہیں چاہتا ،اس میں کوئی کاروبار شروع کرنا نہیں چاہتا تو کیا یہ دنیا اور سارے کام انسان کے خیالات کے تابع ہیں، کتنے کام ہیں کہ انسان نہیں چاہتا لیکن وہ ہوتے ہی رہتے ہیں ،آپ واقعی اگر ان تیزہ دنوں کو منحوس سمجھتے ہیں تو انھیں دونوں میں کوئی اولاد پیدا ہو تو کیا اس کی پرچھائیں کو منحوس سمجھیں گے ؟ ان تیرہ دنوں میں کتنے مریضوں کو صحت ملے گی، کتنے لوگوں کو ترقی کا پروانہ ملے گا ،انسان اپنی آنکھیں کھلی رکھے کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اللہ کے حکم سے ہورہا ہے ، انسان کو جو نفع ونقصان ،صحت وبیماری ،عزت وذلت جو کچھ بھی ملتی ہے وہ سب اللہ کے حکم سے ہے اور وہ بہت پہلے لکھا جاچکا ہے ۔
مسلمان اپنے اسلام پر ناز کرتا ہے اور جہاں کہیں اسلام کے خلاف بات سنتا ہے تو جان ہتھیلی پر رکھ کر نکل پڑتا ہے یہ سب قابل قدر ہے لیکن اسے سب سے پہلے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہئے ۔ اسلام وہی ہے جو قرآن میں ہے اور سنت سے چابت ہے اس کی ہر بات روز روشن کی طرح عیاں ہے ،آپ نے فرمایا کہ ’’لیلھا کنھارھا‘‘ یہ بات اندھیرے کی نہیں ہے اس میں کوئی خفیہ اور پیچیدہ بات نہیں ہے بلکہ ہر بات سمجھ میں آنیوالی ہے اس کی پوری تعلیمات کو سمجھ کر اس کے مطابق زندگی بسر کرنی چاہئے ہمیں اپنے پڑوسیوں اور ماحول کے باشندوں کے ساتھ مقابلہ نہیں کرنا چاہئے کہ ان کے کتنے معبود ہیں ان کی عبادتوں کے کیا کیا طریقے ہیں،وہ کن کن چوکھٹوں پر اپنی پیشانی رگڑتے ہیں ،ان کے کیا کیا تماشے ہیں اور اگر یہ اپنی عیدمیں آتش بازی کرتے ہیں تو ہم بھی شب براء ت میں ضرور آتش بازی کریں۔ ان ہی سب غلط باتوں کی وجہ سے ہم اسلام سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔
اللہ نے اپنی جن نعمتوں کو اپنے ماننے والوں پر ظاہر کیا وہ فقیر تھے کنگال تھے مفلش تھے اور کسی چیز کے مالک نہیں تھے لیکن جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو اللہ نے انہیں تخت وتاج کا وارث بنادیا اور سربلند وباعزت بنادیا اور ہر چیز کا انھیں مالک بنادیا وہی اسلام ہمارے پاس بھی ہے لیکن افسوس کہ ہم پورے اسلام پر عمل کرنے کے بجائے صرف اسلام کی چند چیزیں جو ہمیں پسند آتی ہیں انھیں پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور اسلام کو اس کے اصل سے حاصل کرنے ے بجائے اپنے آباء واجداد کے رسوم ورواج کو اسلام سمجھ لیا حالانکہ اسلام ان تمام رسوم ورواج سے بری ہے ۔
دوستو! اسلام نے جو وعدہ کیا ہے اور اللہ نے جو وعدہ کیا ہے ہمیں اس کا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس دنیا میں سب سے بلند رکھنا چاہتا ہے جیساکہ فرمایا ہے ’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس ‘‘ اس کے لیے ہمیں ضروری ہے کہ اپنی کمزوریوں کی اصلاح کریں اور سب سے پہلے ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں کہ ہماری زندگیوں میں کیا کیا برائیاں ہیں انھیں ختم کریں اور پھر معاشرے سے ان کا خاتمہ کریں ،اگر ایسا ہوسکا تو آج مسلمان کے لیے وہی سربلندی انتظار کرتی ہے جو کبھی مسلمانوں کا نصیب اور ان کا مقدر تھا، اگر ہم نے صحیح اسلام کو نہیں اپنایا اور اپنے ذہن سے گھر سے ماحول اور معاشرے سے ان اوہام وخرافات کا خاتمہ نہیں کیا تو کبھی بھی ہم اللہ کی رحمت کے مستحق نہیں ہوسکتے اس ملک میں عزت وشرف کے ساتھ نہیں جی سکتے اور دنیا کے امام وقائد بن سکتے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان تمام اوہام وخرافات سے محفوظ رہنے اور اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا کرے ، آمین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کھیت سوکھ گیا .......کامقدمہ


یہ کھیت سوکھ گیا .......کامقدمہ

مقدمہ

خواجہ معین الدین 
مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی کا نام ادبی حلقوں میں بہت احترام سے لیا جاتا ہے،مولانا گم نامی کو پسند کرتے ہیں ،اس لیے شہرت کے کاموں سے بہت دور دور رہتے ہیں ،بہت عرصے بعد مولانا کی ایک کتاب ارض حرم میں پہلا قدم شائع ہوئی تھی جس میں حرمین کے تعلق سے اپنی یادداشوں کو مولانا نے قید تحریر میں لایا تھا ،ماہنامہ راہ اعتدال میں مولانا کے ادبی اور دینی مضامین عموماً شائع ہوتے ہیں ،آپ کی تحریروں میں جو ادبی چاشنی اور حلاوت ہے وہ بہت کم لوگوں کو میسر ہوتی ہے ،زبان وبیان پر آپ کی قدرت فطری بات ہے۔
مولانا اردو کے ساتھ عربی زبان بولنے اور لکھنے پر بھی قادر ہیں ،آپ بولتے ہیں تو لگتا ہے جیسے کوئی عرب بول رہا ہے ،مولانا کے چند دینی مضامین بھی اس کتاب میں شامل کرلیئے گئے ہیں ،تاکہ مردرِ زمانہ کی دست وبرد سے محفوظ ہوجائیں ،آپ نے جن شخصیات کی وفات پر نثری مرثیے تحریر فرمائے ہیں ،انہیں بھی شامل کتاب کیا گیا ہے ،ان میں قابل ذکر فضا ابن فیضی ،ڈاکٹر ازہری ،کاکا عمر ،شیخ بن باز،کاکا شاہد قابل ذکر ہیں ،مولانا کس کی خوبیاں گناتے ہیں تو اس میں مبالغے سے کام نہیں لیتے،جہاں تک ہوسکے ،حق بات کہنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔
اپنے مضامین کا انوکھا عنوان رکھنا آپ کا امتیاز ہے ،جیسے چند عناوین بطور مثال دیکھیں :
شاہد جاں باز
یہ کھیت سوکھ گیا بادلوں کی بستی میں 
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن۔۔۔۔۔۔
قسمت میں مری کتنے عزیزوں کے ہیں ماتم
اک کارواں کو چھوڑکے رہبر چلا گیا
ساحل سے طوفاں تک
ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی
مولانا بہت نرم مزاج کے مالک ہیں ،آپ نے مشہور زمانہ اخبار ’’مدینہ ‘‘ میں بھی کچھ دن کے لیے کام کیا تھا ،’’مدینہ ‘‘ کے علاوہ دعوت میں بھی چند دن کام کرنے کا آپ کو موقع ملا ،آپ نے عربی زبان کی چند بہترین کتابوں کا اردو ترجمہ بھی کیا ہے ،طہ جابر علوانی کی مشہور کتاب ادب الاختلاف فی الاسلام کا ترجمہ آپ کے قلم کامرہون منت ہے ،یہ کتاب رابطہ عالم الاسلامی سے بار بار شائع ہوئی اور لاکھوں کی تعداد میں تقسیم ہوئی۔
الغز والفکری ایک کتاب ہے اس کا بھی آپ نے ترجمہ فرمایا،آپ نے غلام رسول مہرؔ سے ایک لمبے عرصے تک خط وکتابت کی ،غبار خاطر کی طرز پر آپ نے غلام رسول مہر کی خود نوشت بھی ترتیب دی تھی ،مگر اب اس کا پتہ نہیں کہ کہاں کھوگئی ،آپ طہ حسین کے بڑے مداح تھے ،ان کی تحریروں کو مسلسل پڑھاکرتے تھے ،ان کے اسلوب کو پسند کرتے تھے ،مگر جب سے مصطفی صادق رافعی کی کتابیں پڑھیں ،طہ حسین کی خامیاں نظر آئیں اور طہ حسین کو آپ نے رد کردیا۔
آپ کے اسلوب کی لطافت ونزاکت دیکھنے کے لیے چند مثالیں پیش کرنا چاہوں گا :
(۱) ’’اشخاص واعلام کی خوبیوں ،نیکیوں اور ان کی مخلصانہ خدمات سے متأثر ہوتے ہیں ،تو ان کی سوانح بیان کرنے کے لیے قلم اُٹھاتے ہیں ،انھیں اس کی مطلق پرواہ نہیں ہوتی کہ ان کا ممداح ان کا ہم مسلک ،ہم مشرب،ہم خیال ہے یا بالکل ان سے مختلف ہے ،کرائے پر لکھنے والے اپنے ذاتی تأثر کو باہر رکھ کر گوناگوں افراد کی سوانح عمریاں مکمل کرسکتے ہیں ۔‘‘
شورش کاشمیری کی تصانیف پر اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا نے لکھا ہے :
’’شورش کی پرورش،کیا بچپن کیا جوانی ،بے بسی کے ڈیرے اور کمپرسی کے سائے میں ہوئی ،اپنی تصانیف میں خود ہی ان باتوں کا برملا افراد وظہار کرتے ہیں ،سنگین حالات کی تصویر ایسے الفاظ میں کھینچتے ہیں کہ حساس قاری کے لیے آنسو روکنامشکل ہوجاتا ہے ‘‘
مولانا نے’’ عمرآباد میں علم وادب کی روایت ‘‘ کے بعنوان مضمون نہایت مختصر طور پر جامع الفاظ میں عمرآباد میں علمی روایات اور ادبی روایات پیش کی ہیں ،عمرآباد کے بڑے بڑے علما اور شعرا اور ان کی شاعری پر مختصر طور پر روشنی ڈالی اور ان کے محاسن وامتیازات بیان کیے ہیں 
مولانا کی زبان سادگی وپر کاری کی عمدہ مثال ہے ،تعقیدسے مولانا کو چڑ ہے ،جو کہنا چاہتے ہیں برملا اور صاف طور پر کہتے ہیں ،اس میں کس طرح کے تکلف کوحارج ہونے نہیں دیتے ،وضاحت وصفائی آپ کی تحریروں کی خوبی ہے ،اپنے موضوع سے متعلق کی طرح کی تشنگی نہیں چھوڑتے ،ہر زاوئے سے مکمل ومدلل تحریر کرنا آپ کی خاصیت ہے ۔
’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے ‘‘ علامہ البانی اور ان کے کارناموں پر لکھا گیا مضمون ہے ،اس میں علامہ البانی کے حوالے سے مشہور واقعات بھی موصوف نے پیش کیے ہیں ،علامہ البانی پر موصوف اس لیے صحیح بات لکھ سکتے ہیں کیونکہ موصوف آپ کے شاگردتھے ۔علامہ البانی سے استفادہ کرنے کا شرف مولانا حفیظ الرحمن اعظمی کو ملا ۔
موصوف کی نثر میں اچھی نثر کی تمام خوبیاں اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ جلوہ ریزہیں ،اچھی اور معیاری نثر لکھنا ہر کس کے بس کی بات نہیں ہے ،آپ جیسی شخصیات کا دم اردو ادب کے لیے غنیمت ہے ،مولانا آزاد کی تحریروں سے آپ متأثر ہیں ،تحریر کے بیچ میں عربی واردو اشعار ایسے پروتے ہیں جیسے ایک ہار میں موتیاں پر وئی جاتی ہیں مولانا کے اسلوب کا تبتع کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہے ۔
مولانا کی تحریروں کا یہ دوسرا مجموعہ ہے جو شائع ہونے جارہا ہے ،اس کتاب کی اشاعت کے بعد ان شاء اللہ مولانا کا دیگر تحریروں کو بھی کتابی شکل دی جائے گی۔
والسلام
دعاگو
خواجہ معین الدین

جرأت مند شہزادہ



جرأت مند شہزادہ
ایس۔ایم۔ظفر
چاروں شہزادوں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا تھا۔ شہنشاہ پریشان تھا کہ کس شہزادے کو اپنا ولیعہد مقرر کرے اس نے ایک دن اپنے سبھی درباریوں کو طلب کیا اور ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا۔ شہنشاہ خود اپنے بڑے بیٹے کو چاہتا تھا لیکن اس کی خواہش یہ بھی تھی کہ تمام درباری اتفاق رائے سے ولیعہد کا انتخاب کریں۔ درباریوں کو بھی یہ بات معلوم تھی مگر وہ اپنے منھ سے کسی ایک شہزادے کا نام لیکر باقی شہزادوں کی مخالفت مول لینا نہیں چاہتے تھے۔ بہت سوچ کر قاضی نے جو سب سے سمجھدار انسان تھا اور اکثر ایسے مشکل فیصلوں سے دوچار ہوتا رہتا تھا شہنشاہ سے پوچھاکہ وہ خود کس شہزادے سے زیادہ محبت کرتا ہے؟ اب پھر کہانی بادشاہ کے پالے میں آگئی۔ بادشاہ بھی سمجھدار انسان تھا۔ اس نے سوچ کر فیصلہ کیا کہ دربار ہال خالی کیا جائے اور چاروں شہزادوں کو طلب کیاجائے اور ان سے کہا جائے کہ وہ خالی دربار ہال میں جو نشست بھی اپنے لئے پسند کریں اس پر بیٹھ جائیں۔ اور ہم سب باہر سے یہ دیکھیں گے کہ کون شہزادہ کس نشست پر بیٹھنے کی ہمت کرپاتا ہے اس سے شہزادوں کی ذہانت کا صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔درباریوں کو یہ تجویز پسند آئی۔ تمام شہزادوں کو طلب کیا گیا اور ان سے یہی کہا گیا۔ پہلے تو شہزادے بغیر شہنشاہ کی عدم موجودگی میں دربار میں جانے سے کچھ پریشان ہوئے لیکن جب شہنشاہ نے اصرار کیا تو شہزادے دربار ہال میں داخل ہوگئے۔ دربار ہال میں داخل ہونے سے قبل ایک شہزادے سوال کیا’’بابا حضور جب ہم کسی نشست پر بیٹھ جائینگے تو جب اس نشست پر بیٹھنے والا شخص جب دربار میں آئیگا تو کیا ہم کو اٹھادیا جائیگا۔‘‘
’’ہرگز نہیں۔‘‘شہنشاہ نے جواب دیا۔
شہزادوں نے دربار میں داخل ہونے کے بعد تمام نشستوں پر ایک نظر ڈالی۔ ابھی شہزادے نشستوں کو دیکھ ہی رہے تھے کہ بڑا شہزادہ آگے بڑھ کر وزیر اعظم کی نشست پر بیٹھ گیا۔ دوسرے شہزادے نے سپہ سالاراعظم کی نشست پر قبضہ کرلیا۔ اب بھی دو شہزادے باقی تھے اور اعلیٰ عہدیداران کی نشستوں میں سے صرف ایک نشست قاضی کی بچی ہوئی تھی۔ یہی وہ تین نشستیں تھیں جن پر بیٹھنے والے اپنے معاملات میں صرف شہنشاہ ہی کو جوابدہ تھے۔ ایک شہزادے نے بڑھ کر قاضی کی نشست حاصل کرلی۔ اب اعلیٰ عہدیداران کی سب نشستیں بھر چکی تھی اور ایک شہزادہ باقی تھا۔ یہ وہ شہزادہ تھا جس نے دربار میں داخل ہونے سے قبل شہنشاہ سے سوال کیا تھا۔
شہزادہ آہستہ آہستہ انتہائی پروقار انداز میں قدم اٹھائے ہوئے آگے بڑھا اور پھر چشم زدن میں شہنشاہ کے تخت پر جلوہ افروز ہوگیا۔ باقی شہزادے نے اس حرکت پر ناراضگی کا اظہار کیا اور بدتمیزی سے تعبیر کیا۔
اس شہزادے نے کہا تم سب عہدیداران کی نشستوں پر بیٹھے میں نے تو کسی پر اعتراض نہیں کیا۔
لیکن ہم نے بابا حضور کے تخت پر بیٹھنے کی جرأت تو نہیں کی۔ بڑے شہزادے نے غضبناک نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
شہزادے نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: ’’اس میں ناراضگی کی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ نے ٹھیک ہی فرمایا کہ آپ میں بابا حضور کے تخت پر بیٹھنے کی جرأت نہیں ہے اور نا ہی آپ یہ جرأت کرسکتے ہیں۔
اسی وقت شہنشاہ اپنے تمام درباریوں کے ساتھ دربار ہال میں داخل ہوا۔ اس کی پہلی نظر اپنے تخت پر ہی گئی جس پر ایک شہزادہ جلوہ افروز تھا شہنشاہ نے اپنے درباریوں سے پوچھا: ’’شہزادوں کی نشستیں دیکھ لیں آپ حضرات نے؟‘‘ ’’جی ہاں! عالی جاہ‘‘
اس کے بعد کسی اور سے کچھ کہے بغیر شہنشاہ نے دربار برخواست کردیا۔
یہ شہنشاہ شاہجہاں اور شہزادہ اورنگ زیب تھا۔

اسلام پسندادیب



اسلام پسندادیب
محمد رفیع الدین مجاہدؔ 
میں اسلام پسند ادیب ہوں ۔لکھتا ہوں، خوب لکھتا ہوں اور خوب چھپتا بھی ہوں۔بچّے جن میں اسکول کے طلبہ ہوتے ہیں اور کالج کے طلبہ بھی میرے پاس آتے رہتے ہیں۔ کبھی تقریر لکھوا کر لے جاتے ہیں تو کبھی مضمون کے لئے بے حد اصرار کرتے ہیں۔ وہ اس وقت آتے جس وقت ان کی اسکول یا کالج میں کوئی فنکشن یا پھر سیرت النبیؐ پر جلسہ ہوتا ہے۔ دوتین ردز قبل آتے ہیں مگر جلد سے جلد کوئی تقریر یا مضمون لکھ کردینے کی فرمائش کرتے ہیں۔ صبح آئیں گے تو کہیں گے ’’بس شام تک لکھ کر دیجئے۔ بڑا احسان ہوگا۔‘‘معمول کے مطابق میں غصّہ ہوجاتا ہوں۔
تمہیں اب ہوش آرہا ہے؟ ایک ہفتہ قبل آنا چاہیے تھا! وقت پر سب گڑبڑہوجاتی ہے۔ اتنی جلدی میں تمہیں کچھ لکھ کر جو معیاری بھی ہو اور تمہیں انعام و اعزاز کا حق دار بھی بنادے،کیسے اور کیوں کر لکھ کردے سکتا ہوں؟ میرا دماغ کوئی کمپیوٹر تو ہے نہیں اور نہ ہی میری انگلیاں ٹائپ رائٹر کی طرح کام کرتی ہیں!‘‘لیکن وہ بھی معمول کے مطابق ممنانے لگتے ہیں اور پھر میری تعریفیں شروع کر دیتے ہیں۔’’آپ تو یوں ہیں۔۔۔تیوں ہیں۔۔۔فلاں ہیں۔ اور آپ ۔۔۔’’بس۔۔۔!‘‘میں انہیں ڈانٹ دیتا ہوں۔ ’’فضول تعریفیں نہ کرو۔ میں لکھ دوں گا۔وہ خوش ہوجاتے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح میں اپنی شرط رکھتا ہوں کہ تقریر یامضمون میں تمہیں جو کچھ لکھ کردوں گا اس کی فوٹو کاپی مجھے فوراً لاکردینی ہوگی۔ وہ اس لئے کہ جب کبھی اس تقریر یا مضمون کی مجھے ضرورت محسوس ہوتو دوبارہ الفاظ یاد کرنے نہ پڑیں۔ آخر ایک مرتبہ کا لکھا لکھنے والا بھلا کب تک یادرکھے گا؟ اس کا دماغ کمپیوٹرنہیں کہ جب چاہا اور جو چاہا فوراً اگلوالیا۔ نقل کی ضرورت دو طرح سے پڑسکتی ہے۔ ایک اگر مہینے یاسال بھر کے بعد اس تقریر کو کسی اور نے مانگا تو فوراً اسے دے سکوں ۔ دوسرے اسے کسی اخبار یارسالہ میں بہ غرض اشاعت بھیج سکوں۔ کیوں کہ مضمون نویسی کے مقابلے میں یا تقریری مقابلے میں بھلے ہی میرے لکھے کو فرسٹ پرائز مل جائے۔ مگر چوں کہ میں ادیب ہوں اس لئے جب تک میرا لکھا چھپ نہیں جاتا، مجھے سچی خوشی نصیب نہیں ہوتی۔ اسے میری مجبوری کہہ لیجئے یا مجھ جیسے تمام ادیبوں کی۔
میں مانگنے والے کے معیار کوملحوظ رکھتے ہوئے تقریر یا مضمون کا معیار مقرر کرتا ہوں اور صرف انہی کو دیتا ہوں جو باصلاحیت ہوں اور کچھ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ ورنہ جنہیں یاد ہی نہ ہواور جو یاد کرکے بھی حرکات وسکنات کا مظاہرہ نہ کرسکیں اور نہایت بونے ثابت ہوں۔ اُنہیں میں ٹال دیتا ہوں۔ ایسی بات نہیں کہ میرا لکھا فرسٹ، سیکنڈ، تھرڈ یا امتیازی انعام حاصل نہیں کرتا ہے بلکہ زیادہ تر فرسٹ پرائز ہی حاصل کرتا ہے میرا لکھا ہوا ضائع نہیں جاتا، خدا کا شکر ہے۔ میں آٹھویں تا دسویں اور گیارہویں تا سینئر کالج کے بچوں اور لڑکوں کو ہی اکثر تقریر یا مضمون لکھ کردیتاہوں۔ پرائمری کے بچوں کو بالکل نہیں دیتا کہ پھر انہیں کون یاد کرائے گا؟ پانچویں تا ساتویں کلاس کے بچوں کو کبھی کبھار ہی کچھ لکھ کردیتا ہوں۔ مختصراً یہ کہ جو میری فصیح وبلیغ اردو اور معیاری زبان وبیان کو سمجھنے اور سمجھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں اُنہی کو میں کچھ لکھ کر دیتا ہوں اور اُن سے کچھ لیتا ہوں۔ اصل کاپی کی ایک نقل کاپی!
مجھے یاد آتا ہے کہ دسویں کے ایک لڑکے کو میں نے تقریر لکھ کردی تھی۔ اس نے پوری کوچنگ کلاسیز کے مقابلے میں فرسٹ پرائز حاصل کیاتھا۔ وہی تقریر دوسرے سال ایک لڑکی کو دی تو اس نے کمال کردیا۔ شہری سطح پر فرسٹ پرائز حاصل کیا۔ اسی طرح بہت سارے مواقع آتے رہتے ہیں۔
چند روز قبل ہی کی تو بات ہے۔ میرا بھانجا، جو نویں کلاس میں پڑھتا ہے بھاگا بھاگا میرے پاس آیااور مجھے شیلڈ، سرٹیفکٹ اور دوسری انعامی چیزیں دکھانے لگا۔ وہ بہت خوش تھا۔ اسے پہلا انعام ملاتھا۔ شہری سطح پر سیرت النبیؐ پر جلسہ ہوا تھا اور سبھی کے دو دو بچے اس میں شریک ہوئے تھے۔اسی جلسہ میں دسویں اور بارہویں میں میرٹ اور فرسٹ آنے والے طلبہ کا اعزاز بھی کیا گیا تھا۔ اچھاخاصا بڑا جلسہ ہوا تھا۔ میرے بھانجے کو وہ تقریر میں نے ہی لکھ کردی تھی اور حرکات وسکنات کے ساتھاسے تھوڑا بہت تیار بھی کیا تھا کہ یہ گھر کا بچّہ تھا اور پھر گویا میری ناک کا بھی سوال تھا۔ اس کی تقریر کا عنوان تھا اسلامی دہشت گردی کا پروپگینڈہ اور حضرت محمدؐ کی دعوت۔
جلسہ کی نوعیت منتظمین نے مجھے پہلے ہی بتا دی تھی۔ صدارت شہر کے مفتی کررہے تھے۔ اور مہمانانِ خصوصی کی شکل میں شہر کے مشہور ومعروف ہندی اخبار کے مقامی ایڈیٹر تھے۔ لہٰذامیں نے اس تقریر کو سادہ وسلیس زبان میں منتقل کردیا تھا اور جابہ جا ہندی زبان کا بھی استعمال کیا تھا۔ مفتی صاحب مہاپور اور ایڈیٹر صاحب نے اپنی اپنی تقاریر میں اس تقریر کا خصوصی نوٹس لیا تھا اور حالاتِ حاضرہ پر اس تقریر کی افادیت کو اجاگر کیا تھا۔ حیرت اس وقت ہوئی جب دوسرے دن کے اسی ہندی اخبار میں میری لکھی تقریر کی بنیاد پر خبر شائع ہوئی تھی۔ جب کہ چند نکات پر اعتراض کے تحت مختصراً بحث بھی کی گئی تھی۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مجھے خوش ہونا چاہیے جب کہ میں تو متفکر ہونے لگا ہوں۔ اس لئے کہ میری شناخت ایک اسلام پسند ادیب کی حیثیت سے ہے میری تحریروں کی اشاعت ان پر ملنے والے اعزازات اور میری تحریر کردہ نگارشات پر طلبہ کو ملنے والے اعزازات میرے اندر خود ستائی اور خود نمائی کا جذبہ پیدا کررہے ہیں۔ میرے اندر احساس برتری پنپ رہا ہے۔ میرے لکھئے ہوئے کو بے شک انعامات واعزازت مل رہے ہیں مگر روزِ محشر مجھے اس پر انعام نہ مل سکا تو اگر مجھ سے پوچھا گیاکہ نبیؐ کی سیرت پر تو خوب لکھتا تھا اور اس پر انعامات بھی ملتے تھے۔ لیکن عمل کتنا کرتا تھا؟ تو میں کیا جواب دوں گا؟ اگر مجھ سے پوچھا گیا کہ:
ان تحریروں کا مقصد کیا تھا۔ نام نمود، شہرت اور عزت کا حصول یا اللہ کے بندوں کی اصلاح، دعوت وتبلیغ، دوسروں کی مدد؟ تو میں کیا جواب دوں گا؟ میں اسی لئے متفکر ہوں اور بہت دیر سے سوچ رہا ہوں۔