Wednesday, March 27, 2013

احسان کے ہاتھوں


احسان کے ہاتھوں
سعید ریاض
شارق کئی دن سے بہت پریشان تھا۔ اس کی ذراسی غلطی نے اُسے اس طرح الجھادیا تھا کہ وہ جتنا سوچتا ڈور اتنی ہی الجھتی جارہی تھی۔۔۔وہ کیا کرے؟ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ گزرے وقت کا ایک ایک لمحہ اس کے احساس کو زخمی کررہا تھا۔ اُسے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی اس سے کہہ رہا ہو شارق جذبات اور اُجلت میں کئے گئے فیصلے کبھی کبھی کربناک ہوجاتے ہیں کاش! تم اپنے دوست انور کا مشورہ مان لیتے۔ تم نے اس کی صحیح بات ٹھکرادی اور پھر غلط ہاتھوں میں پھنس گئے۔ اس بات پر شارق کو یاد آیا کہ ایک بار اس کے ابو نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہاتھا۔۔۔
’’شارق بیٹا بُرے لوگوں کا ساتھ بھی بُرا ہوتا ہے ہمیشہ اچھے لڑکوں کے ساتھ رہا کرو۔ اس لئے کبھی کبھی بُرے لڑکوں کی صحبت میں رہنے سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔‘‘
آج اسے اپنے ابو کی بات کی سچائی بھی معلوم ہوگئی تھی۔ شارق نے جذبات اور جلد بازی میں کالج کے ایک بدمعاش لڑکے جاوید سے ایک معاملے میں مدد لی تھی اور یہی شارق کی غلطی تھی۔اس لئے کہ اب جاوید اپنی ذرا سی مددکی بھر پور قیمت وصول کررہا تھا۔
شارق مقامی انٹر کالج میں دسویں کلاس کا طالب علم تھا۔ کالج میں اس کے کئی دوست تھے مگر انور اور صادق اس کے جگری دوست تھے۔صادق ایک غریب لڑکا تھا۔بہت ذہین اسے اپنی پڑھائی جارہی رکھنے کے لئے کبھی کبھی بہت پریشانی اٹھانی پڑتی تھی۔ وہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے چھوٹے بچوں کی ٹیوشن کرکے اپنا خرچ چلاتا تھاکچھ اس کے ابو کرتے تھے وہ مزدور تھے۔ انہیں کبھی کبھی کئی کئی دن مزدوری سے محروم رہنا پڑتا تھا۔ شارق رحم دل لڑکا تھا دوسروں کی مدد کرنا اس کی عادت تھی۔ ایک دن وہ کالج آیا تو اس نے اپنے دوست صادق کو کچھ پریشان دیکھا۔ تو اس نے صادق سے پوچھا۔
’’کیا بات ہے صادق! آج بہت پریشان نظر آرہا ہو؟‘‘
’’کچھ نہیں!‘‘ صادق اتنا کہہ کر خاموش ہوگیا تھا مگر شارق نے محسوس کیا کہ صادق کی آنکھوں میں آنسوآگئے تھے یہ دیکھ کر شارق کو اور دکھ ہوا اس نے پھر اس سے کہا۔
’’صادق تم میرے دوست ہو، دوستوں سے دکھ چھپائے نہیں جاتے۔ مجھے بتاؤ کیا بات ہے۔ میں جس قابل ہوں تمہاری مدد کروں گا۔‘‘
’’شارق بات یہ ہے کہ ۔۔۔صادق اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکا اور خاموش ہوگیا۔ اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ وہ کچھ کہنا چاہتا چھا مگر نہ جانے کیا بات تھی کہ دل کی بات زبان پر نہیں آرہی تھی۔ اس پر شارق نے اس سے کہا۔
’’دیکھو دوست!اگر ایک دوست پریشانی میں اپنے دوست کا ساتھ نہ دے تو وہ دوستی بیکار ہے۔ تم بے جھجک کہو۔‘‘شارق کی اس بات پر اس نے بڑی مایوس نظروں سے اس کی جانب دیکھا اور بولا۔
’’شارق!مجھے اس وقت کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔‘‘
’’کتنے پیسوں کی؟‘‘ شارق نے پوچھا۔
’’صرف سوروپیہ کی۔‘‘ تو اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے اللہ مددگار ہے۔ شارق نے صادق کو تسلی دیتے ہوئے کہا ۔’’شام کو تمہیں مل جائیں گے۔‘‘
’’تمہارا بہت بہت شکریہ ! شارق تمہارے پیسے ایک ہفتہ میں لوٹا دوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے صادق ۔ پیسے وقت پر ہی لوٹانے کی کوشش کرنا چونکہ میں یہ پیسے تمہیں کسی سے لے کردوں گا۔‘‘
اس بات کو ایک ماہ گزرگیا ۔ مگر صادق پیسے نہیں لوٹاسکا۔ وہ اپنی کوئی نہ کوئی مجبوری ظاہر کرتا رہا اور حقیقت بھی یہی تھی کہ صادق نے جس بھروسہ پر قرض لیا تھا وہاں سے پیسے ملنے میں دیر ہوگئی تھی۔ اس کے ابو جہاں کام کررہے تھے وہاں سے بھی مزدوری نہیں ملی تھی۔ مگر شارق کو اب شک ہونے لگا تھا کہ شاید صادق پیسے دینا نہیں چاہتا۔ وہ ٹال رہا ہے۔ اسی بات کو سوچ کر وہ پریشان تھا۔
ایک دن شارق بہت صبح اسکول پہنچ گیا تھا تاکہ وہ صادق سے پیسوں کی بات کرلے۔ آج وہ کچھ پریشان ساتھا۔ وہ کلاس کے باہر کھڑا کچھ سوچ رہاتھا کہ ۔۔۔ ایک ساتھی طاہر آگیااور اس نے شارق سے کہا ’’آج تم کالج بہت پہلے آگئے ۔ کیا بات ہے؟‘‘اس پر شارق نے اسے ساری بات بتائی اور بولا۔۔۔
’’اگر اب صادق نے پیسے نہیں دیئے تو میں جاوید سے کیا کہوں گا‘‘ یہ سن کر طاہر نے ایک دم کہا ’’شارق ایسی غلطی مت کرنا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘شارق نے اچانک سوال کیا۔
’’شارق ! طارق نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ تم جانتے ہو جاوید اچھا لڑکا نہیں وہ آوارہ مزاج لڑکا ہے۔ تمہارے پیسے تو مل جائیں گے مگر غریب صادق کو پریشانی اُٹھانی پڑے گی اور تم بھی پریشان ہوجاؤگے۔ ذرا سوچو!اگر جاوید نے تم سے ایک معمولی سے احسان کی قیمت مانگی تو کیا ہوگا؟‘‘
مگر شارق نے طاہر کی بات پر توجہ نہیں دی۔ تھوڑی دیر بعد ۔ جاوید آگیا تو شارق نے جاوید کے سامنے اپنی بات رکھی۔اس پر جاوید نے کہا’’کل تمہارے پیسے مل جائیں گے۔‘‘
اور پھر دوسرے دن صادق نے شارق کی رقم لوٹادی مگر اس کے بعد کئی دن تک کالج نہیں آیا ۔ اور آیا بھی تو چہرہ کچھ اداس ، مرجھایا ہواتھا۔وہ خاموش آیا اور سیٹ پر بیٹھ گیا۔ وہ کئی دن تک ایسے ہی اداس رہا۔ اس سے شارق کو بھی کچھ احساس ہوا۔ اس نے کئی بار سوچا صادق اس کا دوست ہے۔ اس کا فرض ہے کہ اپنے دوست کی پریشانی پر اس سے معلوم تو کرے۔ مگر وہ ہمت نہ کرسکا۔
وقت گزرتا رہا مگر شارق کے دل میں ایک خلش ہوگئی تھی اس لئے کہ صادق نہ صرف کلاس میں خاموش رہنے لگا تھا بلکہ اس نے شارق سے ملنا جلنا ہی کم کردیا تھا۔صادق کے ساتھ ہی طاہر بھی اس سے کھچا کھچا رہنے لگاتھا۔ اب اسے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اس کی ذرا سی غلطی اور جلد بازی نے اُسے دواچھے دوستوں سے محروم کردیا تھا۔ دوسری جانب جاوید کی مدد اس کے لئے ایک عذاب بن چکی تھی۔ کیونکہ جاوید قرض کے نام پر شارق سے کئی بارپیسے لے چکا تھا۔
اس دن شارق پھر پریشان تھا۔ اس لئے کہ جاوید نے آج پھر اس سے کچھ پیسوں کا مطالبہ کیاتھا۔ شارق سوچ رہاتھا کہ جاوید نے اسے صادق سے اس کے سوروپیہ دلائے تھے۔وہ اس احسان کے بدلے میں اس سے ڈیڑھ سو(۱۵۰) روپے قرض کے بہانے لے چکا ہے۔ وہ قرض جس کی وصولیابی ممکن ہی نہیں تھی۔ اب وہ اسے اور پیسے کہاں سے دے۔ وہ تو اپنی جیب خرچ کے بجائے ساری پونجی تو جاوید کو دے چکا ہے۔شارق ایک انجانے خوف سے کانپ رہا تھا۔ اس لئے کہ جاوید نے دھمکی دی تھی کہ اگر تم نے پیسے نہیں دیئے تو اچھا نہیں ہوگا۔ میں نے تمہاری ڈوبی ہوئی رقم دلائی تھی۔
شارق کے کانوں میں جاوید کے الفاظ گردش کررہے تھے۔ میں نے تمہاری ڈوبی ہوئی رقم واپس دلائی تھی۔ مگر اسے یوں لگ رہاتھا اس کی ڈوبی ہوئی رقم تو مل گئی مگر وہ خود ایسے پانی میں ڈوب گیا تھا جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ ہی نظر نہیں آرہا تھا۔ اس کے دوست طاہر کے الفاظ اس کانوں میں باز گشت کررہے تھے۔’’بُرے لوگوں کی مدد سے فائدہ نہیں بڑا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔‘‘ شارق کی آنکھوں میں آنسوں آگئے تھے۔ اس کی نظروں میں غریب صادق کا معصوم چہرہ گھوم رہا تھا۔ اداس پریشان۔ بے ساختہ اس کی منھ نکل گیا۔ اللہ تو مجھے معاف کردے۔‘‘ندامت کے آنسو اس کے گالوں سے پھل کر دامن میں جذب ہورہے تھے۔

مے آئی گوٹو (May I Go to)


مے آئی گوٹو (May I Go to) 
پرویز اشرفی
اسکول میں آج اس کا پہلا دن تھا۔ پرنسپل نے پہلے ہی گھنٹہ میں نویں درجہ میں پڑھانے کا حکم دیا۔ جیسے ہی درجہ میں اُس نے قدم رکھا پورے کلاس نے خاموشی کی چادر اوڑھ لی۔پیچھے بیٹھے ہوئے چند شرارتی طلباء اپنے نئے اُستاد کو دیکھ کر کھسر پھسر کرنے لگے۔ اکثر نئے اُستادیا طلباء جب کسی اسکول میں پہلی بار جاتے ہیں تو اس قسم کے ماحول سے سابقہ پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ تھا۔ بچوں کی خاموشی اور اُن کے تجسس کو دیکھتے ہوئے اپناتعارف کرایا۔’’میرا نام سرفراز حسین ہے اور میں آپ لوگوں کو تاریخ پڑھاؤں گا۔‘‘ اس مختصر تعارف کے بعد سرفراز نے بلیک بورڈ کارُخ کیا اور مضمون کا عنوان لکھنے لگا۔
بچو! آج میں آپ کو دوسری جنگ عظیم کے بارے میں پڑھاؤں گا۔ اس کے اسباب اور نتائج پر بھی روشنی ڈالوں گا۔ لیکن اس سے پہلے میرا آپ سے ایک سوال ہے
’’سائنس اور تاریخ میں کون زیادہ اہم ہے؟ درجہ پر سکوت طاری تھا۔ سبھی بچے غور کرنے لگے۔ ایک بچے نے ہاتھ اُٹھایا۔ سرفراز صاحب نے سب سے پہلے اُس کا نام پوچھا۔
ؔ ؔ ’’میرا نام محسن ہے۔‘‘
’’بہت خوب! ماشاء اللہ بڑا پیارا نام ہے۔اچھا بیٹے بتاؤ کون اہم ہے؟‘‘
’’سائنس‘‘ بڑے اعتماد سے اُس نے جواب دیا۔
اسی طرح باری باری کئی لڑکوں سے سوال پوچھا سبھی نے تاریخ کو بورنگ، روکھا اور بے کار مضمون قرار دیا جس کی کوئی اہمیت نہیں لیکن سائنس کی اہمیت پر سب کا اتفاق تھا ۔ ایک طالب علم نے ہمت کرکے سرفراز سے ہی سوال کردیا۔
’’سر!آپ کا نظریہ کیا ہے؟‘‘
’’ہاں!تم نے بہت اچھا سوال کیا۔ میرے نزدیک ایک علم کا دوسرے علم سے ٹکراؤ نہیں ہوتا مگرہر ایک علم کی اپنی افادیت ہوتی ہے سبھی علوم کے ایک دوسرے سے رشتے ہوتے ہیں۔ ان میں تاریخ سب پر فوقیت رکھتا ہے۔‘‘
’’وہ کیسے۔۔۔سر؟‘‘ کئی بچوں نے جاننا چاہا۔
’’سرفراز نے سمجھاتے ہوئے کہا’’جتنے بھی علوم ہیں سب کی اپنی ذاتی اہمیت ہے۔ وہ صرف اپنے ہی بارے میں بتاتے ہیں۔ سائنس ہو یا جغرافیہ، علم کیمیاہویا علم طبیعات، ریاضی ہو یا جیومیٹری لیکن تاریخ ایسا مضمون ہے جو تمام علوم کے ذخیرہ کو محفوظ رکھتا ہے۔ اگر تاریخ نہ ہوتا تو ان تمام علوم وفنون کو کون جانتا۔ سرآئزک نیوٹن، البرٹ آئسٹائن، جیمس واٹ، تھامس الوایڈیسن، الیگزنڈر فلیمنگ،لوئس پاسچر، جابربن حیان،ابن الہیشم، بوعلی سینا، عمرخیام، الرازی، یوری گاگارین، نیل آرم اسٹرانگ، مائکل کولن، ایلون ایلڈرین جیسے سائنسدانوں کو کون جانتا، کون جانتا کہ چاند کی دھرتی پر قدم رکھنے والا پہلا آدمی نیل آرمسڑانگ ہے۔دنیا کہ دوسرا آدمی وہ ہے جس نے چاند کی سر زمین پر قدم رکھا جسے ایلون ایلڈرن کہتے ہیں اور مائیکل کولن وہ خلاباز ہے جو چاند کے مدار میں چکر کاٹتا رہا لیکن چاند پر اترانہیں۔ یہ تاریخ ہی ہے جس نے ہمیں بتایا ہے۔ ان تمام معلومات کو سجا کر اپنے سنہرے اوراق میں تاریخ نے ہی محفوظ رکھا ہے۔اس لئے تاریخ ایک اہم مضمون ہے۔ ہاں!ایک بات اور تم لوگوں نے تو ضرور سنا ہوگا کہ ۱۹۴۵ ؁ء ۶؍اگست کو جاپان کے شہر ہیرو شیماپر پہلا ایٹم بم امریکہ نے گرایا تھا۔ کیا تم میں کوئی بتائے گاکہ اس ایٹم بم کا نام کیاتھا؟‘‘ سبھی بچے میں سر ہلارہے تھے۔وہ پھر گویا ہوئے۔’’تو سنو زمین کے اُس دشمن کانام تھا لٹل بوائے۔’’(Littlee boy) اب سمجھ میں آیا کہ تاریخ کیوں ضروری ہے؟بچوں نے ایک آواز میں جواب دیا یس سر۔ سرفراز اب دوسری جنگ عظیم کی تمہید بتارہے تھے کہ کلاس کے سکوت کو توڑتی ہوئی ایک آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔May I go to drik water sir?(کیا میں پانی پینے جاسکتا ہوں جناب) سرفراز نے تختہ سیاہ کی جانب سے رخ ہٹایا درجہ کے درمیانی حصہ میں ایک چدہ پندرہ سال کی عمر کا طالب علم ملتجی آنکھوں س اُس کی طرف دیکھ رہاتھا۔ چہرے کے تاثرات بتارہے تھے کہ وہ کچھ ڑرا سہما سا ہے۔ سرفراز نے اُسے غور سے دیکھا اور پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ دھیمے قدموں سے چل کر طالب علم کے نزدیک پہنچایکایک اُسے محسوس ہوا کہ وہ آئینہ جنکے ٹکڑوں نے اس کے جسم کو لہو لہان کردیا تھا ان کی کرچیاں یکجا ہو کر پھر سے آئینہ میں تبدیل ہوگئیں اور وہ اس میں صاف صاف اپنے ماضی کے گزرے دنوں کو دیکھ رہاتھا۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد تلاش روزگار کی جد وجہد مقصد بن گئی ۔ مختلف مقابلہ جاتی امتحانات دیئے اور کامیابی بھی ملی لیکن قسمت دغا دے گئی یا شاید اللہ کی مرضی نہ تھی۔ اُدھر سماج کے لوگ والدین سے مختلف سوالات کرکے اُنہیں پریشان کررہے تھے۔ بیٹے کو نوکری ملی یا کب تک جاب مل جائے گا۔ اب سرفراز کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ میرا بیٹا ماشاء اللہ اچھا کمارہا ہے‘‘وغیرہ وغیرہ ۔ دن بھر نوکری کی تلاش کے بعد گھر میں داخل ہوتا تو والدین بھی محلّہ والوں کی کہی باتوں کو اس کے سامنے دہراتے۔ ایسی باتیں اُسے ذہنی پریشانی میں مبتلا کردیتیں۔ لوگوں کے طعن اور بے روزگاری نے اُسے متزلزل کردیا۔ ایک دن اس نے اپنے والد سے جھلاتے ہوئے کہا’’ابو میں کیا کروں۔ اتنی کوشش کے باوجود نوکری نہیں مل رہی تو آپ ہی میرے لئے کچھ کریں۔‘‘ نتیجے میں ابو نے ایک شراب کی دکان میں سیلز مین کی حیثیت سے مقرر کردیا۔ حالانکہ یہ کام اُسے قطعی پسند نہ تھا لیکن معاشرے کے نام نہاد عقلمند لوگوں کے بہکاوے میں ابو نے یہ فیصلہ کرلیا۔ مگر وہ جگہ سرفراز کو راس نہیں آئی۔ ایک بار یوں ہوا کہ بارش میں شراب کے شوقین لوگوں کے لئے بھنے ہوئے مرغ اور آملیٹ کی دوپلیٹیں اپنے دونوں ہاتھ میں ہوٹل سے لاکر اُن کے ٹیبل پر پیش کرنا پڑیں۔ مالک کا حکم تو اس نے مان لیا لیکن وہ یہ سوچ کر رونے لگا کہ ’’کیا زندگی کے بیس قیمتی سال حصول علم میں اسی دن کے لئے صرف کئے تھے کہ شرابیوں کے آگے انڈے، مرغ اور شراب کی بوتلیں پیش کروں لعنت ہے میری زندگی پر اس نے والدین سے معذرت چاہ لی۔’’ابو مجھے زہر دے کر ماردیں لیکن اللہ کے واسطے مجھ سے یہ کام نہ ہوگا۔ جو لوگ یہ مشورہ آپ کو دیتے ہیں انہیں ہی مبارک ۔ مجھے اللہ کی ذات پر بھروسہ ہے وہ ضرور کوئی بہتر انتظام کرے گا۔ کچھ ہی دنوں کی کوشش کے بعد سرفراز کو ایک دوا کے ڈسٹریبوٹر کے یہاں ملازمت مل گئی۔ مالک نے اُسے کام کے بارے میں سمجھادیا ۔ یہاں آکر اسے زندگی کا ایک اور تجربہ ہوا کہ ہر ایک آدمی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ہی کسی کی ہمدردی کرتا ہے۔دوا کے اس ڈسٹری بیوٹر نے ویسے تو صرف ٹیبل ورک کرنے کی بات کہی تھی لیکن دن گزرنے کے ساتھ دوکان میں جھاڑو لگانا۔ گھر کی سبزی لانا اس کے بچوں کو اسکول پہنچانا اور واپس لانا۔ دوا کے خریدار آئیں تو ان کے لئے چائے پان پیش کرنا بھی کام میں شمار ہوگیا۔ مجبوری انسان سے سب کچھ کراتی ہے اللہ کی رضا سمجھ کر وہ یہ سب کام کرنے لگا۔ وہ بھول گیا کہ کبھی اس نے انگلش میں ایم۔اے کیاتھااور ایم۔بی۔اے کا کورس پاس کیا تھا۔ وہ توحقیقت کی دنیا میں جی رہا تھا اور حقیقت یہ تھی کہ وہ ایک معمولی نوکر تھا جس کی فرمانبرداری کے عوض ہر ماہ اسکے ہاتھ پر پانچ سو روپئے رکھ دئے جاتے اور وہ اسے اپنا مقدرسمجھ کر خدا کا شکر ادا کرتا۔ دوپہر کے دوگھنٹے کے وقفے میں وہ مطالعہ کرتا تھا تاکہ ملازمت کے مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کرسکے۔ وقت گزرتا رہا۔ اور تین سال کی مدت گزرگئی۔ اسی درمیان لوک سیوا آیوگ میں ہائی اسکول میں اساتذہ کی تقرری کے لئے امتحانات ہوچکے تھے۔ سرفراز نے بھی امتحان دیا اور واپس آکر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ ایمانداری اور وقت کی پابندی کے باعث سرفراز کا مالک اُسے بہت پسند کرتا تھا اور اکثر باہر کے کام سے جاتے وقت دوکان کی ذمہ داری اس پر سونپ جاتا۔ اس بار بھی وہ بزنس کے سلسلے میں ایک ہفتہ کے لئے باہر جارہا تھا۔ اس نے سرفراز کو تمام باتیں سمجھادیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ میرا ایک بھتیجاروی اپنے گھر سے چھٹیوں میں آیا ہوا ہے میری غیر موجودگی میں وہ بھی آفس میں رہے گا ذرا تم اس پر دھیان دینا۔
گرمی اپنے پورے شباب پر تھی۔گرم ہوائیں سائیں سائیں کررہی تھیں۔ سرفراز نے دوپہر وقفہ کے وقت گھر جانے کا ارداہ کیا۔ اس کی مصروفیت کو دیکھتے ہوئے مالک کے بھتیجے روی نے روکھے انداز میں سوال کیا’’کیا بات ہے سرفراز کہیں جانا ہے؟‘‘
ہاں! دوپہر کا وقفہ ہوگیاہے لنچ کے لئے گھر جارہا ہوں۔‘‘سرفراز نے جواب دیا۔
’’تم کہیں نہیں جارہے ہو۔ ابھی بہت کام ہے۔ ایسا کرو جتنے آرڈردوائیں کے آئے ہیں وہ ساری دوائیں نکال کر پیک کردو۔‘‘ روی نے متکبر انداز میں کہا۔
’’لیکن۔۔۔ویکن میں کچھ نہیں جانتا۔ تمہیںیہ سب کام ابھی کرنا ہے اور آج گھر جانے کا ارداہ ترک کردو۔ ایک کم عمر لڑکے کا یہ انداز گفتگو۔۔۔سرفراز حیرت زدہ تھا۔ بہر حال اس نے گھر جانے کا اردہ ترک کردیا۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اتنی مشکل سے جو ملازمت ملی ہے وہ ہاتھ سے جاتی رہے اور معاشرے کے لوگوں کو طعن وتشنیع کرنے کا موقع ملے اور لوگ اُسے ایک بیکار اور ناکارہ انسان تصور کریں۔ اس نے روی کی بات مان لینے میں ہی عافیت سمجھی۔
’’ٹھیک ہے میں نہیں جارہا لایئے آرڈر دیجئے میں دوائیاں نکالتا ہوں۔‘‘
سرفرازنے دوائیاں نکال کر سب کی پیکنگ کردی۔ بجلی بھی صبح سے گل تھی وہ پسینے سے بھیک گیاتھا۔ ابھی وہ بیٹھا ہی تھا کہ روی نے ریوالونگ چیئر پر جنبش کرتے ہوئے آواز دی۔
سرفراز۔۔۔!’’آیا روی بابو۔‘‘جب وہ نزدیک پانی لینے کے لئے مڑا۔ گرمی بہت تھی۔ بجلی بھی نہیں تھی لہذا اس نے جھجھرسے پانی لے کر گلاس روی کو پیش کردیا۔ روی نے جیسے ہی پانی کا گھونٹ حلق میں اُتاراتلماکر رہ گیا۔اس نے غضبناک نظروں سے سرفراز کو دیکھا۔Stupid man تم سے فریز سے پانی لانے میں ہاتھ ٹوٹ رہا تھا۔ وہ جھلاتے ہوئے چیخا۔’’روی بابو یہ تو جھجھر کا پانی ہے۔ بجلی گل ہے اس لئے فریز بند ہے۔‘‘سرفراز نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’دیکھو سرفراز میں چاچا نہیں ہوں، روی ہوں۔ تم ہمارے نوکر ہو اور نوکر کی طرح رہو۔‘‘ کہتے ہوئے گلاس میں بچا جوٹھا پانی سرفراز کے منھ پر پھینک دیا جس سے ا س کا چہرہ اور سامنے کے کپڑے گیلے ہوگئے۔ سرفرازنے خاموشی سے نظریں جھکالیں پانی سے بھیگے چہرے کو اپنی آستین سے خشک کیا اور دل ہی دل میں اللہ کو یاد کرتا رہا کہاں ہے تو ، دیکھ تیری دی ہوئی دولت پر یہ کم عمر لڑکا کس قدر نازاں ہے کہ انسانی مرتبہ کا بھی لحاظ نہیں تجھے کیسے پکاروں، تیرا ہی وعدہ ہے کہ تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے‘‘ کیا میں تیرے اس انعام کا حقدار نہیں۔ زبان بند تھی مگر دل رورہا تھا۔
******
سرفراز کے ابو بہت خوش تھے۔ اُن کے بیٹے کی تقرری ایک ہائی اسکول میں ہوگئی تھی محنت اور صبر کا پھل اللہ نے سرفراز کو عطا کردیا تھا۔وہ اب جانے کی تیاری کررہا تھا۔ اس نے اپنے مالک کو بھی یہ خبر سنائی ۔ مالک نے اپنی خوشی کا اظہار کیا ساتھ یہ بھی دریافت کیا کہ اس کی غیر موجودگی میں کوئی دقت تو پیش نہیں آئی۔ ایک لمحے کے لئے سرفراز کے سامنے وہ تمام مناظر گھوم گئے لیکن وہ خاموش رہا اور رخصت لے کر گھر لوٹ آیا۔ والد نے پٹنہ جانے والی بس پر سوار کراتے ہوئے ہدایت کردی کہ اسکول جوائن کرنے کے بعد فوراً اطلاع کردینا۔May I go to drik water sir (کیا میں پانی پینے کے لئے جاسکتا ہوں جناب) دوبارہ اس آواز نے اسے ماضی سے حال میں لاکھڑا کیا۔ یہ آواز جانی پہچانی تھی۔ سرفراز نے نزدیک جاکر اس سے پوچھا تم روی ہونا۔۔۔؟روی کی نگاہیں خوف وشرمندگی سے جھک گئیں اور درجہ میں دوسری باوقار آواز گونجی۔yes,you can go (ہاں ہاں تم پانی پینے جاسکتے ہو)روی بھاری قدموں سے درجہ کے باہر جارہا تھا۔ سرفراز کی آنکھیں آسمان پر اُٹھی ہوئی تھیںآنکھوں میں شکر کا سیلاب امنڈرہا تھا۔ اور ہونٹ لرزرہے تھے بیشک تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے تو جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔‘‘
گھنٹے کی آواز نے احساس کرایا کہ تاریخ کا گھنٹہ مکمل ہوچکا ۔سرفراز تیز تیز قدموں سے باہر نکل نکل گیا۔

رام راج کو روک لو (بچوں کی کہانی)


رام راج کو روک لو
تسکین زیدی
آج وہ اداس اور بے چین بیٹھا ہوا اسکول کی ایک ایک کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے یہ منظر اب کچھ لمحوں میں اس سے روپوش ہوجائے گا۔ اس جدائی کے احساس نے اس کے دل کا سکون منتشر کردیا تھا۔
وہ تب چونکا جب آفس کے پردیپ بابو نے اسے پکار کرکہا’’کہاں کھوئے ہوئے ہو رام راج دادا؟وقت ہوگیا ہے گھنٹی بجاؤ ورنہ پرنسپل صاحب ناراض ہوں گے۔‘‘
وہ بوجھل قدموں سے اٹھا سے اور گھنٹی بجانے لگا۔
’’ٹن۔۔۔ٹن۔۔۔ٹن۔۔۔‘‘گھنٹی بج اٹھی۔ لڑکے ایک کلاس سے دوسرے کلاس میں آنے جانے لگے اور وہ آپس میں باتیں کرنے لگے۔ گفتگو کا موضوع یہی گھنٹی کی آواز تھی۔
’’آج یہ گھنٹی کی آواز کو کیا ہوگیا، عجیب سی گھٹی گھٹی سی آواز ہے جیسے کسی نے کریاردکراسے بجایا ہو۔ کیا رام راج نے سوتے سے اٹھ کر گھنٹی بجائی ہے؟‘‘
وہ یہ سر گوشی سن کر چونک پڑا۔پھر بڑبڑانے لگا۔
’’ٹھیک کہو ہو بچو!‘‘اب تو میں بہت تھک گیا ہوں۔ بوڑھاہوگیا ہوں۔۔۔اس اسکول میں میرا آج آخری دن ہے کل میں کہاں ہوں گا اوریہ کہاں ؟ تم لوگ بھی مجھ سے دور ہوجاؤ گے۔ اس احساس نے میرے ہاتھوں کی مانوجان ہی نکل لی ہے۔ کانپتے ہاتھوں سے جب گھنٹی بجائی جائے گی تو یوں یہی مدھم سی آواز نکلے گی۔‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ پھر اپنی جگہ آکر بیٹھ گیا اور خیالوں میں کھو گیا۔ اس کے تیس برس اس اسکول میں گزرے ہیں اور آج اس سے جدا ہوتے ایسا لگ رہا ہے کہ اب اس سے اس کا کوئی رشتہ ہی نہیں رہ گہا ہو۔ اب تو باقی زندگی گاؤں کے چھپرے گھرے کچے بوسیدہ مکان میں گزرے گی۔ پنشن ضرور ملے گی مگر اتنی کم ہوگی کہ دونوں وقت کا کھانا بھی مشکل سے بن پائے گا اور پنشن ملنے میں بھی سال بھر لگ جائے گا۔ فنڈ تو لڑکی کی شادی میں ہی ختم ہوچکا ہے باقی بیوی کی بیماری کھا گئی ۔ کاش کہ اس وقت کا کوئی لڑکا ہوتا تو اس کا سہارا بنتا۔۔۔گاؤں کا ماحول بھی کافی بدل چکا ہے اب وہاں وہ پہلا ساپیار کہاں رہ گیا ہے۔ گاؤں کا آدمی بھی بہت چالاک ہوگیا ہے ہر وقت اپنا الّو سیدھا کرنے میں لگا رہتا ہے۔ وہاں اس ماحول میں وہ کیسے باقی زندگی بتاسکے گا؟ یہاں تو دن بھر بچوں کے درمیان ایسا مصروف رہتا ہے کہ اپنا بھی ہوش نہیں رہتا۔
رام راج کو پرنسپل سے لے کر ٹیچرس اور طلباء سبھی دل سے چاہتے تھے ویسے اس اسکول میں اس طرح کے پانچ چھ چپراسی اور بھی تھے مگر اس کا برتاؤ نرم تھا کہ سب اسی کو ہر کا کے لئے پکارتے تھے اور وہ بھی کسی کو کسی کام کے لئے منع نہیں کرتا تھا۔ اس لئے سب اسی کا خیال رکھتے تھے۔ اب تو پرنسپل بھی اس کے کام سے متاثر ہوکر اس کو ’’رام راج دادا‘‘کہنے لگے تھے۔ اب اس سے کوئی چھوٹا کام نہیں لیتے تھے۔ وہ بھی ہر وقت اسکول کی بھلائی کا خیال رکھتا تھا اور کب آرام کرتا تھا۔ اسکول گیٹ کی نگرانی، آفس کا سامان کی دیکھ بھال۔۔۔ایک آدمی میں فرائض کی ادئیگی کا اتنا احساس کم ہی دیکھایا سنا گیا ہے۔
اسکول میں ہی گیٹ کے پاس ایک چھوٹی سی کوٹھری تھی جس میں تھک کر وہ لیٹ جاتا تھا۔ کھانا وہ خود ہی اپنے ہاتھوں سے پکاتا تھا۔۔۔معمولی کپڑا پہنتا۔ دھوتی اور بنیان میں ہی اس نے اپنی ساری زندگی بتادی۔۔۔کبھی کسی نے اسے پیروں میں چپلیں یا جوتا پہنتے نہیں دیکھا تھا۔
ٍ وہ بڑا ایماندار تھا۔ کبھی کسی کی کوئی چیز بھولے سے رہ جاتی تو او اسے اٹھا کر رکھ دیتا تھا یا آفس میں جمع کردیتا تھا۔ پھر اس کی یہ کوشش بھی رہتی تھی کہ جس کی چیز ہے اس تک جلد سے جلد پہنچ جائے۔
ایک بار کلاس میں کسی لڑکے کا پرس رہ گیا۔ وہ کسی مالدار گھرانے کا تھااس میں ڈھائی سوروپے تھے۔ رام راج جب شام کو کمرہ بند کرنے آیا تو اسے میز پر یہ بٹوا پڑا ہو ملا ۔ اس نے اسے اٹھا کر اپنے پاس رکھ لیا اور دوسرے دن اس لڑکے کو ڈھونڈکر دے دیا۔ اس نے خوشی ہو کراسے دس روپے کا نوٹ انعام میں دینا چاہا تو وہ ناراض ہوکر بولا۔۔۔ ’’جاؤ بچہ ! خوش رہو۔ تم میرے بچے ہو کوئی اپنے نچوں سے بھی بخشیش لیتا ہے۔‘‘
ایک لڑکی کا سونے کا کان کا بالا بھی گرگیا تھا اسے بھی اس نے سنبھال کر رکھا تھا۔ دوسرے دن جب اس کے ڈیڈی اسے پہنچانے آئے اور انہوں نے بالے کے بارے میں اس سے پوچھا تو رام راج نے آفس سے لاکر اسے دے دیا۔ لڑکی کے باپ بھی کچھ انعام دینا چاہتے تھے۔ ان سے اس نے بڑی عاجزی سے کہا:’’انعام کیسا صاحب ! یہ تو میرا فرض تھا۔‘‘
’’حضور ! میں تو آپ کا نوکر ہوں۔‘‘ وہ آہستہ سے بولا۔ اس کی آواز رندھی ہوئی تھی۔ پرنسپل نے اس کے گلے میں پھولوں کاہار ڈال دیا۔
رام راج نے حیرت سے چاروں طرف دیکھا پتہ نہیں کیوں کانپ رہاتھا۔ اس قدر منزلت کے لئے وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آنسواس کی پلکوں پرٹھہرے ہوئے تھے اور دل نہ جانے کیوں زور زور سے دھڑک رہاتھا۔
’’دادا رام راج! تم تو اس سے بھی زیادہ عزت کے مستحق ہو۔ اسکول کے لئے تمہاری خدمات کیا یہ اسکول ٹیچرس اور طلبہ آسانی سے بھلا سیکں گے؟ کبھی نہیں۔۔۔ہمیں تم پر ناز ہے۔ہمارے بچوں کو تمہاری مثالی زندگی سے سبق لینا چاہیے۔‘‘ پرنسپل صاحب بولتے بولتے رکے اور پھر انہوں نے طالب علموں سے مخاطب ہوکر کہا’’آج جو یہ ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے ہیں تو ہم کیوں ان کی عزت کررہے ہیں؟ یہ عزت ان کی نہیں اس کے کام کی ہے، ان کی ایمانداری ، محنت اور لگن کی ہے۔‘‘ پھر اسے مخاطب کرتے ہوئے بولے۔
’’لو یہ ہماری جانب سے چھوٹا سا تحفہ قبول کرو۔‘‘ ایک شال او ر ہاتھ کی گھڑی انہوں نے اسے پہنادی۔ اس کے بعد ٹیچرس کی طرف سے ایک دھوتی کرتہ اور پانچ سو روپے کا چیک پیش کیا گیا۔ پھر لڑکوں کی باری آئی۔
ایک لڑکے نے سب کی طرف سے کچھ کپڑے اور پانچ سو ایک روپے لفافے میں رکھ کر اسے پیش کئے۔
رام راج کو اتنے تحفے اورنقد ملا کہ وہ ریٹائر ہونے کے بعد کئی مہینے تک آرام سے کھا پی سکتا تھا۔
اب وہ حیرت بھری نظروں سے ان تحفوں کو دیکھ رہاتھا۔ اس سے جب سب نے دولفظ بولنے کے لئے کہا تو اس کی زبان گنگ ہوگئی۔ ہمت کر کے اس نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ جوڑے اور کہا۔
’’ان تحفوں کے لئے آپ سب کا شکریہ ۔۔۔مجھے یہ سب کچھ نہیں چاہیے۔ مجھے میرا اسکول چاہیے۔ مجھے یہ بچے چاہئیں۔ اس لئے کہ میرا پریم میری چاہ ان ہی سے ہے۔ آپ یہ نہیں دے سکتے تو۔۔۔‘‘ رام راج کی آواز بھر آگئی لیکن وہ رویا نہیں، بس ایک دم اسٹیج سے اترا اور تیز تیز قدموں سے ہال سے نکل گیا۔

Sunday, March 24, 2013

حسن کی بارگاہیں گلی درگلی لالہ وگل کے جلوے چمن درچمن


عامرعثمانی کی شاعری
(۴)
حسن کی بارگاہیں گلی درگلی لالہ وگل کے جلوے چمن درچمن
جنتیں اس جہاں میں بہت ہیں مگر آپ کی انجمن آپ کی انجمن
وقت کی گردشوں کابھروسہ ہی کیامطمئن ہو کے بیٹھیں نہ اہل چمن
ہم نے دیکھے ہیں ایسے بھی کچھ حادثے کھوگئے رہ نما لٹ گئے راہ زن
چندفرضی لکیروں کو سجدے نہ کرچند خاکی حدوں کاپجاری نہ بن
آدمیت ہے اک موجۂ بے کراں ساری دنیا ہے انسانیت کا وطن
کتنے شاہیں بسیرے کوترساکئے باغ پر چھاگئے کتنے زاغ وزغن
کتنے اہل وفا دارپرچڑھ گئے کتنے اہل ہوس بن گئے نورتن
صرف شہر سیاست کا ماتم نہیں ہرنگرہرڈگر ایک ساحال ہے 
کتنی قبروں پہ چڑھتی رہیں چادریں کتنے لاشے پڑے رہ گئے بے کفن
دیجئے ترک تقوی کا طعنہ مگر شیخ کا حسن تاویل تو دیکھئے 
جب قدم زہد کے لڑکھڑانے لگے رکھ دیا حسن کا نام تو بہ شکن
بزم میں ایک جوئے رواں ہے جنوں عزم میں ایک برق تپاں ہے جنوں
یہ تماشا ہے عامرؔ جنوں تونہیں مچ گئی ہاؤ ہو پھٹ گئے پیرہن