Friday, March 22, 2013

حضور ؐ کا نکاح :۔


حضور ؐ کا نکاح :۔
سوال ۹؂ 
حضور نبی ﷺ کا نکاح کس نے پڑھا تھا۔ ابوطالبؓ نے پڑھا تو کیا ابو طالبؓ ایمان لائے تھے ؟ اگر نہیں تو کیا حضورؐ نے نکاح کی تجدید فرمائی تھی یا اس کی ضرورت نہ تھی ؟ نیز یہ بھی ارشاد فرماویں کہ حضور ؐ کے نکاح میں خطبہ وغیرہ کیا پڑھا گیا تھا؟
الجواب:۔بے شک سر کارِ دو عالم ﷺ کا پہلا نکاح حضرت خدیجہؓ بنت خویلد سے رؤ سائے مضر اور نبی ہاشم کی موجود گی میں ابو طالبؓ ہی کے زیر نگرانی ہوا تھا اور بڑانفیس و بلیغ خطبہ انہوں نے ارشاد کیا تھا جس کا ترجمہ یہ ہے:۔
’’تمام تعریف اس خدا ہی کے لئے ہے جس نے ہمیں ابراہیمؑ کی اولاد اور اسماعیل ؑ کی ذریات میں پیدا کیا۔ ہمیں معدو مضر کے بے میل او طاہر جوہر سے نکالا ۔ اپنے گھر کا رکھوالا اور اپنے حرم کا پیشوابنایا ایسا عمدہ گھر ہمیں عنایت فرمایا کہ لوگ ادھر اُدھرسے اس کی زیارت کرنے آتے ہیں ۔ ایسا حرم عطا کیا کہ جو بھی وہاں آجائے مامون ہوجائے اور ہمیں عامۃ الناس کی سرداری دی ۔ اما بعدیہ میرا برادر زندہ محمد ﷺبن عبد اللہ ہے یہ ایک جوان ہے کہ قریش کے کسی بھی شخص اے اس کا مقابلہ کیجئے یہ فائق رہے گا۔ ہں روپیہ پیسہ اسکے پاس کم ہے مگر روپیہ پیسہ تو ڈھلتی چاؤں اور متبدل ہونے والی شئے ہے ۔۔۔ محمد وہ شخص ہے جس کے بارے میں تم سب اچھی طرح جانتیہو کہ اس کی مجھ سے کیا رشتہ داری ہے وہ خدیجہؓ بنت خویلد سے رشت�ۂ ازدواج چاہتا ہے اور میرے مال میں سے بیس اونٹ بطور مہر مقرر کرتا ہے اور قسم ہے خدا کی اس کا مستقبل عظیم ۔۔۔۔لیل ہے۔‘‘ 
اس کے بعد ورقہ بن نوفل نے بھی جو ایک بڑے عالم ہونے کے علاوہ حضرت خدیجہ کے چچا زاد بھائی تھے ایک خطبہ دیا ۔ جس کا ترجمہ یہ ہے:۔
’’تمام تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جس نے ہمیں ایسا ہی بنایا جیسا اے ابو طالب آپ نے واضح کیا ۔ اور ہمیں وہ تمام امتیازات عطا کئے جنھیں آپ نے گنوایا پس ہم لوگ تمام عرب کے سربراہ اور سردار ہیں اور آپ لوگ جملہ فضائل کے حامل ہیں ۔ کوئیگروہ آپ کے فضائلکامنکر نہیں اور کوئی شخص آپکے فخر و شرف کو تسلیم کئے بغیر نہیں رہسکتا ۔ بے شک ہم لوگوں نے مکمل رضاو رغبت کے ساتھ آپ میں ملنا اور شام ہونا پسند کیا ۔ پس اے قریش! گواہ رہنا کہ خدیجہ ؓ بنت خویلد کو میں نے محمد ﷺ بن عبداللہ کے نکاح میں دے دیا چار سو مثقال کے عوض۔‘‘
یہ دونوں خطبے آپ کے سامنے ہیں ۔ کیا یہ منہ سے نہیں بور رہے کہ ہم کس کار گہ فکر میں ڈھلکے نکلے ہیں ۔ یہ بحث تو ایک طرف رکھئے کہ کسی مسلمان جوڑے کے ایجاب و قبول کی وکالت اگرکوئی غیر مسلم کردے تو نکاح ہوتا ہے یا نہیں ۔ یہاں اس کا محل ہی نہیں ۔ اس وقت تک نہ حضور ؐ رسول تھے نہ نزولِ دین کا آغاز ہوا تھا ۔ ابو طالبؓ اورورقہ بن نوفل کیبارے میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ یہ مسلم ہیں یا غیر مسلم ۔ مومن ہیں یا کافر ۔ انہوں نے خطبوں میں جو کچھ کہا وہ بعد میں نازلہونے والے دین کے معیار سے بھی فر و شرک کی چھوت سے پاک اور واہی عقائد کی نجاست سے غیر ملوچ ہے ۔ ان میں وہی بہترین اسلامی ذہن بول رہا ہے جس سے زیادہ کا تصور قبل ازنزولِ قرآن نہین ہوسکتا تھا پھر کس لئے رسولِ خدا کے اس پہلے نکاح کی صحت و عدم صحت کو ابو طالب کیایمان لانے نہ لانے کی بحث پر موقوف رکھا جائے ۔ جیسا کہ کچھ دن ہوئے تفھیم البخاری کے ذیل میں ہم عرض کر چکے ہیں ۔ ابو طالب آئینی اعتبار سے مسلمان نہیں مانے جاتے ، لیکن اپنے جملہ اوصاف حمیدہ کی روشنی میں وہ ہمارے دلی ادب و احترام کے مستحق ہیں اور ان کی ہستی بڑی محبوب معلوم ہوتی ہے ۔ جب یہ یادآتا ہے ۔ کہ رسولِ خداؐ کی پشت پناہی کے سلسلہ میں ان کا کردار کیا رہا ہے ہمارے خیال میں ابو طالب کا کیا ہوا نکاح بالکل ماکل و ناقد تھا ۔ وہ بعد میں اسلام نہیں لائیتب بھی اس کی تجدید ضروری نہیں تھی ۔ ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ حضور ؐ نے تجدیدنہیں فرمائی ۔
ایک اور نظیرپیش نظر رکھئے ۔ ام المؤمنین حضرت حبیبہؓ سے حضور ؐ نے غائبانہ نکاح کیا ہے اور نکاح کرنے والا تھا شاہ نجاشی ؔ ۔ خطبہ بھی اسی نے پڑھا تھا۔ نجاشی کے لئے کچھ بھی کہاجائے ‘ لیکن یہ نہیں کہاجاسکتا کہ وہ اسلام لے آیاتھا۔ اس پہلو سے اس کی اور ابو طالب کی پوزیشن میں کوئی فرق نہیں ۔سیرت نگاروں کا سوادِاعظم اس پر متفق ہے کہ یہ نکاح حبشہ ہی میں ہوا ہے۔ لیکن بعض محدثین مثلاً زہریؔ اورقتادہؔ وغیرہ کی اس روایت کو اگر لائقِ لحاظ مان لیا جائے کہ حضور ؐ کا عقدحضرت ام حبیبہؓ سے حضرت عثما نؓ نے مدینے میں کیا تو اسے تجدید نکاں پر مخمول کرسکتے ہیں ۔ لیکن یہ ’’تجدید‘‘ اس لئے نہیں سمجھی جائیگی کہ پہلا نکاح کرنے والا’’نجاشی‘‘ مسلمان نہیں تھا ، بلکہ اس لئے سمجھی جائے گی کہ نکاح غائبانہ ہوا تھا اور حضور ؐ نے قوم کی توثیق وآگاہی کی خاطر اسے دو بارہ اپنی موجود گی میں منعقد کرانا موزوں خیال کیا۔ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوت ہے کہ غائبانہ نکاح کو موقعہ آنے پر تجدید کی شکل دے دینا احسن ہے ۔لیکن یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نجاشی یا ابو طالب کے کئے ہوئے کاح ان کے اسلام قبول نہ کرنے کے باعث محتاج تجدید رہے ۔

درود کا مفہوم


درود کا مفہوم
سوال۸؂ :از ۔ عبد الرشید (باجڑہ گڑھی )
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نبی کی بلکہ ہر شخص کی پوری قوم کو اس کی آل کہا گیا ہے ۔ اہل تشیع کی تو بات ہی اور ہے خود ہمارے یہں اس کو عجیب گورکھ دھند انادیا گیا ہے ۔ مثلا ہمارے یہاں جو درود شریف مروج ہے ۔ ’’اللھم صل علیٰ محمد و علیٰ آلہٖ و اصحابہٖ و سلم۔‘‘اس سے معلم ہوتا ہے کہ آل اور اصھاب علیحدہ علیحدہ ہیں، مہر بانی فرما کر الجھن کو دور کریں کہ کیا مذکورہ شخصیتیں دو ہیں ؟اور اگر نہیں تو بھی اس درود شریف کا کیا مفہوم ہے ؟
الجواب:۔
آنجناب کی تشفی کرنے سے قبل ہم کچھ تشفی ان حضرات کی بھی کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے ان چند ماہ میں نہایت طنز و طعن کے ساتھ دلخراش الفاظ مین ہمیں لکھا ہے کہ تم نے آل کا مفہوم سمجھا نے میں خیانت کی ہے اور آ ل تو بالیقین اہل خانہ ہی کو کہتے ہیں ۔
رنج ہوتا ہیکہ اہل علم کی نفسانیت اور اشتعال پذیرائی نے عوام کو بھی ذہنی تشدد میں مبتلا کردیا اور ان کا المناک حال یہ ہے کہ جہاں کسی نے ان کے کسی محبوب عقیدہ کے خلاف کچھ لکھا بس وہ آپے سے باہر ہوگئے اور اخلاق و شائستگی میں قبوری شریعت والے ہند عین ہی س سے آگے ہیں مگر ماضی قریب میں کھلا کہ وہ سنی احباب تو ان سے بھی کئی قدم آگے ہیں جن کے نظام فکر کو تشیع کی دیمک لگی ہوتی ہے ۔ ہوسکتاہے ریسرچ کی جائے تو ثابت ہوکہ تشیع اور قبوری تصوف کے مابین بھی کوئی ربطِ خاص موجود ہے اور یہ شیعت زدہ سنی زیادہ تر وہی ہیں جنھیں مردہ پر ستی اور قبر بازی کا چسکا لگا ہوا ہے ۔
بہر حال حقیقت کچھ ہو لوگوں نے بڑے تند و تلخ خطوط ہمیں لکھے ہیں اور ان سب کا مرکزی خیال یہ ہے کہ درود میں لفظ آل کو عام کر کے تم اہلِ بیت سیکینۂ بغض کا ثبوت دے رہے ہو۔ تم چاہتیہو کہ صلوٰۃ الہیٰ سے وہی پاکیزہ بندے محروم رہ جائیں جنھیں سرکارِ دوعالم ؐ کی قرابت داری کا بے مثال امتیاز حاصل ہے ۔ 
افسوس ان علم�أ سؤ کے بگاڑے ہوئے کجکلاہوں سے اس کی کیا توقع ہوسکتی تھی کہ یہ پورے قرآن پر نظر ڈال کر ثابت کرتے کہ آل ہر ہر گہ اہل بیت اور اقربا ہی کے لئے آیا ہے ۔ یہ بیچارے تو یہ سامنے کی حقیقت بھی نہ پاسکے کہ آل سے تمام امتِ مسلمہ یا تمام بندگانِ نکوکار مرادلے لینے سے اہل بیت رضوان اللہ ‘ ہم کہاں خارج از دعا ہوئے جاتے ہیں ۔ وہ توصریح طور پر اصحاب میں شامل ہیں ۔اللہ تعالیٰ انھین عقل و علم کے بحران سے نجات دے۔ ان کی زیادہ پر واہ ہمیں نہیں ہے ، لیکن اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ان کی تفہیم پر بھی کچھ کاغذ سیاہ کرنے ہوں گے ۔ امید تو ان سے بہت کم ہے کہ شرافت دیانت کے ساتھ توجہ کر سکیں یہ تو وہ بد دماغ دبلید الذہن لوگ ہیں کہ ہم رسول اللہ ؐ کو بشر کہہ دی تو انھین ابکائیاں آنے لگیں ۔ ہم غیب کو خدا کیلئے خاص قرار دیں تو یہ وہابی وہابی پکار اٹھیں ۔ ہم قبروں کی مشر کانہ بدعات و خرافات کو معصیت ٹھہرائیں تو یہ بغلیں بجا بجا کے ہمیں بد عقیدہ مشہور کردیں ۔ ایسے جامد ، کج فکر او ہٹ دھرم لوگوں سے عدل و سعات کی کیا توقع ہوسکتی ہے مگر خدا بھلا کرے کہنے والے کاجس نے کہا ہےؒ ۔ ؂
مانیں نہ مانیں آپ کو یہ اختیار ہے 
ہم نیک و بد حضور کو سمجھا ئے جائیں گے 
اگر تعصبات سیبالا تر ہو کر قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آل کا لفظ زیادہ تر گھرانے ہی کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور گھرانے کا مصداق بالبچے اور قرابت دار ہی ہیں ، لیکن بعض مقامات پر یہ مفہوم نہیں لیا گیا ، بلکہ اس کا مصداق وہ تمام لوگ ٹھہرے جو خون کے تعلق سے تو چاہے قرابت دار نہ ہوں اور ایک ہی گھرانہ نہ کہلا سکیں ، لیکن مشرب و مسلک ، عقیدے ، عمل اور سیرت و کردار کے کسی خاس رخ پر بہت نمایا توافق و یکسانیت رکھتے ہوں ۔ اس کی مثال ابھی ہم دیں گے۔
ایسی صور ت میں کسی کا یہ دعویٰ کرنا کہ جہاں کہیں بھی آل آیاہے اس کے معنی اہل بیت ہی ہیں بالکل درست نہیں ہے جب تک کہ قریبے سے معلومنہ ہوجائے کہ دوسرے معنی لینے نا ممکن ہیں ۔ پھر اس دعوے ہی تک بات نہیں ، بلکہ یہ دعویٰ بعض فاسد عقائد کے اثبات کی کاطرکیا جاتا ہے اور ان عقائد کی لپیت مین کتنے ہی مسلم الثبوت عقائد خاک بسر ہوجاتے ہیں یہ افسوس ناک صورتِ حال ہو تو عدل و توسط پسند کرنے والوں کو یہ کہنا ہی پڑے گا کہ جب قرآن نے آل کو خونی رشتوں تک محدود نہیں کیا بلکہ وسیع معنوں میں بھی استعمال کیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بھی ۔۔۔۔ایسے مقامات پرجہاں وسیع معنوں میں استعمال کرنا عقل و قیاس کے خلاف نہ ہو اسے گھرانے اور اہل بیت تک محدود نہ کریں ۔ ایسا کہنا باطل عقائد کی راہ روکنے کے لئے مستحسن بھی ہوگا اورمعقول بھی ۔ اسی لئے ہم اس کہنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے کہ درود میں آل سے مراد امت کے وہ تمام لوگ ہیں جو محمد ﷺ کی شریعت کے پیرواں سے محبت کرنے والے ، ان کے سیرت و کردار کو اعلیٰ نمونہ سمجھنے والے اور طاعت و نکو کاری پر مائل ہونے والے ہیں ۔
****
لفظ آل کے مفہوم کی وسعت پر قرآنی مثال ملاحظہ فرمائیے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
’’اِذْ نجینٰکم من آل فرعونیسومونکم سوۃَ العذابِ یذبحون ابناء کم و یستحیون نساء کم ۔ ‘‘ تمام معتبر تفاسیر اتھا کر دیکھ لیجئے یہ نہیں ملے گا کہ نبی اسرائیل پر مظالم ترنے والے فرعون سے خاندانی رشتہ داریاں رکھتے تھے ۔ بلکہ ظالمین کی فہرست بڑی وسیع پائیں گے اس میں فرعون کے عزیز و اقرباء بھی ملیں گے اور مصر کے حکمران طبقے کے وہ کثیر افاد بھی جو فرعون کے رشتہ دار نہیں تھے ان سب کو آل فرعون کے لقب سے اسی لئے ملقب کیا گیا کہ ظالمانہ مزاج، متکبرانہ سیرت و کردر ، برے عادات و خصائل ، جباری قہاری کفران وطغیان اور جورو بربریت میں وہ فرعون کے ہم مشرب تھے ۔ فرعون کے بے رحمانہ احکام کے نفذ میں اس کے دست و بازو تھے ۔ اردو محاورے مین کہہ سکتے ہیں کہوہ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تھے ۔ ان کی باہمی رشتہ داریوں سے قرآنی بیان کو کوئی سروکار نہیں ، بلکہ ان کی شقاوت و بے رحمی کی طرف اس کا روئے سخن ہے اور فرعونی عادات و خصائل کے تعلق سے ہی وہ آل فرعون کہلائے ہیں ۔پھر بار تعالیٰ فرمات ہے :۔
واِذْ فرقْنا بِکُمُ البَحْرَ فَاَنْجَیْنٰکُمْ و اَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ ۔تو تفسیریں بھی دیکھئے اور عقل سے بھی سوچئے کہ بنی اسرائیل کا تعاقب کرنے والا تمام لشکر کیا فرعون کیبھائی بھتیجوں اور سالے بہنوئیوں پر ہی مشتمل تھا یا اس میں ایسے کثیر افرا بھی رہے ہوں گے جن کا کوئی نسبی رشتہ فرعون سے نہیں تھا ۔ عقل ، نقل ، قیاس ہر اعتبار سے معلوم ہو گا کہ پورا لشکر فرعون کے قرابت داروں تک محدود نہیں ہوسکتا ۔کوئی شخص فرعون کے رشتہ داروں کو مور و ملخ جیسا تو سع بھی عطا کردے تببھی یہ تاریخ کی اتل حقیقت سے بھتی نہین کئے جاتے ہ ۔ بنی اسرائیل کا پیچھا کرنے والا طاغوتی لشکر یقیناً محض اونچے افیسروں کا مجموعہ نہ ہوگا۔ بلکہ معمولی آفیسر اور سولجر بھی اس مین کافی شامل ہوں گے ۔ پھر یہ سب ٖرق کر دئے گئے اور اللہ انھین آل فرعون سے ملقب ۔ کررہا ہے ۔ تو کیا یہ ثابت نہیں ہوا کہ آل کا اطلاق ہمیشہ اہل خاندان ہی پر نہیں ہوتا ، بلکہ کسی خاص وصف میں مشترک گروہ اور کسی خاص رخ پر چلنے والی جماعت پر بھی ہوتا ہے ۔
****
اب خود آنجناب اپنی الجھن کیبارے مین سن لیں کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔منطق بجائے روز مرہ اور محاورت کی میزان اٹھایئے ۔ آپ بسا اوقات اس انداز سے دعا مانگتے ہیں :۔
’’اے اللہ ! مجھ پر اور میرے اہل و عیال پر اپنا فضل فرما ۔ ان کی صحتوں میں برکت اور رزق میں فراوانی عطا کر۔ ان کی مشکلات کو ختم کرکے ؤسانیو کا دروازہ کھو ل دے ۔ اور اسے اللہ میرے بیٹے طلحہ ؔ کی بیماری دور فرمادے۔ اور میرے بھانجے لطیفؔ کو روزگار عطار فرما اور میرے بھتیجے نعیم ؔ کو مقدمہ میں کامیاب کردے !‘‘
۔۔۔۔۔ کیا آپ کا بیٹا ، بھانجا اور بھتیجا سب ہی اہل و عیال میں شامل نہ تھے اور پہلے عام فقروں میں آپ کی دعا ان کو شامل نہ ہوچکی تھی ؟ ظاہر ہے کہ یہ سب شامل تھے اور وہ سب مقاصد بھی دعائے مجمل میں آگئے تھے جنھیں بعد میں تشریح کے ساتھ شامل دعا کیا گیا لیک آپ کو چونکہ خصوصی تعلق ان اعزاء کے ساتھ تھا۔ اسلئے فطرتاً خصوصیتکے ساتھ ان کا نام لیا اور التجا ئے عام کے بعد التجائے خاص کیَ تخصیص بعد التعمیم ایک معروف اسلوب ہے ۔ منصوص دعاؤں میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں مثلاً ترمذی وغیرہ مین ایک دعا منقول ہے ۔
’’اللھم انی اعومن منکرات الا خلق والاعمال والاھوا ء والا دواء‘‘ (ترجمہ : اے اللہ میں آجپ کی پناہ چاہتا ہوں ناپسنددیدہ اخلاق و اعمال سے اور نفسیاتی خواہشات و امراض سے ۔)
کوئی سی بھی برائی لے لیجئے اس ایک جامع جملے میں یقیناًآگئی ہے اور اتنی ہی دعا تمام ذمائم و منکرات سے پناہ طلبی کے لئے بالکل کافی تھی ، لیکن دعا اتنے ہی پر ختم نہیں ہوگئی بلکہ آگے خاص کر ’’خیانت ‘‘ سے بھی پناہ مانگی گئی ہے ۔ تو کیا یہ کہا جاسکے گا کہ خیانت ضرور ناپسندیدہہ اعمال و اخلاق سے جدا گانہ کوئی شے ہوگی ورنہ تمام ہی منکرات سے پناہ مانگ چکنے کے بعد اس کے خصوصی ذکر کی کیا وجہ تھی کتنی جامع دعا ہے :۔
’’ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘
کونسی آسائش ایسی ہے جس کی طلب اور کون سی تکلیف ایسی ہے جس سے بچاؤ کی التجا اس بلیغ و فصیح مختصر دعا میں موجود نہیں ہے ، لیکن پھ بھی قرآن و سنت ہمیں بہت سی اور بھی مفصل اور خاص دعاؤں کی ترغیب دیتے ہیں اور انسانی فطرت بھی متقاضی ہوتی ہے کہ وقتاً فوقتاً تسمیہ و تخصیص کے ساتھ دعائین کی جاتی رہیں ۔
بس یہی صورتِ حال درود میں سمجھ لیجئے ۔ سب سے پہلے اس ہستی معظم پر نزول رحمت کی استد عا کی گئی جو ہمارے تعلق خاطر کی سب سے زیادہ مستحق اور رحمتِ خداوندی کی سب سے بڑھ کر شایاں ہے ۔ پھر فی الجملہ تمام امت کا یا کم سے کم اس گروہ مومنین کا نام لیا گیا جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لائے ہوئے دین پر چلنے میں کوشاں رہا ہے اور رہے گا اس کے بعد شدت تعلق اور شکر گذاری کے اقتضا میں ان اصحاب کا خصوصی تذکرہ ضروری ہوا جو رسول اللہ کے بعد مسلمانون کے خصوصاً اور تمام عالمِ انسانیت کے عموماً سب سے بڑے محسن ہیں ۔ جن کی محبت حبِ نبی ؐ کی دلیل اور جن کا تشکر شکر گذار بندوں کا دلی تقاضا ہے ۔ جو قصرِ امت کے ستون اور جسدِ ملت کے فس نا طقہ ہیں ۔ اہل بیت رضوان اللہ علیہم پر خدا کی ہزار ہزار رحمتیں ہوں وہ سب ان میں بدرجہ اولیٰ شامل ہیں اور اگر عدم بلوغ کے باعث بعض افراد کی صحابیت میں کسی اصول پر ست کو کلام ہو تب بھی اس کی حقیقت اصطلاح سے زیادہ کچھ نہیں اور اہلِ بیت آل کے دائرے میں بہر صورت جلوہ افروز ہیں ۔ درود میں تو اہل بیت ونوں ہی صورتوں میں تکرار کے ساتھ شامل ہیں چاہے آل کے معنی گھرانے کے لئے جائیں چاہے متبعین و متوسلین کے ۔
امید ہے ان تصریھات سے آپکی الجھن دور ہوگئی ہوگی ۔ نہ ہوئی ہوتو چلئے آپ آل کو گھرانے تک محدود کر لیجئے۔ ہمیں اس میں بھی کوئی گرانی نہیں ۔محبوب سبحانی صلی الہ علیہ و سلم کے فوراً بعد ہم ان کی اولاد اور ان کی ازواجِ مطہرات کے لئے اللہ سے طلبِ رحمت کریں تو یہ گراں کیوں ہو۔ جن سے حضور ؐ نے محبت کی ان سے تو محبت کرنا تمام امت پر لازم ہے ۔ یہ لزوم فقہی نہ سہی ، قانونی نہ سہی طبعی اور نفسیاتی ضرور ہے ۔ بے شک ہم اہلیت کے چاہنے والوں میں ہیں ۔ لیک آل کے مفہوم و مراد کی بحث تو دراصل اس وقت کھڑی ہوتی ہے جب بعض کج فکرے مخصوص مقاصد کے لئے آل کو محدود کر دیتے ہین ان مقاصد سے ہم کبھی اتفاق نہیں کرسکتے ۔ کیوں کہ اہلِ بیت کے لئے چاہئے کتنی ہی انفرادی فضیلیتں کوئی ثابت کردے ، لیکن مجموعی اوصاف کے وزن و قیمت کے اعتبار سے فضیلت حضور ؐ کے بعد سب پرابو بکر صدیقؓ ہی کو رہے گی اور ان کے بعد علیٰ الترتیب تینوں خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم کو ۔ حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ جیسی بے مثال مائین کہاں نصیب ہوتی ہے ۔ شمس و قمر کی درخشاں نیاں ان کے نقوش قدم کی تابانیوں پر قربان ۔ بیٹے ماں سے زیادہ کسے چاہیں گے ۔ مگر مشیت ایزدی اور فیصلۂ باری کے آگے پوری کائنات سر نگوں ہے ۔ اسی نے فیصلہ کردیا کہ محمد عربی ﷺ کے بعد سب سے بڑا انسان ابو قحافہ کا بیٹا ابو بکر ہے تو پھر تمام دعوے خاموش ، تمام جذبات گنگ اور تمام دلائل سپر انداز ہوئے۔ حقائق ہمارے جذبوں کے پابند نہیں وہ اتل ہیں ۔ ناقابل شکست ہیں ۔ سبحانہٗ ما اعظم شانہٗ و ھو العلی الکبیر۔

دوراز کار:۔


دوراز کار:۔
سوال۷؂؛۔(ایضاً)
سید نا یوسف علیہ السلام جس وقت زلیخاؔ سے ملے تو کیا وہ بوڑھی تھی ؟ اور کیا وہ بد صورت تھی ؟ نیز اس کی شادی سیدنا یوسف علیہ السلام سے ہوگئی تھی ؟ اور کیا وہ ایمان لے آئی تھی یا کافر ہ ہی انتقال کرگئی تھی ۔ کیا ان مذکورہ سوالا ت کا کسی حدیث صحیح سے پتہ چلتا ہے ؟ کیا یہ بھی صحیح ہے کہ عوج بن عنق اتنا لمبا تھا کہ سمندر میں اس کے صرف ٹخنے ڈوبتے تھے اور مچھلیاں سورج کی ٹکیا سے بھونتا تھا ؟ مجھے قویٰ امید ہیکہ جناب والا مجھے محروم نہ فرمائیں گے ۔ اور قصص الانبی�أ کے پہلے باب پر بھی کچھ تبصرہ فرمائیں گے ۔
الجواب:۔معلوم نہین اس طرح کے سوالات پیدا کیوں ہوتے ہیں اور ان کا حاصل کیا نکلے گا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ میں جو اجزا بیان کے مستحق تھے انھیں قرآن نے بیان کردیا اور باقی کو چھوڑ دیا۔ حدیث بھی اس بارے میں کوئی سیر حاصل تفصیل نہین بتاتی ۔ بہت سی روایات شہرہ پاگئی ہیں جو اکثر و بیشتر موضوع ہیں ۔ ان کا سراسرائیلیات سے ملتا ہے ۔
آپ ذرا غور کرتے تو اس لغو سوا ل کی گنجائش ہی نہ پاتے کہ کیا زلیخا بوڑھی اور بدصورت تھی ؟ بوڑھی اور بدصورت عورت کے دستِ ہوس کو تو آج بھی ایک عام جوان نفرت و استکراہ کے ساتھ جھٹک سکتا ہے ۔ پیغمبر ہی نے کیا کمال کیا جس مقصد سے قصہ یوسفؑ کے اس خاص حصے کو تشریح کے ساتھ بیان کیا ہے اسے آپ نے سمجھا ہی نہیں ۔ مقصد صاف طورپر یہ بتانا ہے کہ اللہ کے مخصوص بندے کیسے کیسے نازک مواقع پر بھی صراطِ مستقیم سے نہیں بھٹکتے ایک طرف یوسف علیہ السلام پر صحت مند شباب کا نکھار ۔ دوسری طرف حسن و شباب کی کشش انگیزیوں کا مرقع ۔۔۔زلیخا انجذاب و سپردگی کے طوفانی جذبے میں سرشار دیکھنے والا کوئی نہیں ۔ خلوت اور شبستان کا نشاط افروز بستر ۔۔۔ یہی سب کچھ تھا جس نے حضرت یو سفؑ کی صسلابت کردار اور ضبطِ نفس کی قوت پر عظمت کی مہریں ثبت کردیں ۔ یہی سب کچھ تھا جس کی آہنی گرفت سے پاک و صاف بچ کر نکلجانا حضرت یوسفؑ کی پیغمبری انہ تقدیس کا بے مثال منظر سامنے لاتا ہے اور نازک تر مراحل میں جادۂ مستقیم پر قائم رہتے کا سبق دیتا ہے ۔ پیغمبرانہ عصمت مآبی کی شان ہی کیا رہے گی اگر زلیخا کو مجسم�ۂ حسن و شباب کی بجائے بوڑھی اور بد شکل مان لیا جائے ۔
بعد میں حضرت یوسف ؑ کی شادی زلیخا سے ہوئییا نہیں ۔ اس کا ہمیں علم نہین عقل و قیاس کہتیہیں نہیں ہوئی ہوگی ۔ لیکن ایک ایسے معاملہ میں عقل وقیاس کے گھوڑے دوڑا نے کی ضرورت ہی کیا ہے جس کا علم اورجہل دونوں برابر ہیں ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ زلیخا مومن مری یا کافر۔ ہماری بلا سے اس کا جو بھی حال رہا ہو ۔ اگر ایمان لائی ہوگی تو وہ ہم مسلمانوں کی اس دعا میں شامل ہے جو عام طور پر جملہ مومنیں کے لئے کی جاتی ہے اور اگر نہ لائی ہوگی تو جہنم بہر حال بہت برا ٹھکانا ہے ۔
عوج بن عنق کی لمبائی اپنے والا کوئی فیتہ ابھی تک ایجاد نہیں ہوا۔ نہ کبھی ہوگا جس طور نہ عرض کو محض و ہم و ترنگ نے جنم دیا ہو اس کی پیمائش کوئی کیوں کر کرے ۔ عوج بن عنق اگر واقعی کوئی ذی روح گذرا ہو اور اس نے سورج کی ٹکیا(؟) سے مچھلیاں بھون لی ہوں تو اس میں نہ سورف کا کچھ نقصان ہے نہ مچھلیوں کا ۔ مچھلیاں سورج سے بھونی جاءٰں یا چولھے کی آگ سے نتیجہ ایک ہی ہے ۔ پھر یہ جناب کو فکر و تشویش کیوں ؟
اچھا ہو کہ کام کی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں اور لایعنی باتوں میں سر نہ کھپائیں ۔

لایعنی:۔


لایعنی:۔
سوال ۶؂: از۔محمد ظہیر دیو بندی۔
قصص الانبیاء (اردو ) میں لکھا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نور محمد یﷺ پیدا کیا وہ نور محمد بارہ ہزار برس تک علم تجردی میں خدا کی عبدت میں مشغول رہا پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی چار قسم کر کے ایک سے عرش پید اکیا دوسری سے قلم ۔ تیسری سے بہشت ۔ چوتھی سے عالمِ ارواح اور ساری مخلوق اور پھر ان چار میں سے چار قسم نکال کر ۳سے عقل ، شرم ،عشق اور ایک سے میرے تئیں پیدا کیا ‘‘۔ کیا یہ سب صحیح ہے ؟ کسی حدیث صحیح سے اس کا ثبوت ملتا ہے اور کیا’’ لولاک لما خلقت الا فلاک‘‘ حدیث صحیح ہے ؟ اور انا من نوراللہ الخ بھی حدیث صحیح ہے ؟ کیا یہ بھی کسی حدیث صحیح سے ثابت ہیکہ زمین ایک گائے کہ سینگ پر قائم ہے اور جب اس کا سینگ دکھ جاتا ہے تو دوسرے سینگ پر لے لیتی ہے جوز لزلہ کی صورت میں ظاہر ہوتاہے یا فرشتہ ہاتھو ں پر لئے کھرا ہے کیا یہ صحیح ہے ؟ براہِ مہربانی آپ اپنی معلومات سے مطلع فرمایئے کہ زمین آخر کس چیز پر قائم ہے احادث صحیح اس کے بارے مین کیا کہتی ہے ۔ نیز موجودہ دور کے سائنسداں کیا کہتے ہیں کہ زمین کس چیز پر قائم ہے ۔ بڑی ہی مہربانی ہوگی اگر آپ قصص الانبی�أ کا پہلا باب ’’کائنات اور نورمحمدی ﷺ کی پیدائش ‘‘ پورا ملا حظہ فرمالیں اور پورے باب پر تبصرہ فرماویں ۔ مجھے تو یہ سب باتیں خارج از عقل معلوم ہوتی ہیں میں آج کل قصص الانبی�أ مطبوعہ کتنجانہ کا دیو بند کا مطالعہ کررہاہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی صداقت میں بہت شک مجھے امید ہے کہ آں محترم بذریعہ تجلی اس شک کو رفع کرنے کی سعی فرمائیں گے۔
الجواب:۔ کا دن ہوئے ہم نے قصص الانبی�أ کے کچھ اوراق کا مطالعہ کیا تھا اور بیچ بیچ میں سے متعد د مقامات پر نظر ڈالی تھی ۔ اس سرسری جائزے نے ہمیں اس نتیجے پر پہنچایا کہ یہ ان غیر معتمد کتابوں میں سے ہے جس کا مطالعہ وقت کے زباں اور خیالات کے انتشار سے زیادہ کوئی فائدہ نہیں دیتا ۔ اس میں نہ صرف ضعیف و منقطع روایات کی بہتات ہے ، بلکہ کتنی ہی روایات تو ا س نوع کی ہیں کہ انھیں فن کی ترازو می تولے بغیر ہی ایک مسلیم الطبع آدمی اساطیر الاولین کا نام دے سکتا ہے ۔ اس کتاب کا اندازِ بیان بھی ایسا غیر ثقہ ہے کہ عامیاور کندقسم کے لوگ ہی اس سے لطف اندوس ہوسکتے ہیں ‘ ورنہ ج شخص کے اندر شئی لطیف کی رمق بھی ہے وہ بلا کبیدگی اس کا مطالعہ نہ کرسکے گا۔تجلی کے صفحات میں ایک دو بار ضمناً اور مختصر اس کا ذکر آیا ہے تفصیلی ذکر و نقد کی یہ مستحق بھی نہیں ہے ۔
لولا ک لما کے بارے میں گذشتہ ہی شمارے میں میں کچھ عرض کیا جاچکا ہے ۔ اسے پڑھ لیجئے ۔ اگر یہ کافی نہو تو اس سے زیادہ کی امید فی الوقت ہم سے نہ کیجئے ۔ رہا گائے کے سینگ پر دنیا کے قائم ہونے کا معاملہ تو یہ خیال محض تو ہماوت ہفوات میں سے ہے اس کے لئے کوئی علمی و عقلی بنیاد موجود نہیں ہے ۔ حدیث سے اس طرح کی لغو باتیں ثابت ہونے کا اندیشہ وہی کرسکتا ہے جسے علم حدیث سے کوئی مس نہ ہو۔ خوب سمجھ لیجئے اللہ کے سچے بنی کے ارشادات مبارکہ اس طرح کی ہفوات سے بلند و برتر ہین اور ایسی فضول بوتوں پر مشتمل دوایات کو رد کرنے کے لئے روالوں گی تنقید میں وقت ضائع کے منہ پر مار دینا چاہئے ۔
حضور ؐ نے اس کی کوئی اطلاع نہیں دی کہ زمین کس چیز پر قائم ہے ۔ نہ اس طرح کی اطلاعیں دینے حضور ؐ مبعوث ہوئے تھے ۔ سائنس دانوں کی کنج کاوی نے اس باب میں جو اطلع بہم پہنچائی ہے وہ یہ ہے کہ یہ زمین اور چاند سورج وغیرہ جذب و کشش کے ایک مہتم بالشان اور محیر العقول نظام کے تحت بیکراں فضا کی پہنائیوں میں اپنے اپنے وظیف�ۂ حیات کو انتہائی صحت اور ضبط و انتظام کے ساتھ پورا کرنے میں مصروف ہیں ۔ زمین کسی ٹھوس چیز پر ٹکی ہوئی نہیں ہے ، بلکہ فضا میں حرکت کناں ہے ۔ اس کی دو طرح کی حرکتیں سائنس نے دریافت کی ہیں ۔ ایک اپنے محور پر مدور شکل میں اور ایک آگے کو بڑھتی ہوئی مستطیل انداز کی ۔ جس طرح ایک لٹو گھومتا ہوا ۔۔۔۔۔۔ ہوا سی شکل میں زمین دوہری جنبش و حرکت کے ساتھ نظم کا ئناب میں اپنا مقصدِ حیات پورا کررہی ہے۔ 
سائنس کے بے شمار نظریات اٹل ہیں ۔ انھیں ہم دریافت کا نام دیتے ہیں ۔ ان کی تردید ممکن نہیں ہے، لیکن بے شمار نظریات غیر یقینی ہیں ۔ ان کا تعلق دریافت سے نہیں ، بلکہ سائنس ہی بسااوقات ان کی تکذیب کر کے نئے نظریات پیش کرتی رہتی ہے ۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ زمین اور جرام فلکی کے نظام اور ان کے باہمی تعلق اور ان کی حرکت جنبش کے بارے میں جو کچھ سائنس کہتی ہے وہ دوسری قسم میں داخل ہے ۔ ہوسکتا ہے مزید تحقیق و تجسس کے بعد اب تک کے قائم کردہ اندازوں اور فارمولوں میں ترمیم و تنسیخ کی ضرورت پیش آئے ۔ 
لیکن جب تک یہ ترمیم و تنسیخ سامنے نہیں آتی ہمارے لئے اس مفر نہیں ہے کہ سائنس کے د عاوی کو تسلیم کرلیں یا کم سے کم خاموشی اختیار کریں ۔ مذہب نے ہمیں کوئی ایسی اطلاع نہیں دی ہے جو ان سائنسی دعاوی کے منافی ہو۔ 
قصص الانبی�أ جیسی غیر معتبر کتابوں کا مطالعہ کبھی نہ کیجئے ورنہ حدیث رسولؐ کے بارے میں ریب و تذبذب کا دروازہ کھل جائے گا۔ ہمارے بعض بزرگوں نے اپنی حد سے زیادہ معصومیت کے باعث بے شمار اسرائیلی اور دیو بالائی روایات کو حدیث سمجھ کے سینے سے لگا لیا ہے ۔ اس کے نتیجے میں احادیثِ صحیحہ کی صداقت و عظمت بھی ماثر ہوئی ۔ یہ جواب دید نیا بہت آسان ہے کہ اہلِ فن نے کھرے کھوٹے کی تمیز کا معیار مقرر کردیا ہے ۔ اور محققین نے موضوعات کے مجموعے بھی مدون فرمادئے ہیں اس لئے نفسِ حدیث سے بدگمان ہونے کا کوئی موقع نہیں ، لیکن اس تلخ حقیقت سے آنکھیں کیسے بند کی جاسکتی ہیں کہ بے شمار ناقابل اعتبار روایاتآج بھی ہمارے بعض حلقوں میں سریایۂ جاں سمجھی جارہی ہیں اور یہ حلقے جہل�أ کے نہیں بلکہ ایسے علماء کے ہیں ج کے اسماء گرامی کے ساتھ دو دو سطر کے بھاری بھر کم انقلاب لکھے جاتے ہیں ۔
نورمحمدیﷺ اور ’’امین کا قیام‘‘ تو خیر نظری مسائل ہیں جن کا کوئی جوڑ عملی مسائل سے نہیں ملتا، لیکن قیامت تو آئی ہوئی ہے کہ وہ ضعیف و سقیم روایات بھی بریلوی مکتبِ فکر کے بزرگوں کی آنکھوں کا نور اور دلِ کا سرور بنی ہوئی ہیں جن کے غیر واضح مفاہیم کو وہی و کج فکری کی خراد پر چڑھا کر اللہ کے آخری پیغمبر کو حاضر و ناظر اور عالم الغیب وغیرہ بنادیا جاتاہے ۔ العیاذ باللہ۔قبوری شریعت کا پوراقصرِ نشاط ایسی ہی روایات کی اساس پہ قائم ہے اور قبوری علماء اسی پر بس نہیں کرتے کہ ان روایات کے صریح مطالب سے واسطہ رکھیں ، بلکہ تک بندی اور کج بحثی کے ذریعہ ان کی تہہ سے وہ وہ کوڑی لاتے ہیں کہ عقل سلیم دنگ رہ جاتی ہے ۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنے مرغوب خیالات و تصورات کو عینِ حق ثابت کر دیں اور شرک و بدعت کا جوروگ ان کے دل و دماغ کو لگا ہوا ہے اس کے لئے قولِ رسولؐ سے سند مل جائے۔
اللہ تعالیٰ فکر و نظر کی نا مسلمانی سے ہر مسلما کو محفوط رکھے اور متشا بہات میں پڑ کر دین و دنیا غارت کرنے کی بجائے محکمات کے منبع اور غیر مشتبہ افکار و اعمال سے لو لگانے کی توفیقِ نیک عطا فرمائے۔