Thursday, March 21, 2013

دل کو درد آشنا کیا تو نے درد دل کو دوا کیا تو نے




(۴)

دل کو درد آشنا کیا تو نے 
درد دل کو دوا کیا تو نے 
طبع انساں کودی سرشت وفا
خاک کو کیمیا کیا تو نے 
ناؤ بھرکر جہاں ڈبوئی تھی
عقل کو ناخدا کیا تو نے 
جب ہو ا ملک و مال رہزن ہوش 
بادشہ کو گدا کیا تو نے 
جب ملی کامِ جاں کو لذَّت درد
درد کو بے دوا کیا تو نے 
عشق کو تاب انتظار نہ تھی 
غرفہ اک دل میں وا کیا تو نے 
حرم آباد اور دیر خراب
جو کیا سب بجا کیا تو نے 
سخت افسر دہ طبع تھی احباب
ہم کو جادو نوا کیا تو نے 
پھر جو دیکھا تو کچھ نہ تھا یارب
کون پوچھے کہ کیا کیا تو نے 
حالی ؔ اٹھّا ہلا کے محفل کو
آخر اپنا کہا کیا تو نے 

جب سے سنی ہے تیری حقیقت چین نہیں اک آن ہمیں اب نہ سنیں گے ذکر کسی کو آگے کو ہوئے کان ہمیں




(۳)

جب سے سنی ہے تیری حقیقت چین نہیں اک آن ہمیں 
اب نہ سنیں گے ذکر کسی کو آگے کو ہوئے کان ہمیں 
پاس انہیں گر اپنا ذرا ہو،  جاں اپنی بھی ان پہ فدا ہو
کرتے ہیں خود نا منصفیاں ،  اور کہتے ہیں نافرمان ہمیں 
داد طلب سب غیر ہو ں جب تو،  ان میں کسی کا پاس نہ ہو
بتلائی ہے زمانے نے انصاف کی یہ پہچان ہمیں 
یہاں تو بدولت زہد و ورع نبھ گئی خاصی عزت سے 
بن نہ پڑا پر کل کے لئے جو کرنا تھا سامان ہمیں 
سُر تھے وہی اور تال وہی پر راگنی کچھ بے وقت سی تھی
غل بہت یاروں نے مچایا پر گئے اکثر مان ہمیں 
غیر سے اب وہ بیر نہیں اور یار سے اب وہ پیار نہیں 
بس کوئی دن کا اب حالی ؔ یہاں سمجھو اب مہمان ہمیں 

دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا




(۲)

دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا
سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا
تم کو ہزار شرم سہی مجھ کو ہزار ضبط
الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا
اے دل رضائے غیر ہی شرط رضائے دوست
زنہار بار عشق اٹھایا نہ جائے گا
راضی ہیں ہم کہ دوست سے ہو دشمنی مگر
دشمن کو ہم سے دوست بنایا نہ جائے گا
کیوں چھیڑتے ہو ذکر نہ ملنے کا رات کے 
پوچھیں گے ہم سبب تو بتایا نہ جائے گا
جھگڑوں میں اہل دیں کے نہ حالیؔ پڑیں بس آپ
قصَّہ حضور سے یہ چکایا نہ جائے گا

اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کے چھوڑا جس گھر سے سر اٹھایا اس کو بٹھا کے چھوڑا




الطاف حسین حالی کی غزلیں
(۱)

اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کے چھوڑا
جس گھر سے سر اٹھایا اس کو بٹھا کے چھوڑا
ابرار تجھ سے ترساں احرار تجھ سے لرزاں 
جو زد پہ تیری آیا اس کو بٹھا کے چھوڑا
کیا منعموں کی دولت ،  کیا زاہدوں کا تقوی