Thursday, December 14, 2023

‏ماں اپنے بچے سے زیادہ پیار کرتی ہے یا خالق اپنے بندوں سے ۔؟

 ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چند قیدی لائے گئے۔ ان قیدیوں میں ایک خاتون بھی تھی۔ اس کے اور اس کے دودھ پیتے بچے کے درمیان علیحدگی کر دی گئی تھی۔ اس کی نگاہیں اپنے لخت جگر کو چاروں طرف ڈھونڈ رہی تھیں ۔

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
( (اِذَا وَجَدَتْ صَبِیًّا السَّبْیِ أَخَذَتْہُ فَأَلْصَقَتْہُ بِبَطْنِھَا وَأَرْضَعَتْہُ۔))
’’قیدیوں میں سے جب کسی بچے پر اس خاتون کی نگاہ پڑتی تو وہ فوراً اسے لے کر اپنے پیٹ سے لگا لیتی اور اسے دودھ پلانے لگتی۔‘‘
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے لیے اس خاتون کی یہ شدید بے چینی دیکھی تو فرمایا:
( (أَ تَرَوْنَ ہَذِہِ المَرْأَۃَ طَارِحَۃً وَلَدَھَا فِی النَّارِ۔))
’’تمہارا کیا خیال ہے، کیا یہ خاتون اپنے بچے کو آگ میں پھینک سکتی ہے۔‘؟؟‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: نہیں نہیں ، اللہ کی قسم! یہ خاتون اپنے بچے کو کبھی اور کسی صورت بھی آگ میں نہیں پھینک سکتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
( (لَلّٰہُ أَرْحَمُ بِعِبَادِہِ مِنْ ہَذِہِ بِوَلَدِھَا۔))[1]
’’یہ خاتون اپنے بچہ پر جس قدر مہربان ہے، اللہ اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ مہربان ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی رحمت و مہربانی کا حال یہ ہے کہ اس نے رحمت کے سو (۱۰۰) حصے پیدا کیے، جن میں سے ننانوے (۹۹) اپنے پاس ہی محفوظ کر لیے ہیں اور صرف ایک حصہ زمین پر اتارا ہے۔ اسی ایک حصے کی وجہ سے اللہ کی تمام مخلوق ایک دوسرے پر رحم کیا کرتی ہے، یہاں تک کہ ایک جانور بھی اپنا کھر اپنے بچے سے ہٹا لیتا ہے کہ کہیں اسے تکلیف نہ پہنچے...!!!
[1] مسلم، کتاب التوبۃ: ۲۷۵۴۔ بخاری، کتاب الأدب: ۵۹۹۹۔
[2] بخاری، کتاب الأدب: ۶۰۰۰۔ مسلم، کتاب التوبۃ: ۲۷۵۲...
اللہ پاک ہم سبکے دلوں کو دنیاں داری سے پھیر کر عشق حقیقی سے بھردے۔
آمین

‏قرآن مجید۔۔۔۔ کا مکھی کے بارے میں حیرت انگیز چینلج ۔

 " لوگو!

ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو!
اللہ تعالیٰ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے گو سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے" (الحج)
مکھی بنانا تو خیر بہت دور کی بات ہے لیکن چیلنج کا دوسرا حصہ کافی دلچسپ ہے کہ اگر وہ کوئی چیز لے کر بھاگ جائے تو وہ بھی واپس نہیں لے سکتے ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ واقعی ناممکن ہے ؟ بھلا کیسے ؟
شائد آپ کے علم میں نہ ہو کہ ۔۔۔۔
مکھی غالباً دنیا کا واحد جانور ہے جو خوارک اپنے منہ میں ڈالنے سے پہلے ہی ہٖضم کرنا شروع کر دیتا ہے ۔
مکھی خوراک اپنی ٹانگوں میں اٹھاتے ہی اس پر اپنے منہ سے ایک کیمائی محلول ڈالتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ الٹی کرتی ہے جو فوراً اس چیز پر پھیل کر اس کے اجزاء کو توڑ مروڑ کر تحلیل کر لیتی ہے اور اسکو ایک قابل ہضم محلول میں تبدیل کر دیتی ہے ۔۔۔
۔ یاد رہے کہ مکھی صرف کھانے پینے کی چیزیں لے کر بھاگتی ہے ۔
اس انتہائی پیچیدہ کیمیائی عمل کے بعد مکھی کے لیے آسان ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی خوراک کو چوس لے ۔۔۔۔
۔ تب وہ اپنے منہ سے ایک ٹیوب نکالتی ہے جسکا منہ ویکیوم کلینر کی طرح چوڑا ہوتا ہے ۔ اس ٹیوب سے وہ اس چیز کو چوس لیتی ہے ۔
مکھی اپنی لے کر بھاگی ہوئی چیز کو چند ہی لمحوں میں کسی اور چیز میں تبدیل کر دیتی ہے ۔ جسکو دنیا کی جدید ترین لیبارٹریز اور سارے سائنس دان مل کر بھی اپنی اصل حالت میں واپس نہیں لا سکتے ۔
" بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے"۔۔۔۔۔
یہ قیامت تک لے لیے اللہ کا چیلنج ہے اللہ کا انکار کرنے والوں اور تمام جھوٹے خداؤوں کے لیے..!!

90 کے بچوں کے دکھ عجیب

 آج تقریباً ہر وہ شخص جس نے اپنا بچپن یا بچپن کا کچھ حصہ ۹۰ میں گزارا ، عجیب سی جذباتی تنہائ یا اداسی کا شکار ہے ، ہم وہ ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ وقت کی رفتار کو جھیلا ہے ، ٹیکنالوجی ، جذبات اور اشیاء اس قدر تیزی سے بدلی کہ ہم کئ چیزوں کی انتہا ‏اور زوال کے گواہ ہیں

جیسے دادی ، نانی کے ہاتھ کی چوری سے پیزا تک کا سفر ، وہ چوریاں کب ماضی کا حصہ بنی ، سوچو تو ہوک اٹھتی ہے
کب چولہے کے گرد بیٹھ کر ، کوئلوں پر پیالی رکھ سالن کو گرم رکھنے کی کوشش کرتے ، توے سے روٹی اترنے کا انتظار آڑدر سرو ہونے کے انتظار سے جگہ بدل گیا
رات‏ کو کپاس کے ٹینڈوں سے کپاس نکالتے پورے گاؤں کے بچوں کا ٹی وی کے گرد ڈیرہ ، یا مغرب کے بعد گھر آنے کی بجاۓ لوئ لپیٹے بزرگوں کی برگد یا گاؤں کی کسی اکلوتی دکان کی بیٹھک فون کی گھنٹی یا ٹوئٹر کی دنیا میں ضم ہوئ اور تو اور فون خود گول گول نمبر گھما کر ڈائل کرنے سے وائرلیس ٹچ سکرین ‏ہوا ، کمپیوٹر پر فون کی تار لگا نیٹ کونیکٹ ہونے کی خوشی کب کھوئ وہ تو الگ کہانی ہے
مگر کب چاول کھیر بننے پر ہمسایوں کے گھر پلیٹ میں ڈال دینے جانے کی خوشی
عید پر مل کر مہندی لگانے ، بنٹے کھیلتے ہوۓ ہارنے پر اپنے بنٹے اٹھا دوڑ لگانا ، شام ہونے پر گلی میں باہر کھیلتے بچوں کا شور اور ماؤں کے کمر پر لگتے تھپڑ نو بےبی میں بدلے
سب دیکھا تو ہے وقت کے ساتھ چلا تو ہے مگر دل وہیں کہیں عمرو کی کہانی یا عمران سیریز میں اٹکا ہے ، ذہن سے سوچنے والوں کا دل آج بھی ہیر میں اٹکتا ہے
سیدھی بات کرنے میں عافیت سمجھنے والے آج بھی شعروں کی زبان کی چاشنی نہیں بھول پا رہے.
ہم ایک دور سے دوسرے میں اتے اتے بچپن اور خوشی ۹۰ میں ہی چھوڑ اۓ ہیں وقت کے ساتھ چلنے کی دوڑ میں اپنا دل وہی کہیں گرا کر اب بڑے خالی سے لفظوں ، ذمہ داریوں اور فلسفوں میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں ہم بیچارے ۹۰ کے بچے دو دنیاوں کے بیچ کسی برزخ میں اٹکے ہیں-
۱۰۰فیصد درست۔ بہت سی باتیں اس تحریر میں موجود بھی نہیں۔
پی ٹی وی کا فیملی چینل ہونا، شادی بیاہ میں ہاتھوں میں موبائل کی جگہ ایک دوسرے کے کندھوں پے ہاتھ رکھ کے باتیں کرنا، قہقہے لگانا ، ڈھولک پی گا نے گا نا ، ڈانس کے بجائے لوڈ ھی ڈالنا،
ٹیپ میں کیسٹ ڈالنا، فیتے کا پھنس جانا ، لوڈو، ches ، کیرم بورڈ کھیلنا۔۔۔۔ سب کھو گیا،

سکردو کے ایک جج صاحب واقعہ

 سکردو کے ایک جج صاحب واقعہ سناتے ہوئے بتاتے ہیں کہ میری عدالت میں ایک نوجوان وکیل تھا اس نے پی ایچ ڈی فزکس کر رکھی تھی اور وکالت کے پیشے سے منسلک تھا انتہائی زیرک تھا بات انتہائی مدلل کرتا تھا اس کی خوبی یہ تھی کہ وہ ہمیشہ مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا میری وہاں پوسٹنگ کے دوران میں نے اسے کبھی کوئی کیس ہارتے ہوئے نہیں دیکھا میں اس کی سچائی کا اتنا گرویدہ تھا کہ بعض دفعہ اس کی بات پر بغیر کسی دلیل کے میں فیصلہ سنا دیتا تھا اور میرا فیصلہ ٹھیک ہوتا تھا وہاں تعنیات ہر جج ہی ان کا گرویدہ تھا پوری عدالت میں سب ہی اس کا احترام کرتے تھے بعض مواقعوں پر ججز صاحبان اس سے کیس ڈسکس کر کے فیصلہ کرتے تھے میں اتنا اس کے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجو اس فیلڈ میں آنے اور پھر جج بن جانے کی اہلیت ہونے کے باوجود وکیل رہنے کی وجہ جاننا چاہتا تھا بہت کوشش کے بعد اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں نے یہ سوال اس سے پوچھ ہی لیا...اس نے بتایا کہ میرے نانا انتہائی غریب تھے ان کی اولاد میں بس دو ہی بیٹیاں تھیں انہوں نے بھٹے پر محنت مزدوری کر کے اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوائی ان کی پرورش کی اور پھر ان کی شادیاں کیں میری والدہ کی قسمت اچھی تھی وہ گورنمنٹ سکول میں ٹیچر لگ گئیں جب کہ میری خالہ کو سرکاری ملازمت نہ مل سکی میرے نانا نے بھٹہ سے قرض لے کر اپنی بیٹیوں کی شادی کی میری والدہ نے گھریلو اخراجات سے بچت کر کے میرے نانا کی قرض اتارنے میں مدد کی مگر پھر میرے والد صاحب نے ان کو منع کر دیا تو میرے نانا خود ہی قرض کے عوض مزدوری کرنے لگے جب کہ دوسری طرف میری خالہ کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی تو انہوں نے میری خالہ کو تنگ کرنا شروع کر دیا کئی بار مار پیٹ کر کے میری خالہ کو گھر سے نکالا گیا پھر گاؤں والوں کی مداخلت سے ان کو راضی کر کے بھیجا گیا اور تیسرے مہینے پھر وہ سسرال والوں کے ہاتھوں مار کھا کر والد کی دہلیز پر آ بیٹھیں یہاں تک کہ أخری بار جب ان کے سسرال والے ان کو لے کر گئیے تو ان کے شوہر نے دوسری شادی کر لی اور میرے خالہ کو اس شرط پر ساتھ رکھنے کی ہامی بھر لی کہ گھر کے سارے اخراجات میرے نانا اٹھائیں گے میرے نانا بیٹی کا گھر بسانے کی خاطر مزید مقروض ہوتے گئیے اور پھر سردیوں کی ایک دھند میں لپٹی ہوئی صبح کو جب وہ سائیکل پر جا رہے تھے تو گنے سے بھرے ٹرالے کے نیچے أ گئیے اور اس دنیا سے کوچ کر گئیے جب میرے نانا فوت ہوئے تو تب بھی مقروض تھے....میری والدہ نے میرے والد سے چوری اپنا زیور بیچ کر میرے نانا کے قرض ادا کئیے ان کی تجہیزو تکقین کا انتظام کیا اس معاملے میں میرے دادھیال والوں نے میری والدہ سے کوئی تعاون نہ کیا یہاں تک کہ میرے والد نے بھی نہیں

نانا کی وفات کے بعد میری خالہ کے سسرال والوں نے میری خالہ کو مجبور کرنا شروع کر دیا کہ وہ میری والدہ سے گھر کے اخراجات کا مطالبہ کرے میری خالہ نے انکار کر دیا تو ان کو طلاق ہو گئی مگر نہ تو ان کو ان کا سامان واپس کیا گیا اور نہ ہی زیور بلکہ ان کا حق مہر بھی نہ دیا گیا
میری واالدہ اور خالہ کے پاس آخری سہارا قانون کا تھا اور قانون طاقتور کی باندی ھے میری والدہ اور خالہ نے ہائی کورٹ تک کیس لڑا مگر اپنا حق نہ لے سکیں اور پھر خالہ ہائی کورٹ میں کیس سنوائی کی پیشی کے بعد واپس آئیں اور خود سوزی کر لی ان کے کی تجہیزو تکفین بھی میری والدہ کے ذمہ تھی.میری والدہ نے یہ کام بھی بخوبی کیا مگر بہن کی موت کے بعد ان کا چہرہ بجھ گیا یہاں تک کہ میری کامیابی پر میری والدہ خوش نہ ہوتیں تو یہاں تک کہ جب میں نے پی ایچ ڈی کی تو میرے دور پار کے سارے رشتہ دار خوش ہوئے مگر میری ماں کے چہرے پر پہلے جیسی خوشی نہیں تھی.میں نے اس رات مصلے پر بیٹھی دعا مانگتی اپنی ماں کو اپنے سینے سے لگا لیا اور پوچھا کہ آپ کی اداسی کی وجہ کیا ہے ؟
میری والدہ نے مصلے کو تہہ کیا اور کہا کہ میں چاہتی ہوں تم وکیل بنو
زندگی میں پہلی بار میری والدہ نے کسی خواہش کا اظہار کیا تھا میں نے وجہ پوچھی تو میری والدہ نے الٹا سوال داغ دیا تھا کہ أپ کو پتہ ہے آپ کی خالہ نے خودکشی کیوں کی تھی میں نے کہا نہیں تو میری والدہ نے جواب دیا کہ تمہاری خالہ کے پاس وکیل کی فیس کے پیسے نہیں تھے تو وکیل نے جسم کا تقاضا کیا تھا
میری خالہ نے اس دن گھر آ کر خود کشی کر لی تھی اس دن میرے دل میں خواہش آئی تھی کہ میں اپنے بیٹے کو وکیل بناؤں گی ایسا وکیل جو پیسوں کے عوض جسم کا مطالبہ نہیں کرے گا ایسا وکیل جو مظلوم کو انصاف چھین کر لے دے گا مگر میں کبھی تمہارے والد اور تمہارے ڈر سے اس خواہش کا اظہار نہیں کر سکی میری والدہ نے بات مکمل کر کے رونے لگی تو میں نے ان کے قدم چومے اور وعدہ کیا کہ میں ایسا ہی وکیل بنوں گا اور پھر وکالت میں داخلہ لے لیا میرے اس فیصلے سے تمام فیملی میمبر اور دوست احباب حیران تھے مگر میری والدہ بہت خوش تھیں میں جب تک جاگ کر پڑھتا رہتا تھا میری والدہ میرے ساتھ جاگ کر أیت الکرسی پڑھ کر مجھ پر پھونکتی رہتی تھی میں نے وکالت میں بھی گولڈ میڈل لیا اور اپنی ماں کا خواب پورا کر دیا مگر افسوس کہ میری والدہ اس خواب کی تعبیر نہ دیکھ سکیں۔۔۔۔
میں وکیل بننے کے بعد ہمیشہ سچ کے لئیے لڑا میں نے کبھی کسی ظالم کو سپورٹ نہیں کیا میں ہر کامیابی پر اپنی والدہ کی قبر پر جاتا ہوں مگر ایک عرصہ تک میری والدہ مجھے خواب میں نہیں ملیں چند ماہ پہلے میں نے ایک یتیم لڑکی کا کیس لڑا نہ صرف اس کا سامان اور حق مہر لے کر دیا بلکہ اس کے بچوں کا ماہانہ خرچ بھی لے کر دیا اس دن جب والدہ صاحبہ کی قبر پر گیا تو رات کو میری والدہ خواب میں مجھے ملیں اسی مصلے سے اٹھ کر مجھے سینے سے لگایا اور مجھ پر کچھ پڑھ کر پھونکا اس دن مجھے لگا کہ میں نے زندگی کا مقصد حاصل کر لیا ہے۔۔۔۔!!
اہلیت ہوتے ہوئے بھی جج نہ بننے کی وجہ یہ ہے کہ بطور جج مجھ پر پریشر آ سکتا ہے مگر بطور وکیل کوئی مجھے مجبور نہیں کر سکتا میں حلال طریقہ رزق سے اتنا کما لیتا ہوں کہ گزارا ہو جاتا ہے بس میں اتنے میں ہی خوش و مطمئن ہوں
جج صاحب بتاتے ہیں کہ پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ عزت عہدے میں نہیں اعمال میں ہوتی ہے.

Saturday, January 17, 2015

سعودی عرب کی وادی جن اور کینیڈا کی مقناطیسی پہاڑی


مجھے کافی دوستوں کے مسیج آئےتھے کہ آپ سعودی عرب کی وادی جن کے متعلق ضرور بتائیں۔
سعودی عرب کے مقدس شہر مدینہ منورہ سے شمال مغرب کی جانب35کلو میٹر کے فاصلے پر واقع مقام وادی جن جنس و نسل کی قید سے آزاد ہر فرد کو اپنی طرف متوجہ کئے ہوئے ہے۔ یوں تو عرب کے تپتے صحراؤں میں بچھا ہوا سعو دی عرب ہر مسلما ن کے لئے تاریخی اور مذہبی حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے مگر ہر سال یہاں حج و دیگر ایام میں بھی عمرہ کی ادائیگی کے لئے دنیا بھر سے آنے والے لاکھوں مسلمانوں کے لئے اپنے مذہبی فرائض کی انجام دہی کے علاوہ پر سراروادی جن کو دیکھنا اور اس کی حقیقت کے بارے میں جاننے کی جستجو اپنی جگہ موجود رہتی ہے۔
وادی جن کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ یہاں آپ اگر اپنی گاڑی کے انجن کو بند کر دیں اور اس کے گیئر کو نیوٹرل پر رکھ دیں تو آپ کی گاڑی خود بخود 120کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چڑھائی پر چلنا شروع ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ 14کلو میٹر تک مسلسل جاری رہتا ہے۔
میں چونکہ ابھی تک حجاز مقدس گیا نہیں اس لئے مجھے اس کا تجربہ نہیں۔ میں یہاں اس کے متعلق ایک صاحب کا ذاتی تجربہ آپ کو پوسٹ کررہا ہوں۔ جن کا نام عبدالرحمن ہے۔ اور وہ قطر میں جاب کرتے ہیں ۔
اور آخر میں آپ کو اس مقام کے متعلق حدیث شریف بھی بتاؤں گا۔ اورایک اور مقام کےمتعلق بھی بتاؤں گا جو کہ تقریبا اس سے ملتا جلتا ہے۔
عبدالرحمن صاحب لکھتے ہیں۔
-------------------------------
بہت سے دوسرے افراد کی طرح مجھ میں بھی وادی جن کے واقعات کو سن کو اس کو خود سے دیکھنے اور تجربہ کرنے کی لگن پید ا ہوئی۔ وادی جن کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ یہاں آپ اگر اپنی گاڑی کے انجن کو بند کر دیں اور اس کے گیئر کو نیوٹرل پر رکھ دیں تو آپ کی گاڑی خود بخود 120کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنا شروع ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ 14کلو میٹر تک مسلسل جاری رہتا ہے۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ وادی جن میں جہاں پر گاڑی کاانجن بند کر دیا جائے اور اس کے گیئر کو نیوٹرل کردیا جائے وہ ایک چڑھائی ہے یعنی کے گاڑی نیچے سے اوپر کی جانب جاتی ہے اور وہ بھی 120کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے۔ وادی جن میں اپنی اور اپنے پاس گاڑی کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے بھی اس تجربے کو آزمایا اور ایسا کرنے کے بعد اس وادی سے منسلک واقعات پر یقین رکھنے کے علاوہ میرے پاس بھی کوئی چارہ نہیں رہا۔
میرے ذاتی تجربے سے یہ بھی ثابت ہو ا کہ وادی جن پر آپ اس مخصوص جگہ پر کوئی بھی چیز رکھ دیں جیسے کہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے پانی کو بہا یا تو وہ بھی خود بخود اوپر کی طرف بہنے لگ پڑا۔ یہاں وادی جن کے متعلق ایک اور بات بھی آپ کے علم میں لاتا چلوں کہ اگر آپ گاڑی کے انجن کو بند کئے بنا اس کو وہاں سے گزاریں گے تووہ 100کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زیادہ تیز نہیں چلے گی لیکن جب گاڑی کا انجن بند ہو اور اس کا گیئر نیوٹرل پر رکھا جائے تو وہ خود بخود 120کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے 14کلو میٹر کے فاصلے تک چلتی ہے۔وہاں کے مقامی لوگوں میں وادی جن کے حوالے سے مختلف باتیں زد عام ہیں کچھ کے نزدیک یہاں جنا ت رہتے ہیں جو کہ گاڑی یا وہاں پر رکھی کسی بھی چیز کو آگے کی طرف دھکیلتے ہیں اسی لئے اس وادی کو وادی جن کا نام دیا گیا ہے۔ اس مقام پر ذاتی تجربہ کرنے کے بعد اس سے جڑے واقعات اور اس کی پراسراریت پرمیرا یقین پختہ ہو گیا ہے۔
-------------------------
یہ بات مجھے کافی دوستوں نے مسیج میں لکھی ہے۔اور یہ ہی بات میرے کزن نے بھی اپنے ذاتی تجربے سے مجھے بتائی تھی۔کہ ہاں بالکل میں نے بھی گاڑی بند کردی تھی۔اور گاڑی خود بخود 120 کلومیڑ کی رفتار سے دوڑتی رہی۔
اب اس کی درست حقیقت سے میں بالکل ناواقف ہوں ۔ ہاں آپ کو اس مقا م کے متعلق ایک حدیث ضرور بتاتاہوں۔
یہ مقام اصل میں وادی جن نہیں بلکہ وادی بیدا ہے۔ اس کا ذکر
مسلم شریف کتاب الفتن: باب الخسف بالجیش الزی یوم البیت میں موجود ہے
عبیداللہ بن قبطیہ سے مروی ہے کہ
حارث بن ربیعہ اور عبداللہ بن صفوان حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے پاس گئے اور میں بھی ان کے ہمراہ تھا۔ انہوں نے ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے اس لشکر کے متعلق دریافت کیا جو زمین میں دھنسا دیا جائے گا اور یہ ان دنوں کی بات ہے جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ مکہ کے حاکم تھے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے: "ایک آدمی بیت اللہ میں پناہ لے گا تو ان کی طرف ایک لشکر بھیجا جائے گا جب وہ لشکر بیدا نامی جگہ پر پہنچے گا تو زمین میں دھنسا دیا جائے گا ۔ میں نے کہا: یارسول اللہ ! جو زبردستی اس لشکر کے ساتھ (مجبور ہو کر) شامل ہوا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا "وہ بھی لشکر کے ساتھ زمین میں دھنسا دیا جائے گا مگر روز قیامت اپنی نیت کے مطابق اٹھایا جائے گا۔
ابو جعفر فرماتے ہیں "بیدا مدینے کا ایک میدان ہے"
-------------
اس سے ملتا جلتا ایک اور مقام بھی دنیا میں موجود ہے جس کا نام ہے۔ مونکٹن کینیڈا کی مقناطیسی پہاڑی
Magnetic Hill, Moncton, New Brunswick
1930 میں جب سے یہ عجیب و غریب مقام دریافت ہوا ہے تب اس جادوگری کو دیکھنے کے لیے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس طرف کا رخ کرتی ہے-(جس طرح ہمارے پاکستانی وادی بیدا کا رخ کرتے ہیں)۔ اور اب تک کئی لوگ اس بات کا سراغ لگانے کی کوشش کر چکے ہیں کہ آیا اس جگہ پر گاڑیاں کس طرح نیچے سے اوپر کی جانب جاتی ہیں۔
تو اکثر کا نظریہ ا س کے متعلق یہ ہی کہ اس پہاڑی کی روڈ پر مقناطیسی طاقت موجود ہے جو گاڑیوں کو اپنی طرف نیچے سے اوپر کھینچتی ہے۔ اسی لئے اس کا نام بھی مقناطیسی پہاڑی ہی رکھ دیا گیا ہے۔
یقینا اصل راز سےتو اللہ کریم ہی جانتا ہے۔ کیونکہ اس میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور ہے۔ ایسے ہی یہ دو مقام مشہور نہیں ہوگئے ۔لیکن اصل وجہ کیا ہے۔۔ معلوم نہیں۔

لاکو خان کی بیٹی اورایک مسلمان عالم کادلچسپ مکالمہ

بیان کیا جاتا ہے کہ بغداد پر تاتاری فتح کے بعد، ہلاکو خان کی بیٹی بغداد میں گشت کررہی تھی کہ ایک ہجوم پر اس کی نظر پڑی۔ پوچھا لوگ یہاں کیوں اکٹھے ہیں؟ جواب آیا: ایک عالم کے پاس کھڑے ہیں۔ دخترِ ہلاکو نے عالم کو اپنے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا۔ عالم کو تاتاری شہزادی کے سامنے لا حاضر کیا گیا۔
شہزادی مسلمان عالم سے سوال کرنے لگی: کیا تم لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے؟
عالم: یقیناً ہم ایمان رکھتے ہیں
شہزادی: کیا تمہارا ایمان نہیں کہ اللہ جسے چاہے غالب کرتا ہے؟
عالم: یقیناً ہمارا اس پر ایمان ہے۔
شہزادی: تو کیا اللہ نے آچ ہمیں تم لوگوں پر غالب نہیں کردیا ہے؟
عالم: یقیناً کردیا ہے۔
شہزادی: تو کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ خدا ہمیں تم سے زیادہ چاہتا ہے؟
عالم: نہیں
شہزادی: کیسے؟
عالم: تم نے کبھی چرواہے کو دیکھا ہے؟
شہزادی: ہاں دیکھا ہے
عالم: کیا اس کے ریوڑ کے پیچھے چرواہے نے اپنے کچھ کتے بھی رکھ چھوڑے ہوتے ہیں؟
شہزادی: ہاں رکھے ہوتے ہیں۔
عالم: اچھا تو اگر کچھ بھیڑیں چرواہے کو چھوڑ کو کسی طرف کو نکل کھڑی ہوں، اور چرواہے کی سن کر دینے کو تیار ہی نہ ہوں، تو چرواہا کیا کرتا ہے؟
شہزادی: وہ ان کے پیچھے اپنے کتے دوڑاتا ہے تاکہ وہ ان کو واپس اس کی کمان میں لے آئیں۔
عالم: وہ کتے کب تک ان بھیڑوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں؟
شہزادی: جب تک وہ فرار رہیں اور چرواہے کے اقتدار میں واپس نہ آجائیں۔
عالم: تو آپ تاتاری لوگ زمین میں ہم مسلمانوں کے حق میں خدا کے چھوڑے ہوئے کتے ہیں؛ جب تک ہم خدا کے در سے بھاگے رہیں گے اور اس کی اطاعت اور اس کے منہج پر نہیں آجائیں گے، تب تک خدا تمہیں ہمارے پیچھے دوڑائے رکھے گا، تب تک ہمارا امن چین تم ہم پر حرام کیے رکھوگے؛ ہاں جب ہم خدا کے در پر واپس آجائیں گے اُس دن تمہارا کام ختم ہوجائے گا۔
*****
مسلمان عالم کے اس جواب میں آج ہمارے غوروفکر کےلیے بہت کچھ پوشیدہ ہے!
خدایا ہمارے اس بھٹکے ہوئے قافلے کو اپنے در پر واپس آنے کی توفیق دے!
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے

سیف الاسلام بن کرنل قذافی کی کہانی

قت بدلتے دیر نہیں لگتی۔
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
ایک ویران سی جگہ پر واقع کھنڈر نما مکان سے 19نومبر 2011کوایک ایسے شخص کو گرفتار کیا گیا جو اس کمرے میں تقریباً پچھلے پانچ یاچھ ماہ سے چھپا ہو ا تھا وہ شدید زخمی اور بیمار تھا کمرے کی حالت اتنی خستہ تھی کہ اس میں نہ تو کوئی روشنی کامناسب انتظام تھا اور نہ ہی کمرے میں تازہ ہوا آنے کا کوئی راستہ موجود تھا یہاں تک کہ کمرے میں باتھ روم تک کی سہولت بھی میسرنہ تھی۔ اُس شخص کا کھانا پینا سونا اور پیشاب وغیرہ کرنا سب کچھ اسی کمرے کی چار دیواری کے اندر ہی محدود تھا۔ جب اس شخص کو گرفتار کیا گیا تو اُس کی حالت دیکھ کر ایسے لگتا تھا جیسے وہ کئی دنوں سے بھوکا پیاسا ہے اور کئی ہفتوں سے نہایا ہوا بھی نہیں ہے۔ اس کمرے میں پڑ ا میٹرس تکیہ اور کمبل اس قدر گندہ اور بدبو دار تھا کہ ان کو استعمال کرنا تو دور کی بات اس کو دیکھ کر بھی گھن آرہی تھی۔ گندے اور بدبو دار کمبل میں لپٹا ہوا جو شخص گرفتار ہوا وہ شخص کوئی عام آدمی نہیں تھابلکہ کچھ عرصہ پہلے تک وہ دنیا کا ایک امیر ترین آدمی تھا اور اُسکا شمار دنیا کے چند بااثر اور امیر
ترین لوگوں میں ہوتا تھا ۔
وہ انتہائی آسائش کی زندگی گزارتا تھا اور اپنی عیاشیوں پر کروڑوں ڈالرز کچھ سکینڈ میں ہی خرچ کر دیتا تھاایک بار لند ن میں وہ اپنی کار میں سفر کررہا تھا کہ سفر کے دوران ہی اُسے شمالی لند ن کا ایک خوبصور ت گھر پسند آگیا اور اس نے گھر خریدنے کا فیصلہ کر لیا لیکن گھر کا مالک گھر بیچنے کو تیا ر نہیں تھا لیکن اس نے ضد میں آکر گھر کی ڈبل قیمت ادا کرکے وہیں کھڑے کھڑے ایک کروڑ برٹش پاؤنڈز کا وہ گھر خرید لیا جسکی قیمت پاکستانی کرنسی میں تقریباً ایک ارب چالیس کرو ڑ روپے بنتی ہے۔
2009 ء میں اُس نے اپنی 37سالگرہ منائی جس میں دنیا بھر کے امیر ترین لوگوں نے شرکت کی جن میں روس کے Albanian tycoon ،سونے کی کانوں کے مالک Peter Munkاور prince of Monaco Albertجیسی دنیا بھر کی مشہور شخصیا ت نے شرکت کی اور یہ سالگرہ اب تک کی دنیا کی مہنگی ترین سالگرہ شمار کی جاتی ہے۔ یہ شخص انتہائی مہنگی پینٹنگ خریدنے کا شیدائی تھا اس نے اربوں ڈالرز مالیت کی پینٹنگ کو اپنے محل کی زینت بنایا ہوا تھا ۔
2006ء میں اسے اسرائیل کی اداکارہ Orly weinermanسے عشق ہوگیا اور اس نے اُسے اپنی محبوبہ بنانے کے لیئے اس کے گرد دولت کے انبار لگادئیے چنانچہ orly weinermaاس کی گرل فرینڈبن گئی اور یہ دنیا کی مہنگی ترین گرل فرینڈتھی ۔
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیرکا وہ بیسٹ فرینڈتھا اور برطانوی شاہی خاندان اسے کئی بار اسے buckingham palaceاور winsley castleمیں لنچ اور ڈنر دئیے تھے یہ لندن اور پیرس میں پلے بوائے کی زندگی گزارتااور اسے دنیا جہان کے قانون توڑنے میں وہ بڑا فخر محسوس کرتاتھا اس نے ایک بار پیرس کی shanzelize street پر ایک سو تیس کلومیٹر فی رفتار سے گاڑی چلا کر پوری یورپی دنیا کو حیران کردیااور پیرس کی سٹی حکومت بھر پور کوشش کرنے کے باوجود اس کا چالان تک نہ کرسکی ۔اپنے ملک کی investment authorityکا یہ شخص سربراہ تھا اور یہ اتھارٹی اتنی پاور فل تھی کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی وقت 10 بلین ڈالر تک کی سرمایا کاری کرسکتی تھی اور یہ بہت بڑی بات تھی ۔
ایسی شان وشوکت سے زندگی گُزارنے والا شخص جو 19نومبر2011ء کو ایک چھوٹے سے بدبو دارکمرے میں بدبو دار کمبل میں لپٹا گرفتار ہوا وہ شخص کوئی اور نہیں وہ سیف الاسلام تھا دنیا کے تیسرے نمبر پر تیل سے مالامال ملک لیبیا کے سابق حکمران کرنل قذافی کا بیٹا تھا وہ قذافی کا جانشین اور لیبیا کا ولی عہدتھا یہ اپنے وقت میں لیبیا کا دوسرا بااثر ترین آدمی تھا یہ اتنا با اثر اور پاور فل تھا کہ کرنل قذافی کو نیوکلیئر پروگرام ترک کرنے کے لیئے بھی اسی نے قائل کیا تھا ۔
سیف الاسلا م اس وقت لیبیا کی موجودہ حکومت کی قید میں ہے اور موت سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔اس کی ایک ہاتھ کی انگلیاں بھی کاٹ دی گئی ہیں۔ یہ وہ سیف الاسلام تھا جس کا ایک قدم لیبیا میں تو دوسر ا لند ن یا پیرس میں ہوتا تھا۔ جس کے لیئے پیرس کی بڑ ی بڑی کمپنیاں خاص قسم کے خصوصی پرفیومز تیا ر کرتیں تھیں یہ وہی سیف الاسلام ہے جو کچھ عرصہ پہلے تک ملکہ برطانیہ کا شاہی مہمان بنتا تھا لیکن آج پوری دنیا کا کوئی بھی ملک اُسے پناہ دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔وہ سیف الاسلام جس کے لیئے لندن اور پیرس میں خصوصی لنچ اور ڈنر ز کا اہتمام کیئے جاتے تھے آج اُسے ایک وقت کا کھانا بھی بڑی مشکل سے نصیب ہوتا ہے ۔ ایک لمحے کے اندر ایک کروڑ پاؤنڈز میں گھر خریدنے والے کے پاس آج سر چھپانے کے لئے ایک چھت تک میسر نہیں ہے۔
جس کے کل تک دنیا کے اربوں پتی لوگ بیسٹ فرینڈز ہوا کرتے تھے آج وہی بے یارو مددگار مدد کے لیئے دہائیاں لگا رہا ہے لیکن کوئی بھی اس کی مدد کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔سیف الاسلام پلک جھپکتے ہی عرش سے فرش پر آگیا اور بادشاہ سے فقیر ہوگیا۔
یہ زمانے کا دستو ر ہےجو لوگ جوخدا کو بھول جاتے ہیں اور خود کو خدا تصور کرنے لگتے ہیں تو ایسے لوگوں پر ایک نہ ایک دن اﷲتعالیٰ کا عذاب قہر بن کر نازل ہوتا ہے جس سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا۔ ایسے حکمران جواقتدار کو ہی سب کچھ سمجھ لیتے ہیں اوراقتدار کے نشے میں بہک کر یہ خیال کرتے ہیں کہ اُن کے اقتدار کا سورج کبھی بھی غروب ہونے والا نہیں اور انکے مقدر کا ستارہ ہمیشہ ہی چمکتا رہے گا تو ایسے حکمرانوں سے سیف الاسلام کی کہانی چیخ چیخ کر یہ کہہ رہی ہے کہ عوام کا اعتماد کھو دینے والے بے حس اور خود کو خدا تصور کرنے والے حکمرانوں کا ایک نہ ایک دن ایسا ہی دردناک اور بھیانک انجام ہوتا ہے۔
کسی شاعر نے ہمیں ان اشعار میں خوب سمجھایا ہے۔
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سُو نمونے
مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بُو نے
کبھی غور سے بھی دیکھا ہے تو نے
جو معمور تھے وہ محل اب ہیں سُونے
ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے
مکیں ہو گٔیٔے لا مکاں کیسے کیسے
ھؤے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گٔیٔ نوجواں کیسے کیسے
اجل نے نہ کسریٰ ہی چھوڑا نہ دارا
اسی پہ سکندر فاتح بھی ہارا
ہر ایک چھوڑ کے کیا حسرت سدھارا
پڑا رہ گیا سب یہیں کھاٹ سارا
تجھے پہلے بچپن میں برسوں کھلایا
جوانی میں پھر تجھ کو مجنوں بنایا
بڑھاپے نے پھر آ کے کیا کیا ستایا
اجل تیرا کر دے گی بالکل صفایا
یہی تجھ کو دھُن ہے رہُوں سب سے بالا
ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا
جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا؟
تجھے حسنِ ظاہر نے دھوکے میں ڈالا
وُہ ہے عیش و عشرت کا کؤی محل بھی؟
جہاں ساتھ میں کھڑی ہو اجل بھی
بس اب اس جہالت سے تُو نکل بھی
یہ طرزِ معیشت اب اپنا بدل بھی
یہ دنیأے فانی ہے محبوب تجھ کو
ہؤی واہ کیا چیز مرغوب تجھ کو
نہی عقل اتنی بھی مجزوب تجھ کو
سمجھ لینا چاہیے اب خوب تجھ کو
بڑھاپے میں پا کے پیامِ قضا بھی
نہ چونکا نہ چیتا نہ سمبھلا ذرا بھی
کؤی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی؟
جنون چھوڑ کر اپنے ہوش آ بھی
جب اِس بزم سے دوست چل دیے اکثر
اور اُٹھے چلے جا رہے ہیں برابر
ہر وقت پیشِ نظر ہے یہ منظر
یہاں پر تِرا دل بہلتا ہے کیونکر
جہاں میں کہیں شورِ ماتم بپا ہے
کہیں فِکر و فاقہ سے آہ و بکا ہے
کہیں شکوہ جور و مکر و دغا ہے
ہر ہر طرف سے بس یہی صدا ہے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

Sunday, July 28, 2013

ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ


ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ
ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﺑﮍﮮ ﺍﻋﻠﯽٰ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺟﺲ
ﻟﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﺳﭽﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﻗﺴﻤﯿﮟ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺷﺎﻡ ﮐﻮ
ﺍﺳﯽ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﭘﺮ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﻓﺨﺮ
ﺳﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ"ﺑﭽﯽ ﭼﯿﮏ ﮐﺮ"ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﺮ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﺎ
ﻧﺎﻡ ﮔﮍﯾﺎ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ
ﺟﺬﺑﺎﺗﯽ ﮐﻔﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﻧﮧ
ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺋﮯ ۔ ﺍﻥ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮐﯽ ﺍﻭﻟﯿﻦ ﮐﻮﺷﺶ ﮨﻮﺗﯽ
ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﮔﺮﻝ ﻓﺮﯾﻨﮉ ﮐﯽ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﮐﺎ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ
ﻧﻤﺒﺮ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﮔﺮ ﻧﻤﺒﺮ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﭼﺎﺭ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﺳﮩﯿﻠﯽ
ﮐﯽ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﮐﺎ ﻧﻤﺒﺮ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻣﯿﮟ ﻟﮓ
ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﮐﻮ
ﺑﮯﺑﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﺍﺑﺎ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ
ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻣﺎﻡ ﮈﯾﮉ ﺳﮯ ﮐﻢ ﭘﺮ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﯾﮧ ﮨﺮ ﺭﻭﺯ
ﮔﺮﻝ ﻓﺮﯾﻨﮉ ﮐﻮ ﻓﻮﻥ ﭘﺮ ﺑﺘﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ
ﺍﻭﺭ ﺍﻣﯿﺮ ﻟﮍﮐﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﺩﮬﻮ ﮐﺮ ﺍﻧﮑﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭘﮍ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺑﻼ ﻭﺟﮧ ﻓﻮﻥ ﮐﺮﮐﮯ ﺗﻨﮓ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮﻭ ﮔﮍﯾﺎ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺩﻓﻌﮧ ﮈﺍﻧﭩﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺑﺎﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ
ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮨﮯ ﭼﮭﭩﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ
ﺁﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﭘﮍ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ،
ﺁﮔﮯ ﺳﮯ ﮔﮍﯾﺎ ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﻤﺒﺮ ﻣﺎﻧﮓ ﻟﮯ ﺗﻮ ﺑﮍﯼ
ﻣﻌﺼﻮﻣﯿﺖ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﯿﺴﺎ
ﻧﻤﺒﺮ ﻟﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﺳﮑﺮﯾﻦ ﭘﺮ ﺷﻮ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﻮﺗﺎ ﮔﮍﯾﺎ ﺑﮯﭼﺎﺭﯼ ﺳﺎﺭﯼ ﺭﺍﺕ ﺳﻮﭼﺘﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ
ﺍﻣﯿﺮ ﺯﺍﺩﯼ ﮐﺎ ﻓﻮﻥ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ
ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﺍﯾﮏ ﺟﻤﻠﮧ ﺑﮍﮮ ﺗﻮﺍﺗﺮ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﺘﮯ ﮨﯿﮟ"ﮔﮍﯾﺎ
ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻮﭨﮭﯽ، ﭘﯿﺴﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ
ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﻭﮌﻭﮞ ﮐﻤﺎ ﺳﮑﺘﺎ
ﮨﻮﮞ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﭘﯿﺴﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ
ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﺮ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﺗﯿﻦ ﺳﻮ
ﮐﺎ ﺁﮐﮍﮦ ﺍﺱ ﺍﻣﯿﺪ ﭘﺮﺿﺮﻭﺭ ﻟﮕﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺷﺎﯾﺪ ﭼﻨﺪ ﮨﺰﺍﺭ
ﺍﻧﻌﺎﻡ ﻟﮓ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮨﺮ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺑﻌﺪ ﮔﮍﯾﺎ ﮐﺎ
ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﻟﻤﺒﯽ ﻟﻤﺒﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﭼﮭﻮﮌﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺩﻝ
ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺳﻨﮕﺎ ﭘﻮﺭ ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺅ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ
ﺧﺪﺍ ﮔﻮﺍﮦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﮑﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﻨﮕﺎﭘﻮﺭ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺧﺎﻥ ﭘﻮﺭ ﺗﮏ
ﮐﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﯾﮧ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻟﮍﮐﯽ ﭘﺮ ﺭﻋﺐ
ﺑﮭﯽ ﭘﮍ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﺮﭼﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ
ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﻼﻧﮯ ﻟﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻮﭨﻞ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﺳﺮ
ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻭﮦ ﺷﭧ ﯾﺎﺭ ﺍﮮ ﭨﯽ ﺍﯾﻢ ﺗﻮ
ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺑﮭﻮﻝ ﺁﯾﺎ ﺍﺏ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﯾﮟ ؟ ﭼﻠﻮ ﺳﭩﮧ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔
ﺟﺒﮑﮧ ﺳﭽﯽ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﮮ ﭨﯽ ﺍﯾﻢ ﺗﻮ
ﮐﯿﺎ ﺑﻨﮏ ﺍﮐﺎﺅﻧﭧ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺳﭩﯿﭩﺲ ﮐﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﺑﮭﯽ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻧﮑﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋﺸﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﮯ ﮐﻠﭽﺮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﺍﻣﯿﺮ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮨﺮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺭﻭﺯ ﻟﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ
ﻓﺮﻣﺎﺋﺶ ﮐﺮﺗﺎ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﮐﮧ ﯾﺎﺭ ﭼﻠﻮ ﺗﻮ ﺳﮩﯽ ﻭﮨﺎﮞ
ﺳﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﯾﺎﺭ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻏﺮﯾﺐ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉ
ﺍﭘﻨﮯ ﮨﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺋﺶ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﭘﻠﯿﺰ ﻋﺎﺷﯽ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﮯ
ﮐﺎﺭ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﺰﻥ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺭﮨﺎ ﮐﺮﻭ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯿﮍﯾﮯ ﮨﻮﺗﮯ
ﮨﯿﮟ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺯﻋﻢ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ
ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﯽ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ
ﺍﻇﮩﺎﺭ ﻭﮦ ﺍﮐﺜﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﺮﻝ ﻓﺮﯾﻨﮉ ﺳﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ"
ﻋﺎﺷﯽ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮﻭ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮍﮮ ﻣﺎﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺑﯿﭩﯽ
ﺟﻮ ﺍﻧﺠﯿﻨﯿﺮ ﺑﻦ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺍﻧﭩﺮﺳﭩﺪ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ
ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﮯ ﮔﮭﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺭﺩﮔﺮﺩ ﮨﯽ
ﮔﮭﻮﻣﺘﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﺑﮭﺎﮒ ﺑﮭﺎﮒ ﮐﺮ ﭼﯿﺰﯾﮟ
ﻻﺗﯽ ﮨﮯ ، ﺩﻭ ﭼﺎﺭ ﺩﻓﻌﮧ ﺗﻮ ﺧﻮﺩﮐﺸﯽ ﮐﯽ ﺩﮬﻤﮑﯽ
ﺑﮭﯽ ﺩﮮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﺳﻤﺠﮭﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﮐﮧ ﯾﮧ ﺑﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ، ﺍﺏ ﻋﺎﺷﯽ ﺑﮯ ﭼﺎﺭﯼ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﭘﺘﮧ ﮐﮧ
ﺍﻧﮑﮯ ﻣﺎﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﺗﯿﻦ ﺑﯿﭩﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﯾﺴﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﻧﮯ ﮨﺮ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﺟﮭﺎﻧﺴﺎ
ﺩﮮ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮨﻢ ﺟﺐ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺭﻭﻧﯽ
ﺻﻮﺭﺕ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺳﺎﺭﺍ ﻣﻠﺒﮧ ﻣﺎﮞ ﭘﺮ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ
ﺑﻮﮐﮭﻼﮨﭧ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﮯ
ﮨﯿﮟ"ﻋﺎﺷﯽ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮﻭ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﯼ
ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﮓ ﻣﯿﺮﮮ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ
ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ:ﻣﯿﮟ ﻟﮍﮐﻮﮞ ﮐﯽ ﺭﮒ ﺭﮒ ﺳﮯ ﻭﺍﻗﻒ ﮨﻮﮞ
ﯾﮧ ﺑﮍﯼ ﭼﯿﺰ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ، ﭼﺎﮨﮯ ﺗﮭﯿﭩﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﺮﮔﺲ ﮐﺎ
ﮈﺍﻧﺲ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﮔﺮﻝ ﻓﺮﯾﻨﮉ ﮐﯽ
ﮐﺎﻝ ﺁﺟﺎﺋﮯ ﻓﻮﺭﺍ"ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﻣﯿﺴﺞ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﺎﻥ
ﺍﯾﮏ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ
ﺍﯾﺴﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮨﺮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ،
ﻟﮍﮐﯽ ﺍﮔﺮ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﮐﮧ ﮐﻞ ﺗﻮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻧﺌﯽ
ﮔﺎﮌﯼ ﻟﯿﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻓﻮﺭﺍ"ﻻﭘﺮﻭﺍﮨﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﮯ
ﮔﺎﮌﯼ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺴﻠﺌﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﻟﮯ ﻟﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ
ﺟﻮ ﻣﺰﮦ ﺳﮑﻮﭨﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﻭﮦ ﮔﺎﮌﯼ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﮞ ۔ ﺍﺱ
ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﮍﯼ ﻣﻌﺼﻮﻣﯿﺖ ﺳﮯ ﻟﮍﮐﯽ
ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺑﻘﮧ ﺍﻓﯿﺌﺮﺯ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﮭﺮ
ﻣﮑﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺁﻣﺎﺩﮦ ﮐﺮﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ
ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﺘﺎﺋﮯ ﻟﮍﮐﯽ ﺑﯿﭽﺎﺭﯼ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﮧ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﻮ
ﺳﻤﺠﮭﻮ ﭘﮭﺮ ﮔﺌﯽ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ
ﺍﻥ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮐﻮ ﻧﺌﯽ ﻧﺌﯽ ﺷﺮﭨﺲ ﭘﮩﻨﻨﮯ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ
ﺑﮩﺖ ﺷﻮﻕ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﮍﮮ ﻋﺎﻣﯿﺎﻧﮧ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ
ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺗﮏ ﮨﻔﺘﮯ ﻣﯿﮟlevi'sﮐﯽ ﺩﻭ ﺷﺮﭨﺲ
ﻧﮧ ﺧﺮﯾﺪ ﻟﻮﮞ ﭼﯿﻦ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﺍﻧﮑﯽ ﺍﮐﺜﺮ
ﺷﺮﭨﺲ ﺗﺐ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﺐ ﺍﺑﺎ ﮐﯽ ﺩﮬﻮﺗﯽ ﻣﯿﮟ ﺑُﺮ ﺁﻧﮯ
ﻟﮕﮯ ۔ ﯾﮧ ﺍﮐﺜﺮ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮈﯾﭧ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭨﯽ
ﺭﻭﺯ ﭘﺮﻓﯿﻮﻡ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﭼﺎﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻟﮍﮐﯽ ﺁﺩﮬﮯ
ﺭﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺑﮯ ﮨﻮﺵ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ
ﺳﻨﮩﺮﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﭘﺮ ﺧﺘﻢ
ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﭨﻮﭨﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﻠﭻ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﭘﭽﺎﺱ
ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎ ﭘﭩﺮﻭﻝ ﮈﻟﻮﺍ ﮐﺮ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﺳﯿﺮ ﮐﺮﻭﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺘﮯ
ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻋﺎﺷﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺰﻧﺲ ﮐﯽ
ﺍﯾﮏ ﺑﺮﺍﻧﭻ ﮐﯿﻨﯿﮉﺍ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﻮﻝ ﻟﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﺷﯽ ﺧﻮﺷﯽ
ﺳﮯ ﺟﮭﻮﻡ ﺍﭨﮭﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﺎﮨﻢ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﺭﺳﺘﮧ
ﺳﻮﭼﺘﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﻨﯿﮉﺍ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻗﻠﻨﺪﺭﯼ ﺩﺍﻝ
ﭼﺎﻭﻝ ﺑﮏ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮨﺮ ﺩﻭ ﻣﻨﭧ ﺑﻌﺪ
ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﺑﺎﻭﺭ ﮐﺮﻭﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﺎﻥ ﺍﮔﺮ
ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺩﻝ ﺑﮭﺮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮﺩﯾﻨﺎ ﺳﺎﺭﯼ
ﻋﻤﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎﺅﮞ ﮔﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺣﻘﯿﺖ ﯾﮧ ﮨﻮﺗﯽ
ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﮍﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺳﻮ ﺟﻮﺗﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﺭ ﻟﮯ
ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺗﮯ ۔ ﯾﮧ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺤﻔﻞ
ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻥ ﺑﻮﺟﮫ ﮐﺮ ﭘﺎﻣﺴﭩﺮﯼ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﭼﮭﯿﮍ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺳﮯ ﺗﻮﺟﮧ ﺩﯾﮟ ﺗﻮ ﺑﮍﯼ ﺑﮯ ﻧﯿﺎﺯﯼ ﺳﮯ
ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﺑﮩﺖ ﻋﺮﺻﮧ ﮨﻮﺍ
ﭼﮭﻮﮌ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭨﮭﯿﮏ ﺩﺱ ﻣﻨﭧ ﺑﻌﺪ ﮐﺴﯽ
ﻟﮍﮐﯽ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎﻣﮯ ﺑﮍﮮ ﺍﻧﮩﻤﺎﮎ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ
ﺑﺘﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﺑﮩﺖ
ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ
ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﻧﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﭼﺎﮨﮯ ﮐﺴﯽ ﻓﻘﯿﺮ ﮐﻮ
ﭼﻮﻧﯽ ﺗﮏ ﻧﮧ ﺩﯼ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﻟﮍﮐﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮ ﺗﻮ ﮨﺮ ﻓﻘﯿﺮ ﮐﻮ
ﺩﺱ ﮐﺎ ﻧﻮﭦ ﭘﮑﮍﺍ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﻟﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﮐﮩﺘﮯ ﮐﮧ ﻓﻼﮞ ﮐﺘﺎﺏ ﺧﺮﯾﺪ ﻟﻮ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﯽ ﮨﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﺍﯾﮏ
ﮨﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋﺶ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭘﻠﯿﺰ ﻋﺎﺷﯽ ﺍﺏ ﻭﯾﺐ ﮐﯿﻢ ﻟﮯ
ﺑﮭﯽ ﻟﻮ ﻧﺎ۔ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﻋﺎﺷﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﻝ ﺭﯾﮉﯼ ﻭﯾﺐ ﮐﯿﻢ
ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺭﺳﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮯ ﺳﮑﺘﯽ ۔ ﺍﺱ
ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮐﻮ ﮨﺮ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ
ﺯﻧﺪﮦ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﻮ
ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺭﻭﺯ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﺍﭨﮭﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ
ﻣﺠﮭﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﮑﮯ ﻧﺎﻣﮧ ﻋﺸﻖ ﻣﯿﮟ ﺩﺱ ﺑﯿﺲ
ﭼﻨﮕﮍﯾﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﻧﮕﯽ ۔ ﻣﯿﮟ ﮐﻞ ﮈﮐﺸﻨﺮﯼ ﻣﯿﮟ
ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺗﻼﺵ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﻐﺎﺕِ ﻋﺎﺷﻘﯿﮧ
ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮐﻮ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﭼﭙﮍﻗﻨﺎﻃﯿﮧ ﺍﻭﺭ
ﭘﻨﺠﺎﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﭼﻮّﻝ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺟﺎﻥ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ
ﻣﺴﺮﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺴﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ
ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮑﺎﺭﺍ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺷﮑﺮ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﻼﺗﯽ ﮨﮯ ﭘﻮﺭﮮ
ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﺳﮯ ﺑﻐﻠﻮﻝ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺑﻼﺗﯽ ﮨﮯ ﯾﮧ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺩﻝ
ﺳﮯ ﻋﺰﺕ
Like · 

ek waqia jo aap ko ruladega

ebratnak waqia
میری عمر پچیس برس تھی جب میں امریکہ آیا تھا۔یہاں آئے ہوئے پندرہ برس ہوگئے ہیں۔ اچھے وہ دن تھے جب قانونی ویزہ نہ ہونے کے باوجود جاب مل جاتی تھی۔گرین کارڈ کے لیے پیپر میرج کاعام رواج تھا۔ امریکی عورتیں ڈالروں کی لالچ میں معینہ مدت تک طلاق سے منحرف ہع جاتیں ،نوبت جھگڑے تک پہنچتی تو گرین کارڈ منسوخ کروانے کاکہہ کر بلیک میل کرتیں ۔بچے پیدا کرتیں،شوہر کی کمائی پر عیش کرتیں اور اس کی گردن کا طوق بن جاتیں۔ اس قسم کے واقعات نے مجھے خوفزدہ کر رکھا تھا۔ ویسے بھی جعلی شادی سے اللہ کا کوف لاحق تھا۔ضمیر والا انسان بڑا خوار ہوتا ہے۔جمعہکی نماز کے لیے مسجد چلا جاتا۔
ایک روز امام مسجد سےجس کا تعلق مصر سے تھا،اپنے دل کا مدعا بیان کیا تو انھوں نے کسی امریکی مسلماں عورت سے حقیقی شادی کے مسائل درپیش ہیں،اسلام قبول کرنے والوں میں سیاہ فام قوم کی اکثریت ہے۔انھوں نے مجھے ایک سیاہ فام عورت کا رشتہ بتایا،جسے قبول اسلام کی سزا میں عیسائی والدین نے گھر سے نکال دیا اور وہ مسجد کے قریب کسی مسلمان فیملی کے گھر ، ایک کرائے کے کمرے میں مقیم ہے اور اسلامی سکول میں جاب کرنے لگی ہے اگر تم اسے سہارا دے دو اللہ بھی راضی ہوگا اور تمہاری رہائش قانونی بھی ہوجائے گی۔میں نے اس خاتون کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی امام صاحب نے کہا مغرب کی نماز کے بعد آجانا میں اس سے تمہاری ملاقات کروا دوں گا ۔تمام رات سوچتا رہا کہ اگر سیاہ فام عورت سے شادی کرلی تو خاندان والے ذلیل کردیں گے کہ تمہیں امریکہ میں کوئی گوری نہیں ملی تھی ۔اگر کالی ہی کرنی تھی تو پاکستان میں کیا کمی تھی جیسے جملے کانوں میں گونجنے لگے۔خالہ کی لڑکی کا قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے رشتہ سے انکار کردیا تھا۔اب کوئی جینے نہیں دے گا۔نفس نے پریشان اور امریکی قانون نے سولی پر لٹکا دیا۔
دوسرے روزبعداز مغرب امام صاحب مسجد سے متصل باورچی خانہ میں لے گئے جہاں وہ عورت میز پر بیٹھی ہمارا انتظار کر رہی تھی ۔اس نے سیاہ برقع جسے عرف عام میں عباء کہتے ہیں اور نقاب پہن رکھا تھا۔ امام صاحب نے تعارف کرواتے ہوئے کہا یہ سسٹر صفیہ ہیں۔سلام کے بعداس نے نقاب کشائی کی تو میرا دل دھڑام سے سینے سے باہر آنے کو تھا اگر میں کرسی نہ تھام لیتا ۔دبلی پتلی ،نہایت سیاہ اور خوب صورت کہنابھی درست نہ ہوگا ۔اللہ کی تخلیق تھی لہذا کوئی بری بات بھی منہ سے نہیں نکال سکتا تھا چند منٹ کی سلام دعا کے بعد لڑکھڑاتے قدموں سے گھر آگیا۔
ہم پاکستانی مردوں کو رنگت کا احساس کمتری کیا کم ہے کہ صورت بھی بھلی نہ ملے ۔خالہ کی لڑکی حور لگنے لگی ۔اللہ نے مجھے اچھے قدوقامت اور صورت سے نواز رکھا تھا۔دل اور دماغ کی جنگ میں آخر جیت دماغ کی ہوئی ۔سوچا گھر والوں سے خفیہ شادی کرلوں، گریں کارڈ حاصل کرتے ہی طلاق دے دوں گا۔ان دنوں گرین کارڈ ایک سال کے دوران مل جاتا تھا۔امام صاھب سے ہاں کردی اور یوں دو ہفتہ بعد ہمارا نکاح کرادیا گیا۔میں صفیہ کو لے کر اپنے فلیٹ میں آگیا۔دل پر جبر کرکے شب روز بیتنے لگے ،صفیہ میری سرد مہری کا اندازہ لگا چکی تھی مگر اس نے کبھی ھرف شکایت نہ کہا۔ہم دونوں اپنی اپنی جاب پر چلے جاتے شام کولوٹتے ۔
وہ امریکی طرز کا کھانا بناتی ،میرے سامنے میز پر سجاتی ،گھر کے تمام کام کرتی ۔اس کے ہونٹوں کی جنبش سے ذکر الہی ٰ کی مہک آتی رہتی ۔کوئی فضول بات یا بحث نہ کرتی ۔میرے اکھڑے لہجہ پر خاموش رہتی ۔نماز ،پردہ ،قرآن ،میری خدمت ،خاموشی ،صبر و شکر ان سب کودیکھ کر میرا دل گھبرا جاتا۔صورت کے علاوہ کوئی برائی ہو تو میں اس کو تنگ کر سکوں جو کل کو طلاق کا سبب بن سکے ،مگر کچھ ایسی بات ہاتھ نہ لگی ۔مجھے اس سے محبت نہ ہوسکی ہاں البتہ خود پر غصہ آنے لگا کہ میں نے ایک نیک سیرت عورت کو دھوکا دیا ہے،شادی کے چار ماہ بعد میری جاب ختم ہوگئ۔نئی جاب کے لیے کوشش شروع کردی اور اس میں دو ماہ کا عرصہ بیت گیا۔ اس دوران صفیہ اکیلی کمانے والی تھی،مجھ بیروزگار کو گھر بٹھا کر کھلاتی تھی،محنت کرتی اور مجھے بھی حوصلہ دیتی ۔ایک میں تھا کہ شرمندگی سے اسے کسی دوست کے ہاں دعوت پر لے جانے سے کتراتا تھا۔
انہی دنوں ایک قریبی دوست کا بیوی سے جھگڑا چلتا رہا اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ اس کی بیوی خوبصورت تھی مگر مغرور اور بد زبان ،مہمان کے سامنے شوہر کوذلیل کر دیتی ۔اکے بدولت دوست کوگرین کارڈ ملا تھا۔نخروں کا یہ عالم کہ مہمانوں کے سامنے ٹانگ پر ٹانگ رکھے اپنے شوہر کی طرف دیکھ کر کہتی یہ جانتے ہیں میں کس قسم کے ماحول سے آئی ہوں؟ یعنی اپنے مائیکہ کی امارت کا رعب ڈالتی ۔وہ غریب جی حضوری میں گھر بچاتا تھا۔ دعست کو سمجھانے گیا تو بولا یار۔۔گھر عورت بناتی اور بچاتی ہے ،جس گھر کی بنیاد لالچ پر ہو اسے لاکھ سہارا دو،دیواریں گر جاتی ہیں۔گرین کارڈ جہنم بن گیا ہے میرے لیے ۔میرے سسرال والوں کو ڈاکٹر داماد چاہیے تھا ۔یہ لوگ بھی پاکستان شفٹ ہوئےہیں اور میں بھی ۔ فرق اتنا ہے ان کے ہاں ڈالر بولتے ہیں اور میں متوسط گھر سے تعلق رکھتا ہوں ۔ پاکستان جانا پسند نہیں کرتی اور کبھی چلے جائیں تو گاڑی ہی کا تقاضا کرتی ہے جب کہ میرے بھائی کے پاس موٹرسائکل ہے اور مجھے ٹیکسی پر ہر جگہ جانا پڑتا ہے۔
پاکستان میں ہوں یا امریکہ اس عورت نے مجھے ذلیل کردیا ہے۔ڈاکٹر کی بیگم تو بن گئی ہے مگر میری بیوی نہیں بن سکی۔یار۔۔ہم دونوں نے گرین کارڈ کے لالچ میں شادی کی ہے مگر تم خوش نصیب ہو جسے نیک عورت ملی ہے۔اسلام اس کی پسند ہے جب کہ ہمیں اسلام ناپسند کرتا ہے۔جمال اور مال نے مجھے کہیں کا نہیں رکھا۔تم کمال کی قدر کرو،اسی میں جمال ہے۔بھابی کی قدر کرو اور مجھے بھی معاف کر دو جس نے تیری شادی کا مزاق اڑایا تھا۔دوست کی حالت زار نے میرے دل شمع روشن ضمیر کو جھنجوڑا اور گھر جاتے ہی میں نے پہلی بار مسکرا کر صفیہ کی طرف دیکھا۔اس نے حیرت سے امریکی انداز میں کہا۔۔۔۔۔کیا جاب مل گئی ہے؟نہیں تم مل گئی ہو۔
اللہ نے ہمیں ایک بیٹا دیا ۔اس کی پیدائش اور گرین کارڈ ملنے کے بعد والدین کو اصل صورتحال سے آگاہ کیا۔اب گرین کارڈ ملنے کی صورت میں پاکستان آسکتا ہوں مگر نہیں ہم تینوں ۔والدین کو وقتی دکھ ہوا مگر پوتے کا سن کر خون نے جوش مارا اور ہماری آمد کے منتظررہنے لگے،جاب بھی مل چکی تھی۔ایک ماہ کی چھٹی پر وطن گئے۔ صفیہ نے حسب عادت برقع اوڑھ رکھا تھا ۔ لاہور سے گاوں جانے میں پانچ گھنٹے لگتے ہیں ۔گھر پہنچ کر صفیہ کے ساتھ وہی سلوک ہو جس کا مجھے یقین تھا۔اسے پنجابی نہیں آتی تھی مگر چہروں کی زبان کون نہیں جانتا۔وہ صبر کرتی رہی لیکن ایک لفظ شکایت کانہ کہا۔والد نے میرے ولیمہ اور پوتے کے عقیقہ کی خواہش پوری کی ۔ماں اور بھابی کی نسبت باپ اور بھائی نے صفیہ کوقبول کیا۔اور اس کی سیرت کوسراہا۔ماں بھی خاموش تھی مگر بھابی نے سب کے سامنے کہہ دیا تیری بیوی کو برقع اوڑھنے کی کیا ضرورت ہے ۔کون اس کی طرف دیکھے گا؟ نقاب تو حسن چھپانے کے لیے اوڑھتے ہیں۔
اس جملہ کے دو روز بعد ہم لاہور ہوائی اڈے پر تھے ۔میں اپنی باکمال بیوی کو مزید جہنم میں نہیں رکھ سکتا تھا۔پاکستان میں اکثریت کو جمال و مال کی ہوس ہے ۔لڑکی کارشتہ لینے جاتے ہیں تو بڑی معصومیت سے کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے ،نہ حسن اور نہ جہیز ہی لالچ ہوتا ہے،بس لڑکی نیک اور فرماں بردار ہو۔لڑکی کودیکھتے ہی ادارہ بدل جاتا ہےاور پھر کبھی لوٹ کر اس گھر نہیں جاتے ۔لڑکے سے زیادہ لڑکے کے گھر والوں کوحسن ومال کالالچ ہوتا۔صفیہ نے اپنی سیرت سے میرا دل موہ لیا مگر میرے گھر والوں کوقائل نہ کر سکی ۔بھابی جیسی بد زبان کو اس گھر میں مقام حاصل ہے ۔مگر صفیہ اپنی صورت کی وجہ سے وہاں ایک ماہ بھی خوشی سے نہ رہ سکی ۔گرین کارڈ کالالچ جہنم بھی ہے اور جنت بھی ۔میرے دوست کے لیے جہنم ثابت ہوئی اور میرے لیے جنت کوپانے کے لیے قربانی تو دینا بچالیے ۔میں نے سیرت کو صورت پر ترجیح دیتے ہوئے اپنادین ودنیا بچالیے۔آج میرے تین بچے ہیں ماں کے ہمراہ اسلامی سکول جاتے ہیں۔بیٹیاں اپنی ماں کی صورت پر ہیں۔میں دعاکرتاہوں کہ اے اللہ ۔۔۔۔میری بیٹیوں کومجھ جیسالالچ شوہر مت دیناجس کے نکاح کی بنیاد گریں کارڈ ہے نہ کہ اللہ کا خوف

"بات بات میں فرق"


"بات بات میں فرق"

کہتے ہیں کسی بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اُس کے سارے دانت ٹوٹ کر گر پڑے ہیں

بادشاہ نےخوابوں کی تعبیر و تفسیر بتانے والے ایک عالم کو بلوا کر اُسے اپنا خواب سُنایا

مفسر نے خواب سُن کر بادشاہ سے پوچھا؛ بادشاہ سلامت، کیا آپکو یقین ہے کہ آپ نے یہی خواب دیکھا ہے؟

بادشاہ نے جواب دیا؛ ہاں، میں نے یہی خواب دیکھا ہے۔

مفسر نے لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھا اور بادشاہ سے کہا؛ بادشاہ سلامت، اسکی تعبیر یہ بنتی ہے کہ آپکے سارے گھر والے آپ کے سامنے مریں گے۔

بادشاہ کا چہرہ غیض و غضب کی شدت سے لال ہو گیا۔ دربانوں کو حکم دیا کہ اس
مفسر کو فی الفور جیل میں ڈال دیں اور کسی دوسرے مفسر کا بندوبست کریں۔

دوسرے مفسر نے آ کر بادشاہ کا خواب سُنا اور کُچھ ویسا ہی جواب دیا اور بادشاہ نے اُسے بھی جیل میں ڈلوا دیا۔

تیسرے مفسر کو بلوایا گیا، بادشاہ نے اُسے اپنا خواب سُنا کر تعبیر جاننا چاہی۔ مفسر نے بادشاہ سے پوچھا؛ بادشاہ سلامت، کیا آپکو یقین ہے کہ آپ نے یہی خواب دیکھا ہے؟

بادشاہ نے کہا؛ ہاں مُجھے یقین ہے میں نے یہی خواب دیکھا ہے۔

مفسر نے کہا؛ بادشاہ سلامت تو پھر آپکو مُبار ک ہو۔ بادشاہ نے حیرت کے ساتھ پوچھا؛ کس بات کی مبارک؟

مفسر نے جواب دیا؛ بادشاہ سلامت، اس خواب کی تعبیر یہ بنتی ہے کہ آپ ماشاء اللہ اپنے گھر والوں میں سے سب سے لمبی عمر پائیں گے۔

بادشاہ نے مزید تعجب کے ساتھ مفسر سے پوچھا؛ کیا تمہیں یقین ہے کہ اس خواب کی یہی تعبیر ہی بنتی ہے؟

مفسر نے جواب دیا؛ جی بادشاہ سلامت، اس خواب کی بالکل یہی تعبیر بنتی ہے۔

بادشاہ نے خوش ہو کر مفسر کو انعام و اکرام دے کر رخصت کیا۔

سبحان اللہ، کیا اس بات کا یہی مطلب نہیں بنتا کہ اگر بادشاہ اپنے گھر والوں میں سے سب سے لمبی عمر پائے گا تو اُسکے سارے گھر والے اُس کے سامنے ہی وفات پائیں گے؟

جی مطلب تو یہی ہی بنتا ہے مگر بات بات میں فرق ہے

***جنت میں محل بنوائیے****


***جنت میں محل بنوائیے****
سیدنا معاذ بن انس جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ھے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
" جو شخص سورہ اخلاص دس بار پڑھے اللہ تعالی اس کے لیے جنت میںایک محل تعمیر کرے گا"
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےعرض کیا
" اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر تو ھم بہت سے محل بنوالیں گے؟"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
" اللہ تعالی اس سے بھی زیادہ اور اس سے بھی اچھے دینے والا ھے"
سلسلہ احادیثصحیحہ/589

ایک عورت گالف کھیل رہی تھی

ایک عورت گالف کھیل رہی تھی
 کہ ایک ہٹ کے بعد اس کی گیند قریبی جنگل میں‌ جا گری، بال ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ جھاڑیوں میں پہنچ گئی جہاں گیند پڑی تھی۔ اس نے دیکھا کہ ادھر ایک مینڈک کانٹے دار جھاڑی میں پھنسا ہوا ہے۔ مینڈک نے عورت کو دیکھ کر کہا، خاتون اگر آپ مجھے ان کانٹوں سے نجات دلا دیں گی تو میں آپ کی تین خواہشات پوری کروں گا۔ یہ سن کر خاتون نے فوراً ہاتھ بڑھا کر مینڈک کو کانٹوں سے نجات دلا دی۔
مینڈک نے کانٹوں سے نجات پا کر شکر ادا کیا اور خاتون سے کہنے لگا جی اب آپ کہیں کیا خواہش ہے آپ کی، مگر میں معافی چاہتا ہوں‌ کہ میں‌ آپ کو یہ بتانا بھول گیا کہ آپ جو کچھ مانگیں گی، آپ کے شوہر کو وہی چیز دس گنا ملے گی۔
خاتون کو یہ سن کر بڑا غصہ آیا، خیر انہوں نے کہا کوئی بات نہیں۔
میری پہلے خواہش ہے کہ میں‌ دنیا کہ سب سے خوبصورت عورت بن جاؤں۔ مینڈک نے کہا سوچ لیں آپ کا شوہر دس گنا خوبصورت ہو جائے گا؟ کوئی بات نہیں، میں سب سے خوبصورت ہوں گی، تو وہ مجھے ہی دیکھے گا خاتون نے کہا۔ مینڈک نے کوئی منتر پڑھا اور خاتون بے حد خوبصورت ہو گئی۔
دوسری خواہش کہ میں سب سے امیر ہو جاؤں۔ مینڈک نے کہا سوچ لیں آپ کا شوہر آپ سے بھی دس گنا امیر ہو جائے گا؟ خاتون نے کہا کوئی مسئلہ نہیں اس کی دولت یا میری، ایک ہی بات ہے۔ مینڈک کا منتر اور وہ خاتون شوں کر کے امیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی خاتون آپ کی تیسری خواہش؟ مینڈک نے پوچھا؟
مجھے ایک ہلکا سا دل کا دورہ یعنی ہارٹ اٹیک ہو جائے۔
اس کہانی کا سبق:‌ ’’خواتین بہت چالاک ہوتی ہیں، ان سے زیادہ ہوشیاری اچھی نہیں‘‘
.
.
.
خواتین پڑھنے والیوں کے لیے:
یہ لطیفہ ختم - اب آپ آرام سے اس سے مزے لیں اور بس۔۔۔۔۔۔
.
حضرات آپ آگے پڑھیں:
آپ کے لیے کچھ اور ہے آگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جی جناب - خاتون کے شوہر کو خاتون کے مقابلے میں دس گنا ہلکا ہارٹ اٹیک ہوا۔

اس کہانی کا اصل سبق:
’’خواتین خود کو بہت عقلمند سمجھتی ہیں حالانکہ ایسا ہے نہیں، انہیں یہ سمجھتے رہنے دیں اور محظوظ ہونے دیں۔

Saturday, July 6, 2013

بھنگ کا نشہ



جنگل میں ایک چیتا چرس پینے کی تیاری کررہا تھا کہ اچانک قریب سے چوہا گذرا اور بولا: او چیتے ! زندگی بہت خوبصورت ہے ۔ نشہ چھوڑو زندگی سے پیار کرو۔ اتنا خوبصورت جنگل ہے چلو گھومتے پھرتے ہیں۔ انجوائے کرتے ہیں"
چیتے کو چوہے کی بات اچھی لگی ۔ وہ چرس چھوڑ کر ساتھ ہولیا۔
تھوڑی آگے جا کر ایک ہاتھی شراب کی بوتل کھولنے کی کوشش کررہا تھا ۔
چوہا پھر بولا :" او انکل ہاتھی ! زندگی بہت خوبصورت ہے۔ زندگی سے پیار کرو۔ خوبصورت جنگل ہے چلو گھومتے پھرتے ہیں سیر کرتے ہیں "۔ ہاتھی کو چوہے کی بات بھا گئی اور وہ بھی ساتھ چل پڑا ۔
آگے جاکر دیکھا کہ شیر ہیروئن کی پڑی ہاتھ میں اٹھائے نشہ کرنے کی تیاری کررہا ہے۔
چوہا اسکے پاس بھی گیا اور بولا:" او جنگل کے بادشاہ۔ زندگی بہت خوبصورت ہے۔ یوں برباد مت کرو۔ زندگی سے پیار کرو ۔ چلو جنگل کی سیر کرتے ہیں "
شیر نے چوہے کو غصے سے دیکھا اور زور سے ایک تھپڑ رسید کیا۔
ہاتھی اور چیتا حیران ہوئے اور پوچھا ۔" شیر صاحب۔ چوہے نے تو اچھی بات کی ہے۔ تھپڑ کیوں مارا اسے؟"
شیر بولا " یہ خبیث کل بھی بھنگ کا نشہ کرکے آیا اور یہی بات کرکے مجھے 5 گھنٹے فضول گھماتا رہا

شہاب نامہ سے اقتباس از قدرت اللہ شہاب


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ،، سولہ آنے ،، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک روز ایک بے حد مفلوک الحال بڑھیا آئی۔ رو رو کر بولی کہ میری چند بیگھہ زمین ہے جسے پٹواری نے اپنے کاغذات میں اس کے نام منتقل کرنا ھے لیکن وہ رشوت لئے بغیر یہ کام کرنے سے انکاری ھے ۔ رشوت دینے کی توفیق نہیں۔ تین چار برس سے وہ طرح طرح کے دفتروں میں دھکے کھا رہی ہے لیکن کہیں سنوائی نہیں ہوئی۔

اس کی درد ناک بپتا سُن کر میں نے اسے اپنی کار میں بٹھایا اور جھنگ شہر سے ساٹھ ستر میل دور اس کے گاؤن کے پٹواری کو جا پکڑا۔ ڈپٹی کمشنر کو اپنے گاؤں میں یوں اچانک دیکھ کر بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ پٹواری نے سب کے سامنے قسم کھائی کہ یہ بڑھیا بڑی شرانگیز عورت ہے اور زمین کے انتقال ک بارے میں جھوٹی شکائیتں کرنے کی عادی ہے۔ اپنی قسم کی عملی طور پر تصدیق کرنے کے لئے پٹواری اندر سے ایک جزدان اٹھا کر لایا اور اسے اپنے سر پر رکھ کر کہنے لگا، "حضور دیکھئے میں اس مقدس کتاب کو سر پر رکھ کر قسم کھاتا ہوں"۔ گاؤں کے ایک نوجوان نے مسکرا کر کہا۔ "جناب ذرا یہ بستہ کھول کر دیکھ لیں"۔

ہم نے بستہ کھولا، تو اس میں قرآن شریف کی جلد نہیں بلکہ پٹوار خانے کے رجسٹر بندھے ہوئے تھے۔میرے حکم پر پٹواری بھاگ کر ایک اور رجسٹر لایا اور سر جھکا کر بڑھیا کی انتقال اراضی کا کام مکمل کر دیا۔

میں نے بڑھیا سے کہا۔"بی بی، لو تمہارا کام ہو گیا۔ اب خوش رہو"۔

بڑھیا کو میری بات کا یقین نہ آیا۔ اپنی تشفی کے لئے اس نے نمبر دار سے پوچھا "کیا سچ مچ میرا کام ہو گیا ہے؟"

نمبر دار نے اس بات کی تصدیق کی تو بڑھیا کی آنکھوں سے بے اختیار خوشی کے آنسو بہنے لگے۔ اس کے دوپٹے کے ایک کونے میں کچھ ریزگاری بندھی ہوئی تھی۔ اس نے اسے کھول کر سولہ آنے گن کر اپنی مٹھی میں لئے اور اپنی دانست میں دوسروں کی نظر بچا کر چپکے سے میری جیب میں ڈال دیئے۔ اس ادائے معصومانہ اور محبوبانہ پر مجھے بھی بے اختیار رونا آ گیا۔ یہ دیکھ کر گاؤں کے کئی دوسرے بڑے بوڑھے بھی آبدیدہ ہو گئے۔

یہ سولہ آنے واحد "رشوت" ہے جو میں نے اپنی ساری ملازمت کے دوران قبول کی۔ اگر مجھے سونے کا ایک پورا پہاڑ بھی مل جاتا، تو میری نظر میں ان سولہ آنوں کے سامنے اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی۔ میں نے ان آنوں کو ابھی تک خرچ نہیں کیا۔ کیونکہ میرا گمان ہے کہ یہ ایک ایسا متبرک تحفہ ہے جس نے مجھے ہمیشہ کے لئے مالا مال کر دیا۔

سولہ آنے ۔
،، شہاب نامہ سے اقتباس ،،
،، از قدرت اللہ شہاب ،،

Sunday, June 30, 2013

علامہ اقبال اور عشق رسول(اردو اشعار کی روشنی میں)

علامہ اقبال اور عشق رسول

(اردو اشعار کی روشنی میں)

نتھو رام نامی شخص نے انگریزی زبان میں تاریخ اسلام نامی کتاب لکھی اور اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازیبا تبصرہ کیا۔
مسلمانوں نے اس شاتم رسول کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی، مگر نتیجہ صفر رہا۔ 
ہزارہ کے ایک نوجوان عبد القیوم کو اس گستاخانہ حرکت کی خبر ملی، اس کی ایمانی غیرت وحمیت کے سمندر میں وہ جوش آیا کہ اس نے عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران ہی دھاردار چاقو سے اس گستاخ رسول پر حملہ کردیا اور موقع پر ہی اس کا قصہ تمام کردیا۔ 
عبد القیوم کو سزائے موت ہو گئی، مسلمانوں کے ایک وفد نے ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرانے کے لیے علامہ اقبال سے در خواست کی اگر وہ اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کریں تو وائسرائے سے مل کران کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کراسکتے ہیں۔ 
علامہ نے وفد کی باتیں سن کر یہ دریافت کیا کہ کیا عبد القیوم کمزور پڑ گیا ہے؟۔
وفد کے ارکان نے کہا کہ عبد القیوم کمزور کیوں پڑتا، اس نے تو عدالت میں ہر بار اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے اور وہ علی الاعلان یہ کہتا ہے کہ میں نے شہادت اپنی زندگی کی قیمت پر خریدی ہے۔ 
یہ سن کر علامہ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور کہنے لگے:
"جب وہ ( عبد القیوم) کہہ رہا ہے کہ میں نے شہادت خریدی ہے تو میں اس کے اجر وثواب کی راہ میں کیسے حائل ہو سکتا ہوں ؟ کیا تم یہ چاہتے ہوکہ میں ایسے مسلمان کے لیے وائسرائے کی خوشامد کروں جو زندہ رہا تو غازی ہے اور مر گیا تو شہید ہے۔"

اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے۔ 
راج پال نامی شخص نے لاہور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اطہر میں بد زبانی کی۔ 
انگریزوں کی عدالت نے اس کو بھی قرار واقعی سزا کا مستحق نہیں گردانا۔ 
آخر غازی علم الدین کی غیرت ایمانی نے جوش مارا اور اس گستاخ رسول کو جہنم رسید کردیا۔ 
انھیں بھی عدالت نے سزائے موت دی۔ 
محبت رسول کی راہ میں پروانہ وار اپنی قیمتی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے ان شہیدوں کی قربانی نے علامہ کو بہت متأثر کیا اور ”لاہور اور کراچی “ کے عنوان سے تین اشعار پر مشتمل قطعہ کہہ کر ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا:

نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور
موت کیا شے ہے، فقط عالم معنی کا سفر
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر
آہ! اے مرد مسلماں تجھے کیا یاد نہیں
حرف 'لا تدع مع اللہ الھاً آخر'
[ضرب کلیم]

Saturday, June 15, 2013

مونچھ والے تیرا جواب نہیں ۔۔۔ عظیم الدین عظیم


عظیم الدین عظیم
اصلی نام:میر عظیم الدین علی خاں 
قلمی نام: عظیم الدین عظیم 
ولدیت:میر صوفی علی خان مرحوم 
ولادت:13ستمبر میسور (کرناٹک)
تعلیم :ایم ۔ای ۔سی (ارضیات) سنٹرل کالج بنگلور (1959ء ؁) ڈپلوما ریموٹ سنسنگ (1970ء ؁) 
ملازمت:کرناٹک کے محکمۂ معدنیات و ارضیات میں ادیشنل ڈائر کٹر کے عہدے سے سبکدوشی 1992ء میں ۔
مشاغل :اردو کے کاز کے لئے جدوجہد ، اردو زبان و ادب کی خدمت ، مختلف ادیبوں کے تخلیقاتکا مطالعہ ،تاریخ میں دلچسپی ،اھے ادب کا ترجمہ کرنا ، خاکہ نگاری ، پھول پودے اگانا ، مسکراتی کلیوں اور پھولوں کو دیکھ کر خوش ہونا ۔ خلوص کی جستجو، قوی یکجہتی کو بڑھاوا دینا ۔ 
تصانیف:کرناٹک کے اردو ادیبوں شاعروں اور صحافیوں کی ڈائرکٹری حصہ اول 1998
0 کرناٹک کے اردو ادیبوں شاعروں اور صحافیوں کی ڈائرکٹری حصہ دوم1999ء ؁
0ہمارے مسائل (پروفیسریم بشیر حسین کے مضامین )مرتب
0ڈاکٹر طیب انصاری شخص اور عکس
0خدا جھوٹ نہ بلوائے ،شخصی خاکے ،طنزئے ، انشایئے ، مزاحیہ
0چودہ زبانیں چودہ کہانیاں (ترجمہ)1997
0ڈان اور دیگر پانچ کہانیاں (زیر ترتیب)
ڈوگری ،کونکنی ن سنی پور ی، میتھلی، نیپالی اور پہاڑی کہانیوں کا مجموعہ
اد بی خدمات: پانچویں سہے کے اواکر سے کسی نہ کسی طرح زبان کی خدمت۔جنرل سکریٹری مجلس ادب ،بنگلور
انعامات:توصیفی اعزاز بائے فروغ اردو انجمن ترقی فنکار انِ اردو 
0مغربی بنگال اردو اکیڈمی ایوارڈ
0مجلس ادب بنگلور گولڈن جوبلی ایوارڈ
0نگینۂ ادب ایوارڈ برائے اردو خدمات
****
مونچھ والے تیرا جواب نہیں ۔۔۔
عظیم الدین عظیم

یہ ویرپن بھی عجیب آدمی ہے ۔ مینڈک اور بھالو کی ساری خصلتیں اس میں موجود ہیں ۔ جاڑے کا موسمHibernation میں گزارتا ہے ۔جب جاگتا ہے تو بھیڑ یئے کی طرح کسی گاؤں کے فارم ہاؤس سے کسی معروف شخصیت کو بھیر بکری جیسے اٹھالاتا ہے۔ پھر کیا ہے ٹیپ ریکارڈ ر سامنے رکھ کر اپنی راگ الاپتاہے ۔ (اسے گانا نہیں آتا) کبھی جے للتا اماں کو تو کبھی کرشنا اوارو کو اپنا کیسٹ بھیج کر اپنی مدھر آواز سے ان کا دل جیتنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ساتھ یہ دھمکی بھی دیتا ہے کہ پچھلیبار کی طرح اگر وعہ وفا نہ کیا تو وہ بھی بے وفا ہوجائے گا۔ اس کے کیسٹ استاد بڑے غلام علی خاں ، پنڈت بھیم سین جوشی ، استاد امجد علی خاں ۔ پنڈت روی شنکر، گنگوبائی ہانگل ، بیگم اختر ،نورجہاں ، ایم ایس سبو لکشمی ی لتا منگیشکر کے گانو ں اور موسیقی والے نہیں ہوتے ۔ ویرپن کے کیسٹوں میں صرف مطالبات ہوتے ہیں اور وہ تحت اللفظ ہوتے ہیں ۔ جنگل سے کیسٹ حاصل کرنے کے بعد کا حال ذرا سنئے۔کیسٹ کی زبان تمل ہے ۔ نہ ادبی تمل اور نہ صحافتی تمل بلکہ جنگلی تمل ۔کرناٹکسرکار کو ایک تمل مترجم کی ضرورت پڑتی ہے جو تینوں زبانوں تمل کنڑا اور انگریزی پر عبور رکھتا ہو۔ کنڑا اورانگریزی ترجمے پر ایک ماہرین کی کمیتی بٹھائی جاتی ہے ۔ پندرہ بیس برس سے ایسی کمیٹی کام کررہی ہے ۔ اور وہ بھی ایس ٹی ایف جیسی ہے جو کسی کا اغوا یا کسی پر حملہ ہونے پر کام شروع کرتی ہے ۔ اس کے بعد خاموش یعنی مرض ہائی برنیشن میں مبتلا ۔صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو تینوں ۔ویرپن، ایس ٹی ایف اور کیسٹ اڈوائزری کمیٹی اس مرض کے شکار ہیں ۔لیکن ویرپن کی بات ہی کچھ اور ہے ۔ وہ وقت بے وقت جاگ جاتا ہے ۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایس ٹی ایف گہری نیند میں ہے ۔ بغیر وقت ضائع کئے وہ اپنی ٹولی کے ساتھ شکار پر نکل جاتاہے ۔اس کے پاس راج کماروں اور ناگپاؤں کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ جس کے مطالق سال میں ایک دو بار شکار کھیلتا ہے ۔ پلان کے مطابق اپنا جال پھینکتا ہے جو کبھی خالی نہیں جاتا ۔ پھنسے ہوئے کولے کر اپنے غار میں پہنچ جاتا ہے ۔دوسرے دن اخباروں اور میڈیا کے ذریعہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے ۔اس آگ کی تپش سوئی ہوئی ایس ٹی ایف کو بھی محسوس ہوتی ہے۔ اور وہ ہڑ بڑا کر اٹھتی ہے جیسے کوئی خوفناک خواب دیکھا ہو۔ ہولا جو لی کا منظر ۔ ادھر ادھر باؤلوں کی طرح دوڑنے لگتیہیں ۔ لیدروں کی میٹنگیں شروع ہوتی ہیں ۔ وزیر اعلیٰ اور وزیردالہ دہلی پہنچ جاتے ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ اور شاعر اعظم سے ملاقات کرتے ہیں ۔ دونوں یقین دلاتیہین کہ مرکز سے جو بھی تعاون چاہئے ملے گا۔ نتیجہ خوشی خوشی ہمارے لیڈر بنگلور لوٹ جاتے ہیں۔

واہ رے انصاف از:لئیق اختر فیض آبادی


واہ رے انصاف از:لئیق اختر فیض آبادی
’’انصاف کو اگر تم اس کی اصل صورت مین رکھنا چاہتے ہو تو اتر پردیش میں دیکھ لو۔ ۔۔۔ یہ کہہ کے مرزا چیکن جیسے ہی چپ ہوئے میں نے پوچھا ۔۔۔ قبلہ آج کل ہمارے ملک میں بڑے بڑے لیتا آئس کریم بن چکے ہیں اور حکومتیں سردخانے میں ٹھٹھر رہی ہیں کیوں کہ ان دنوں عدالتیں اور سی بی آئی بہت سرگرم ہیں ۔اگر آپ نے انصاف پر کوئی نکتہ چینی کی تو آپ کی ساری حق بیانی اور صاف گوئی کو بلا ضمانت وارنٹ جاری کردیا جائے کیوں کہ طویل عرصہ کے بعد انصاف کھل کے سامنے آیا ہے ۔دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کیا جارہا ہے ۔ سفید پوشان سیاست کے بدن کے سیاہ دھبے سامنے آرہے ہیں ۔چھپے ناسوراب چھپائے نہیں چھپ رہے ہیں لہٰذا اگر آپ کو زحمت نہ ہوتو فرس زبان کو لگام لگالیں۔
مرزا نے زور دار قہقہہ لگا کر فرمایا۔ اجی گھبراؤ نہیں انصاف اور قانون کی نوک پلک سے اگر ہم واقف نہ ہوتے تو ہرگز سر مغزنی نہ کرتے ۔سنو اور غور سے سنو ۔ ہمارے لکھنؤ میں دو وقف بورڈہیں ایک کانام نامی بحکم سرکار سنی سنٹرل وقف بورڈ اتر پردیش ہے اور

یونیورسٹی مہربان تو۔۔۔ محمد امجد علی فیضؔ


محمد امجد علی فیضؔ 
اصلی نام :امجد علی 
تخلص:فیضؔ 
ولدیت:محمد یوسف علی
ولادت:۳۱ اکتوبر ۱۹۶۵ء ؁ 
تعلیم :بی ۔ اے (سیول)
مشاغل:مطالعہ ، طنز یہ ومزاحیہ مضامین نگاری ، اور کلاسیکی موسیقی سے دلچسپی
مزاح نگاری کی ابتداء:1987سے
تصانیف:اولین تصنیف زیر اشاعت ہے۔
***

یونیورسٹی مہربان تو۔۔۔
محمد امجد علی فیضؔ 


گریجویشن کا آخری سال گذرے ہوئے ایام پر نظر ڈالتے ہیں تو ہماری آنکھوں کے آگے کارناموں کی قوس قزح سی تن جاتی ہے اور دوسرے ہی لمحے اس کے سارے رنگ آسمان کی وسعتوں میں کہیں تحلیل ہوجاتے ہیں ذہین کے پردے پر چند دھندلے دھندلے سے منظر ابھر تے ہیں، ڈوب جاتے ہیں ۔ ہم نے ان برسوں میں پایا کچھ نہیں کھویا بہت ہمیں اچھی طرح یاد ہے سل اول تو اس تذبذب میں گذر گیا کہ کیا پڑھیں ۔ کیسے پڑھیں شام کا وقت یہ سوچ کر ٹال جاتے کہ رات جم کر پڑھیں گے ۔مگر رات شکم سیر ہوتے ہی ارادہ ملتوی ،شکم سیر ی اور پڑھائی ریلوے پٹری پر کب چلے بیل گاڑی ، لمبی تان کر سوجاتے اس ارادت سے کہ علی الصبح جاگ جائیں گے تو ساری کسر پوری کرلیں گے مگر وہ سبح کبھی نہیں آئی البتہ کئی بار یہ خیال ضرور آیا ہم گریجویٹ نہیں ہوتے یا پڑھے لکھے ہونے سے رہ جاتے تو کیا ہوتا ۔
ع ڈبویا ہے مجھ کو پڑھنے نے نہ پڑھتا میں تو کیا ہوتا 

درس قرآن از:حافظ حفیظ الرحمن اعظمی عمری


درس قرآن 
از:حافظ حفیظ الرحمن اعظمی عمری
(اساتذہ جامعہ کے تربیتی اجتماع میں ۱۴/مارش کو بعد نماز فجر مولانا حافظ حفیظ الرحمن اعظمی مدنی نے درس قرآن دیا تھا ۔ جو موجودہ حالات کے پس منظر میں بڑا ہی فکر انگیز اور سبق آموز تھا ۔ آج کے مظلوم مسلمانوں کی بعض غلط فہمیوں کا ذکر کرتے ہوئے دین و ایمان کے حقیقی تقاضوں کو واضح کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ راستہ سخت صبر آزما بھی ہے اور ایک طرح کی قربان گاہ بھی ،سچ تو یہ ہے کہ ؂
یہ شہادت گہہ الفت میں میں قدم رکھنا ہے 
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
لیکن ایک مومن صادق کا انجام بہر حال بے حد روشن اور تابناک ہوتا ہے ۔ح۔۱)
’’یا ایھاالذین اٰمنو اذکروانعمۃ اللہ علیکم اذجا ء تکم جنود فارسلنا علیھم ریحاوجنودا لم تروھا ط و کان اللہ بما تعملون بصیراً اذجاء وکم من فوقکم ومن اسفل منکمواذ زاغت الابصار و بلغت القلوب الحناجروتظنون باللہ الظنوناط ھنالک ابتلی المومنون وزلزلو ازلزالا شدیداً۔(الاحذاب۹تا۱۱)‘‘
ترجمہ:اے ایمان والواللہ کا انعام اپنے اوپر یاد کرو جب تم پر بہت سے لشکر چڑھ آئے پھر ہم نے ان پر ایک آندھی بھیجی اور ایسی فوج بھیجی جو تم کو دکھائی نہ دیتی تھی اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھتے تھے ،جبکہ وہ لوگ تم پر آچڑھے تھے اوپر کی طرف سے بھی اور نیچے کی طرف سے بھی جب کہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے اور تم لوگ اللہ کے ساتھ طرح طرح سے گمان کررہے تھے اس موقع پر مسلمانوں کا امتحان لیا گیا اور سخت زلزلہ میں ڈالے گئے ۔
یہ سورۂ احزاب کی کچھ آیتیں ہیں اور یہ اہل علم اور علمائے دین کی مجلس ہے اور اس اجلاس کا مقصد چونکہ تذکیر ہے تو میں بجائے اس کے کہ آیت کے علمی نکات بیان کروں اس میں تذکیر کا جو پہلو ہے صرف اسے نمایاں کرنے کی کوشش کروں گا ۔ انشاء اللہ تعالیٰ
آج ہر پڑھے لکھے مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی وہ تمام باتیں یاد ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دینے کے سلسلہ میں بطور وعدہ کئے ہیں اور ہر مسلمان شاکی ہیکہ اللہ نے محض وعدے کئے ہیں کہ مسلمان کو وہ دوں گا لیکن ملتا کچھ بھی نہیں ہے ۔ مسلمان کو یہ شکوہ تو ہے ، لیکن وہ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے یہ سب چیزیں کب دینے کا وعدہ کیا ہے اور اس کے لئے کونسا وقت مقرر کیا ہے اور یہ سب وعدے حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کو کیا کیا قربانیاں دینی ہیں ۔ اس بات کو وہ بھول جاتے ہیں ۔
سورۂ احزاب کی یہ جوآیتیں پڑھی گئیں وہ ایسی ہی قربانیوں کے واقعات کو یاد دلاتی ہیں غزوات تو بہت ہیں ۔سیرت کی کتابوں میں ہم پڑھتے ہیں اور حدیث میں بھی ہم پڑھتے ہیں ۔ خود قرآن شریف کے اندر ہم دیکھتے ہیں ۔ غزوۂ بدر،غزوۂ احد، غزوۂ احزاب، غزوۂ حنین ، صلح حدیبیہ ، فتح مکہ ، ان سب کے واقعات تفصیل کے ساتھ بھی اور کہیں اشارہ کے اندر موجود ہیں لیکن یہ جو آیتیں پڑھی گئی ہیں سورہ احزاب کی ، ان میں غزوہ احزاب کی بڑی تفصیل ہے اور ان کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح کھینچا ہے اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ بار باردہرایا جائے گا ، کیوں کہ احزاب مختلف گروہ ،روئے زمین پر جتنی بھی قومیں تھیں اور جتنے بھی مذاہب تھے یہ سب اسلام کے خلاف صف آرا ہوگئے تو آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی ہی مناظر ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں ’’الکفرملۃ واحدۃ ‘‘ کے تحت جبکہ اسلام کے خلاف کوئی بھی باتہوتی ہے ، ساری دنیا متحد ہوجاتی ہے ،کوئی سازش کے اندر شریک رہتا ہے ۔ کوئی مقابلہ کے اندر شریک رہتا ہے ، کوئی منصوبہ بندی کے اندر شریک رہتا ہے غرض ہر ایک کا تعاون اس کے اندر شامل ہوتا ہے ۔ ایسا ہی ایک واقعہ غزو�ۂ احزاب کا ہے ۔ قرآن کے الفاظ سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے ۔پوری زمین تنگ ہوگئی تھی مسلمانوں کے لئے ، آسمان دشمن ،زمین دشمن ،زمین پر رہنے والا ہر شخص دشمن اور سب کی ایک خواہش اور ایک ہی کوشش کہ کس طرح ان مسلمانوں کو نیست ونابود کردیا جائے اس لئے وہ سب پورے منصوبہ کے ساتھ گھیر رہے تھے ۔ مسلمانوں کو ’’اذجاء واکم من فوقکم ومن اسفل منکم واذزاغت الابصار و بلغت القلوب الحناجر و تظنون باللہ الظنونا‘‘ یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ اس نے انتہائی مختصر الفاظ میں اس وقت کی جو صورت حال تھی اس کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر طرف سے دشمن ہی دشمن ،آگے سے ، پیچھے سے ،اوپر سے ، نیچے سے اور جب دشمنوں پر تمہاری نظر پڑی ،تمہاری نگاہیں ٹھہری رہ گئیں ۔ ’’اذراغت الابصار وبلغت القلوب الحناجر‘‘ اور کلیجے منہ کو آگئے ’’وتظنون باللہ الظنونا‘‘ کمزور ایمان والوں کا عقیدہ ڈگمگانے لگا اور اللہ سے بد گمان ہونے والے بد گمان ہوگئے اور تھا بھی ایسا ہی موقعہ ’’ھنالک ابتلیالمومنون‘‘ ایسی آزمائش کہ ہلا کر رکھ دئے گئے ’’زلزلو اذلاذالا شدیدا‘‘ اور کتنے ہی کمزور عقیدے کے لوگوں کی زبان سے یہ نکل آیا ’’ماوعدنا اللہ ورسولہ الاغرورا‘‘ نعوذباللہ اللہ نے ہمیں دھوکہ دیا ۔ رسولؐ نے ہمیں دھوکہ دیا اور بری طرح لاکے ہمیں پھنسا دیا ۔ اس قسم کے الفاظ ان کی زبانوں سے نکل گئے ،آپ اندازہ لگایئے کیسا منظر ہوگا ۔دشمن ہر طرف سے اور اتنی تعداد میں کہ مقابلہ نا ممکن ہوگیا ۔ نبی کریم ؐ نے اللہ کے حکم کے مطابق ’’وشاورھم فی الامر‘‘ وامرھم شوری بینھم‘‘ صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا تو آپ ؐ کے جانثار صحابہ میں حضرت سلمان فارسیؓ جن کی عمر بھی زیادہ تھی ،تجربہ بھی زیادہ تھا ۔ مشاہدہ بھی طویل تھا ۔ انہوں نے آپ کو یہ مشورہ دیا ’’جب دشمن کی تعداد اتنی زیادہ ہے اور وہ ہر طرف سے آرہا ہے تو بچاؤ کا ایک ہی راستہ ہے کہ مدینہ کے اطراف خندق کھودی جائے اور دشمن کو روک دیا جائے ۔ خندق کے اس پار سلمان فارسیؓ ایک تجربہ کار صحابی تھے ، بہت دور سے آئے تھے ۔بہت سے مذاہب کا انہوں نے مطالعہ کیا ، اور اس کے بعد انہیں چین اور سکون ملا تو اسلام کے سائے میں آپ اپنے کو پردیسی نہ محسوس کریں ۔ اس لئے نبی کریمؐ نے فرمایا ہم میں سے ، ہمارے خاندان اور ہمارے گھر والوں میں سے ہیں ۔ اب خندق کھودنے کا کام شروع ہوا ۔ مدینے کے اطراف دو پہاڑوں کے بیچ میں ، خندق کھود نے کا کام جاری ہے۔ دن رات کام ہورہا ہے ، لوگ اپنی روز مرہ کی مزدوری اور محنت کو چھوڑ چکے ہیں ۔ حالاں کہ انہیں غلہ ان کی مزدوری اور محنت سے ملا کرتا تھا ۔ اب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے دن رات وہ مصروف ہیں ۔ جب وہ کام پہ نہیں جائیں گے تو انہیں کھانا بھی نہیں مل سکے گا ۔ بھوکے ہیں ،پیاسے ہیں ، تکلیف اور پریشانی کے اندر مبتلا ہیں لیکن وہ اس کام میں مصروف ہیں ، بھوک کی شدت کا حال سیرت کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے ،روایت اور تفسیروں کے اندر بھی موجود ہے اور جب بھوک ناقابل برداشت ہوگئی تو کچھ لوگ نبی کریم ؐ کے پاس پہنچے اور اپنے پیٹ دکھائے کہا کہ بھوک کی شدت کی وجہ سے اٹھا بیٹھا نہیں جاتا ، جھکنا مشکل ہوگیا ہے ۔دیکھئے ہم اپنے پیٹ پر پتھر باندھ رکھے ہیں ، سب کو دیکھا نبی کریم ؐ نے ،اس کے بعد آپ ؐ نے جواب زبانی دینے کے بجائے اپنے شکم مبارک سے چادر ہٹائی۔ صحابہؓ نے دیکھا کہ آپ کے شکم مبار پر دو پتھر بندھے ہوئے ہیں ۔ اب کسی کو کچھ کہنے سننے کی مجال نہیں تھی ، سب واپس ہوگئے ۔ نبی کریم ؐ انہیں اس دنیا سے دے بھی کیا سکتے تھے ۔ آپ ؐ نے ان کی حالت زار کو دیکھ کر فرمایا ’’اللھم لاعیش الاٰخرۃ۔فاغفرالانصار والمھاجرہ۔ یہ لوگ ہیں جنہوں نے سب کچھ قربان کر کے دین کو اختیار کیا ۔ اس دنیا میں انہیں کیا آرام ملے گا بس ان لوگوں کو تو آخرت ہی میں آرام مل سکتا ہے وہیں چین و سکون سے رہ سکتے ہیں ۔فاغفرالانصاروالمھاجرہ۔اے پروردگار ان تمام مہاجرین اور ان تمام انصار کو معاف فرما اور انہیں جنت نصیب فرماتا کہ کم سے کم وہاں عیش و آرام سے رہیں اس دنیا سے یہ لوگ کچھ لینے کے لئے نہیں آئے ہیں بلکہ دینے کے لئے آئے ہیں ان کی ساری زندگی قربانی سے عبارت ہے ۔ ان لوگوں نے نہ صرف اپنا پرانا دین چھوڑا بلکہ اپنا وطن بھی چھوڑا ،گھر بار بھی چھوڑا ،اپنے کاروبار بھی چھوڑے کتنے لوگ تھے جو اپنے اہل و عیال کو بھی چھوڑ دئے ۔
یہ صحیح ہے کہ ابتدائی دور میں مشرف بہ اسلام ہونیوالے لوگوں میں سے ایک بڑی تعداد غریبوں کی تھی ، مسکینوں کی تھی لیکن سبھی ایسے نہیں تھے ۔ کچھ ایسے بھی تھے جو اپنے طور پر بڑے خوشحال تھے جن کے پاس دنیا کی بہت سی نعمتیں تھیں ، لذتیں تھیں ، عیش و ؤرام کا ہر سامان موجود تھا ۔ حضرت صہیب رومیؓ کا واقعہ تو آپ سنتے ہی ہیں ، ایک بڑے تاجر تھے ۔ لیکن ہجرت کے وقت جب جانے لگے تو ان کا مال تجارت اور ان کی جمع پونجی سب کفار نے چھین لی اور اپنا فرمان سنا دیا کہ تم کو جانا ہوتو تنہا جاؤ ۔ ان چیزوں کو لے کر تم نہیں جاسکتے ۔ پر سب کچھ انہوں نے چھوڑ دیا ۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک شخصیت حضرت مصعب بن عمیرؓ کی تھی یہ بھی بڑے خوشحال ،خوش لباس ،خوش پوشاک تھے ہمیشہ عطر کی خوشبو میں بسے رہتے تھے ۔روایتوں میں آتا ہے کہ جس گلی سے گزرتے گھر کی عورتیں جان لیتیں کہ مصعب بن عمیرؓ جارہے ہیں ، اسلام کو سینے سے لگایا تو گھر والوں نے ان کو ہر نعمت سے محروم کردیا دولت سے ، نعمت سے ، ہر چیز سے محروم کردیا ۔ اب ساری پرانیشان و شوکت رخصت ہوچکی ہے لیکن علم کے اندر ان کا اپنا ایک مقام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب مدینہ میں اسلام پھیلنے لگا تو ان کو اسلام سکھانے کے لئے نبی کریم ؐ نے مدینہ بھیجا ،شکل و شباہت میں بھی یہ نبی کریم ؐ سے قریب تر تھے ۔ جنگ احد کے موقع پر مسلمانوں کا جھنڈا انھیں کے ہاتھوں میں تھا ، اور یہ شہید ہوئے تو مشہور ایسا ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و لم شہید ہوگئے ۔ تدفین کا جب موقع آیا تو ان کے کفن کے لئے بھی کچھ نہیں تھا ۔ ایسی شخصیت جو مکہ کے اندر خوشحال اور خوش پوشاک کی حیثیت سے مشہور تھی ۔ ان کی تدفین کا وقت آتا ہے تو ان کے دفنا نے کے لئے خاص کفن نہیں بلکہ ان کے جسم پرجو ایک پرانی چادر یا کمبل رہتی تھی وہی ہے اب کفن کے لئے۷ ، وہی مختصر پرانی چادر ہے جو ان کے سراپا سے چھوٹی پڑتی ہے ۔ سر کی طرف کھینچتے ہیں تو پیر نظر آتا ہے اور پیر کی طرف کھینچتے ہیں تو سر نظر آتا ہے ۔ صحابہ کرامؓ نے نبی کریم ؐ کی طرف دیکھا تو آپ ؐ نے فرمایا چادر سے سر کو ڈھانک دو اور پیر پر گھانس ڈالدو ۔ ؂
اسی کی راہ میں سب کچھ لٹا دیا ہم نے 
یہاں تو وہ بھی نہیں جو کفن کے کام آئے 
معلوم ہوا کہ سبھی لوگ مسکین اور غریب نہیں تھے ۔ بڑے خوشحال لوگ بھی تھے ۔حق جب ان پر واضح ہوا تو ان کے پاس جو کچھ تھا سب قربان کردیا اور قربانی کر کے اسلام کے آغوش میں آئے ۔ تو نبی کریمؐ فرماتے ہیں ۔ ’اللھم لاعیش الاعیش الاخرۃ‘‘کہ یہ لوگ آخرت کے آام ہی کے لئے آئے ہیں ۔ اے اللہ تو انہیں معاف فرما، ان کی لغزشوں کو معاف فرما اور آخرت کا جو انعام ہے کم سے کم وہ انعام تو انہیں عطا فرما ، چونکہ اس دنیا کے اندر نبی کریم ؐ انہیں سرف ایک عقیدہ دینے کے لئے آئے تھے ۔ایسا عقیدہ جو انہیں سر بلند کرسکتا تھا کیوں کہ انسان اس عقیدے کے بغیر بہت ذلیل تھے ۔ اللہ نے انسان کو احسن تقویم میں بنا کر سب سے اوپر رکھا ہے یہ سر غیر اللہ کے سامنے نہیں جھکنا چاہئے ۔ یہ جھکے گا تو صرف اسی خالق کے آگے جھکے گا ۔ یہی اسلام کی تعلیم ہے لیکن جب انسان اس تعلیم کو نہیں جانتا تھا ، نہیں سمجھتا تھا تو اس ’’سر‘‘ کی قدر و قیمت سے واقف نہیں تھا تو یہ سروہ ہر کنکر کے آگے جھکا تا تھا ، ہر پتھر کے آگے وہ اپنے سر کو جھکاتا تھا اور جتنی بھی چیزیں انہیں نفع پہونچا سکتی تھیں یا نقصان پہنچا سکتی ان تمام چیزوں کے آگے وہ اپنے سر کو جھکا تا تھا ، اس سر کی کوئی حقیقت نہیں تھی ’’لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم oثم رددنہ اسفل سافلین‘‘ اللہ تعالیٰ نے تو اس کے سراپا کو ایسا بنا یا کہ انسان کا سر کبھی نہ جھکے ۔ آپ دیکھئے دنیا کی اور مخلوق میں اور انسان کے اندر یہی فرق ہے ۔ دنیا کی اور مخلوق جب کھانا دیکھتی ہے ،روٹی دیکھتی ہے ،گھاس ،پانی دیکھتی ہے تو اس کا سر خود بخود جھک جاتا ہے ۔ ان تمام چیزوں کو اٹھانے اور کھانے کے لئے ۔ لیکن انسان کی طرف کھانا پانی سب اٹھ کے آتے ہیں ۔ اس کا سر کھانے کے لئے نہیں جھکے گا ، اس کا سر روٹی کے لئے نہیں جھکے گا ،’’لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم‘‘ لیکن یہی انسان مادہ پرستی کے آگے جھک جائے گا روحانیت سے عاری ہوکر مادیت میں لگ جائے گا ، تو اب اسی روٹی کی خاطر حلال حرام میں کسی چیز کی تمیز اس کے اندر نہیں رہے گی ۔ یہ جتنے بھی ناجائز طریقے ہیں دولت کے حصول کے ،رشوت ،چوری ، دھوکہ ، فریب ان تمام چیزوں کو اختیار کرے گا ۔ ’’ثم رددنہ اسفل سافلین‘‘صحابہ کی آزمائشیں آپ ؐ کی آنکھوں کے سامنے ہوتی تھیں اور آپ کو خیالا بھی شاید دل میں گزر تا ہوگا کہ یہ لوگ آرام ، راحت اور چین کے ساتھ رہتے تھے لیکن جب میں نے ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی اور انہوں نے اسے قبول کیا ۔ یہ ساری مصیبتیں اس کے بعد ہی ان پر ٹوٹ پڑیں ۔ آپ ؐ کی آنکھوں کے سامنے یہ سارے مناظر گزرتے تھے ۔ کمزور عورتیں تھیں ان کے مالک اور ان کے آقا بہت ہی شرمناک ایذائیں دیا کرتے تھے ۔ برچھیاں چبھویا کرتے تھے ۔ حضرت بلالؓ کے ساتھ جو ہوتا تھا ،حضرت سمیہؓ اور حضرت یاسرؓ، کے ساتھ جو ہوا یہ سب نبی کریم ؐ دیکھتے اور آپ سوائے اس کے کہ یہ فرماتے ’’صبوایا آل یا سوموعدکم الجنۃ‘‘ کہ میں نے جو عقیدہ تمہیں دیا ہے ۔ جس عقیدہ کو تم نے قبول کیا ہے اس عقیدہ کے ذریعہ تم کو آخرت میں جنت ملے گی ۔دنیا والے اس عقیدہ کی قدر و قیمت سے واقف نہیں ہیں ۔ حالاں کہ یہ انسان کو اس کا صحیح مقام عطا کرتا ہے ، اور اسے سر بلند کرتا ہے ، لیکن پھر بھی دنیا کے لوگ جس چیز کو نہیں جانتے ،وہ اس کے دشمن ہوتے ہیں ، اسے ستاتے اور پریشان کرتے ہیں ، تم صبر کے ساتھ ، ثابت قدمی کے ساتھ رہو ، ’’موعد کم الجنۃ‘‘ اللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں بہت اونچا اور بہت بڑا مقام عطا فرمائے گا ۔
غرض یہ صحابہ کرامؓ جنہوں نے اسلام کو گلے لگا لیا ، اس قرآن کی تعلیم کو قبول کیا اور اس قرآن کے مطابق اپنی زندگیوں کو شروع کیا ۔ ۱۵سال تک ان کی زندگیوں میں کیا گزری مت پوچھئے ۔پندرہ سال کی صبر آزما زندگی کے بعد سورۃ الحج میں انہیں اجازت دی گئی ’’اذن للذین یقاتلو ن بانھم ظلمواوان اللہ علٰی نصرھم لقدیر الذین اخرجوامن دیا ھم بغیر حق الاان یقولو اربنا اللہ ‘‘ کہا گیا کہ ۱۵ سال تک جو حق کی خاطر ظلم سہتے رہے اور ظلم سہتے سہتے کتنے لوگوں نے اپنی جانیں دے دیں لیکن پھر بھی ان کے پائے چبات میں لغزش نہیں ہوئی ۔اب ایسے تمام لوگوں کو اللہ کی طرف سے اجازت ہے کہ ظالموں سے اپنے ظلم کا بدلہ لے سکتے ہیں ۔’’ان اللہ علیٰ نصیر ھم لقدیر‘‘ اللہ تعالیٰ ان کی مدد پر پوری طرح قدرت رکھتا ہے ۔ یہ قدرت تو اللہ کو پہلے ہی دن سے تھی لیکن اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ مسلمان کوشش کے ذریعہ ،ہوش کے ذریعہ منصوبہ بندی کے ذریعہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں ۔ ان کا ایمان اندھا ایمان نہیں ہونا چاہئے ۔ بلکہ ان کا ایمان ٹھوس بنیادوں پر ہونا چاہئے تاکہ اسے کوئی چیز گمراہ نہ کرسکے ، کوئی چیز اسے ہلا نہ سکے پھر فرمایا یہ جو ظلم ان پر روارکھے گئے تو ان کا جرم کیا تھا ۔ انہوں نے کوئی قتل نہیں کیا ، انہوں نے ڈاکے نہیں ڈالے ، انہوں نے زمین میں فساد نہیں پھیلایا اگر ان کا جرم تھا تو صرف ایک ہی جرم تھا ۔ وہ یہ کہ یہ لوت اپنے رب کو پہچان گئے ۔’’الذین اخرجوامن دیار ھم الاان یقو لو اربنا اللہ‘‘ انہوں نے یہ کہا ہمارا پیدا کرنے والا اللہ ہے ۔ ان کے صرف یہ کہنے پر ساری قوم دشمن ہوگئی تھی اور انہیں اس قدر پریشان کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ ہر جنگ اپنی نوعیت کے اندر عجیب و غریب تھی ۔’’جنگ بدر‘‘ اس جنگ کو تورشتوں کی جنگ کہا جاتا ہے ۔ کیوں کہ دونوں طرف تو ایک ہی خاندان کے افراد تھے ۔ ایک طرف باپ ہوتا تو دوسری طرف بیٹا ہوتا ۔ ایک طرف ماموں ہوتا تو دوسری طرف بھانجا ہوتا ، ایک طرف چچا ہوتا تو دوسری طرف بھتیجے ہوتے ، اییسی تھی وہ جنگ لیکن انہوں نے اسلام کی خاطر اس کو قبول کیا اور رشتوں کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوگئے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’لاتجرقوما یو منونباللہ و الیوم الاخریوادون من حاداللہ ورسولہ ولو کانو ا اٰباء ھم اوابنا ءھم اواخوانھم او عشیر تھم ‘‘ کہ وہ یہ لوگ ہیں کہ اللہ کے رسول کی خاطر دنیا کے کسی رشتے کو خاطر میں لانے والے نہیں ہیں ۔ چاہے وہ رشتہکیسا ہی عزیز اور کیسا ہی قریب کا کیوں نہ ہو ۔ اس جنگ کو قرآن نے’’ یوم الفرقان‘‘کہا۔
دوسری جنگ ’’جنگ احد ‘‘ ہے اس جنگ میں بنی کریم ؐ کے حکم کے ذرا سی خلاف ورزی سے جیتی ہوئی بازی ہار میں بدل جاتی ہے ۔ اس میں خود بہت بڑا سبق ہے کہ نبی ؐ کے احکام چاہے وہ سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں ہم ان کی گہرائی میں گئے بغیر عمل کریں گے کیوں کہ جنگ احد میں آپ نے تیر اندازوں کو ایک پہاڑ پر جمے رہنے کا حکم فرمایا اور بتادیا کہ فتح ہوکہ شکست آپ لوگ یہیں رہیں گے ’’جبل الرفاۃ ‘‘ سے انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ فتح مکمل ہوچکی ہے کفار کی فوج دوڑ رہی ہے تو وہ اپنے مقام سے اتر آئے پھر کیا تھا ،جیتی ہوئی بازی شکست میں بدل گئی کفار واپس لوٹ کر آئے اس کے بعد پانسہ الٹ گیا ۔ کیا کیا تکلیفیں اور اذیتیں مسلمانوں کو برداشت کرنی پڑیں ، نبی کریم ؐ کے دندان مبارک شہید ہوگئے ۔اور آپ ؐ جو خود پہنے ہوئے تھے اس کے حلقے آپ کی کنپٹیوں میں داخل ہوگئے ۔ آپ ایک گہرے گڈھے گر پڑے ،خون تھا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا یہ ساری مصیبتیں نبی کریم ؐ کی ذراسی نا فرمانی کی وجہ سے پیش آئیں ۔ ان کی سمجھ میں بات آگئی کہ ہمارا کام ختم ہوگیا ۔ ہمیں جو حکم دیا گیا تھا وہ پورا ہوگیا ، حالانکہ وہ حکم پورا نہیں ہوا تھا ، ذرا سی نافرمانی کی وجہ سے پوری امت کو اور پوری قوم کو کیسی شکست ہوتی ہے اور کیسی ذات ہوتی ہے ، اس کے اندر یہ نکتہ موجود ہے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی کس قدر خلاف و رزیاں ہم سے ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہم اپنے آپ کو نہیں دیکھتے ہیں ، اپنے اعمال کو ہم نہیں دیکھتے ہیں م اپنے عقائد کو ہم نہیں دیکھتے ہیں ، اپنی تاریخ کو ہم نہیں دیکھتے ہیں ، اور اللہ تعالیٰ نے ماضی میں جن قوموں کو نوازا اور بام عروج تک پہنچایا وہ سب کتنی قربانیوں کے بعد ہوا ، یہ سب ہم نہیں دیکھتے ہیں ، ہم اپنی کسی چیز کا جائزہ نہیں لیتے ہیں بلکہ ہر مسلمان آج یہی کہتا ہے کہ اللہ ہمارا ہے ، ہم اللہ کے ہیں ، لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ ہم سے صرف وعدہ کرتا ہے اور دیتا کیوں نہیں ؟ مسلمانو صرف یہی سوال کرتا ہے گویا ہر مسلمان کو آج اللہ تعالیٰ سے یہ شکوہ ہے اور یہ شکایت ہے کہ ہم اللہ کے ماننے والے ہیں اس کے باوجود ہم کیوں رسوا ہیں ؟
’’أحسب الناس ان یترکواان یقولوااٰمنا وھم لایفتنون ولقد فتنا الذین من قبلھم‘‘ یہ سب چیزیں ہم پڑھتے ہیں اور پڑھا تے ہیں اور جانتے بھی ہیں ۔دیکھئے صحابہؓ پورے پندرہ سال تک ظلم سہتے رہے اس راہ میں کتنے لوگ تھے جو اپنی عزیز جانیں گنوابیٹھے ، کیا کیا ان پر گزرا ، ۱۵ سال کوئی معمولی مدت نہیں ہوتی ، اس کے بعد انہیں اجازت دی گئی ۔ اب تاریخ اوراق الٹتی ہے اور ایک نئی تاریخ رقم ہوتی ہے ۔مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے وہ سب کچھ دیا جس کی انہوں نے توقع بھی نہیں کی تھی اب وہ دنیا میں لینے والے نہیں رہے ۔ صرف عقیدہ ہی نہیں صرف ایمان ہی نہیں ،ساری چیزیں ،اخلاق ، تمدن ، تہذیب اور سارے لوگوں کو زندگی کی بھیک دینے والے بھی بن گئے ، جولوگ ان کی زندگیوں کے مالک بن کر انہیں تاتے تھے ، انہیں استعمال کرتے تھے ، جیسے چاہتے تھے ،جہاں چاہتے تھے ،نکال دیتے تھے ، جس چیز سے چاہتے تھے محروم کردیتے تھے ، آخرانہوں نے کیا کچھ نہیں کیا ۔ ان کی مرضی سے ان کو کعبۃ اللہ میں عبادت نہیں کرنے دیتے تھے ، جو سب کے لئے عام تھا ۔ نہ ان کو اعتکاف کی اجازت دی جاتی تھی ، نہ اذان کی آواز بلند کرنے کی اجازت دی جاتی تھی ،اور نہ نماز پڑھنے کی اجازت دی جاتی تھی ۔ لیکن ۲۱ سال کے اندر کا یا ایسی پلٹتی ہے ، تاریخ ایسی بدلتی ہے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر وہ سب لوگ کہتے ہیں آج ہمارے ساتھ کچھ بھی سلوک کیا جائے ، ریزہ ریزہ کردیا جائے ، ہماری بوٹی بوٹی نوچ کر پھینک دی جائے ، ہمارا خون بہادیا جائے ۔سب کا حق آپ کو پہنچتا ہے کیوں کہ ہم نے آپ لوگوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’اذھبو اانتم الطلقاء لاتثریب علیکم الیوم یغفراللہ لکم وھو ارحم الراحمینo‘‘
ہماری پوری تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ سب سے پہلے ہمیں قربانیوں کے لئے تیار ہونا ہوگا ۔اور جب ہم اللہ کی راہ میں قربانیاں دیں گے اور یہی اللہ کا قانون بھی ہے ۔’’ان تنصر واللہ ینصر کم ویثبت اقدامکم‘‘آپ ہر ایک کی زندگی میں یہی دیکھیں گے ۔ حضرت ابراہیم ؑ کی پوری زندگی قربانی سے عبارت ہے ۔ حکم ہورہا ہے ماں باپ کو چھوڑ دیجئے ۔ ،گھر چھوڑدیجئے ،بیوی کو چھوڑ دیجئے ۔بچے کو چھوڑ دیجئے ، بچے کو ذبح کردیجئے اور ہر امتحان میں کامیاب ، ’’واذابتلیٰابراہیمربہ بکلمات فاتمھن‘‘اس کے بعد اعلان ہوتا ہے ’’قال انی جاعلک للناس اماما‘‘اب آپ اس مقام اور اس مرتبہ کو پہنچ گئے ۔ خوددنیا کا بھی یہی دستور ہے کہ آدمی پڑھتا ہے ، امتحان دیتا ہے ،امتحان لکھتا ہے اس کے بعد پڑھانے والا بنتا ہے ت اب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ سے یہی فرمایا یہ کرو یہ کرو اس کے بعد جب ان کو امام بنادیا گیا اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ حضرت ابراہیم ؑ سے اللہ تعالیٰ کچھ نہیں مانگتا بلکہ اب حضرت ابراہیم ؑ مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ سے ، مجھے یہ دے ، مجھے وہ دے ، مجھے یہ بنا ، پہلی ہی بار جب آپ سے کہا گیا’’ انی جاعلک للناس اماما‘‘آپ نے فرمایا ’’قال ومن ذریتی‘‘میرے خاندان والوں کو میرے بعد کعبۃ اللہ کا متولی بنا ، پھر دوسری فرمائش ملاحظہ فرمایئے کہ مکہ مکرمہ میں آپ اللہ کا گھر بنا کر کہتے ہیں کہ دنیا کے سارے لوگوں کے دلوں کو اس سے جوڑ دے کہ وہ یہاں کھینچ کر آئیں اور آتے رہیں ۔ کیسی عجیب وغریب دعا ہے اور کیسی حیرت انگیز درخواست ہے لیکن اللہ تعالیٰ اسے بھی قبول کرتا ہے اور آج آپ ان تمام حقیقتوں کو بچشم خود دیکھ سکتے ہیں ،یہی طریقہ ہے اللہ کی مدد حاصل کرنے کا ۔اور اللہ کے جو وعدے ہیں وہ وسچے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا یہی قانون ہے اور اللہ کا قانون دنیا کے کسی دور میں ،دنیا کے کسی ملک میں نہ بدلاہے ، بہ بدلے گا ، آج ہمیں اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے کہ سب سے پہلے ہم نیک بنیں گے ، پاکیزہ بنیں گے ، اپنے عقائد کی اصلاح کریں گے ، اپنے اعمال اور اپنے اخلاق کو درست کریں گے ،اور اللہ کے جو بھی احکام ہیں ان احکام کے مطابق ہم اللہ کی راہ میں جان کی ، وقت کی ، مال کی ، فکر کی اور محنت کی قربانی دیتے جائیں گے۔ نتیجہ سے بے پرواہ ہوکر دیتے جائیں گے ،لیکن چونکہ وہ خیر الرازقین ہے ،ارحم الرحمین ہے اور سب سے بڑا انعام دینے والا ہے تو وہ اس دنیا کے اندر بھی دے گا ۔ جبکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو اتنا دیا اتنا دیا کہ اکثر صحابہ کرام جو ایک ایک لقمہ کے لئے محتاج تھے ، ان کی سوانح حیات کتابوں کے اندر موجود ہے جن میں بتایا جاتا ہے کہ کس صحابہ کے پاس کتنی زمین تھی ، کتنا سونا تھا ، کتنی لونڈیاں تھیں ، کتنے نوکر چاکر تھے ، اس موضوع کی مستند کتابیں لائبریریوں میں موجود ہیں ۔ اللہ دنیا میں بھی اس کے ماننے والوں کو بھر پور دیتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے ہمیں اس قربانی کی راہ پر چلنا ہوگا جس پر چل کر ہمارے اسلاف نے وہ تمام چیزیں حاصل کیں ۔
میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سچا اور پکا مسلمان بنائے اور ہمیں بھی اسلاف کی راہ پر گامزن فرمائے۔آمین۔۔۔
*****