ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چند قیدی لائے گئے۔ ان قیدیوں میں ایک خاتون بھی تھی۔ اس کے اور اس کے دودھ پیتے بچے کے درمیان علیحدگی کر دی گئی تھی۔ اس کی نگاہیں اپنے لخت جگر کو چاروں طرف ڈھونڈ رہی تھیں ۔
Thursday, December 14, 2023
ماں اپنے بچے سے زیادہ پیار کرتی ہے یا خالق اپنے بندوں سے ۔؟
قرآن مجید۔۔۔۔ کا مکھی کے بارے میں حیرت انگیز چینلج ۔
" لوگو!
90 کے بچوں کے دکھ عجیب
آج تقریباً ہر وہ شخص جس نے اپنا بچپن یا بچپن کا کچھ حصہ ۹۰ میں گزارا ، عجیب سی جذباتی تنہائ یا اداسی کا شکار ہے ، ہم وہ ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ وقت کی رفتار کو جھیلا ہے ، ٹیکنالوجی ، جذبات اور اشیاء اس قدر تیزی سے بدلی کہ ہم کئ چیزوں کی انتہا اور زوال کے گواہ ہیں
سکردو کے ایک جج صاحب واقعہ
سکردو کے ایک جج صاحب واقعہ سناتے ہوئے بتاتے ہیں کہ میری عدالت میں ایک نوجوان وکیل تھا اس نے پی ایچ ڈی فزکس کر رکھی تھی اور وکالت کے پیشے سے منسلک تھا انتہائی زیرک تھا بات انتہائی مدلل کرتا تھا اس کی خوبی یہ تھی کہ وہ ہمیشہ مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا میری وہاں پوسٹنگ کے دوران میں نے اسے کبھی کوئی کیس ہارتے ہوئے نہیں دیکھا میں اس کی سچائی کا اتنا گرویدہ تھا کہ بعض دفعہ اس کی بات پر بغیر کسی دلیل کے میں فیصلہ سنا دیتا تھا اور میرا فیصلہ ٹھیک ہوتا تھا وہاں تعنیات ہر جج ہی ان کا گرویدہ تھا پوری عدالت میں سب ہی اس کا احترام کرتے تھے بعض مواقعوں پر ججز صاحبان اس سے کیس ڈسکس کر کے فیصلہ کرتے تھے میں اتنا اس کے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجو اس فیلڈ میں آنے اور پھر جج بن جانے کی اہلیت ہونے کے باوجود وکیل رہنے کی وجہ جاننا چاہتا تھا بہت کوشش کے بعد اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں نے یہ سوال اس سے پوچھ ہی لیا...اس نے بتایا کہ میرے نانا انتہائی غریب تھے ان کی اولاد میں بس دو ہی بیٹیاں تھیں انہوں نے بھٹے پر محنت مزدوری کر کے اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوائی ان کی پرورش کی اور پھر ان کی شادیاں کیں میری والدہ کی قسمت اچھی تھی وہ گورنمنٹ سکول میں ٹیچر لگ گئیں جب کہ میری خالہ کو سرکاری ملازمت نہ مل سکی میرے نانا نے بھٹہ سے قرض لے کر اپنی بیٹیوں کی شادی کی میری والدہ نے گھریلو اخراجات سے بچت کر کے میرے نانا کی قرض اتارنے میں مدد کی مگر پھر میرے والد صاحب نے ان کو منع کر دیا تو میرے نانا خود ہی قرض کے عوض مزدوری کرنے لگے جب کہ دوسری طرف میری خالہ کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی تو انہوں نے میری خالہ کو تنگ کرنا شروع کر دیا کئی بار مار پیٹ کر کے میری خالہ کو گھر سے نکالا گیا پھر گاؤں والوں کی مداخلت سے ان کو راضی کر کے بھیجا گیا اور تیسرے مہینے پھر وہ سسرال والوں کے ہاتھوں مار کھا کر والد کی دہلیز پر آ بیٹھیں یہاں تک کہ أخری بار جب ان کے سسرال والے ان کو لے کر گئیے تو ان کے شوہر نے دوسری شادی کر لی اور میرے خالہ کو اس شرط پر ساتھ رکھنے کی ہامی بھر لی کہ گھر کے سارے اخراجات میرے نانا اٹھائیں گے میرے نانا بیٹی کا گھر بسانے کی خاطر مزید مقروض ہوتے گئیے اور پھر سردیوں کی ایک دھند میں لپٹی ہوئی صبح کو جب وہ سائیکل پر جا رہے تھے تو گنے سے بھرے ٹرالے کے نیچے أ گئیے اور اس دنیا سے کوچ کر گئیے جب میرے نانا فوت ہوئے تو تب بھی مقروض تھے....میری والدہ نے میرے والد سے چوری اپنا زیور بیچ کر میرے نانا کے قرض ادا کئیے ان کی تجہیزو تکقین کا انتظام کیا اس معاملے میں میرے دادھیال والوں نے میری والدہ سے کوئی تعاون نہ کیا یہاں تک کہ میرے والد نے بھی نہیں
Saturday, January 17, 2015
سعودی عرب کی وادی جن اور کینیڈا کی مقناطیسی پہاڑی
-------------------------------
بہت سے دوسرے افراد کی طرح مجھ میں بھی وادی جن کے واقعات کو سن کو اس کو خود سے دیکھنے اور تجربہ کرنے کی لگن پید ا ہوئی۔ وادی جن کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ یہاں آپ اگر اپنی گاڑی کے انجن کو بند کر دیں اور اس کے گیئر کو نیوٹرل پر رکھ دیں تو آپ کی گاڑی خود بخود 120کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنا شروع ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ 14کلو میٹر تک مسلسل جاری رہتا ہے۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ وادی جن میں جہاں پر گاڑی کاانجن بند کر دیا جائے اور اس کے گیئر کو نیوٹرل کردیا جائے وہ ایک چڑھائی ہے یعنی کے گاڑی نیچے سے اوپر کی جانب جاتی ہے اور وہ بھی 120کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے۔ وادی جن میں اپنی اور اپنے پاس گاڑی کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے بھی اس تجربے کو آزمایا اور ایسا کرنے کے بعد اس وادی سے منسلک واقعات پر یقین رکھنے کے علاوہ میرے پاس بھی کوئی چارہ نہیں رہا۔
-------------------------
یہ بات مجھے کافی دوستوں نے مسیج میں لکھی ہے۔اور یہ ہی بات میرے کزن نے بھی اپنے ذاتی تجربے سے مجھے بتائی تھی۔کہ ہاں بالکل میں نے بھی گاڑی بند کردی تھی۔اور گاڑی خود بخود 120 کلومیڑ کی رفتار سے دوڑتی رہی۔
اب اس کی درست حقیقت سے میں بالکل ناواقف ہوں ۔ ہاں آپ کو اس مقا م کے متعلق ایک حدیث ضرور بتاتاہوں۔
حارث بن ربیعہ اور عبداللہ بن صفوان حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے پاس گئے اور میں بھی ان کے ہمراہ تھا۔ انہوں نے ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے اس لشکر کے متعلق دریافت کیا جو زمین میں دھنسا دیا جائے گا اور یہ ان دنوں کی بات ہے جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ مکہ کے حاکم تھے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے: "ایک آدمی بیت اللہ میں پناہ لے گا تو ان کی طرف ایک لشکر بھیجا جائے گا جب وہ لشکر بیدا نامی جگہ پر پہنچے گا تو زمین میں دھنسا دیا جائے گا ۔ میں نے کہا: یارسول اللہ ! جو زبردستی اس لشکر کے ساتھ (مجبور ہو کر) شامل ہوا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا "وہ بھی لشکر کے ساتھ زمین میں دھنسا دیا جائے گا مگر روز قیامت اپنی نیت کے مطابق اٹھایا جائے گا۔
ابو جعفر فرماتے ہیں "بیدا مدینے کا ایک میدان ہے"
اس سے ملتا جلتا ایک اور مقام بھی دنیا میں موجود ہے جس کا نام ہے۔ مونکٹن کینیڈا کی مقناطیسی پہاڑی
لاکو خان کی بیٹی اورایک مسلمان عالم کادلچسپ مکالمہ
شہزادی مسلمان عالم سے سوال کرنے لگی: کیا تم لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے؟
عالم: یقیناً ہم ایمان رکھتے ہیں
شہزادی: کیا تمہارا ایمان نہیں کہ اللہ جسے چاہے غالب کرتا ہے؟
عالم: یقیناً ہمارا اس پر ایمان ہے۔
شہزادی: تو کیا اللہ نے آچ ہمیں تم لوگوں پر غالب نہیں کردیا ہے؟
عالم: یقیناً کردیا ہے۔
شہزادی: تو کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ خدا ہمیں تم سے زیادہ چاہتا ہے؟
عالم: نہیں
شہزادی: کیسے؟
عالم: تم نے کبھی چرواہے کو دیکھا ہے؟
شہزادی: ہاں دیکھا ہے
عالم: کیا اس کے ریوڑ کے پیچھے چرواہے نے اپنے کچھ کتے بھی رکھ چھوڑے ہوتے ہیں؟
شہزادی: ہاں رکھے ہوتے ہیں۔
عالم: اچھا تو اگر کچھ بھیڑیں چرواہے کو چھوڑ کو کسی طرف کو نکل کھڑی ہوں، اور چرواہے کی سن کر دینے کو تیار ہی نہ ہوں، تو چرواہا کیا کرتا ہے؟
شہزادی: وہ ان کے پیچھے اپنے کتے دوڑاتا ہے تاکہ وہ ان کو واپس اس کی کمان میں لے آئیں۔
عالم: وہ کتے کب تک ان بھیڑوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں؟
شہزادی: جب تک وہ فرار رہیں اور چرواہے کے اقتدار میں واپس نہ آجائیں۔
عالم: تو آپ تاتاری لوگ زمین میں ہم مسلمانوں کے حق میں خدا کے چھوڑے ہوئے کتے ہیں؛ جب تک ہم خدا کے در سے بھاگے رہیں گے اور اس کی اطاعت اور اس کے منہج پر نہیں آجائیں گے، تب تک خدا تمہیں ہمارے پیچھے دوڑائے رکھے گا، تب تک ہمارا امن چین تم ہم پر حرام کیے رکھوگے؛ ہاں جب ہم خدا کے در پر واپس آجائیں گے اُس دن تمہارا کام ختم ہوجائے گا۔
*****
مسلمان عالم کے اس جواب میں آج ہمارے غوروفکر کےلیے بہت کچھ پوشیدہ ہے!
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے
سیف الاسلام بن کرنل قذافی کی کہانی
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیرکا وہ بیسٹ فرینڈتھا اور برطانوی شاہی خاندان اسے کئی بار اسے buckingham palaceاور winsley castleمیں لنچ اور ڈنر دئیے تھے یہ لندن اور پیرس میں پلے بوائے کی زندگی گزارتااور اسے دنیا جہان کے قانون توڑنے میں وہ بڑا فخر محسوس کرتاتھا اس نے ایک بار پیرس کی shanzelize street پر ایک سو تیس کلومیٹر فی رفتار سے گاڑی چلا کر پوری یورپی دنیا کو حیران کردیااور پیرس کی سٹی حکومت بھر پور کوشش کرنے کے باوجود اس کا چالان تک نہ کرسکی ۔اپنے ملک کی investment authorityکا یہ شخص سربراہ تھا اور یہ اتھارٹی اتنی پاور فل تھی کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی وقت 10 بلین ڈالر تک کی سرمایا کاری کرسکتی تھی اور یہ بہت بڑی بات تھی ۔
جس کے کل تک دنیا کے اربوں پتی لوگ بیسٹ فرینڈز ہوا کرتے تھے آج وہی بے یارو مددگار مدد کے لیئے دہائیاں لگا رہا ہے لیکن کوئی بھی اس کی مدد کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔سیف الاسلام پلک جھپکتے ہی عرش سے فرش پر آگیا اور بادشاہ سے فقیر ہوگیا۔
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بُو نے
کبھی غور سے بھی دیکھا ہے تو نے
جو معمور تھے وہ محل اب ہیں سُونے
مکیں ہو گٔیٔے لا مکاں کیسے کیسے
ھؤے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گٔیٔ نوجواں کیسے کیسے
اسی پہ سکندر فاتح بھی ہارا
ہر ایک چھوڑ کے کیا حسرت سدھارا
پڑا رہ گیا سب یہیں کھاٹ سارا
جوانی میں پھر تجھ کو مجنوں بنایا
بڑھاپے نے پھر آ کے کیا کیا ستایا
اجل تیرا کر دے گی بالکل صفایا
ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا
جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا؟
تجھے حسنِ ظاہر نے دھوکے میں ڈالا
جہاں ساتھ میں کھڑی ہو اجل بھی
بس اب اس جہالت سے تُو نکل بھی
یہ طرزِ معیشت اب اپنا بدل بھی
ہؤی واہ کیا چیز مرغوب تجھ کو
نہی عقل اتنی بھی مجزوب تجھ کو
سمجھ لینا چاہیے اب خوب تجھ کو
نہ چونکا نہ چیتا نہ سمبھلا ذرا بھی
کؤی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی؟
جنون چھوڑ کر اپنے ہوش آ بھی
اور اُٹھے چلے جا رہے ہیں برابر
ہر وقت پیشِ نظر ہے یہ منظر
یہاں پر تِرا دل بہلتا ہے کیونکر
کہیں فِکر و فاقہ سے آہ و بکا ہے
کہیں شکوہ جور و مکر و دغا ہے
ہر ہر طرف سے بس یہی صدا ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
Sunday, July 28, 2013
ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ
ek waqia jo aap ko ruladega
ایک روز امام مسجد سےجس کا تعلق مصر سے تھا،اپنے دل کا مدعا بیان کیا تو انھوں نے کسی امریکی مسلماں عورت سے حقیقی شادی کے مسائل درپیش ہیں،اسلام قبول کرنے والوں میں سیاہ فام قوم کی اکثریت ہے۔انھوں نے مجھے ایک سیاہ فام عورت کا رشتہ بتایا،جسے قبول اسلام کی سزا میں عیسائی والدین نے گھر سے نکال دیا اور وہ مسجد کے قریب کسی مسلمان فیملی کے گھر ، ایک کرائے کے کمرے میں مقیم ہے اور اسلامی سکول میں جاب کرنے لگی ہے اگر تم اسے سہارا دے دو اللہ بھی راضی ہوگا اور تمہاری رہائش قانونی بھی ہوجائے گی۔میں نے اس خاتون کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی امام صاحب نے کہا مغرب کی نماز کے بعد آجانا میں اس سے تمہاری ملاقات کروا دوں گا ۔تمام رات سوچتا رہا کہ اگر سیاہ فام عورت سے شادی کرلی تو خاندان والے ذلیل کردیں گے کہ تمہیں امریکہ میں کوئی گوری نہیں ملی تھی ۔اگر کالی ہی کرنی تھی تو پاکستان میں کیا کمی تھی جیسے جملے کانوں میں گونجنے لگے۔خالہ کی لڑکی کا قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے رشتہ سے انکار کردیا تھا۔اب کوئی جینے نہیں دے گا۔نفس نے پریشان اور امریکی قانون نے سولی پر لٹکا دیا۔
دوسرے روزبعداز مغرب امام صاحب مسجد سے متصل باورچی خانہ میں لے گئے جہاں وہ عورت میز پر بیٹھی ہمارا انتظار کر رہی تھی ۔اس نے سیاہ برقع جسے عرف عام میں عباء کہتے ہیں اور نقاب پہن رکھا تھا۔ امام صاحب نے تعارف کرواتے ہوئے کہا یہ سسٹر صفیہ ہیں۔سلام کے بعداس نے نقاب کشائی کی تو میرا دل دھڑام سے سینے سے باہر آنے کو تھا اگر میں کرسی نہ تھام لیتا ۔دبلی پتلی ،نہایت سیاہ اور خوب صورت کہنابھی درست نہ ہوگا ۔اللہ کی تخلیق تھی لہذا کوئی بری بات بھی منہ سے نہیں نکال سکتا تھا چند منٹ کی سلام دعا کے بعد لڑکھڑاتے قدموں سے گھر آگیا۔
ہم پاکستانی مردوں کو رنگت کا احساس کمتری کیا کم ہے کہ صورت بھی بھلی نہ ملے ۔خالہ کی لڑکی حور لگنے لگی ۔اللہ نے مجھے اچھے قدوقامت اور صورت سے نواز رکھا تھا۔دل اور دماغ کی جنگ میں آخر جیت دماغ کی ہوئی ۔سوچا گھر والوں سے خفیہ شادی کرلوں، گریں کارڈ حاصل کرتے ہی طلاق دے دوں گا۔ان دنوں گرین کارڈ ایک سال کے دوران مل جاتا تھا۔امام صاھب سے ہاں کردی اور یوں دو ہفتہ بعد ہمارا نکاح کرادیا گیا۔میں صفیہ کو لے کر اپنے فلیٹ میں آگیا۔دل پر جبر کرکے شب روز بیتنے لگے ،صفیہ میری سرد مہری کا اندازہ لگا چکی تھی مگر اس نے کبھی ھرف شکایت نہ کہا۔ہم دونوں اپنی اپنی جاب پر چلے جاتے شام کولوٹتے ۔
وہ امریکی طرز کا کھانا بناتی ،میرے سامنے میز پر سجاتی ،گھر کے تمام کام کرتی ۔اس کے ہونٹوں کی جنبش سے ذکر الہی ٰ کی مہک آتی رہتی ۔کوئی فضول بات یا بحث نہ کرتی ۔میرے اکھڑے لہجہ پر خاموش رہتی ۔نماز ،پردہ ،قرآن ،میری خدمت ،خاموشی ،صبر و شکر ان سب کودیکھ کر میرا دل گھبرا جاتا۔صورت کے علاوہ کوئی برائی ہو تو میں اس کو تنگ کر سکوں جو کل کو طلاق کا سبب بن سکے ،مگر کچھ ایسی بات ہاتھ نہ لگی ۔مجھے اس سے محبت نہ ہوسکی ہاں البتہ خود پر غصہ آنے لگا کہ میں نے ایک نیک سیرت عورت کو دھوکا دیا ہے،شادی کے چار ماہ بعد میری جاب ختم ہوگئ۔نئی جاب کے لیے کوشش شروع کردی اور اس میں دو ماہ کا عرصہ بیت گیا۔ اس دوران صفیہ اکیلی کمانے والی تھی،مجھ بیروزگار کو گھر بٹھا کر کھلاتی تھی،محنت کرتی اور مجھے بھی حوصلہ دیتی ۔ایک میں تھا کہ شرمندگی سے اسے کسی دوست کے ہاں دعوت پر لے جانے سے کتراتا تھا۔
انہی دنوں ایک قریبی دوست کا بیوی سے جھگڑا چلتا رہا اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ اس کی بیوی خوبصورت تھی مگر مغرور اور بد زبان ،مہمان کے سامنے شوہر کوذلیل کر دیتی ۔اکے بدولت دوست کوگرین کارڈ ملا تھا۔نخروں کا یہ عالم کہ مہمانوں کے سامنے ٹانگ پر ٹانگ رکھے اپنے شوہر کی طرف دیکھ کر کہتی یہ جانتے ہیں میں کس قسم کے ماحول سے آئی ہوں؟ یعنی اپنے مائیکہ کی امارت کا رعب ڈالتی ۔وہ غریب جی حضوری میں گھر بچاتا تھا۔ دعست کو سمجھانے گیا تو بولا یار۔۔گھر عورت بناتی اور بچاتی ہے ،جس گھر کی بنیاد لالچ پر ہو اسے لاکھ سہارا دو،دیواریں گر جاتی ہیں۔گرین کارڈ جہنم بن گیا ہے میرے لیے ۔میرے سسرال والوں کو ڈاکٹر داماد چاہیے تھا ۔یہ لوگ بھی پاکستان شفٹ ہوئےہیں اور میں بھی ۔ فرق اتنا ہے ان کے ہاں ڈالر بولتے ہیں اور میں متوسط گھر سے تعلق رکھتا ہوں ۔ پاکستان جانا پسند نہیں کرتی اور کبھی چلے جائیں تو گاڑی ہی کا تقاضا کرتی ہے جب کہ میرے بھائی کے پاس موٹرسائکل ہے اور مجھے ٹیکسی پر ہر جگہ جانا پڑتا ہے۔
پاکستان میں ہوں یا امریکہ اس عورت نے مجھے ذلیل کردیا ہے۔ڈاکٹر کی بیگم تو بن گئی ہے مگر میری بیوی نہیں بن سکی۔یار۔۔ہم دونوں نے گرین کارڈ کے لالچ میں شادی کی ہے مگر تم خوش نصیب ہو جسے نیک عورت ملی ہے۔اسلام اس کی پسند ہے جب کہ ہمیں اسلام ناپسند کرتا ہے۔جمال اور مال نے مجھے کہیں کا نہیں رکھا۔تم کمال کی قدر کرو،اسی میں جمال ہے۔بھابی کی قدر کرو اور مجھے بھی معاف کر دو جس نے تیری شادی کا مزاق اڑایا تھا۔دوست کی حالت زار نے میرے دل شمع روشن ضمیر کو جھنجوڑا اور گھر جاتے ہی میں نے پہلی بار مسکرا کر صفیہ کی طرف دیکھا۔اس نے حیرت سے امریکی انداز میں کہا۔۔۔۔۔کیا جاب مل گئی ہے؟نہیں تم مل گئی ہو۔
اللہ نے ہمیں ایک بیٹا دیا ۔اس کی پیدائش اور گرین کارڈ ملنے کے بعد والدین کو اصل صورتحال سے آگاہ کیا۔اب گرین کارڈ ملنے کی صورت میں پاکستان آسکتا ہوں مگر نہیں ہم تینوں ۔والدین کو وقتی دکھ ہوا مگر پوتے کا سن کر خون نے جوش مارا اور ہماری آمد کے منتظررہنے لگے،جاب بھی مل چکی تھی۔ایک ماہ کی چھٹی پر وطن گئے۔ صفیہ نے حسب عادت برقع اوڑھ رکھا تھا ۔ لاہور سے گاوں جانے میں پانچ گھنٹے لگتے ہیں ۔گھر پہنچ کر صفیہ کے ساتھ وہی سلوک ہو جس کا مجھے یقین تھا۔اسے پنجابی نہیں آتی تھی مگر چہروں کی زبان کون نہیں جانتا۔وہ صبر کرتی رہی لیکن ایک لفظ شکایت کانہ کہا۔والد نے میرے ولیمہ اور پوتے کے عقیقہ کی خواہش پوری کی ۔ماں اور بھابی کی نسبت باپ اور بھائی نے صفیہ کوقبول کیا۔اور اس کی سیرت کوسراہا۔ماں بھی خاموش تھی مگر بھابی نے سب کے سامنے کہہ دیا تیری بیوی کو برقع اوڑھنے کی کیا ضرورت ہے ۔کون اس کی طرف دیکھے گا؟ نقاب تو حسن چھپانے کے لیے اوڑھتے ہیں۔
اس جملہ کے دو روز بعد ہم لاہور ہوائی اڈے پر تھے ۔میں اپنی باکمال بیوی کو مزید جہنم میں نہیں رکھ سکتا تھا۔پاکستان میں اکثریت کو جمال و مال کی ہوس ہے ۔لڑکی کارشتہ لینے جاتے ہیں تو بڑی معصومیت سے کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے ،نہ حسن اور نہ جہیز ہی لالچ ہوتا ہے،بس لڑکی نیک اور فرماں بردار ہو۔لڑکی کودیکھتے ہی ادارہ بدل جاتا ہےاور پھر کبھی لوٹ کر اس گھر نہیں جاتے ۔لڑکے سے زیادہ لڑکے کے گھر والوں کوحسن ومال کالالچ ہوتا۔صفیہ نے اپنی سیرت سے میرا دل موہ لیا مگر میرے گھر والوں کوقائل نہ کر سکی ۔بھابی جیسی بد زبان کو اس گھر میں مقام حاصل ہے ۔مگر صفیہ اپنی صورت کی وجہ سے وہاں ایک ماہ بھی خوشی سے نہ رہ سکی ۔گرین کارڈ کالالچ جہنم بھی ہے اور جنت بھی ۔میرے دوست کے لیے جہنم ثابت ہوئی اور میرے لیے جنت کوپانے کے لیے قربانی تو دینا بچالیے ۔میں نے سیرت کو صورت پر ترجیح دیتے ہوئے اپنادین ودنیا بچالیے۔آج میرے تین بچے ہیں ماں کے ہمراہ اسلامی سکول جاتے ہیں۔بیٹیاں اپنی ماں کی صورت پر ہیں۔میں دعاکرتاہوں کہ اے اللہ ۔۔۔۔میری بیٹیوں کومجھ جیسالالچ شوہر مت دیناجس کے نکاح کی بنیاد گریں کارڈ ہے نہ کہ اللہ کا خوف
"بات بات میں فرق"
بادشاہ نےخوابوں کی تعبیر و تفسیر بتانے والے ایک عالم کو بلوا کر اُسے اپنا خواب سُنایا
مفسر نے خواب سُن کر بادشاہ سے پوچھا؛ بادشاہ سلامت، کیا آپکو یقین ہے کہ آپ نے یہی خواب دیکھا ہے؟
بادشاہ نے جواب دیا؛ ہاں، میں نے یہی خواب دیکھا ہے۔
مفسر نے لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھا اور بادشاہ سے کہا؛ بادشاہ سلامت، اسکی تعبیر یہ بنتی ہے کہ آپکے سارے گھر والے آپ کے سامنے مریں گے۔
بادشاہ کا چہرہ غیض و غضب کی شدت سے لال ہو گیا۔ دربانوں کو حکم دیا کہ اس
مفسر کو فی الفور جیل میں ڈال دیں اور کسی دوسرے مفسر کا بندوبست کریں۔
دوسرے مفسر نے آ کر بادشاہ کا خواب سُنا اور کُچھ ویسا ہی جواب دیا اور بادشاہ نے اُسے بھی جیل میں ڈلوا دیا۔
تیسرے مفسر کو بلوایا گیا، بادشاہ نے اُسے اپنا خواب سُنا کر تعبیر جاننا چاہی۔ مفسر نے بادشاہ سے پوچھا؛ بادشاہ سلامت، کیا آپکو یقین ہے کہ آپ نے یہی خواب دیکھا ہے؟
بادشاہ نے کہا؛ ہاں مُجھے یقین ہے میں نے یہی خواب دیکھا ہے۔
مفسر نے کہا؛ بادشاہ سلامت تو پھر آپکو مُبار ک ہو۔ بادشاہ نے حیرت کے ساتھ پوچھا؛ کس بات کی مبارک؟
مفسر نے جواب دیا؛ بادشاہ سلامت، اس خواب کی تعبیر یہ بنتی ہے کہ آپ ماشاء اللہ اپنے گھر والوں میں سے سب سے لمبی عمر پائیں گے۔
بادشاہ نے مزید تعجب کے ساتھ مفسر سے پوچھا؛ کیا تمہیں یقین ہے کہ اس خواب کی یہی تعبیر ہی بنتی ہے؟
مفسر نے جواب دیا؛ جی بادشاہ سلامت، اس خواب کی بالکل یہی تعبیر بنتی ہے۔
بادشاہ نے خوش ہو کر مفسر کو انعام و اکرام دے کر رخصت کیا۔
سبحان اللہ، کیا اس بات کا یہی مطلب نہیں بنتا کہ اگر بادشاہ اپنے گھر والوں میں سے سب سے لمبی عمر پائے گا تو اُسکے سارے گھر والے اُس کے سامنے ہی وفات پائیں گے؟
جی مطلب تو یہی ہی بنتا ہے مگر بات بات میں فرق ہے
***جنت میں محل بنوائیے****
" جو شخص سورہ اخلاص دس بار پڑھے اللہ تعالی اس کے لیے جنت میںایک محل تعمیر کرے گا"
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےعرض کیا
" اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر تو ھم بہت سے محل بنوالیں گے؟"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
" اللہ تعالی اس سے بھی زیادہ اور اس سے بھی اچھے دینے والا ھے"
سلسلہ احادیثصحیحہ/589
ایک عورت گالف کھیل رہی تھی
مینڈک نے کانٹوں سے نجات پا کر شکر ادا کیا اور خاتون سے کہنے لگا جی اب آپ کہیں کیا خواہش ہے آپ کی، مگر میں معافی چاہتا ہوں کہ میں آپ کو یہ بتانا بھول گیا کہ آپ جو کچھ مانگیں گی، آپ کے شوہر کو وہی چیز دس گنا ملے گی۔
خاتون کو یہ سن کر بڑا غصہ آیا، خیر انہوں نے کہا کوئی بات نہیں۔
میری پہلے خواہش ہے کہ میں دنیا کہ سب سے خوبصورت عورت بن جاؤں۔ مینڈک نے کہا سوچ لیں آپ کا شوہر دس گنا خوبصورت ہو جائے گا؟ کوئی بات نہیں، میں سب سے خوبصورت ہوں گی، تو وہ مجھے ہی دیکھے گا خاتون نے کہا۔ مینڈک نے کوئی منتر پڑھا اور خاتون بے حد خوبصورت ہو گئی۔
دوسری خواہش کہ میں سب سے امیر ہو جاؤں۔ مینڈک نے کہا سوچ لیں آپ کا شوہر آپ سے بھی دس گنا امیر ہو جائے گا؟ خاتون نے کہا کوئی مسئلہ نہیں اس کی دولت یا میری، ایک ہی بات ہے۔ مینڈک کا منتر اور وہ خاتون شوں کر کے امیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی خاتون آپ کی تیسری خواہش؟ مینڈک نے پوچھا؟
مجھے ایک ہلکا سا دل کا دورہ یعنی ہارٹ اٹیک ہو جائے۔
اس کہانی کا سبق: ’’خواتین بہت چالاک ہوتی ہیں، ان سے زیادہ ہوشیاری اچھی نہیں‘‘
.
.
.
خواتین پڑھنے والیوں کے لیے:
یہ لطیفہ ختم - اب آپ آرام سے اس سے مزے لیں اور بس۔۔۔۔۔۔
.
حضرات آپ آگے پڑھیں:
آپ کے لیے کچھ اور ہے آگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی جناب - خاتون کے شوہر کو خاتون کے مقابلے میں دس گنا ہلکا ہارٹ اٹیک ہوا۔
اس کہانی کا اصل سبق:
’’خواتین خود کو بہت عقلمند سمجھتی ہیں حالانکہ ایسا ہے نہیں، انہیں یہ سمجھتے رہنے دیں اور محظوظ ہونے دیں۔
Saturday, July 6, 2013
بھنگ کا نشہ
شہاب نامہ سے اقتباس از قدرت اللہ شہاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک روز ایک بے حد مفلوک الحال بڑھیا آئی۔ رو رو کر بولی کہ میری چند بیگھہ زمین ہے جسے پٹواری نے اپنے کاغذات میں اس کے نام منتقل کرنا ھے لیکن وہ رشوت لئے بغیر یہ کام کرنے سے انکاری ھے ۔ رشوت دینے کی توفیق نہیں۔ تین چار برس سے وہ طرح طرح کے دفتروں میں دھکے کھا رہی ہے لیکن کہیں سنوائی نہیں ہوئی۔
اس کی درد ناک بپتا سُن کر میں نے اسے اپنی کار میں بٹھایا اور جھنگ شہر سے ساٹھ ستر میل دور اس کے گاؤن کے پٹواری کو جا پکڑا۔ ڈپٹی کمشنر کو اپنے گاؤں میں یوں اچانک دیکھ کر بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ پٹواری نے سب کے سامنے قسم کھائی کہ یہ بڑھیا بڑی شرانگیز عورت ہے اور زمین کے انتقال ک بارے میں جھوٹی شکائیتں کرنے کی عادی ہے۔ اپنی قسم کی عملی طور پر تصدیق کرنے کے لئے پٹواری اندر سے ایک جزدان اٹھا کر لایا اور اسے اپنے سر پر رکھ کر کہنے لگا، "حضور دیکھئے میں اس مقدس کتاب کو سر پر رکھ کر قسم کھاتا ہوں"۔ گاؤں کے ایک نوجوان نے مسکرا کر کہا۔ "جناب ذرا یہ بستہ کھول کر دیکھ لیں"۔
ہم نے بستہ کھولا، تو اس میں قرآن شریف کی جلد نہیں بلکہ پٹوار خانے کے رجسٹر بندھے ہوئے تھے۔میرے حکم پر پٹواری بھاگ کر ایک اور رجسٹر لایا اور سر جھکا کر بڑھیا کی انتقال اراضی کا کام مکمل کر دیا۔
میں نے بڑھیا سے کہا۔"بی بی، لو تمہارا کام ہو گیا۔ اب خوش رہو"۔
بڑھیا کو میری بات کا یقین نہ آیا۔ اپنی تشفی کے لئے اس نے نمبر دار سے پوچھا "کیا سچ مچ میرا کام ہو گیا ہے؟"
نمبر دار نے اس بات کی تصدیق کی تو بڑھیا کی آنکھوں سے بے اختیار خوشی کے آنسو بہنے لگے۔ اس کے دوپٹے کے ایک کونے میں کچھ ریزگاری بندھی ہوئی تھی۔ اس نے اسے کھول کر سولہ آنے گن کر اپنی مٹھی میں لئے اور اپنی دانست میں دوسروں کی نظر بچا کر چپکے سے میری جیب میں ڈال دیئے۔ اس ادائے معصومانہ اور محبوبانہ پر مجھے بھی بے اختیار رونا آ گیا۔ یہ دیکھ کر گاؤں کے کئی دوسرے بڑے بوڑھے بھی آبدیدہ ہو گئے۔
یہ سولہ آنے واحد "رشوت" ہے جو میں نے اپنی ساری ملازمت کے دوران قبول کی۔ اگر مجھے سونے کا ایک پورا پہاڑ بھی مل جاتا، تو میری نظر میں ان سولہ آنوں کے سامنے اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی۔ میں نے ان آنوں کو ابھی تک خرچ نہیں کیا۔ کیونکہ میرا گمان ہے کہ یہ ایک ایسا متبرک تحفہ ہے جس نے مجھے ہمیشہ کے لئے مالا مال کر دیا۔
سولہ آنے ۔
،، شہاب نامہ سے اقتباس ،،
،، از قدرت اللہ شہاب ،،

