Saturday, June 15, 2013

مونچھ والے تیرا جواب نہیں ۔۔۔ عظیم الدین عظیم


عظیم الدین عظیم
اصلی نام:میر عظیم الدین علی خاں 
قلمی نام: عظیم الدین عظیم 
ولدیت:میر صوفی علی خان مرحوم 
ولادت:13ستمبر میسور (کرناٹک)
تعلیم :ایم ۔ای ۔سی (ارضیات) سنٹرل کالج بنگلور (1959ء ؁) ڈپلوما ریموٹ سنسنگ (1970ء ؁) 
ملازمت:کرناٹک کے محکمۂ معدنیات و ارضیات میں ادیشنل ڈائر کٹر کے عہدے سے سبکدوشی 1992ء میں ۔
مشاغل :اردو کے کاز کے لئے جدوجہد ، اردو زبان و ادب کی خدمت ، مختلف ادیبوں کے تخلیقاتکا مطالعہ ،تاریخ میں دلچسپی ،اھے ادب کا ترجمہ کرنا ، خاکہ نگاری ، پھول پودے اگانا ، مسکراتی کلیوں اور پھولوں کو دیکھ کر خوش ہونا ۔ خلوص کی جستجو، قوی یکجہتی کو بڑھاوا دینا ۔ 
تصانیف:کرناٹک کے اردو ادیبوں شاعروں اور صحافیوں کی ڈائرکٹری حصہ اول 1998
0 کرناٹک کے اردو ادیبوں شاعروں اور صحافیوں کی ڈائرکٹری حصہ دوم1999ء ؁
0ہمارے مسائل (پروفیسریم بشیر حسین کے مضامین )مرتب
0ڈاکٹر طیب انصاری شخص اور عکس
0خدا جھوٹ نہ بلوائے ،شخصی خاکے ،طنزئے ، انشایئے ، مزاحیہ
0چودہ زبانیں چودہ کہانیاں (ترجمہ)1997
0ڈان اور دیگر پانچ کہانیاں (زیر ترتیب)
ڈوگری ،کونکنی ن سنی پور ی، میتھلی، نیپالی اور پہاڑی کہانیوں کا مجموعہ
اد بی خدمات: پانچویں سہے کے اواکر سے کسی نہ کسی طرح زبان کی خدمت۔جنرل سکریٹری مجلس ادب ،بنگلور
انعامات:توصیفی اعزاز بائے فروغ اردو انجمن ترقی فنکار انِ اردو 
0مغربی بنگال اردو اکیڈمی ایوارڈ
0مجلس ادب بنگلور گولڈن جوبلی ایوارڈ
0نگینۂ ادب ایوارڈ برائے اردو خدمات
****
مونچھ والے تیرا جواب نہیں ۔۔۔
عظیم الدین عظیم

یہ ویرپن بھی عجیب آدمی ہے ۔ مینڈک اور بھالو کی ساری خصلتیں اس میں موجود ہیں ۔ جاڑے کا موسمHibernation میں گزارتا ہے ۔جب جاگتا ہے تو بھیڑ یئے کی طرح کسی گاؤں کے فارم ہاؤس سے کسی معروف شخصیت کو بھیر بکری جیسے اٹھالاتا ہے۔ پھر کیا ہے ٹیپ ریکارڈ ر سامنے رکھ کر اپنی راگ الاپتاہے ۔ (اسے گانا نہیں آتا) کبھی جے للتا اماں کو تو کبھی کرشنا اوارو کو اپنا کیسٹ بھیج کر اپنی مدھر آواز سے ان کا دل جیتنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ساتھ یہ دھمکی بھی دیتا ہے کہ پچھلیبار کی طرح اگر وعہ وفا نہ کیا تو وہ بھی بے وفا ہوجائے گا۔ اس کے کیسٹ استاد بڑے غلام علی خاں ، پنڈت بھیم سین جوشی ، استاد امجد علی خاں ۔ پنڈت روی شنکر، گنگوبائی ہانگل ، بیگم اختر ،نورجہاں ، ایم ایس سبو لکشمی ی لتا منگیشکر کے گانو ں اور موسیقی والے نہیں ہوتے ۔ ویرپن کے کیسٹوں میں صرف مطالبات ہوتے ہیں اور وہ تحت اللفظ ہوتے ہیں ۔ جنگل سے کیسٹ حاصل کرنے کے بعد کا حال ذرا سنئے۔کیسٹ کی زبان تمل ہے ۔ نہ ادبی تمل اور نہ صحافتی تمل بلکہ جنگلی تمل ۔کرناٹکسرکار کو ایک تمل مترجم کی ضرورت پڑتی ہے جو تینوں زبانوں تمل کنڑا اور انگریزی پر عبور رکھتا ہو۔ کنڑا اورانگریزی ترجمے پر ایک ماہرین کی کمیتی بٹھائی جاتی ہے ۔ پندرہ بیس برس سے ایسی کمیٹی کام کررہی ہے ۔ اور وہ بھی ایس ٹی ایف جیسی ہے جو کسی کا اغوا یا کسی پر حملہ ہونے پر کام شروع کرتی ہے ۔ اس کے بعد خاموش یعنی مرض ہائی برنیشن میں مبتلا ۔صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو تینوں ۔ویرپن، ایس ٹی ایف اور کیسٹ اڈوائزری کمیٹی اس مرض کے شکار ہیں ۔لیکن ویرپن کی بات ہی کچھ اور ہے ۔ وہ وقت بے وقت جاگ جاتا ہے ۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایس ٹی ایف گہری نیند میں ہے ۔ بغیر وقت ضائع کئے وہ اپنی ٹولی کے ساتھ شکار پر نکل جاتاہے ۔اس کے پاس راج کماروں اور ناگپاؤں کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ جس کے مطالق سال میں ایک دو بار شکار کھیلتا ہے ۔ پلان کے مطابق اپنا جال پھینکتا ہے جو کبھی خالی نہیں جاتا ۔ پھنسے ہوئے کولے کر اپنے غار میں پہنچ جاتا ہے ۔دوسرے دن اخباروں اور میڈیا کے ذریعہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے ۔اس آگ کی تپش سوئی ہوئی ایس ٹی ایف کو بھی محسوس ہوتی ہے۔ اور وہ ہڑ بڑا کر اٹھتی ہے جیسے کوئی خوفناک خواب دیکھا ہو۔ ہولا جو لی کا منظر ۔ ادھر ادھر باؤلوں کی طرح دوڑنے لگتیہیں ۔ لیدروں کی میٹنگیں شروع ہوتی ہیں ۔ وزیر اعلیٰ اور وزیردالہ دہلی پہنچ جاتے ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ اور شاعر اعظم سے ملاقات کرتے ہیں ۔ دونوں یقین دلاتیہین کہ مرکز سے جو بھی تعاون چاہئے ملے گا۔ نتیجہ خوشی خوشی ہمارے لیڈر بنگلور لوٹ جاتے ہیں۔
ا ب ذرا کیسٹ کے مطالبات پر غور کریںَ 
مطالبہ نمبر (ا) تمل کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے ۔ اور ریاست میں کنڑ کے ساتھ تمل کا استعمال بھی لازمی قرار دیا جائے ۔(۲)صرف کاویری کے پانی سے کیا ہوتا ہے ۔شمال کی کل دریاؤں اور ندیوں کا پانی تمل ریاست کی طرف موڑ دیاجائے (۳)اس کے ساتھی جتنے بھی تمل ناڈو یا کرناٹک کی جیلوں میں مقید ہیں انھیں باعزت رہا کرتے ہوئے انعامات و جاگیرات سے نوازا جائے ۔(۴) جب ویرپن اپنے آپ کو تمل یا کرناٹک کی پولیس کے حوالے کردیگا تو اس پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا جائے گا بلکہ اسے راج بھون میں رکھا جائے اور اس کے ساتھ وی وی آئی پی جیسا سلوک کیا جائے ۔راج بھون کے گیٹ پر اور اندرونی سیکورٹی پر اسی کی ٹولی کے لوگ تعین کئے جائیں ۔ (۵) حکومت کی جانب سے ہر روز شام ودھان سودا کے بیانکویٹ ہال میں پریس کانفرنس رکھی جائے ۔ راج بھون سے ودھان سودا پہنچنے کے لئے ایک بڑے دانتوں والے ہاتھی کا بند و بست کیا جائے (۶) نہانے کے لئے صرف خالص صندل صابون سپلائی کیا جائے ۔(۷)ایک ٹی ایف کے عملے کو نااہل قرار دیتے ہوئے جبری سبکدوشی دی جائے ۔(۸) ایس ٹی ایف کے جوانوں کی ’’بے کارتوس بندوقیں ‘‘جو صرف ڈرانے ،دھمکانے اور نمائش کے طور پر استعمال ہوتی ہیں ،انھیں واپس ریاستی اسلحہ خانے میں پہنچا دی جائیں ۔(۹) ویرپن کوراجیوتسواایوارڈ کے ساتھ کوئی قومی اعزاز سے نوازا جائے۔(۱۰)ودھان سودا میں موجود بینک کے اس کے کھاتے میں اس بار پچاس کروڑ روپے کی رقم فوراً ڈپازٹ کی جائے اور صرف پاسبک نکیرن کے ایڈیٹر گوپال کے ہاتھوں جنگل میں پہنچادی جائے ۔ (۱۱) گوپال کے بینک اکاؤنٹ اوردوسری منقولہ /غیر منقولہ جائیداد کے بارے میں کسی قسم کی جانچ پڑتا ل یا تفتیش نہ کی جائے ۔(۱۲) ان دنوں گوپال کرناتک سرکار کے برتاؤ سے نالاں ہے ۔ اس پر الزام ہے کہ حکومت کے دیئے ہوئے پورے روپے مجھ تک نہین پہنچاتا۔ جب میں گوپال کی نیت پر شک نہیں کرتا تو کرناتک سرکار کو ا س سے کیا لینا دینا ۔ تمیں تو ایک پوسٹ میان کی ضرورت تھی اور اس زمہداری کو گوپال نے بحسن و خوبی نبھایا ۔ یہ اور بات کہ نوٹوں کی گڈیاں گنتے وقت ذراگھبراجاتا تھا اور جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا تھااور ایسی گھبراہت میں نوٹوں کی تھوڑی بہت گڈیاں گنتے ادھر ادھر ہوجاتی تھیں اس لئے جب سوت کیس کھول کر گنتی شروع کرتا تھا تو میں اپنی بندوق سمیت دوسری سمت مڑجاتا تھا تاکہ گوپال کے کام میں قدرے آسانی ہو۔ اس نے اپنا کام بہت اچھا نبھا یا ۔ خیرا ب سے تاوان کا روپیہ بینک میں جمادینا۔
اب کرناٹک کو ان بارہ مطالبات پر اپنے تاثرات لکھ کر یا ریکارڈ کر کے بھیجنا مشکل ہوگا ۔ کیوں کہ گوپال ، کرشنا اوارو سے ذرا خفا ہے ۔ پھر بھی گوپال کو منانا اور جنگلی سفیر بنا کر میرے پاس بھیجنا اتنا مشکل کا م نہیں ہے۔ پہلے بھی گوپا کئی بار روٹھا تھا لیکن نوٹوں نے اسے سنبھال لیا۔
گوپال اور ویرپن میں کافی حد تک مماثلت ہے دونوں ایک ہی وضع کے ’’مچھڑ‘‘ ایک گول گول موٹا دوسرا دق کا مریض۔
دہلی کے عوض اگر ہمارے لیدر مدد کے لئے گجرات جائیں تو سمجھئے ان کا کام بن گیا ۔ یہ اور بات کہ بہت سارے لوگ مودی مہاراج جو شاعر اعظم کے راج دھرم پر قائم رہتے ہوئے حکومت کا کاروبات سنبھالنے کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہیں ، کوپسند نہیں کرتے ۔ چیف الیکشن کمشنر کے خلا اگر ان کا غصہ تھنڈا ہوگیا ہوتو انھیں سمجھا بجھا کر دیرپن کے جنگل کو لے جائیں اور مائک کے ذریعہ اعلان کردیں کہ گجرات کے مودی ،راج دھرم کا نسخہ لے کر جنگل پہنچ گئے ہیں ۔ جنگل کے باسیوں کو صرف چوبیس گھنٹوں کی مہلت دیجاتی ہے کہ وہ جنگل سے باہر تشریف لائیں ۔ورنہ نتیجہ برا ہوگا ۔یقین مانئے اعلان سنتے ہی جنگل کے سبھی جانور ، کیا ہاتھی ، کیا شیر چیتے ، بھالو ،ہرن ،جنگلی بھینسے ،لومری کوے،جنگلی کتے ،خرگوش، سانپ یہاں تک کیڑے مکوڑیا ور چونٹیاں تک جنگل سے وداع ہونے تیار ہوجائیں گے (ظاہر ہے آتش زنی سے ہر جاندار لرزہ بر اندام ہوجاتا ہے ) اب رہا ویرپن ار اس کی ٹولی جیسے کوئی فلم یا ڈرامے کا اختتام ہوتا ہے ۔سب باہر نکل کر مودی کے شامیا نے کی طرف بڑھیں گے ۔ نیز اپنے اسلحہ اور شکار کو حوالیکرتے ہوئے گھنٹے تیک کر بیٹھ جائیں گے ۔اگر مودی فارمولا کے صحیح استعمال سے ویرپن اور اس کے ساتھی ہوگئے تو مودی مہاراج کو ضرور بھارت کے سب سے بڑے اعزاز ’بھارت رتنا‘‘ سے نوازنا ضروری ہی نہیں بلکہ یقینی ہونا چاہئے ۔ جب ایکتی ایک پر کروروں روپیوں کے اخراجات بچ جائیں گے تو دونوں ریاستوں کو اقٹسای فائدہ جو ہوگا اس کا سہرا مودی مہودے کے سر ہوگا ۔ اس سے بڑا کارنامہ ہمارے لئے اور کیا ہوسکتا ہے ۔ پچھلے بیس پچیس سالوں سے جو کام دونوں ریاستیں مل کر انجام نہ دے سکیں وہ ایک فرد واحد کی دماگی کاوشوں سے تیار کیا ہوا فارمولہ ہر بھارت واسی کو عموماً اورکرناٹک و تمل ناڈو کے باشندوں کوخصوصاً حیرت میں ڈال دیتا ہے ۔ اس فارمولے کی سب سے بڑی خوبی ۔۔۔۔۔۔وہ آزمودہ ہے ۔ گجرات شہر کے کئی علاقوں میں اس فارمولے کو نہایت کامیابی کے ساتھ آزمایا گیا اور نتیجہ سو فیصد کوئلہ ۔ ساری دنیا میں جہا ں جہاں ٹی وی سیٹ ہیں وہاں کے ان گنت لوگ گواہ ہیں کہ ویرپن اور ویرپن کے جنگل کو نیست ونابود کرنے کے لئے مودی کے فارمولے سے اچھا کوئی فارمولہ ہو ہی نہیں سکتا ۔
فرض کیجئے مودی فارمولہ کامیاب نہ ہوا تو ساریدنیا میں اور ایک ہی فارمولہ بچے گااور وہ ہوگا صدر بش کا ’’کا رپیٹ بامبنگ ‘‘ والا فارمولہ۔ اس میں نہ ویرپن بچے گا اور نہ وہ جنگل جہاں وہ چھپا ہوا ہے ۔ لیکن بغیر کسی قیا آرائی کے ہم مودی فارمولیہی کو ووٹ دینا چاہیں گے ۔ القاعدہ اور صدر صدام حسین سے پریشان صدر بش کو زحمت دینے سے پہلے الیکشن کمیشن سے خوفزدہ مودی مہاراج کا فارمولہ آزمالینا بہتر ہوگا ۔ اس لئے کہ ویرپن اور مودی دونوں ہمارے یعنی ہندوستانی ہیں ۔دونوں انسانیت کے دشمن اور دونوں انسانی خون کے پیاسے ۔ فرق صرف اتنا کہ ویرپن دولت کمانے کی خاطر اپنے جنگل کے ایک چھوٹے سے حصے میں اپنا حکم چلاتا ہے ۔ لیکن مودی مہاراج حکومت کے نشے میں گجرات جیسی ایک بڑی ریاست میں محکمۂ پولیس کو خاموش تماشائی بنا کر نہتوں پر مختلف ہتھیاروں کی مشق کرانے میں شاندار کامیابی حاصل کر تے ہیں۔گجرات شہر کے کئی علاقوں میں مودی فارمولے کو نہایت کامیای کے ساتھ آزمایا گیا اور نتیجہ سو فیصد کوئلہ ۔ کسی کی شناخت کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا ۔ویرپن کو نہ جے للیتا پہچان پائیں گی نہ کرشن اوارو اور نہ ایس ٹی ایف۔ یہاں تک کہ راج کماراور ناگپا بھی فیل ہوجاءٰن گے ۔اس کی مونچھوں سے کچھ بھی فائدہ نہیں ہوگا ۔ آگ کی لپیٹ میں ویرپن پہلے کلین شیو بن جائے گااور کچھ دیر بعد سیخ کباب ۔ کون پہچان پائے گا کہ کون سی مرغی کا ہے یا کون سے بکرے گا۔
(نوٹ: یہ مضمون سابق وزیر ناگپا کے اغوا کے بعد اور اس کی موت سے پہلے لکھاگیا۔)
***

No comments:

Post a Comment