Saturday, June 15, 2013

یونیورسٹی مہربان تو۔۔۔ محمد امجد علی فیضؔ


محمد امجد علی فیضؔ 
اصلی نام :امجد علی 
تخلص:فیضؔ 
ولدیت:محمد یوسف علی
ولادت:۳۱ اکتوبر ۱۹۶۵ء ؁ 
تعلیم :بی ۔ اے (سیول)
مشاغل:مطالعہ ، طنز یہ ومزاحیہ مضامین نگاری ، اور کلاسیکی موسیقی سے دلچسپی
مزاح نگاری کی ابتداء:1987سے
تصانیف:اولین تصنیف زیر اشاعت ہے۔
***

یونیورسٹی مہربان تو۔۔۔
محمد امجد علی فیضؔ 


گریجویشن کا آخری سال گذرے ہوئے ایام پر نظر ڈالتے ہیں تو ہماری آنکھوں کے آگے کارناموں کی قوس قزح سی تن جاتی ہے اور دوسرے ہی لمحے اس کے سارے رنگ آسمان کی وسعتوں میں کہیں تحلیل ہوجاتے ہیں ذہین کے پردے پر چند دھندلے دھندلے سے منظر ابھر تے ہیں، ڈوب جاتے ہیں ۔ ہم نے ان برسوں میں پایا کچھ نہیں کھویا بہت ہمیں اچھی طرح یاد ہے سل اول تو اس تذبذب میں گذر گیا کہ کیا پڑھیں ۔ کیسے پڑھیں شام کا وقت یہ سوچ کر ٹال جاتے کہ رات جم کر پڑھیں گے ۔مگر رات شکم سیر ہوتے ہی ارادہ ملتوی ،شکم سیر ی اور پڑھائی ریلوے پٹری پر کب چلے بیل گاڑی ، لمبی تان کر سوجاتے اس ارادت سے کہ علی الصبح جاگ جائیں گے تو ساری کسر پوری کرلیں گے مگر وہ سبح کبھی نہیں آئی البتہ کئی بار یہ خیال ضرور آیا ہم گریجویٹ نہیں ہوتے یا پڑھے لکھے ہونے سے رہ جاتے تو کیا ہوتا ۔
ع ڈبویا ہے مجھ کو پڑھنے نے نہ پڑھتا میں تو کیا ہوتا 
کیا ہوتا پر غور کیا تو جہالت میں امکانات زیادہ نظر آئے ،مایوس تو ہوئے سال دوم کا نتیجہ بھی ملاحظہ کیجئے۔ سوائے دو(۲) پر چوں ، سب کے آگے صفر کی ’’00‘‘ چوڑیاں صف بہ صف یوں تیار کھڑی تھیں گویا اشارہ ملتے ہیں فلیگ مارچ کرینگے۔ ہماری نا کامیوں کے پس پشت کسی طلسمی یا سفلی قوت کی کارفرمائی ہرگز نہی تی بلکہ یہ ہماری ذاتی کوششوں کا ثمرہ تھین کیوں کہ نصابی کتب سے ہمارے تعلقات ہمیشہ عمر رسیدہ میاں بیوی کے سے رہے ایک دوسرے سے بیزار اور شاکی جب کہ والدین انتہائی سخت جب تک ہمیں کتاب پڑھتا نہیں دیکھتے انھیں چین نہیں آتا جب انھیں چین آجاتا تو ہمیں نیند آنے لگتی ہم سوجاتے ۔ ایک دن یہ معاملہ والدہ پر کھل ہی گیا انہوں نے اس مسئلہ کو جیوتشی سے رجوع کیا زائچہ دیکھو کہ اس نے کہا ’’ش ‘‘ سے شروع ہونے والے نام کی لڑکی سے منسوب ہوکر ہی یہ راہ راست پر آئے گا ہم ایک عدد شیرنی کی نصف شوہر ہوگئے ۔ یعنی آدھے الو آدھے شیر ہوگئے ہم میں ضد تبدیلیوں کے ساتھ ایک یہ بھی آگئی پہلیجو کتاب ہاتھ مین ہوا کرتی تھی سر ہانے رہنے لگی جس کا فائدہ یہ ہوا ڈراؤنے خواب آنے بند ہوگئے ان کی جگہ سہانے پسنوں نے لی مثلا ایک روز آنکھ کھلی تو دیکھتے کیا ہیں سرہانے دو اجنبی کھڑے سرگوشیوں میں مصروف ہیں ، بڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے زبان سے بے ساختہ وماربکا ،ومادینکا کے جوابات جاری ہوگئے نیند کا غلبہ ٹوٹا ، انجان چہروں میں پروفیسر ی کے آثار دیکھ کر حیرت و استعجاب کے دریا میں کچھ ہی ڈبکیاں لگائی تھین ایک نے ہماراکالر پکڑ کر دریا سے باہر کھینچتے ہوئے کہا دراصل ہماری یونیورسٹی نے اس بار مخصوص طلبہ کی تعلیمی اعانت کی خاطرHOME EXAMکرنا طئے کیاہے ۔جوں ہی کانوں نے یہ الفاط سنے منہ استفہامیہ انداز میں لفظ ہوم کا ورد کرتے کرتے صفر کی طرح کھل کا کھلا رہ گیا ہم کبھی ان کو کبھیاپنے گھر کو دیکھنے لگے اجنبیت کی دیوار مسمار ہوگئی تو ہمت کو مجتمع کر کے دریافت کیا امتحان اور گھر پر !! جواب ملا یقیناًگھر پر ہوگا نقل نویسی اختیاری ہوگی اور وقت پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہوگی ،کامیابی کو یقینی جان کر خوشی سے غبارہ ہوگئے دریں اثناء پڑوسن کا مرغ سورج کو چونچ میں لئے سرہانے کھڑا ہوگیا مجبوراً آنکھوں سے نیند کے پردے ہٹانے پڑے ۔ آنکھ کھلتے ہی گویا عبارت کی ساری ہوا نگل گئی امتحان سوا نیزے پر آچکا تھا ۔ کسی طرح نصابی دریا کو نو مولود کے موزے ۔۔۔نہیں کوزے میں بند کر کے امتحانی تیاری کو آخری شکل دی ۔امتحان کا پہلا پرچہ زیر تصرف موٹر سیکل اچانک بگڑ گئی مجبوراً سیکل نکالی ،گھڑی دیکھی ۲ بجنے میں ۱۵ /منٹ باقی تھے بجلی کی رفتار سے کالج پہنچے امتحان گاہ میں ۵ منٹ تاخیر سے داخل ہوئے باعثِ تاخیر کچھ بھی ہو خیر کے پہلو تو نکل آئے روم سوپروائزر نے خود بڑھ کر استقبال کیا ۔ انہی کی رہنمائی میں نشست تک پہنچے ورنہ اکثر ہوتا یوں تھا ۱۰/ منٹ قبل امتحان گاہ پہنچتے رول نمبر کی تلاش میں ایک ایک ٹیبل چیک کرتے ،رول نمبر ملجاتا تو بام ودر تکتے کچھ یاد کرنے کی کوشش کرتے یاد نہیں آتا۔ اضطرابی کیفیت میں سر کھجاتے تو کھجاتے ہی چلے جاتے حتیٰ کہ کھوپڑی آن لگتی پھر داڑھی میں انگلیاں چلاتیا ور مایوس ہوجاتے پھر کچھ سوچ کر ہاتھ روم تک جاتے واپس آتے پھر چلے جاتے جوابی پرچہ آنے تک یہی عمل دہرایا جاتا آج دیر سے آئے ساری احمقانہ حرکتوں سے محفوظ تھے وقت کم تھا ہال ٹکٹ نکال کر میز پر رکھدی ،دستی سے پسینہ خشک کیا۔جوابی پرچہ پر ول نمبر لکھا، سوالی پرچہ بھی آگیا ، جوں جوں سوالات پڑھنے لگے ۔فیل ہونے کے امکانات روشن سے روشن تر ہونے لگے غلطی ہماری تھی ہ دلدل میں کود پڑے تھے اس نیت سے کہ تیر کر نکل جائیں گے ذہن پر زور دیا جو کچھ پڑھا ہے یاد آجائے وہی لکھ دیں گے۔ لیکن ایک ایک کر کے اپنے سارے اگلے پچھلے گناہ یاد آنے لگے پرھا ہوا پڑھے ہوئے اسباق نہیں ۔ خیال آ یا کچھ کرنا چاہئے ہماری محنت اور والدین کی دعائیں یوں رائیگاں نہیں جانی چاہئے بلینک جوابی پرچہ کا مطالعہ و مشاہدہ شروع کیا ایک ایک سطر دیکھ ڈالی کچھ سطریں ٹیڑھی میڑھی تھیں ،درست کیا ، گردن کو دائیں جانب گھمایا تا کہ اس تاریخی پر چہ کو تقسیم کر نے والی جغرافیائی اہمیت کی حامل عظیم شخصیت کو بھی ایک نظر دیکھ لیں ۔ایک شناسانے اشارے سے پرچے کے بارے میں دریافت کیا ہم نے تھمس اپ والا انگوٹا نیچے کی طرف گھمایا جسے دیکھ کر ایک عقل مند چپراسی منہ ہی منہ میں کچھ بڑ بڑاتے ایک گلاس پانی لے آیا جی تو چاہ رہا تھا اسی گلاس میں ڈوب مریں مگر چپراسی کی بیوی اور اپنی ہونے والی بیوہ کا خیال آیا تو ایک گھونٹ پر اکتفا کیا دوسرون کو دیکھنے کی ہمت تو نہیں تھی آنکھوں سے عینک نکال کر کود ہی اپنا چہرہ دیکھنے لگے آدھا گھنٹہ گذر چکا تو سوالی و جوابی پرچے روم سو پروائزر کے حوالے کردیئے اور امتحان گاہ سے باہر آگئے مگر یہ فکر دامن گیر رہی ،گھر کیسے جائیں امی کو کیا بتائین ،اما کو کیا جواب دیں اور کس منہ سیکہیں کہ پورے ایک کم دو صفر کا پرچہ حل کر آئے ہیں۔ذہن میں کلیلاتے ان ہی سوالات کے ساتھ باتھ روم کا رخ کیا اور واپس اس منصوبے کے ساتھ ہوئے ڈھائی گھنٹے کسی طرح گذار کر گھر جائیں گے پوچھنے پر کہدیں گے اچھا رہا اور جب نتیجہ سامنے آئے گا تو ممتحن ہر ساراالزام تھوپ دیں گے ۔ ہمارا چہرہ انجانی خوشی سے دمکنے لگا پرچہ تو بہر طور گذر گیا تھا وقت گذارنا اہم تھا اس کے لئے کچھ ۔۔۔۔ نام ذہن میں آئے مگر سب نے مایوس ہی کیا دل ہی دل میں دعا کرنے لگے کوئی شناسا مل جائے دل سے نکلی دعا واقعی اثر رکھتی ہے ہمیں کسی نے آوازدی ہم نے پہلے اس آواز کو سلام کیا اور اس دوست کو بات چل نکلی تو انہوں نے کہا میں سواری کے انتظار میں کھڑا ہوں سواری آنے تک ہم ان کی دل جوئی کرتے رہے وہ چلے گئے ، گھڑی دیکھی ،قیامت کی تھی ایک گھنٹہ باتی تھا ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا ایک وقت ایسا بھی آئے گا جس کا پرپل پل صراط ثابت ہوگا ہم کچھ کرتے اور نہ کرنے کے درمیان کا گذار وزیر اعظم سے ہوکر رہ گئے ۔ یعنی مختار مگر بے اختیار مجبوراً سیکل کی رفتار دھیمی کرنی چاہی مگر جتنی آہستگی وسے ہائیڈل گھماتے اتنے ہی چوکڑیاں بھر نے لگی سوچنے لگے اگر یہی رفتار رہی تو گھر پہنچتے ہی پہلے تاج پوشی عمل میں آئے گی پھر روپوشی ۔۔۔! اتر کر پیدل چلنے لگے کچھ دیر چلے پھر سوار ہوگئے ہائیدل گھماتے ہی ایک زور دار دھما کہ ہوا دیکھا ناتوان پہیہ اپنی شکست خوردگی کا اعلان کرچکا تھا ۔ اس کی شکست گویا ہماری جیت تھی خوشی سے جھوم اتھے دل میں لڈو پھوٹنے لگے ،شکم میں رس گلے تیر نے لگے ،سر میں افلاطون سما گئے،فلسفی نے چیخ کر کہا اب بس بھی کرو کیا پوری دکان یہی کھو لو گے فتح سے سرشار دل اور شکست سے دوچار صورت لئے تھکے تھکا ئے ایکدوسرے کا سہارا بنے ۔ 5-30بجے شام گھر میں داخل ہوئے سیکل کی کھٹ پٹ امی نے سنی تو وہ دوڑی دوڑی آئیں اور دریافت کر نے لگیں ’’کیوں بیٹے پرچہ کیسا رہا ‘‘ مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا آپ کی دعا س ٹھیک رہا اب تک صرف انتے آئے تھے یونیور سٹیوں میں بڑی دھاندلیاں ہوا کرتی ہیں ،نشانات کی ہیرا پھیری ہوا کرتی ہے لیکن نتیجہ سامنے آیا تو امن دھاندلیوں پر ایمان ند ماہر ا کیوں کہ مذکورہ پرچے میں نشانات سب سے زیادہ تھے یعنی ہم کامیاب تھے ۔
****

No comments:

Post a Comment