Saturday, July 6, 2013

شہاب نامہ سے اقتباس از قدرت اللہ شہاب


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ،، سولہ آنے ،، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک روز ایک بے حد مفلوک الحال بڑھیا آئی۔ رو رو کر بولی کہ میری چند بیگھہ زمین ہے جسے پٹواری نے اپنے کاغذات میں اس کے نام منتقل کرنا ھے لیکن وہ رشوت لئے بغیر یہ کام کرنے سے انکاری ھے ۔ رشوت دینے کی توفیق نہیں۔ تین چار برس سے وہ طرح طرح کے دفتروں میں دھکے کھا رہی ہے لیکن کہیں سنوائی نہیں ہوئی۔

اس کی درد ناک بپتا سُن کر میں نے اسے اپنی کار میں بٹھایا اور جھنگ شہر سے ساٹھ ستر میل دور اس کے گاؤن کے پٹواری کو جا پکڑا۔ ڈپٹی کمشنر کو اپنے گاؤں میں یوں اچانک دیکھ کر بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ پٹواری نے سب کے سامنے قسم کھائی کہ یہ بڑھیا بڑی شرانگیز عورت ہے اور زمین کے انتقال ک بارے میں جھوٹی شکائیتں کرنے کی عادی ہے۔ اپنی قسم کی عملی طور پر تصدیق کرنے کے لئے پٹواری اندر سے ایک جزدان اٹھا کر لایا اور اسے اپنے سر پر رکھ کر کہنے لگا، "حضور دیکھئے میں اس مقدس کتاب کو سر پر رکھ کر قسم کھاتا ہوں"۔ گاؤں کے ایک نوجوان نے مسکرا کر کہا۔ "جناب ذرا یہ بستہ کھول کر دیکھ لیں"۔

ہم نے بستہ کھولا، تو اس میں قرآن شریف کی جلد نہیں بلکہ پٹوار خانے کے رجسٹر بندھے ہوئے تھے۔میرے حکم پر پٹواری بھاگ کر ایک اور رجسٹر لایا اور سر جھکا کر بڑھیا کی انتقال اراضی کا کام مکمل کر دیا۔

میں نے بڑھیا سے کہا۔"بی بی، لو تمہارا کام ہو گیا۔ اب خوش رہو"۔

بڑھیا کو میری بات کا یقین نہ آیا۔ اپنی تشفی کے لئے اس نے نمبر دار سے پوچھا "کیا سچ مچ میرا کام ہو گیا ہے؟"

نمبر دار نے اس بات کی تصدیق کی تو بڑھیا کی آنکھوں سے بے اختیار خوشی کے آنسو بہنے لگے۔ اس کے دوپٹے کے ایک کونے میں کچھ ریزگاری بندھی ہوئی تھی۔ اس نے اسے کھول کر سولہ آنے گن کر اپنی مٹھی میں لئے اور اپنی دانست میں دوسروں کی نظر بچا کر چپکے سے میری جیب میں ڈال دیئے۔ اس ادائے معصومانہ اور محبوبانہ پر مجھے بھی بے اختیار رونا آ گیا۔ یہ دیکھ کر گاؤں کے کئی دوسرے بڑے بوڑھے بھی آبدیدہ ہو گئے۔

یہ سولہ آنے واحد "رشوت" ہے جو میں نے اپنی ساری ملازمت کے دوران قبول کی۔ اگر مجھے سونے کا ایک پورا پہاڑ بھی مل جاتا، تو میری نظر میں ان سولہ آنوں کے سامنے اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی۔ میں نے ان آنوں کو ابھی تک خرچ نہیں کیا۔ کیونکہ میرا گمان ہے کہ یہ ایک ایسا متبرک تحفہ ہے جس نے مجھے ہمیشہ کے لئے مالا مال کر دیا۔

سولہ آنے ۔
،، شہاب نامہ سے اقتباس ،،
،، از قدرت اللہ شہاب ،،

Sunday, June 30, 2013

علامہ اقبال اور عشق رسول(اردو اشعار کی روشنی میں)

علامہ اقبال اور عشق رسول

(اردو اشعار کی روشنی میں)

نتھو رام نامی شخص نے انگریزی زبان میں تاریخ اسلام نامی کتاب لکھی اور اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازیبا تبصرہ کیا۔
مسلمانوں نے اس شاتم رسول کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی، مگر نتیجہ صفر رہا۔ 
ہزارہ کے ایک نوجوان عبد القیوم کو اس گستاخانہ حرکت کی خبر ملی، اس کی ایمانی غیرت وحمیت کے سمندر میں وہ جوش آیا کہ اس نے عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران ہی دھاردار چاقو سے اس گستاخ رسول پر حملہ کردیا اور موقع پر ہی اس کا قصہ تمام کردیا۔ 
عبد القیوم کو سزائے موت ہو گئی، مسلمانوں کے ایک وفد نے ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرانے کے لیے علامہ اقبال سے در خواست کی اگر وہ اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کریں تو وائسرائے سے مل کران کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کراسکتے ہیں۔ 
علامہ نے وفد کی باتیں سن کر یہ دریافت کیا کہ کیا عبد القیوم کمزور پڑ گیا ہے؟۔
وفد کے ارکان نے کہا کہ عبد القیوم کمزور کیوں پڑتا، اس نے تو عدالت میں ہر بار اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے اور وہ علی الاعلان یہ کہتا ہے کہ میں نے شہادت اپنی زندگی کی قیمت پر خریدی ہے۔ 
یہ سن کر علامہ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور کہنے لگے:
"جب وہ ( عبد القیوم) کہہ رہا ہے کہ میں نے شہادت خریدی ہے تو میں اس کے اجر وثواب کی راہ میں کیسے حائل ہو سکتا ہوں ؟ کیا تم یہ چاہتے ہوکہ میں ایسے مسلمان کے لیے وائسرائے کی خوشامد کروں جو زندہ رہا تو غازی ہے اور مر گیا تو شہید ہے۔"

اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے۔ 
راج پال نامی شخص نے لاہور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اطہر میں بد زبانی کی۔ 
انگریزوں کی عدالت نے اس کو بھی قرار واقعی سزا کا مستحق نہیں گردانا۔ 
آخر غازی علم الدین کی غیرت ایمانی نے جوش مارا اور اس گستاخ رسول کو جہنم رسید کردیا۔ 
انھیں بھی عدالت نے سزائے موت دی۔ 
محبت رسول کی راہ میں پروانہ وار اپنی قیمتی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے ان شہیدوں کی قربانی نے علامہ کو بہت متأثر کیا اور ”لاہور اور کراچی “ کے عنوان سے تین اشعار پر مشتمل قطعہ کہہ کر ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا:

نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور
موت کیا شے ہے، فقط عالم معنی کا سفر
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر
آہ! اے مرد مسلماں تجھے کیا یاد نہیں
حرف 'لا تدع مع اللہ الھاً آخر'
[ضرب کلیم]

Saturday, June 15, 2013

مونچھ والے تیرا جواب نہیں ۔۔۔ عظیم الدین عظیم


عظیم الدین عظیم
اصلی نام:میر عظیم الدین علی خاں 
قلمی نام: عظیم الدین عظیم 
ولدیت:میر صوفی علی خان مرحوم 
ولادت:13ستمبر میسور (کرناٹک)
تعلیم :ایم ۔ای ۔سی (ارضیات) سنٹرل کالج بنگلور (1959ء ؁) ڈپلوما ریموٹ سنسنگ (1970ء ؁) 
ملازمت:کرناٹک کے محکمۂ معدنیات و ارضیات میں ادیشنل ڈائر کٹر کے عہدے سے سبکدوشی 1992ء میں ۔
مشاغل :اردو کے کاز کے لئے جدوجہد ، اردو زبان و ادب کی خدمت ، مختلف ادیبوں کے تخلیقاتکا مطالعہ ،تاریخ میں دلچسپی ،اھے ادب کا ترجمہ کرنا ، خاکہ نگاری ، پھول پودے اگانا ، مسکراتی کلیوں اور پھولوں کو دیکھ کر خوش ہونا ۔ خلوص کی جستجو، قوی یکجہتی کو بڑھاوا دینا ۔ 
تصانیف:کرناٹک کے اردو ادیبوں شاعروں اور صحافیوں کی ڈائرکٹری حصہ اول 1998
0 کرناٹک کے اردو ادیبوں شاعروں اور صحافیوں کی ڈائرکٹری حصہ دوم1999ء ؁
0ہمارے مسائل (پروفیسریم بشیر حسین کے مضامین )مرتب
0ڈاکٹر طیب انصاری شخص اور عکس
0خدا جھوٹ نہ بلوائے ،شخصی خاکے ،طنزئے ، انشایئے ، مزاحیہ
0چودہ زبانیں چودہ کہانیاں (ترجمہ)1997
0ڈان اور دیگر پانچ کہانیاں (زیر ترتیب)
ڈوگری ،کونکنی ن سنی پور ی، میتھلی، نیپالی اور پہاڑی کہانیوں کا مجموعہ
اد بی خدمات: پانچویں سہے کے اواکر سے کسی نہ کسی طرح زبان کی خدمت۔جنرل سکریٹری مجلس ادب ،بنگلور
انعامات:توصیفی اعزاز بائے فروغ اردو انجمن ترقی فنکار انِ اردو 
0مغربی بنگال اردو اکیڈمی ایوارڈ
0مجلس ادب بنگلور گولڈن جوبلی ایوارڈ
0نگینۂ ادب ایوارڈ برائے اردو خدمات
****
مونچھ والے تیرا جواب نہیں ۔۔۔
عظیم الدین عظیم

یہ ویرپن بھی عجیب آدمی ہے ۔ مینڈک اور بھالو کی ساری خصلتیں اس میں موجود ہیں ۔ جاڑے کا موسمHibernation میں گزارتا ہے ۔جب جاگتا ہے تو بھیڑ یئے کی طرح کسی گاؤں کے فارم ہاؤس سے کسی معروف شخصیت کو بھیر بکری جیسے اٹھالاتا ہے۔ پھر کیا ہے ٹیپ ریکارڈ ر سامنے رکھ کر اپنی راگ الاپتاہے ۔ (اسے گانا نہیں آتا) کبھی جے للتا اماں کو تو کبھی کرشنا اوارو کو اپنا کیسٹ بھیج کر اپنی مدھر آواز سے ان کا دل جیتنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ساتھ یہ دھمکی بھی دیتا ہے کہ پچھلیبار کی طرح اگر وعہ وفا نہ کیا تو وہ بھی بے وفا ہوجائے گا۔ اس کے کیسٹ استاد بڑے غلام علی خاں ، پنڈت بھیم سین جوشی ، استاد امجد علی خاں ۔ پنڈت روی شنکر، گنگوبائی ہانگل ، بیگم اختر ،نورجہاں ، ایم ایس سبو لکشمی ی لتا منگیشکر کے گانو ں اور موسیقی والے نہیں ہوتے ۔ ویرپن کے کیسٹوں میں صرف مطالبات ہوتے ہیں اور وہ تحت اللفظ ہوتے ہیں ۔ جنگل سے کیسٹ حاصل کرنے کے بعد کا حال ذرا سنئے۔کیسٹ کی زبان تمل ہے ۔ نہ ادبی تمل اور نہ صحافتی تمل بلکہ جنگلی تمل ۔کرناٹکسرکار کو ایک تمل مترجم کی ضرورت پڑتی ہے جو تینوں زبانوں تمل کنڑا اور انگریزی پر عبور رکھتا ہو۔ کنڑا اورانگریزی ترجمے پر ایک ماہرین کی کمیتی بٹھائی جاتی ہے ۔ پندرہ بیس برس سے ایسی کمیٹی کام کررہی ہے ۔ اور وہ بھی ایس ٹی ایف جیسی ہے جو کسی کا اغوا یا کسی پر حملہ ہونے پر کام شروع کرتی ہے ۔ اس کے بعد خاموش یعنی مرض ہائی برنیشن میں مبتلا ۔صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو تینوں ۔ویرپن، ایس ٹی ایف اور کیسٹ اڈوائزری کمیٹی اس مرض کے شکار ہیں ۔لیکن ویرپن کی بات ہی کچھ اور ہے ۔ وہ وقت بے وقت جاگ جاتا ہے ۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایس ٹی ایف گہری نیند میں ہے ۔ بغیر وقت ضائع کئے وہ اپنی ٹولی کے ساتھ شکار پر نکل جاتاہے ۔اس کے پاس راج کماروں اور ناگپاؤں کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ جس کے مطالق سال میں ایک دو بار شکار کھیلتا ہے ۔ پلان کے مطابق اپنا جال پھینکتا ہے جو کبھی خالی نہیں جاتا ۔ پھنسے ہوئے کولے کر اپنے غار میں پہنچ جاتا ہے ۔دوسرے دن اخباروں اور میڈیا کے ذریعہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے ۔اس آگ کی تپش سوئی ہوئی ایس ٹی ایف کو بھی محسوس ہوتی ہے۔ اور وہ ہڑ بڑا کر اٹھتی ہے جیسے کوئی خوفناک خواب دیکھا ہو۔ ہولا جو لی کا منظر ۔ ادھر ادھر باؤلوں کی طرح دوڑنے لگتیہیں ۔ لیدروں کی میٹنگیں شروع ہوتی ہیں ۔ وزیر اعلیٰ اور وزیردالہ دہلی پہنچ جاتے ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ اور شاعر اعظم سے ملاقات کرتے ہیں ۔ دونوں یقین دلاتیہین کہ مرکز سے جو بھی تعاون چاہئے ملے گا۔ نتیجہ خوشی خوشی ہمارے لیڈر بنگلور لوٹ جاتے ہیں۔

واہ رے انصاف از:لئیق اختر فیض آبادی


واہ رے انصاف از:لئیق اختر فیض آبادی
’’انصاف کو اگر تم اس کی اصل صورت مین رکھنا چاہتے ہو تو اتر پردیش میں دیکھ لو۔ ۔۔۔ یہ کہہ کے مرزا چیکن جیسے ہی چپ ہوئے میں نے پوچھا ۔۔۔ قبلہ آج کل ہمارے ملک میں بڑے بڑے لیتا آئس کریم بن چکے ہیں اور حکومتیں سردخانے میں ٹھٹھر رہی ہیں کیوں کہ ان دنوں عدالتیں اور سی بی آئی بہت سرگرم ہیں ۔اگر آپ نے انصاف پر کوئی نکتہ چینی کی تو آپ کی ساری حق بیانی اور صاف گوئی کو بلا ضمانت وارنٹ جاری کردیا جائے کیوں کہ طویل عرصہ کے بعد انصاف کھل کے سامنے آیا ہے ۔دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کیا جارہا ہے ۔ سفید پوشان سیاست کے بدن کے سیاہ دھبے سامنے آرہے ہیں ۔چھپے ناسوراب چھپائے نہیں چھپ رہے ہیں لہٰذا اگر آپ کو زحمت نہ ہوتو فرس زبان کو لگام لگالیں۔
مرزا نے زور دار قہقہہ لگا کر فرمایا۔ اجی گھبراؤ نہیں انصاف اور قانون کی نوک پلک سے اگر ہم واقف نہ ہوتے تو ہرگز سر مغزنی نہ کرتے ۔سنو اور غور سے سنو ۔ ہمارے لکھنؤ میں دو وقف بورڈہیں ایک کانام نامی بحکم سرکار سنی سنٹرل وقف بورڈ اتر پردیش ہے اور