Wednesday, April 24, 2013

6جامعہ دارالسلام کا ایک دن

6جامعہ دارالسلام کا ایک دن
ظہر کی اذان ہو رہی ہے، ہم نیند سے بیدار ہو گئے، وضو کر کے حمام خانے سے نکلے، اپنا چہرہ، ہاتھ تولیے سے پونچھنے کے بعد ظہر کی نماز کے لیے تیز تیز قدموں سے مسجد سلطان کی طرف جارہے ہیں، لیجیے جماعت ٹھہر گئی ہے، مولانا ابوالبیان حمادؔ عمری امامت کے لیے آگے بڑھ چکے ہیں، مولانا نے اس مسجد کا افتتاح کرتے ہوئے غالباً سب سے پہلے ظہر کی نماز پڑھائی تھی، اس کے بعد سے آج تک مسلسل ظہر کی نماز پڑھاتے آ رہے ہیں، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ آپ مسجد سلطان میں ظہر کی نماز نہ پڑھائیں۔
’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ ، ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ مولانا ظہر کی نماز کا سلام پھیر چکے ہیں، طلباء جلدی جلدی تسبیحات ادا کر رہے ہیں، کچھ طلباء کی نماز قضاء ہو گئی ہے، وہ جلد از جلد اپنی بقیہ رکعتیں ادا کرنے میں مصروف ہیں، کچھ طلباء تسبیحات مکمل کرکے سنن ونوافل سے فراغت حاصل کر رہے ہیں، لیجیے ہم بھی سنت پڑھ کر مسجد سے باہر نکل آئے، چائے پینے کے لیے ہوٹل کی طرف جا رہے ہیں، بعض طلباء جو چائے پینے کے عادی نہیں ہیں کلاسوں کا رخ کر رہے ہیں، ابھی کلاس شروع ہونے کے لیے آدھا گھنٹہ باقی ہے، طلباء رسائل، جرائد اور اخبارات کا مطالعہ کر رہے ہیں، پانی پینے والے پانی پی رہے ہیں، کچھ طلباء گپ شپ میں مصروف ہیں، جامعہ کے سکریٹری مولانا کا کا سعید احمد عمری نہ جانے کیسے بے وقت اس طرف تشریف لا رہے ہیں، ہمیشہ جامعہ کی ترقی ، طلباء کے تعلیمی معیار میں اضافے کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں، آپ چاہے جہاں ہوں جامعہ کی فکر دامن گیر رہتی ہے، طلباء میں کسی قسم کی کوئی خامی برداشت نہیں کر سکتے، کاکا محمد عمرؒ ، کاکا محمد اسماعیلؒ ،کاکا محمد ابراہیمؒ نے جس پودے کی آبیاری کی تھی ، جسے اپنے خون دل سے سینچا تھا وہ آج تناور درخت کی شکل اختیا ر کرچکا ہے، کاش آج کے دن یہ بزرگان موجود ہوتے تو جامعہ کی ترقی دیکھ کر کیسے خوش ہوتے، کیسی مسرت کا اظہار کرتے۔
مولانا کاکا سعید احمد عمری کے ساتھ آج کاکا انیس بھی تشریف لا رہے ہیں، بڑی حلیم، متین، بردبار شخصیت ہیں، قابل باپ کے قابل فرزند ہیں، ہمیشہ اپنے باپ کے کندھے سے کندھا ملا کر چلتے ہیں، اپنے والد کا پورا پورا تعاون کرتے ہیں، اللہ آپ کی مساعئ جمیلہ کو قبول فرمائے۔
دو بجنے کے لیے پانچ منٹ اور باقی ہیں، وارننگ بیل بج چکی ہے، ہمارے ساتھی ،دیگرکلاسوں کے طلباء تیزی سے چلتے ہوئے اپنی کلاسوں میں داخل ہو چکے ہیں، ہم بھی اپنی کلاس میں داخل ہوگئے، اپنی مخصوص سیٹ پر بیٹھ گئے، دیکھئے! مولانا آ گئے، یہ مقدمہ ابن خلدون اور کی گھنٹی ہے، ہفتے میں تین دن مقدمہ ابن خلدون پڑھاتے ہیں، ابن خلدوں کے اس مقدمے سے ہمیں ان کے گہرے، تاریخی، سماجی، تہذیبی شعور کا پتہ چلتا ہے، مولانا نے اس کتاب کو بڑی محنت، لگن سے پڑھایا، مزہ آ گیا۔
دوپہر کی دوسری گھنٹی مولانا ظفر الحق طالب نائطیؔ عمری کی ہے، جو تاریخ الادب العربی اور دیوان متنبی پڑھاتے ہیں، ہفتے کے تین دن تاریخ ادب، بقیہ دن دیوان متنبی کے لیے مختص ہیں، لیجئے! آپ تشریف لا چکے ہیں، ادب کی گھنٹی ہو، استاد مولانا ظفر الحق طالب نائطیؔ عمری ہوں تو اس کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے، مولانا اپنے مخصوص انداز میں احمد حسن زیات کی تاریخ ادب عربی پڑھا رہے ہیں، مولانا کی خوبی یہ ہے کہ ان کی گھنٹی کے دوران سب کی توجہ سبق پر مرکوز ہوتی ہے، عبارت کا ترجمہ چست رواں دواں کرتے ہیں، درمیان میں کبھی غالبیات پر بحث ہو رہی ہے تو کبھی اقبالیات موضوع گفتگو ہے، کبھی مولانا آزاد پر بات ہو رہی ہے، الغرض یہ گھنٹی یک رنگی نہیں ست رنگی گھنٹی ہے، قواعد عربی سمجھانے کا آپ کااپنا انداز ہے۔
آپ شاعر بھی ہیں، مشاعرے میں عموماً اپنی غزلیں، فارسی اشعار سنا کر سامعین کو مرعوب کر دیتے ہیں، مولانا کا یہ شعر مجھے بہت پسند ہے ؂
عزیمتوں کے راستے بڑے ہی پرخطر سہی
جو حوصلے بلند ہوں نشیب کیا فراز کیا
دیکھتے ہی دیکھتے دوسری گھنٹی بھی ختم ہو گئی، مولانا کی پر بہار گھنٹی کب شروع ہوئی، کب ختم ہوئی احساس ہی نہیں ہوا۔ گھنٹی بجنے کے ساتھ ہی آپ نے اپنا سبق روک دیا، اٹھ کر کلاس سے چلتے بنے، تیسری گھنٹی انگریزی کی گھنٹی ہے، اس گھنٹی میں کلاس دوحصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے، ’’الف‘‘ اور ’’با‘‘ ، ’’الف‘‘ کے طلباء اسی کلاس میں بیٹھ جاتے ہیں، ’’با‘‘ کے طلباء اوپر چلے جاتے ہیں، الف کے استاد ہیں ماسٹر مسعود صاحب، ’’با‘‘ کے استاد ہیں ماسٹر فضل اللہ صاحب، میں نے جامعہ دارلاسلام میں جماعت چہارم میں داخلہ لیا، جماعت چہارم سے آٹھویں جماعت تک مجھے انگریزی ماسٹر مسعود صاحب ہی سے پڑھنے کا اتفاق ہوا، یہ بھی اتفاق ہی ہے کہ عارف الحق کا نام بھی مسلسل ماسٹر مسعود صاحب کی جماعت میں ہی لکھا جاتا رہا، ماسٹر صاحب بھی انہیں بہت چاہتے تھے، ماسٹر مسعود صاحب بھی بسا اوقات واقعات، لطائف سناتے، کلاس کو متحرک رکھتے، پڑھانے سے کبھی غفلت کا اظہار نہ کرتے، اگرچہ طلباء انہیں بہت پریشان کرتے تھے، کبھی کوئی بلی کی آواز نکال رہا ہے، کوئی کتے کی طرح بھونک رہا ہے، ماسٹر صاحب ایسے وقت میں جلال میں آ جاتے، ان کی حالت ایسی صورت میں قابل دید ہوتی، ماسٹر صاحب کو طلباء کی فطرت سے آگاہ ہونا چاہئے، اگر وہ طلباء کی ان حرکتوں کا نوٹس نہیں لیں گے تو طلباء ازخود خاموش ہو جائیں گے، طلباء تو طلبا ٹھہرے، شرارت کرنا ان کی فطرت ثانیہ ہے، خواہ وہ پہلی جماعت کے طلباء ہوں یا آخری جماعت کے، ان سے سنجیدگی کی توقع کرنا فضول ہے، کبھی کبھی اصول صحت پر بھی کھل کر بحث کرتے کہ کون سی چیز صحت کے لیے مفید ہے ؟ کون سی مضر ہے؟ کس چیز کو کس طرح استعمال کرنا چاہئے اور کس طرح نہیں؟ اس حوالے سے اور کیا کیا گفتگو ہوتی ہوگی آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔
ماسٹرفضل اللہ صاحب کے پاس چونکہ پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا اس لیے ان کے انداز تدریس کے بارے میں اظہار خیال کرنے سے قاصر ہوں، طلباء بتاتے ہیں کہ وہ بہت اچھی طرح پڑھاتے ہیں، سمجھاتے ہیں، مگر شنیدہ کی بود مانند دیدہ۔
ماسٹر مسعود صاحب کتاب بند کر چکے ہیں، ’’ٹائم کیا ہوا بھئی؟‘‘ مسعود صاحب نے سوال کیا۔ کسی نے جواب دیا ’’ابھی پانچ منٹ باقی ہیں‘‘ طلباء خاموشی سے بیٹھے ہوئے وقت گزرنے کا انتظار کر رہے ہیں، لیجئے! پانچ منٹ گذر گئے، چھٹی کی گھنٹی بج گئی، ہم جلدی جلدی کتابیں سمیٹے اپنی کلاس سے باہر جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، ہمارے قدم آگے بڑھ رہے ہیں، طلباء اپنی جماعتوں سے غول در غول نکل رہے ہیں، کوئی خاموشی سے اور کوئی گفتگو کرتے ہوئے مسجد کی طرف جارہا ہے، ہم مسجد میں پہونچ گئے، مسجد کے صحن کے دائیں طرف اپنی کتابیں رکھ دیں، چپل چھوڑ دیے، حوض کی طرف جا رہے ہیں، حوض کے ٹھنڈے پانی سے وضو کیا، وضو سے فراغت کے بعد ہم مسجد میں جا کر بیٹھ گئے، جماعت کے لیے ابھی پانچ منٹ باقی ہیں، ہم سنت ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوئے، دو رکعت سنت پڑھ کے بیٹھ گئے، کچھ طلباء ہاتھ باندھے جماعت کے انتظار میں کھڑے ہوئے ہیں، کچھ تیزی سے وضو سے فراغت حاصل کر رہے ہیں۔
عصر کی جماعت کھڑی ہو گئی ہے، امامت کے لیے عارف الحق آگے بڑھ چکے ہیں، تکبیر تحریمہ کی آواز سن کر طلباء جو وضو بنانے میں مصروف تھے دوڑتے ہوئے آ رہے ہیں، جماعت میں شریک ہو رہے ہیں، چہار رکعت عصر کی فرض نماز امام صاحب کے سلام کے ساتھ ختم ہوئی، ہم فرض نمازوں کے بعد کی تسبیح میں مصروف ہیں، کچھ طلباء کے چہروں پر بیچینی محسوس ہو رہی ہے، شاید وہ جلد گراؤنڈ جا نا چاہتے ہوں گے، یا آج ان کا میچ ہوگا۔
بہر کیف! عصر پڑھ کر ہم باہر نکلے، عصر کے بعد آٹھویں جماعت والوں کو تجوید کی گھنٹی پڑھنی ہوتی ہے، اس میں حفاظ غیر حفاظ کی تفریق نہیں کی جاتی، ہم کتابیں لے کر کمرے کی طرف جارہے ہیں، الماری میں کتابیں رکھنے کے بعد مصحف لے کر تیزی سے کلاس کی جانب رواں ہو جاتے ہیں، وہاں تجوید کے استاد مولانا محمد عبدالقیوم طاہر مدنی ہم سے پہلے کلاس میں حاضر ہیں، طلباء اپنے اسباق سنا رہے ہیں، قاری صاحب تجوید کی چھوٹی موٹی اغلاط کی نشاندہی کر رہے ہیں، قاری عبدالقیوم طاہر مدنی صاحب کے بار ے میں آپ جانتے ہی ہوں گے کہ یہ الجامعۃ الاسلامیۃ سے فارغ التحصیل ہیں، قدرت نے نہایت خوبصورت آواز سے نوازا ہے، بڑے نستعلیق قسم کے انسان ہیں، مخصوص رکھ رکھاؤ اور سلیقہ ان کی فطرت کا حصہ ہے، الجامعۃ الاسلامیۃ (المدینۃ المنورۃ) میں دس سال امامت کے فرائض انجام دے چکے ہیں، ہمیں آپ کی شخصیت کو بہت قریب سے دیکھنے، پرکھنے، سمجھنے کا موقع ملا، بڑے نرم مزاج انسان ہیں، اردو سے زیادہ عربی کتابیں پڑھنے کا ذوق رکھتے ہیں، آپ کی لائبریری میں بڑی اہم، بنیادی کتابیں دستیاب ہیں۔

5جامعہ دارالسلام کا ایک دن

5جامعہ دارالسلام کا ایک دن
اگر آپ درس کے اوقات کے علاوہ دیگر اوقات میں جامعہ دارالسلام تشریف لائیں گے تو آپ کو استاد وشاگرد میں تفریق کرنے میں بڑی مشکل پیش آئے گی، اس کے لیے آپ کو پوچھنا پڑے گا کہ فلاں استاد کون ہیں، آپ کو پتہ چلے گا کہ جو صاحب طلباسے گفتگو میں منہمک ہیں وہ بخاری کے استاد ہیں، جو صاحب طلباء کے ساتھ چائے پی رہے ہیں وہ حدیث کے استاذ ہیں، جو صاحب طلباء کے ساتھ والی بال کھیل رہے ہیں وہ فقہ کے استاذ ہیں، جو صاحب طلباء کے ہمراہ چہل قدمی کر رہے ہیں وہ ادب کے استاذ ہیں، اللہ کرے ہمارے اساتذہ اور طلباء کا تعلق یونہی برقرار رہے، اس میں کسی قسم کا انقطاع نہ آنے پائے۔ آمین!

4جامعہ دارالسلام کا ایک دن


4جامعہ دارالسلام کا ایک دن
چوتھی گھنٹی صحیح مسلم کی گھنٹی ہے، مولانا خلیل الرحمن اعظمی سابق ناظم جامعہ آیا چاہتے ہیں، طلباء جلدی جلدی صحیح مسلم کی کاپی نکال رہے ہیں،
 میں نے بھی اپنی کاپی نکالی، یہ دیکھیے! یہ لمبے سے مولانا پیچھے ہاتھ باندھے تشریف لا رہے ہیں، آپ کی چال میں وقار، متانت اور سنجیدگی ہے، کالی لمبی ٹوپی لگاتے ہیں، جو تملناڈو کے شرفاء کی شناخت ہے، درسگاہ میں داخل ہونے کے ساتھ ’’السلام علیکم‘‘ کہتے ہیں، بردباری سے اپنے مقام پر بیٹھ جاتے ہیں، طلباء صحیح مسلم آگے بڑھاتے ہیں، ’’آج کس کی باری با؟‘‘ مولانا پوچھتے ہیں، ’’مصدق حسین کی ‘‘ ہم جواب دیتے ہیں، مصدق حسین عبارت پڑھنا شروع کرتے ہیں، آپ احادیث کے ترجمے سے ساتھ الفاظ کی تشریح، احادیث کی تشریح کرتے جاتے ہیں، اگر عبارت میں غلطی ہو 

3جامعہ دارالسلام کا ایک دن

 3جامعہ دارالسلام کا ایک دن
ہماری جماعت کی خصوصیت بلکہ امتیاز یہ ہے کہ اس کی نصف کے قریب تعداد حافظ ہے،یہ ہماری اور ہمارے ساتھیوں کی کہکشاں ہے، جس میں کوئی لکھنے میں ماہر ہے تو کوئی بولنے میں، کوئی اچھی طرح قرآن پڑھتا ہے تو کوئی کھیلنے میں مہارت رکھتا ہے، کوئی قلم کا دھنی ہے تو کوئی زبان وبیان کا۔ گویا ایں خانہ ہمہ آفتاب است والی صورت حال ہے، ان میں سے کوئی آج کسی مدرسے کا استاذ ہے تو کوئی کسی مسجد کا امام ، کوئی قطر میں امامت کی خدمت انجام دے رہا ہے تو کوئی کسی درسگاہ سے منسلک ہے۔ 

آگے بڑھتے ہیں، دکتور عبداللہ جولم عمری مدنی بخاری پڑھانے کے لیے آگئے ہیں، ماشاء اللہ کیا علمی نکات بیان کر رہے ہیں، مسائل بتا رہے ہیں، حدیث کی تشریح کر رہے ہیں، طلباء کے اشکالات کا جواب دے رہے ہیں، تشریح کی ضرورت نہیں سمجھی تو آگے عبارت پڑھنے کا حکم دے رہے ہیں، ہمارے ساتھی شعیب بڑی روانی اور تیزی سے پڑھ رہے ہیں، شاید آج ان کی باری ہے۔
جولم صاحب کے پڑھانے کا انداز بڑا دلچسپ ہے، اگرچہ آپ نیپال کے ہیں، مگر اردو عربی بڑی روانی سے بولتے ہیں، بہت آسان زبان استعمال کرتے ہیں، ہر مسئلہ کے مالہ وماعلیہ سے واقف کراتے ہیں، کسی بھی مسئلے کی دلیل کے طور پر قرآن وحدیث سے بے شمار دلائل پیش کرتے ہیں، ہر مسئلے میں وہ اپنی واضح رائے رکھتے ہیں جو ان کے صاف گو اور حق گو ہونے کی دلیل ہے۔
بچوں پر نماز کے سلسلے میں بہت سختی برتتے ہیں، بہت سادہ انسان ہیں، زیادہ تکلف کو پسند نہیں کرتے، مسائل میں سائل کو قائل کرنے کی خاص صلاحیت اللہ نے آپ کو ودیعت کی ہے، طلباء کے چھوٹے سے چھوٹے مسائل سے لے کر بڑے سے بڑے مسائل تک حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
لیجیے! دیکھتے ہی دیکھتے پہلی گھنٹی ختم ہو گئی، دکتور صاحب چلے گئے، ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ پڑھانے کے لیے مولا نا ڈاکٹر سعید احمد عمری تشریف لائیں گے، جو قرآن کریم سے خاص شغف رکھتے ہیں، اس حوالے سے انہوں نے Ph.Dکی ہے، جب قرآنیات پر بولنا شروع کرتے ہیں تو بولتے چلے جاتے ہیں، جی چاہتا ہے کہ وہ یونہی بلا توقف بولتے رہیں، مولانا کو سننے کا موقع کا کئی بار حاصل ہوا پھر بھی تشنگی باقی ہے، ہمیشہ یہی آرزو لے کر مولانا کی مجلس سے اٹھتے ہیں کہ کاش مولانا کچھ دیر اور بولتے۔
مولانا جب سے تنویر کے نگراں کے مقرر ہوئے ، تنویر نے بہت ترقی کی، دارالسلام کے کئی خصوصی شمارے آپ کی نگرانی میں شائع ہوئے، خود میں نے مولانا کو کئی بار تنویر کے بارے میں بے حد فکرمند دیکھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی طبیعت بے حد حساس ہے، جو ذمہ داری بھی آپ کو سونپی جاتی ہے اسے احسن طریقے سے نبھانے کی مکمل کوشش کرتے ہیں، یہ آپ کا وصف خصوصی ہے۔
’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ پڑھانے کا انداز نرالا ہے، شاہ صاحب کی یہ کتاب ویسے بہت مشکل ہے مگر مولانا اسے بیحد آسان کر دیتے ہیں، ہم لوگ عموماً مولانا سعید احمد پالنپوری کی پانچ جلدوں میں لکھی ہوئی حجۃ اللہ البالغۃ کی شرح ’’رحمۃ اللہ الواسعۃ‘‘ سے استفادہ کرتے ہیں، مگر چند مباحث کی شرح متن سے زیادہ مشکل ہے اس کے لیے مولانا (سعید عمری صاحب) کے نوٹس کا سہارا لینا ناگزیر ہوتا ہے، دراصل وہ بہت سی ایسی باتیں اپنے مطالعہ کی بنیاد پر بتلاتے ہیں جن کا کسی کتاب یا شرح میں ملنا بہت مشکل ہے۔
میں اس بات کی بڑی کوشش کرتا تھا کہ مولانا کی کہی ہوئی ایک بات بھی قید تحریر میں آنے سے نہ رہ جائے، اکثر میں کامیاب بھی ہوتا تھا،مگر افسوس مجھ سے حجۃ اللہ البالغہ کی وہ کاپی کھو گئی ہے جو میں نے دوران درس تیار کی تھی، اگر آج وہ موجود ہوتی تو اہل علم کے لیے ایک قیمتی سرمایے سے کم ثابت نہ ہوتی۔ناچیز کو اس بات کا بھی بے حد افسوس ہے کہ مولانا سے جتنا استفادہ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نے نہیں کیا۔ حالانکہ آپ نے ہماری رہنمائی کی حتی المقدور کوشش کی، ہمیں صحیح مشورے دیے، ہمارے ساتھ اپنے بچوں کی طرح سلوک کیا، اللہ تعالیٰ اس کا اجر آپ کو قیامت کے دن ضروردے گا۔
ہفتے میں تین دن حجۃاللہ کے لئے اوربقیہ تین دن عقیدۂ طحاویہ کے لئے مختص تھے۔عقیدۂ طحاویہ کی گھنٹی ہے، مدرس ہیں مولانا اطہر حسین عمری مدنی، اس سے قبل ہم نے آپ سے سراجی اور مفصل پڑھی ہے، بڑے محنتی، طلباء کے حق میں بے حد شفیق ہیں، آپ اپنے درس میں اس بات کی بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ طالب علم کو بات پوری طرح سمجھ میں آجائے، آپ ہی جامعہ دارالسلام کے نائب ناظم ہیں، جب تک طالب علم کے بارے ان کو یقین نہ ہو جاتا کہ یہ چھٹی کا مستحق ہے ہرگز ہرگز چھٹی عطا نہ کرتے، یہ اصل میں طلباء کے ساتھ شفقت کی انتہاء ہے کہ طالب علم کا ایک درس بھی ناغہ ہونے پائے، طالب علم خواہ کتنا ہی ذہین نہ ہو وہ استاد کے برابر نہیں ہو سکتا، اس لیے ہر طالب علم کا ہر کلاس میں حاضری دینا ، براہ راست استاد سے درس لینا ضروری ہے۔
آپ تکیہ کلام کے طور پر ’’اس طرح سے‘‘ استعمال کرتے تھے، دوران درس بکثرت اس طرح سے اس طرح سے کہتے تھے، چند شریر قسم کے طلباء باقاعدہ شمار کرتے تھے کہ مولانا نے آج کے درس میں ’’اس طرح سے‘‘ اتنی مرتبہ فرمایا ہے، اگر کوئی طالب بے تکا سوال کرتا تو اسے ایسا جواب دیتے کہ طالب علم بھونچکا رہ جاتا۔(کچھ ہی مہینوں قبل آپ کا انتقال ہوا، اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے،صالح اولاد کو ثواب جاریہ کا ذریعہ بنائے۔آمین!)
یہ تیسری گھنٹی ہے، جو بیضاوی کے لیے مختص ہے، شیخ التفسیر مولانا عبد الکبیر صاحب تشریف لانے والے ہیں، آپ نے راہ اعتدال میں مسلسل جن کے دروس قرآن سے استفادہ کیا ہے وہ حضرت کے ہی افادات سے مرتب کیے گئے ہیں، فوزی تخلص فرماتے ہیں، جامعہ کے سب سے قدیم استاذ ہیں، بڑے ہی نرم مزاج، انہیں دیکھ کر اسلاف کی یاد آجاتی ہے، اگر آپ نے قدیم بزرگوں کو دیکھنے کا شرف حاصل نہ کیا ہو کہ ان کے عادات واطوار کیسے ہوتے تھے؟ انداز گفتگو کیا تھا؟ اپنے برابر والوں سے ، اپنے بڑوں سے اور اپنے چھوٹوں سے وہ کیسا سلوک روا رکھتے تھے؟ تو گھبرانے کی ضرورت نہیں! شیخ التفسیر حافظ عبدالکبیر صاحب کی زیارت کر لیں ، ان شاء اللہ آپ کی دیرینہ آرزو پوری ہوا جائے گی۔
مولانا جب تفسیر بیضاوی پڑھاتے ہیں تو پیرانہ سالی اور ضعف کے باوجود آواز بلند سے بلند تر ہوتی چلی جاتی ہے، سالوں سے بیضاوی پڑھا رہے ہیں مگر آج بھی پڑھانے سے قبل مطالعے کو ضروری خیال کرتے ہیں، تفسیر بیضاوی کے ساتھ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی الفوز الکبیر بھی شامل درس ہے اور یہ کتاب بھی ہمیں مولانا ہی سے پڑھنے کا شرف حاصل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو قابل رشک صحت سے نوازا ہے، کڑاکے کی سردی ہو یا سخت دھوپ، گلے میں رومال ڈالے مولانا اپنے وقت پر پڑھانے کے لیے آپ کو تیار ملیں گے، ایسے وقت کی پابندی کرنے والے متقی اور پرہیزگار اساتذہ آپ کو شاذ ونادر ہی ملیں گے!