Wednesday, April 24, 2013

5جامعہ دارالسلام کا ایک دن

5جامعہ دارالسلام کا ایک دن
اگر آپ درس کے اوقات کے علاوہ دیگر اوقات میں جامعہ دارالسلام تشریف لائیں گے تو آپ کو استاد وشاگرد میں تفریق کرنے میں بڑی مشکل پیش آئے گی، اس کے لیے آپ کو پوچھنا پڑے گا کہ فلاں استاد کون ہیں، آپ کو پتہ چلے گا کہ جو صاحب طلباسے گفتگو میں منہمک ہیں وہ بخاری کے استاد ہیں، جو صاحب طلباء کے ساتھ چائے پی رہے ہیں وہ حدیث کے استاذ ہیں، جو صاحب طلباء کے ساتھ والی بال کھیل رہے ہیں وہ فقہ کے استاذ ہیں، جو صاحب طلباء کے ہمراہ چہل قدمی کر رہے ہیں وہ ادب کے استاذ ہیں، اللہ کرے ہمارے اساتذہ اور طلباء کا تعلق یونہی برقرار رہے، اس میں کسی قسم کا انقطاع نہ آنے پائے۔ آمین!

4جامعہ دارالسلام کا ایک دن


4جامعہ دارالسلام کا ایک دن
چوتھی گھنٹی صحیح مسلم کی گھنٹی ہے، مولانا خلیل الرحمن اعظمی سابق ناظم جامعہ آیا چاہتے ہیں، طلباء جلدی جلدی صحیح مسلم کی کاپی نکال رہے ہیں،
 میں نے بھی اپنی کاپی نکالی، یہ دیکھیے! یہ لمبے سے مولانا پیچھے ہاتھ باندھے تشریف لا رہے ہیں، آپ کی چال میں وقار، متانت اور سنجیدگی ہے، کالی لمبی ٹوپی لگاتے ہیں، جو تملناڈو کے شرفاء کی شناخت ہے، درسگاہ میں داخل ہونے کے ساتھ ’’السلام علیکم‘‘ کہتے ہیں، بردباری سے اپنے مقام پر بیٹھ جاتے ہیں، طلباء صحیح مسلم آگے بڑھاتے ہیں، ’’آج کس کی باری با؟‘‘ مولانا پوچھتے ہیں، ’’مصدق حسین کی ‘‘ ہم جواب دیتے ہیں، مصدق حسین عبارت پڑھنا شروع کرتے ہیں، آپ احادیث کے ترجمے سے ساتھ الفاظ کی تشریح، احادیث کی تشریح کرتے جاتے ہیں، اگر عبارت میں غلطی ہو 

3جامعہ دارالسلام کا ایک دن

 3جامعہ دارالسلام کا ایک دن
ہماری جماعت کی خصوصیت بلکہ امتیاز یہ ہے کہ اس کی نصف کے قریب تعداد حافظ ہے،یہ ہماری اور ہمارے ساتھیوں کی کہکشاں ہے، جس میں کوئی لکھنے میں ماہر ہے تو کوئی بولنے میں، کوئی اچھی طرح قرآن پڑھتا ہے تو کوئی کھیلنے میں مہارت رکھتا ہے، کوئی قلم کا دھنی ہے تو کوئی زبان وبیان کا۔ گویا ایں خانہ ہمہ آفتاب است والی صورت حال ہے، ان میں سے کوئی آج کسی مدرسے کا استاذ ہے تو کوئی کسی مسجد کا امام ، کوئی قطر میں امامت کی خدمت انجام دے رہا ہے تو کوئی کسی درسگاہ سے منسلک ہے۔ 

آگے بڑھتے ہیں، دکتور عبداللہ جولم عمری مدنی بخاری پڑھانے کے لیے آگئے ہیں، ماشاء اللہ کیا علمی نکات بیان کر رہے ہیں، مسائل بتا رہے ہیں، حدیث کی تشریح کر رہے ہیں، طلباء کے اشکالات کا جواب دے رہے ہیں، تشریح کی ضرورت نہیں سمجھی تو آگے عبارت پڑھنے کا حکم دے رہے ہیں، ہمارے ساتھی شعیب بڑی روانی اور تیزی سے پڑھ رہے ہیں، شاید آج ان کی باری ہے۔
جولم صاحب کے پڑھانے کا انداز بڑا دلچسپ ہے، اگرچہ آپ نیپال کے ہیں، مگر اردو عربی بڑی روانی سے بولتے ہیں، بہت آسان زبان استعمال کرتے ہیں، ہر مسئلہ کے مالہ وماعلیہ سے واقف کراتے ہیں، کسی بھی مسئلے کی دلیل کے طور پر قرآن وحدیث سے بے شمار دلائل پیش کرتے ہیں، ہر مسئلے میں وہ اپنی واضح رائے رکھتے ہیں جو ان کے صاف گو اور حق گو ہونے کی دلیل ہے۔
بچوں پر نماز کے سلسلے میں بہت سختی برتتے ہیں، بہت سادہ انسان ہیں، زیادہ تکلف کو پسند نہیں کرتے، مسائل میں سائل کو قائل کرنے کی خاص صلاحیت اللہ نے آپ کو ودیعت کی ہے، طلباء کے چھوٹے سے چھوٹے مسائل سے لے کر بڑے سے بڑے مسائل تک حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
لیجیے! دیکھتے ہی دیکھتے پہلی گھنٹی ختم ہو گئی، دکتور صاحب چلے گئے، ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ پڑھانے کے لیے مولا نا ڈاکٹر سعید احمد عمری تشریف لائیں گے، جو قرآن کریم سے خاص شغف رکھتے ہیں، اس حوالے سے انہوں نے Ph.Dکی ہے، جب قرآنیات پر بولنا شروع کرتے ہیں تو بولتے چلے جاتے ہیں، جی چاہتا ہے کہ وہ یونہی بلا توقف بولتے رہیں، مولانا کو سننے کا موقع کا کئی بار حاصل ہوا پھر بھی تشنگی باقی ہے، ہمیشہ یہی آرزو لے کر مولانا کی مجلس سے اٹھتے ہیں کہ کاش مولانا کچھ دیر اور بولتے۔
مولانا جب سے تنویر کے نگراں کے مقرر ہوئے ، تنویر نے بہت ترقی کی، دارالسلام کے کئی خصوصی شمارے آپ کی نگرانی میں شائع ہوئے، خود میں نے مولانا کو کئی بار تنویر کے بارے میں بے حد فکرمند دیکھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی طبیعت بے حد حساس ہے، جو ذمہ داری بھی آپ کو سونپی جاتی ہے اسے احسن طریقے سے نبھانے کی مکمل کوشش کرتے ہیں، یہ آپ کا وصف خصوصی ہے۔
’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ پڑھانے کا انداز نرالا ہے، شاہ صاحب کی یہ کتاب ویسے بہت مشکل ہے مگر مولانا اسے بیحد آسان کر دیتے ہیں، ہم لوگ عموماً مولانا سعید احمد پالنپوری کی پانچ جلدوں میں لکھی ہوئی حجۃ اللہ البالغۃ کی شرح ’’رحمۃ اللہ الواسعۃ‘‘ سے استفادہ کرتے ہیں، مگر چند مباحث کی شرح متن سے زیادہ مشکل ہے اس کے لیے مولانا (سعید عمری صاحب) کے نوٹس کا سہارا لینا ناگزیر ہوتا ہے، دراصل وہ بہت سی ایسی باتیں اپنے مطالعہ کی بنیاد پر بتلاتے ہیں جن کا کسی کتاب یا شرح میں ملنا بہت مشکل ہے۔
میں اس بات کی بڑی کوشش کرتا تھا کہ مولانا کی کہی ہوئی ایک بات بھی قید تحریر میں آنے سے نہ رہ جائے، اکثر میں کامیاب بھی ہوتا تھا،مگر افسوس مجھ سے حجۃ اللہ البالغہ کی وہ کاپی کھو گئی ہے جو میں نے دوران درس تیار کی تھی، اگر آج وہ موجود ہوتی تو اہل علم کے لیے ایک قیمتی سرمایے سے کم ثابت نہ ہوتی۔ناچیز کو اس بات کا بھی بے حد افسوس ہے کہ مولانا سے جتنا استفادہ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نے نہیں کیا۔ حالانکہ آپ نے ہماری رہنمائی کی حتی المقدور کوشش کی، ہمیں صحیح مشورے دیے، ہمارے ساتھ اپنے بچوں کی طرح سلوک کیا، اللہ تعالیٰ اس کا اجر آپ کو قیامت کے دن ضروردے گا۔
ہفتے میں تین دن حجۃاللہ کے لئے اوربقیہ تین دن عقیدۂ طحاویہ کے لئے مختص تھے۔عقیدۂ طحاویہ کی گھنٹی ہے، مدرس ہیں مولانا اطہر حسین عمری مدنی، اس سے قبل ہم نے آپ سے سراجی اور مفصل پڑھی ہے، بڑے محنتی، طلباء کے حق میں بے حد شفیق ہیں، آپ اپنے درس میں اس بات کی بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ طالب علم کو بات پوری طرح سمجھ میں آجائے، آپ ہی جامعہ دارالسلام کے نائب ناظم ہیں، جب تک طالب علم کے بارے ان کو یقین نہ ہو جاتا کہ یہ چھٹی کا مستحق ہے ہرگز ہرگز چھٹی عطا نہ کرتے، یہ اصل میں طلباء کے ساتھ شفقت کی انتہاء ہے کہ طالب علم کا ایک درس بھی ناغہ ہونے پائے، طالب علم خواہ کتنا ہی ذہین نہ ہو وہ استاد کے برابر نہیں ہو سکتا، اس لیے ہر طالب علم کا ہر کلاس میں حاضری دینا ، براہ راست استاد سے درس لینا ضروری ہے۔
آپ تکیہ کلام کے طور پر ’’اس طرح سے‘‘ استعمال کرتے تھے، دوران درس بکثرت اس طرح سے اس طرح سے کہتے تھے، چند شریر قسم کے طلباء باقاعدہ شمار کرتے تھے کہ مولانا نے آج کے درس میں ’’اس طرح سے‘‘ اتنی مرتبہ فرمایا ہے، اگر کوئی طالب بے تکا سوال کرتا تو اسے ایسا جواب دیتے کہ طالب علم بھونچکا رہ جاتا۔(کچھ ہی مہینوں قبل آپ کا انتقال ہوا، اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے،صالح اولاد کو ثواب جاریہ کا ذریعہ بنائے۔آمین!)
یہ تیسری گھنٹی ہے، جو بیضاوی کے لیے مختص ہے، شیخ التفسیر مولانا عبد الکبیر صاحب تشریف لانے والے ہیں، آپ نے راہ اعتدال میں مسلسل جن کے دروس قرآن سے استفادہ کیا ہے وہ حضرت کے ہی افادات سے مرتب کیے گئے ہیں، فوزی تخلص فرماتے ہیں، جامعہ کے سب سے قدیم استاذ ہیں، بڑے ہی نرم مزاج، انہیں دیکھ کر اسلاف کی یاد آجاتی ہے، اگر آپ نے قدیم بزرگوں کو دیکھنے کا شرف حاصل نہ کیا ہو کہ ان کے عادات واطوار کیسے ہوتے تھے؟ انداز گفتگو کیا تھا؟ اپنے برابر والوں سے ، اپنے بڑوں سے اور اپنے چھوٹوں سے وہ کیسا سلوک روا رکھتے تھے؟ تو گھبرانے کی ضرورت نہیں! شیخ التفسیر حافظ عبدالکبیر صاحب کی زیارت کر لیں ، ان شاء اللہ آپ کی دیرینہ آرزو پوری ہوا جائے گی۔
مولانا جب تفسیر بیضاوی پڑھاتے ہیں تو پیرانہ سالی اور ضعف کے باوجود آواز بلند سے بلند تر ہوتی چلی جاتی ہے، سالوں سے بیضاوی پڑھا رہے ہیں مگر آج بھی پڑھانے سے قبل مطالعے کو ضروری خیال کرتے ہیں، تفسیر بیضاوی کے ساتھ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی الفوز الکبیر بھی شامل درس ہے اور یہ کتاب بھی ہمیں مولانا ہی سے پڑھنے کا شرف حاصل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو قابل رشک صحت سے نوازا ہے، کڑاکے کی سردی ہو یا سخت دھوپ، گلے میں رومال ڈالے مولانا اپنے وقت پر پڑھانے کے لیے آپ کو تیار ملیں گے، ایسے وقت کی پابندی کرنے والے متقی اور پرہیزگار اساتذہ آپ کو شاذ ونادر ہی ملیں گے!

2جامعہ دارالسلام کا ایک دن

بہرکیف! اس خوبصورت عمارت کا نام کاکا عمر لائبریری ہے، دائیں بائیں سوکھے ہوئے درخت ہیں، بجلی کا ایک ٹوٹا ہوا کھمبا ہے جو یقیناًکبھی واقعی بے حد خوبصورت ودیدہ زیب رہا ہوگا، اب میں نے لائبریری میں داخل ہونے کے لیے اپنی چپل نکال کر دائیں طرف رکھ دی، لائبریری میں کل چار بڑے کمرے ہیں جوکتابوں سے بھرے ہوئے ہیں، قرآن وحدیث، علوم قرآن اور علوم حدیث کی کتابوں کا ذخیرہ سب سے بڑاہے، اب ان کتابوں کو دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اس دور میں جب وسائل نہ ہونے کے برابر تھے ، کاکا ابراہیم نے کتابوں کے جمع کرنے کے سلسلے میں کیسی محنت، مشقت، جد وجہد کی ہوگی۔ ان کتابوں کو دیکھ کر قائل ہونا پڑتا ہے کہ یقیناًکاکا ابراہیم علم اور اہل علم سے محبت کرنے والے تھے، میں علوم اسلامیہ سے متعلق کتابوں کو بہت کم ہاتھ لگاتا تھا، الا یہ کہ میری کوئی تقریر ہوتی ، تیاری کے لیے مجھے کوئی موضوع دیا جاتا یا مجھے مقالہ لکھنا ہوتا تو میں علوم قرآن، علوم حدیث کے شعبے میں نظر آتا، ورنہ میں بہت کم اس شعبے میں داخل ہوتا تھا۔
ادب کے شعبے میں کاوش بدری مرحوم سے حاصل کی ہوئی کتابوں کی تعداد بکثرت تھی، سچ یہ ہے کہ ان کی کتابوں سے سب سے زیادہ میں نے استفادہ کی اہے، میں نے اس لائبریری میں جوشؔ کی ’’یادوں کی بارات‘‘ پڑھی ہے، بہت ڈوب کر پڑھی ہے، اس کتاب کو ختم کرنے کے لیے مجھے غالباً تین دن کا عرصہ لگا تھا، آپا حمیدہ اختر حسین رائے پوری کی ’’ہمسفر‘‘ بھی یہی پڑھنے کا اتفاق ہوا، آپا کے اسلوب، انداز بیان کے سحر میں کئی دن کھویا رہا، رفعت سروش کی ’’اور بستی نہیں دل ہے‘‘ پڑھنے کی سعادت بھی مجھے عمر لائبریری میں حاصل ہوئی، ایس۔ فضلیت کا ناول ’’محلوں کے اندھیرے‘‘ کا مطالعہ بھی میں نے اسی ہال میں کیا ہے، ایسا خوبصورت ناول میں نے آج تک نہیں پڑھا، زبان کے تخلیقی استعمال کے ساتھ ساتھ اسلوب کی ندرت اپنی طرف بری طرح کھینچ رہی تھی، پھر میں کیسے اس کے سحر میں گرفتار نہ ہوتا، ادا جعفری جو پاکستان کی سب سے معمر اور محترم شاعرہ ہیں، ان کی خودنوشت ’’جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ کئی دن کے مسلسل مطالعے کے بعد ختم کی، اس سے اتنا متأثر ہوا کہ ایک مضمون اس کے حوالے سے لکھا اور کئی رسائل کو بھیجا غالباً پرواز ادب میں شائع ہوا۔
اور ایسی بہت سی کتابیں میں نے عمر لائبریری سے پڑھی ہیں، مطالعے کا یہ موقعہ فراہم کرنا یقیناًعمر لائبریری کا مجھ احسان ہے جسے میں تاحیات بھلا نہیں سکتا، مصحف کے قدیم شماروں کے مطالعے سے آنکھوں کی روشنی میں اضافہ ہوا، عامر عثمانی کے تجلی کے دیدار سے دل کو سرور ملا۔
سال کے شروع میں لائبریری خوب بھری بھری رہتی، طلباء خوب خوب مطالعہ کرتے، مگر جیسے جیسے وقت گذرتا جاتا کتب خانے میں بچوں کی تعداد میں کمی آتی رہتی، یہاں تک کہ سال کے آخر میں ایک یا دو طالب محو مطالعہ رہتے۔
اب لائبریری سے واپس ہوتے ہیں، غالباً 7:50کا عمل ہے، میں بستر میں دبک جاتا ہوں، بیس منٹ گہری نیند لے کر اٹھتا ہوں، ہمارے ساتھی ناشتے سے فارغ ہو چکے ہیں، سب کلاس جانے کی تیاری میں مصروف ہیں، بعض صابون لے کر حمام کی طرف جارہے ہیں، کوئی حمام سے واپس آ رہا ہے، کوئی تولیے سے اپنا چہرہ پونچھ رہا ہے، کوئی الماری سے اپنی کتابیں نکال رہا ہے، آٹھ بج کر دس منٹ پر ابھی کلاس کی گھنٹی بجی، میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا، منھ پر پانی کے چھینٹے مارے اور کتابیں لے کر تیزی سے کلاس کی طرف چلنے لگا، سانس پھولنے لگی، پسینہ آنے لگا، مگر ان سب کی پرواہ کیے بغیر ہم کلاس کی طرف جا رہے ہیں، کیونکہ دیر ہونے کی صورت میں جامعہ کے نائب ناظم مولانا اطہر حسین عمری مدنی کی قہرآلود نگاہوں کا نشانہ بننا پڑے گا، جو ہمیں مطلق پسند نہیں۔
یہ آٹھویں جماعت ہے، دوسرے لفظوں میں آپ اسے فضیلت سال آخر بھی کہہ سکتے ہیں، کلیہ اور ثانویہ کی سب سے بڑی جماعت، آٹھویں جماعت کے طلباء بہت ہی وقار اور سکون کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں، استاد آیا چاہتے ہیں، پہلی گھنٹی صحیح بخاری کی ہے، جسے پڑھانے کے لیے دکتور عبداللہ جولم عمری مدنی تشریف لائے، جو تقریبا ۲۴ سال سے حدیث پڑھا رہے ہیں، احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ آپ کے دماغ میں محفوظ ہے، اللہ تعانیٰ نے آپ کو بے مثال حافظہ عطا کیا ہے، ہر ہر مسئلے کے لیے احادیث کے متون کا حوالہ اگر کسی سے سننا چاہتے ہیں تو وہ دکتور عبداللہ جولم عمری مدنی ہیں، جو آج کل جامعہ دارالسلام کے ناظم ہیں۔
ہماری جماعت کے طلباء کے نام بھی سن لیجیے، یہ رانی بنور کے شکیب عالم ہیں، یہ ناصرالدین محمد ہیں جو شاہ آباد سے تعلق رکھتے ہیں، یہ بالے ہنور کے عارف الحق ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی آوازدی ہے،اپنے کاروبار کے سلسلے میں آج کل بہت مصروف رہتے ہیں ،حتی کہ دوستوں کے فون بھی ریسیو نہیں کرتے، یہ عرفان اللہ ہیں جو وقت کے پابند ہیں، اللہ کرے یہ عادت ان میں تاعمر باقی رہے۔یہ تلگو زبان کے ماہراورداعی حمادہیں ،یہ سید امین ہیں جن کا قد اور خط ممتاز ہے، یہ سیدعرفات حسین ہیں جو ہماری جماعت کے سب سے کم عمر ساتھی ہیں جو (Pepsi) کے نام سے جانے جاتے ہیں اس کے پس منظر ایک واقعہ ہے جو میں بیان نہیں کروں گا۔ یہ تمام وجے واڑہ سے تعلق رکھتے ہیں، یہ قراء کی سرزمین پرنام بٹ سے تعلق رکھنے والے بہترین قاری اورابن قاری ابوبکر امین الرحمن ہیں جو اپنی آواز کی حفاظت بڑے جتن سے کرتے ہیں، یہ جوبالکل انگریز معلوم ہو رہے ہیں نا! یہ جاوید اختر اعظمی ہیں، جو شاعر بھی ہیں، ادیب بھی ، ناقد بھی، شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف رسالوں کے لیے مسلسل لکھتے رہتے ہیں، عاجزی انکساری کا مجسمہ ہیں، یہ جو ان کے دائیں طرف بیٹھے ہوئے ہیں وہ افضال احمد اعظمی ہیں، یہ بھی نور میں کافی شائع ہوتے رہتے ہیں، یہ دبلے پتلے منحنی سے جو صاحب نظر آ رہے ہیں وہ شاہنواز اختر ہیں، اللہ نے اچھی آواز سے نوازا ہے ، پڑھنے میں بھی اچھے ہیں، مقالات بھی دلچسپی سے لکھتے ہیں، یہ جو گھبرائے گھبرائے سے نظر آرہے ہیں، وہ کرنول کے یوسف ہیں ، صوت الاسلام اور صراط مستقیم میں ان کے مضامین شائع ہو چکے ہیں، یہ پستہ قد انسان ریاض پاشا ہیں جو بڑی محنت سے تقریر کرتے ہیں ، کرنول سے تعلق رکھتے ہیں، یہ کیرلا کے عبد الرحیم ہیں جواپنی خوبصورت آواز کا جادو ہر جلسے میں جگاتے رہتے ہیں، نظموں کو نئے نئے طرز اور لحن میں پڑھنا ان کی خصوصیت ہے۔ یہ گیسودراز صاحب کسی مزار کے مجاور نہیں بلکہ ہمارے ہی ایک ساتھی مظہر ہیں ، ان کا تعلق پونا سے ہے،۔یہ بنگال کے رہنے والے مظہرالاسلام اور عبد السلام ہیں۔ یہ آسام کے بلال الدین ہیں جو امتحانوں میں بڑی محنت کرتے ہیں۔ یہ شرمیلی طبیعت کے مالک مصدق حسین آمبوری ہیں۔ یہ جمیل ہیں جو آمبور ہی سے متعلق ہیں، ہمیشہ مسکراتے رہتے ہیں۔ یہ لمبے سے جو صاحب نظر آرہے ہیں وہ ادونی کے آر۔محمد یعقوب ہیں۔ یہ اڑیسہ کے جریر ہیں۔یہ بھیونڈی کے ارشاد ہیں۔یہ صحتمند اونچے لمبے قد والے صاحب آدونی کے ارشاد ہیں،بڑے مخلص شخص ہیں ،ہر شخص سے بہت جلد گھل مل جانا ان کی فطرت ہے۔ یہ حیدرآباد کے احمد بن محمد ہیں۔ یہ پستہ قد حضرت جی۔عبدالرحمن ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حسن تحریر وحسن صوت سے نوازا ہے، ہمارے بہنوئی محمد موسیٰ جامعی کے شہر یمگنور سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ گڈی واڑہ کے فاروق ہیں جو تلگو تحریر کا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ یہ راجمندری کے شاکر ہیں۔(چند مہینوں قبل آپ کا انتقال اسکین کینسر کی وجہ سے ہوا،ہم نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ شخص ہم سے اتنی جلد جدا ہوجائے گا،ہماری جماعت میں دو شاکر تھے ،ایک مدن پلی کے اور دوسرے راجمندی کے ،مدن پلی کے شاکر کا انتقال جماعت چہارم میں ٹی .بی کے عارضے کے سبب ہوا ،اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ دونوں کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے !آمین!۔یہ سیونی کے احسان خان ہیں جومطالعے کا ذوق رکھتے ہیں ۔ یہ رائیدرگ کے شعیب ہیں، چند سال قبل ان کی آواز بہت اچھی تھی ، عامر عثمانی کی غزلیں بڑی خوبصورت آواز میں پڑھتے تھے۔ یہ سیونی کے شاہد ہیں۔ یہ جو لنگی شرٹ پہنے ہوئے اپنی دنیا میں مست رہنے والے صاحب ہیں یہ ظہیر دانشؔ ہیں، جو کڈپہ کے رہنے والے ہیں۔ یہ پستہ قد جناب صدیق الاسلام ہیں ، جو بنگال کے ہیں۔ یہ گورے چٹے صاحب ہریانہ کے عبیداللہ ہیں،ذرا سے شرارتی ہیں۔ یہ نریم پیٹ کے احمد اللہ ہیں جوہنس مکھ طبیعت کے مالک ہیں اور تقریر بھی اچھی کرلیتے ہیں۔ یہ حیدرآباد کے عبد القیوم ہیں جو بھولے بھالے ہیں،آج کل کمپیوٹر ،انٹرنیٹ اور اس کے متعلقات میں مہارت حاصل کرچکے ہیں۔یہ بھی حیدرآباد ہی کے عبد الرافع ہیں اچھی آواز قدرت نے آپ کو عطا کی ہے ۔یہ ونی پنٹا (ضلع کڈپہ کا ایک قریہ)کے سعادت اللہ ہیں ،ان کے والد عمری ہیں دونوں قرآن کریم کو بہت اچھی آواز میں پڑھنے میں زبردست درک رکھتے ہیں ،خلوص ومودت کے رشتوں کو نبھانا کوئی ان سے سیکھے۔