Monday, March 18, 2013

مولانا عامر عثمانی



مولانا عامر عثمانی

مولانا عامر عثمانی دیوبند کے  مایہ ناز فرزند تھے۔ دیوبند کے  کتب خانے  سے  انہوں  نے  بہت زیادہ استفادہ کیا۔ وہ حقیقی معنوں  میں  بحر العلوم تھے۔ ۱۹۲۰ء میں  ضلع ہردوئی میں  پیدا ہوئے، پورا نام امین الرحمن تھا، لیکن علمی و ادبی حلقوں  میں  عامر عثمانی کے  نام سے  معروف ہوئے۔ دیوبند سے  سند فراغت حاصل کرنے  کے  بعد متعدد علمی وادبی رسائل میں  لکھنے  لگے۔ بعد میں  اپنا ایک ذاتی رسالہ ’’تجلی‘‘ نکالا، دیوبند کے  طلباء کو یہ رسالہ پڑھنے  کی اجازت نہ تھی، لیکن پھر بھی طلباء چھپ چھپا کر کسی نہ کسی طرح مولانا کے  رسالے  کا مطالعہ کیا کرتے  تھے۔ آپ نے  ثابت کر دیا کہ ادب کے  ذریعہ بھی علم کی خدمت کی جا سکتی ہے۔ آپ کا انداز بیان اتنا جاذب و دلکش تھا کہ مخالفین لاکھ دشمنی وبغض کے  باوجود آپ کی تحریروں  سے  استفادہ کیا کرتے  تھے۔ ’’تجلی‘‘ نے  علمی و ادبی حلقوں  میں  ایک تہلکہ مچا دیا اور جب تک یہ رسالہ باقی رہا اپنی آن بان اور شان کیساتھ باقی رہا۔ ’’تجلی‘‘ نے  بہت جلد اپنا ایک علمی مقام بنا لیا، مولانا شاعری میں  کسی کے  شاگرد نہ تھے، مگر رئیس المتغزلین جگرؔ  مرادآبادی کے  رنگ میں  شعر کہنے  کی ضرور کوشش کرتے  تھے۔ آپ کا وجدان ہی آپ کا رہنما تھا۔ زبان بڑی ٹکسالی اور دھلی دھلائی تھی۔ جو کہنا چاہتے  بغیر کسی تکلف اور جھجھک کے  صاف صاف کہہ جاتے، کہیں  کسی قسم کے  آورد کا بالکل احساس نہیں  ہوتا۔ ’’تجلی‘‘ میں  ایک مستقل مزاحیہ کالم ’’مسجد سے  میخانے  تک‘‘ کے  عنوان سے  شائع ہوتا تھا۔ آپ ملا ابن العرب مکی کے  نام سے  یہ کالم لکھا کرتے  تھے۔ کتنا اچھوتا اور طنز و مزاح سے  بھر پور اندازِ بیان ہوتا تھا!  یہ کالم اتنا مقبول ہوا کہ اسی کو پڑھنے  کے  لیے  لوگ ’’تجلی‘‘ کے  خریدار بننے  لگے  اور معتقدین عامرؔ  عثمانی میں  روز افزوں  اضافہ ہونے  لگا۔ آپ نے  اپنے  اس کالم کے  ذریعہ ثابت کر دیا کہ طنز  و مزاح صرف تفریحی نہیں  ہوتا بلکہ مقصدی بھی ہوتا ہے۔ دین اسلام اور مسلمانوں  میں  جو کمزوریاں  قلت علم کی وجہ سے  پیدا ہو گئی تھیں، ان پر آپ بڑی گہری اور کاری چوٹ کیا کرتے  تھے  اور ’’نہ جائے  رفتن نہ پائے  ماندن‘‘ والا معاملہ ہوتا تھا۔ 
کبھی ایسا ہوتا تھا کہ مولویوں  کی پیٹ پالو ذہنیت پر بھی آپ چوٹ کرنے  سے  باز نہ آتے۔ (حالانکہ آپ بھی مولانا تھے۔

داوٗد نشاط



داوٗد نشاط
تعارف
حضرت داوٗد نشاط ۱۹۲۹ء میں  پیدا ہوئے۔ ۲۰  جولائی ۱۹۹۲ء میں  آپ کا انتقال ہوا۔ حضرت ابرار حسنی گنوری، حضرت طرفہ قریشی بھنڈاروی کے  سامنے  زانوئے  تلمذ تہہ کیا۔ کڈپہ کے  ادیبوں  اور شاعروں  میں  آپ کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ داوٗد نشاط کے  دو بیٹوں  محمود شاہد اور سعید نظرؔ  نے  ان کی ادبی وراثت کو بخوبی سنبھالا اور فی الحال پوری تن دہی سے  ادب کی خدمت میں  لگے  ہوئے  ہیں۔ ۱۹۹۳ء میں  ’’عالم نشاط‘‘ کے  نام سے  آپ کا شعری مجموعہ منظر عام پر آیا۔ 
شاعری 
نشاط کی نعتیں :
رسول ﷺ کی مدح میں  کہا جانے  والا کلام نعت سے  موسوم کیا جاتا ہے۔ لفظ نعت مدح رسول کے  لیے  بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ بہر کیف! داوٗد نشاط کی نعتوں  میں  قرآنی موضوعات کو زیادہ برتا گیا ہے۔ اطاعت رسول کو اطاعت الٰہی کہا گیا ہے۔ اور رسول کی اطاعت سے  ہی اللہ کی اطاعت کی تکمیل ہوتی ہے۔ دونوں  کی فرماں  برداری بیک وقت لازم ہے۔ اسی صورت میں  کامیابی کا حصول ممکن ہے۔ ورنہ کسی ایک کی اطاعت سے  کوئی انسان کبھی بھی کامیاب نہیں  ہو سکتا۔ اس حوالے  سے  نشاطؔ  نے  بڑے  سلیقے  سے  اشعار کہے  ہیں۔ ؂
جس سے  ترا مقصد نہ ہو عیاں 
کس کام کی وہ دولتِ ایماں  ترے  بغیر
میرے  تو ذہن میں  ہی خدا کا نہ تھا وجود
لاتا خدا پہ کیسے  میں  ایماں  ترے  بغیر
سکون و اطمینان رسول ﷺ سے  وابستگی میں  پنہاں  ہے۔ آج انسان چین، امن وسکون کو نہ جانے  کہاں  کہاں  تلاش کر رہا ہے  جب کہ حقیقت میں  امن اطاعت رسول میں  پوشیدہ ہے۔ اس حقیقت کی طرف اشارہ فرماتے  ہیں ؂
کوئی خوشی ہی کر نہ سکی اس کو مطمئن
ہے  آج بھی نشاطؔ  پریشاں  ترے  بغیر
حدیث قرآن کی تفسیر ہے۔ قرآن کریم حدیث کے  بغیر نا مکمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے  اپنی کتاب میں  اجمالی حکم بیان فرمایا تو رسول کریم ﷺ نے  اپنی احادیث میں  اس کی صراحت کی ہے۔ قرآن میں  کلیات کا ذکر ہے  تو احادیث میں  جزئیات کا ذکر ہے۔ کلیات پر عمل جزئیات کے  علم کے  بغیر ممکن نہیں ؂
ترے  سمجھانے  سے  انداز عبادت آ سکے 
نا مکمل ہے  خدا کی بندگی ترے  بغیر
اس کے  ساتھ شاعر کو روضے  میں  حاضری کی خواہش، رسول ﷺ کے  دیدار کی چاہت بے  چین کیے  رہتی ہے۔ رسول ﷺ کے  در پر حاضر ہونے  کی سعادت ہر ایک کے  نصیبے  میں  نہیں  ہوتی، وسائل کی موجودگی کے  باوجود بہت سے  لوگ اس دولت سے  محروم رہتے  ہیں۔ اور بعضے  لوگ وسائل کی عدم موجودگی کے  باوجود اس در پر حاضر ہو جاتے  ہیں، جو خیر البشر کا در ہے، جو اس ذات کا در ہے  جہاں  سے  ساری دنیا میں  ہدایت کے  چراغ روشن ہوئے۔ شاعر طیبہ کی حضوری کی خواہش ان الفاظ میں  بیان کرتا ہے ؂
کرم اتنا مجھ پر احمد مختار ہو جائے 
یہ عاصی بھی کسی دن حاضر دربار ہو جائے 
نیز شاعر کے  دل میں  رسول ﷺ کے  دیدار کی خواہش بھی انگڑائیاں  لینے  لگتی ہے ؂
کسی دن تو بہار آئے  مرے  باغ تمنا میں 
کسی شب تو مرے  سرکار کا دیدار ہو جائے 
داوٗ د نشاطؔ  نے  اپنی نعتوں  میں  خصوصیت کے  ساتھ ایک اور چیز کا ذکر کیا ہے  وہ ہے  بادۂ عرفاں۔ یعنی عرفان کی دولت، عرفان یعنی علم، خود شناسی کا علم، ایسا علم جو خدا کا خاص عطیہ ہے۔ یہ علم اللہ تعالیٰ اپنے  مخصوص بندوں  کو ہی عنایت کرتے  ہیں۔ داوٗد نشاطؔ  نے  جام عرفاں  کو کبھی مرکز انوار، کبھی سبب خمار بتایا ہے۔ نیز آپ نے  یہ بھی فرمایا کہ کائنات کا عرفان رسول ﷺ کے  بغیر ممکن نہیں ؂
عطا ہو مجھ کو ایسا جام عرفاں  ساقیٔ کوثر
کہ جس کے  پیتے  ہی دل مرکز انوار ہو جائے 
حشر تک طاری رہے  یہ کیفیت مرے  حضور
بادۂ عرفاں  سے  دل مرا بہت مخمور ہے 
عرفاں  ترے  بغیر نہ قرآں  ترے  بغیر
بے  سود ہے  حرارت ایماں  ترے  بغیر
مشکل تھا کائنات کا عرفاں  ترے  بغیر
پردے  میں  تھی مشیت یزداں  ترے  بغیر
رسول ﷺ کی ناراضگی شاعر کے  نزدیک سب سے  بڑی سزا ہے ؂
اک مرے  آقا سر محشر خفا مجھ سے  نہ ہوں 
ہر سزا اس کے  سوا یا رب مجھے  منظور ہے 
داوٗد نشاطؔ  کی غزلیں :
داوٗد نشاطؔ  کی غزلوں  کا مطالعہ بتاتا ہے  کہ ان کی غزل درد و غم سے  پر نور ہے، عشق کے  جذبات سے  معمور ہے، کبھی وہ وصل کا ذکر کرتے  ہیں  تو کبھی فصل کا، کبھی احباب کا شکوہ کرتے  ہیں  تو کبھی دنیا کو دار الامتحان قرار دیتے  ہیں۔ کبھی حقائق کی طرف اشارہ کرتے  ہیں  تو کبھی موجودہ انسانوں  سے  انسانیت کے  فقدان کا مرثیہ پڑھتے  ہیں۔ کبھی اپنے  محبوب کے  یاد کرتے  ہیں  تو کبھی غم کا ذکر ان الفاظ میں  کرتے  ہیں  کہ خوشی کے  مقابلے  میں  غم کی قدر و قیمت بڑھ جاتی ہے۔ کسی کے  غم کو اپنا غم سمجھنے  کو ہی انسانیت سمجھتے  ہیں۔ آئیے ! نشاطؔ  کی غزلوں  کے  موتیوں  سے  اپنا دامن بھرتے  ہیں۔ 
خوشی اور غم: 
حضرت زاہد اعظمی نے  فرمایا تھا ؂
زندگی میں  خوشی کی نہ کر جستجو
جستجو تیری ناکام ہو جائے  گی
غم کی دولت نہیں  جبکہ سب کے  لیے 
پھر مسرت ہی کیوں  عام ہو جائے  گی
داوٗد نشاطؔ  کی نظروں  میں  غم ایک ایسا ستارہ ہے  جس کے  بغیر زندگی کا تاریک آسمان روشن نہیں  ہو سکتا، خوشی پل بھر کے  لیے  آتی ہے۔ بالکل چودہویں  کے  چاند کی طرح، پھر نہ جانے  کہاں  غائب ہو جاتی ہے۔ مگر خوشی کا ایک پل بھی کسی کو میسر آ جائے  تو اس کے  کیا کہنے ! انسان شب و روز مسرت کے  حصول کے  لیے  کتنی محنت کرتا ہے، اس کی ساری کوششوں  کا محور حصول مسرت ہے ؂
اس دور میں  تو یہ بھی غنیمت ہے  دوستو!
پل بھر کے  کچھ خوشی بھی کسی کو اگر ملے 
اور ایک شعر میں  غمِ جاناں  کی آرزو اس طرح فرماتے  ہیں ؂
مجھ کو خوشی نہ ملے  اس کا غم نہیں 
یہ آرزو ہے  آپ کا غمِ معتبر ملے 
شجاعت:
بہادری اور بلند حوصلگی کو ہر زمانے  میں  سراہا جاتا ہے۔ یہ ایسا وصف ہے  جو ہر مسلک و مشرب کے  حامی کا پسندیدہ وصف ہے۔ شجاعت شاعر میں  ہو تو اور بھی قابلِ تعریف ہے۔ کیونکہ اکثر و بیشتر شاعر بزدل ہوتے  ہیں، سامنے  کسی کو کچھ کہنے  سے  گھبراتے  ہیں، اگر چہ کہ پیچھے  اپنے  دل کی بھڑاس ضرور نکالتے  ہیں۔ داوٗد نشاطؔ  کا حوصلہ ملاحظہ کیجیے ؂
کیا کیجیے  نشاطؔ  میں  طوفاں  پسند ہوں 
ساحل بھی اب نگاہ میں  ساحل نہیں  رہا
طوفاں  کا رخ سفینے  نے  پھیرا ہے  لاکھ بار
طوفاں  مرے  سفینے  کے  قابل نہیں  رہا
مرد وہ ہے  جو زمانے  میں  تغیر و تبدل کا سبب بنتا ہے، زمانہ ساز شخص ہی کامل انسان ہوتا ہے۔ وہ انسان ذکر کرنے  کے  لائق نہیں  جسے  زمانہ تگنی کا ناچ نچائے۔ ؂
رہا ہوں  ہر زمانے  میں  نشاطؔ  عنوانِ افسانہ
زمانہ مرے  افسانے  کا عنواں  ہو نہیں  سکتا
دور حاضر: 
دور حاضر کی عنایتیں  مت پوچھیے، بشر جن اوصاف کی وجہ سے  بشر ہے  آج اس سے  وہ اوصاف چھین لیے  گئے۔ بلکہ زمانے  نے  ایسا پلٹا کھایا کہ عیوب کو ہنر گردانا جانے  لگا۔ اخلاق کے  معیارات بدل گئے۔ خوش اخلاقی خوش اخلاقی نہ رہی۔ ایسے  تاریک زمانے  کے  حوالے  سے  نشاطؔ  نے  بڑے  پیارے  اور متأثر کن شعر کہے  ہیں۔ نشاطؔ  جب اس حوالے  سے  کہتے  ہیں  تو ان کا طنز نہایت کڑوا ہوتا ہے، موجودہ دور کی کثافتوں  کے  اظہار میں  وہ خود کلامی کا انداز اختیار کرتے  ہیں ؂
عنقاء ہے  زمانے  سے  مساوات و اخوت
اوصاف بشر ڈھونڈنے  نکلے  ہو بشر میں 
رہ رہ کے  اٹھ رہا ہے  ہر سمت کیوں  دھواں 
نفرت کی آگ شہر میں  ہر سو لگی نہ ہو
تا بکے  اڑتا رہے  گا آدمیت کا مذاق
اک تماشا بن کے  یارو زندگی رہ جائے  گی
ہر گام پہ فریب نیا دے  گئی مجھے 
تہذیب نو کی دوست نما دوستی مجھے 
موجودہ روشنی پہ نگاہیں  جو کیں  نشاطؔ 
رگ رگ میں  روشنی کو ملی تیرگی مجھے 
خود اپنی نگا ہوں  سے  گرنے  لگا ہے 
یہ کیا آج حال بشر دیکھتا ہوں 
جہاں  میں  عظمت انساں  کو ڈھونڈنے  والو!
اب آدمی ہے  کہاں  آدمی کا سایہ ہے 
اب یہ ظاہر ہو رہا ہے  صورت حالات سے 
آج کا انسان شاید آخری منزل میں  ہے 
شعر اور شاعری:
نشاطؔ  نے  اپنی شاعری میں  بعض مقامات پر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے  کہ شاعر کے  لیے  کون سی چیزیں  لازم ہیں، پر تأثیر شعر کب وجود میں  آتا ہے  اور شاعری کیا ہے ؟ شعر میں  درد ہی تاثیر کا اصل سبب ہے، درد نہ ہو تو آورد سے  کام لینا پڑتا ہے۔ آمد اور آورد کی شاعری کا فرق آپ اچھی طرح سمجھتے  ہیں۔ آپ کو اس کا بھی علم ہے  کہ دونوں  کی طرح کی شاعری میں  کس کا مرتبہ بلند ہے ؟ فکر سخن کے  لیے  وہ غم کو لازم و ضروری قرار دیتے  ہیں ؂
فکر سخن کے  واسطے  غم چاہیے  نشاطؔ 
جب تک کہ دل میں  درد نہ ہو شاعری نہ ہو
شاعر بے  حد ذہین اور چالاک ہوتا ہے، یہی وجہ ہے  کہ اس کا ذہن اتنی دور تک جا پہونچتا ہے  کہ ایک آدمی ان چیزوں  کے  بارے  میں  سوچ بھی نہیں  سکتا۔ کوئی شخص شاعر کے  ذہن کی وسعت کو پانا چاہے  تو اس کے  لیے  صدیوں  لگ جاتے  ہیں، شاعر کے  اسرار زمانہ کا امیں  ہونا اسی بات پر دلالت کرتا ہے ؂
اسرار زمانہ کا امیں  ہوتا ہے  شاعر
ہر شعر مرا وقت کے  سانچے  میں  ڈھلا ہے 
ایک فنکار نہ جانے  کتنا خون دل، خون جگر جلانے  کے  بعد شعر تخلیق کرنے  میں  کامیاب ہوتا ہے۔ جب تک شاعری میں  خون جگر شامل نہ ہو شاعری حقیقی شاعری نہیں  بن سکتی۔ جب شاعر اپنے  دل کا چراغ روشن کرتا ہے  تو ایک شعر وجود پذیر ہوتا ہے ؂
خون دل سے  فکر و فن کے  جب بھی جلتے  ہیں  چراغ
تب کہیں  ڈھلتا ہے  جا کر شعر اک تاثیر کا
جگرؔ  کا تتبع:
شان تغزل حضرت جگرؔ  مرادآبادی سے  بھلا ادب کا کون سا طالب علم واقف نہ ہو گا۔ سوزوگداز، کیف وسرمستی اور درد ان کی شاعری کے  نمایاں  اوصاف ہیں۔ ایسا لگتا ہے  کہ داوٗد نشاطؔ  جگرؔ  سے  بہت متاثر ہیں، جگرؔ  کی شاعری جگر کے  پار ہوتی ہے، شاید اسی لیے  بے  اختیار داوٗد نشاط نے  جگرؔ  کے  تتبع کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ 
شعروں  میں  نشاطؔ  اپنے  لاؤ گے  وہ رنگ کہاں  سے  
جو رنگ تغزل کا ہے  نغمات جگرؔ  میں 
خود شناسی:
داوٗد نشاطؔ  نے  بہت سی غزلوں  اور مقطعوں  میں  اس بات کی صراحت کی ہے  کہ ان کی شاعری عوام کی پسندیدہ شاعری ہے۔ ان کی شاعری میں  جدید رنگ تغزل ہے، نئے  مضامین ہیں، عصری حسیت ہے، جب یہ تین اوصاف کسی شاعری میں  جمع ہو جائیں تو بھلا ایسے  شخص کی شاعری عوام و خواص میں  کیسے  مقبولیت حاصل نہیں  کرے  گی۔ سرسری طور پر گزرنے  والے  جب نشاطؔ  کے  ان اشعار سے  گزریں  گے  جن اشعار میں  نشاطؔ   نے  اپنی شاعری کی تعریف کی ہے  تو اسے  شاعرانہ تعلّی پر محمول کرنے  سے  گریز نہیں  کریں  گے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے  کہ نشاطؔ  نے  حقیقت پسندی سے  کام لیا ہے، ان کی شاعری کا مطالعہ کرنے  والا ہر انصاف پسند قاری اور نقاد یقیناً ان کی شاعری کی عظمت کا اعتراف کرے  گا۔ 
نشاطؔ  اپنی شاعری کو تجربات کا نچوڑ کہتے  ہیں  اور بہت کچھ جاننے  کا دعویٰ کرتے  ہیں  تو اس کا مطلب یہ نہیں  کہ وہ غرور اور خود پسندی کا شکار ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے  کہ وہ خود شناس ہیں، انہیں  اپنے  وزن کا اندازہ ہے، انہیں  بخوبی علم ہے  کہ اردو ادب میں  ان کا مقام و مرتبہ کیا ہے ؂
کوئی بھی روپ ہو پہچان لوں  گا میں  تجھ کو
میں  کائنات کی ہر چیز سے  شناسا ہوں 
دلوں  میں  اتریں  نہ کیوں  سب مرے  شعر نشاطؔ  
جو بات کہتا ہوں  میں  تجربہ کی کہتا ہوں 
ہے  بادۂ اسرار دو عالم سے  یہ لبریز
خالی مرے  افکار کا مینا نہیں  ہوتا
طرز ماضی سے  کیا غرض ہے  نشاطؔ  
فکر نو ہو تو کوئی شعر ڈھلے 
پھر جھومنے  لگی ہے  مسرت سے  کائنات
میری غزل نشاطؔ  کوئی گا رہا ہے  کیا
جسے  سن کے  جھوم جائیں  سبھی بام و در وطن کے 
مجھے  اے  نشاطؔ  اپنی ذرا وہ غزل سنانا
فضا پہ چھاتا ہے  کیف و سرور کا عالم
نشاطؔ  اپنی غزل جب کہیں  سناتا ہے 
دلوں  سے  ہر کسی کے  داد و تحسین خود نکلتی ہے 
نشاطؔ  خوش نوا جب اپنی غزل سناتا ہے 
مشاہیر کی نظر میں :
ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید کہتے  ہیں  کہ داوٗد نشاطؔ  نے  بھی غزل کو لب اور رخسار اور شمع اور پروانہ تک محدود نہیں  رکھا، بلکہ اس نوعیت کے  اشعار ان کے  ہاں  کم ملتے  ہیں۔ ان کی غزل تو وہ غزل ہے  جس کو ہم نئی غزل سے  قریب پاتے  ہیں، جس میں  عصری مسائل کی گونج ملتی ہے، جس میں  ہم معاشرے  کے  شب و روز، درد و کرب اور زندگی کی دھڑکنوں  کو محسوس کیا جا سکتا ہے، کرب و بلا کو جس سے  آج کا انسان گزر رہا ہے، آج کی الجھنیں، انتشار، خلفشار، نیز اقتصادی، تہذیبی، سیاسی اور اخلاقی بحران کی جلوہ گری کم یا زیادہ نشاطؔ  کی غزلوں  میں  مل ہی جاتی ہے۔ داوٗد نشاطؔ  نے  زندگی کی ناہمواریاں  اجاگر کرنے  میں  کسی تکلف سے  کام نہیں  لیا بلکہ جہاں  تہاں  تو ان کا لہجہ دو ٹوک اور جرأت مندانہ بھی ہو جاتا ہے۔ 
محمود عالم کہتے  ہیں  کہ داوٗد نشاطؔ  کی غزلیں  کلاسیکی انداز کے  ساتھ ساتھ طرز جدید میں  فکر تازہ کی نئی کونپلوں  کو نمایاں  ہونے  کا موقعہ فراہم کرتی ہیں۔ نشاطؔ  کے  کلام میں  حد درجہ معنویت اور غنائیت ہے  اور یہی ان کی مقبولیت کا سبب ہے۔ 
٭٭٭

نازش کڈپوی



نازش کڈپوی
تعارف: 5-2-1936 نازش کڈپوی کی تاریخ پیدائش تھی۔ جن کا اصلی نام کے۔ محبوب علی خان تھا۔ والد کا نام کے۔ احمد علی خان تھا۔ انٹر میڈیٹ تک تعلیم حاصل کی۔ کڈپہ میڈیکل اینڈ ہیلتھ ڈپارٹمنٹ سے  ہیلتھ سپر وائزر کی حیثیت سے  رٹائرڈ ہوئے۔ شعر گوئی کا آغاز ۱۹۶۵ء سے  کیا۔ شاعری میں  حضرت طرفہ قریشی، حضرت شفاؔ  گوالیاری سے  اکتسابِ فن کیا۔ 
۲۰۰۳ء میں  نازش کا مجموعۂ کلام شائع ہوا۔ جس کے  مرتبین یوسف صفی اور محمود شاہد تھے۔ آئیے  نازشؔ  کی شاعری کا تفصیلی مطالعہ کرتے  ہیں۔ 
عشق، عشق ایک ایسی شے  ہے  جس کی عظمت و اہمیت کے  بارے  میں  ہر شاعر نے  کچھ نہ کچھ لکھا ہے۔ عشق وہ روشنی ہے  جس سے  ہر شاعر کا دل منور ہے، عشق وہ آگ ہے  جو خوش قسمت لوگوں  کے  دامن میں  پناہ لیتی ہے، عشق وہ نورانی کیفیت ہے  جو مجاز سے  حقیقت کا سفر لمحوں  میں  طے  کراتی ہے۔ اسی اہمیت کے  پیشِ نظر نازش نے  عشق کے  حوالے  سے  مختلف کیفیات کو اپنی شاعری میں  پرو یا ہے۔ آئیے  کلامِ نازشؔ  کی چند موتیوں  سے  نظروں  میں  روشنی بھرتے  ہیں۔ 
دل کسی پر اے  زاہد سوچ کر نہیں  آتا
یہ خطا ارے  ناداں  جان کر نہیں  ہوتی
منزل عشق کا کچھ فاصلہ کم ہو جائے 
رہنما کاش ترا نقش قدم مل جائے 
مسکراتے  ہوئے  جھیلیں  گے  ترا نقش قدم
ہم کو رکھنا ہے  بہر حال محبت کا بھرم
وہ آگ جس پہ تکیہ تھا الحاد و کفر کا
اے  عشق تو نے  اس کو گلستاں  بنا دیا
اس قدر جلے  ہیں  ہم عشق میں  کہ اب ہم کو
دھوپ دوپہر کی بھی چاند کا اجالا ہے 
ناز کر غم دوراں  ناز کر غم جاناں 
زخم اب مرے  دل کا پھول بننے  والا ہے 
لڑکھڑا رہا تھا وہ زندگی کی را ہوں  پر
ہر قدم پہ نازشؔ  کو آپ نے  سنبھالا ہے 
نازش سے  نہ پوچھ مجھ سے  مری بندگیٔ عشق
سران کا پائے  ناز پہ خم کر چکا ہوں  میں 
محبت کر محبت ہے  عبادت
کسی کی دشمنی تو درد سر ہے 
نازش محبوب کی یاد میں  گزرنے  والے  لمحات کو زیست کا حاصل گردانتے  ہیں۔ دراصل محبوب کی یاد میں  ایک ایسی مٹھاس پوشیدہ ہے  جو وقت گزرنے  کا احساس نہیں  ہونے  دیتی۔ محبوب کی یاد ایک ایسی لذت سے  مملوء ہے  جس کا لفظوں  میں  اظہار کرنا شاید ممکن نہیں۔ نازشؔ  ان میٹھے  لمحات کا ذکر اپنے  مخصوص انداز میں  اس طرح کرتے  ہیں ؂
جو تری یاد سے  خالی ہو ترے  ذکر سے  دور
وہ لمحہ کیوں  نہ جہاں  پر حرام ہو جائے 
حاصلِ عمر حقیقت میں  وہ لمحہ ہو گا
جو تری فکر تری یاد میں  گزرا ہو گا
معشوق کی یاد کو ایک اور مقام پر نازشؔ  نے  ناسور سے  تشبیہ دی ہے۔ ؂
ناسور بن کے  رہ گئی نازشؔ  کسی کی یاد
شعلے  بھڑک رہے  ہیں  دلِ بے  قرار میں 
عشق جب اپنی انتہاء کو پہونچ جاتا ہے  تو آدمی خود کو محبوب تصور کرنے  لگتا ہے، ایسے  عالم میں  سوائے  ذکر معشوق کے  دوسری اشیاء کو آدمی اپنے  اوپر حرام کر لیتا ہے۔ جب محبوب کا نام لبوں  سے  مس کرتا ہے  تو گویا بہار آ جاتی ہے۔ اور جب محبوب کا ذکر نہیں  ہوتا تو خزاں  ہوتی ہے۔ نازشؔ  نے  اس جذبے  کے  اظہار کے  لیے  دوسرے  لفظوں  کا سہارا لیا ہے ؂
تمہارا نام لیا تھا تو چھٹ گئی ظلمت
تمہیں  جو بھول گیا تو روشنی نہ ملی
شراب کی مستی اور لذت سے  زیادہ محبوب کی مستی، محبوب کے  نخرے، ناز و انداز زیادہ کیف آمیز وسرور بخش ہوتے  ہیں۔ محبوب کا التفات کائنات بھر خوشی کے  مماثل ہے۔ ان کی بے  وفائی اور اداسی غم کا دریا ہے ؂
بجھتے  ہوئے  چراغ بھی محفل میں  جل اٹھے 
جب مسکرا کے  آپ گلے  مجھ سے  کیا ملے 
جس سمت دیکھتا ہوں  نظر آ رہے  ہیں  وہ
اے  بے  خودیِ شوق اب اپنا پتہ ملے 
وہ جب بھی بات کرتے  ہیں  تو منہ سے  پھول جھڑتے  ہیں 
وہ جب گیسو جھٹکتے  ہیں  تو دن میں  رات ہوتی ہے 
حضرت میرؔ  (۱۱۳۷ء؁-۱۲۲۵ء؁) نے  فرمایا تھا ؂
میرؔ  ان نیم باز آنکھوں  میں 
ساری مستی شراب کی سی ہے 
اسی مفہوم کو حضرت نازشؔ  نے  اپنے  مخصوص انداز میں  اس طرح بیان فرمایا ہے ؂
میں  کوئی رند نہیں  پھر بھی آ رہا ہے  سرور
تمہاری آنکھوں  سے  یہ کیسی شراب ڈھلتی ہے 
غم اور آنسو سے  نازشؔ  کا بہت گہرا رشتہ ہے۔ غم کو وہ عظیم دولت تصور کرتے  ہیں۔ ظاہر ہے  غم جس کا سرمایۂ حیات ہو، آنسوؤں  سے  اس کا بڑا گہرا رشتہ ہو گا۔ نازشؔ  نے  آنسوؤں  کا ذکر کثرت سے  کیا ہے۔ آنسو غم و الم کے  اظہار کا ذریعہ ہیں۔ نازشؔ  نے  عاشق کے  آنسوؤں  کا تذکرہ بڑے  گداز کے  ساتھ درد بھرے  انداز میں  کیا ہے۔ اشکوں  کو نازشؔ  نے  کبھی آگ سے، کبھی ستارے  اور کبھی چراغ سے  تشبیہ دی ہے۔ اور کبھی اشکوں  کو اپنی کل کائنات بتایا ہے۔ ؂
دونوں  عالم کی ضیاء آئے  گی کھنچ کر نازشؔ 
اشک جو آنکھ سے  ٹپکا وہ ستارہ ہو گا
چین ملتا ہے  غم کے  ماروں  کو
درد جب آنسوؤں  میں  ڈھلتا ہے 
راہ تاریک ہے  بھٹکیں  نہ مسافر نازشؔ 
اس کو اشکوں  کے  چراغوں  سے  سنوارا جائے 
آنکھوں  میں  اشک پاؤں  میں  چھالے  جگر میں  داغ
نازشؔ  مرے  لیے  تو وہی کائنات ہے 
اوروں  کی طرح دیکھو ہمارا یہ غم نہیں 
اک ایک اشک اپنا سمندر سے  کم نہیں 
نازش ہمارے  اشکوں  میں  ڈوبی ہے  کائنات
پھر بھی غمِ حیات کا ساغر نہیں  بھرا
حفیظؔ  میرٹھی کا ایک شعر ہے ؂
شیشہ ٹوٹے  غل مچ جائے 
دل ٹوٹے  آواز نہ آئے 
اس مضمون کو الگ لفظیات سے  نازشؔ نے  اس طرح سنوارا ہے ؂
لو کانپ اٹھی شمع کے  بجھنے  سے  پیشتر
دل کا دیا بجھا تو دھواں  تک اٹھا نہیں 
انسانیت! آج دنیا کسی چیز کی شدید محتاج ہے  تو وہ ہے  انسانیت۔  خلوص، مروت، مہر و وفا ایسے  جذبے  ہیں  جو آدمیت کے  لوازمات میں  شمار ہوتے  ہیں۔ آدمیت کے  دشمن جذبات کی آج فراوانی ہے۔ لہو ستا ہے، پانی مہنگا ہے۔ خون خرابہ، شور شرابہ اور برائیوں  کا ایسا  بھنور ہے  جس میں  آدمی پھنستا ہی چلا جا رہا ہے۔ ایسے  بھیانک اور خطرناک دور میں  کوئی انسانیت کی بات کرتا ہے  تو ساری دنیا اس کی طرف لپکتی ہے۔ نازشؔ  نے  اس حوالے  سے  بڑے  اچھے  شعر کہے  ہیں۔ ان کے  نزدیک ایک آدمی کا مرتبہ چاند ستاروں  سے  بلند ہے۔ ؂ 
مہ و نجوم کی دنیا جو مل گئی تو کیا
مزا تو جب ہے  کہ نازشؔ  وہ آدمی سے  ملیں 
یہ بات سب سے  بڑی ہے  زمانے  کی
خلوص آج بھی لازم ہے  آدمی کے  لیے 
بغض و فریب آج کمالات ہو گئے 
یہ کیسے  آدمی کے  خیالات ہو گئے 
اک دوسرے  کو دیکھ کے  کیچڑ اچھالنا
نازشؔ  یہ دوستوں  کے  خیالات ہو گئے 
شہرِ وفا کے  لوگوں  کی فطرت کو کیا ہوا
تھوڑی سی دشمنی سے  فسادات ہو گئے 
میں  چاہتا ہوں  فریقین میں  بڑھے  الفت
کدورتوں  کا زمانہ تمام ہو جائے 
کچھ شر پسند لوگوں  نے  بستی جلائی تھی
اشکوں  سے  اپنے  آگ بجھانے  لگے  تھے  ہم
کسی کے  وقت پہ جو شخص کام آتا ہے 
مری نظر میں  وہ انساں  نہیں  فرشتہ ہے 
سحاب  قزلباش نے  دل جلانے  کی بات کی تھی ؂
بجھ رہے  ہیں  چراغ دیر و حرم
دل جلاؤ کہ روشنی کم ہے 
نازشؔ  اپنی شاعری سے  زمانے  میں  اجالا بکھیرنا چاہتے  ہیں ؂
نازشؔ  میں  چاہتا ہوں  اجالا ہو ہر طرف
دل ہم نے  جلایا تو اجالا یہ ہوا ہے 
زندگی کے  مختلف روپ ہیں۔ کسی کے  لیے  زندگی پھلوں  کی سیج ہے، تو کسی کے  لیے  کانٹوں  کا میدان۔ زندگی کے  بارے  میں  مختلف دانشوروں  نے  مختلف آراء کا ذکر کیا ہے۔ مگر زندگی کیا ہے ؟ آج تک کوئی اس کی حقیقت کو نہیں  پہونچ سکا۔ مسعودہ حیات (دہلی) نے  زندگی کے  حوالے  سے  بڑا پیارا شعر کہا ہے ؂
زندگی کی حقیقت بھی کیا چیز ہے،
ہر نظر کا الگ ہے  بیاں  دوستو!
ہے  کسی کے  لیے  یہ فقط رنگ و بو
 اور کسی کے  لیے  امتحاں  دوستو!
لیکن جناب نازشؔ  زندگی کو مسلسل سزا تصور کرتے  ہیں ؂
اب اس سے  بڑھ کے  قیامت ہی کیا ہے  میرے  لیے 
یہ زندگی تو مسلسل سزا ہے  میرے  لیے 
آگے  چل کر حق سے  وہ ایسی زندگی طلب کرتے  ہیں  جو اس کی خوشنودی اور رضا میں  صرف ہو، ایسی حیات سے  وہ پناہ مانگتے  ہیں  جس میں  حق شناسی نہ ہو، حق کی آگہی نہ ہو، رب کی رضا نہ ہو ۔ ؂
اس زندگی کی مجھ کو ضرورت نہیں  کوئی
جس میں  رضائے  حق نہ ہو، حق آگہی نہ ہو
حق پرستی سب سے  غیر سود مند شیوہ ہے۔ حق گو انسان کے  دوست نہ ہونے  کے  برابر ہوتے  ہیں۔ حق پرستی بہت بڑی چیز ہے۔ سچ کہنے  کا حوسلہ اپنے  اندر پیدا کرنا آسان کام نہیں۔ نازشؔ  نے  حق پرستی کے  حوالے  سے  زمانے  پر بڑا گہرا طنز کیا ہے۔ ؂
زمانہ سخت مخالف ہے  حق پرستوں  کا
یہ بات سچ ہے  کہ اب جھوٹ بولیے  یارو!
آواز حق بلند کرنے  کے  لیے  اللہ کی مد کی ضرورت ہے، نازشؔ  آواز حق کو ایک اعجاز تصور کرتے  ہیں ؂
ساری دنیا گوش بر آواز ہے 
حق کی ہر آواز اک اعجاز ہے 
مشاہیر کی آراء
(۱) ’’ نازشؔ  کڈپوی سوچ سمجھ کر شعر کہتے  ہیں۔ ان کی شاعری دل کی کم دماغ کی شاعری زیادہ ہے۔ وہ خود بھی غور وفکر سے  کام لیتے  ہیں  اور قاری کو بھی دعوتِ فکر دیتے  ہیں۔ انہوں  نے  روایت کے  احترام کے  ساتھ ساتھ اجتہاد سے  بھی کام لیا ہے۔ زبان وبیان پر ان کی گرفت مضبوط ہے  اور ان کا اسلوب تازہ کار۔ نازشؔ  کی غزلوں  کی ایک اور خوبی تغزل ہے۔ ان کا تغزل محض شاعرانہ روایتی یا رسمی نہیں  ہے، نئے  رنگ اور آہنگ کا حامل ہے۔ مصرعوں  کا دروبست ہی کچھ ایسا ہوتا ہے  کہ اک سماں  بندھ جاتا ہے ‘‘ (پروفیسر سلیمان اطہر جاوید)
(۲) ’’نازشؔ  انقلاب کا شاعر ہے۔ امید اور حوصلے  کا علمبردار، اور پھر جذبۂ خودی کا۔ صحت اگر ساتھ دیتی تو ان کا یہ کلام حسنِ کمال کی اور بھی بلندیوں  کو چھو سکتا، اگر چہ کہ جو کچھ نازشؔ  نے  کہا ہے  وہ بہت خوب ہے، بہت خوب ہے، لازوال ہے۔ ‘‘
(پروفیسر انور اللہ انورؔ )
(۳) ’’نازشؔ  کی شاعری انسان دوستی سے  لبریز ہے، قابلِ تحسین بات یہ ہے  کہ نازش عملی زندگی میں  بھی انسان وست واقع ہوئے  ہیں۔ اس بات کا اقرار دوست ہی نہیں  دشمن بھی کرتے  ہیں۔ ‘‘ (محمود شاہد)
(۴) ’’نازشؔ  ایک اچھے  اور پر گو غزل کے  شاعر ہیں۔ آپ کی تمام غزلیں  سادہ مگر معنیٰ سے  پر ہیں۔ ہر غزل کا مطلع اک شان، اک اٹھان لیے  ہوئے  ہے۔ اور اسی طرح آپ کی غزلوں  کا ہر مقطع آپ کی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ آپ کے  اسلوب بیان میں  ایک تاثر،کیفیت، وجدان اور روحانیت ہے  جو سامع اور قاری کے  دل کو چھو لیتی ہے۔ ‘‘ (عبید صدیقی)
(۵) ’’ نازشؔ  دوراں  کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے  کہ یہ کتاب حواس پر چھا جانے  والی ہے۔ اس کتاب کی غزلیں  شعریت کا دامن تھامے  ہوئے  ہیں۔ جس کی تائید عقل و منطق و ذوق و وجدان سے  ہوتی ہے۔ اس سے  طبع سامع کا خلجان دور ہوتا ہے۔۔۔۔ الفاظ کے  دروبست کے  معاملے  میں  نازشؔ  صاحب احتیاط سے  کام لیتے  ہیں۔ اسے  آپ لفظوں  کا تقویٰ کہیں  یا معنی کا فتویٰ، نازشؔ  صاحب نے  غزل کو نیم وحشی نہیں  سلجھا، ان کی غزل ریاضی کیش ہے۔ ‘‘ (ڈاکٹر ساغرؔ  جیدی)
٭٭٭


محسن ہند قاضی اطہر مبارک پوریؒ




محسن ہند قاضی اطہر مبارک پوریؒ
بہت سے  علماء نے  عربی زبان و ادب میں  خاص دلچسپی دکھائی اور اس کی خدمت کی، قاضی اطہر مبارک پوریؒ کا شمار ایسے  ہی علماء میں  ہوتا ہے۔ آپ کا اصلی نام تو عبد الحفیظ تھا، لیکن آپ اپنے  حقیقی نام سے  زیادہ اپنے  تخلص اطہرؔ  سے  مشہور ہوئے۔ قاضی آپ کے  نام کا جزء اس لیے  بنا کہ آپ کے  افرادِ خاندان لمبے  عرصے  تک منصبِ قضا پر فائز رہے۔ 
نسب نامہ اس طرح ہے : قاضی عبد الحفیظ اطہرؔ  بن محمد حسن بن لعل محمد بن محمد رجب بن محمد رضا بن امام بخش بن علی شہید۔ آپ کا خاندان عوام کی اصلاح اور تمسک بالدین میں  معروف تھا۔ پیدائش ۴! رجب ۱۲۵۹ھ میں  محلہ حیدرآباد، مبارک پور، اعظم گڑھ میں  ہوئی۔ نانا کا نام عبد الحفیظ تھا۔ اس سے  قبل مبارکپور قاسم آباد کے  نام سے  پہچانا جاتا تھا۔ پھر امیر سید مبارک شاہ نے  امیر اطوار ہمایوں  (۹۳۷ھ-۹۶۳ھ) کے  زمانے  میں  اسے  آباد کیا اور اپنا نام دیا۔ نیز امیر مبارک شاہ کے  ساتھ ایک محتاج علمی قافلہ یہاں  منتقل ہوا، اور یہی خاندان نسل بعد نسل دینی معاملات اور منصب قضاء کی نیابت کرتا رہا۔ اس کے  بعد امیر مبارک شاہ ’’رامانک پور ‘‘ واپس ہوئے، اور وہیں  ۲  شوال ۹۶۵ھ میں  انتقال کر گئے۔ آپ کی والدہ کا خاندان بھی علمی خاندان تھا۔ دادا بھی علم و فضل میں  یکتا تھے۔ والدہ پاکیزگی اور تقویٰ میں  معروف تھیں۔ قاضی صاحب کی زندگی پر اس کے  بڑے  خوبصورت اثرات مرتب ہوئے۔ والدہ کا انتقال ۱۳۵۳ھ میں  ہوا۔ اور اس وقت آپ کی عمر ۱۸ سال تھی۔ والدہ کی طرح آپ کی نانی علم و ورع میں  یکتا تھیں۔ انہوں  نے  ساری زندگی اپنے  ہی گھر میں  محلے  کی لڑکیوں  کو قرآن پڑھانے  کے  لئے  وقف کر دی۔ جب وہ اسی سال کی ہوئیں  تو ۲۶  رمضان ۱۳۷۸ھ کو انتقال کر گئیں۔ نانی صاحبہ نے  بھی آپ کی خوب اچھی تربیت کی۔ نانا شیخ احمد حسین رسولپوری (م:۱۳۵۹ھ) اپنے  وقت کے  مشہور عالم تھے۔ نیز ڈھاکہ (موجودہ بنگلہ دیش) ایک مدرسے  کے  لمبے  عرصے  تک صدر المدرسین رہے۔ قاضی صاحب نے  اپنے  نانا اور ان کی کتابوں  سے  بہت زیادہ استفادہ کیا۔ نیز اپنے  ماموں  مولانا محمد یحییٰ (م: ۱۳۷۸ھ) سے  بھی فائدہ اٹھایا۔ اور آپ نے  اس بات کا اعتراف کیا ہے  کہ جو کچھ انہوں  نے  علم حاصل کیا ہے  وہ محض اپنی والدہ کے  خاندان کا فضل تھا۔ 
آپ نے  پڑھنے  کا آغاز قرآن کریم سے  کیا۔ اور قرآن پڑھنا اپنے  والدین سے  سیکھا۔ پھر حساب سیکھنے  کے  لیے  مدرسہ احیاء العلوم میں  منشی اخلاق احمد (م: ۱۴۰۴ھ) کے  پاس گئے۔ پھر کبوتر بازی میں  رغبت کی وجہ سے  اسباق کی حاضری میں  کوتاہی کرنے  لگے۔ جب والد محترم کو اس بات کا علم ہوا تو خوب مار کر استاذ کے  حوالے  کر دیا۔ اس سے  آپ شرمندہ ہوئے  اور اسی وقت سے  سبق اور اساتذہ سے  استفادہ کرنے  کا اہتمام کیا۔ ان اساتذہ کے  نام یہ ہیں :
نعمت اللہ مبارکپوری (م: ۱۳۶۲ھ) آپ کے  پاس فارسی، خط نسخ و خط نستعلیق سیکھی۔ 
مفتی محمد یاسین مبارکپوری (م:۱۴۰۴ھ) جن کے  پاس بہت سی عربی کی کتابیں  پڑھیں۔ 
شکر اللہ مبارکپوری (م: ۱۳۶۱ھ) کے  پاس کتب منطق وفلسفہ پڑھی۔ 
بشیر احمد مبارکپوری (م: ۱۴۰۴ھ) کے  پاس بعض کتب منطق پڑھی ہیں۔ 
محمد عمر مبارکپوری (۱۴۱۵ھ) کے  پاس تفسیر جلالین اور دوسری کتابیں  پڑھیں۔ 
محمد یحییٰ رسولپوری (۱۳۸۷ھ) کے  پاس علم عروض، علم قوافی اور علم ہیئت حاصل کیا۔ جو آپ کے  ماموں  تھے۔ 
قاضی صاحب نہایت ذہین و فطین تھے۔ ابتداء میں  جب ’’نحو میر‘‘ اور ’’علم الصیغہ‘‘ ختم کیا تو جمعے  کا خطبہ سمجھنے  لگے۔ جب ’’مقامات حریری‘‘ پڑھنے  کے  مرحلے  پر پہونچے  تو درسی کتب کسی کی مدد کے  بغیر پڑھنے  لگے۔ درس نظامی کی مروجہ کتب اپنے  گاؤں  مبارکپور کے  مدرسے  احیاء العلوم میں  پڑھیں۔ وہ دائم المطالعہ تھے۔ درسی و غیر درسی کتب سے  حد درجہ شغف رکھتے  تھے۔ اپنے  ساتھیوں  کو زمانۂ طالب علمی میں  ہی پڑھانا شروع کر دیا۔ جامعہ قاسمیہ (شاہی) مرادآباد سے  پڑھ کر (۱۳۵۹ھ!۱۹۴۰ء)کو واپس ہوئے۔ وہاں  درس نظامی کی متعینہ کتب حدیث پڑھیں۔ 
صحیح بخاری، سنن ابو داوٗد، سنن ابن ماجہ، مشہور محدث فخر الدین احمدؒ (۱۳۹۳ھ!۱۹۷۳ء) سے  پڑھیں۔ صحیح ترمذی مولانا محمد میاں ؒ (۱۳۹۵ھ!۱۹۷۵ء) کے  پاس اور صحیح مسلم مولانا محمد اسمٰعیل سنبھلیؒ کے  پاس پڑھیں۔ جامعہ قاسمیہ کو ۱۳۵۴ھ میں  دوبارہ گئے۔ لیکن وہاں  صرف دو ماہ رہے۔ اس دوران ابو تمام کی حماسہ اور زمخشری کی مقامات مولانا محمد میاں  کے  پاس پڑھیں۔ 
آپ نے  طالب علمی کے  زمانے  سے  شعر گوئی شروع کر دی تھی، اور یہ اشعار ’’فرقان‘‘ بریلی(۱۳۵۷ھ)، ’’قائد‘‘ مرادآباد (۱۳۵۷ھ) اور لاہور کے  کے  رسائل جیسے  زمزم، کوثر اور مسلمان میں  چھپنے  لگے۔ ان اشعار سے  آپ کی شہرت علمی حلقوں  تک پہونچ گئی۔ اس کے  ساتھ ساتھ ۲۲۵ اشعار پر مشتمل ایک قصیدہ لکھا جو اصحاب صفہ کے  متعلق تھا۔ اس کے  بعد تصنیف و تالیف اور صحافت کے  میدان میں  ایسا اترے  کہ شاعری ترک کر دی۔ طالب علمی کے  زمانے  سے  ہی مقالے  لکھنا شروع کر دیے۔ پہلا مقالہ ’’مساوات‘‘ کے  عنوان سے  ’’مومن‘‘ بدایوں  (۱۳۵۳ھ) میں  طبع ہوا۔ مدرسہ احیاء العلوم کے  قلمی ماہنامے  کے  مدیر منتخب ہوئے۔ جرائد ورسائل کے  مطالعے  میں  خوب منہمک رہے۔ اور ان سے  خوب استفادہ کیا۔ بعدہٗ غیر منقسم ہندوستان کے  کئی رسائل میں  لکھا، جیسے : ’’پیامِ تعلیم‘‘ دہلی، ’’الجمعیۃ‘‘ دہلی، ’’مومن‘‘ بدایوں، ہفت روزہ ’’العدل‘‘ گوجرانوالہ۔ اس کے  بعد مسلسل ’’قائد‘‘ مرادآباد میں  لکھنے  لگے۔ آپ کے  مقالات بڑے  علمی اور انتہائی معیاری ہوا کرتے  تھے۔ یہی وجہ ہے  کہ ایک مرتبہ ایک رسالے  کے  مدیر نے  آپ کے  نام کے  ساتھ مولانا اور فارغ دارالعلوم دیوبند لکھا تھا۔ (یہ اس وقت کی بات ہے  جب آپ ’’ہدایہ‘‘ اور اس جیسی دوسری کتابوں  کے  طالب علم تھے )اس پر آپ نے  مدیر کے  نام لکھا کہ میں  ابھی طالب علم ہوں۔ پھر آپ کے  مقالے  ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ، ’’برہان‘‘ دہلی، ’’دارالعلوم‘‘ دیوبند، وغیرہ مجلات میں  شائع ہونے  لگے۔ اور ماہنامہ ’’البلاغ‘‘ کے  عرصے  تک مدیر رہے۔ اس طرح مجلہ ’’برہان‘‘ دہلی بھی آپ کی نگرانی میں  نکلتا رہا۔ گویا آپ نے  زندگی کا بڑا حصہ صحافت میں  گزار دیا۔ تقسیم کے  بعد بہرائچ پہونچے  اور مجلہ ’’انصار‘‘ کی ذمہ داریوں  میں  مصروف ہو گئے۔ پھر بمبئی اس زمانے  میں  پہونچے  جب ’’انقلاب‘‘ نیا نیا شروع ہوا تھا۔ پھر مجمع شیخ الہند کے  نگراں  مقرر ہوئے۔ جس نے  آپ کی بعض کتابیں  شائع کی ہیں۔ ان تمام مصروفیات کے  باوجود تصنیف و تالیف، درس وتدریس میں  منہمک رہے۔ 
قاضی صاحب جیسا کہ پہلے  ہم نے  ذکر کیا ہے  کہ ایام طالب علمی میں  ہی اپنے  ہم نشینوں  کو پڑھاتے  تھے۔ تعلیم ختم کر کے  مدرسہ احیاء العلوم میں  خود پڑھانا شروع کیا۔ اس کے  بعد جامعہ اسلامیہ ڈھابیل میں  ادبِ عربی اور تاریخ کے  استاذ مقرر ہوئے۔ نیز بمبئی میں  بھی درس وتدریس کے  فرائض انجام دیے۔ آپ نے  کئی مرتبہ دیوبند کا بھی سفر کیا۔ جب بھی دیوبند جاتے ، کم از کم جاتے  دو ہفتے  قیام کرتے  اور اس دوران دیوبند کے  طلباء بعض کتابیں  پڑھتے  تھے۔ 
تصنیف و تالیف کے  میدان میں  آپ کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ عرب تک آپ کی شہرت پہونچ گئی۔ آپ کی چند معروف تصانیف یہ ہیں :
۱۔خیر الزاد فی شرح بانت سعاد(آپ کی پہلی عربی کتاب) غیر مطبوعہ, مرآۃ العربیۃ (غیر مطبوعہ)
۳۔ائمہ اربعہ (جس کا مسودہ ناشر سے  کھو گیا)، ۴۔ الصالحات في سیرۃ بعض الصحابیات (اس کا مسودہ بھی ناشر نے  گم کر دیا)،۵۔ اصحاب الصفہ ۲۲۵ اشعار، اس کا بھی یہی حشر ہوا۔ زمانۂ طالب علمی میں  لکھی گئی یہ آپ کی پہلی کتاب تھی۔ 
۶۔ رجال السند والہند (عربی) مطبوعہ قاہرہ، ۷۔ العقد الثمین في فتوح الہند ومن ورد فیہ من الصحابہ والتابعین (عربی) مطبوعہ قاہرہ، ۸۔شرح وتعلیق جواہر الأصول في علم الحدیث (عربی)، ۹۔الہند في العہد العباسي (عربی)
۱۰۔ عرب وہند عہد رسالت میں  (اردو) اس کتاب کا ترجمہ مصری عالم عبد العزیز عبد الجلیل عزت نے  عربی میں  کیا اور قاہرہ سے  طبع ہوئی۔ ۱۱۔ہندوستان میں  عربوں  کی حکومتیں  (اردو) اس کا ترجمہ بھی مذکورہ عالم نے  کیا اور قاہرہ سے  طبع ہوئی۔ ۱۲۔اسلامی ہند کی عظمت رفتہ ۱۳۔ خلافت راشدہ اور ہندوستان ۱۴۔ خلافت بنو امیہ اور ہندوستان۱۵۔ مآثر ومعارف  ۱۶۔ تعلیمی وتبلیغی سرگرمیاں  عہد سلف میں  ۱۷۔ علیؓ و حسینؓ  ۱۸۔ اسلامی نظام زندگی ۱۹۔  مسلمان  ۲۰۔  طبقات الحجاج  ۲۱۔  حج کے  بعد  ۲۲۔  معارف القرآن  ۲۳۔  افادات حسن بصریؒ ۲۴۔  تذکرہ علمائے  مبارکپور  ۲۵۔  بنات الاسلام  ۲۶۔  خیر القرون کی درسگاہیں   ۲۷۔  تدوین سیر ومغازی  ۲۸۔  قاعدہ بغدادی سے  صحیح بخاری تک  ۲۹۔  دیار یورپ میں  علم و علماء  ۳۰۔  آثار و اخبار  ۳۱۔  اسلامی شادی  ۳۲۔  شرح و تعلیق تاریخ اسماء الثقات لابن شاہین البغدادي ۳۳۔  نشر الدیوان العربی لجدہ من الأم بعد ما جمعہ بعنوان ’’دیوان احمد‘‘
پاکستانی علماء کے  پاس آپ کی شخصیت اور تحقیقات کی بڑی قدر و منزلت ہے۔ اسلامی تہذیب و تاریخ پر آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے  ہوئے   ’’محسنِ ہند‘‘ کا لقب دیا، پاکستان میں  منعقد ہونے  والے  علمی سیمناروں  میں  آپ کو مدعو کیا جاتا تھا۔ اس کے  ساتھ ساتھ آپ کی بعض کتب کو عالم عربی میں  مصدر و مرجع ہونے  کا شرف حاصل ہے۔ قاضی صاحب کو علم حاصل کرنے  کی بہت تڑپ تھی۔ مطالعۂ کتب کا بڑا گہرا شغف تھا۔ جس کی وجہ سے  امہات الکتب اور دوسری کتابوں  کا اتنا بڑا ذخیرہ جمع ہو چکا تھا گویا بہت بڑا کتب خانہ ہو۔ مطبوعات و مخطوطات کی اتنی کثرت ہو گئی تھی گھر تنگ دانی کا شکوہ کرنے  لگا۔ اس کتب خانے  کا فیض تھا کہ آپ نے  بڑی معیاری اور خوبصورت کتابیں  علمی دنیا کے  سامنے  پیش کیں۔ 
آپ کے  ہاں  ابتداء میں  بہت تنگی تھی۔ گزر اوقات بہت مشکل تھی۔ اس لیے  زمانۂ طالب علمی میں  ہی جلد سازی کا کام کرنے  لگے۔ جلد سازی کے  لوازمات اعظم گڑھ جا کر لاتے  تھے۔ وہ بھی پیدل، اس میں  کئی گھنٹے  صرف ہوتے  تھے۔ لیکن اس کی وجہ سے  انہوں  نے  تعلیم ترک نہ کی۔ کتابوں  سے  بہت محبت تھی۔ اس لیے  پیسہ پیسہ جمع کرتے۔ جب اتنے  پیسے  جمع ہو جاتے  کہ کوئی کتاب خرید لی جائے  تو کتاب خرید لیتے۔ زندگی کا بڑا حصہ تنگی و ترشی میں  گزرا۔ لیکن اخیر عمر میں  اللہ تعالیٰ نے  آپ پر رزق کے  دروازے  کشادہ کر دیے۔ حتیٰ کہ آپ کا شمار مبارکپور کے  امراء میں  ہونے  لگا۔ بچپن سے  ہی آنکھیں  کمزور تھیں۔ لیکن ضعفِ بصارت کی وجہ سے  کثرتِ مطالعہ سے  نہیں  رکے۔ اور نہ ہی اس چیز نے  کثرت تصنیف و تالیف سے  روکا۔ آپ سادہ طبیعت، مہمانوں  کی خوب خاطر داری کرنے  والے، پاکی صفائی کو پسند کرنے  والے  تھے۔ اپنے  شہر مبارکپور میں  ایک ادارہ ’’دائرہ حلبیہ‘‘ کے  نام سے  قائم کیا۔ جس نے  آپ کی بہت سی کتب شائع کی ہیں۔ آپ نے  اجتماعی ملی خدمات بھی انجام دی ہیں۔ چنانچہ آپ مہاراشٹرا کی طرف سے  ’’الجمعیۃ‘‘ کے  ناظم تھے، الہیئۃ التعلیم الدیني کے  ناظم بھی تھے۔ نیز قوانین الأموال الشخصیۃ الأسلامیۃ کے  مؤسسین میں  آپ کا شمار ہوتا ہے۔ اخیر عمر میں  ناک میں  ایک زخم ہو گیا۔ جس کا علاج اعظم گڑھ میں  کیا گیا۔ لیکن کثرت سے  خون بہا، جو کمزوری کا سبب بنا۔ اس کی وجہ سے  بخار لاحق ہوا اور ایک عرصے  تک رہا۔ بالآخر اتوار کے  دن رات دس بجے  ۲۷ صفر ۱۴۱۷ھ کو آپ نے  داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ پیر کے  دین بڑے  بڑے  علماء، عمائدین کی موجودگی میں  تدفین عمل میں  آئی۔ اللہ آپ پر لاکھوں  رحمتیں  نازل کرے۔ آمین.
(عربی سے  تلخیص)
٭٭٭