Monday, March 18, 2013

نازش کڈپوی



نازش کڈپوی
تعارف: 5-2-1936 نازش کڈپوی کی تاریخ پیدائش تھی۔ جن کا اصلی نام کے۔ محبوب علی خان تھا۔ والد کا نام کے۔ احمد علی خان تھا۔ انٹر میڈیٹ تک تعلیم حاصل کی۔ کڈپہ میڈیکل اینڈ ہیلتھ ڈپارٹمنٹ سے  ہیلتھ سپر وائزر کی حیثیت سے  رٹائرڈ ہوئے۔ شعر گوئی کا آغاز ۱۹۶۵ء سے  کیا۔ شاعری میں  حضرت طرفہ قریشی، حضرت شفاؔ  گوالیاری سے  اکتسابِ فن کیا۔ 
۲۰۰۳ء میں  نازش کا مجموعۂ کلام شائع ہوا۔ جس کے  مرتبین یوسف صفی اور محمود شاہد تھے۔ آئیے  نازشؔ  کی شاعری کا تفصیلی مطالعہ کرتے  ہیں۔ 
عشق، عشق ایک ایسی شے  ہے  جس کی عظمت و اہمیت کے  بارے  میں  ہر شاعر نے  کچھ نہ کچھ لکھا ہے۔ عشق وہ روشنی ہے  جس سے  ہر شاعر کا دل منور ہے، عشق وہ آگ ہے  جو خوش قسمت لوگوں  کے  دامن میں  پناہ لیتی ہے، عشق وہ نورانی کیفیت ہے  جو مجاز سے  حقیقت کا سفر لمحوں  میں  طے  کراتی ہے۔ اسی اہمیت کے  پیشِ نظر نازش نے  عشق کے  حوالے  سے  مختلف کیفیات کو اپنی شاعری میں  پرو یا ہے۔ آئیے  کلامِ نازشؔ  کی چند موتیوں  سے  نظروں  میں  روشنی بھرتے  ہیں۔ 
دل کسی پر اے  زاہد سوچ کر نہیں  آتا
یہ خطا ارے  ناداں  جان کر نہیں  ہوتی
منزل عشق کا کچھ فاصلہ کم ہو جائے 
رہنما کاش ترا نقش قدم مل جائے 
مسکراتے  ہوئے  جھیلیں  گے  ترا نقش قدم
ہم کو رکھنا ہے  بہر حال محبت کا بھرم
وہ آگ جس پہ تکیہ تھا الحاد و کفر کا
اے  عشق تو نے  اس کو گلستاں  بنا دیا
اس قدر جلے  ہیں  ہم عشق میں  کہ اب ہم کو
دھوپ دوپہر کی بھی چاند کا اجالا ہے 
ناز کر غم دوراں  ناز کر غم جاناں 
زخم اب مرے  دل کا پھول بننے  والا ہے 
لڑکھڑا رہا تھا وہ زندگی کی را ہوں  پر
ہر قدم پہ نازشؔ  کو آپ نے  سنبھالا ہے 
نازش سے  نہ پوچھ مجھ سے  مری بندگیٔ عشق
سران کا پائے  ناز پہ خم کر چکا ہوں  میں 
محبت کر محبت ہے  عبادت
کسی کی دشمنی تو درد سر ہے 
نازش محبوب کی یاد میں  گزرنے  والے  لمحات کو زیست کا حاصل گردانتے  ہیں۔ دراصل محبوب کی یاد میں  ایک ایسی مٹھاس پوشیدہ ہے  جو وقت گزرنے  کا احساس نہیں  ہونے  دیتی۔ محبوب کی یاد ایک ایسی لذت سے  مملوء ہے  جس کا لفظوں  میں  اظہار کرنا شاید ممکن نہیں۔ نازشؔ  ان میٹھے  لمحات کا ذکر اپنے  مخصوص انداز میں  اس طرح کرتے  ہیں ؂
جو تری یاد سے  خالی ہو ترے  ذکر سے  دور
وہ لمحہ کیوں  نہ جہاں  پر حرام ہو جائے 
حاصلِ عمر حقیقت میں  وہ لمحہ ہو گا
جو تری فکر تری یاد میں  گزرا ہو گا
معشوق کی یاد کو ایک اور مقام پر نازشؔ  نے  ناسور سے  تشبیہ دی ہے۔ ؂
ناسور بن کے  رہ گئی نازشؔ  کسی کی یاد
شعلے  بھڑک رہے  ہیں  دلِ بے  قرار میں 
عشق جب اپنی انتہاء کو پہونچ جاتا ہے  تو آدمی خود کو محبوب تصور کرنے  لگتا ہے، ایسے  عالم میں  سوائے  ذکر معشوق کے  دوسری اشیاء کو آدمی اپنے  اوپر حرام کر لیتا ہے۔ جب محبوب کا نام لبوں  سے  مس کرتا ہے  تو گویا بہار آ جاتی ہے۔ اور جب محبوب کا ذکر نہیں  ہوتا تو خزاں  ہوتی ہے۔ نازشؔ  نے  اس جذبے  کے  اظہار کے  لیے  دوسرے  لفظوں  کا سہارا لیا ہے ؂
تمہارا نام لیا تھا تو چھٹ گئی ظلمت
تمہیں  جو بھول گیا تو روشنی نہ ملی
شراب کی مستی اور لذت سے  زیادہ محبوب کی مستی، محبوب کے  نخرے، ناز و انداز زیادہ کیف آمیز وسرور بخش ہوتے  ہیں۔ محبوب کا التفات کائنات بھر خوشی کے  مماثل ہے۔ ان کی بے  وفائی اور اداسی غم کا دریا ہے ؂
بجھتے  ہوئے  چراغ بھی محفل میں  جل اٹھے 
جب مسکرا کے  آپ گلے  مجھ سے  کیا ملے 
جس سمت دیکھتا ہوں  نظر آ رہے  ہیں  وہ
اے  بے  خودیِ شوق اب اپنا پتہ ملے 
وہ جب بھی بات کرتے  ہیں  تو منہ سے  پھول جھڑتے  ہیں 
وہ جب گیسو جھٹکتے  ہیں  تو دن میں  رات ہوتی ہے 
حضرت میرؔ  (۱۱۳۷ء؁-۱۲۲۵ء؁) نے  فرمایا تھا ؂
میرؔ  ان نیم باز آنکھوں  میں 
ساری مستی شراب کی سی ہے 
اسی مفہوم کو حضرت نازشؔ  نے  اپنے  مخصوص انداز میں  اس طرح بیان فرمایا ہے ؂
میں  کوئی رند نہیں  پھر بھی آ رہا ہے  سرور
تمہاری آنکھوں  سے  یہ کیسی شراب ڈھلتی ہے 
غم اور آنسو سے  نازشؔ  کا بہت گہرا رشتہ ہے۔ غم کو وہ عظیم دولت تصور کرتے  ہیں۔ ظاہر ہے  غم جس کا سرمایۂ حیات ہو، آنسوؤں  سے  اس کا بڑا گہرا رشتہ ہو گا۔ نازشؔ  نے  آنسوؤں  کا ذکر کثرت سے  کیا ہے۔ آنسو غم و الم کے  اظہار کا ذریعہ ہیں۔ نازشؔ  نے  عاشق کے  آنسوؤں  کا تذکرہ بڑے  گداز کے  ساتھ درد بھرے  انداز میں  کیا ہے۔ اشکوں  کو نازشؔ  نے  کبھی آگ سے، کبھی ستارے  اور کبھی چراغ سے  تشبیہ دی ہے۔ اور کبھی اشکوں  کو اپنی کل کائنات بتایا ہے۔ ؂
دونوں  عالم کی ضیاء آئے  گی کھنچ کر نازشؔ 
اشک جو آنکھ سے  ٹپکا وہ ستارہ ہو گا
چین ملتا ہے  غم کے  ماروں  کو
درد جب آنسوؤں  میں  ڈھلتا ہے 
راہ تاریک ہے  بھٹکیں  نہ مسافر نازشؔ 
اس کو اشکوں  کے  چراغوں  سے  سنوارا جائے 
آنکھوں  میں  اشک پاؤں  میں  چھالے  جگر میں  داغ
نازشؔ  مرے  لیے  تو وہی کائنات ہے 
اوروں  کی طرح دیکھو ہمارا یہ غم نہیں 
اک ایک اشک اپنا سمندر سے  کم نہیں 
نازش ہمارے  اشکوں  میں  ڈوبی ہے  کائنات
پھر بھی غمِ حیات کا ساغر نہیں  بھرا
حفیظؔ  میرٹھی کا ایک شعر ہے ؂
شیشہ ٹوٹے  غل مچ جائے 
دل ٹوٹے  آواز نہ آئے 
اس مضمون کو الگ لفظیات سے  نازشؔ نے  اس طرح سنوارا ہے ؂
لو کانپ اٹھی شمع کے  بجھنے  سے  پیشتر
دل کا دیا بجھا تو دھواں  تک اٹھا نہیں 
انسانیت! آج دنیا کسی چیز کی شدید محتاج ہے  تو وہ ہے  انسانیت۔  خلوص، مروت، مہر و وفا ایسے  جذبے  ہیں  جو آدمیت کے  لوازمات میں  شمار ہوتے  ہیں۔ آدمیت کے  دشمن جذبات کی آج فراوانی ہے۔ لہو ستا ہے، پانی مہنگا ہے۔ خون خرابہ، شور شرابہ اور برائیوں  کا ایسا  بھنور ہے  جس میں  آدمی پھنستا ہی چلا جا رہا ہے۔ ایسے  بھیانک اور خطرناک دور میں  کوئی انسانیت کی بات کرتا ہے  تو ساری دنیا اس کی طرف لپکتی ہے۔ نازشؔ  نے  اس حوالے  سے  بڑے  اچھے  شعر کہے  ہیں۔ ان کے  نزدیک ایک آدمی کا مرتبہ چاند ستاروں  سے  بلند ہے۔ ؂ 
مہ و نجوم کی دنیا جو مل گئی تو کیا
مزا تو جب ہے  کہ نازشؔ  وہ آدمی سے  ملیں 
یہ بات سب سے  بڑی ہے  زمانے  کی
خلوص آج بھی لازم ہے  آدمی کے  لیے 
بغض و فریب آج کمالات ہو گئے 
یہ کیسے  آدمی کے  خیالات ہو گئے 
اک دوسرے  کو دیکھ کے  کیچڑ اچھالنا
نازشؔ  یہ دوستوں  کے  خیالات ہو گئے 
شہرِ وفا کے  لوگوں  کی فطرت کو کیا ہوا
تھوڑی سی دشمنی سے  فسادات ہو گئے 
میں  چاہتا ہوں  فریقین میں  بڑھے  الفت
کدورتوں  کا زمانہ تمام ہو جائے 
کچھ شر پسند لوگوں  نے  بستی جلائی تھی
اشکوں  سے  اپنے  آگ بجھانے  لگے  تھے  ہم
کسی کے  وقت پہ جو شخص کام آتا ہے 
مری نظر میں  وہ انساں  نہیں  فرشتہ ہے 
سحاب  قزلباش نے  دل جلانے  کی بات کی تھی ؂
بجھ رہے  ہیں  چراغ دیر و حرم
دل جلاؤ کہ روشنی کم ہے 
نازشؔ  اپنی شاعری سے  زمانے  میں  اجالا بکھیرنا چاہتے  ہیں ؂
نازشؔ  میں  چاہتا ہوں  اجالا ہو ہر طرف
دل ہم نے  جلایا تو اجالا یہ ہوا ہے 
زندگی کے  مختلف روپ ہیں۔ کسی کے  لیے  زندگی پھلوں  کی سیج ہے، تو کسی کے  لیے  کانٹوں  کا میدان۔ زندگی کے  بارے  میں  مختلف دانشوروں  نے  مختلف آراء کا ذکر کیا ہے۔ مگر زندگی کیا ہے ؟ آج تک کوئی اس کی حقیقت کو نہیں  پہونچ سکا۔ مسعودہ حیات (دہلی) نے  زندگی کے  حوالے  سے  بڑا پیارا شعر کہا ہے ؂
زندگی کی حقیقت بھی کیا چیز ہے،
ہر نظر کا الگ ہے  بیاں  دوستو!
ہے  کسی کے  لیے  یہ فقط رنگ و بو
 اور کسی کے  لیے  امتحاں  دوستو!
لیکن جناب نازشؔ  زندگی کو مسلسل سزا تصور کرتے  ہیں ؂
اب اس سے  بڑھ کے  قیامت ہی کیا ہے  میرے  لیے 
یہ زندگی تو مسلسل سزا ہے  میرے  لیے 
آگے  چل کر حق سے  وہ ایسی زندگی طلب کرتے  ہیں  جو اس کی خوشنودی اور رضا میں  صرف ہو، ایسی حیات سے  وہ پناہ مانگتے  ہیں  جس میں  حق شناسی نہ ہو، حق کی آگہی نہ ہو، رب کی رضا نہ ہو ۔ ؂
اس زندگی کی مجھ کو ضرورت نہیں  کوئی
جس میں  رضائے  حق نہ ہو، حق آگہی نہ ہو
حق پرستی سب سے  غیر سود مند شیوہ ہے۔ حق گو انسان کے  دوست نہ ہونے  کے  برابر ہوتے  ہیں۔ حق پرستی بہت بڑی چیز ہے۔ سچ کہنے  کا حوسلہ اپنے  اندر پیدا کرنا آسان کام نہیں۔ نازشؔ  نے  حق پرستی کے  حوالے  سے  زمانے  پر بڑا گہرا طنز کیا ہے۔ ؂
زمانہ سخت مخالف ہے  حق پرستوں  کا
یہ بات سچ ہے  کہ اب جھوٹ بولیے  یارو!
آواز حق بلند کرنے  کے  لیے  اللہ کی مد کی ضرورت ہے، نازشؔ  آواز حق کو ایک اعجاز تصور کرتے  ہیں ؂
ساری دنیا گوش بر آواز ہے 
حق کی ہر آواز اک اعجاز ہے 
مشاہیر کی آراء
(۱) ’’ نازشؔ  کڈپوی سوچ سمجھ کر شعر کہتے  ہیں۔ ان کی شاعری دل کی کم دماغ کی شاعری زیادہ ہے۔ وہ خود بھی غور وفکر سے  کام لیتے  ہیں  اور قاری کو بھی دعوتِ فکر دیتے  ہیں۔ انہوں  نے  روایت کے  احترام کے  ساتھ ساتھ اجتہاد سے  بھی کام لیا ہے۔ زبان وبیان پر ان کی گرفت مضبوط ہے  اور ان کا اسلوب تازہ کار۔ نازشؔ  کی غزلوں  کی ایک اور خوبی تغزل ہے۔ ان کا تغزل محض شاعرانہ روایتی یا رسمی نہیں  ہے، نئے  رنگ اور آہنگ کا حامل ہے۔ مصرعوں  کا دروبست ہی کچھ ایسا ہوتا ہے  کہ اک سماں  بندھ جاتا ہے ‘‘ (پروفیسر سلیمان اطہر جاوید)
(۲) ’’نازشؔ  انقلاب کا شاعر ہے۔ امید اور حوصلے  کا علمبردار، اور پھر جذبۂ خودی کا۔ صحت اگر ساتھ دیتی تو ان کا یہ کلام حسنِ کمال کی اور بھی بلندیوں  کو چھو سکتا، اگر چہ کہ جو کچھ نازشؔ  نے  کہا ہے  وہ بہت خوب ہے، بہت خوب ہے، لازوال ہے۔ ‘‘
(پروفیسر انور اللہ انورؔ )
(۳) ’’نازشؔ  کی شاعری انسان دوستی سے  لبریز ہے، قابلِ تحسین بات یہ ہے  کہ نازش عملی زندگی میں  بھی انسان وست واقع ہوئے  ہیں۔ اس بات کا اقرار دوست ہی نہیں  دشمن بھی کرتے  ہیں۔ ‘‘ (محمود شاہد)
(۴) ’’نازشؔ  ایک اچھے  اور پر گو غزل کے  شاعر ہیں۔ آپ کی تمام غزلیں  سادہ مگر معنیٰ سے  پر ہیں۔ ہر غزل کا مطلع اک شان، اک اٹھان لیے  ہوئے  ہے۔ اور اسی طرح آپ کی غزلوں  کا ہر مقطع آپ کی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ آپ کے  اسلوب بیان میں  ایک تاثر،کیفیت، وجدان اور روحانیت ہے  جو سامع اور قاری کے  دل کو چھو لیتی ہے۔ ‘‘ (عبید صدیقی)
(۵) ’’ نازشؔ  دوراں  کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے  کہ یہ کتاب حواس پر چھا جانے  والی ہے۔ اس کتاب کی غزلیں  شعریت کا دامن تھامے  ہوئے  ہیں۔ جس کی تائید عقل و منطق و ذوق و وجدان سے  ہوتی ہے۔ اس سے  طبع سامع کا خلجان دور ہوتا ہے۔۔۔۔ الفاظ کے  دروبست کے  معاملے  میں  نازشؔ  صاحب احتیاط سے  کام لیتے  ہیں۔ اسے  آپ لفظوں  کا تقویٰ کہیں  یا معنی کا فتویٰ، نازشؔ  صاحب نے  غزل کو نیم وحشی نہیں  سلجھا، ان کی غزل ریاضی کیش ہے۔ ‘‘ (ڈاکٹر ساغرؔ  جیدی)
٭٭٭


محسن ہند قاضی اطہر مبارک پوریؒ




محسن ہند قاضی اطہر مبارک پوریؒ
بہت سے  علماء نے  عربی زبان و ادب میں  خاص دلچسپی دکھائی اور اس کی خدمت کی، قاضی اطہر مبارک پوریؒ کا شمار ایسے  ہی علماء میں  ہوتا ہے۔ آپ کا اصلی نام تو عبد الحفیظ تھا، لیکن آپ اپنے  حقیقی نام سے  زیادہ اپنے  تخلص اطہرؔ  سے  مشہور ہوئے۔ قاضی آپ کے  نام کا جزء اس لیے  بنا کہ آپ کے  افرادِ خاندان لمبے  عرصے  تک منصبِ قضا پر فائز رہے۔ 
نسب نامہ اس طرح ہے : قاضی عبد الحفیظ اطہرؔ  بن محمد حسن بن لعل محمد بن محمد رجب بن محمد رضا بن امام بخش بن علی شہید۔ آپ کا خاندان عوام کی اصلاح اور تمسک بالدین میں  معروف تھا۔ پیدائش ۴! رجب ۱۲۵۹ھ میں  محلہ حیدرآباد، مبارک پور، اعظم گڑھ میں  ہوئی۔ نانا کا نام عبد الحفیظ تھا۔ اس سے  قبل مبارکپور قاسم آباد کے  نام سے  پہچانا جاتا تھا۔ پھر امیر سید مبارک شاہ نے  امیر اطوار ہمایوں  (۹۳۷ھ-۹۶۳ھ) کے  زمانے  میں  اسے  آباد کیا اور اپنا نام دیا۔ نیز امیر مبارک شاہ کے  ساتھ ایک محتاج علمی قافلہ یہاں  منتقل ہوا، اور یہی خاندان نسل بعد نسل دینی معاملات اور منصب قضاء کی نیابت کرتا رہا۔ اس کے  بعد امیر مبارک شاہ ’’رامانک پور ‘‘ واپس ہوئے، اور وہیں  ۲  شوال ۹۶۵ھ میں  انتقال کر گئے۔ آپ کی والدہ کا خاندان بھی علمی خاندان تھا۔ دادا بھی علم و فضل میں  یکتا تھے۔ والدہ پاکیزگی اور تقویٰ میں  معروف تھیں۔ قاضی صاحب کی زندگی پر اس کے  بڑے  خوبصورت اثرات مرتب ہوئے۔ والدہ کا انتقال ۱۳۵۳ھ میں  ہوا۔ اور اس وقت آپ کی عمر ۱۸ سال تھی۔ والدہ کی طرح آپ کی نانی علم و ورع میں  یکتا تھیں۔ انہوں  نے  ساری زندگی اپنے  ہی گھر میں  محلے  کی لڑکیوں  کو قرآن پڑھانے  کے  لئے  وقف کر دی۔ جب وہ اسی سال کی ہوئیں  تو ۲۶  رمضان ۱۳۷۸ھ کو انتقال کر گئیں۔ نانی صاحبہ نے  بھی آپ کی خوب اچھی تربیت کی۔ نانا شیخ احمد حسین رسولپوری (م:۱۳۵۹ھ) اپنے  وقت کے  مشہور عالم تھے۔ نیز ڈھاکہ (موجودہ بنگلہ دیش) ایک مدرسے  کے  لمبے  عرصے  تک صدر المدرسین رہے۔ قاضی صاحب نے  اپنے  نانا اور ان کی کتابوں  سے  بہت زیادہ استفادہ کیا۔ نیز اپنے  ماموں  مولانا محمد یحییٰ (م: ۱۳۷۸ھ) سے  بھی فائدہ اٹھایا۔ اور آپ نے  اس بات کا اعتراف کیا ہے  کہ جو کچھ انہوں  نے  علم حاصل کیا ہے  وہ محض اپنی والدہ کے  خاندان کا فضل تھا۔ 
آپ نے  پڑھنے  کا آغاز قرآن کریم سے  کیا۔ اور قرآن پڑھنا اپنے  والدین سے  سیکھا۔ پھر حساب سیکھنے  کے  لیے  مدرسہ احیاء العلوم میں  منشی اخلاق احمد (م: ۱۴۰۴ھ) کے  پاس گئے۔ پھر کبوتر بازی میں  رغبت کی وجہ سے  اسباق کی حاضری میں  کوتاہی کرنے  لگے۔ جب والد محترم کو اس بات کا علم ہوا تو خوب مار کر استاذ کے  حوالے  کر دیا۔ اس سے  آپ شرمندہ ہوئے  اور اسی وقت سے  سبق اور اساتذہ سے  استفادہ کرنے  کا اہتمام کیا۔ ان اساتذہ کے  نام یہ ہیں :
نعمت اللہ مبارکپوری (م: ۱۳۶۲ھ) آپ کے  پاس فارسی، خط نسخ و خط نستعلیق سیکھی۔ 
مفتی محمد یاسین مبارکپوری (م:۱۴۰۴ھ) جن کے  پاس بہت سی عربی کی کتابیں  پڑھیں۔ 
شکر اللہ مبارکپوری (م: ۱۳۶۱ھ) کے  پاس کتب منطق وفلسفہ پڑھی۔ 
بشیر احمد مبارکپوری (م: ۱۴۰۴ھ) کے  پاس بعض کتب منطق پڑھی ہیں۔ 
محمد عمر مبارکپوری (۱۴۱۵ھ) کے  پاس تفسیر جلالین اور دوسری کتابیں  پڑھیں۔ 
محمد یحییٰ رسولپوری (۱۳۸۷ھ) کے  پاس علم عروض، علم قوافی اور علم ہیئت حاصل کیا۔ جو آپ کے  ماموں  تھے۔ 
قاضی صاحب نہایت ذہین و فطین تھے۔ ابتداء میں  جب ’’نحو میر‘‘ اور ’’علم الصیغہ‘‘ ختم کیا تو جمعے  کا خطبہ سمجھنے  لگے۔ جب ’’مقامات حریری‘‘ پڑھنے  کے  مرحلے  پر پہونچے  تو درسی کتب کسی کی مدد کے  بغیر پڑھنے  لگے۔ درس نظامی کی مروجہ کتب اپنے  گاؤں  مبارکپور کے  مدرسے  احیاء العلوم میں  پڑھیں۔ وہ دائم المطالعہ تھے۔ درسی و غیر درسی کتب سے  حد درجہ شغف رکھتے  تھے۔ اپنے  ساتھیوں  کو زمانۂ طالب علمی میں  ہی پڑھانا شروع کر دیا۔ جامعہ قاسمیہ (شاہی) مرادآباد سے  پڑھ کر (۱۳۵۹ھ!۱۹۴۰ء)کو واپس ہوئے۔ وہاں  درس نظامی کی متعینہ کتب حدیث پڑھیں۔ 
صحیح بخاری، سنن ابو داوٗد، سنن ابن ماجہ، مشہور محدث فخر الدین احمدؒ (۱۳۹۳ھ!۱۹۷۳ء) سے  پڑھیں۔ صحیح ترمذی مولانا محمد میاں ؒ (۱۳۹۵ھ!۱۹۷۵ء) کے  پاس اور صحیح مسلم مولانا محمد اسمٰعیل سنبھلیؒ کے  پاس پڑھیں۔ جامعہ قاسمیہ کو ۱۳۵۴ھ میں  دوبارہ گئے۔ لیکن وہاں  صرف دو ماہ رہے۔ اس دوران ابو تمام کی حماسہ اور زمخشری کی مقامات مولانا محمد میاں  کے  پاس پڑھیں۔ 
آپ نے  طالب علمی کے  زمانے  سے  شعر گوئی شروع کر دی تھی، اور یہ اشعار ’’فرقان‘‘ بریلی(۱۳۵۷ھ)، ’’قائد‘‘ مرادآباد (۱۳۵۷ھ) اور لاہور کے  کے  رسائل جیسے  زمزم، کوثر اور مسلمان میں  چھپنے  لگے۔ ان اشعار سے  آپ کی شہرت علمی حلقوں  تک پہونچ گئی۔ اس کے  ساتھ ساتھ ۲۲۵ اشعار پر مشتمل ایک قصیدہ لکھا جو اصحاب صفہ کے  متعلق تھا۔ اس کے  بعد تصنیف و تالیف اور صحافت کے  میدان میں  ایسا اترے  کہ شاعری ترک کر دی۔ طالب علمی کے  زمانے  سے  ہی مقالے  لکھنا شروع کر دیے۔ پہلا مقالہ ’’مساوات‘‘ کے  عنوان سے  ’’مومن‘‘ بدایوں  (۱۳۵۳ھ) میں  طبع ہوا۔ مدرسہ احیاء العلوم کے  قلمی ماہنامے  کے  مدیر منتخب ہوئے۔ جرائد ورسائل کے  مطالعے  میں  خوب منہمک رہے۔ اور ان سے  خوب استفادہ کیا۔ بعدہٗ غیر منقسم ہندوستان کے  کئی رسائل میں  لکھا، جیسے : ’’پیامِ تعلیم‘‘ دہلی، ’’الجمعیۃ‘‘ دہلی، ’’مومن‘‘ بدایوں، ہفت روزہ ’’العدل‘‘ گوجرانوالہ۔ اس کے  بعد مسلسل ’’قائد‘‘ مرادآباد میں  لکھنے  لگے۔ آپ کے  مقالات بڑے  علمی اور انتہائی معیاری ہوا کرتے  تھے۔ یہی وجہ ہے  کہ ایک مرتبہ ایک رسالے  کے  مدیر نے  آپ کے  نام کے  ساتھ مولانا اور فارغ دارالعلوم دیوبند لکھا تھا۔ (یہ اس وقت کی بات ہے  جب آپ ’’ہدایہ‘‘ اور اس جیسی دوسری کتابوں  کے  طالب علم تھے )اس پر آپ نے  مدیر کے  نام لکھا کہ میں  ابھی طالب علم ہوں۔ پھر آپ کے  مقالے  ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ، ’’برہان‘‘ دہلی، ’’دارالعلوم‘‘ دیوبند، وغیرہ مجلات میں  شائع ہونے  لگے۔ اور ماہنامہ ’’البلاغ‘‘ کے  عرصے  تک مدیر رہے۔ اس طرح مجلہ ’’برہان‘‘ دہلی بھی آپ کی نگرانی میں  نکلتا رہا۔ گویا آپ نے  زندگی کا بڑا حصہ صحافت میں  گزار دیا۔ تقسیم کے  بعد بہرائچ پہونچے  اور مجلہ ’’انصار‘‘ کی ذمہ داریوں  میں  مصروف ہو گئے۔ پھر بمبئی اس زمانے  میں  پہونچے  جب ’’انقلاب‘‘ نیا نیا شروع ہوا تھا۔ پھر مجمع شیخ الہند کے  نگراں  مقرر ہوئے۔ جس نے  آپ کی بعض کتابیں  شائع کی ہیں۔ ان تمام مصروفیات کے  باوجود تصنیف و تالیف، درس وتدریس میں  منہمک رہے۔ 
قاضی صاحب جیسا کہ پہلے  ہم نے  ذکر کیا ہے  کہ ایام طالب علمی میں  ہی اپنے  ہم نشینوں  کو پڑھاتے  تھے۔ تعلیم ختم کر کے  مدرسہ احیاء العلوم میں  خود پڑھانا شروع کیا۔ اس کے  بعد جامعہ اسلامیہ ڈھابیل میں  ادبِ عربی اور تاریخ کے  استاذ مقرر ہوئے۔ نیز بمبئی میں  بھی درس وتدریس کے  فرائض انجام دیے۔ آپ نے  کئی مرتبہ دیوبند کا بھی سفر کیا۔ جب بھی دیوبند جاتے ، کم از کم جاتے  دو ہفتے  قیام کرتے  اور اس دوران دیوبند کے  طلباء بعض کتابیں  پڑھتے  تھے۔ 
تصنیف و تالیف کے  میدان میں  آپ کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ عرب تک آپ کی شہرت پہونچ گئی۔ آپ کی چند معروف تصانیف یہ ہیں :
۱۔خیر الزاد فی شرح بانت سعاد(آپ کی پہلی عربی کتاب) غیر مطبوعہ, مرآۃ العربیۃ (غیر مطبوعہ)
۳۔ائمہ اربعہ (جس کا مسودہ ناشر سے  کھو گیا)، ۴۔ الصالحات في سیرۃ بعض الصحابیات (اس کا مسودہ بھی ناشر نے  گم کر دیا)،۵۔ اصحاب الصفہ ۲۲۵ اشعار، اس کا بھی یہی حشر ہوا۔ زمانۂ طالب علمی میں  لکھی گئی یہ آپ کی پہلی کتاب تھی۔ 
۶۔ رجال السند والہند (عربی) مطبوعہ قاہرہ، ۷۔ العقد الثمین في فتوح الہند ومن ورد فیہ من الصحابہ والتابعین (عربی) مطبوعہ قاہرہ، ۸۔شرح وتعلیق جواہر الأصول في علم الحدیث (عربی)، ۹۔الہند في العہد العباسي (عربی)
۱۰۔ عرب وہند عہد رسالت میں  (اردو) اس کتاب کا ترجمہ مصری عالم عبد العزیز عبد الجلیل عزت نے  عربی میں  کیا اور قاہرہ سے  طبع ہوئی۔ ۱۱۔ہندوستان میں  عربوں  کی حکومتیں  (اردو) اس کا ترجمہ بھی مذکورہ عالم نے  کیا اور قاہرہ سے  طبع ہوئی۔ ۱۲۔اسلامی ہند کی عظمت رفتہ ۱۳۔ خلافت راشدہ اور ہندوستان ۱۴۔ خلافت بنو امیہ اور ہندوستان۱۵۔ مآثر ومعارف  ۱۶۔ تعلیمی وتبلیغی سرگرمیاں  عہد سلف میں  ۱۷۔ علیؓ و حسینؓ  ۱۸۔ اسلامی نظام زندگی ۱۹۔  مسلمان  ۲۰۔  طبقات الحجاج  ۲۱۔  حج کے  بعد  ۲۲۔  معارف القرآن  ۲۳۔  افادات حسن بصریؒ ۲۴۔  تذکرہ علمائے  مبارکپور  ۲۵۔  بنات الاسلام  ۲۶۔  خیر القرون کی درسگاہیں   ۲۷۔  تدوین سیر ومغازی  ۲۸۔  قاعدہ بغدادی سے  صحیح بخاری تک  ۲۹۔  دیار یورپ میں  علم و علماء  ۳۰۔  آثار و اخبار  ۳۱۔  اسلامی شادی  ۳۲۔  شرح و تعلیق تاریخ اسماء الثقات لابن شاہین البغدادي ۳۳۔  نشر الدیوان العربی لجدہ من الأم بعد ما جمعہ بعنوان ’’دیوان احمد‘‘
پاکستانی علماء کے  پاس آپ کی شخصیت اور تحقیقات کی بڑی قدر و منزلت ہے۔ اسلامی تہذیب و تاریخ پر آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے  ہوئے   ’’محسنِ ہند‘‘ کا لقب دیا، پاکستان میں  منعقد ہونے  والے  علمی سیمناروں  میں  آپ کو مدعو کیا جاتا تھا۔ اس کے  ساتھ ساتھ آپ کی بعض کتب کو عالم عربی میں  مصدر و مرجع ہونے  کا شرف حاصل ہے۔ قاضی صاحب کو علم حاصل کرنے  کی بہت تڑپ تھی۔ مطالعۂ کتب کا بڑا گہرا شغف تھا۔ جس کی وجہ سے  امہات الکتب اور دوسری کتابوں  کا اتنا بڑا ذخیرہ جمع ہو چکا تھا گویا بہت بڑا کتب خانہ ہو۔ مطبوعات و مخطوطات کی اتنی کثرت ہو گئی تھی گھر تنگ دانی کا شکوہ کرنے  لگا۔ اس کتب خانے  کا فیض تھا کہ آپ نے  بڑی معیاری اور خوبصورت کتابیں  علمی دنیا کے  سامنے  پیش کیں۔ 
آپ کے  ہاں  ابتداء میں  بہت تنگی تھی۔ گزر اوقات بہت مشکل تھی۔ اس لیے  زمانۂ طالب علمی میں  ہی جلد سازی کا کام کرنے  لگے۔ جلد سازی کے  لوازمات اعظم گڑھ جا کر لاتے  تھے۔ وہ بھی پیدل، اس میں  کئی گھنٹے  صرف ہوتے  تھے۔ لیکن اس کی وجہ سے  انہوں  نے  تعلیم ترک نہ کی۔ کتابوں  سے  بہت محبت تھی۔ اس لیے  پیسہ پیسہ جمع کرتے۔ جب اتنے  پیسے  جمع ہو جاتے  کہ کوئی کتاب خرید لی جائے  تو کتاب خرید لیتے۔ زندگی کا بڑا حصہ تنگی و ترشی میں  گزرا۔ لیکن اخیر عمر میں  اللہ تعالیٰ نے  آپ پر رزق کے  دروازے  کشادہ کر دیے۔ حتیٰ کہ آپ کا شمار مبارکپور کے  امراء میں  ہونے  لگا۔ بچپن سے  ہی آنکھیں  کمزور تھیں۔ لیکن ضعفِ بصارت کی وجہ سے  کثرتِ مطالعہ سے  نہیں  رکے۔ اور نہ ہی اس چیز نے  کثرت تصنیف و تالیف سے  روکا۔ آپ سادہ طبیعت، مہمانوں  کی خوب خاطر داری کرنے  والے، پاکی صفائی کو پسند کرنے  والے  تھے۔ اپنے  شہر مبارکپور میں  ایک ادارہ ’’دائرہ حلبیہ‘‘ کے  نام سے  قائم کیا۔ جس نے  آپ کی بہت سی کتب شائع کی ہیں۔ آپ نے  اجتماعی ملی خدمات بھی انجام دی ہیں۔ چنانچہ آپ مہاراشٹرا کی طرف سے  ’’الجمعیۃ‘‘ کے  ناظم تھے، الہیئۃ التعلیم الدیني کے  ناظم بھی تھے۔ نیز قوانین الأموال الشخصیۃ الأسلامیۃ کے  مؤسسین میں  آپ کا شمار ہوتا ہے۔ اخیر عمر میں  ناک میں  ایک زخم ہو گیا۔ جس کا علاج اعظم گڑھ میں  کیا گیا۔ لیکن کثرت سے  خون بہا، جو کمزوری کا سبب بنا۔ اس کی وجہ سے  بخار لاحق ہوا اور ایک عرصے  تک رہا۔ بالآخر اتوار کے  دن رات دس بجے  ۲۷ صفر ۱۴۱۷ھ کو آپ نے  داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ پیر کے  دین بڑے  بڑے  علماء، عمائدین کی موجودگی میں  تدفین عمل میں  آئی۔ اللہ آپ پر لاکھوں  رحمتیں  نازل کرے۔ آمین.
(عربی سے  تلخیص)
٭٭٭

یس خان




یس خان
۶ جولائی ۲۰۰۶ء بروز جمعہ میں  اپنے  کمرے  میں  بیٹھا ہوا تھا۔ میرے  مالیگاؤں  کے  دوست ہلال احمد مشتاق احمد کا خط مجھے  ملا۔ جو ۲۸ جون ۲۰۰۶ء کا لکھا ہوا تھا، خط میں  کچھ نجی باتوں  کا ذکر کرنے  کے  بعد انہوں  نے  یس خان کی وفات کی اطلاع ان لفظوں  میں  دی تھی  ’’یہ خبر بڑے  دکھ کے  ساتھ پڑھی جائے  گی کہ ببّن استاذ جیسے  مقبولِ عام کردار کے  خالق یس. خان مؤرخہ ۱۸ جون ۲۰۰۶ء بروز اتوار صبح اپنی قیامگاہ جو گیشوری ممبئی میں  انتقال کر گئے۔ انا للہ۔۔۔۔ مرحوم گذشتہ مہینوں  سے  ’’برین ٹیومر‘‘ کے  شکار تھے۔ ‘‘
یس۔ خان کے  انتقال کی یہ اطلاع میرے  لیے  بالکل نئی تھی، کتنے  افسوس کی بات ہے  کہ بنگلور اور مدراس کے  کسی اخبار نے  بھی اس اطلاع کو شائع نہیں  کیا تھا۔ اگر وہی کوئی فلمی اداکار مر جاتا یا کوئی سیاستداں  رخصت ہو جاتا تو سارے  اخبارات ان خبروں  کو نمایاں  طور پر شائع کرتے، مضامین پر مضامین لکھے  جاتے، نہ جانے  اردو داں  حلقے  کی یہ بے  حسی کب ختم ہو گی۔ 
یس۔ خان منفرد اسلوب کے  مالک تھے۔ ان کی تخلیقات ’’بزم اطفال‘‘، ’’خیر اندیش‘‘ اور ’’نرالی دنیا‘‘ میں  مستقل شائع ہوتی تھیں۔ اور کبھی کبھی یس۔ خان ’’نور‘‘ کے  پر نور صفحات پر بھی نظر آ جاتے  تھے۔ انہوں  نے  ببن استاد جیسا لاثانی کردار تخلیق کیا تھا۔ بچپن بہت پریشانیوں  اور مصیبتوں  میں  گزرا۔ بچپن سے  ہی لکھنے  پڑھنے  کا شوق تھا۔ اسی شوق کی وجہ سے  وہ کہانی کے  میدان کی طرف آ گئے۔ یس۔ خان کی پہلی کہانی ممبئی کے  ایک روزنامے  ’’آج‘‘ میں  شائع ہوئی تھی۔ اس کے  بعد وہ لکھتے  رہے، لکھتے  رہے، حتیٰ کہ فلمی دنیا کی طرف آ گئے، فلم رائٹر کی حیثیت سے  اپنا منفرد مقام بنایا۔ 
ماہنامہ ’’نور‘‘ میں  ان کا ایک انٹرویو شائع ہوا تھا، اور ان سے  یہ انٹرویو خیال اثرؔ  نے  لیا تھا۔ جس میں  ان سے  ایک سوال کیا گیا تھا کہ آپ فلم اور ٹی۔ وی میں  لکھنے  کے  باوجود بچوں  کے  لیے  کیسے  وقت دے  پاتے  ہیں ؟ تو جواباً انہوں  نے  کہا تھا: ’’ میری شروعات ہی بچوں  کے  ادب سے  ہوئی ہے، اس لیے  میں  بچوں  کے  ادب کو کیسے  بھول سکتا ہوں ؟ بلکہ میں  بچوں  کے  رسالوں  اور بچوں  کے  صفحات شائع کرنے  والے  اخباروں  کا احسانمند ہوں  کہ آج میں  جو کچھ بھی ہوں  انہیں  کی وجہ سے  ہوں۔ ا س کامیابی میں  میرے  والد اور والدہ کی دعائیں  شامل ہیں۔ سچ بات یہ بھی ہے  کہ بچوں  کے  لیے  لکھنے  میں  مجھے  بڑا لطف آتا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ دکھ کی بات یہ بھی ہے  کہ بچوں  کے  لیے  لکھنے  والے  دھیرے  دھیرے  غائب ہوتے  جا رہے  ہیں۔ ‘‘
یس۔ خان نے  بچوں  کی ذہنیت کو مد نظر رکھتے  ہوئے  بڑی عمدہ اور خوبصورت کہانیاں  تخلیق کی ہیں۔ وہ چھوٹے  چھوٹے  بچوں  کو اردو کی طرف راغب کرنے  میں  پوری دلچسپی لیتے  تھے۔ اس غرض سے  انہوں  نے  ایک منفرد ماہنامہ’’ اسکول ٹائم‘‘ کے  نام سے  نکالا۔ دو سال تک اس رسالے  کو کسی طرح چلاتے  رہے، مگر کہیں  سے  ہمت افزائی نہ ہونے  کے  سبب مجبوراً ایسا بہترین رسالہ بند ہو گیا۔ 
’’بزم اطفال‘‘ اور ’’خیر اندیش‘‘ میں  مختلف طرح کے  انعامی مقابلے  منعقد کرتے  تھے۔ اور انعام یافتگان کو اپنی جیبِ خاص سے  کوئی مفید کتاب اور اسکول ٹیلنٹ سرٹیفیکٹ سے  نوازتے  تھے۔ بسا اوقات ’’بزم اطفال‘‘ میں  ان کی ہندی سے  ترجمہ شدہ کہانیاں  پڑھنے  کو مل جایا کرتی تھیں۔ 
غالباً  دو سال پہلے  کی بات ہے  کہ میں  نے  انہیں   ایک خط لکھا تھا، جس کا مضمون یہ تھا کہ میں  آپ کا تعارفی مضمون لکھنا چاہتا ہوں۔ تو جواب میں  انہوں  نے  اپنی کتاب ’’فلم رائٹر کیسے  بنیں ؟‘‘ اور اپنا تعارف میرے  نام ارسال کیا۔ اور جب میں  نے  ان پر مضمون مکمل کر لیا تو سالار ویکلی نے  ’’بچوں  کے  ادیب، یس۔ خان صاحب‘‘ کے  عنوان سے  نمایاں  طور پر شائع کیا۔ جس کی ایک کاپی میں  نے  ان کی خدمت میں  بھیجی، فوراً ان کی جانب سے  شکریے  کا خط آیا جس میں  مضمون کی پسندیدگی کا برملا اظہار کیا گیا تھا۔ 
ان کی کتاب ’’فلم رائٹر کیسے  بنیں ؟‘‘ ایک منفرد کتاب ہے۔ جس میں  پہلی بار فلم کے  ان گوشوں  پر روشنی ڈالی گئی تھی جن پر اردو زبان میں  کسی اور نے  روشنی نہیں  ڈالی۔ وہ بڑی simple زبان استعمال کرتے  تھے۔ زیادہ پر تکلف اور ثقیل الفاظ وہ حتیٰ الامکان استعمال کرنے  سے  گریز کرتے  تھے۔ بڑی سے  بڑی بات چند لفظوں  اور چند جملوں  میں  کہہ جاتے  تھے۔ 
رحمانی سلیم احمد نے  بزم اطفال پبلیکیشنز کے  زیر اہتمام یس۔ خان کی متعدد کتابیں  شائع کی ہیں  اور اپنی قدر افزائی کا ثبوت دیا ہے۔ یس۔ خان نے  بچوں  کے  ادب کے  حوالے  سے  جو سرمایہ چھوڑا ہے  وہ نہایت قابل قدر اور لائق تعریف ہے۔ بچوں  کے  ادب پر ان کے  جو احسانات ہیں  وہ بھلائے  نہیں  جا سکتے۔ ’’نور‘‘ کے  قریبی سالنامے  میں  ان کی ایک کہانی شائع ہوئی تھی جس میں  ابن صفی کا انہوں  نے  انداز اپنایا تھا۔ غالباً اس کہانی کا عنوان تھا ’’چیختے  پہاڑ‘‘، یہ کہانی مجھے  بے  حد پسند آئی۔ جس کا اظہار میں  نے  ’’نور‘‘ کے  مستقل کالم ’’آپ کا خط ملا‘‘ میں  کیا تھا۔ الغرض! ان کی کئی ایسی کہانیاں  ہیں  جن میں  متعدد سبق آموز پہلو اور عبرت انگیز گوشے  ہیں۔ 
مرنے  کو روزانہ سیکڑوں  لوگ مرتے  ہیں۔ لیکن کم ہی لوگ ایسے  ہوتے  ہیں  کہ جن پر سارا زمانہ آنسو بہاتا ہے۔ ان کی عمر تقریباً ۴۹ سال تھی۔ اتنی کم عمری میں  بھی بھلا کوئی مرتا ہے، مگر اللہ نے  موت کا جو وقت متعین کیا ہے  اس سے  موت نہ ایک پل کے  لیے  مؤخر ہو سکتی ہے  اور نہ مقدم۔ ’’برین ٹیومر‘‘ ان کے  لیے  جان لیوا ثابت ہوا۔ اب جب کہ میں  اپنا مضمون ختم کر رہا ہوں  بے  اختیار مجھے  ایک شعر یاد آتا ہے ؂
زندگی ایسی جیو کہ دشمنوں  کو رشک  ہو
موت ہو ایسی کہ دنیا دیر تک ماتم کرے 
٭٭٭


ارشد نظرؔ




 ارشد نظرؔ 
مالیگاؤں  سے  تعلق رکھنے  والے  شاعر جناب ارشد نظرؔ  کا شعری مجموعہ 2001 میں  منظر عام پر آیا۔ جس کا انتساب آپ نے  اپنے  استاذ محترم احمد نسیم مینا نگری کے  نام کیا ہے۔ ارشد نظرؔ  کا شعر بے  حد پر کیف ہوتا ہے۔ ان کی شاعری ٹھنڈا بادل ہے، کڑی دھوپ ہے، پر نور مسرت بخش چاندنی ہے، کانٹوں  کا درخت ہے، پیار و محبت کا اظہاریہ ہے۔ 
لفظ کے  استعمال میں  محتاط رویہ رکھنے  والے  شاعر ارشد نظرؔ  کے  بارے  میں  بشر نواز نے  لکھا ہے  کہ وہ بیک وقت جذبہ وفکر متحرک بھی کرتے  ہیں  اور متأثر بھی کرتے  ہیں۔ یہ اچھے  شعروں  کی اولین پہچان ہے۔ ارشد کا یہ رنگ بہت اچھا لگتا ہے۔ خصوصاً علم و ادب کے  شائقین اور روایتی شاعری سے  اوبے  ہوئے  لوگوں  کو ان کی شاعری اپنے  دامن میں  جگہ چھپا لیتی ہے۔ اور احساسات کے  ایک آسمان سے  آشنا کراتی ہے۔ دور حاضر کی تہذیبی کشمکش، اخلاقیات کا فقدان ان کی شاعری کا خاص موضوع ہے۔ اسی لیے  وہ دعویٰ کرتے  ہیں   ؂
کام اشعار سے  نشتر کا لیا جاتا ہے 
ہے  نظرؔ  بھی بڑا ہوشیار کہوں  یا نہ کہوں 
کبھی ہنگامے  کبھی فتنے  کبھی شرر جاگے 
کب ترے  شہر میں  تسکین کے  منظر جاگے 
ان کا اسلوب بہت ہی منفرد اور مختلف اسلوب ہے۔ لیکن وہ میرؔ  سے  بہت متأثر نظر آتے  ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے  کہ میرؔ  سا اندازِ بیان سب کو حاصل نہیں  ہوتا، میرؔ  انہیں  اپنے  انداز میں  کہنے  پر اکساتے  ہیں۔ مگر وہ اپنی انفرادیت بر قرار رکھنا چاہتے  ہیں۔ اس میں  ان کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 
میرؔ  کا طرز مسلّم لیکن
اپنا لہجہ بھی تو آسان نہیں 
میرؔ  کے  انداز واسلوب کی تعریف کرتے  ہوئے  وہ کہتے  ہیں 
شعر نظرؔ  بھی خوب ہیں  لیکن
میرؔ  کا لہجہ کیا لہجہ تھا
آخیر میں  وہ اعتراف کر لیتے  ہیں  کہ وہ میرؔ  کے  پیرو ہیں۔ ان کے  رنگ سخن کو اپنانا انہیں  اچھا لگتا ہے 
شاعر کتنا پیارا نظرؔ 
میرؔ  کے  جیسا لہجہ تھا
ٹھیک نہیں  تقلید کسی کی، پھر بھی نظرؔ  دل یہ کہتا ہے 
کبھو کبھو کا طرز سخن بھی میرؔ  سا تم دیوان میں  رکھنا
ارشد نظرؔ  کے  حوالے  سے  عبد المجید سرورؔ  لکھتے  ہیں کہ ’’ چاند کرتا ہے  گفتگو ہم سے ‘‘ ارشد نظرؔ  کی شاعری کے  امکانات کا ایک اور حسین وعدہ ہے۔ اس میں  انہوں  نے  بڑی جرأت اور فکری بلند آہنگی، تازگی اور شعوری روشنی کے  ساتھ نئی غزل کے  نئے  اسلوب، لفظیات کے  پردے  میں  او غزل کے  حسین انداز کو معنوی اور فکری حسن بخشا ہے ‘‘۔ سرور صاحب کا یہ تجزیہ حقیقت سے  کتنا قریب اور درست رائے  پر مبنی ہے  اس کے  بارے  میں  ارشد نظرؔ  کی شاعری کا مطالعہ کرنے  والے  خوب جانتے  ہیں۔ 
اب ہم ارشد نظرؔ  کے  موضوعات و لفظیات کے  حوالے  سے  گفتگو کریں  گے۔ ارشد نظرؔ  نے  لفظ پیاس کو بہت استعمال کیا ہے۔ لگتا ہے  کہ انہیں  اس لفظ سے  بے  حد محبت ہے۔ پیاس کے  اتنے  زاویوں  کو اپنی شاعری کی روشنی میں  مہکایا ہے  کہ پیاس پوری شدت و قوت کے  ساتھ روشن ہو جاتی ہے۔ پیاس کا اپنا الگ مزہ ہوتا ہے۔ جو دوسروں  کی تکلیفوں  اور مصیبتوں  کا احساس دلاتا ہے۔ اللہ کی نعمتوں  کی قدر شناسی کا جذبہ انسان میں  پیدا کراتا ہے۔ پیاس نہ ہو تو پانی کی قدر و قیمت کا اندازہ کیسے  ہو؟۔ آئیے ! پیاس کے  حوالے  سے  ارشد نظرؔ  کے  چند شعر پڑھتے  ہیں ؂
میں  دھوپ دھوپ گھنی پیاس پی چکا ہوں  بہت
کبھی تو ابر رواں  دشت بے  کراں  میں  اترا
نہر جو آنکھ کے  دریا سے  نکلتی ہے  نظرؔ 
خواب در خواب مری پیاس بجھا دیتی ہے 
ہوس کی آگ میں  کندن کی پیاس کس کو ملی
کسی پتنگ سا جل کر بکھرنے  والا بن
مری پیاس بجھائے  کون
پیاسا دریا کہتا تھا
ارشد نظرؔ  نے  تکلفات اور بناوٹ سے  پرہیز کیا ہے۔ جدت کے  ساتھ جدید لفظیات کا استعمال، انوکھا اور نیا لکھنے  کی خواہش انہیں  خوب سے  خوب تر، بہتر سے  بہتر شاعری کرنے  پر اکساتی ہے۔ انہیں  اس بات پر اکساتی ہے  کہ شاعری رسمی انداز میں  نہ ہو، چبائے  ہوئے  نوالے  نہ ہوں، کچھ اپنا ہو، کچھ خاص ہو، کچھ منفرد ہو، کچھ الگ ہو، جو ان کی پہچان ہو، خاص پہچان ہو، اسی پہچان کے  لیے  وہ غزل کو منفرد رنگوں  سے  مزین کرتے  ہیں  اور چاند سے  اس طرح گفتگو کرتے  ہیں ؂
خیالوں  کی نئی فصلیں  اگیں  گی
نظرؔ  احساس اپنا جاگتا ہے 
میرؔ  و غالبؔ  تو مسلم ہیں  لیکن
رنگ اپنا بھی جمایا جائے 
لیکن یہ احساس ان کو تکبر اور غرور میں  مبتلاء نہیں  کرتا۔ وہ اپنی خاکساری اور انکساری کو بر قرار رکھتے  ہیں۔ یہی انکساری ان کے  بڑے  ہونے  اور عظیم ہونے  کی دلیل ہے۔ ؂
تو یہ نہ کہہ مرے  بعد کوئی مجھ سا نہیں 
نظرؔ  ادب کا سمندر بڑا ہی گہرا ہے 
شعر وسخن کو وہ بڑی دولت مانتے  ہیں۔ لفظ کے  موتی، خیالات کے  ہیرے  اور احساسات کے  گہر جس کی ملکیت ہوں ، بھلا وہ کیسے  غریب ہو سکتا ہے ؟ غریب وہ ہے  جو ان خزینوں  سے  واقف نہیں ؂
کچھ نہیں  ہے  یہاں  سخن کے  سوا
سب سے  بہتر نظرؔ  یہ دولت ہے 
ارشد نظرؔ  کی شاعری میں  سب کچھ ہے۔ حسن و عاشقی، حق پرستی، کرب عالم، دین سے  محبت، خدا سے  محبت اور رنگ و بو کی داستانیں۔ ارشد نظرؔ  جانتے  ہیں  کہ حق پرستی آسان کام نہیں، اس میں  سب سے  بچھڑنا پڑتا ہے، اپنے  بیگانے  بن جاتے  ہیں، دوست دشمن بن جاتے  ہیں، رشتے  دار قطع رحمی کرنے  لگتے  ہیں۔ سچ کو کوئی پسند نہیں  کرتا، جھوٹی تعریف کو پل باندھنے  والے، جھوٹے  جذبوں  کا اظہار کرنے  والوں  کو سب سر پہ بٹھاتے  ہیں ؂
اپنوں  نے  وہ سلوک کیا ہے  ہمارے  ساتھ
اب دشمنوں  سے  کوئی شکایت نہیں  رہی
کیسے  نبرد آزما دشمن سے  ہو گیا
وحشی سا کوئی تو فنکار مجھ میں  تھا
دوست بھی اس کے  دشمن ہوتے 
میری طرح جو سچا ہوتا
سچائیوں  کو میں  نے  جو اپنا لیا نظرؔ 
برہم ہیں  ہم سے  حاشیہ بردار دیکھنا
دوڑ مت خواہشات کے  پیچھے 
کچھ تو ارشد نظرؔ  خدا سے  ڈر
ارشد نظرؔ  کی یہ رنگارنگ شاعری ہے۔ جس پر ناقدین کو سنجیدگی سے  توجہ دینے  کی ضرورت ہے۔ ارشد نظرؔ  کی شاعری پر چند مشاہیرِ ادب کی آراء پیش کرنا چا ہوں  گا۔ 
(۱)قمر اقبال: ارشد نظر کا تعلق وجد گھرانے  سے  ہے۔ لہٰذا شاعری ان کی گھٹی میں  پڑی ہوئی ہے۔ غزلیں  ہی نہیں ، افسانے  بھی لکھتے  ہیں  اور اردو دانوں  میں  اعتبار کا درجہ حاصل کرتے  جا رہے  ہیں۔ 
(۲)ڈاکٹر نجیب مسعود: آج بر صغیر میں  جو شاعری ہو رہی ہے  ارشد نظرؔ  نے  اس میں  ایک مقام ضرور بنا لیا ہے۔ 
ارشد نظرؔ  خود اپنے  بارے  میں  لکھتے  ہیں : آج کل کے  شاعر نئی لفظیات کو برت کر یہ سمجھتے  ہیں  کہ وہ انسانی معاشرے  کی روح تک پہونچ چکے  ہیں۔ جب کہ حقیقت حال اس کے  برعکس ہے۔ مجھے  اپنے  بارے  میں  کوئی خوش فہمی نہیں  ہے ، میری شاعری میں  جہاں  فکر ہے  وہیں  احساس کا کھردراپن بھی ہے۔ مجےا  یقین ہے  یہ اشعار ہر عہد مین زندہ رہیں  گے ؂
کس کے  غم میں  ہوائیں  روتی ہیں 
کوئی روشن دیا بجھا تو نہیں 
ان کی صداؤں  نے  ہر بار سنبھالا ہے 
دنیا کی اگر سنتا کب کا میں  بھٹک جاتا
گر کر بلندیوں  سے  نہ اٹھا کوئی نظرؔ 
یوں  تو دنیا میں  ڈوب کے  کتنے  خدا ہوئے 
دوڑ مت خواہشات کے  پیچھے 
کچھ تو ارشد نظرؔ  خدا سے  ڈر
میں  کیا ڈوبوں  تیرے  اندر
میرے  احساسات سمندر
٭٭٭