Saturday, March 23, 2013

نیر مسعود کے افسانے


نیر مسعود کے افسانے

ظہیردانش عمری
8/209-5,almas pet,kadapa 516001 A.P cell:9701065617
نیرمسعود ہمارے دور کے بہترین افسانہ نگار ہیں ،آپ نے اردو ادب کو ایسے لاجواب اور بے مثال افسانے دئے ہیں کہ ان کی قرات سے حیرت اور مسرت ہوتی ہے ،میں نے موصوف کے افسانے شمس الرحمن فاروقی کے زمانہ ساز رسالے شب خون میں پڑھے ،طاؤس چمن کی مینا وہی پہلا افسانہ تھا جیسے پڑھنے کا مجھے موقع تھا ،اس افسانے میں ماضی اور حال اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے جدا کرنا قریب قریب ممکن نہیں ہے ،نیز مسعود کے افسانوں کا مجموعہ ’’طاوس چمن کی مینا ‘‘ کے عنوان سے ۱۹۹۸ میں شائع ہوا تھا ،اس میں نیز مسعود کے دس افسانے شامل ہیں ،سب سے پہلا افسانہ ‘‘بائی کے ماتم دار ‘‘ ہے جو واحد متکلم کی تکنیک میں بیان ہوا ہے ،کہانی کا ر سب سے پہلے اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اسے دلہنوں سے خوف آتا ہے ،مگر یہ خوف ایک عرصے بعد کی پیداوار ہے ،پہلے پہل تو اسے دلہنیں دلچسپ اور خوب صورت معلوم ہوتی تھیں مگر جیسے ہی ایک واقعہ رونما ہوتا ہے تو کہانی کا رکے دل میں عشق کی جگہ خوف ودہشت پیدا ہوجاتی ہے ،دولہن کو جب زیورات کے ساتھ دفن کردیا جاتا ہے تو دولہا رات میں اس قبر کھودتا ہے ،بعد میں لوگوں سے اس بات کا ذکر کرتا ہے کہ دولہن کے زیورات اس سے چمٹ گئے تھے افسانہ جب ختم ہوتا ہے تو وہاں بھی اسی نوع کا واقعہ نمودار ہوتا ہے کہ ایک ضعیف بائی جب مرجاتی ہے اس کے رشتہ دار ماتم کے لیے جمع ہوتے ہیں تو اس کے سارے زیورات اس سے زبردستی چھین لیتے ہیں،اس وجہ سے بائی کے جسم کے مختلف مقامات سے خون آنے لگتا ہے ،بائی کے شوہر باہر گئے ہوئے ہیں ،وہ چار دن کے لوٹتے ہیں تو ان کو ساری بات بتادی جاتی ہے اور وہ لوٹ جاتے ہیں ۔
یہ افسانہ خوف کی فضائیں میں پروان چڑھتا ہے ،دولہن کے زیورات کا خوف ،لیکن جب کہانی کار کے اندر کا شعور جاگتا ہے تو اس کا خوف جاتا رہتا ہے ،ہم اس افسانے پر غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کہانی کار نے اس میں انسانی لالچ کی تصویر کشی کی ہے ،لالچ ایسی چیز ہے جس کی انتہا نہیں ہے لالچ کے سبب ایک شخص قبر میں اُترنا پسند کرتا ہے ،مردہ انسان کے تن سے زیورات نوچنا لالچی کے لیے ایک عام اسی بات ہے ،نیز مسعود نے اس افسانے میں معاشرے کی زوال پذیر قدروں کا ماتم کیا ہے کہ رشتہ داری ،محبت اور خلوص کی مال ودولت کے سامنے کوئی قدر وقیمت نہیں ہے ۔
’’اہرام کا میر محاسب ‘‘ مختصر افسانہ ہے ،مگر اس سے افسانہ نگار کا مطمع نظر واضح نہیں ہے نیز مسعود کہنا کیا چاہتے ہیں میں بالکل بھی نہیں سمجھ سکا ہوں ،
’’رے خاندان کے آثار‘‘ یہ افسانہ ماضی کا نوحہ بیان کرتا ہے ،بظاہر یوں لگتا ہے کہ افسانہ نگار کو رے خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک عورت کی تلاش ہے لیکن کیا صرف ایک خاتون کی تلاش مصنف کا مقصد ہے ؟بالکل نہیں ،مصنف نے اس کی آڑ میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ماضی سے ہمارا تعلق کمزور سے کمزور تر ہوتا جارہا ہے ،کہانی جیسے ہی شروع ہوتی ہے مصنف کا مدعا واضح ہونے لگتا ہے ،پرانی اور یادگار چیزیں جن سے ہماری زندگی کی کوئی نہ کوئی سنہری یادوابستہ ہوکیا اس لائق بھی نہیں ہوتیں کہ انہی سینت کررکھا جائے ،دوسرے لفظوں میں مصنف نے ہم سے سوال کرنے کی کوشش کی :
’’اسی الجھن کے زمانے میں ایک دن میں نے ایک صپخی کی اس دیواری الماری کو کھولا جس میں میرے بچپن کے زمانے کی فضول چیزیں بھری ہوئی تھیں ،الماری کے پٹوں کی لکڑی گل گئی تھی ۔۔۔خود میر اسامان اوپر اور نیچے ہوئے قلم ،چاقوؤں کے زنگ کھائے ہوئے پھل ،جادوئی تماشے دکھانے کا ٹوٹا پھوٹا ہوا سامان ،بچوں کے پھٹے پرانے رسالے وغیرہ تھے ۔۔۔الماری کی باقی چیزوں کو دیکھ کر کچھ نہ کچھ یاد آتا تھا ،مجھے یقین ہوگیا کہ میں ان میں سے ایک چیز کو بھی الگ نہیں کرسکتا ‘‘(طاؤس چمن کی مینا ،ص:۷۰)
اس افسانے میں افسانہ نگار نے بڑی گہری باتیں بڑی سادگی سے بیان کردی ہیں ،ماضی ایسی سنہری چیز ہے کہ جس سے قطع تعلق کرلینا کسی طور مناسب نہیں ،انسان جب اپنے ماضی سے منسلک ہوتو اس کا حال ومستقبل درخشاں ہوتا ہے ،بین السطور میں موصوف نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر آپ خلوص دل سے کسی چیز کو تلاش کریں تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ چیز آپ کو نہ ملے ،طلب سچی تو ہر قسم کی تلاش میں انسان کا میاب ہوتا ہے ۔
اینجیلا رے کے تعلق سے اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے راوی بتاتا ہے کہ اُسے صرف ایک مرتبہ اینجیلارے کے گھر جانے کا موقع ملا ،وہ پہلا اور آخری موقع تھا ،رے کی ماں آخری وقت آن پہونچا تھا ،راوی اس موقع کو یوں بیان کرتا ہے :
’’ہم لوگ ان کے آخری وقت میں انہیں دیکھنے گئے تھے ۔وہ پہلا اور آخری موقع تھا جب میں نے انجیلا کا گھر اور انجیلا کو گھر میں دیکھا تھا ،چھوٹا سا پھولوں کی دو تین کیاریوں اور مور پنکھی کے ایک درخت کی وجہ سے باغچہ کہا جاتا تھا ۔۔۔’’آؤ‘‘ انہوں نے اپنی سہیلیوں سے کہا اورجب ہم کمرے سے باہر نکلنے لگے تو وہ مجھ سے بولیں :’’تم چاہے یہیں بیٹھو ‘‘ لیکن میں سب کے پیچھے پیچھے باہر نکل آیا ،پتلے بر آمدہ میں داہنے ہاتھ پر ایک اور دروازہ تھا اور اس سے کچھ آگے بڑھ کر ایک اور ،ہم اس آخری دروازے میں داخل ہوئے ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔کمبل میں لپٹا ہوا سکڑا بدن مجھے نظر نہیں آیا لیکن کھلے ہوئے چہرے کو میں نے غور سے دیکھا یہ میری طرف کروٹ لیے ہوئے ایک بوڑھی عورت کا جھلسا ہوا کھئی چہرہ تھا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی اور بند تھیں ،چہرے سے اذیت ظاہر تھی لیکن وہ عورت ہنس رہی تھی ،اس طرح کہ سفید دانتوں کی دونوں قطاروں کی آخری داڑھیں تک دکھائی دے رہی تھیں ،کمرے کی خاموشی میں مجھے اینجلا کی تیز سسکی اور گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی : ’’اُدھر نہ دیکھو !‘‘ لیکن میں نے دیکھا کہ اس ہنستی ہوئی عورت کے مرجھائے ہوئے ہونٹ سختی سے بھنچے ہوئے ہیں ،مگر اس کے دانت اب بھی اسی طرح نظر آرہے تھے ،تب مجھے پتہ چلا کہ وہ ہنس نہیں رہی تھیں ،ہونٹوں کے کونے سے لے کر کان کی لوتک اس کے داہنے رخسار کا سارا گوشت گل کر غائب ہوچکا تھا ‘‘ (۸۰ اور ۸۱)
اس اقتباس سے بڑا ہی درد اور کرب ٹپکتا ہے ،اس افسانے کا بین السطور بڑا معنی خیز اور قابل توجہ ہے ،اس افسانے میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں ان کا بالکل اخیر میں پتہ چلتا ہے کہ وہ کوما کی حالت میں ہیں ،اور راوی اس سے ملاقات کیے بغیراپنے گھر کی راہ لیتا ہے ،نیز مسعود کا افسانہ ایک کامیاب اور بے مثال افسانہ ہے ،اس کی تعریف جتنی بھی کی جائے کم ہے ،کیونکہ اس میں افسانے کے تمام فنی لوازم موجود ہیں ۔
نیز مسعود کے افسانوں میں خوابناک فضا کی موجودگی قاری کے لیے دلکشی کا باعث بنتی ہے ،خواب انسانوں کے لیے ہمیشہ سے ہی وجہ دلکشی رہے ہیں ،یہ دلکشی تب اور بڑھ جاتی ہے جب اس کے ساتھ عمدہ اور اعلیٰ تخیل بھی شامل ہوجاتا ہے ،موصوف کا ایک افسانہ ’’تحویل ‘‘ اس کی بہترین مثال ہے ،اس میں نو روز نامی ایک دکاندار کی کہانی کا بیان ہے نو روز کسی فرد واحد کا نام نہیں بلکہ ایک نوروز کے بعد جب دوسرا شخص دکان سنبھالتا ہے تو اسے نوروز کا نام دے دیا جاتا ہے ،خواہ اس کا خاندانی نام امروز ہوکہ افروز ،اسی دکان کے بارے میں نیز مسعود لکھتے ہیں :
’’یہ دکان کئی پشتوں تک چلتی رہی اور دکان کے مالک کا نام ہر پشت میں نو روز ہی رہا ،حالانکہ ملکیت سنبھالے سے پہلے اس کا نام کچھ اورہوتا تھا لیکن دکان پر اس کے بیٹھنے کے بعد سب لوگ اسے نو روز کہنے لگتے ،شاید اس کیے اس دکان کو نوروز کی دکان کیا جاتا تھا ‘‘(ص:۹۱)
کہانی کاراوی بھی نور روز کا کردار نبھاتا ہے ،جس کے سبب نو روز کی تمام مصروفیات ہمارے علم میں آجاتی ہیں ،کہانی کے راوی سے پہلے جو نوروز تھا اس کی دوبچیاں تھیں ان کے پالنے کی ذمہ داری راوی اُٹھاتا ہے اور وہ بھی اس لیے کہ اُس سے قبل کا نوروز پاگل ہوچکا ہے ،کچھ تخیل کچھ حقیقت کے مابین کہانی ارتقاء کا سفر طے کرتی ہے ،اس میں اپنے قاری کو جکڑلینے کی پوری صلاحیت موجود ہے ،تجسس تو مجبور کرتا ہی ہے کہ پوری کہانی پڑھ لیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کہانی کی زبان اور اسلوب میں بھی وہ قوت وطاقت ہے کہ قاری اسے پڑھنے پر مجبور ہوجائے۔
’’طاؤس چمن مینا ‘‘ اردو کے چند بہترین افسانوں میں رکھے جانے کے لائق ہے ،یہ کالے خان کی داستان ہے ،جو ایک نواب کے یہاں ملازم ہے،کالے خان کی بیٹی کا نام فلک آرا ہے ،یہ داستان فلک آراء اور ایک پہاڑی مینا کے آس پاس گھومتی ہے ،فلک آرا پہاڑی مینا کے لیے ضد کرتی ہے مگر کالے خان کی یہ استطاعت نہیں کہ اسے خریدسکے ،جب بچی کا اصرار بہت بڑھا تو کالے خان نے کچھ دن کے پہاڑی مینا چرالی اور واپس بھی رکھ دی ،مگر چوری کا راز اس وقت کھلنا ہے جب میناؤں کو تعلیم دی جاتی ہے ،کالے خان نے جو میناچرائی تھی وہ پکار اُٹھتی ہے ‘‘ فلک آراء شہزادی ہے .دودھ جیسی کھاتی ہے ۔کالے خاں کی گوری گوری بیٹی ہے ‘‘ اس کے بعد لمبا قصہ ہے ،بلآخر کالے خاں رہا کردیا جاتا ہے ۔
اس افسانے میں نیر مسعود نے نوابین لکھنؤ کے شوق کی تفصیل بیان کی ’’طاؤس چمن ‘‘ جیساکہ نام سے ظاہر ہے موروں کا چمن ،موروں کو مختلف درختوں سے تراش خراش کر ایسی شکل دی گئی تھی کہ نقل پراصل کا گمان ہوتا تھا ،اس چمن کے ایک ایک جزئیے کی ایسی تفصیل بیان کی گئی کہ آنکھوں کے سامنے اس کی تصویرس کھنچ جاتی ہے ،مثال کے طور پر :
’’اور میں پھر قفس کو دیکھنے لگا اندر سے وہ ایک چھوٹا ما قصر باغ ہورہا تھا ۔فرش پرسنگ سرخ کی بجری بچھی ہوئی تھی ،بیچ میں پانی سے بھرا ہوا حوض جس میں چھوٹی چھوٹی سنہری کشتیاں تیررہی تھیں اور ان کشتیوں میں بھی تھوڑا تھوڑا پانی تھا ،فرش پر لال سبز چینی کی نیچی نیچی ناندوں میں پتلی لمبی شاخوں والے چھوٹے قد کے درخت تھے ،دیواروں سے ملی ملی بسنت مالتی ،بشن کانتا ،جوہی کی بیلیں تھیں ،ان میں ٹہنیوں سے زیادہ پھول تھے اور انہیں اس طرح چھانٹا گیا تھا کہ قفس کی خوب صورتی ان میں چھپ جانے کے بجائے اور اُبھر آئی تھیں ،جگہ جگہ ستاروں کی وضع کے آئیے جڑے تھے جن کی وجہ سے قفس میں جدھر دیکھو پھول ہی پھول نظر آتے تھے ،پانی کے کاسے ،دانے کی کٹوریاں ،یانڈیاں،چھوٹے چھوٹے جھولے ،گھومنے والے اڈیّ،پتلے پتلے مچان اور آشیانے ہر طرف تھے اور انہیں سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ جگہ پرندوں کے لیے ہے ‘‘ (ص: ۱۵۰)
لکھنؤ کی تہذیب ،نوابوں کے جونچلے اگر کوئی دیکھنا چاہے تو اس افسانے کا مطالعہ کرلے کہ کس طرح ایک شخص کو خوش کرنے کے لیے مصاحبوں اور جی حضوری کرنے والوں کی پھیڑ کی پھیڑ لگی رہتی ہے ،زبان کا سلیقہ ،نزاکت لکھنؤ کے علاوہ اور کہاں مل سکتی ہے ۔
لکھنؤ کے بارے میں نیر مسعود کے بیانات کو اہم مانا جائے گا ،نیر مسعود لکھنوی ہیں کسی بھی وطن کے بارے میں اہل وطن سے بڑھ کر اور کون جان سکتا ہے ،نوابین قدیم صرف برائی کا مجموعہ نہیں تھے ان میں بہت سی خوبیاں بھی تھیں ،جیسے اگر وہ کسی سے خوش ہوجاتے تو کرم وعطا کی بارش کردیتے ،جو دوسخا اور دریادلی کئی نوابوں کی شان وفطرت رہی ہے ،اس افسانے میں اس کی ایک جھلک ہمیں اس وقت دکھائی دیتی ہے جب کالے خاں کو معاف کردیا جاتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی نواب صاحب کا یہ فرمان بھی ہوتا ہے کہ چوری اس گھر میں کرتے ہیں جہاں مانگنے سے ملتا نہ ہو ۔
بات کرنے کا سلیقہ ،بڑوں کا ادب ،رکھ رکھاؤکا بیان تفصیل سے اس افسانے میں کیا گیا ،اس میں نوابوں کی بخشش کا احوال بھی ہے اور ناراضگی کا فسانہ بھی ،افسانے کا اختتام غیر متوقع ہے ۔
’’لکھنؤ میں میرا دل نہ لگتا اور ایک مہینے کے اندر بنارس میں آرہنا ،ستاون کی لڑائی ،سلطان عالم کا کلکتہ کا تباہ ہونا ،قیصر باغ پر گواروں کا دھاوا کرنا ،کٹہروں میں بند شاہی جانوروں کا شکار کرنا ،ایک شیرنی کا اپنے گورے شکاری کو گھائل کرکے بھاگ جانا ،گوروں کا طیش میں اکر داروغہ بنی بخش کو گولی ماردینا،رلب دوسرے قصے ہیں اور ان قصوں کے اندر بھی قصے ہیں ،لیکن طاؤس چمن کی مینا کا قصہ وہیں پر ختم ہوتا ہے جہاں ننھی فلک آرا میری گود میں بیٹھ کر اس کے نئے نئے قصے سنانا شروع کرتی ہے ‘‘ (۱۸۵اور ۱۸۶)
ان افسانوں کے علاوہ کچھ اور افسانے نے نیر مسعود کے اس میں شامل ہیں مگر ان میں ہو دلکشی اور جاذبیت نہیں ہے جو قاری کو اپنے دام میں گرفتار کرلے ۔
بہرکیف اس میں شک نہیں کہ نیر مسعود نے اپنے قاری کو اپنے جذبات سے آگاہ کرنے کے لئے افسانے کا سہارالیا اورپوری دلچسپی اورتوجہ کے ساتھ بہت ہی عمدہ ،توجہ کو اپنی جانب منعطف کرلینے والے افسانے تحریرفرمائے ۔

Friday, March 22, 2013

قربانی۔


قربانی۔
سوال۸؂:۔از محمد عبدالکریم ۔اونگ آبادد کن ۔
اگست ۶۲ ؁ء کے تجلی میں ’’تفہیم الحدیث ‘‘ کے ذیل میں یہ ۔۔۔۔۔کر کہ اسلام میں انسانوں ہی کے ساتھ نہیں جانوروں تک کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی گئی ہے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر تو جانوروں کو ذح کر کر کے کھانا نہایت بے رحمانہ فعل ہوا اور قصاب حضرات تو بڑی ہی ستم رانی کے مرتکب ہیں ۔ کیا رسول و کے زمانے میں بھی یہ سلسلہ رائج تھا؟ 
(سوال غیر ضروری طویل تھا ۔ مختصر کردیاگیا ہے تاہم جواب میں ہم جملہ شبہات کا لحاظ رکھیں گے ۔)
الجواب:۔ معلوم ہوتا ہے آنجناب نہ تو دینی لٹریچر کا مطالعہ فرماتے ہیں نہ قرآن ہی کو کبھی ترجمے کے ساتھ پڑھا ہے ورنہ سطحی شبہ آپ کے ذہن میں نہ ابھرتا ۔ خوب سمجھ لیجئے کہ اچھائی اور برائی ، ظلم اور عدل کی حقیقت کو سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور اسے جاننا بھی چاہئے کہ وہی تو ہر شئے کا خالق و مالک ہے ۔ کوئی معاملہ اچھا ہے یا برا ، طلم پر مبنی ہے یا انصاف پر۔ اس کا فیصلہ ہم اپنے فہم و قیاس کے ذریعہ اس وقت کریں گے جب اللہ اور اس کے رسول ؐ کی طرف سے اس معاملہ میں کوئی واضح ہدایت نہ ملی ہو۔ لیکن اگر یہ ہدایت موجود ہے تو پھر ہمارا صرف یہ کام ہے کہ اسی ہدایت کے آگے اپنی زبان اور سرہی کو نہیں دل اور دماغ کو بھی نیاز مندانہ جھکادیں ۔
جانوروں کو ذبح کر کے غزا بنانا اللہ اور رسول ؐ کی صریح ہدایات کے مطابق عین عدل ہے ظلم ہرگز نہیں ۔ آپ کو نہیں معلوم کہ ہمارے حضورؐ نے حجۃ الوداع میں ایک ہی دن سو(۱۰۰) قربانیاں کی تھیں جن میں سے ۶۳ تو خود اپنے دست مبارک سے کی تھیں ۔ 
یہ تو جواب تھا مسلمانوں والا یعنی سمعنا واطعنا 
عقلی جواب یہ ہے کہ جن جانوروں کی قربانی اللہنے جائز رکھی ہے انکا مقصدِ پیدائش ہی یہ ہے کہ انسان ان سے فائدہ اٹھائیں ۔ سواری کا فائدہ ہو یا ہل میں جوتنے کا ۔ دودہ حاصل کرنے کا ہو یا غذا بنانے کا ۔ یہ عین مقصدِ پیدائش کے مطابق ہے ۔ لہٰذا ظلم کا سوال ہی پیدا نہین ہوتا ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ عورت کو بچہ جننے سے قبل شدید درد زہ سے گذرنا پڑتاہے ۔ اسیبھی نعوذ باللہ خدا کا ظلم کہناپڑے گا اگر فیصلہ سطحی مطالعہ پررکھا جائے لیکن یہ یقیناًظلم نہیں ہے کیوں کہ طبعی شے ہے ۔ نظام فطرت کا جزوِ لازم ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ سب سے بڑا انصاف والا ایک ایسی تکلیف کو لازمۂ حیات بنادے جس پر ظلم کا اطلاق ہوسکے ۔
بس اسی سے سمجھ لیجئے کہ حلال جانوروں کی قربانی اگر چہ صورۃً ظلم نظر آتی ہے لیکن حقیقتاً وہ قدرت کے نظام تکوینی کا ایک جزو اور ان جانوروں کے مقصدِ تخلیق کاایک تقاجا ہے ۔ اسے ظلم تصور کرنے والے نازک مزاجوں کو پھر یہ بھیچاہئے کہ عورتوں کیپاس نہ پھٹکیں کیوں کہ قرب کے نتیجے میں وہ انھیں دردزہ کی شدید اذیت میں مبتلا کرنے کے مجرم بن رہے ہیں ۔
بلکہ گہری نظر سے دیکھئے تو دردزہ والی کیفیت بظاہر ذبح سے زیادہ ظالمانہ ہے کیوں کہ ذبح کا کرب تو منٹ د ومنٹ کا ہوتا ہے مگر درد زہ کی کم سے کم مدت بھی اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے ۔ علاوہ ازیں انسانی احساس ووجدان کرب و اذیت کے قبول کرنے میں حیوانات سے زیادہ کی اور سریع الحس ہیں ۔ لہٰذا کیفیت و کمیت دونوں اعتبار سے ایک عورت دردِ زہ میں ا س سے کہیں زیادہ تکلیف اٹھاتی ہے جتنی ایک جانور صحیح اسلامی طریق پر ذبح کئے جانے میں اٹھاتا ہے ۔
اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ جانوروں کو جیتے جی غیر ضروری اذیت دینا اور بات ہے اور ان کو منشائے قدرت کے مطابق ذبح کر کے کھانابالکل دوسری بات ۔ پہلی بات کے لئے عقل و منطق اور انسانی اخلاق کے اعتبا ر سے کوئی وجہ جواز نہیں جب کہ دوسری کے لئے جواز ہی جوا ز کے وجود موجود ہیں ۔
ویسے یہ ہمیں اعتراف کرنا چاہئے کہ قصابوں کی جہالت و شقاوت اور مسلم معاشرے کی ابتری نے ذبح کے نظام میں بعض ایسی خرابیاں پیدا کردی ہیں جنھیں خود اسلام بھی پسندیدہ نگاہ سے نہیں دیکھتا لیکنان خرابیوں کی وجہ سے نفس ذبح کے جواز ۔ اور بعض حالتوں میں وجوب پر کوئی اثر نہیں پڑتا 

امتیازی الفاظ


امتیازی الفاظ 
سوال۷؂ : (ایضاً)
ہندوستان میں خاندان و نسب کے خطابات امتیاز و برتری کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ علمائے کرام بھی اپنے ناموں کے ساتھ ایسے خطابات ۔۔۔۔استعمال کرتیہیں جن سے برتری کا اظہار ہوتا ہے ۔ اسلامی ۔۔۔مساوات کے پیش نظر بعض احباب کو اس طرح کے خطابات سے ۔۔۔ ذہنی الجھاؤ ہے شرعی حیثیت سے اس کی کہاں تک اجازت ۔۔۔ صراحت کیساتھ تحریر فرمائیں ۔
الجواب:۔ اصل ناموں پر اضافہ کئے ہوئے الفاظ دو قسم کے ہوسکتے ہیں ۔ ایک وہ جن سے تعارف مقصو د ہو ۔ دوسرے وہجن سے مدح و ستائش کا ارادہ کیا جائے ۔ پہلی قسم کی مچالیہ ہے جیسے سلمان فارسی ،ابوذر غفاری ،صہیب رومی ،بلال حبشی ،معین الدین چشتی ، عبدالقادری جیلانی، عامر عثمانی ، ابو الاعلیٰ مودودی وغیرہ ان ناموں میں اصل پر جو ضافہ ہے وہ کسی مقام یا خاندان یا گروہ کی طرف نسبت کی شکل میں ہے جو صرف تمیز و تعارف کا فائدہ دیتا ہے خود ستائی ، تفوق پسندی اور استکبار سے اس کا کوئی تعلق نہیں اس طرح کے تمیز و تعارف کی اجازت خود باری تعالیٰ نے دی ہے۔
یا ایھاالناس انا خلقنٰکم من ذکرو انثیٰ و جعلنٰکم شعوبا و قبائل لتعارفوا (الحجرات)۔(اے لوگو ہم نے تمھیں بنایا ایک مرد اور ایک عورت سے او ر رکھیں تمہاری ذاتیں اور قبیلے تاکہ آپس کی پہچان ہو) ۔
متعدد صحابہؓ کے ناموں کا وطن یا خاندان کے ساتھ منسوب ہوتا اور حضورؐ کا اسے پسندیدہ قرار نہ دینا بجائے خود کافی شافی دلیل ہے اس بات کی کہ یہ انتساب و اعلان برتری کا مظہر نہیں نہ مساوات کا مخالف ہے ۔
دوسری قسم کی مثال ہ ہے جیسے علامہ، مولانا ، حکیم الامت ، شیخ الاسلام ، محبوب الملت وغیرہ۔ یہ خطابات عموماً عوام کی طرف سے دئے جاتے ہیں ۔ ان کے استعمال میں دوسرے لوگوں کے لئے تو کوئی گناہ نہین بشرطیکہ انھیں خواہ مخواہ گھڑ لیا گیا ہو، البتہ خود صاحب خطب کو انھین اپنے نام کے ساتھ استعمال کرنا جائز نہیں ہے کیوں کہ یہ صریحاً خود ستائی ہوگی ۔ واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ احکم ۔

کھانے پینے کی چیز و ں پر پھونکیں مارنا


کھانے پینے کی چیز و ں پر پھونکیں مارنا
سوال۶؂ :۔از: نظام الدین : شب پور۔ ہوڑہ۔ 
تعویذ گنڈے ، پانی تیل یا کسی دوسرے کھانے کی چیزوں پر پھونک مارنا برائے شفا یابی یا برکت کیساہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ۔ خصوصاً بعد نماز مغرب مسجد کے دروازوں پر پانی پھونکے یا لرکوں کو پھونک ڈالنے کے لئے ایک کثیر مجمع ہو جاتا ہے ۔ اس باب میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ۔
الجواب :۔ بعض احادیث مین ملتا ہے کہ حضور ﷺ نے خاص خاص مواقع پر کچھ پڑھ کر کھانے پینے کیبعض چیزوں پر دم کیا ہے ۔ اس کے تیجے میں غیر معمولی بربت کا معجزہ ظہور میں آیا۔ اس سے دم کرنے کا جوزا تو بظاہر نکلتا ہے لیکن یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس طریق کو بطورسنت معمول بہابنا لینا چاہئے ۔حضور ؐ کو متعدد معجزے عطا کئے گئے اور ان میں سے معجزہ بھی تھا کہ آپ کے لعاب وہن سے امراض کو شفا ہوگئی اور آپ کے بعض الفاظ سے کھانے پینے کی چیزوں میں بے انتہا برکت و اضافے کا مظاہرہ ہوا۔ یہ اگر حضورؐ ہی کی خصوصیت نہ ہوتی تو ہم دیکھتے کہ صحابہؓ نے بھی عموما و کثرت کے ساتھ دم کرنے کے طریق کو اختیار کیا ہوتا کیوں کہ صحابہؓ سے بڑھ کر سنتِ نبوی کی پیروی کرنے والا کون ہوسکتا ہے مگر آثار صحابہ میں دم کرنے کا عمل عموم کے ساتھ تو کجا خصوص و شذوذ کے ساتھ بھی نہایت تلاش و تفحص کے بعد ہی مل سکتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ فعل بطور سنت عمومیت کے ساتھ اختیار کرنے کا نہیں ویسے یہ دعویٰ بہر حال غلط ہوگا کہ آیاتِ الہٰیہ پڑھ کر دم کرنے سے کسی نفع و بر کت کی امید ہوہی نہیں سکتی۔ واللہ اعلم با لصواب ۔