Wednesday, April 24, 2013

3جامعہ دارالسلام کا ایک دن

 3جامعہ دارالسلام کا ایک دن
ہماری جماعت کی خصوصیت بلکہ امتیاز یہ ہے کہ اس کی نصف کے قریب تعداد حافظ ہے،یہ ہماری اور ہمارے ساتھیوں کی کہکشاں ہے، جس میں کوئی لکھنے میں ماہر ہے تو کوئی بولنے میں، کوئی اچھی طرح قرآن پڑھتا ہے تو کوئی کھیلنے میں مہارت رکھتا ہے، کوئی قلم کا دھنی ہے تو کوئی زبان وبیان کا۔ گویا ایں خانہ ہمہ آفتاب است والی صورت حال ہے، ان میں سے کوئی آج کسی مدرسے کا استاذ ہے تو کوئی کسی مسجد کا امام ، کوئی قطر میں امامت کی خدمت انجام دے رہا ہے تو کوئی کسی درسگاہ سے منسلک ہے۔ 

آگے بڑھتے ہیں، دکتور عبداللہ جولم عمری مدنی بخاری پڑھانے کے لیے آگئے ہیں، ماشاء اللہ کیا علمی نکات بیان کر رہے ہیں، مسائل بتا رہے ہیں، حدیث کی تشریح کر رہے ہیں، طلباء کے اشکالات کا جواب دے رہے ہیں، تشریح کی ضرورت نہیں سمجھی تو آگے عبارت پڑھنے کا حکم دے رہے ہیں، ہمارے ساتھی شعیب بڑی روانی اور تیزی سے پڑھ رہے ہیں، شاید آج ان کی باری ہے۔
جولم صاحب کے پڑھانے کا انداز بڑا دلچسپ ہے، اگرچہ آپ نیپال کے ہیں، مگر اردو عربی بڑی روانی سے بولتے ہیں، بہت آسان زبان استعمال کرتے ہیں، ہر مسئلہ کے مالہ وماعلیہ سے واقف کراتے ہیں، کسی بھی مسئلے کی دلیل کے طور پر قرآن وحدیث سے بے شمار دلائل پیش کرتے ہیں، ہر مسئلے میں وہ اپنی واضح رائے رکھتے ہیں جو ان کے صاف گو اور حق گو ہونے کی دلیل ہے۔
بچوں پر نماز کے سلسلے میں بہت سختی برتتے ہیں، بہت سادہ انسان ہیں، زیادہ تکلف کو پسند نہیں کرتے، مسائل میں سائل کو قائل کرنے کی خاص صلاحیت اللہ نے آپ کو ودیعت کی ہے، طلباء کے چھوٹے سے چھوٹے مسائل سے لے کر بڑے سے بڑے مسائل تک حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
لیجیے! دیکھتے ہی دیکھتے پہلی گھنٹی ختم ہو گئی، دکتور صاحب چلے گئے، ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ پڑھانے کے لیے مولا نا ڈاکٹر سعید احمد عمری تشریف لائیں گے، جو قرآن کریم سے خاص شغف رکھتے ہیں، اس حوالے سے انہوں نے Ph.Dکی ہے، جب قرآنیات پر بولنا شروع کرتے ہیں تو بولتے چلے جاتے ہیں، جی چاہتا ہے کہ وہ یونہی بلا توقف بولتے رہیں، مولانا کو سننے کا موقع کا کئی بار حاصل ہوا پھر بھی تشنگی باقی ہے، ہمیشہ یہی آرزو لے کر مولانا کی مجلس سے اٹھتے ہیں کہ کاش مولانا کچھ دیر اور بولتے۔
مولانا جب سے تنویر کے نگراں کے مقرر ہوئے ، تنویر نے بہت ترقی کی، دارالسلام کے کئی خصوصی شمارے آپ کی نگرانی میں شائع ہوئے، خود میں نے مولانا کو کئی بار تنویر کے بارے میں بے حد فکرمند دیکھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی طبیعت بے حد حساس ہے، جو ذمہ داری بھی آپ کو سونپی جاتی ہے اسے احسن طریقے سے نبھانے کی مکمل کوشش کرتے ہیں، یہ آپ کا وصف خصوصی ہے۔
’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ پڑھانے کا انداز نرالا ہے، شاہ صاحب کی یہ کتاب ویسے بہت مشکل ہے مگر مولانا اسے بیحد آسان کر دیتے ہیں، ہم لوگ عموماً مولانا سعید احمد پالنپوری کی پانچ جلدوں میں لکھی ہوئی حجۃ اللہ البالغۃ کی شرح ’’رحمۃ اللہ الواسعۃ‘‘ سے استفادہ کرتے ہیں، مگر چند مباحث کی شرح متن سے زیادہ مشکل ہے اس کے لیے مولانا (سعید عمری صاحب) کے نوٹس کا سہارا لینا ناگزیر ہوتا ہے، دراصل وہ بہت سی ایسی باتیں اپنے مطالعہ کی بنیاد پر بتلاتے ہیں جن کا کسی کتاب یا شرح میں ملنا بہت مشکل ہے۔
میں اس بات کی بڑی کوشش کرتا تھا کہ مولانا کی کہی ہوئی ایک بات بھی قید تحریر میں آنے سے نہ رہ جائے، اکثر میں کامیاب بھی ہوتا تھا،مگر افسوس مجھ سے حجۃ اللہ البالغہ کی وہ کاپی کھو گئی ہے جو میں نے دوران درس تیار کی تھی، اگر آج وہ موجود ہوتی تو اہل علم کے لیے ایک قیمتی سرمایے سے کم ثابت نہ ہوتی۔ناچیز کو اس بات کا بھی بے حد افسوس ہے کہ مولانا سے جتنا استفادہ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نے نہیں کیا۔ حالانکہ آپ نے ہماری رہنمائی کی حتی المقدور کوشش کی، ہمیں صحیح مشورے دیے، ہمارے ساتھ اپنے بچوں کی طرح سلوک کیا، اللہ تعالیٰ اس کا اجر آپ کو قیامت کے دن ضروردے گا۔
ہفتے میں تین دن حجۃاللہ کے لئے اوربقیہ تین دن عقیدۂ طحاویہ کے لئے مختص تھے۔عقیدۂ طحاویہ کی گھنٹی ہے، مدرس ہیں مولانا اطہر حسین عمری مدنی، اس سے قبل ہم نے آپ سے سراجی اور مفصل پڑھی ہے، بڑے محنتی، طلباء کے حق میں بے حد شفیق ہیں، آپ اپنے درس میں اس بات کی بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ طالب علم کو بات پوری طرح سمجھ میں آجائے، آپ ہی جامعہ دارالسلام کے نائب ناظم ہیں، جب تک طالب علم کے بارے ان کو یقین نہ ہو جاتا کہ یہ چھٹی کا مستحق ہے ہرگز ہرگز چھٹی عطا نہ کرتے، یہ اصل میں طلباء کے ساتھ شفقت کی انتہاء ہے کہ طالب علم کا ایک درس بھی ناغہ ہونے پائے، طالب علم خواہ کتنا ہی ذہین نہ ہو وہ استاد کے برابر نہیں ہو سکتا، اس لیے ہر طالب علم کا ہر کلاس میں حاضری دینا ، براہ راست استاد سے درس لینا ضروری ہے۔
آپ تکیہ کلام کے طور پر ’’اس طرح سے‘‘ استعمال کرتے تھے، دوران درس بکثرت اس طرح سے اس طرح سے کہتے تھے، چند شریر قسم کے طلباء باقاعدہ شمار کرتے تھے کہ مولانا نے آج کے درس میں ’’اس طرح سے‘‘ اتنی مرتبہ فرمایا ہے، اگر کوئی طالب بے تکا سوال کرتا تو اسے ایسا جواب دیتے کہ طالب علم بھونچکا رہ جاتا۔(کچھ ہی مہینوں قبل آپ کا انتقال ہوا، اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے،صالح اولاد کو ثواب جاریہ کا ذریعہ بنائے۔آمین!)
یہ تیسری گھنٹی ہے، جو بیضاوی کے لیے مختص ہے، شیخ التفسیر مولانا عبد الکبیر صاحب تشریف لانے والے ہیں، آپ نے راہ اعتدال میں مسلسل جن کے دروس قرآن سے استفادہ کیا ہے وہ حضرت کے ہی افادات سے مرتب کیے گئے ہیں، فوزی تخلص فرماتے ہیں، جامعہ کے سب سے قدیم استاذ ہیں، بڑے ہی نرم مزاج، انہیں دیکھ کر اسلاف کی یاد آجاتی ہے، اگر آپ نے قدیم بزرگوں کو دیکھنے کا شرف حاصل نہ کیا ہو کہ ان کے عادات واطوار کیسے ہوتے تھے؟ انداز گفتگو کیا تھا؟ اپنے برابر والوں سے ، اپنے بڑوں سے اور اپنے چھوٹوں سے وہ کیسا سلوک روا رکھتے تھے؟ تو گھبرانے کی ضرورت نہیں! شیخ التفسیر حافظ عبدالکبیر صاحب کی زیارت کر لیں ، ان شاء اللہ آپ کی دیرینہ آرزو پوری ہوا جائے گی۔
مولانا جب تفسیر بیضاوی پڑھاتے ہیں تو پیرانہ سالی اور ضعف کے باوجود آواز بلند سے بلند تر ہوتی چلی جاتی ہے، سالوں سے بیضاوی پڑھا رہے ہیں مگر آج بھی پڑھانے سے قبل مطالعے کو ضروری خیال کرتے ہیں، تفسیر بیضاوی کے ساتھ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی الفوز الکبیر بھی شامل درس ہے اور یہ کتاب بھی ہمیں مولانا ہی سے پڑھنے کا شرف حاصل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو قابل رشک صحت سے نوازا ہے، کڑاکے کی سردی ہو یا سخت دھوپ، گلے میں رومال ڈالے مولانا اپنے وقت پر پڑھانے کے لیے آپ کو تیار ملیں گے، ایسے وقت کی پابندی کرنے والے متقی اور پرہیزگار اساتذہ آپ کو شاذ ونادر ہی ملیں گے!

2جامعہ دارالسلام کا ایک دن

بہرکیف! اس خوبصورت عمارت کا نام کاکا عمر لائبریری ہے، دائیں بائیں سوکھے ہوئے درخت ہیں، بجلی کا ایک ٹوٹا ہوا کھمبا ہے جو یقیناًکبھی واقعی بے حد خوبصورت ودیدہ زیب رہا ہوگا، اب میں نے لائبریری میں داخل ہونے کے لیے اپنی چپل نکال کر دائیں طرف رکھ دی، لائبریری میں کل چار بڑے کمرے ہیں جوکتابوں سے بھرے ہوئے ہیں، قرآن وحدیث، علوم قرآن اور علوم حدیث کی کتابوں کا ذخیرہ سب سے بڑاہے، اب ان کتابوں کو دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اس دور میں جب وسائل نہ ہونے کے برابر تھے ، کاکا ابراہیم نے کتابوں کے جمع کرنے کے سلسلے میں کیسی محنت، مشقت، جد وجہد کی ہوگی۔ ان کتابوں کو دیکھ کر قائل ہونا پڑتا ہے کہ یقیناًکاکا ابراہیم علم اور اہل علم سے محبت کرنے والے تھے، میں علوم اسلامیہ سے متعلق کتابوں کو بہت کم ہاتھ لگاتا تھا، الا یہ کہ میری کوئی تقریر ہوتی ، تیاری کے لیے مجھے کوئی موضوع دیا جاتا یا مجھے مقالہ لکھنا ہوتا تو میں علوم قرآن، علوم حدیث کے شعبے میں نظر آتا، ورنہ میں بہت کم اس شعبے میں داخل ہوتا تھا۔
ادب کے شعبے میں کاوش بدری مرحوم سے حاصل کی ہوئی کتابوں کی تعداد بکثرت تھی، سچ یہ ہے کہ ان کی کتابوں سے سب سے زیادہ میں نے استفادہ کی اہے، میں نے اس لائبریری میں جوشؔ کی ’’یادوں کی بارات‘‘ پڑھی ہے، بہت ڈوب کر پڑھی ہے، اس کتاب کو ختم کرنے کے لیے مجھے غالباً تین دن کا عرصہ لگا تھا، آپا حمیدہ اختر حسین رائے پوری کی ’’ہمسفر‘‘ بھی یہی پڑھنے کا اتفاق ہوا، آپا کے اسلوب، انداز بیان کے سحر میں کئی دن کھویا رہا، رفعت سروش کی ’’اور بستی نہیں دل ہے‘‘ پڑھنے کی سعادت بھی مجھے عمر لائبریری میں حاصل ہوئی، ایس۔ فضلیت کا ناول ’’محلوں کے اندھیرے‘‘ کا مطالعہ بھی میں نے اسی ہال میں کیا ہے، ایسا خوبصورت ناول میں نے آج تک نہیں پڑھا، زبان کے تخلیقی استعمال کے ساتھ ساتھ اسلوب کی ندرت اپنی طرف بری طرح کھینچ رہی تھی، پھر میں کیسے اس کے سحر میں گرفتار نہ ہوتا، ادا جعفری جو پاکستان کی سب سے معمر اور محترم شاعرہ ہیں، ان کی خودنوشت ’’جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ کئی دن کے مسلسل مطالعے کے بعد ختم کی، اس سے اتنا متأثر ہوا کہ ایک مضمون اس کے حوالے سے لکھا اور کئی رسائل کو بھیجا غالباً پرواز ادب میں شائع ہوا۔
اور ایسی بہت سی کتابیں میں نے عمر لائبریری سے پڑھی ہیں، مطالعے کا یہ موقعہ فراہم کرنا یقیناًعمر لائبریری کا مجھ احسان ہے جسے میں تاحیات بھلا نہیں سکتا، مصحف کے قدیم شماروں کے مطالعے سے آنکھوں کی روشنی میں اضافہ ہوا، عامر عثمانی کے تجلی کے دیدار سے دل کو سرور ملا۔
سال کے شروع میں لائبریری خوب بھری بھری رہتی، طلباء خوب خوب مطالعہ کرتے، مگر جیسے جیسے وقت گذرتا جاتا کتب خانے میں بچوں کی تعداد میں کمی آتی رہتی، یہاں تک کہ سال کے آخر میں ایک یا دو طالب محو مطالعہ رہتے۔
اب لائبریری سے واپس ہوتے ہیں، غالباً 7:50کا عمل ہے، میں بستر میں دبک جاتا ہوں، بیس منٹ گہری نیند لے کر اٹھتا ہوں، ہمارے ساتھی ناشتے سے فارغ ہو چکے ہیں، سب کلاس جانے کی تیاری میں مصروف ہیں، بعض صابون لے کر حمام کی طرف جارہے ہیں، کوئی حمام سے واپس آ رہا ہے، کوئی تولیے سے اپنا چہرہ پونچھ رہا ہے، کوئی الماری سے اپنی کتابیں نکال رہا ہے، آٹھ بج کر دس منٹ پر ابھی کلاس کی گھنٹی بجی، میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا، منھ پر پانی کے چھینٹے مارے اور کتابیں لے کر تیزی سے کلاس کی طرف چلنے لگا، سانس پھولنے لگی، پسینہ آنے لگا، مگر ان سب کی پرواہ کیے بغیر ہم کلاس کی طرف جا رہے ہیں، کیونکہ دیر ہونے کی صورت میں جامعہ کے نائب ناظم مولانا اطہر حسین عمری مدنی کی قہرآلود نگاہوں کا نشانہ بننا پڑے گا، جو ہمیں مطلق پسند نہیں۔
یہ آٹھویں جماعت ہے، دوسرے لفظوں میں آپ اسے فضیلت سال آخر بھی کہہ سکتے ہیں، کلیہ اور ثانویہ کی سب سے بڑی جماعت، آٹھویں جماعت کے طلباء بہت ہی وقار اور سکون کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں، استاد آیا چاہتے ہیں، پہلی گھنٹی صحیح بخاری کی ہے، جسے پڑھانے کے لیے دکتور عبداللہ جولم عمری مدنی تشریف لائے، جو تقریبا ۲۴ سال سے حدیث پڑھا رہے ہیں، احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ آپ کے دماغ میں محفوظ ہے، اللہ تعانیٰ نے آپ کو بے مثال حافظہ عطا کیا ہے، ہر ہر مسئلے کے لیے احادیث کے متون کا حوالہ اگر کسی سے سننا چاہتے ہیں تو وہ دکتور عبداللہ جولم عمری مدنی ہیں، جو آج کل جامعہ دارالسلام کے ناظم ہیں۔
ہماری جماعت کے طلباء کے نام بھی سن لیجیے، یہ رانی بنور کے شکیب عالم ہیں، یہ ناصرالدین محمد ہیں جو شاہ آباد سے تعلق رکھتے ہیں، یہ بالے ہنور کے عارف الحق ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی آوازدی ہے،اپنے کاروبار کے سلسلے میں آج کل بہت مصروف رہتے ہیں ،حتی کہ دوستوں کے فون بھی ریسیو نہیں کرتے، یہ عرفان اللہ ہیں جو وقت کے پابند ہیں، اللہ کرے یہ عادت ان میں تاعمر باقی رہے۔یہ تلگو زبان کے ماہراورداعی حمادہیں ،یہ سید امین ہیں جن کا قد اور خط ممتاز ہے، یہ سیدعرفات حسین ہیں جو ہماری جماعت کے سب سے کم عمر ساتھی ہیں جو (Pepsi) کے نام سے جانے جاتے ہیں اس کے پس منظر ایک واقعہ ہے جو میں بیان نہیں کروں گا۔ یہ تمام وجے واڑہ سے تعلق رکھتے ہیں، یہ قراء کی سرزمین پرنام بٹ سے تعلق رکھنے والے بہترین قاری اورابن قاری ابوبکر امین الرحمن ہیں جو اپنی آواز کی حفاظت بڑے جتن سے کرتے ہیں، یہ جوبالکل انگریز معلوم ہو رہے ہیں نا! یہ جاوید اختر اعظمی ہیں، جو شاعر بھی ہیں، ادیب بھی ، ناقد بھی، شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف رسالوں کے لیے مسلسل لکھتے رہتے ہیں، عاجزی انکساری کا مجسمہ ہیں، یہ جو ان کے دائیں طرف بیٹھے ہوئے ہیں وہ افضال احمد اعظمی ہیں، یہ بھی نور میں کافی شائع ہوتے رہتے ہیں، یہ دبلے پتلے منحنی سے جو صاحب نظر آ رہے ہیں وہ شاہنواز اختر ہیں، اللہ نے اچھی آواز سے نوازا ہے ، پڑھنے میں بھی اچھے ہیں، مقالات بھی دلچسپی سے لکھتے ہیں، یہ جو گھبرائے گھبرائے سے نظر آرہے ہیں، وہ کرنول کے یوسف ہیں ، صوت الاسلام اور صراط مستقیم میں ان کے مضامین شائع ہو چکے ہیں، یہ پستہ قد انسان ریاض پاشا ہیں جو بڑی محنت سے تقریر کرتے ہیں ، کرنول سے تعلق رکھتے ہیں، یہ کیرلا کے عبد الرحیم ہیں جواپنی خوبصورت آواز کا جادو ہر جلسے میں جگاتے رہتے ہیں، نظموں کو نئے نئے طرز اور لحن میں پڑھنا ان کی خصوصیت ہے۔ یہ گیسودراز صاحب کسی مزار کے مجاور نہیں بلکہ ہمارے ہی ایک ساتھی مظہر ہیں ، ان کا تعلق پونا سے ہے،۔یہ بنگال کے رہنے والے مظہرالاسلام اور عبد السلام ہیں۔ یہ آسام کے بلال الدین ہیں جو امتحانوں میں بڑی محنت کرتے ہیں۔ یہ شرمیلی طبیعت کے مالک مصدق حسین آمبوری ہیں۔ یہ جمیل ہیں جو آمبور ہی سے متعلق ہیں، ہمیشہ مسکراتے رہتے ہیں۔ یہ لمبے سے جو صاحب نظر آرہے ہیں وہ ادونی کے آر۔محمد یعقوب ہیں۔ یہ اڑیسہ کے جریر ہیں۔یہ بھیونڈی کے ارشاد ہیں۔یہ صحتمند اونچے لمبے قد والے صاحب آدونی کے ارشاد ہیں،بڑے مخلص شخص ہیں ،ہر شخص سے بہت جلد گھل مل جانا ان کی فطرت ہے۔ یہ حیدرآباد کے احمد بن محمد ہیں۔ یہ پستہ قد حضرت جی۔عبدالرحمن ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حسن تحریر وحسن صوت سے نوازا ہے، ہمارے بہنوئی محمد موسیٰ جامعی کے شہر یمگنور سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ گڈی واڑہ کے فاروق ہیں جو تلگو تحریر کا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ یہ راجمندری کے شاکر ہیں۔(چند مہینوں قبل آپ کا انتقال اسکین کینسر کی وجہ سے ہوا،ہم نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ شخص ہم سے اتنی جلد جدا ہوجائے گا،ہماری جماعت میں دو شاکر تھے ،ایک مدن پلی کے اور دوسرے راجمندی کے ،مدن پلی کے شاکر کا انتقال جماعت چہارم میں ٹی .بی کے عارضے کے سبب ہوا ،اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ دونوں کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے !آمین!۔یہ سیونی کے احسان خان ہیں جومطالعے کا ذوق رکھتے ہیں ۔ یہ رائیدرگ کے شعیب ہیں، چند سال قبل ان کی آواز بہت اچھی تھی ، عامر عثمانی کی غزلیں بڑی خوبصورت آواز میں پڑھتے تھے۔ یہ سیونی کے شاہد ہیں۔ یہ جو لنگی شرٹ پہنے ہوئے اپنی دنیا میں مست رہنے والے صاحب ہیں یہ ظہیر دانشؔ ہیں، جو کڈپہ کے رہنے والے ہیں۔ یہ پستہ قد جناب صدیق الاسلام ہیں ، جو بنگال کے ہیں۔ یہ گورے چٹے صاحب ہریانہ کے عبیداللہ ہیں،ذرا سے شرارتی ہیں۔ یہ نریم پیٹ کے احمد اللہ ہیں جوہنس مکھ طبیعت کے مالک ہیں اور تقریر بھی اچھی کرلیتے ہیں۔ یہ حیدرآباد کے عبد القیوم ہیں جو بھولے بھالے ہیں،آج کل کمپیوٹر ،انٹرنیٹ اور اس کے متعلقات میں مہارت حاصل کرچکے ہیں۔یہ بھی حیدرآباد ہی کے عبد الرافع ہیں اچھی آواز قدرت نے آپ کو عطا کی ہے ۔یہ ونی پنٹا (ضلع کڈپہ کا ایک قریہ)کے سعادت اللہ ہیں ،ان کے والد عمری ہیں دونوں قرآن کریم کو بہت اچھی آواز میں پڑھنے میں زبردست درک رکھتے ہیں ،خلوص ومودت کے رشتوں کو نبھانا کوئی ان سے سیکھے۔

1جامعہ دارالسلام کا ایک دن


 1جامعہ دارالسلام کا ایک دن

(ایک حقیقت، ایک تخیل)


ٹھک ٹھک ٹھک۔۔۔ نقیب صاحب دروازے کو کھٹکھٹا رہے ہیں، ان کی آواز گونج رہی ہے ’’اٹھ جاؤ‘‘ ’’اٹھ جاؤ‘‘ ، اسی دوران اذان کی سریلی اور میٹھی آواز سماعت سے مصافحہ کرتی ہے، الصلوٰۃ خیر من النوم کی صدا جب کانوں سے ٹکراتی ہے تو رہی سہی نیند بھاگ جاتی ہے، میں اپنا بستر چھوڑ دیتا ہوں، کمرے کے ساتھ یعقوب، ناصرالدین، احمد اللہ، افضال اور ہدایت اللہ بھی نیند کی وادیوں سے ابھی ابھی لوٹے ہیں، جلدی سے برش لے کر وہ حمام کا رخ کرتے ہیں، ضرورت سے فارغ ہو کر مسجد کی جانب بڑھتے ہیں، اتنے میں ہمارے وارڈن بہت ہی محترم انسان ابو الفضل صاحب 
کمروں کا معائنہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں، اگر کوئی سوتا ہوا مل جاتا ہے تو اس کا نام لے کر آگاہ کرتے ہیں پھر آگے بڑھ جاتے ہیں۔

Sunday, April 21, 2013

میں نے اقبال کو مرتے دیکھا


میں نے اقبال کو مرتے دیکھا
سر محمد شفیع
علامہ اقبال کی موت 21اپریل 1938ء کو صبح کے کوئی پانچ بجے واقع ہوئی، اور مجھے اس بات کا شرف حاصل ہے کہ میں اُن تین اشخاص میں سے ایک ہوں جو علامہ کی موت کی شہادت دے سکتے ہیں۔ علامہ مرحوم کے انتقال کے وقت میرے سوا اور دو اشخاص بھی تھے جن میں سے ایک تو علی بخش تھا اور دوسرے دیوان علی تھے۔ علی بخش علامہ مرحوم کا ایک وفادار نوکر تھا جو کوئی چالیس برس سے علامہ کے ہاں ملازم تھا۔
علامہ اقبال کی موت سے کوئی چوبیس گھنٹے پیشتر ہی تمام گھر والے اور عزیز و اقارب پریشان تھے، ان کے خاندان کا ہر فرد اس غم میں برابر کا شریک تھا۔ علامہ اقبال کا آخری دن اُن کی کئی ایک خصوصیات کا اظہار بھی کررہا تھا، گو کہ بعض وقت وہ شدت ِدرد سے بیتاب ہوجاتے تھے تاہم ان کے چہرے پر خوشی اور مسرت کی جھلک بھی دکھائی دیتی تھی، وہ موت کی آخری گھڑی تک باصحت تھے۔
ان کی موت ایک ایسی رات کو واقع ہوئی جس میں وہ بہت کم سوئے۔ موت سے ایک دن قبل دن کے کوئی ایک بجے علامہ اقبال نے کہا کہ اُن کے پیٹ میں شدید درد ہورہا ہے۔ میں نے انہیں ایک خوراک دوا پیش کی جس کو ان کے پرائیوٹ ڈاکٹر نے تجویز کیا تھا۔ یہ نیند آور دوا تھی، لیکن انہوں نے اسے پینے سے انکار کردیا اور کہا:’’میں اس کی ایک خوراک بھی نہیں پیوں گا، اس میں افیون ہے اور میں نے تہیہ کرلیا ہے کہ مرتے وقت بے ہوش نہیں رہوں گا۔ پانچ بجنے میں ابھی کوئی دس منٹ باقی تھے کہ علامہ اقبال نے شربت کا ایک گلاس پینے کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے گلاس میں تھوڑا سا شربت انڈیلا اور اسے اُن کے ہاتھوں میں دے دیا۔ انہوں نے کہا: ’’لیکن یہ تمام میں کیونکر پی سکتا ہوں؟‘‘ اور پھر وہ خود بولے: ’’خیر میں اسے پی لوں گا۔‘‘ اور پھر وہ ایک ہی سانس میں سارا گلاس پی گئے۔ اُس کے چند ہی لمحے بعد علامہ کے سینے میں شدت کا درد ہونے لگا اور انہوں نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ دیا اور آہستہ سے ’’ہائے‘‘ کہا۔ علی بخش فوراً اٹھ بیٹھا اور سیدھا علامہ کے بستر کے قریب جاپہنچا اور انہیں اپنے ہاتھوں سے سہارا دیا، تب علامہ اقبال نے کہا: ’’مجھے یوں محسوس ہورہا ہے جیسے کوئی میرے دل میں کوئی چیز چبھو رہا ہے۔‘‘ اور اس کے بعد انہوں نے اپنی بند آنکھیں کھول دیں اور چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’اللہ‘‘۔ اور یہی وہ آخری لفظ ہے جو اُن کی موت سے قبل اُن کے منہ سے نکلا۔ علی بخش فوراً علامہ سے لپٹ گیا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ علامہ اب بستر پر دراز ہوچکے تھے، جیسے ہی اُن کا سر تکیہ سے لگا علی بخش نے فوراً آپ کا چہرہ قبلہ کی طرف پھیر دیا اور اس کے چند ہی لمحوں بعد شاعر کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔
اپنی موت سے ایک دن قبل علامہ اقبال روزمرہ کی طرح جلد اپنے بستر سے اٹھ بیٹھے اور پھر ایک پیالی چائے پی۔ اس عرصہ میں چائے پیتے رہے اور میں انہیں اخبار پڑھ کر سناتا رہا۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد حجام آیا اور آپ کی داڑھی بنائی۔ اس وقت علامہ میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں دکھائی دے رہی تھی سوائے اس کے کہ میں نے آپ کی آنکھوں میں چند لال لال ڈورے دیکھے۔ پھر اقبال اپنے دفتر چلے گئے جو کہ ملاقاتی کمرے سے ملحق تھا اور وہاں جاکر بستر پر لیٹ گئے۔ آپ تکیے کے سہارے بہت دیر بستر پر لیٹے رہے۔ آپ کو کھانسی نہایت شدت کی ہونے لگی۔ بعض دفعہ تو اتنی شدت سے ہوتی کہ آپ کا چہرہ سرخ ہوجاتا اور آپ بالکل بے بس و لاچار دکھائی دیتے۔
آپ کی رحلت سے ایک دن قبل ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے علامہ اقبال بہت مسرور اور خوش دکھائی پڑتے تھے۔ ہوا یہ کہ آپ کا پرانا ساتھی اور ہم جماعت ’’بیسرنؔ‘‘ آپ سے ملنے آیا۔ جوں ہی وہ کمرے میں داخل ہوا علامہ نے اٹھنے کی کوشش کی اور اپنے پرانے ساتھی کو خوش آمدید کہا۔ سب سے پہلے بیسرنؔ نے علامہ کو وہ دن یاد دلائے جب کہ وہ اور علامہ ایک ساتھ میونخ یونیورسٹی میں تعلیم پایا کرتے تھے۔ پرانے واقعات کو یاد کرکے علامہ بہت خوش ہوئے اور ان کا چہرہ دمک اٹھا۔ علامہ اقبال نے اپنے پرانے ساتھی پر سوالات کی بوچھاڑ شروع کردی۔ انہوں نے لیڈی بیسرنؔ، بیسرن کی بیٹی اور اپنے کئی دیگر ساتھیوں کے متعلق حالات دریافت کیے۔ اس کے بعد دونوں میں خاصی دلچسپ گفتگو ہوتی رہی۔ ان کی بات چیت سے میں نے اندازہ لگایا کہ بیسرن افغانستان جانا چاہتا تھا۔ اقبال جنہیں کابل کے متعلق بہت کچھ معلوم تھا، اس کے دلفریب مناظر، میوے، پھل اور موسم کے متعلق باتیں کرنے لگے۔ بیسرن نے آپ سے کابل کے مشہور مقامات کے متعلق بھی بات چیت کی۔ وہ جنہیں علامہ سے گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتی تھیں، اور وہ باتیں کرتے ہوئے تھکتے نہیں تھے۔
اسی موقع پر علامہ نے بیسرنؔ سے جرمن فلسفہ سے متعلق بھی بحث چھیڑ دی اور اُس کے بعد وہ دونوں سیاسیات پر باتیں کرنے لگے۔ بیسرنؔ نہیں چاہتا تھاکہ ایک ایسے وقت وہ اپنی گفتگو کو طول دے جبکہ علامہ کی صحت ٹھیک نہیں تھی۔ اس نے کہا: ’’شاید میری اس غیر متوقع مداخلت سے آپ کی صحت پر برا اثر پڑرہا ہوگا۔‘‘
اقبال نے فوراً جواب دیا: ’’یہ بالکل ہی دوسرا راستہ ہے میرے دوست۔ آپ کی ہر سانس میرے لیے مرہم کا کام کررہی ہے۔‘‘
یہ دلچسپ گفتگو کوئی ڈیڑھ گھنٹے بعد اختتام کو پہنچی اور بیسرنؔ چلا گیا۔
اسی شام کا ایک قصہ بانو سے متعلق ہے۔ بانو علامہ اقبال کی چھوٹی لڑکی کا نام ہے۔ وہ تیز تیز دوڑتی ہوئی علامہ کے کمرے میں داخل ہوئی اور خاموشی سے آپ کے پہلو میں بیٹھ گئی۔ علامہ کی نظر کافی کمزور ہوچکی تھی۔ آپ نے بچی کے سر پر ہاتھ رکھا اور پیار سے کہا: ’’کون آیا ہے، شاید بانو ہوگی۔‘‘
ایک اور موقع پر جیسے ہی بانو کمرے سے باہر نکلی آپ نے فرمایا: ’’وہ بخوبی جانتی ہے کہ اس کے باپ کی موت کی گھڑی قریب آچکی ہے۔‘‘
بانو حسب معمول اپنے باپ سے ملنے کے لیے تین دفعہ آیا کرتی تھی۔ ایک تو مدرسہ جاتے وقت، دوسرے واپسی کے وقت، تیسرے سونے سے قبل۔ اقبال، بانو سے اکثر کھانے کے متعلق دریافت کیا کرتے تھے: ’’تم نے آج کیا کھانا کھایا اور کتنا کھایا۔‘‘
’’اتنا کھایا۔‘‘ بانو معصومیت سے اپنے ہاتھ کے اشارے سے جواب دیتی اور شاعر مسکرانے لگتے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ چھوٹے بچوں سے صرف کھانے پینے کے بارے میں پوچھنا چاہیے، اور یہی وہ آسان طریقہ ہے جس سے بچے کا دل موہ لیا جاسکتا ہے۔‘‘
موت سے ایک دن قبل دوپہر کے وقت بانو آپ سے بغل گیر ہوگئیں۔ نہ جانے اُس دن اقبال کو کیا ہوگیا تھا، وہ رو رہے تھے اور بانو حیرت سے آپ کا منہ تک رہی تھیں۔
اُس وقت سورج غروب ہورہا تھا اور اس کی ارغوانی شعاعیں علامہ مرحوم کے مکان کو چھوتی ہوئی آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھیں۔ علامہ کا بستر اُن کے دیوان خانے میں بچھا دیا گیا۔ اسی موقع پر ایک تانگہ راستے سے گزرا۔ تانگے والا ایک غمگین پنجابی گیت الاپ رہا تھا۔ شاعر نے جب اس کی درد بھری آواز سنی تو ایک ’’سرد آہ‘‘ بھری اور چھت کو گھورنے لگے۔
اس واقعہ کے کچھ ہی دیر بعد فاطمہ بیگم اقبال سے ملنے آئیں۔ فاطمہ ایک مقامی اناث کالج کی پرنسپل تھیں۔ شاعر نے آپ سے لڑکیوں کے متعلق مذہبی مسائل پر بات چیت کی، آپ نے کہا کہ مسلمان لڑکیوں کو سختی سے اسلام کی تعلیم دینا چاہیے۔
اس وقت آپ کے سارے دوست احباب اور رشتہ دار جمع ہوچکے تھے۔ وہ تمام جانتے تھے کہ اب اقبال کا وقت قریب آچکا ہے۔ وہ ایک دوسرے سے دبی آواز میں پوچھتے: ’’کیا آج رات اقبال زندہ رہ سکیں گے؟‘‘
اور یہی ایک سوال تھا جو ہر ایک دماغ کو پریشان کررہا تھا۔ اسی لمحہ جاوید اندر آیا۔ جاویدؔ، اقبال کی تیسری بیوی کا پہلا بیٹا ہے۔ جیسے ہی وہ کمرے میں آیا، اقبال نے کہا: ’’یہ کون آیا ہے؟‘‘
اور جب انہیں بتایا گیا کہ جاوید آیا ہے تو آپ نے جاوید کو بیٹھنے کے لیے کہا اور پھر فرمانے لگے: ’’جاوید کے معنی فارسی میں غیر فانی کے ہیں۔‘‘
محمد حسین کو جو آپ کے ایک قریبی دوست تھے، مخاطب کرتے ہوئے آپ نے کہا: ’’جاوید کے پیدا ہونے کے تھوڑے ہی دنوں بعد میں ’’مجدد شاہ‘‘ کے مقبرے پر جو سرہند میں واقع ہے، حاضر ہوا تھا جہاں میں نے خدا سے دعا فرمائی تھی کہ وہ نومولود کو زمانے کی خراب باتوں کی ناپاکی سے پاک کردے۔‘‘ واضح رہے کہ مجدد شاہؒ عہدِ جہانگیر کے ایک مشہور ولی اور ایک مشہور شاعر گزرے ہیں۔
اُس وقت بہت شدت کی گرمی پڑ رہی تھی اور شاعر نے خواہش کی کہ ان کا بستر صحن میں منتقل کردیا جائے۔ یہاں پر تین مشہور ڈاکٹروں نے آپ کا معائنہ کیا۔ وہ جاتے وقت وعدہ کرگئے کہ وہ کل دوبارہ انجکشن دینے آئیں گے۔ شاعر نے ڈاکٹروں سے کہا کہ وہ بلا کھٹکے ان کی صحت سے متعلق حالات کہہ دیں کیونکہ وہ کسی چیز سے نہیں ڈرتے۔ رات کے کوئی بارہ بجے ہوں گے کہ شاعر کی بے چینی میں اضافہ ہوگیا اور انہیں دوبارہ اُن کے دیوان خانے میں لایا گیا۔ علی بخش آپ کے ہمراہ تھا، اس سے آپ کی یہ حالت نہ دیکھی گئی اور وہ بے اختیار رونے لگا۔ جب اقبال کی نظر اپنے وفادار نوکر کے بہتے ہوئے آنسوئوں پر پڑی تو آپ نے فرمایا:
’’علی بخش! مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب ہماری 40سال کی دوستی عن قریب ختم ہونے والی ہے۔‘‘
تقریباً آدھی رات بیت چکی تھی اور اقبال نیند نہ آنے کی وجہ سے بہت بے چین ہوگئے تھے۔ آپ کے دوست احباب اُس وقت بھی آپ کے قریب تھے۔ اُن میں سے ایک نے یہ تجویز پیش کی کہ آپ نیند آور دوا کی ایک خوراک بھی پی لیں تو رات کا باقی حصہ نہایت اطمینان سے گزر جائے گا۔ اس دفعہ بھی انہوں نے اس دوا کو پینے سے انکار کردیا۔ اُس کے بعد دوستوں سے آپ نے اجازت چاہی اور آپ سونے کے لیے چلے گئے۔ آپ کو غیر متوقع طور پر جلدی نیند آگئی، لیکن ابھی گھنٹہ بھر بھی سونے نہ پائے تھے کہ پھر سے بیدار ہوگئے اور کہا کہ پیٹ میں شدت کا درد ہورہا ہے۔
عبدالقیوم نے جو آپ کے ایک قریبی رشتے دار تھے، پھر سے آپ سے درخواست کی کہ آپ نیند آور دوا پی لیں، مگر آپ برابر انکار کرتے رہے۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا اور شاعر کی بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہوتا گیا۔ شاید یہ آخری رات تھی جس میں انہوں نے حقہ نہیں پیا۔ اس موقع پر اب ہم صرف تین اشخاص باقی رہ گئے تھے: علیؔ بخش، دیوان علی اور میں۔ وہ منظر بڑا ہی جگرسوز اور دلخراش تھا جبکہ شاعر نے ہم سے دردبھری آواز میں کہا کہ ہم اُن کے نزدیک بیٹھ جائیں۔ اور جب ہم میں سے کوئی اونگھنے لگتا تو وہ کہتے: ’’تمہیں صرف آج رات ہی جاگنے کی تکلیف گوارا کرنی ہوگی؟‘‘
اس کے بعد انہوں نے دیوان علی سے کہا کہ وہ انہیں ایک پنجابی گیت سنائیں۔ دیوان علی خوشی سے گانے کے لیے راضی ہوگئے۔ اب شاعر کی موت کو صرف چار گھنٹے باقی تھے۔ لیکن اب بھی اُن کے ہوش و حواس قائم تھے۔ دیوان علی نے پنجاب کے مشہور شاعر ’’بلھے شاہ‘‘ کے چند گیت الاپے۔ ان گیتوں سے شاعر بہت متاثر دکھائی دیتے تھے۔ اور بالآخر میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
رات کے کوئی تین بجے ان کی حالت انتہائی خراب ہوگئی اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ حکیم محمد حسین قریشی کو بلا لائوں جو کہ لاہور کے ایک نامی گرامی طبیب تھے۔ ان کا مکان کوئی ڈیڑھ میل کے فاصلے پر تھا۔ میں سائیکل پر نہایت تیز رفتاری کے ساتھ ان کے مکان پر پہنچا اور اپنی پوری قوت سے انہیں آواز دی لیکن وہ اپنے بنگلہ کی تیسری منزل پر سورہے تھے۔ میری آواز بے کار ثابت ہوئی اور مجھے مایوس واپس لوٹنا پڑا۔ اقبال نے جب مجھے بغیر حکیم کے دیکھا تو کہا: ’’اب کیا کیا جائے؟‘‘
تھوڑے ہی وقفہ کے بعد شاعر نے یوں محسوس کیا کہ درد میں کمی ہورہی ہے اور اس طرح انہیں سکون مل رہا ہے، لیکن آہ… جلتی ہوئی چنگاری کی یہ آخری چمک تھی۔
اس وقت صبح کے کوئی پانچ بجا چاہتے تھے کہ ان کے درد میں اچانک شدت پیدا ہوگئی لیکن انہوں نے صبرو استقلال سے اُسے برداشت کیا۔
بجائے آہ و فغاں کرنے کے انہوں نے ہم سے کہا کہ ان کا بستر ان کے دارالمطالعہ میں منتقل کردیا جائے جہاں انہوں نے سالہا سال فلسفہ اور ادب پر غور و فکر کرتے ہوئے گزارے تھے۔ یہ اُن کا پسندیدہ کمرہ تھا۔ وہ ’’اللہ‘‘ کہتے ہوئے بستر پر لیٹ گئے اور پھر شاعر مشرق موت کی آغوش میں ہمیشہ ہمیشہ کی نیند سوگیا۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ اپنی موت سے کیونکہ ایک ہفتہ قبل اقبالؔ نے یہ تحریر اپنے بھائی کے ہاں روانہ کی تھی جو آپ کی بیماری سے سخت پریشان تھے:
’’مجھے اجازت دیجیے کہ میں ایک سچے مسلمان کی خصوصیت آپ پر ظاہر کردوں، جب وہ مرے تو مسکراتے ہوئے چہرے سے موت کو خوش آمدید کہے۔‘‘
اور میں نے اچھی طرح اندازہ لگایا کہ اقبالؔ نے بسترِ مرگ پر اپنے اس کہے پر پوری طرح عمل کیا۔
جب اُن کی آخری گھڑی آن پہنچی تو میں نے دیکھا کہ اُن کے لبوں پر ایک مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
--