Wednesday, April 24, 2013

2جامعہ دارالسلام کا ایک دن

بہرکیف! اس خوبصورت عمارت کا نام کاکا عمر لائبریری ہے، دائیں بائیں سوکھے ہوئے درخت ہیں، بجلی کا ایک ٹوٹا ہوا کھمبا ہے جو یقیناًکبھی واقعی بے حد خوبصورت ودیدہ زیب رہا ہوگا، اب میں نے لائبریری میں داخل ہونے کے لیے اپنی چپل نکال کر دائیں طرف رکھ دی، لائبریری میں کل چار بڑے کمرے ہیں جوکتابوں سے بھرے ہوئے ہیں، قرآن وحدیث، علوم قرآن اور علوم حدیث کی کتابوں کا ذخیرہ سب سے بڑاہے، اب ان کتابوں کو دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اس دور میں جب وسائل نہ ہونے کے برابر تھے ، کاکا ابراہیم نے کتابوں کے جمع کرنے کے سلسلے میں کیسی محنت، مشقت، جد وجہد کی ہوگی۔ ان کتابوں کو دیکھ کر قائل ہونا پڑتا ہے کہ یقیناًکاکا ابراہیم علم اور اہل علم سے محبت کرنے والے تھے، میں علوم اسلامیہ سے متعلق کتابوں کو بہت کم ہاتھ لگاتا تھا، الا یہ کہ میری کوئی تقریر ہوتی ، تیاری کے لیے مجھے کوئی موضوع دیا جاتا یا مجھے مقالہ لکھنا ہوتا تو میں علوم قرآن، علوم حدیث کے شعبے میں نظر آتا، ورنہ میں بہت کم اس شعبے میں داخل ہوتا تھا۔
ادب کے شعبے میں کاوش بدری مرحوم سے حاصل کی ہوئی کتابوں کی تعداد بکثرت تھی، سچ یہ ہے کہ ان کی کتابوں سے سب سے زیادہ میں نے استفادہ کی اہے، میں نے اس لائبریری میں جوشؔ کی ’’یادوں کی بارات‘‘ پڑھی ہے، بہت ڈوب کر پڑھی ہے، اس کتاب کو ختم کرنے کے لیے مجھے غالباً تین دن کا عرصہ لگا تھا، آپا حمیدہ اختر حسین رائے پوری کی ’’ہمسفر‘‘ بھی یہی پڑھنے کا اتفاق ہوا، آپا کے اسلوب، انداز بیان کے سحر میں کئی دن کھویا رہا، رفعت سروش کی ’’اور بستی نہیں دل ہے‘‘ پڑھنے کی سعادت بھی مجھے عمر لائبریری میں حاصل ہوئی، ایس۔ فضلیت کا ناول ’’محلوں کے اندھیرے‘‘ کا مطالعہ بھی میں نے اسی ہال میں کیا ہے، ایسا خوبصورت ناول میں نے آج تک نہیں پڑھا، زبان کے تخلیقی استعمال کے ساتھ ساتھ اسلوب کی ندرت اپنی طرف بری طرح کھینچ رہی تھی، پھر میں کیسے اس کے سحر میں گرفتار نہ ہوتا، ادا جعفری جو پاکستان کی سب سے معمر اور محترم شاعرہ ہیں، ان کی خودنوشت ’’جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ کئی دن کے مسلسل مطالعے کے بعد ختم کی، اس سے اتنا متأثر ہوا کہ ایک مضمون اس کے حوالے سے لکھا اور کئی رسائل کو بھیجا غالباً پرواز ادب میں شائع ہوا۔
اور ایسی بہت سی کتابیں میں نے عمر لائبریری سے پڑھی ہیں، مطالعے کا یہ موقعہ فراہم کرنا یقیناًعمر لائبریری کا مجھ احسان ہے جسے میں تاحیات بھلا نہیں سکتا، مصحف کے قدیم شماروں کے مطالعے سے آنکھوں کی روشنی میں اضافہ ہوا، عامر عثمانی کے تجلی کے دیدار سے دل کو سرور ملا۔
سال کے شروع میں لائبریری خوب بھری بھری رہتی، طلباء خوب خوب مطالعہ کرتے، مگر جیسے جیسے وقت گذرتا جاتا کتب خانے میں بچوں کی تعداد میں کمی آتی رہتی، یہاں تک کہ سال کے آخر میں ایک یا دو طالب محو مطالعہ رہتے۔
اب لائبریری سے واپس ہوتے ہیں، غالباً 7:50کا عمل ہے، میں بستر میں دبک جاتا ہوں، بیس منٹ گہری نیند لے کر اٹھتا ہوں، ہمارے ساتھی ناشتے سے فارغ ہو چکے ہیں، سب کلاس جانے کی تیاری میں مصروف ہیں، بعض صابون لے کر حمام کی طرف جارہے ہیں، کوئی حمام سے واپس آ رہا ہے، کوئی تولیے سے اپنا چہرہ پونچھ رہا ہے، کوئی الماری سے اپنی کتابیں نکال رہا ہے، آٹھ بج کر دس منٹ پر ابھی کلاس کی گھنٹی بجی، میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا، منھ پر پانی کے چھینٹے مارے اور کتابیں لے کر تیزی سے کلاس کی طرف چلنے لگا، سانس پھولنے لگی، پسینہ آنے لگا، مگر ان سب کی پرواہ کیے بغیر ہم کلاس کی طرف جا رہے ہیں، کیونکہ دیر ہونے کی صورت میں جامعہ کے نائب ناظم مولانا اطہر حسین عمری مدنی کی قہرآلود نگاہوں کا نشانہ بننا پڑے گا، جو ہمیں مطلق پسند نہیں۔
یہ آٹھویں جماعت ہے، دوسرے لفظوں میں آپ اسے فضیلت سال آخر بھی کہہ سکتے ہیں، کلیہ اور ثانویہ کی سب سے بڑی جماعت، آٹھویں جماعت کے طلباء بہت ہی وقار اور سکون کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں، استاد آیا چاہتے ہیں، پہلی گھنٹی صحیح بخاری کی ہے، جسے پڑھانے کے لیے دکتور عبداللہ جولم عمری مدنی تشریف لائے، جو تقریبا ۲۴ سال سے حدیث پڑھا رہے ہیں، احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ آپ کے دماغ میں محفوظ ہے، اللہ تعانیٰ نے آپ کو بے مثال حافظہ عطا کیا ہے، ہر ہر مسئلے کے لیے احادیث کے متون کا حوالہ اگر کسی سے سننا چاہتے ہیں تو وہ دکتور عبداللہ جولم عمری مدنی ہیں، جو آج کل جامعہ دارالسلام کے ناظم ہیں۔
ہماری جماعت کے طلباء کے نام بھی سن لیجیے، یہ رانی بنور کے شکیب عالم ہیں، یہ ناصرالدین محمد ہیں جو شاہ آباد سے تعلق رکھتے ہیں، یہ بالے ہنور کے عارف الحق ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی آوازدی ہے،اپنے کاروبار کے سلسلے میں آج کل بہت مصروف رہتے ہیں ،حتی کہ دوستوں کے فون بھی ریسیو نہیں کرتے، یہ عرفان اللہ ہیں جو وقت کے پابند ہیں، اللہ کرے یہ عادت ان میں تاعمر باقی رہے۔یہ تلگو زبان کے ماہراورداعی حمادہیں ،یہ سید امین ہیں جن کا قد اور خط ممتاز ہے، یہ سیدعرفات حسین ہیں جو ہماری جماعت کے سب سے کم عمر ساتھی ہیں جو (Pepsi) کے نام سے جانے جاتے ہیں اس کے پس منظر ایک واقعہ ہے جو میں بیان نہیں کروں گا۔ یہ تمام وجے واڑہ سے تعلق رکھتے ہیں، یہ قراء کی سرزمین پرنام بٹ سے تعلق رکھنے والے بہترین قاری اورابن قاری ابوبکر امین الرحمن ہیں جو اپنی آواز کی حفاظت بڑے جتن سے کرتے ہیں، یہ جوبالکل انگریز معلوم ہو رہے ہیں نا! یہ جاوید اختر اعظمی ہیں، جو شاعر بھی ہیں، ادیب بھی ، ناقد بھی، شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف رسالوں کے لیے مسلسل لکھتے رہتے ہیں، عاجزی انکساری کا مجسمہ ہیں، یہ جو ان کے دائیں طرف بیٹھے ہوئے ہیں وہ افضال احمد اعظمی ہیں، یہ بھی نور میں کافی شائع ہوتے رہتے ہیں، یہ دبلے پتلے منحنی سے جو صاحب نظر آ رہے ہیں وہ شاہنواز اختر ہیں، اللہ نے اچھی آواز سے نوازا ہے ، پڑھنے میں بھی اچھے ہیں، مقالات بھی دلچسپی سے لکھتے ہیں، یہ جو گھبرائے گھبرائے سے نظر آرہے ہیں، وہ کرنول کے یوسف ہیں ، صوت الاسلام اور صراط مستقیم میں ان کے مضامین شائع ہو چکے ہیں، یہ پستہ قد انسان ریاض پاشا ہیں جو بڑی محنت سے تقریر کرتے ہیں ، کرنول سے تعلق رکھتے ہیں، یہ کیرلا کے عبد الرحیم ہیں جواپنی خوبصورت آواز کا جادو ہر جلسے میں جگاتے رہتے ہیں، نظموں کو نئے نئے طرز اور لحن میں پڑھنا ان کی خصوصیت ہے۔ یہ گیسودراز صاحب کسی مزار کے مجاور نہیں بلکہ ہمارے ہی ایک ساتھی مظہر ہیں ، ان کا تعلق پونا سے ہے،۔یہ بنگال کے رہنے والے مظہرالاسلام اور عبد السلام ہیں۔ یہ آسام کے بلال الدین ہیں جو امتحانوں میں بڑی محنت کرتے ہیں۔ یہ شرمیلی طبیعت کے مالک مصدق حسین آمبوری ہیں۔ یہ جمیل ہیں جو آمبور ہی سے متعلق ہیں، ہمیشہ مسکراتے رہتے ہیں۔ یہ لمبے سے جو صاحب نظر آرہے ہیں وہ ادونی کے آر۔محمد یعقوب ہیں۔ یہ اڑیسہ کے جریر ہیں۔یہ بھیونڈی کے ارشاد ہیں۔یہ صحتمند اونچے لمبے قد والے صاحب آدونی کے ارشاد ہیں،بڑے مخلص شخص ہیں ،ہر شخص سے بہت جلد گھل مل جانا ان کی فطرت ہے۔ یہ حیدرآباد کے احمد بن محمد ہیں۔ یہ پستہ قد حضرت جی۔عبدالرحمن ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حسن تحریر وحسن صوت سے نوازا ہے، ہمارے بہنوئی محمد موسیٰ جامعی کے شہر یمگنور سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ گڈی واڑہ کے فاروق ہیں جو تلگو تحریر کا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ یہ راجمندری کے شاکر ہیں۔(چند مہینوں قبل آپ کا انتقال اسکین کینسر کی وجہ سے ہوا،ہم نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ شخص ہم سے اتنی جلد جدا ہوجائے گا،ہماری جماعت میں دو شاکر تھے ،ایک مدن پلی کے اور دوسرے راجمندی کے ،مدن پلی کے شاکر کا انتقال جماعت چہارم میں ٹی .بی کے عارضے کے سبب ہوا ،اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ دونوں کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے !آمین!۔یہ سیونی کے احسان خان ہیں جومطالعے کا ذوق رکھتے ہیں ۔ یہ رائیدرگ کے شعیب ہیں، چند سال قبل ان کی آواز بہت اچھی تھی ، عامر عثمانی کی غزلیں بڑی خوبصورت آواز میں پڑھتے تھے۔ یہ سیونی کے شاہد ہیں۔ یہ جو لنگی شرٹ پہنے ہوئے اپنی دنیا میں مست رہنے والے صاحب ہیں یہ ظہیر دانشؔ ہیں، جو کڈپہ کے رہنے والے ہیں۔ یہ پستہ قد جناب صدیق الاسلام ہیں ، جو بنگال کے ہیں۔ یہ گورے چٹے صاحب ہریانہ کے عبیداللہ ہیں،ذرا سے شرارتی ہیں۔ یہ نریم پیٹ کے احمد اللہ ہیں جوہنس مکھ طبیعت کے مالک ہیں اور تقریر بھی اچھی کرلیتے ہیں۔ یہ حیدرآباد کے عبد القیوم ہیں جو بھولے بھالے ہیں،آج کل کمپیوٹر ،انٹرنیٹ اور اس کے متعلقات میں مہارت حاصل کرچکے ہیں۔یہ بھی حیدرآباد ہی کے عبد الرافع ہیں اچھی آواز قدرت نے آپ کو عطا کی ہے ۔یہ ونی پنٹا (ضلع کڈپہ کا ایک قریہ)کے سعادت اللہ ہیں ،ان کے والد عمری ہیں دونوں قرآن کریم کو بہت اچھی آواز میں پڑھنے میں زبردست درک رکھتے ہیں ،خلوص ومودت کے رشتوں کو نبھانا کوئی ان سے سیکھے۔

1جامعہ دارالسلام کا ایک دن


 1جامعہ دارالسلام کا ایک دن

(ایک حقیقت، ایک تخیل)


ٹھک ٹھک ٹھک۔۔۔ نقیب صاحب دروازے کو کھٹکھٹا رہے ہیں، ان کی آواز گونج رہی ہے ’’اٹھ جاؤ‘‘ ’’اٹھ جاؤ‘‘ ، اسی دوران اذان کی سریلی اور میٹھی آواز سماعت سے مصافحہ کرتی ہے، الصلوٰۃ خیر من النوم کی صدا جب کانوں سے ٹکراتی ہے تو رہی سہی نیند بھاگ جاتی ہے، میں اپنا بستر چھوڑ دیتا ہوں، کمرے کے ساتھ یعقوب، ناصرالدین، احمد اللہ، افضال اور ہدایت اللہ بھی نیند کی وادیوں سے ابھی ابھی لوٹے ہیں، جلدی سے برش لے کر وہ حمام کا رخ کرتے ہیں، ضرورت سے فارغ ہو کر مسجد کی جانب بڑھتے ہیں، اتنے میں ہمارے وارڈن بہت ہی محترم انسان ابو الفضل صاحب 
کمروں کا معائنہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں، اگر کوئی سوتا ہوا مل جاتا ہے تو اس کا نام لے کر آگاہ کرتے ہیں پھر آگے بڑھ جاتے ہیں۔

Sunday, April 21, 2013

میں نے اقبال کو مرتے دیکھا


میں نے اقبال کو مرتے دیکھا
سر محمد شفیع
علامہ اقبال کی موت 21اپریل 1938ء کو صبح کے کوئی پانچ بجے واقع ہوئی، اور مجھے اس بات کا شرف حاصل ہے کہ میں اُن تین اشخاص میں سے ایک ہوں جو علامہ کی موت کی شہادت دے سکتے ہیں۔ علامہ مرحوم کے انتقال کے وقت میرے سوا اور دو اشخاص بھی تھے جن میں سے ایک تو علی بخش تھا اور دوسرے دیوان علی تھے۔ علی بخش علامہ مرحوم کا ایک وفادار نوکر تھا جو کوئی چالیس برس سے علامہ کے ہاں ملازم تھا۔
علامہ اقبال کی موت سے کوئی چوبیس گھنٹے پیشتر ہی تمام گھر والے اور عزیز و اقارب پریشان تھے، ان کے خاندان کا ہر فرد اس غم میں برابر کا شریک تھا۔ علامہ اقبال کا آخری دن اُن کی کئی ایک خصوصیات کا اظہار بھی کررہا تھا، گو کہ بعض وقت وہ شدت ِدرد سے بیتاب ہوجاتے تھے تاہم ان کے چہرے پر خوشی اور مسرت کی جھلک بھی دکھائی دیتی تھی، وہ موت کی آخری گھڑی تک باصحت تھے۔
ان کی موت ایک ایسی رات کو واقع ہوئی جس میں وہ بہت کم سوئے۔ موت سے ایک دن قبل دن کے کوئی ایک بجے علامہ اقبال نے کہا کہ اُن کے پیٹ میں شدید درد ہورہا ہے۔ میں نے انہیں ایک خوراک دوا پیش کی جس کو ان کے پرائیوٹ ڈاکٹر نے تجویز کیا تھا۔ یہ نیند آور دوا تھی، لیکن انہوں نے اسے پینے سے انکار کردیا اور کہا:’’میں اس کی ایک خوراک بھی نہیں پیوں گا، اس میں افیون ہے اور میں نے تہیہ کرلیا ہے کہ مرتے وقت بے ہوش نہیں رہوں گا۔ پانچ بجنے میں ابھی کوئی دس منٹ باقی تھے کہ علامہ اقبال نے شربت کا ایک گلاس پینے کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے گلاس میں تھوڑا سا شربت انڈیلا اور اسے اُن کے ہاتھوں میں دے دیا۔ انہوں نے کہا: ’’لیکن یہ تمام میں کیونکر پی سکتا ہوں؟‘‘ اور پھر وہ خود بولے: ’’خیر میں اسے پی لوں گا۔‘‘ اور پھر وہ ایک ہی سانس میں سارا گلاس پی گئے۔ اُس کے چند ہی لمحے بعد علامہ کے سینے میں شدت کا درد ہونے لگا اور انہوں نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ دیا اور آہستہ سے ’’ہائے‘‘ کہا۔ علی بخش فوراً اٹھ بیٹھا اور سیدھا علامہ کے بستر کے قریب جاپہنچا اور انہیں اپنے ہاتھوں سے سہارا دیا، تب علامہ اقبال نے کہا: ’’مجھے یوں محسوس ہورہا ہے جیسے کوئی میرے دل میں کوئی چیز چبھو رہا ہے۔‘‘ اور اس کے بعد انہوں نے اپنی بند آنکھیں کھول دیں اور چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’اللہ‘‘۔ اور یہی وہ آخری لفظ ہے جو اُن کی موت سے قبل اُن کے منہ سے نکلا۔ علی بخش فوراً علامہ سے لپٹ گیا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ علامہ اب بستر پر دراز ہوچکے تھے، جیسے ہی اُن کا سر تکیہ سے لگا علی بخش نے فوراً آپ کا چہرہ قبلہ کی طرف پھیر دیا اور اس کے چند ہی لمحوں بعد شاعر کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔
اپنی موت سے ایک دن قبل علامہ اقبال روزمرہ کی طرح جلد اپنے بستر سے اٹھ بیٹھے اور پھر ایک پیالی چائے پی۔ اس عرصہ میں چائے پیتے رہے اور میں انہیں اخبار پڑھ کر سناتا رہا۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد حجام آیا اور آپ کی داڑھی بنائی۔ اس وقت علامہ میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں دکھائی دے رہی تھی سوائے اس کے کہ میں نے آپ کی آنکھوں میں چند لال لال ڈورے دیکھے۔ پھر اقبال اپنے دفتر چلے گئے جو کہ ملاقاتی کمرے سے ملحق تھا اور وہاں جاکر بستر پر لیٹ گئے۔ آپ تکیے کے سہارے بہت دیر بستر پر لیٹے رہے۔ آپ کو کھانسی نہایت شدت کی ہونے لگی۔ بعض دفعہ تو اتنی شدت سے ہوتی کہ آپ کا چہرہ سرخ ہوجاتا اور آپ بالکل بے بس و لاچار دکھائی دیتے۔
آپ کی رحلت سے ایک دن قبل ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے علامہ اقبال بہت مسرور اور خوش دکھائی پڑتے تھے۔ ہوا یہ کہ آپ کا پرانا ساتھی اور ہم جماعت ’’بیسرنؔ‘‘ آپ سے ملنے آیا۔ جوں ہی وہ کمرے میں داخل ہوا علامہ نے اٹھنے کی کوشش کی اور اپنے پرانے ساتھی کو خوش آمدید کہا۔ سب سے پہلے بیسرنؔ نے علامہ کو وہ دن یاد دلائے جب کہ وہ اور علامہ ایک ساتھ میونخ یونیورسٹی میں تعلیم پایا کرتے تھے۔ پرانے واقعات کو یاد کرکے علامہ بہت خوش ہوئے اور ان کا چہرہ دمک اٹھا۔ علامہ اقبال نے اپنے پرانے ساتھی پر سوالات کی بوچھاڑ شروع کردی۔ انہوں نے لیڈی بیسرنؔ، بیسرن کی بیٹی اور اپنے کئی دیگر ساتھیوں کے متعلق حالات دریافت کیے۔ اس کے بعد دونوں میں خاصی دلچسپ گفتگو ہوتی رہی۔ ان کی بات چیت سے میں نے اندازہ لگایا کہ بیسرن افغانستان جانا چاہتا تھا۔ اقبال جنہیں کابل کے متعلق بہت کچھ معلوم تھا، اس کے دلفریب مناظر، میوے، پھل اور موسم کے متعلق باتیں کرنے لگے۔ بیسرن نے آپ سے کابل کے مشہور مقامات کے متعلق بھی بات چیت کی۔ وہ جنہیں علامہ سے گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتی تھیں، اور وہ باتیں کرتے ہوئے تھکتے نہیں تھے۔
اسی موقع پر علامہ نے بیسرنؔ سے جرمن فلسفہ سے متعلق بھی بحث چھیڑ دی اور اُس کے بعد وہ دونوں سیاسیات پر باتیں کرنے لگے۔ بیسرنؔ نہیں چاہتا تھاکہ ایک ایسے وقت وہ اپنی گفتگو کو طول دے جبکہ علامہ کی صحت ٹھیک نہیں تھی۔ اس نے کہا: ’’شاید میری اس غیر متوقع مداخلت سے آپ کی صحت پر برا اثر پڑرہا ہوگا۔‘‘
اقبال نے فوراً جواب دیا: ’’یہ بالکل ہی دوسرا راستہ ہے میرے دوست۔ آپ کی ہر سانس میرے لیے مرہم کا کام کررہی ہے۔‘‘
یہ دلچسپ گفتگو کوئی ڈیڑھ گھنٹے بعد اختتام کو پہنچی اور بیسرنؔ چلا گیا۔
اسی شام کا ایک قصہ بانو سے متعلق ہے۔ بانو علامہ اقبال کی چھوٹی لڑکی کا نام ہے۔ وہ تیز تیز دوڑتی ہوئی علامہ کے کمرے میں داخل ہوئی اور خاموشی سے آپ کے پہلو میں بیٹھ گئی۔ علامہ کی نظر کافی کمزور ہوچکی تھی۔ آپ نے بچی کے سر پر ہاتھ رکھا اور پیار سے کہا: ’’کون آیا ہے، شاید بانو ہوگی۔‘‘
ایک اور موقع پر جیسے ہی بانو کمرے سے باہر نکلی آپ نے فرمایا: ’’وہ بخوبی جانتی ہے کہ اس کے باپ کی موت کی گھڑی قریب آچکی ہے۔‘‘
بانو حسب معمول اپنے باپ سے ملنے کے لیے تین دفعہ آیا کرتی تھی۔ ایک تو مدرسہ جاتے وقت، دوسرے واپسی کے وقت، تیسرے سونے سے قبل۔ اقبال، بانو سے اکثر کھانے کے متعلق دریافت کیا کرتے تھے: ’’تم نے آج کیا کھانا کھایا اور کتنا کھایا۔‘‘
’’اتنا کھایا۔‘‘ بانو معصومیت سے اپنے ہاتھ کے اشارے سے جواب دیتی اور شاعر مسکرانے لگتے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ چھوٹے بچوں سے صرف کھانے پینے کے بارے میں پوچھنا چاہیے، اور یہی وہ آسان طریقہ ہے جس سے بچے کا دل موہ لیا جاسکتا ہے۔‘‘
موت سے ایک دن قبل دوپہر کے وقت بانو آپ سے بغل گیر ہوگئیں۔ نہ جانے اُس دن اقبال کو کیا ہوگیا تھا، وہ رو رہے تھے اور بانو حیرت سے آپ کا منہ تک رہی تھیں۔
اُس وقت سورج غروب ہورہا تھا اور اس کی ارغوانی شعاعیں علامہ مرحوم کے مکان کو چھوتی ہوئی آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھیں۔ علامہ کا بستر اُن کے دیوان خانے میں بچھا دیا گیا۔ اسی موقع پر ایک تانگہ راستے سے گزرا۔ تانگے والا ایک غمگین پنجابی گیت الاپ رہا تھا۔ شاعر نے جب اس کی درد بھری آواز سنی تو ایک ’’سرد آہ‘‘ بھری اور چھت کو گھورنے لگے۔
اس واقعہ کے کچھ ہی دیر بعد فاطمہ بیگم اقبال سے ملنے آئیں۔ فاطمہ ایک مقامی اناث کالج کی پرنسپل تھیں۔ شاعر نے آپ سے لڑکیوں کے متعلق مذہبی مسائل پر بات چیت کی، آپ نے کہا کہ مسلمان لڑکیوں کو سختی سے اسلام کی تعلیم دینا چاہیے۔
اس وقت آپ کے سارے دوست احباب اور رشتہ دار جمع ہوچکے تھے۔ وہ تمام جانتے تھے کہ اب اقبال کا وقت قریب آچکا ہے۔ وہ ایک دوسرے سے دبی آواز میں پوچھتے: ’’کیا آج رات اقبال زندہ رہ سکیں گے؟‘‘
اور یہی ایک سوال تھا جو ہر ایک دماغ کو پریشان کررہا تھا۔ اسی لمحہ جاوید اندر آیا۔ جاویدؔ، اقبال کی تیسری بیوی کا پہلا بیٹا ہے۔ جیسے ہی وہ کمرے میں آیا، اقبال نے کہا: ’’یہ کون آیا ہے؟‘‘
اور جب انہیں بتایا گیا کہ جاوید آیا ہے تو آپ نے جاوید کو بیٹھنے کے لیے کہا اور پھر فرمانے لگے: ’’جاوید کے معنی فارسی میں غیر فانی کے ہیں۔‘‘
محمد حسین کو جو آپ کے ایک قریبی دوست تھے، مخاطب کرتے ہوئے آپ نے کہا: ’’جاوید کے پیدا ہونے کے تھوڑے ہی دنوں بعد میں ’’مجدد شاہ‘‘ کے مقبرے پر جو سرہند میں واقع ہے، حاضر ہوا تھا جہاں میں نے خدا سے دعا فرمائی تھی کہ وہ نومولود کو زمانے کی خراب باتوں کی ناپاکی سے پاک کردے۔‘‘ واضح رہے کہ مجدد شاہؒ عہدِ جہانگیر کے ایک مشہور ولی اور ایک مشہور شاعر گزرے ہیں۔
اُس وقت بہت شدت کی گرمی پڑ رہی تھی اور شاعر نے خواہش کی کہ ان کا بستر صحن میں منتقل کردیا جائے۔ یہاں پر تین مشہور ڈاکٹروں نے آپ کا معائنہ کیا۔ وہ جاتے وقت وعدہ کرگئے کہ وہ کل دوبارہ انجکشن دینے آئیں گے۔ شاعر نے ڈاکٹروں سے کہا کہ وہ بلا کھٹکے ان کی صحت سے متعلق حالات کہہ دیں کیونکہ وہ کسی چیز سے نہیں ڈرتے۔ رات کے کوئی بارہ بجے ہوں گے کہ شاعر کی بے چینی میں اضافہ ہوگیا اور انہیں دوبارہ اُن کے دیوان خانے میں لایا گیا۔ علی بخش آپ کے ہمراہ تھا، اس سے آپ کی یہ حالت نہ دیکھی گئی اور وہ بے اختیار رونے لگا۔ جب اقبال کی نظر اپنے وفادار نوکر کے بہتے ہوئے آنسوئوں پر پڑی تو آپ نے فرمایا:
’’علی بخش! مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب ہماری 40سال کی دوستی عن قریب ختم ہونے والی ہے۔‘‘
تقریباً آدھی رات بیت چکی تھی اور اقبال نیند نہ آنے کی وجہ سے بہت بے چین ہوگئے تھے۔ آپ کے دوست احباب اُس وقت بھی آپ کے قریب تھے۔ اُن میں سے ایک نے یہ تجویز پیش کی کہ آپ نیند آور دوا کی ایک خوراک بھی پی لیں تو رات کا باقی حصہ نہایت اطمینان سے گزر جائے گا۔ اس دفعہ بھی انہوں نے اس دوا کو پینے سے انکار کردیا۔ اُس کے بعد دوستوں سے آپ نے اجازت چاہی اور آپ سونے کے لیے چلے گئے۔ آپ کو غیر متوقع طور پر جلدی نیند آگئی، لیکن ابھی گھنٹہ بھر بھی سونے نہ پائے تھے کہ پھر سے بیدار ہوگئے اور کہا کہ پیٹ میں شدت کا درد ہورہا ہے۔
عبدالقیوم نے جو آپ کے ایک قریبی رشتے دار تھے، پھر سے آپ سے درخواست کی کہ آپ نیند آور دوا پی لیں، مگر آپ برابر انکار کرتے رہے۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا اور شاعر کی بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہوتا گیا۔ شاید یہ آخری رات تھی جس میں انہوں نے حقہ نہیں پیا۔ اس موقع پر اب ہم صرف تین اشخاص باقی رہ گئے تھے: علیؔ بخش، دیوان علی اور میں۔ وہ منظر بڑا ہی جگرسوز اور دلخراش تھا جبکہ شاعر نے ہم سے دردبھری آواز میں کہا کہ ہم اُن کے نزدیک بیٹھ جائیں۔ اور جب ہم میں سے کوئی اونگھنے لگتا تو وہ کہتے: ’’تمہیں صرف آج رات ہی جاگنے کی تکلیف گوارا کرنی ہوگی؟‘‘
اس کے بعد انہوں نے دیوان علی سے کہا کہ وہ انہیں ایک پنجابی گیت سنائیں۔ دیوان علی خوشی سے گانے کے لیے راضی ہوگئے۔ اب شاعر کی موت کو صرف چار گھنٹے باقی تھے۔ لیکن اب بھی اُن کے ہوش و حواس قائم تھے۔ دیوان علی نے پنجاب کے مشہور شاعر ’’بلھے شاہ‘‘ کے چند گیت الاپے۔ ان گیتوں سے شاعر بہت متاثر دکھائی دیتے تھے۔ اور بالآخر میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
رات کے کوئی تین بجے ان کی حالت انتہائی خراب ہوگئی اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ حکیم محمد حسین قریشی کو بلا لائوں جو کہ لاہور کے ایک نامی گرامی طبیب تھے۔ ان کا مکان کوئی ڈیڑھ میل کے فاصلے پر تھا۔ میں سائیکل پر نہایت تیز رفتاری کے ساتھ ان کے مکان پر پہنچا اور اپنی پوری قوت سے انہیں آواز دی لیکن وہ اپنے بنگلہ کی تیسری منزل پر سورہے تھے۔ میری آواز بے کار ثابت ہوئی اور مجھے مایوس واپس لوٹنا پڑا۔ اقبال نے جب مجھے بغیر حکیم کے دیکھا تو کہا: ’’اب کیا کیا جائے؟‘‘
تھوڑے ہی وقفہ کے بعد شاعر نے یوں محسوس کیا کہ درد میں کمی ہورہی ہے اور اس طرح انہیں سکون مل رہا ہے، لیکن آہ… جلتی ہوئی چنگاری کی یہ آخری چمک تھی۔
اس وقت صبح کے کوئی پانچ بجا چاہتے تھے کہ ان کے درد میں اچانک شدت پیدا ہوگئی لیکن انہوں نے صبرو استقلال سے اُسے برداشت کیا۔
بجائے آہ و فغاں کرنے کے انہوں نے ہم سے کہا کہ ان کا بستر ان کے دارالمطالعہ میں منتقل کردیا جائے جہاں انہوں نے سالہا سال فلسفہ اور ادب پر غور و فکر کرتے ہوئے گزارے تھے۔ یہ اُن کا پسندیدہ کمرہ تھا۔ وہ ’’اللہ‘‘ کہتے ہوئے بستر پر لیٹ گئے اور پھر شاعر مشرق موت کی آغوش میں ہمیشہ ہمیشہ کی نیند سوگیا۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ اپنی موت سے کیونکہ ایک ہفتہ قبل اقبالؔ نے یہ تحریر اپنے بھائی کے ہاں روانہ کی تھی جو آپ کی بیماری سے سخت پریشان تھے:
’’مجھے اجازت دیجیے کہ میں ایک سچے مسلمان کی خصوصیت آپ پر ظاہر کردوں، جب وہ مرے تو مسکراتے ہوئے چہرے سے موت کو خوش آمدید کہے۔‘‘
اور میں نے اچھی طرح اندازہ لگایا کہ اقبالؔ نے بسترِ مرگ پر اپنے اس کہے پر پوری طرح عمل کیا۔
جب اُن کی آخری گھڑی آن پہنچی تو میں نے دیکھا کہ اُن کے لبوں پر ایک مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
-- 

Wednesday, March 27, 2013

نبیوں کی سر زمین فلسطین کی کہانی



نبیوں کی سر زمین فلسطین کی کہانی
مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری
بندر جب انصاف کی کرسی پر بیٹھتا ہے تو بڑے کرتب اور کرشمے دکھاتا ہے اور یہ کرشمے ہنساتے نہیں رلاتے ہیں ،اور وہ بھی خون کے آنسو ۔ انصاف کا خونِ ناحق انسانیت کی آنکھوں سے خشک ہوئے بغیر ٹپکتا چلاجاتا ہے ،تاریخ بتاتی ہے کہ ہر دور میں اکثر بندر ہی انصاف کی کرسی پر براجمان ہوا ہے ۔ مولانا آزاد ؒ رقم طراز ہیں : ’’ تاریخِ عالم کی سب سے بڑی نا انصافیاں میدانِ جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں ہی میں ہوئی ہیں ۔ دنیا کے مقدس بانیانِ مذہب سے لے کر سائنس کے محققین اور مکتشفین تک ،کوئی پاک اور حق پسند جماعت نہیں ہے جو مجرموں کی طرح عدالت کے سامنے کھڑی نہ کی گئی ہو‘‘۔(قول فیصل :۳۴)
کرسی جتنی چاہے اونچی بنالیجیے مگر وہاں تک پہنچنے میں بندر کے لیے رکاوٹ ہی کیا ہے ۔ بندر بانٹ کی ایک ایسی ہی المناک تاریخی کہانی آج آپ کو سنانی ہے جو آپ کی نیند ہی نہیں ہوش بھی اڑادے گی ۔
اقوامِ عالم میں یہودی قوم اپنی سرکشی اور سازشی ذہن کی بدولت بڑی شہرت یافتہ ہے ،خود غرضی اس کی فطرت ہے اور حق تلفی اس کی عادت ۔ انبیاء ورسل کو ستایا ، تنگ کیا اور قتل تک کردیا ،اپنے محسنین کی احسان ناشناسی کی حد کردی ،جس برتن میں کھاتے اسی میں چھید کرنے سے ان کے لیے کوئی اخلاق مانع نہیں تھا ۔ موسیٰ علیہ السلام ان کے محسنِ اعظم تھے ،ذلت وپستی اور بدترین غلامی کی زندگی سے ان کو نجات دلائی ،کوئی اور قوم ہوتی تو موسیٰ کی پوجا کرتی مگر انہوں نے ایسے محسن کو بھی بہت ستایا اور پریشان کیا ۔ ان کا کوئی حکم اور مشورہ قبول کرنے سے انکار کرتے رہے ،بلکہ الٹا ان کی شان میں گستاخانہ رویہ اور جارحانہ ناشائستہ لب ولہجہ اختیار کیے ہوئے تھے ،غلامی کی طویل مدت نے انہیں نزدل بھی اتنا بنادیا تھا کہ موسیٰ نے انہیں اللہ کا فیصلہ سنایا کہ سرزمین فلسطین کو اللہ نے تمہارے حق میں کردیا ہے ،ذراسء جرأت وہمت کا مظاہرہ کرو، کامیاب ہوجاؤ گے۔ ایسی بشارت سن کر بھی ان کی ہمت نہیں ہوئی۔جواب میں کہا:وہاں کی قوم زبردست ہے ،اس مقام کا ایک ایک شخص جب تک باہر نہیں نکل جائے گا ہم داخل ہونے کا خطرہ مول نہیں لیں گے ۔موسیٰ نے اپنی بے بسی کا حال اللہ سے بیان کیا تو فرمان الہی صادر ہوا:قال فانھا محرمۃ علیھم اربعین سنۃ یتیھون فی الارض فلاتاس علی القوم الفاسقین ۔(المائدہ :۲۶) ’’اچھا تو وہ ملک (فلسطین)چالیس سال تک ان پر حرام ہے ، یہ زمین میں مارے مارے پھریں گے، ان نافرمانوں کی حالت پر ہرگز ترس نہ کھاؤ‘‘۔
پورے چالیس برس بھٹکتے رہنے اور دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد یہود فلسطین میں داخل ہوئے ۔چند سو سال چین سے گزرے ہوں گے کہ سن ۵۸۶ ؁ ق م میں آشوریوں اور اہل بابل کے ہاتھوں بڑی ہولناک تباہی سے دوچار ہوئے ۔پھر رومیوں نے سن ۷۰ ؁ء میں یہودیوں کو مار مار کر فلسطین سے نکال باہر کیا ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ملاحظہ ہو :ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الزِّ لَّۃُُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْ آ اِلَّا بِِحَبْلٍٍِ مِّنَ اللّٰہِ و حَبْلٍٍ مِِّنَا لنَّا سِ وَبَآ ءُ وْ بِغَضَبٍٍ مِِّنَ اللّٰہِ وَ ضُرِِ بَتْ عَلَیْھِمُ الْمَسْکَنَۃُ ذٰلِکَ بِاَ نَّھُمْ کَا نُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰ یٰتِ اللّٰہِ وَیَقْتُلُوْنَ الْاَ نْبِیَآ ءَ بِغَیْرِ ھَقٍّ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْ اوَّ کَا نُوْ ا یَعْتَدَُوْنَ (آل عمرآن :۱۱۲)’’یہ جہاں بھی پائے گئے اِن پر ذلت کی مارہی پڑی ،کہیں اللہ کے ذمے یا انسانوں کے ذمہّ میں پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے ۔ یہ اللہ کے غضب میں گھرچکے ہیں ،ان پر محتاجی ومغلوبی مسلط کردی گئی ہے اور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا ہے کہ یہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے رہے اور انہوں نے پیغمبروں کو ناحق قتل کیا ۔یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام ہے ۔‘‘
’’ یعنی دنیا میں اگر کہیں ان کو تھوڑا بہت امن وچین نصیب ہوا بھی تو وہ ان کے اپنے بل بوتے پر قائم کیا ہوا امن وچین نہیں ہے بلکہ دوسروں کی حمایت اور مہربانی کا نتیجہ ہے ،کہیں کسی مسلم حکومت نے ان کو خدا کے نام پر امان دے دی ،اور کہیں کسی غیر مسلم حکومت نے اپنے طور پر انہیں اپنی حمایت میں لے لیا ۔ اسی طرح بسا اوقات انہیں دنیا میں کہیں زور پکڑنے کا موقع بھی مل گیا ہے ،لیکن وہ بھی اپنے زورِ بازو سے نہیں بلکہ محض ’’ بپائے مردی ہمسایہ ‘‘۔ (تفہیم القرآن :۱/۲۸۰)
یہی حقیقت اس یہودی ریاست کی ہے جو اسرائیل کے نام سے محض امریکہ ،برطانیہ اورروس کی حمایت سے قائم ہوئی۔
اللہ رب العزت کے اس فرمان کی صداقت ابدی ہے ،اتنی بڑی دنیا میں یہودیوں کا کوئی ٹھور ٹھکانا نہیں رہا ، جہاں بھی تھے وہ بدیسی اور پردیس کی حیثیت سے تھے ،دنیا کے ہرخطے اور گوشے میں اکے دکے پھیل گئے،ان کو مظلوم جان کر سب نے بھر پور تعاون دیا ،ہمدردی اور دستگیری کی ،مقام ومنصب سے سرفراز کیا ،مگر یہ قوم اپنی فطرت سے مجبور تھی ،بدعہدی ،بدخواہی ،بے وفائی ،خود غرضی اور محسن کشی کی خصلت کے ہاتھوں محسنوں کو نقصان پہنچانے کے لیے سازشون کا جال بننے میں ہمہ تن مصروف ہوگئی ۔ ان کے رہنما ہدایات بھیجتے تھے کہ اپنی اولاد کو دین ،طب اور اقتصاد کے شعبوں میں داخل کراؤ،تاکہ دنیا کے تمام مذاہب میں شکوک وشبہات پیدا کرکے لوگوں کو مذہب بیزار کردیں۔ طب کے ذریعے غیر یہود کے جسم وعقل اور سوچنے کی طاقت اور تعمیری صلاحیت کو کمزور کریں اور اقتصاد میں مہارت حاصل کرکے ہر ملک کی معیشت کو تباہ برباد کرنے کا فریضہ انجام دیتے رہیں ۔
ان کی خفیہ تحریکوں کے خطوط پکڑے گئے ،ناپاک منصوبے ظاہر ہوے،میزبان اور مہربان ممالک زبردست بحران سے دوچار ہوئے ،توسب کی آنکھیں کھلیں ،مغرب کے عیار ذہن کو ان سے ہمدردی تو نہیں تھی اور ہمدردی ہو بھی نہیں سکتی ، کیوں کہ یہود ونصاری کے بنیادی عقائد آگ اور پانی سے بھی آگے ہیں ۔مریم اور عیسیٰ علیہما السلام کو عیسائی الوہیت کی بلندی تک پہنچاکر بھی بس نہیں کرتے ،اور یہودی ان دونوں کو پستی کے اس مقام پر لانا چاہتے ہیں اور ایسا گھناؤنا الزام دیتے ہیں کہ لکھتے ہوئے قلم کانپ جاتا ہے ،اور بولتے ہوئے زبان لڑکھڑانے لگتی ہے ، اس لیے قیامت تک دونوں کی دوستی کا سوال ہی نہیں ہوتا ،مگر وہ جو کہا جاتا ہے علی کی محبت میں نہیں ،معاویہ کی عداوت میں ہمیں یہ کر گزرنا ہے ،علی کا بھلا ہوجائے تو بلا سے ،ہمارے انتقام کی آگ تو ٹھنڈی ہوجائے گی۔مغرب کے دانشور سر جوڑ کے بیٹھے اور ایک تیر سے دوشکار کرنے کی ان مکار شکاریوں کی پرانی عادت ہے ،طے کرلیا کہ یہود کے مکروہ فریب ،شرارت اور سازش سے محفوظ ہونا ہے تو ان کو عربوں کے سروں پر مسلط کردینا چاہئیے،پھر ہم چین کی بانسری بجاتے رہیں گے اور عرب کبھی سر نہیں اٹھاسکیں گے،یہودی عربوں کے سینوں پر زندگی بھر مونگ دلتے رہیں گے ۔
غریب کی بیوی سب کی بھابی ،فلسطین کے عوام فریب ونکبت کا شکار تھے ،شاطر شکاریوں کی نظر اسی طرف گئی ۔یہود کی قدیم تاریخ اس سے وابستہ تھی اور ان کے مذہبی جذبات بھی اسی سے معلق تھے ،وہ بصد مسرت یہاں آبادکاری کے لیے آمادہ تھے ۔بیسویں صدی کے اوائل میں فلسطین دولت آل عثمان کا ایک حصہ تھا ۔شکاری ہر قسم کے جال کے ساتھ سلطان عبد الحمید کے دربار میں پہنچے، سلطان نے ان کی چال کو بھانپ لیا ،ذلت کے ساتھ انہیں بے نیل مرام واپس کردیا ،ارکانِ وفد کو اتنا سخت اور سست کہا کہ وہ مایوس ہو کر کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے ۔
۱۹۱۴ ؁ء میں پہلی جنگ عظیم کے شعلے بھڑکے ،ساری دنیا اس کی لپیٹ میں آگئی ،برے انقلابات بساط عالم میں رونما ہوئے ،مئی ۱۹۱۶ ؁ء کے ’’سایکس ییکو‘‘ معاہدے کے تحت برطانیہ کی جھولی میں ’’مرد بیمار‘‘ ترکی کا ترکہ آگیا اور یہود کی بن آگئی ،امید یں بندھ گئیں اور حوصلے بڑھ گئے ع
سیاں ہوئے کتوال اب ڈرکا ہے کا 
فارسی زبان کے شاعر نے بہت پہلے پتہ نہیں کیسے کہہ دیا ع
بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند
ہمارے شہر کے کفن چوروں نے قبروں کی تقسیم کے لیے ایک انجمن (یونین)بنالی ہے، بالکل اسی طرح فلسطین کی ایک اڈہاک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے اپنے دستاویزی دستور کے دوسرے پیراگراف میں اعلان کردیا ’’اڈہاک کمیٹی یعنی برطانیہ کی ذمہ داری ہے کہ فلسطین کی سیاسی ،اقتصادی اور سلامتی امور میں ایسے قوانین ہوں گے جو یہود کے قومی وطن کے نشو ونما کی ضمانت دیں گے۔‘‘
دستور کے پانچویں مادے کی عبارت ہے :’’یہود کی لائق جمعیت کو ایک عمومی جمعیت کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے گا ،وہ فلسطینی محکمہ کی اقتصادی اور اجتماعی امور وغیرہ میں مشیرومعاون کی حیثیت سے شریک رہے ،تاکہ یہود کے قومی وطن کی بنیاد میں اور یہودی باشندوں کے مسائل کی فلسطین میں نگران رہے ۔‘‘
یہ قوانین اور حقوق اس وقت محفوظ کیے جارہے ہیں جب فلسطین میں یہود کی آبادی ۶فیصد کے اندر تھی۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ بلفور (Balfour)نے ۲/نومبر ۱۹۱۷ ؁ء کو یہودی لیڈر( Rothschild)کو لکھا :’’اعلی حضرت کی حکومت فلسطین میں یہود کے ایک قومی وطن کی بنیاد کے لیے نظر کرم رکھتی ہے اور مہربان بھی ہے ۔ساتھ ہی یہ بھی ذہن میں رہے کہ وہاں ایسا کام انجام نہیں دیا جائے گا جو وہاں کی غیر یہودآبادی کے شہری اور مذہبی حقوق کو نقصان پہنچائے اور نہ ان حقوق اور سیاسی حالات کو جن سے یہودی دیگر ممالک میں بہروہ ور ہیں،چھیڑا جائے گا ۔‘‘
مورخ لکھتا ہے کہ آنکھوں میں دھول جھونکنا شاید اسی کو کہتے ہیں ،خالص مسلم ملک میں یہودی وطن کے قیام کا اعلان سب سے بڑا ظلم ،نقصان اور خیانت ہے ۔ اس کے قیام کے بعد یہ نہیں ہونا چاہیے ،وہ نہیں ہونا چاہیے،کھلونے دے کر بہلانے کی بات ہے ۔
ایک طرف یہ سب ہورہا تھا ،دوسری طرف عربوں کی تسلی اور تھپکی دی جارہی تھی کہ قومی وطن سے آپ لوگ یہ نہ سمجھ لیں کہ یہودیوں کی حکومت قائم ہونے جارہی ہے ۔یہ تو صرف ایک روحانی تعلق کے قیام کی بات ہے ،جیسے کرسچن کے لیے واٹیکان ہے اور مسلمانوں کے لیے مکہ، تاکہ یہود مذہبی اور ثقافتی آزادی کے احساس کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکیں۔ ۱۹۳۰ ؁ء میں برطانیہ کے نو آبادیاتی وزیر باسفیلد نے کتاب ابیض میں لکھ دیا کہ ’’ان سب تجاویز اور کارگزاریوں کا مقصد یہودی حکومت کا قیام ہرگز نہیں،کیوں کہ ایسی کوئی بھی بات یا اقدام عربوں سے کیے گئے عہد وپیمان کی خلاف ورزی سمجھی جائے گی۔‘‘
عرب حکومتوں سے صرف وعدے ہوتے رہے اور یہود سے وعدہ وفائی ہوتی رہی ،فلسطین کے اداروں میں یہودی اور یہود نواز انگریزوں کا تقرر زوروں پر شروع ہو گیا ،باہر کے یہودکو ہر قسم کا لالچ دے کر فلسطین میں آباد ہونے کی دعوت عام دی گئی ۔ ۱۹۱۶ء میں پچاس ہزار کے اندر یہودی آبادی تھی ،دیکھتے دیکھتے ۱۹۴۰ ؁ء میں پانچ لاکھ سے اوپر ہوگئی ۔اصلی عرب باشندوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے باہر کرتے رہے ،مسلمانوں کی جائیداد کو منہ مانگی قیمت دینے کے لیے دنیا کے گوشے گوشے میں گھوم گھوم کر فنڈس جمع کیے گئے ۔برطانوی حکومت بنفس نفیس اس مہم کی سرپرستی کرتی رہی ۔عربوں کے دلوں میں بھی مسلمانوں سے روپیہ پیسہ جمع کرکے فلسطینی مسلمانوں کو خوش حال بنانے کا خیال آیا ۔ ۱۹۳۳ ؁ء مین بیت المقدس میں اس سلسلے میں ایک عالمی اسلامی کانفرنس ہوئی ۔ہندوستان جو وفدآیا اس کی یہاں خوب آؤ بھگت ہوئی ،نظامِ حیدرآباد نے دس لاکھ روپئے،طاہر سیف الدین نے پانچ لاکھ روپیئے کا عطیہ دیا ،لاکھ دو لاکھ دینے والوں کے ساتھ ہزاروں میں دینے والے بے حساب تھے ،جلد ہی برطانیہ حکومت اس خطرے کو بھانپ گئی ،وائیسراکو سخت تاکید کی کہ اس کا روائی پر ہرممکن ذریعے سے پابندی لگائی جائے ،کیوں کہ یہ کام تاجِ برطانیہ کی سیاست کے بالکل خلاف ہے ۔
تاریخی حقائق بڑے تلخ ہیں۔ حکومت برطانیہ کے مظالم کی داستانِ ظلم وعدوان کافی دردناک ہے ،یہود کی زمینوں پر برائے نام ٹیکس رکھا گیا ،مسلمانوں کی زمینوں کا ٹیکس ضرورت سے زیادہ تھا ،عدم ادائیگی کی صورت میں زمین سے محروم کردیے جاتے تھے ۔اہم محکمے یہود کے حوالے کردیے گئے ،کلیدی مناصب پر وہی فائز ہوگئے ،اصلی باشندے اپنے ہی وطن میں اجنبی کی طرح کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ،چاروں اطراف مسلمانوں کی حکومتیں تھیں،سب خوابِ غفلت میں یا غرور ونخوت میں مست وسرشار تھے ،حساس اور غیرت مندوں نے جھنجوڑا تو وہی ہنوز دلی دوراست کا جواب دیا ۔دشمن کو بہت حقیر سمجھتے تھے ،کبھی کہتے ’’ان کے مقابلے میں ہمیں خون جلانے کی کیا ضرورت ہے ،ہم بارہ کروڑ سے زائد ہیں ،صرف ایک بار ادھر منہ کرکے دھوک دیں گے تو وہ سب ہمارے تھوک میں غرق ہوکر ختم ہوجائیں گے ‘‘۔ سمندر میں غرق کرنے کی بات آتی تو تحقیر کے ساتھ کہتے :’’ایسا نہ کرو ،ورنہ سمندر ہمیشہ کے لیے نجس ہوجائیں گے‘‘۔غرض عرب باتیں کرتے رہے اور یہودی تیاری کرتے رہے ۔گفتار کے غازی ہمیشہ منہ کھاتے رہے ہیں ،یہاں بھی یہی ہوا ۔ جون ۱۹۶۷ ؁ء میں اسرائیل نے عربوں پر حملہ کردیا ،گھنٹوں میں شام،لبنان،اردن اور مصر کی حکومتوں کو خاک چٹادی اور ایک بہت بڑے حصے پر قابض ہوگیا ۔ حملے کا رعب عربوں پر ایسا بیٹھا کہ اسے ناقابلِ تسخیر سمجھ بیٹھے ۔اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب کی جگہ ’’بیت المقدس ‘‘قرارپائی ،مسلمانوں کا قبلۂ اول اور مقاماتِ مقدسہ کی حرمت یہود کے ناپاک عزائم دیکھ کر کراہنے لگے ،اور دہائی دینے لگے۔
عرب حکمرانوں مین شیر ،چیتے ،ہاتھی نام کے بہت سے رہنما ہیں ،مگر ان میں کوئی معتصم ،محمد بن قاسم اور صلاح الدین نہیں ہے ۔امت جب ایسے جیالوں اور دلاوروں سے محروم ہوجائے گی تو ظلم وستم کے لیے تختۂ مشق ہی کا کام انجام دے سکتی ہے ۔آج کامرانی اور کامیابی کی ہرچیز دشمن کے ہاتھ میں ہے ۔ہمارے پاس کیا ہے ؟نہتے بیٹھے تماشہ ہی دیکھ سکتے ہیں ،یا شاعری کرسکتے ہیں کہ ’’مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی ‘‘ اور ’’نگاہ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں ۔‘‘
جدید اسلحہ تو دور کی بات ،قرطاس وقلم کی طاقت سے بھی ہم محروم ہیں ،ورنہ ظلم کا مظاہرہ نہیں تو مظلومیت کا نقشہ ہی کھینچ کر ماحول کو متاثر کرسکتے تھے ۔
شیخ سعدی ؒ کہتے ہیں کہ ایک شخص کے آگے بڑا خوبصورت آدمی آیا اور بتایا کہ وہ شیطان ہے ،دیکھنے والے نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟شیطان کا چہرہ تو انتہائی خوفناک اور مکروہ ہوتا ہے ۔شیطان نے بہت زور کا قہقہہ لگایا اور کہا ؂
بخندید وگفت آں نہ شکل منست ولیکن قلم درکفِ دشمن است 
میرا اصلی چہرہ تو یہی ہے جس میں میں ظاہر ہوا مگر قلم چوں کہ میرا دشمن کے ہاتھ میں ہے اس لیے وہ اپنی مرضی کے مطابق میری تصویر بناتا ہے ۔
میں نے ایک سنجیدہ اور تلخ مضمون میں یہ لطیفہ ہنسانے کے لیے نہیں رلانے کے لیے نقل کیا ہے ۔قلم (ذرائع ابلاغ)ہمارے ہاتھوں میں نہ ہونے کی وجہ سے 
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا 
فلسطینی مسلمان اپنے وطن میں اپنی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے ایک آدھ لٹیرے کو اس کی اوقات دکھائے تو اس کا نام ٹیررسٹ ،آتنگ واد،دہشت گرد کہلائے ،اور ایک لٹیرا معصوم ومظلوم کو اس کے گھرمیں گھس کر سارے اہل خانہ کے سامنے گولیوں سے بھون دے تو وہ بہادر اور جواں مردکہلائے۔ یہ سب زبان وقلم ہی کا تو کرشمہ ہے ۔داددیجیے اس بندر بانٹ کی اور دہرے معیار کی ،واہ رے انصاف ! ؂
بڑی مکار ہے یہ زعفرانی رنگ کی بلی 
میں سیدھی راہ چلتا ہوں تو رستہ کاٹ دیتی ہے
تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے میں نے کچھ تاریخی حقائق قلمبند کردیے ہیں ،سیاست میرا موضوع نہیں ہے ،کچھ کہنے کی جسارت کروں گا تو دخل درنا معقولات شمار ہوگا ،مگر دنیا یہ کہتی ہے کہ آج اسرائیل کے مقابلے میں مسلم حکومتوں کا سکونت کچھ خوف ودہشت کی وجہ سے ہے ۔یعنی اسرائیل کی طاقت کا خوف اورمغربی آقاؤں کی ناراضگی کا خوف ،کیوں کہ وہی ان کی کرسیوں کے محافظ سمجھے جاتے ہیں ،لیکن اصل سبب اتحاد کا فقدان اور مسلم بھائی چارے کا عدمِ احساس ہے اور اپنی اَنا کو قومی مفادات اور دینی ترجحات پر غالب کرنے کا ایک جنون ہے ۔ تجربہ نگار بتاتے ہیں کہ غزہ اسرائیل کے موجودہ حملے کی بابت مصرکی صدر حسنی مبارک کہتے ہیں کہ ’’ غزہ کے لیڈروں نے ہماری بات ٹھکرائی ،جس کی سزاوہ بھگت رہے ہیں ‘‘۔ اگر واقعہ یہی ہے تو مشورہ ٹھکرانے کی سزا اسرائیلی درندوں اور جلادوں سے کیوں دلائی جارہی ہے ؟؟ ایک چھوٹی غلطی کی اتنی بڑی سزا؟؟؟؟