Friday, March 22, 2013

انعامی باؤنڈز


انعامی باؤنڈز
سوال۳؂:(ایضاً)
ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں نے کئی سال سے’’قومی انعامی باؤنڈ‘‘کے نام سے ایک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ اس وقت صرف پاکستان اسکیم کے بارے میں معلومات کرتی ہے۔
شاید آپ کو بھی معلوم ہو ‘حکومت نے یہ طریقہ کیا ہے کہ نوٹ سے مشابہ پاؤنڈ ز تیار کرائے ہیں جن پر ان کی متعینہ قیمت درج ہوتیہے اس طرح یہ پاؤند ز اسی مقررہ قیمت کے کرنسی نوٹ کے مساوی ہوتے ہیں جو ان پر درج ہے ۔ جو شخص یہ بونڈ خریڈ تا ہے وہ اس کا مجاز رکھتا ہے کہ روپئے کی ضروت پڑنے پر وہ جب بھی جہاں سے چاہے اسے کیش کراسکتا ہے ۔ زرِ مبادلہ میں اسے اتنے ہی روپئے مل جائیں گے جتنے کا اس نے یہ خریدا تھا ۔حکومت کی مقرر کردہ معیادوں پر سال میں چ ار مرتبہ تمام فروخت شدہ بونڈوں کی قرعہ اندازی ہوتی ہے اور تعداد مقررہ کے مطابق قرعہ اندازی مین نکلنے والے بونڈوں کے نمبروں کے بوند جس کے پاس بھی ہوں وہ اسے دکھا کر اپنا ناعام وصول کرسکتا ہے ۔ ایک بار انعام نہ نکلنے کے بعدیہ بونڈ بے کار نہیں ہوتے بلکہ بعد کی قرعہ اندازی میں بھی شریکہوتے ہیں اور اگر انعام پانے والا شخص چاہے تو ایک یا دو بار انعام حاصل کرنے کے باوجود بغیر کسی سودی لین دین کے انھین کسی بینک میں یا نجی طور پر فروخت کر کے اپنی اصل قیمتِ خرید وصول کرلے۔مختصر یہ کہ کوئی شخص خواہ انعام حاصل کرے یا نہ کرے اس کی اصل رقم بہر حال محفوظ رہتی ہے اور وہ جب بھی چاہے ایک پیسہ بھی سود کاٹے یا دیتے بغیر اسے وصول کرسکتا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوت ہے کہ ان بونڈوں کی خرید و فروخت جائز ہے یا ناجائز ۔ اگر ناجائز ہے تو اس کی کیا وجہ ہے؟ 
الجواب:۔اس پر پہلے بھی تجلی مین اظہار کیال کیا جاچکا ہے ، لیکن اب تک کسی ایسے سبب کا علم نہیں ہوا جس کی بنیاد پر ان باؤنڈوں کی خرید وفروخت کو حرام قرار دیا جائے ۔ اس معاملے کی جو ہری مشابہت نہ سود سے ہے نہ قمار س نہ بیع فاسد کا کوئی ایسا عنصر اس میں پایا جاہے جس کی تاویل نہ ہوسکے ۔ لہٰذا سبب حرمت سے آگاہ ہوئے بغیر تو ہم اسے جائز ہی کہیں گے ۔ سنا ہے کہ بعض حضرات جواز کے قائل نہیں ۔ معلوم نہیں ان کے دلائل کی ہیں۔
فال اور استخارہ 
سوال :۔ (ایضاً)
شریعت میں استخارہ کے کیا کیاحیثیت ہے کیا ہر شخص استخارہ کرنے کا مجاز ہے ؟ استخارہ کس طرح کرنا چاہئے اور کس قسم کے معاملات ہیں ؟بعض لوگ ہرمعاملہ میں استخارہ کرانے قائل ہوتے ہیں اور خاص طورپر شادی بیاہ کے معاملات میں خواہ شادی کرنے والے راضی ہوں لیکن وہ لوگ بغیر استخارہ کرائے بات کرنے پر راضی نہیں ہوتے اور بعد میں کہہ دیتے ہیں کہ استخارہ بہت خراب آیا ہے وغیرہ ۔ کیا اس طرح ہر بات پر چاہے جس سے استخارہ کرالینا درست ہے؟
الجواب:۔ہمیں اس بات میا8 صرف اتنا معلوم ہے کہ قرآن وغیرہ سے فال نکالنا بے بنیاد ہے اور بعض حالتوں میں اس کی حرمت کا قول کیا جائیگا۔رہا استخارہ تو ایسے امور میں جن کا کرنا نہ کرنا شرعاً میاج ہو اس کا جواز ہے ۔ گوکہ اس سے حاصل شدہ فیصلیکی حیثیت تکمین وظن سے زیادہ نہیں ۔ترکیب کا ہمیں علم نہیں کسی اور صاحبِ علم سے دریافت کی جائے۔

قانون کا فلسفہ


قانون کا فلسفہ
جولوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ کسی حرام شے کے حلاال ہوجانے کے لئے ب اتنی ہی بات کافی ہے جس علتکی وجہ سے حرمت کا حکم دیاگیا تھا وہ علت عملاً موجود ہوتو ایسا خیال کرنا دنیا اور دین دونوں کے فلسف�ۂقانون سے ناواقفیت پرمبنی ہوگا دنیاوی قوانین کی مثال دیکھئے کہ بغیر لائسنس کے پستول رکھنا جرم ہے ۔ علت اس جرم کی اس کے سوا کیا ہے کہ لائسنس کی شرط نہ ہونے کی صورت میں یہ مہلک ہتھیار تمام ان لوگوں کے بھی قبضے میں پہنچ جائے گا جن کے کردار کاکوئی علم حکومت کو نہیں اور جن سے ہر وقت یہ اندیشہ ہے کہ وہ اسے جائز طور پر استعمال کرڈالیں گے۔
اب فرض کیجئے ایک شخص بغیر لائسنس کا پستول رکھے کے جرم میں ماخوذ ہوتا ہے لیکن اس نے ابھی تک اس پستول کو ناجائز طور پر استعمال نہیں کیا ہے تو کیا قانون کا فیصلہ یہ ہوگا کہ اسے کوئی سزا دی جائے کیوں کہ اس کے معاملہ میں وہ علت عملاً نہیں پائی گئی جسکی بنیاد پر پستول رکھنا جرم قرار دیا گیا تھا اور کیا جج یہ کہے گا کہ اسے مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ اس نے پستول کا استعمال ہی نہیں کیا۔
سب کومعلوم ہے کہ قانون کا فیصلہ یہ نہیں ہوگا اس لئے نہیں ہوگا کہ دراصل جرم قرار دینے کی بنیاد خطرے کا عملی جامہ پہن لینانہیں بلکہ بجائے خود اس خطرے کا پایاجانا ہے ۔
اسیطرح شراب کی حرمت اگر چہ بظاہر نشے ہی پر قائم ہے لیکن فی الاصل نشہ پیدا کرنے کی صلاحیت کا پایاجانا سبب حقیقی ہے نہ کہ اس نشہ کا عملی جامہ پہن لیناجو شخص ایک بوند استعمال کرلیتا ہے اس کے بارے مین یہ باور کرنے کی کوئی ضمانت نہیں کہ چند بوندیں اور بھی استعمال نہیں کرے گا ۔ یہی امکان اور اندیشہ ہے جسے دنیا وی قوانین میں بھی ملحوظ رکھاگیا ہے اور دینی قوانین میں بھی۔ ایک غیر سند یافتہ ڈاکٹر اسی وقت مجرم نہیں تھیرایا جائے گا جب کہ وہ اپنے اناڑی پن سیکسی مریض کو ہلاک کردے بلکہ سے اس صورت میں بھی قانون مجرم ہی قرار دیگا جب کہ کوئی ضرر اس سے کسی مریض کو نہ پہنچ ہو بلکہ فائدہ ہی فائدہ پہنچ رہا ہو۔حالاں کہ غیر سند یافتہ لوگوں کو پریکٹس کی ممانعت اسی بنیاد پر ہوتی ہے کہ ان کے اناریپن سے صحتِ عامہ کو خطرہ ہے لیکن اس خطرے کا عملی لباس پہن لینا ضروری نہیں لہٰذا شراب کی حرمت کے لئے بھی قطعاً ضروری نہیں کہ اس کی وہی مقدار حرم ہو جو عملاً نشہ پیدا کردے۔
شرعی تمثیلی میں زنا کی مثال لیجئے ۔ ظاہر ہے زنا کی حرمت کے لئے بھی کوئی نہ کوئی علت و سبب ہے ۔ آپ کوئی بھی علت ۔یا متعدد علتیں تجویز کریں مگر بعض صورتیں زنا کی ایسے ضرور نکل سکتی ہیں جن میں تجویز کردہ علتوں میں سے ایک بھی علت نہ پائی جاتی ہو تو کیا ان صورتوں میں آپ زنا کو جائز قرار دیں گے؟۔۔۔مان لیجئے ایک ایسی بیوہ ہے جسے آپریشن کے ذریعے اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم کردیاگیا ہے ۔ اب ایک شخص اس سے نہایت محفوظ و مخفیمقام پر زنا کرتا ہے تو دیکھ لیجئے کہ کوئی بھی وہ علت نہیں پائی گئی جسے مادہ پرستانہ نقطۂ نظر ے حرمتِ زنا کی علت قرار دیا جائے۔ لیکن زنا پھر بھی حرام پائے گا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض افعال اپنی سرشت اور وضیع ہی میں قبیح ہوتے ہیں اور ان کی حرمت ا بات پر موقوف نہیں ہوتی کہ ہم نے عقل و منطق کے ذریعہ جن گونا گوں نقصانات کو ان کے لئے اسباب حرمتسمجھا ہے ان میں سے کوئی سبب ظہور میں آہی آجائے ۔ جن شاذ صورتوں میں کوئی بھی سبب موجود نظر نہ آئے وہ بھی ممنوع قرار پائیں گے۔
شراب بھی زنا کی طرح قبیح بالذات ہے ۔ اس سے خمیر اور سرشت ہی میں نشہ آور ی ہے لہٰذا حرمت کا فیصلہ دینے کے لئے اس کا انتظار نہیں کیا جائے گا کہ نشہ ظہور ہی میں آجائے ایسا کیسے نہ ہو جب کہ قانون کا ازلی و ابدی فلسفہ ہی یہ ہے کہ جو فعل ممنو ع ہوگا اس کے طبعی ذرائع پر بھی حکم ممانعت لگایاجائیگا اور ممانعت کی نرمی یا شدت اس پر منحصر ہے کہ اسل جرم کس درجے کا جرم ہے ۔ اگر بھیانک قسم کا جرم ہے تو اس کے وسائل و اسباب کی ممانعت میں بھی شدت و وسعت برتی جائیگی ۔ شراب ، قمار ، زنا ،سود شریعت میں بدترین قسم کے جرائم ہیں ۔چنانچہ سود ہی کو حرام نہیں قرار دیاگیا بلکہ اللہ کے رسولؐ بے بعض ایسے معاملات کو بھی فاسد قرار دیا جن میں سود کی مشبہت تھی ۔ اسی بنیاد پر قانون شرعی میں یہ طے ہے کہ ماہرین قانون کے نزدیک جس عقد (معاملے) میں سود کی مشابہت جوہری اعتبار سے متحقق ہوجائے وہ حرام وباطل قرار پائیگا۔اور اسی طرھ شراب پینے ہی کو نہیں اس کے بنانے کو بیچنے کو ، س کی درآمد بر آمد کو ، اس کیلئے جگہ کراے پر دینے کو ممنوع ٹھیرایا اور اسی طرھ مردوزن کے اختلاط ، بوس و کنار اور حد سے متجاوز بے تکلفی کو جرم قراردیا۔
الحاصل جو لوگ صحیح طور پر یہجان لیں کہ شراب نوشی کا سد بابا کس شدت واصرر کے ساتھ اسلام کو مطلوب ہے ۔ انھیں اس نکتہ پر مطمئن ہونے میں ہرگز تامل نہیں ہوسکتا کہ شراب کا ایک قطرہ بھی حرام ہے اور ایسے ٹانک اور دوائیں مسلمان کے لئے’’نجاست ‘ ‘کا درجہ رکھتی ہیں جن میں شراب آمیز کی گئی ہو۔

شراب ملی ہوئی دوائیں


شراب ملی ہوئی دوائیں
سوال۲؂
از شاہد اقبال ۔ دہلی۔
آج کل عام طور سے انگریزی دوائین بہت استعمال کی جاتی ہیں ۔ ان میں بعض دواءٰن ایسی ہوتی ہیں جن میں شراب کاجز ملاہوتا ہے ۔ مثلاً ایک دو اآتی ہے جس کا نام واٹر بری کمپاؤنڈ ہے ۔ یہ شربت کی شکل کی ہوتی ہے اور نزلہ کیلئے اکسیر ہے ۔ لیکن اس کے ڈبے پر لکھا ہوتا ہیکہ اس میں شراب کا جز بھی ملا ہوا ہے تواب ایسی صورت میں اس دوا کا استعمال جائز ہے یا نہیں جب کہ س کے پینے سے ذرہ برابر بھی نشہ کا اثر نہیں ہوتا؟ 
الجواب:۔ مختصر جواب تو یہ ہے کہ کسی بھی ایسیمکسچر یا مشروب کا پینا جائز نہیں ہے جس میں شرب کی آمیزش کا یقین یا گمان غالب ہو ۔ شراب کیحرام ہونے کی علت تو بے شک نشہ ہی ہے لیکن دلائل قویہسے یہ اصول طے پاگیا ہے کہ جس شے کی معتدبہ مقدار نشر لانے والی ہو اس کی قلیل مقدار بھی جرام ہوگی خواہ وہ قلیل مقداربجائے خود نشہ طاری کرنے کی قوت نہ رکھتی ہو۔ مااسکو کثیرہ فقلیلہ حرام (ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ بیہقی) ۔
ماضی میں تو یہ ایک صاف سا مسئلہ تھا جس میں بحث و بدل کی کوئی گنجائش نہیں تھی لیکن موجود ہ زمانے میں مغربی طرز فکر کے غلبہ وتسلط اور احوال و کوائف کے تغیر نے بعض اور مسائل کی طرح اسے بھی قدرے الجھا دیا ہے لہٰذا ان حضرات کے لئے جو دین سے بغاوت کا بھی ارادہ نہیں رکھتے مگر احکامِ شرعیہ کے ارے میں ذہنی تسکین کے بھی طالب ہیں ہم قدرے تفصیل کی راہ اختیار کریں ۔
اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ شراب کی حرمت کا سبب اس کا نشہ آور ہونا اگر چہ ظاہر و باہر ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ صرف اسی شخص کے لئے حرام ہوگی جس پر اسے پی کر طشہ طارہ ہوجائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ شراب میں بالذات نشہ پیدا کرنے کی سلاحیت موجود ہے اور اسے تیار ہی کیا جات ہے نشہ آور مشروب کی حیثیت سے ۔ لہٰذا اس کا صرف اک قطرہ بھی کسی نہ کسی درجے میں اس علت کا حامل ہے جس پر حرمت منحصر ہے یعنی نشہ پیدا کرنے کی صلاحیت تو حرمت کے لئے ایک قطرہ بھی کافی ہوگا جب تک کہ کسی مصنوعی یا قدرتی عمل سے اس کی حقیقت ہی تبدیل نہ ہو جائے۔
حقیقت تبدیل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کیمیاوی تحلیل یا پکانے اور جلانے کے کسی طریق سے اس کے تمام یا بعض اجزاء میں جوہری تغیر واقع ہوجائییا اس کا کوئی ایسا جز و مکمل ور پر تحلیل ہوجائے جس کے بغیر باقی اجزاء نشہ پیدا کرنے کی سلاحیت سے عاریہوں ۔ ایسی صورت میں حرمت کا حکم باقی نہ رہے گا۔ جیسے کہ سر کی کسی مقدار میں بھی حرمت نہیں اور جیسے کہ کچا گوشت پکانے کے بعد حلال وہ طاہر ہوجاتا ہے حالانخۃ جو لہو بجائے خود حرام تھا وہ اس سے علیحدہ نہیں کیا گیا بلکہ پکنے کے دوران اس کے بعض عناصر بھاپ بن کر اڑگئے اور بعض اپنی جوہری ترتیب ختم کر کے پارچوں میں جذب ہوگئے ۔ یا جیسے دریا میں بول و براز کی آمیزش اس کے پانی کو ناپاک نہیں کرتی کیوں کہ مقداری تناسب کا فرقِ عظیم کیمیاوی تحلیل کا قدرتی سبب بن جاتا ہے۔ اور نجاست کے وہ اوصاف کا لعدم ہوجاتے ہیں جن کے وجود سے یہ نجاست عبارت تھی۔
اس تفصیل کی روشنی میں ہروہ مکسچر اور مشروب بالیقین حرام ٹھیرتا ہے جس میں شراب، شراب ہی کی حیثیت سے آمیز کی گئی ہو اور اجزا کا تنساب اس درجہ کانہ ہ کہ شراب کے اجزاو عناصر کا لعدم ہوکر رہجائیں ۔ واٹر بری کمپاؤں ڈ کے بارے میں جب کہ خود بنانے والوں نے وضاحت کردی ہے کہ اس شراب کا جز و موجود ہے تو پھر اس میں کسی شبہ کیگنجائش نہیں رہتی کہ شراب کو اس کے فارمولے میں ایک جزوِ مستقل کی حیثیت حاصل رہتی ہے اور تناسب کے اعتبار سے بھی اس کی مقدار کافی ہے ورنہ اس کی آمیزش کی صراحت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ 
لیکن ان دواؤں کی حرمت کا فیصلہ دینا آسان نہ ہوگا جن کے بارے میں ہمیں یقین تو کیا گمانِ غالب بھی نہ ہو کہ اس میں شراب آمیز کی گئی ہے ۔مشہور عام طور پر یہی ہے کہ اکثر ڈاکٹر ی دواؤں میں شراب کی ملاوٹ ضروری ہوتی ہے۔ لیکن یہ شہرت حرمت کے لئے کافی نہیں ۔خصوصاً اس دور میں تو دواؤں کے پیکنگ پر فارمولا (نسخہ) بھی درج ہوتا ہے اس کو پڑھ کر معلوم کیا جاسکتا ہے کہ شراب شامل ہے یا نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شطرنج :۔


شطرنج :۔
سوال۱۰؂:۔از ۔رئیس احمد احمدآباد۔
میں جنات ہوں تجلی کے صفحات قیمتی ہین اور شطرنج جیسی لغو چیزکے بارے میں بحث کرنا آپ پسند نہیں فرمائیں گے ۔ لیکن یقیین کیجئے یہ بحچ بہت لوگوں کے لئے مفید ہوگی ۔ شطرنج کل بھیمقبول تھی اور آج بھی متروک نہیں ہے ۔ اچھے خاصے وقیع لوگ بھی اسے کھیلتے اور وقت ضائع کرتے ہین ۔ مجھے اس کی حر مت میں کوئی شک نہین ہے ۔ کیوں کہ یہ یقیناًلہو و لعب میں داخل اور لہو و لعب کی ممانعت کسی مسلمان پر مخفی نہین لیکن ایک بحث کے دوران بعض دوستوں نے کہا کہ بعج اماموں کے نزدیک شطرنج جائز ہے ۔ اس کی کیا حقیقت ہے ؟ میری طبیعت تو کسی طرح نہیں مانتی کہ ایسی ملعون کے مطابق تفصیل سے اس مسئلہ کے ہر پہلو کو مشرح فریادیں تو فائد�ۂ عام کا باعث ہوگا ۔ جزاکم اللہ خیر الجزأ۔
الجواب:۔شطرنج یوں تو صریحاً لہو ولعب میں داخل ہے اور لہو و لعب جتنے بھی ہیں اصولی طور پر مکروہات و فضولیات کی فہرست میں آتے ہیں ۔ اس طرح شطرنج کا نا محمود ہونا اپنی جگہ مسلم ہوا۔ 
لیکن تمام ہی لہو و لعب پر فقہ یکساں حکم نا فذ نہیں کرتی ۔ کرنا بھی نہیں چاہئے ۔ ہماری زندگی میں بے شمار ایسے اشغال و اعما ل ہیں جن کے غیر ضروری ہونے میں کوئی شک نہیں اور ہرغیر ضروری ہونے مین کوئی شک نہیں اور ہر غیر ضروری فعل لہو و لعب ہی کی نوعیت رکھتا ہے ۔ تو وہ شریعت جس نے تنگیوں کو فراخیوں اور دشوار یوں کو آسانیوں میں بدلا ہے ایسی سخت گیر کیسے ہوسکتی ہے کہ ہ غیر ضروری کو حرام قرار دے دے اور زندگی سے تفریح کا عنصر بالکل کارج کردے جو شریعت تمام عالم کے لئے آئی ہو اس میں یک رخا اجتہاد کبھی مفید نہ ہوگا ۔ ضرورت ہے کہ سطحی اندازِ فکر کی جگہ گہرا اور ہمہ گیر اندازِ فکر اختیار کیا جائے اور احتیاط و اعتدال کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔
شطرنج کیا ہے ؟۔۔۔ ایک ایسا کھیل جو وقت خوری میں اپنا جواب نہیں رکھتا۔ اس کا انہماک کچھ نشہ کی سی کیفیت رکھتاہے ۔ اور س کے کھلاڑ ی افیمیوں کی طرح اس میں گم ہوجاتے ہیں ۔ مگر کیا یہ چیز اس کی شرعی حرمت کے لئے بھی کافی ہے ؟ ۔۔۔ اس سوال کا جواب اثبات میں دینا بہت مشکل ہے ۔ وقت ضائع کرنا کتنا ہی برا سہی ، لیکن شریعت نے اسے حرام نہیں ٹھہرا یا بشرطیکہ انسان اپنے فرائض و واجبت سے غافل نہ ہو۔ اگر اضاعتِ وقت مطلقاً حرام ہوتو پھر کوئی بھیکھیل اور مشغل�ۂ تفریح جائز نہیں ہوسکتا ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ 
پھر کونسی چیز ہے جو شطرنج کو ملعون قرار دینے پر اہل علم کو متفق کرسکتی ہے ۔ کیا وہ جواہے ؟ کیا اس پرمالی ہا جیت کی بازیکھیلیجاتی ہے ؟۔۔۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کی حرمتِ تطعی میں دو (۲)راسے کی گنجائش نہیں تھی مگر جہاں تک ہمارا علم ہیوہ آلۂ قمار بازی نہیں ہے ۔ آج بھی اور ماضی میں بھی وہ عام طور پر تفریحاً کھیلی جاتی رہی ہے ۔ ہم نے نہیں سنا کہ اس کی ہارجیت خیالی حدودسے گذر کر روپے پیسے تک پہنچی ہو ۔ اس پر جوا کھیلنا نہ تاریخی طور پر ثابت ہے ، نہ آج ہمیں نظر آتا ہے کہ اسے قمار بازی کے طور پر کھیلا جاتا ہو پھر بھی اگر کوئی اس کی ہار جیت پر کسی رقم کی ہار جیت مقرر کر لے تو یہ ایس ہی ہوگا جیسے ہاکی ، کرکٹ ، گلی ڈنڈا ، یا کشتی کی ہار جیت پر رقم کی بازی لگالی جائے ۔ یہ کھیل جوے بازی کے کھیل نہیں ہیں ۔ ان کا جواز شریعت میں قطعاً متفق علیہ ہے ۔ الا یہ کہ کوئی عارض ان کے جواز کو حرمت میں بدلد ے ۔ تو جس وت ان پر رقم کی بازی لگے گی اس وقت یہ حرام ہوں گے ۔۔ مطلقاً حرام نہیں ہوں گے ۔ اسی طرح شطرنج پر رقم کی بازی لگالی جائے تو اس کی حرمت یقینی ہے ، لیکن نہ لگائی جائے تو اس کی حرمت و ملعونیت پر گفتگو کی خاصی گنجاش ہے ۔
ائمہ و فقہاء نے اس کے بارے میں اختلا ف کیاہے جس کی ضرو ری تفضیل یہ ہے :۔ 
امام مالک ؒ اس کی اباحت وجواز کے قائل ہیں ۔امام شافعی کے س کے متعلق دو(۲) قول پائے جاتے ہیں ۔ ایک یہ کہ جائز ہے ، دوسرا یہ کہ مکروہ ہے ۔ مگر یہ کراہٹ تحریمی نہیں طنز یہی ہے ۔ گو یا دوسرے قول کی بنیاد پر بھی اس میں ھرمت کی گندگی شامل نہیں ہوتی ، بلکہ صرف نا محمود یت اور لغویت آتی ہے جس سے دامن بچانا اچھے مسلمانوں کا طرۂ امتیاز ہونا چاہئے ۔
احناف مین دو (۲)گروہ ہیں ۔ ایک اسے حرام کہتا ہے ۔ دوسرا جائز قرار دیتا ہے ۔ جواز کے لئے شرط یہ ہے کہ اس پر رقم کی باز ی نہ لگے۔ نیز نمازیں قضانہ کی جائین اور فحش سے بچا جائے۔
علماء و فقہاء کے کچھ فرموداتمع حوالہ یہ ہیں :۔ فتاویٰ مجمع البرکات میں ہے :۔ 
’’شطرنج کا کھیل علماء کے مابین فقہی اعتبار سے مختلف فیہ ہے ۔ کچھ اسے جائز قرار دیتے ہیں ، کیوں کہ اس سے جنگ میں مدد ملتی ہے اور حریف کی پوزیشن معلوم ہوجاتی ہے ۔ لیکن جواز تین (۳) شرطوں سے مشروط ہے ۔ اول قمار نہ ہو، تاخیر نہ کی جائے سوئم گال گلوج اور فحش کلامی کی نوبت نہ آئے اگر ان میں سے کوئیشرط معدوم ہوگی تو جواز مرتفع ہوجائے گا اور کھیلنے والا مرد ود الشہادۃ قرار پائے گا۔‘‘
در مختار میں ہے:۔
’’اس شخص کی شہادۃ مردود ہوگی جو شطرنج میں قمار کھیلے یا نماز ین قضا کرے یا اس پر بکثرت قسمیں کھائے یا عام گذر گاہوں پر کھیلے یا دائمی طور پر کھیلے ۔‘‘
شارح وہبانیہ لکھتے ہیں :۔ 
’’قاضی شرق و غربؒ سے منقول ہے شطرنج کھیلنے میں کچھ حرج نہیں ہے ۔‘‘
تنویر الابصار میں ہے :۔
’’چو سر اور شطرنج کھیلنا مکروہ تحریمی ہے۔‘‘ 
امام غزالی خلاصے میں تو مکروہ لکھتے ہیں ، لیکن احیاء العلوم میں جائز قرار دیتے ہیں ، لیکن دوام اور کثرت پھر بھی سخت مکروہ ہے ۔
امام بیہقیؒ نے شعب الایمان مین ایک حدیث بھی روایت کی ہے کہ لایلعب بالشطرنج الاخاطئ (شطرنج خطا کار ہی کھیلتا ہے )لیکن اول تو اس کی سند میں گفتگو ہے دوسرے یہ فقہی فیصلہ دینے میں صریح نہیں ۔ خطا کار تو وہ شخص یقیناًہے ہی جو مفید اور ثواب دینے والے کاموں کے عوض کھیل کود میں وقت گنواتا ہے ، لیکن یہ خطا شریعت میں علی الاطلاق حرمت کے دائریمیں نہیں آتی ۔ اس اصول پر تو وہ تمام کا م حرام ہوجائین گے جو وقت کو کھاتے ہیں اور ثواب کچھ نہیں دیتے حالاں کہ ایسا ہرگز نہین ہے ۔ تفریح کیخاطر ایسے اوقات ضائع کردیناجن میں کوئی فریضہ ضائع نہ ہو رہا ہو شرعی جواز رکھتا ہے ۔ اور جواز شاید اسی لئے ہوکہ تفریح بھی بجائے خود ایک ضرورت ہے اور اسلام کاقانون ضرورت کی حد بندی میں اتنا سخت گیر نہیں ہے جتنا بعض یا بس مزاج اور تقشف پسند حضرات سمجھتے ہیں ۔
کچھ علماء و فقہا کے اقوال ہم نے نقل کردئے ۔ ان میں غور و فکر اور شریعت کے احکام میں تفحص کے بعد جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ شطرنج ایک ایسا کھیل ہے جو نکو کاروں کے شایانِ شان نہیں ۔ کام کے آدمیوں کو اس سے دور ہی رہنا چاہئے ۔ اسے کھیلنا وقت کا ایک برا مصرف ہے ۔
لیکن کوئی شخص نمازیں ضائع کئے بغیر شائستگی کے ساتھ کبھی کبھار اسے کھیل لیتا ہے تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ فعلِ حرام کامرتکب ہورہا ہے ۔ 
عجیب لطیفہ ہے ۔ بعض لوگوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ شطرنج کو تو وہ شدت کے ساتھ حرام قرار دیتے ہیں اور اس کے کھیلنے والے سے بغض کی حد تک نفرت واستکراہ کا مظاہرہ فرماتے ہیں ، لیکن کرکٹ جب سے مقبول عام ہوئی ہے یہ اس مین خاصی دلچسپی لے رہے ہیں ۔ میچوں کے ایام میں ریڈیو سے لو لگائے انھیں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور کبھی کوئی لفظِ استکراہ کرکٹ یا اس کے کھلاڑیوں کے لئے ان کی زبانِ مبارک سے نہیں سنا ۔ کیا کرکٹ ان کی نگاہ میں بلا کراہت جائز ہے جب کہ اس کے میچ کا آئینی پروگرام نمازوں کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ حالاں کہ شطرنج اپنی بے پناہ وقت خوری کے باوجود اتنی گنجائش بہر حال رکھتی ہے کہ آدمی نماز باجماعت کا وقت نکال لے۔ یا ایسے اوقات منتخب کرے جن میں ترکِ جماعت کا اندیشہ نہ ہو۔
خیر یہ تو ضمنی بات تھی ۔ اصل جواب کا خلاصہ یہ نکلا کہ شطرنج کھیلنا جائز ہے حرام نہیں ، لیکن اس کا بکثرت شغل ناجائز ہے ، اور جو شخص کبھی کبھا ر شغل کرے اسے بھی نماز باجماعت کا خیال رکھنا چہئے۔نیز شائستگی کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہئے ۔ شارع عام پر کھیلنا یا جاہلون کیسی فحش کلامیوں کے ساتھ کھیلنا اس شغل کو حرمت کے دائرے میں کھینچ لاتا ہے ۔
رہا حنفی مقلدین کا معاملہ تو یہ معلوم ہوچکا کہ خود بعض احناف بھی جواز کے قائل ہیں ۔ لہذٰا جواز کا عقیدہ رکھنے والا غیر مقلدین بھی نہیں کہلائے گا ۔ واللہ اعلم با لصواب۔