Monday, March 18, 2013

ان شوخ حسینوں کی ادا اور ہی کچھ ہے




(۳)

ان شوخ حسینوں کی ادا اور ہی کچھ ہے 
اور ان کی اداؤں میں مزا اور ہی کچھ ہے 
یہ دل ہے مگر دل میں بسا اور ہی کچھ ہے 
دل آئینہ ہے جلوہ نما اور ہی کچھ ہے 
ہم آپ کی محفل میں نہ آنے کونہ آتے 
کچھ اور ہی سمجھے تھے ہوا اور ہی کچھ ہے 
بے خو د بھی ہیں ہشیار بھی ہیں دیکھنے والے 
ان مست نگاہوں کی ادا اور ہی کچھ ہے 
آزادؔ ہوں اور گیسوئے پیچاں میں گرفتار
کہہ دو مجھے کیا تم نے سنا اور ہی کچھ ہے 
***

کیوں اسیر گیسوئے خم دار قاتل ہو گیا




(۲)

کیوں اسیر گیسوئے خم دار قاتل ہو گیا
ہائے کیا بیٹھے بٹھائے تجھ کو اے دل ہو گیا
کوئی نالاں ، کوئی گریاں ، کوئی بسمل ہو گیا
ا س کے اٹھتے ہی دگرگوں رنگ محفل ہو گیا
انتظار اس گلی کا اس درجہ کیا گلزار میں 
نور آخر اس گلی میں دیدۂ نرگس کا زائل ہو گیا
اس نے تلواریں لگائیں ایسے کچھ انداز سے 
دل کا ہر ارماں فدا اے دست قاتل ہو گیا
قیس مجنوں کا تصور جب بڑھ گیا نجد میں 
ہر بگولہ دشت کا لیلئ محمل ہو گیا 
یہ بھی قیدی ہو گیا آخر کمند زلف کا
لے اسیروں میں ترے آزادؔ شامل ہو گیا

مولانا آزاد کی غزلیں



مولانا آزاد کی غزلیں 
(۱)

ہے عکس روئے یار دل داغ دار میں 
کچھ تیرگی نہیں ہے ہمارے مزار میں 
کچھ ایسے  محو ہو گئے اقرار یار میں 
لطف انتظار کا نہ ملا انتظار میں 
دوچند اس سے حسن پہ ان کو غرور ہے 
جتنا نیاز و عجز ہے مجھ خاکسار میں 
وہ پیاری پیاری شکل وہ انداز دل فریب 
رہتا نہیں ہے دیکھ کے دل اختیار میں 
ایسی بھری ہیں یار کے دل میں کدورتیں 
نامہ لکھا ہے مجھ کو تو خط غبار میں 
ہم کچھ وصف کاکل پیچاں نہ لکھ سکے 
مضموں الجھ رہے ہیں قلم مشکبار میں 
کچھ بھی نہ اس کی وعدہ خلافی کا رنج ہو
آ جائے موت ہی جو شب انتظار میں 
اے موت تو ہی آنہ آئیں گے وہ کبھی
آنکھیں ہیں اک عرصے سے وا انتظار میں 
سمجھو کہ کس کو کہتے ہیں تکلیف انتظار
بیٹھو کبھی جو دیدۂ خوننابہ یار میں 
سودائے زلف و رخ میں غضب کا ہے انتظار
اب آ گئے ہیں گردش لیل و نہار میں 
بیٹھے ہیں آج آپ تو پہلو میں غیر کے 
ہم ہوں گے کل عروس اجل کے کنار میں 
مٹ کر ہوں خاک سرمہ کی مانند بھی اگر
پھر بھی کبھی سمائیں نہ ہم چشم یار میں 
کہنے لگے کہ آپ کی نیت تو ٹھیک ہے 
بیتاب مجھ کو دیکھ کے بوس و کنار میں 
شکوہ کریں تو کیا کریں جور و جفا کا ہم
سب عمر کٹ گئی ستم روزگار میں 
مرنے کے بھی ہے وہی کشمکش خدا
میں قبر میں ہوں دل مرا ہے کوئے یار میں 
تقدیر کے لکھے کو مٹانا محال ہے 
کیا دخل ہے مشیت پروردگار میں 
بجلی سی کوند جاتی ہے گھونگھٹ کی آڑ  میں 
کیا شوخیاں ہیں اس نگہ شرمسار میں 
دعوائے عاشقی پہ یہ کہنے لگا وہ بت
اللہ کی شان !آپ بھی ہیں اس شمار میں 
پامال کیجئے گا سمجھ کر خدا اسے 
ہے آپ ہی کا گھر دل بے اختیار میں 
سودا نیا ، جنوں ہے نیا ، ولولے نئے 
اب اور ہی بہار ہے اب کے بہار میں 
دل پر لگی وہ چوٹ کہ اف کر کے رہ گئے 
ٹوٹا جو گرکے جام کوئی بزم یار میں 
گر ان پہ اختیار نہیں ہے نہیں سہی
غم ہے یہی دل بھی نہیں اختیار میں 
اے دل خدا کی یاد میں اب صرف عمر ہو
کچھ کم پھرے صنم کدۂ روزگار میں 

مولانا ابوالکلام آزادؔ




مولانا ابوالکلام آزادؔ

(۱۸۸۸ء-۱۹۵۸ء)

مولانا آزاد یقیناً اپنے دور کے نابغہ تھے۔ بہت کم عمری میں انہوں نے شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا تھا۔ آپ جامع الکمالات شخصیت تھے۔ آپ نے ایک زندگی میں جتنے کارنامے انجام دئے ہیں شاید ہی کوئی دوسرا شخص کئی زندگیاں پا کر بھی اتنے کارنامے انجام نہیں دے سکتا۔ ان کا خاص وصف یہ تھا کہ جس میدان میں بھی قدم رکھتے اپنا لوہا منوا کر دم لیتے۔ 
        والد محترم مولانا خیر الدین (۱۸۳۱۔ ۱۹۰۸)نے انگریزوں کے ظلم و ستم سے بد دل ہو کر مکۂ معظمہ کی طرف ہجرت کی۔ جہاں عرب  بیوی عالیہ مرحومہ کے بطن سے ۱۸۸۸ء میں مولانا ابوالکلام آزادؔ پیدا ہوئے۔ آپ کا تاریخی نام فیروز بخت تھا۔ مولوی خیرالدین نے ۱۸۹۸ء میں ہندوستان کو وطن ثانی بنایا اور کلکتہ میں سکونت اختیار کی۔ مولانا ۱۳سال کی عمر میں درس نظامی اور دیگر کتب متداولہ کی تدریس سے فارغ ہو چکے تھے اور آپ نے اسی عمر میں دینی علوم ،  طب و فلسفہ وغیرہ میں قابل رشک استعداد پیدا کر لی۔ 
مولانا نے ابتداء عمری میں شاعری کی اور کچھ غزلیں کہیں۔ امیر مینائی اور داغ دہلوی سے اصلاح لی۔ ’’ارمغان فرخ ‘‘ممبئی میں مولانا آزاد کی پہلی غزل شائع ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک صاحب کو مولانا آزاد کے شاعر ہونے میں شک تھا۔ چنانچہ ایک موقعے پر انہوں نے مولانا کو ایک طرحی مصرعہ دیا اور کہا کہ اس مصرعے پر اگر تم غزل کہہ دو گے تو میں تمھاری قابلیت کو مان جاؤں گا۔ کچھ ہی دیر میں مولانا نے ایک مرصع غزل حاضر کر دی۔ ان صاحب نے بے اختیار کہا ’’قسم سے صاحبزادے !یقین نہیں ہوتا کہ تم نے ہی غزل کہی ہے ‘‘۔ 
۱۶سال کی عمر سے ہی ان کے مضامین ’’مخزن‘‘ لاہور’’ احسن الأخبار‘‘ کلکتہ اور ’’مرقع عالم ‘‘ہردوئی میں شائع ہونے لگے۔ اور یہیں سے مولانا کے علم و فضل کی خوشبو پورے ہندوستان میں مشک و عنبر کی طرح پھیلتی چلی گئی۔ آپ نے ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ جیسے دو رسالے شائع کئے۔ جو صحافت کی دنیا کے دو جگمگاتے ستارے تھے اور یہ ستارے مسلمانوں کے ذہنوں کو جلا بخشنے کے ساتھ ساتھ آزادیِ ہند میں ان کی صحیح رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیا کرتے تھے۔ 
مولانا نے آزادی کی جد و جہد میں اپنے قلم اور عمل کے ذریعے بھرپور حصہ لیا۔ کبھی اسیر زنداں ہوئے۔ کبھی اخبار کی ضمانت ضبط ہونے پر بھاری جرمانہ ادا کیا۔ لیکن اپنے موقف سے بال برابر بھی نہیں ہٹے۔ اور اپنے نظریات میں ذرا بھی تبدیلی گوارا نہیں کی۔ 
مولانا بڑی خو بصورت نثر لکھتے تھے اتنی خوبصورت اور لاجواب نثر کہ مت پوچھیں ! آپ کی نثر شاعروں کو بھی شرمسار کر دیتی تھی۔ مولانا حسرت موہانی کا یہ شعر مولانا کی نثر کی تابناکیوں کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہے ؂
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رپا
مولانا کو فارسی اور عربی ادب کا اچھا خاصا مطالعہ تھا۔ یہی وجہ ہے وہ اپنی نثر کے دوران عربی و فارسی اشعار ،  قرآنی آیات اور احادیث کے ٹکڑے بے دھڑک استعمال کرتے تھے۔ کبھی اتنی برجستگی اور بے ساختگی سے کہ دل سے واہ واہ نکل جاتی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ گو یا یہ قرآنی آیت ابھی نازل ہوئی ہے۔ ’’غبار خاطر‘‘ ’’تذکرہ ‘‘’’ترجمان القران‘‘ مولانا آزاد کے ایسے نثری شاہ کا رہیں کہ جن کی مثال دنیا آج بھی دینے سے قاصر ہے۔ 
مولانا آزاد کا حوصلہ بحر بحر تھا۔ وہ جس کام کا بھی ارادہ کرتے پنجے جھاڑ  کر اس کے پیچھے لگ جاتے۔ پھر چاہے طوفان آئے ،  آندھی چلے ،  زلزلے آئیں وہ اپنے ارادے سے ذرہ برابر بھی پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔ 
مولانا اپنے ہم عصروں میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے۔ ان کی شہرت سے ہندوستان کا چپہ چپہ مہک اٹھا۔ ان کی حد سے بڑھی ہوئی شہرت کے سبب ان کے کئے حاسدین پیدا ہو گئے تھے لیکن مولانا آزاد نے اپنے کسی حاسد کو کوئی جواب نہیں دیا۔ 
آپ کا انتقال ۱۹۵۸ء کو ہوا۔ 
***