Monday, March 18, 2013

مولانا آزاد کی غزلیں



مولانا آزاد کی غزلیں 
(۱)

ہے عکس روئے یار دل داغ دار میں 
کچھ تیرگی نہیں ہے ہمارے مزار میں 
کچھ ایسے  محو ہو گئے اقرار یار میں 
لطف انتظار کا نہ ملا انتظار میں 
دوچند اس سے حسن پہ ان کو غرور ہے 
جتنا نیاز و عجز ہے مجھ خاکسار میں 
وہ پیاری پیاری شکل وہ انداز دل فریب 
رہتا نہیں ہے دیکھ کے دل اختیار میں 
ایسی بھری ہیں یار کے دل میں کدورتیں 
نامہ لکھا ہے مجھ کو تو خط غبار میں 
ہم کچھ وصف کاکل پیچاں نہ لکھ سکے 
مضموں الجھ رہے ہیں قلم مشکبار میں 
کچھ بھی نہ اس کی وعدہ خلافی کا رنج ہو
آ جائے موت ہی جو شب انتظار میں 
اے موت تو ہی آنہ آئیں گے وہ کبھی
آنکھیں ہیں اک عرصے سے وا انتظار میں 
سمجھو کہ کس کو کہتے ہیں تکلیف انتظار
بیٹھو کبھی جو دیدۂ خوننابہ یار میں 
سودائے زلف و رخ میں غضب کا ہے انتظار
اب آ گئے ہیں گردش لیل و نہار میں 
بیٹھے ہیں آج آپ تو پہلو میں غیر کے 
ہم ہوں گے کل عروس اجل کے کنار میں 
مٹ کر ہوں خاک سرمہ کی مانند بھی اگر
پھر بھی کبھی سمائیں نہ ہم چشم یار میں 
کہنے لگے کہ آپ کی نیت تو ٹھیک ہے 
بیتاب مجھ کو دیکھ کے بوس و کنار میں 
شکوہ کریں تو کیا کریں جور و جفا کا ہم
سب عمر کٹ گئی ستم روزگار میں 
مرنے کے بھی ہے وہی کشمکش خدا
میں قبر میں ہوں دل مرا ہے کوئے یار میں 
تقدیر کے لکھے کو مٹانا محال ہے 
کیا دخل ہے مشیت پروردگار میں 
بجلی سی کوند جاتی ہے گھونگھٹ کی آڑ  میں 
کیا شوخیاں ہیں اس نگہ شرمسار میں 
دعوائے عاشقی پہ یہ کہنے لگا وہ بت
اللہ کی شان !آپ بھی ہیں اس شمار میں 
پامال کیجئے گا سمجھ کر خدا اسے 
ہے آپ ہی کا گھر دل بے اختیار میں 
سودا نیا ، جنوں ہے نیا ، ولولے نئے 
اب اور ہی بہار ہے اب کے بہار میں 
دل پر لگی وہ چوٹ کہ اف کر کے رہ گئے 
ٹوٹا جو گرکے جام کوئی بزم یار میں 
گر ان پہ اختیار نہیں ہے نہیں سہی
غم ہے یہی دل بھی نہیں اختیار میں 
اے دل خدا کی یاد میں اب صرف عمر ہو
کچھ کم پھرے صنم کدۂ روزگار میں 

مولانا ابوالکلام آزادؔ




مولانا ابوالکلام آزادؔ

(۱۸۸۸ء-۱۹۵۸ء)

مولانا آزاد یقیناً اپنے دور کے نابغہ تھے۔ بہت کم عمری میں انہوں نے شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا تھا۔ آپ جامع الکمالات شخصیت تھے۔ آپ نے ایک زندگی میں جتنے کارنامے انجام دئے ہیں شاید ہی کوئی دوسرا شخص کئی زندگیاں پا کر بھی اتنے کارنامے انجام نہیں دے سکتا۔ ان کا خاص وصف یہ تھا کہ جس میدان میں بھی قدم رکھتے اپنا لوہا منوا کر دم لیتے۔ 
        والد محترم مولانا خیر الدین (۱۸۳۱۔ ۱۹۰۸)نے انگریزوں کے ظلم و ستم سے بد دل ہو کر مکۂ معظمہ کی طرف ہجرت کی۔ جہاں عرب  بیوی عالیہ مرحومہ کے بطن سے ۱۸۸۸ء میں مولانا ابوالکلام آزادؔ پیدا ہوئے۔ آپ کا تاریخی نام فیروز بخت تھا۔ مولوی خیرالدین نے ۱۸۹۸ء میں ہندوستان کو وطن ثانی بنایا اور کلکتہ میں سکونت اختیار کی۔ مولانا ۱۳سال کی عمر میں درس نظامی اور دیگر کتب متداولہ کی تدریس سے فارغ ہو چکے تھے اور آپ نے اسی عمر میں دینی علوم ،  طب و فلسفہ وغیرہ میں قابل رشک استعداد پیدا کر لی۔ 
مولانا نے ابتداء عمری میں شاعری کی اور کچھ غزلیں کہیں۔ امیر مینائی اور داغ دہلوی سے اصلاح لی۔ ’’ارمغان فرخ ‘‘ممبئی میں مولانا آزاد کی پہلی غزل شائع ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک صاحب کو مولانا آزاد کے شاعر ہونے میں شک تھا۔ چنانچہ ایک موقعے پر انہوں نے مولانا کو ایک طرحی مصرعہ دیا اور کہا کہ اس مصرعے پر اگر تم غزل کہہ دو گے تو میں تمھاری قابلیت کو مان جاؤں گا۔ کچھ ہی دیر میں مولانا نے ایک مرصع غزل حاضر کر دی۔ ان صاحب نے بے اختیار کہا ’’قسم سے صاحبزادے !یقین نہیں ہوتا کہ تم نے ہی غزل کہی ہے ‘‘۔ 
۱۶سال کی عمر سے ہی ان کے مضامین ’’مخزن‘‘ لاہور’’ احسن الأخبار‘‘ کلکتہ اور ’’مرقع عالم ‘‘ہردوئی میں شائع ہونے لگے۔ اور یہیں سے مولانا کے علم و فضل کی خوشبو پورے ہندوستان میں مشک و عنبر کی طرح پھیلتی چلی گئی۔ آپ نے ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ جیسے دو رسالے شائع کئے۔ جو صحافت کی دنیا کے دو جگمگاتے ستارے تھے اور یہ ستارے مسلمانوں کے ذہنوں کو جلا بخشنے کے ساتھ ساتھ آزادیِ ہند میں ان کی صحیح رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیا کرتے تھے۔ 
مولانا نے آزادی کی جد و جہد میں اپنے قلم اور عمل کے ذریعے بھرپور حصہ لیا۔ کبھی اسیر زنداں ہوئے۔ کبھی اخبار کی ضمانت ضبط ہونے پر بھاری جرمانہ ادا کیا۔ لیکن اپنے موقف سے بال برابر بھی نہیں ہٹے۔ اور اپنے نظریات میں ذرا بھی تبدیلی گوارا نہیں کی۔ 
مولانا بڑی خو بصورت نثر لکھتے تھے اتنی خوبصورت اور لاجواب نثر کہ مت پوچھیں ! آپ کی نثر شاعروں کو بھی شرمسار کر دیتی تھی۔ مولانا حسرت موہانی کا یہ شعر مولانا کی نثر کی تابناکیوں کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہے ؂
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رپا
مولانا کو فارسی اور عربی ادب کا اچھا خاصا مطالعہ تھا۔ یہی وجہ ہے وہ اپنی نثر کے دوران عربی و فارسی اشعار ،  قرآنی آیات اور احادیث کے ٹکڑے بے دھڑک استعمال کرتے تھے۔ کبھی اتنی برجستگی اور بے ساختگی سے کہ دل سے واہ واہ نکل جاتی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ گو یا یہ قرآنی آیت ابھی نازل ہوئی ہے۔ ’’غبار خاطر‘‘ ’’تذکرہ ‘‘’’ترجمان القران‘‘ مولانا آزاد کے ایسے نثری شاہ کا رہیں کہ جن کی مثال دنیا آج بھی دینے سے قاصر ہے۔ 
مولانا آزاد کا حوصلہ بحر بحر تھا۔ وہ جس کام کا بھی ارادہ کرتے پنجے جھاڑ  کر اس کے پیچھے لگ جاتے۔ پھر چاہے طوفان آئے ،  آندھی چلے ،  زلزلے آئیں وہ اپنے ارادے سے ذرہ برابر بھی پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔ 
مولانا اپنے ہم عصروں میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے۔ ان کی شہرت سے ہندوستان کا چپہ چپہ مہک اٹھا۔ ان کی حد سے بڑھی ہوئی شہرت کے سبب ان کے کئے حاسدین پیدا ہو گئے تھے لیکن مولانا آزاد نے اپنے کسی حاسد کو کوئی جواب نہیں دیا۔ 
آپ کا انتقال ۱۹۵۸ء کو ہوا۔ 
***

کچھ اپنے بارے میں






  1. کچھ اپنے  بارے  میں 


ناچیز کا اصلی نام سید ظہیر ہے، ظہیر الدین کے  قلمی نام سے  ادبی دنیا میں  مجھے  جانا جاتا ہے۔ مطالعے  کا ذوق و شوق بچپن سے  تھا۔ اردو زبان سے  محبت گھٹی میں  پڑی ہوئی تھی، مجھے  یاد آ رہا ہے  کہ جب میں  سات سال کا تھا تو انجمن اشاعت اسلام کی اردو کی تیسری پڑھ رہا تھا۔ استاذ ایک صفحہ سبق دیتے  تو میں  تین صفحات سنا آتا۔ رفتہ رفتہ یہی میری عادت بن گئی۔ استاذ بھی میرے  اس شوق سے  بہت خوش تھے، مجھ پر خصوصی توجہ دینے  لگے۔
جب شعور کچھ اور جوان ہوا تو میں  نے  اپنے  گھر میں  کتابوں  کو تلاش کیا، چند کتابیں  میرے  ہاتھ لگیں، جو غالباً یہ تھیں، آداب زندگی، آمنہ کا لال، قصص الانبیاء، پہلی فرصت میں  ان تینوں  کتابوں  کو چاٹ ڈالا۔ کچھ سمجھ میں  آیا کچھ نہیں، یہ میری کتابوں  سے  پہلی دوستی تھی۔ پہلا شعوری معانقہ تھا۔ اس کے  بعد جب بھی میں  نے  کتاب کی طرف نظر دوڑائی اس نے  مجھے  مایوس نہ کیا۔
اس کے  بعد شعور نے  کروٹ لی، کچھ اور بیدار ہوا، میں  دارالعلوم حیدر آباد میں  حفظ کا طالب علم تھا۔ مجھے  غالباً ماہانہ ۵۰ روپیے  ملا کرتے  تھے، جن کا بہترین مصرف میری نظر میں  یہ تھا کہ ان سے  کتابیں  خرید لی جائیں۔ میں  چار مینار جاتا، جو جو کہانی کی کتاب پسند آتی خرید لاتا۔ میں  نے  قصۂ حاتم طائی، الف لیلہ اسی دور میں  پڑھی۔ مکتبۂ جامعہ سے  اپنی پسند کی کتابیں  بھی کبھی کبھار منگوا لیا کرتا تھا۔ ڈوب کر مطالعہ کرتا تھا۔ ہمارے  ساتھیوں  کو میرے  مطالعے  کے  ذوق پر حیرت تھی۔ کیونکہ عموماً حفظ کے  طلباء اردو صحیح سے  دیکھ کر پڑھنا نہیں  جانتے  تھے۔ حفظ کے  طلباء کو اردو سکھانے  کے  لیے  ایک گھنٹہ مختص تھاعبد الوھاب صاحب ہمیں اردو پڑھاتے  تھے۔ وہ نہایت مشکل الفاظ املا کراتے، میں  بغیر کسی دقت کے  صحیح املا کر دیتا۔ جسے  دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتے۔ جب امتحان کا وقت آیا تو اردو کا امتحان غالباً مولوی زکریا صاحب نے  لیا تھا۔ انہوں  نے  میری اچھی کارکردگی پر خوش ہو کر غالباً ایک روپیہ انعام کے  طور پر دیا تھا، مجھے  اس انعام کے  حصول پر اتنی خوشی ہوئی کہ مت پوچھیں !
رات میں  سونے  کے  قریب اپنے  دوستوں  کو کہانیاں  سنایا کرتا تھا، جنہیں  وہ بغور سنا کرتے  تھے۔ پیام تعلیم بڑی دلچسپی سے  پڑھا کرتا تھا۔ اس کے  اشعار، لطائف بطور خاص پڑھ کر اپنے  ساتھیوں  کو سنایا کرتا تھا۔
میرے  حفظ کے  استاذ مولانا صلاح الدین صاحب تھے، جو بلاک بیلٹ تھے۔ ہمیں  کراٹے  سکھاتے  تھے۔ میں  نے  اپنی زندگی میں  ان سے  زیادہ مشفق، مہربان،نرم دل، مخلص استاذ کہیں  نہیں  دیکھا۔ فجر کے  فوری بعد میں  سبق سنا دیا کرتا تھا، بعد میں  آرام سے  پارۂ سبق اور آموختہ سناتا۔ خاص دوستوں  میں  سے  سیف اللہ خالد عمری، حافظ عظیم الحق، محمد اعظم اعظمی قاسمی، محمد طلحہ شامل تھے۔ سوائے  اعظم کے  سبھی ایک ہی جماعت کے  طلبہ تھے۔ ایک ہی استاذ سے  پڑھتے  تھے۔ ہم سب نے  ایک ساتھ قرآن ختم کیا، تقریباً ۲۰ دورے  بھی کیے۔ مسابقۂ حفظ قرآن پر گویا ہ،اری حکومت تھی، پہلا، دوسرا، تیسرا انعام ہماری جماعت کو ملنا یقینی تھا۔ دارالعلوم حیدرآباد کی لائبریری المکتبۃ الخالدیۃ سے  میں  نے  از حد استفادہ کیا۔ تاریخ الخلفاء ہو یا تاریخ دارالعلوم، تحریک ریشمی رومال ہو یا تاریخ حرمین، مولانا قاسم نانوتوی، حیات اور ادبی خدمات ہو یا سوانح قاسمی، یہ تمام کتابیں  میں  نے  یہیں  پڑھیں، خطبات کی کتابوں  میں  خطبات دین پوری بڑے  شوق سے  پڑھتا تھا۔ اگر چہ تقریر و خطابت سے  مجھے  دور دور کا بھی واسطہ نہیں  تھا۔
ارتکاز مطالعہ مجھے  یہاں  میسر نہیں  تھا۔ ایک موضوع پر مختلف مصنفین کی لکھی ہوئی کتابیں  پڑھنا اور اپنی معلومات کو وسعت دینا میرے  لیے  یہاں  ممکن نہ تھا۔ کیونکہ یہ کتب خانہ بکھرا ہوا کتب خانہ تھا۔ میرے  مطالعے  کی تسکین کے  لیے  معتد بہ کتابیں  یہاں  موجود نہیں  تھیں۔ ضرورت یہ سمجھی گئی کہ کسی دوسرے  کتب خانے  سے  استفادہ کیا جائے۔ افضل گنج کا کتب خانۂ آصفیہ اپنی بیش بہا کتابوں، نادر مخطوطات کے  لیے  شہرت رکھتا تھا۔ ایک جمعرات کی شام بڑی جماعت کے  ایک ساتھی محمد حامد کے  ساتھ اس لائبریری کا رخ کیا۔ عقل حیران تھی کہ خدایا ! یہ میں  کس جہاں  میں  آ گیا۔ کہ یہاں  قدم قدم پہ علم و ادب کے  موتی بکھرے  پڑے  تھے۔ اندھا کیا چاہے  دو آنکھیں ! بھلا میرے  لیے  اچھی کتابوں  سے  بہتر کیا چیز ہو سکتی تھی!  میں  نے  کتب خانۂ آصفیہ کو لازم پکڑ لیا۔ خوب کتابیں  پڑھیں، ناول پڑھے، افسانوی مجموعے، سیرت پر کتابیں، شاعری کے  مجموعے، تاریخی کتابیں  دل لگا کر مزا لے  لے  کر پڑھیں۔ میرا معمول تھا کہ جمعہ کے  دن صبح سات بجے  غسل سے  فارغ ہو جاتا، پھر سیدھے  کتب خانۂ آصفیہ چلا جاتا، بس کے  ذریعہ جانے  میں  تقریباً ایک گھنٹہ لگ جاتا، ٹھیک آٹھ بجے  میں  لائبریری میں  داخل ہو چکا ہوتا، اپنی پسند کی کتاب لی اور لگے  مطالعہ کرنے ! اس کے  بعد ہوش اس وقت آتا جب جمعہ کی اذان ہوتی، جمعہ کی نماز کے  لیے  جانے  کو جی نہ چاہتا، مگر زبردستی کر کے  قریبی مسجد ’’مسجدِ چمن‘‘ میں  جمعہ پڑھنے  چلا جاتا، نماز کے  بعد واپس آ کر اپنے  پسندیدہ شغل مطالعے  میں  غرق ہو جاتا، غالباً شام پانچ بجے  یہاں  سے  واپس ہوتا، میں  نے  اپنے  دوست کے  نام سے  لائبریری کا ممبر کارڈ بھی بنا رکھا تھا، جس کے  توسط سے  ایک آدھ کتاب کبھی کبھی مدرسے  لے  آتا۔ ایک آدھ دن میں  وہ کتاب ختم ہو جاتی۔
آپ یہ نہ سمجھیں  کہ یہ کسی بڑی جماعت کے  طالب علم کے  شوق ہیں، نہیں  ! بالکل نہیں !یہ ضرب یضرب، نصر ینصر کی گردان کرنے  والے  جماعت اول کے  طالب علم کے  شوق ہیں، غالباً اسی سال بیت بازی کا مقابلہ منعقد ہوا، جس میں  ایک پوائنٹ سے  ہماری ٹیم ہار گئی، جماعت سوم میں  پھر بیت بازی کا مقابلہ ہوا، مجھے  ایک ٹیم کا لیڈر مقرر کیا گیا، پچھلی ہار مجھے  نہیں  بھولی تھی، میں  نے  جم کر تیاری کی، اپنے  ساتھیوں  کو بھی خوب تیار کیا، حتیٰ کہ مقابلے  کا دن آ گیا، الحمد للہ میں  نے  مخالف ٹیم کو شکست فاش دے  دی، بیت بازی کے  اس مقابلے  میں  ہماری ٹیم کو فاتح شمار کیا گیا، اچھے  انعامات سے  نوازا گیا، جو کتابیں  مجھے  اس وقت انعام میں  دی گئیں  تھیں  وہ آج بھی میرے  پاس محفوظ ہیں۔
اس دوران مجھے  جامعہ دارالسلام جانے  کا اتفاق ہوا، (جہاں  میرے  دوست کے۔ خالد سیف اللہ عمری کرنولی پڑھ رہے  تھے ) میں  نے  جب جامعہ کا ماحول دیکھا، وہاں  کی عمارتیں  دیکھیں  تو بے  اختیار میرا دل مچلنے  لگا کہ اگر پڑھنا ہے  تو اسی مدرسے  میں  پڑھنا ہے  ورنہ نہیں ، سالانہ امتحانات ختم ہوئے، میں  نے  اپنے  والد صاحب کے  ہمراہ جامعہ کا رخ کیا۔ جامعہ سے  اگرچہ کہ نا منظوری آئی تھی مگر ہم مایوس نہیں  ہوئے۔ بالآخر بڑی مشکلوں  سے  جماعت چہارم میں  میرا داخلہ ہو گیا۔ وہاں  کی لائبریری پہلی فرصت میں  دیکھ ڈالی، کتابوں  کا انبار دیکھ کر آنکھیں  پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، جماعت چہارم سے  میرے  مطالعے  کا جو سفر شروع ہوا وہ آٹھویں  جماعت پہ ختم ہوا۔
کتاب ہی کے  حوالے  سے  ادباء شعراء سے  رابطہ رہنے  لگا، مختلف اخبارات ورسائل میں  میرے  تبصرے  !تعارفی مضامین شائع ہونے  لگے۔ اس کے  بعد مجھ پر لکھنے  کا جنون سا طاری ہو گیا۔ میں  مسلسل لکھتا رہا، شائع ہوتا، ادباء شعراء اپنی کتابیں  تبصرے !مضمون کی فرمائش کے  ساتھ بھیجنے  لگے، اس طرح شعراء و ادباء سے  میرے  رابطے  استوار ہوئے۔
ادبی دنیا میں  میرا داخلہ ہوا، کچھ نظمیں  پرواز ادب میں  شائع ہوئیں، راشٹریہ سہارا میں  افسانے  شائع ہوئے۔ مگر صحیح بات یہ ہے  کہ میں  تنقید کا آدمی ہوں، مجھے  تنقید لکھنا سب سے  اچھا لگتا ہے، فاروقی کا مداح ہوں، ان کی تنقیدی تحریر جہاں  ملتی ہے  سرمۂ نگاہ بنا لیتا ہوں۔ تنقید کی بات نکل ہی گئی ہے  یہ بات بتاتا چلوں  کہ پاکستان کے  ایک بزرگ مزاح نگار انوار احمد علوی کی کتاب ۱۹۹۹ء میں  ’’جملہ حقوق غیر محفوظ‘‘ کے  نام سے  شائع ہوئی تھی، جس پر میں  نے  کچھ سخن گسترانہ قسم کا تبصرہ لکھ بھیجا، جو سفیر اردو لندن میں  شائع ہوا، ان بزرگ نے  اس کا بالکل برا نہیں  مانا بلکہ اپنی اس کتاب کے  دوسرے  ایڈیشن میں  اسے  شائع کر کے  معتبر کر دیا۔
کتاب کے  بارے  میں  ہر شخص کی کوئی نہ کوئی رائے  ہوتی ہے۔ اچھی یا بری، میری کتاب کے  بارے  میں  اپنی رائے  سے  ضرور آگاہ کیجیے  گا، میں  اس پتے  پر آپ کا منتظر رہوں  گا۔
دعاگو
ظہیر دانشؔ  عمری
25-08-09

ساحر شیوی کی دوہا نگاری (قرآن کے تناظر میں )



ساحر شیوی کی دوہا نگاری
(قرآن کے  تناظر میں )

دوہے  کا مخصوص مزاج، مخصوص آہنگ اور مخصوص انداز ہے۔ دوہا آسانی سے  شاعر کی گرفت میں  آ نہیں  پاتا تا آنکہ شاعر دوہے  کے  مزاج سے  کامل طور پر شناسا نہ ہو جائے، دوہا کہنا سمندر کو کوزے  میں  سمونے  کے  مترادف ہے۔ اردو میں  بہت سے  دوہا نگاروں  نے  اپنی مخصوص شناخت بنائی ہے، جن میں  جمیل الدین عالی، بھگوان داس اعجاز اور ڈاکٹر فراز حامدی نے  مخصوص پہچان بنائی ہے، ڈاکٹر فراز حامدی نے  دوہے  کی بڑی اچھی تعریف کی ہے  اتنی اچھی کہ دوہے  کی اس سے  بہتر تعریف شاید ناممکن ہے۔ 
تیرہ گیارہ ماترہ، بیچ بیچ وشرام
دو مصرعوں  کی شاعری، دوہا جس کا نام
ہند و پاک کے  ممتاز دوہا نگاروں  میں  ساحرؔ  شیوی کا شمار ہوتا ہے، انہیں  منفرد دوہا نگار کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے، ان کے  دوہوں  سے  ان کا مخصوص مزاج اور آہنگ جھلکتا ہے۔ وہ جس میدان کی طرف بھی گئے، کامیابی و کامرانی نے  ان کے  قدم چومے۔ انہوں  نے  ماہیے  لکھے، سین ریوز لکھے، ہائیکو لکھے، افسانے  لکھے، دوہے  لکھے، تعجب کی بات یہ ہے  کہ ہر صنف کو انہوں  نے  کامیابی کے  ساتھ برتا، انہوں  نے  ہر صنف کی اصل روح سمجھی، اور جو بھی لکھا پوری محنت، لگن اور کوشش سے  لکھا۔ 
ساحرؔ  شیوی نے  حمدیہ دوہے  بڑے  اچھے  لکھے  ہیں۔ آسمان و زمین کی ساری مخلوق، ساری کائنات، سارے  جمادات، نباتات، حیوانات اللہ کی کبریائی، اس کی عظمت، اس کی بڑائی بیان کرتی ہیں۔ فرشتے  انسان کی پیدائش سے  قبل ہی اس کی حمد وثنا بیان کرتے  رہے  ہیں۔ تسبح لہ السمٰوات السبع والارض ومن فیہن وان من شیٔ الا یسبح بحمدہ (اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے  ہیں  ساتوں  آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے  درمیان ہیں، اور ہر چیز اس کی تسبیح بیان کر رہی ہے۔ ) اردو زبان کے  بیشتر شعراء نے  حمد و مناجات پر مشتمل کلام عبادت سمجھ کر کہا ہے، حمد میں  با خدا دیوانہ باشد والا معاملہ ہوتا ہے، حمد میں  جتنا زیادہ مبالغہ ہو گا اتنا ہی اسے  مستحسن سمجھا جائے  گا۔ ساحرؔ  شیوی کے  حمد و مناجات پر مشتمل کلام کی اپنی الگ انفرادیت اور خصوصیت ہے، انہوں  نے  بڑے  انوکھے  انداز میں  اپنے  آقا و مولیٰ کی بڑائی بیان کی ہے :
کوئی کہے  رحمن تجھے، کوئی کہے  بھگوان
پوجا تیری جو کرے، ہے  وہ ہی انسان
تیری ذات قدیم ہے  تیری ذات عظیم
بیشک تو رحمن ہے  تجھ سا نہیں  رحیم
یا رب تو رکھنا مری قسمت کو بیدار
مجھ عاصی کو بخش دے  عزت کی دستار
یا رب ہم پر ہے  ترا کتنا بڑا احسان
تو نے  بنایا ہے  ہمیں  اک مومن انسان
اس نے  بن مانگے  دیا مجھ کو سکھ بھنڈار
ساحرؔ  اس کا شکریہ جس کا کل سنسار
بیشک ایسے  لوگ ہیں  جنت کے  مہمان
جو اللہ کی راہ میں  ہوتے  ہیں  قربان
یا رب ہم پر رحم کر بچ جائے  ایمان
انسانوں  کے  بھیس میں  پھرتے  ہیں  شیطان
حمد کے  بعد نعت کا نمبر آتا ہے، نعتیہ کلام کہنا ویسے  مشکل کام ہے، مگر نعتیہ دوہے  کہنا اس سے  مشکل عمل ہے۔ اس میں  با محمد ہوشیار والا معاملہ ہوتا ہے۔ صحابۂ کرام میں  بیشتر شعراء نے  نعت کہی ہے۔ جیسے  حسان بن ثابتؓ نے  کہا ہے :
خلقت مبرأ من کل عیب
کأنک قد خلقت کما تشاءٗ
شیخ سعدیؒ کی یہ رباعی آج بھی نعت کی بہترین مثال کہی جا سکتی ہے :
بلغ العلیٰ بکمالہ،
 کشف الدجیٰ بجمالہٖ
حسنت جمیع خصالہٖ
صلوا علیہ وآلہٖ
آپ علیہ السلام کی شان میں  خالق کونین بھی رطب اللسان ہے : وانک لعلیٰ خلق عظیم (بیشک آپ اخلاق کے  بلند مرتبے  پر فائز ہیں ) نعت کہنا جوئے  شیر لانے  کے  مترادف ہے، ساحرؔ  شیوی نے  بڑی کامیابی کے  ساتھ نعت کہی ہے، موصوف کے  اکثر نعتیہ دوہوں  میں  نبیٔ کریم ﷺ کی اطاعت کا پیغام ملتا ہے۔ من یطع الرسول فقد اطاع اللّٰہ (جس نے  رسولؐ کی اطاعت کی اس نے  اللہ کی اطاعت کی) وما اٰتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا (رسولؐ تمہیں  جو چیز دیں  اسے  لے  لو، اور جس سے  منع کریں  اس سے  رک جاؤ)  ومن یطع اللّٰہ والرسول فأولٰئک مع الذین أنعم اللّٰہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین (اور جو اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں  گے  وہ لوگ ان کے  ساتھ ہونگے  جن پر اللہ نے  انعام کیا ہے، یعنی انبیاء، اصدقاء، شہداء ور صالحین) ساحرؔ  شیوی کے  وہ دوہے  ملاحظہ کریں  جن میں  اطاعت رسولؐ کے  اشارے  ملتے  ہیں :
آپ ہی رہبر ہیں  مرے، جس رستے  بھی جاؤں 
آپ کی مرضی کے  بنا کیسے  قدم بڑھاؤں 
میں  ہوں  تابع آپ کا آپ مری پہچان
اے  محبوب کبریاء! آپ پہ میں  قربان
اس سے  کوسوں  دور ہے  ہر دکھ ہر آزار
ساحرؔ  طاعت میں  تری رہتا ہے  سرشار
قابل طاعت ہیں  فقط آپ ہی کے  احکام
قرآں  دیتا ہے  ہمیں  صرف یہی پیغام
وانک لتھدی الی صراط مستقیم (بیشک آپ صراط مستقیم کی رہنمائی کرتے  ہیں ) یعنی ہدایتِ ارشاد نبیؐ کے  ہاتھ میں  ہے :
آپ ہی رہبر ہیں  مرے، جس رستے  بھی جاؤں 
آپ کی مرضی کے  بنا کیسے  قدم اٹھاؤں 
عرب قبل اسلام جہالت کی تاریکی میں  ڈوبا ہوا تھا، رسول رحمت ﷺ کے  ورود کے  بعد سارے  اندھیارے  دور ہو گئے، بد بخت نیک بخت بن گئے، بھٹکے  ہوئے  راہ پا گئے، جہنمی جنتی ہو گئے، وما أرسلنٰک الا رحمۃ للعالمین (ہم نے  تو آپ کو تمام جہانوں  کے  حق میں  رحمت بنا کر بھیجا ہے ) اس موضوع پر ساحرؔ  صاحب کے  خیالات دیکھیں :
باطل کے  خیمے  سبھی ہونے  لگے  اجاڑ
جب رحمت کی آ گئی چھل چھل کرتی باڑ
رحمت بن کے  آئے  جب نبیوں  کے  سردار
آپؐ کے  دم سے  بن گیا صحرا بھی گلزار
عالم جن سے  آشنا رحمت جن کی عام
کیسے  بھولے  آدمی ان کا پیارا نام
حمدیہ اور نعتیہ دوہوں  کے  بعد عام دوہوں  کی طرف آتے  ہیں، جن میں  انہوں  نے  مختلف معاشرتی کروب کو ظاہر کیا ہے۔ زندگی میں  خوشی و غم، مصیبت و راحت، سکھ دکھ آتے  رہتے  ہیں۔ روزمرہ زندگی میں  عام انسان کو ان سے  پالا پڑتا ہے۔ زندگی میں  جہاں  مشکلیں  ہیں  وہاں  آسانیاں  بھی ہیں۔ اور جہاں  آسانیاں  ہیں  وہاں  مشکلات بھی ہیں۔ ان مع العسر یسراً فان مع العسر یسراً ؂
عیش ہو یا کہ رنج، نفرت ہو یا پیار
جیون کے  اسٹیج پر سب کچھ ہے  بے  کار
ہم بچپن سے  سنتے  آئے  ہیں  کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے، ان اللّٰہ مع الصابرین  (بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے  والوں  کے  ساتھ ہے ) واصبر فان اللّٰہ لا یضیع اجر المحسنین  (اور صبر کیجیے ! بیشک اللہ نیکوکاروں  کا اجر ضائع نہیں  کرتا)
ساحرؔ  صبر و ضبط کو کر کے  اپنی ڈھال
آلودہ ماحول میں  زندہ ہوں  تا حال
اہل زر کی تنگ دلی، تنگ نظری، خود غرضی کی طرف کس لطیف انداز میں  اشارہ کیا ہے۔ ؂
اس سے  یہ امید کیوں  مل جائے  گا پیار
بے  مطلب مزدور سے  کب ملتا ہے  زر دار
ساحرؔ  شیوی صاحب کی ایک حمدیہ دوہا غزل پیش کر رہا ہوں۔ ؂
گر ہے  گل میں  تازگی یا رب تیری شان
مہر و ماہ میں  روشنی یا رب تیری شان
بخشی کلیوں  کو ہنسی یا رب تیری شان
دی بو کو آوارگی یا رب تیری شان
ہم کو بخشی زندگی یا رب تیری شان
دل بھی تیرا جان بھی یا رب تیری شان
بخشی ایسی دلکشی یا رب تیری شان
دھرتی جنت بن گئی یا رب تیری شان
بخشی سب پر برتری یا رب تیری شان
یہ عظمت انسان کی یا رب تیری شان
جب بھی چاہی ڈھونڈ لی یا رب تیری شان
ذرے  ذرے  سے  ملی یا رب تیری شان
ایسی سنگلاخ اور مشکل زمین میں  ایسے  کامیاب اور سلاست بھرے  دوہے  ساحرؔ  شیوی جیسا قادر الکلام شاعر ہی کہہ سکتا ہے۔ بلا شبہ ساحرؔ  شیوی دور حاضر کے  ممتاز شاعر ہیں۔ انہوں  نے  جن اصناف کو بھی چھوا، انہیں  انفرادیت اور اعتبار بخشا ہے۔ مستقبل میں  ادبی تاریخ لکھنے  والا مورخ ساحرؔ  صاحب کے  کلام، ان کے  فن اور کام کو ہرگز ہرگز فراموش نہیں  کر سکتا۔ 
یا رب تجھ سے  ہے  دعا عزت عظمت پائے 
اپنے  دوہوں  کے  سبب ساحرؔ  شہرت پائے 
٭٭٭