Monday, March 18, 2013

مولانا ابوالکلام آزادؔ




مولانا ابوالکلام آزادؔ

(۱۸۸۸ء-۱۹۵۸ء)

مولانا آزاد یقیناً اپنے دور کے نابغہ تھے۔ بہت کم عمری میں انہوں نے شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا تھا۔ آپ جامع الکمالات شخصیت تھے۔ آپ نے ایک زندگی میں جتنے کارنامے انجام دئے ہیں شاید ہی کوئی دوسرا شخص کئی زندگیاں پا کر بھی اتنے کارنامے انجام نہیں دے سکتا۔ ان کا خاص وصف یہ تھا کہ جس میدان میں بھی قدم رکھتے اپنا لوہا منوا کر دم لیتے۔ 
        والد محترم مولانا خیر الدین (۱۸۳۱۔ ۱۹۰۸)نے انگریزوں کے ظلم و ستم سے بد دل ہو کر مکۂ معظمہ کی طرف ہجرت کی۔ جہاں عرب  بیوی عالیہ مرحومہ کے بطن سے ۱۸۸۸ء میں مولانا ابوالکلام آزادؔ پیدا ہوئے۔ آپ کا تاریخی نام فیروز بخت تھا۔ مولوی خیرالدین نے ۱۸۹۸ء میں ہندوستان کو وطن ثانی بنایا اور کلکتہ میں سکونت اختیار کی۔ مولانا ۱۳سال کی عمر میں درس نظامی اور دیگر کتب متداولہ کی تدریس سے فارغ ہو چکے تھے اور آپ نے اسی عمر میں دینی علوم ،  طب و فلسفہ وغیرہ میں قابل رشک استعداد پیدا کر لی۔ 
مولانا نے ابتداء عمری میں شاعری کی اور کچھ غزلیں کہیں۔ امیر مینائی اور داغ دہلوی سے اصلاح لی۔ ’’ارمغان فرخ ‘‘ممبئی میں مولانا آزاد کی پہلی غزل شائع ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک صاحب کو مولانا آزاد کے شاعر ہونے میں شک تھا۔ چنانچہ ایک موقعے پر انہوں نے مولانا کو ایک طرحی مصرعہ دیا اور کہا کہ اس مصرعے پر اگر تم غزل کہہ دو گے تو میں تمھاری قابلیت کو مان جاؤں گا۔ کچھ ہی دیر میں مولانا نے ایک مرصع غزل حاضر کر دی۔ ان صاحب نے بے اختیار کہا ’’قسم سے صاحبزادے !یقین نہیں ہوتا کہ تم نے ہی غزل کہی ہے ‘‘۔ 
۱۶سال کی عمر سے ہی ان کے مضامین ’’مخزن‘‘ لاہور’’ احسن الأخبار‘‘ کلکتہ اور ’’مرقع عالم ‘‘ہردوئی میں شائع ہونے لگے۔ اور یہیں سے مولانا کے علم و فضل کی خوشبو پورے ہندوستان میں مشک و عنبر کی طرح پھیلتی چلی گئی۔ آپ نے ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ جیسے دو رسالے شائع کئے۔ جو صحافت کی دنیا کے دو جگمگاتے ستارے تھے اور یہ ستارے مسلمانوں کے ذہنوں کو جلا بخشنے کے ساتھ ساتھ آزادیِ ہند میں ان کی صحیح رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیا کرتے تھے۔ 
مولانا نے آزادی کی جد و جہد میں اپنے قلم اور عمل کے ذریعے بھرپور حصہ لیا۔ کبھی اسیر زنداں ہوئے۔ کبھی اخبار کی ضمانت ضبط ہونے پر بھاری جرمانہ ادا کیا۔ لیکن اپنے موقف سے بال برابر بھی نہیں ہٹے۔ اور اپنے نظریات میں ذرا بھی تبدیلی گوارا نہیں کی۔ 
مولانا بڑی خو بصورت نثر لکھتے تھے اتنی خوبصورت اور لاجواب نثر کہ مت پوچھیں ! آپ کی نثر شاعروں کو بھی شرمسار کر دیتی تھی۔ مولانا حسرت موہانی کا یہ شعر مولانا کی نثر کی تابناکیوں کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہے ؂
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رپا
مولانا کو فارسی اور عربی ادب کا اچھا خاصا مطالعہ تھا۔ یہی وجہ ہے وہ اپنی نثر کے دوران عربی و فارسی اشعار ،  قرآنی آیات اور احادیث کے ٹکڑے بے دھڑک استعمال کرتے تھے۔ کبھی اتنی برجستگی اور بے ساختگی سے کہ دل سے واہ واہ نکل جاتی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ گو یا یہ قرآنی آیت ابھی نازل ہوئی ہے۔ ’’غبار خاطر‘‘ ’’تذکرہ ‘‘’’ترجمان القران‘‘ مولانا آزاد کے ایسے نثری شاہ کا رہیں کہ جن کی مثال دنیا آج بھی دینے سے قاصر ہے۔ 
مولانا آزاد کا حوصلہ بحر بحر تھا۔ وہ جس کام کا بھی ارادہ کرتے پنجے جھاڑ  کر اس کے پیچھے لگ جاتے۔ پھر چاہے طوفان آئے ،  آندھی چلے ،  زلزلے آئیں وہ اپنے ارادے سے ذرہ برابر بھی پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔ 
مولانا اپنے ہم عصروں میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے۔ ان کی شہرت سے ہندوستان کا چپہ چپہ مہک اٹھا۔ ان کی حد سے بڑھی ہوئی شہرت کے سبب ان کے کئے حاسدین پیدا ہو گئے تھے لیکن مولانا آزاد نے اپنے کسی حاسد کو کوئی جواب نہیں دیا۔ 
آپ کا انتقال ۱۹۵۸ء کو ہوا۔ 
***

کچھ اپنے بارے میں






  1. کچھ اپنے  بارے  میں 


ناچیز کا اصلی نام سید ظہیر ہے، ظہیر الدین کے  قلمی نام سے  ادبی دنیا میں  مجھے  جانا جاتا ہے۔ مطالعے  کا ذوق و شوق بچپن سے  تھا۔ اردو زبان سے  محبت گھٹی میں  پڑی ہوئی تھی، مجھے  یاد آ رہا ہے  کہ جب میں  سات سال کا تھا تو انجمن اشاعت اسلام کی اردو کی تیسری پڑھ رہا تھا۔ استاذ ایک صفحہ سبق دیتے  تو میں  تین صفحات سنا آتا۔ رفتہ رفتہ یہی میری عادت بن گئی۔ استاذ بھی میرے  اس شوق سے  بہت خوش تھے، مجھ پر خصوصی توجہ دینے  لگے۔
جب شعور کچھ اور جوان ہوا تو میں  نے  اپنے  گھر میں  کتابوں  کو تلاش کیا، چند کتابیں  میرے  ہاتھ لگیں، جو غالباً یہ تھیں، آداب زندگی، آمنہ کا لال، قصص الانبیاء، پہلی فرصت میں  ان تینوں  کتابوں  کو چاٹ ڈالا۔ کچھ سمجھ میں  آیا کچھ نہیں، یہ میری کتابوں  سے  پہلی دوستی تھی۔ پہلا شعوری معانقہ تھا۔ اس کے  بعد جب بھی میں  نے  کتاب کی طرف نظر دوڑائی اس نے  مجھے  مایوس نہ کیا۔
اس کے  بعد شعور نے  کروٹ لی، کچھ اور بیدار ہوا، میں  دارالعلوم حیدر آباد میں  حفظ کا طالب علم تھا۔ مجھے  غالباً ماہانہ ۵۰ روپیے  ملا کرتے  تھے، جن کا بہترین مصرف میری نظر میں  یہ تھا کہ ان سے  کتابیں  خرید لی جائیں۔ میں  چار مینار جاتا، جو جو کہانی کی کتاب پسند آتی خرید لاتا۔ میں  نے  قصۂ حاتم طائی، الف لیلہ اسی دور میں  پڑھی۔ مکتبۂ جامعہ سے  اپنی پسند کی کتابیں  بھی کبھی کبھار منگوا لیا کرتا تھا۔ ڈوب کر مطالعہ کرتا تھا۔ ہمارے  ساتھیوں  کو میرے  مطالعے  کے  ذوق پر حیرت تھی۔ کیونکہ عموماً حفظ کے  طلباء اردو صحیح سے  دیکھ کر پڑھنا نہیں  جانتے  تھے۔ حفظ کے  طلباء کو اردو سکھانے  کے  لیے  ایک گھنٹہ مختص تھاعبد الوھاب صاحب ہمیں اردو پڑھاتے  تھے۔ وہ نہایت مشکل الفاظ املا کراتے، میں  بغیر کسی دقت کے  صحیح املا کر دیتا۔ جسے  دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتے۔ جب امتحان کا وقت آیا تو اردو کا امتحان غالباً مولوی زکریا صاحب نے  لیا تھا۔ انہوں  نے  میری اچھی کارکردگی پر خوش ہو کر غالباً ایک روپیہ انعام کے  طور پر دیا تھا، مجھے  اس انعام کے  حصول پر اتنی خوشی ہوئی کہ مت پوچھیں !
رات میں  سونے  کے  قریب اپنے  دوستوں  کو کہانیاں  سنایا کرتا تھا، جنہیں  وہ بغور سنا کرتے  تھے۔ پیام تعلیم بڑی دلچسپی سے  پڑھا کرتا تھا۔ اس کے  اشعار، لطائف بطور خاص پڑھ کر اپنے  ساتھیوں  کو سنایا کرتا تھا۔
میرے  حفظ کے  استاذ مولانا صلاح الدین صاحب تھے، جو بلاک بیلٹ تھے۔ ہمیں  کراٹے  سکھاتے  تھے۔ میں  نے  اپنی زندگی میں  ان سے  زیادہ مشفق، مہربان،نرم دل، مخلص استاذ کہیں  نہیں  دیکھا۔ فجر کے  فوری بعد میں  سبق سنا دیا کرتا تھا، بعد میں  آرام سے  پارۂ سبق اور آموختہ سناتا۔ خاص دوستوں  میں  سے  سیف اللہ خالد عمری، حافظ عظیم الحق، محمد اعظم اعظمی قاسمی، محمد طلحہ شامل تھے۔ سوائے  اعظم کے  سبھی ایک ہی جماعت کے  طلبہ تھے۔ ایک ہی استاذ سے  پڑھتے  تھے۔ ہم سب نے  ایک ساتھ قرآن ختم کیا، تقریباً ۲۰ دورے  بھی کیے۔ مسابقۂ حفظ قرآن پر گویا ہ،اری حکومت تھی، پہلا، دوسرا، تیسرا انعام ہماری جماعت کو ملنا یقینی تھا۔ دارالعلوم حیدرآباد کی لائبریری المکتبۃ الخالدیۃ سے  میں  نے  از حد استفادہ کیا۔ تاریخ الخلفاء ہو یا تاریخ دارالعلوم، تحریک ریشمی رومال ہو یا تاریخ حرمین، مولانا قاسم نانوتوی، حیات اور ادبی خدمات ہو یا سوانح قاسمی، یہ تمام کتابیں  میں  نے  یہیں  پڑھیں، خطبات کی کتابوں  میں  خطبات دین پوری بڑے  شوق سے  پڑھتا تھا۔ اگر چہ تقریر و خطابت سے  مجھے  دور دور کا بھی واسطہ نہیں  تھا۔
ارتکاز مطالعہ مجھے  یہاں  میسر نہیں  تھا۔ ایک موضوع پر مختلف مصنفین کی لکھی ہوئی کتابیں  پڑھنا اور اپنی معلومات کو وسعت دینا میرے  لیے  یہاں  ممکن نہ تھا۔ کیونکہ یہ کتب خانہ بکھرا ہوا کتب خانہ تھا۔ میرے  مطالعے  کی تسکین کے  لیے  معتد بہ کتابیں  یہاں  موجود نہیں  تھیں۔ ضرورت یہ سمجھی گئی کہ کسی دوسرے  کتب خانے  سے  استفادہ کیا جائے۔ افضل گنج کا کتب خانۂ آصفیہ اپنی بیش بہا کتابوں، نادر مخطوطات کے  لیے  شہرت رکھتا تھا۔ ایک جمعرات کی شام بڑی جماعت کے  ایک ساتھی محمد حامد کے  ساتھ اس لائبریری کا رخ کیا۔ عقل حیران تھی کہ خدایا ! یہ میں  کس جہاں  میں  آ گیا۔ کہ یہاں  قدم قدم پہ علم و ادب کے  موتی بکھرے  پڑے  تھے۔ اندھا کیا چاہے  دو آنکھیں ! بھلا میرے  لیے  اچھی کتابوں  سے  بہتر کیا چیز ہو سکتی تھی!  میں  نے  کتب خانۂ آصفیہ کو لازم پکڑ لیا۔ خوب کتابیں  پڑھیں، ناول پڑھے، افسانوی مجموعے، سیرت پر کتابیں، شاعری کے  مجموعے، تاریخی کتابیں  دل لگا کر مزا لے  لے  کر پڑھیں۔ میرا معمول تھا کہ جمعہ کے  دن صبح سات بجے  غسل سے  فارغ ہو جاتا، پھر سیدھے  کتب خانۂ آصفیہ چلا جاتا، بس کے  ذریعہ جانے  میں  تقریباً ایک گھنٹہ لگ جاتا، ٹھیک آٹھ بجے  میں  لائبریری میں  داخل ہو چکا ہوتا، اپنی پسند کی کتاب لی اور لگے  مطالعہ کرنے ! اس کے  بعد ہوش اس وقت آتا جب جمعہ کی اذان ہوتی، جمعہ کی نماز کے  لیے  جانے  کو جی نہ چاہتا، مگر زبردستی کر کے  قریبی مسجد ’’مسجدِ چمن‘‘ میں  جمعہ پڑھنے  چلا جاتا، نماز کے  بعد واپس آ کر اپنے  پسندیدہ شغل مطالعے  میں  غرق ہو جاتا، غالباً شام پانچ بجے  یہاں  سے  واپس ہوتا، میں  نے  اپنے  دوست کے  نام سے  لائبریری کا ممبر کارڈ بھی بنا رکھا تھا، جس کے  توسط سے  ایک آدھ کتاب کبھی کبھی مدرسے  لے  آتا۔ ایک آدھ دن میں  وہ کتاب ختم ہو جاتی۔
آپ یہ نہ سمجھیں  کہ یہ کسی بڑی جماعت کے  طالب علم کے  شوق ہیں، نہیں  ! بالکل نہیں !یہ ضرب یضرب، نصر ینصر کی گردان کرنے  والے  جماعت اول کے  طالب علم کے  شوق ہیں، غالباً اسی سال بیت بازی کا مقابلہ منعقد ہوا، جس میں  ایک پوائنٹ سے  ہماری ٹیم ہار گئی، جماعت سوم میں  پھر بیت بازی کا مقابلہ ہوا، مجھے  ایک ٹیم کا لیڈر مقرر کیا گیا، پچھلی ہار مجھے  نہیں  بھولی تھی، میں  نے  جم کر تیاری کی، اپنے  ساتھیوں  کو بھی خوب تیار کیا، حتیٰ کہ مقابلے  کا دن آ گیا، الحمد للہ میں  نے  مخالف ٹیم کو شکست فاش دے  دی، بیت بازی کے  اس مقابلے  میں  ہماری ٹیم کو فاتح شمار کیا گیا، اچھے  انعامات سے  نوازا گیا، جو کتابیں  مجھے  اس وقت انعام میں  دی گئیں  تھیں  وہ آج بھی میرے  پاس محفوظ ہیں۔
اس دوران مجھے  جامعہ دارالسلام جانے  کا اتفاق ہوا، (جہاں  میرے  دوست کے۔ خالد سیف اللہ عمری کرنولی پڑھ رہے  تھے ) میں  نے  جب جامعہ کا ماحول دیکھا، وہاں  کی عمارتیں  دیکھیں  تو بے  اختیار میرا دل مچلنے  لگا کہ اگر پڑھنا ہے  تو اسی مدرسے  میں  پڑھنا ہے  ورنہ نہیں ، سالانہ امتحانات ختم ہوئے، میں  نے  اپنے  والد صاحب کے  ہمراہ جامعہ کا رخ کیا۔ جامعہ سے  اگرچہ کہ نا منظوری آئی تھی مگر ہم مایوس نہیں  ہوئے۔ بالآخر بڑی مشکلوں  سے  جماعت چہارم میں  میرا داخلہ ہو گیا۔ وہاں  کی لائبریری پہلی فرصت میں  دیکھ ڈالی، کتابوں  کا انبار دیکھ کر آنکھیں  پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، جماعت چہارم سے  میرے  مطالعے  کا جو سفر شروع ہوا وہ آٹھویں  جماعت پہ ختم ہوا۔
کتاب ہی کے  حوالے  سے  ادباء شعراء سے  رابطہ رہنے  لگا، مختلف اخبارات ورسائل میں  میرے  تبصرے  !تعارفی مضامین شائع ہونے  لگے۔ اس کے  بعد مجھ پر لکھنے  کا جنون سا طاری ہو گیا۔ میں  مسلسل لکھتا رہا، شائع ہوتا، ادباء شعراء اپنی کتابیں  تبصرے !مضمون کی فرمائش کے  ساتھ بھیجنے  لگے، اس طرح شعراء و ادباء سے  میرے  رابطے  استوار ہوئے۔
ادبی دنیا میں  میرا داخلہ ہوا، کچھ نظمیں  پرواز ادب میں  شائع ہوئیں، راشٹریہ سہارا میں  افسانے  شائع ہوئے۔ مگر صحیح بات یہ ہے  کہ میں  تنقید کا آدمی ہوں، مجھے  تنقید لکھنا سب سے  اچھا لگتا ہے، فاروقی کا مداح ہوں، ان کی تنقیدی تحریر جہاں  ملتی ہے  سرمۂ نگاہ بنا لیتا ہوں۔ تنقید کی بات نکل ہی گئی ہے  یہ بات بتاتا چلوں  کہ پاکستان کے  ایک بزرگ مزاح نگار انوار احمد علوی کی کتاب ۱۹۹۹ء میں  ’’جملہ حقوق غیر محفوظ‘‘ کے  نام سے  شائع ہوئی تھی، جس پر میں  نے  کچھ سخن گسترانہ قسم کا تبصرہ لکھ بھیجا، جو سفیر اردو لندن میں  شائع ہوا، ان بزرگ نے  اس کا بالکل برا نہیں  مانا بلکہ اپنی اس کتاب کے  دوسرے  ایڈیشن میں  اسے  شائع کر کے  معتبر کر دیا۔
کتاب کے  بارے  میں  ہر شخص کی کوئی نہ کوئی رائے  ہوتی ہے۔ اچھی یا بری، میری کتاب کے  بارے  میں  اپنی رائے  سے  ضرور آگاہ کیجیے  گا، میں  اس پتے  پر آپ کا منتظر رہوں  گا۔
دعاگو
ظہیر دانشؔ  عمری
25-08-09

ساحر شیوی کی دوہا نگاری (قرآن کے تناظر میں )



ساحر شیوی کی دوہا نگاری
(قرآن کے  تناظر میں )

دوہے  کا مخصوص مزاج، مخصوص آہنگ اور مخصوص انداز ہے۔ دوہا آسانی سے  شاعر کی گرفت میں  آ نہیں  پاتا تا آنکہ شاعر دوہے  کے  مزاج سے  کامل طور پر شناسا نہ ہو جائے، دوہا کہنا سمندر کو کوزے  میں  سمونے  کے  مترادف ہے۔ اردو میں  بہت سے  دوہا نگاروں  نے  اپنی مخصوص شناخت بنائی ہے، جن میں  جمیل الدین عالی، بھگوان داس اعجاز اور ڈاکٹر فراز حامدی نے  مخصوص پہچان بنائی ہے، ڈاکٹر فراز حامدی نے  دوہے  کی بڑی اچھی تعریف کی ہے  اتنی اچھی کہ دوہے  کی اس سے  بہتر تعریف شاید ناممکن ہے۔ 
تیرہ گیارہ ماترہ، بیچ بیچ وشرام
دو مصرعوں  کی شاعری، دوہا جس کا نام
ہند و پاک کے  ممتاز دوہا نگاروں  میں  ساحرؔ  شیوی کا شمار ہوتا ہے، انہیں  منفرد دوہا نگار کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے، ان کے  دوہوں  سے  ان کا مخصوص مزاج اور آہنگ جھلکتا ہے۔ وہ جس میدان کی طرف بھی گئے، کامیابی و کامرانی نے  ان کے  قدم چومے۔ انہوں  نے  ماہیے  لکھے، سین ریوز لکھے، ہائیکو لکھے، افسانے  لکھے، دوہے  لکھے، تعجب کی بات یہ ہے  کہ ہر صنف کو انہوں  نے  کامیابی کے  ساتھ برتا، انہوں  نے  ہر صنف کی اصل روح سمجھی، اور جو بھی لکھا پوری محنت، لگن اور کوشش سے  لکھا۔ 
ساحرؔ  شیوی نے  حمدیہ دوہے  بڑے  اچھے  لکھے  ہیں۔ آسمان و زمین کی ساری مخلوق، ساری کائنات، سارے  جمادات، نباتات، حیوانات اللہ کی کبریائی، اس کی عظمت، اس کی بڑائی بیان کرتی ہیں۔ فرشتے  انسان کی پیدائش سے  قبل ہی اس کی حمد وثنا بیان کرتے  رہے  ہیں۔ تسبح لہ السمٰوات السبع والارض ومن فیہن وان من شیٔ الا یسبح بحمدہ (اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے  ہیں  ساتوں  آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے  درمیان ہیں، اور ہر چیز اس کی تسبیح بیان کر رہی ہے۔ ) اردو زبان کے  بیشتر شعراء نے  حمد و مناجات پر مشتمل کلام عبادت سمجھ کر کہا ہے، حمد میں  با خدا دیوانہ باشد والا معاملہ ہوتا ہے، حمد میں  جتنا زیادہ مبالغہ ہو گا اتنا ہی اسے  مستحسن سمجھا جائے  گا۔ ساحرؔ  شیوی کے  حمد و مناجات پر مشتمل کلام کی اپنی الگ انفرادیت اور خصوصیت ہے، انہوں  نے  بڑے  انوکھے  انداز میں  اپنے  آقا و مولیٰ کی بڑائی بیان کی ہے :
کوئی کہے  رحمن تجھے، کوئی کہے  بھگوان
پوجا تیری جو کرے، ہے  وہ ہی انسان
تیری ذات قدیم ہے  تیری ذات عظیم
بیشک تو رحمن ہے  تجھ سا نہیں  رحیم
یا رب تو رکھنا مری قسمت کو بیدار
مجھ عاصی کو بخش دے  عزت کی دستار
یا رب ہم پر ہے  ترا کتنا بڑا احسان
تو نے  بنایا ہے  ہمیں  اک مومن انسان
اس نے  بن مانگے  دیا مجھ کو سکھ بھنڈار
ساحرؔ  اس کا شکریہ جس کا کل سنسار
بیشک ایسے  لوگ ہیں  جنت کے  مہمان
جو اللہ کی راہ میں  ہوتے  ہیں  قربان
یا رب ہم پر رحم کر بچ جائے  ایمان
انسانوں  کے  بھیس میں  پھرتے  ہیں  شیطان
حمد کے  بعد نعت کا نمبر آتا ہے، نعتیہ کلام کہنا ویسے  مشکل کام ہے، مگر نعتیہ دوہے  کہنا اس سے  مشکل عمل ہے۔ اس میں  با محمد ہوشیار والا معاملہ ہوتا ہے۔ صحابۂ کرام میں  بیشتر شعراء نے  نعت کہی ہے۔ جیسے  حسان بن ثابتؓ نے  کہا ہے :
خلقت مبرأ من کل عیب
کأنک قد خلقت کما تشاءٗ
شیخ سعدیؒ کی یہ رباعی آج بھی نعت کی بہترین مثال کہی جا سکتی ہے :
بلغ العلیٰ بکمالہ،
 کشف الدجیٰ بجمالہٖ
حسنت جمیع خصالہٖ
صلوا علیہ وآلہٖ
آپ علیہ السلام کی شان میں  خالق کونین بھی رطب اللسان ہے : وانک لعلیٰ خلق عظیم (بیشک آپ اخلاق کے  بلند مرتبے  پر فائز ہیں ) نعت کہنا جوئے  شیر لانے  کے  مترادف ہے، ساحرؔ  شیوی نے  بڑی کامیابی کے  ساتھ نعت کہی ہے، موصوف کے  اکثر نعتیہ دوہوں  میں  نبیٔ کریم ﷺ کی اطاعت کا پیغام ملتا ہے۔ من یطع الرسول فقد اطاع اللّٰہ (جس نے  رسولؐ کی اطاعت کی اس نے  اللہ کی اطاعت کی) وما اٰتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا (رسولؐ تمہیں  جو چیز دیں  اسے  لے  لو، اور جس سے  منع کریں  اس سے  رک جاؤ)  ومن یطع اللّٰہ والرسول فأولٰئک مع الذین أنعم اللّٰہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین (اور جو اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں  گے  وہ لوگ ان کے  ساتھ ہونگے  جن پر اللہ نے  انعام کیا ہے، یعنی انبیاء، اصدقاء، شہداء ور صالحین) ساحرؔ  شیوی کے  وہ دوہے  ملاحظہ کریں  جن میں  اطاعت رسولؐ کے  اشارے  ملتے  ہیں :
آپ ہی رہبر ہیں  مرے، جس رستے  بھی جاؤں 
آپ کی مرضی کے  بنا کیسے  قدم بڑھاؤں 
میں  ہوں  تابع آپ کا آپ مری پہچان
اے  محبوب کبریاء! آپ پہ میں  قربان
اس سے  کوسوں  دور ہے  ہر دکھ ہر آزار
ساحرؔ  طاعت میں  تری رہتا ہے  سرشار
قابل طاعت ہیں  فقط آپ ہی کے  احکام
قرآں  دیتا ہے  ہمیں  صرف یہی پیغام
وانک لتھدی الی صراط مستقیم (بیشک آپ صراط مستقیم کی رہنمائی کرتے  ہیں ) یعنی ہدایتِ ارشاد نبیؐ کے  ہاتھ میں  ہے :
آپ ہی رہبر ہیں  مرے، جس رستے  بھی جاؤں 
آپ کی مرضی کے  بنا کیسے  قدم اٹھاؤں 
عرب قبل اسلام جہالت کی تاریکی میں  ڈوبا ہوا تھا، رسول رحمت ﷺ کے  ورود کے  بعد سارے  اندھیارے  دور ہو گئے، بد بخت نیک بخت بن گئے، بھٹکے  ہوئے  راہ پا گئے، جہنمی جنتی ہو گئے، وما أرسلنٰک الا رحمۃ للعالمین (ہم نے  تو آپ کو تمام جہانوں  کے  حق میں  رحمت بنا کر بھیجا ہے ) اس موضوع پر ساحرؔ  صاحب کے  خیالات دیکھیں :
باطل کے  خیمے  سبھی ہونے  لگے  اجاڑ
جب رحمت کی آ گئی چھل چھل کرتی باڑ
رحمت بن کے  آئے  جب نبیوں  کے  سردار
آپؐ کے  دم سے  بن گیا صحرا بھی گلزار
عالم جن سے  آشنا رحمت جن کی عام
کیسے  بھولے  آدمی ان کا پیارا نام
حمدیہ اور نعتیہ دوہوں  کے  بعد عام دوہوں  کی طرف آتے  ہیں، جن میں  انہوں  نے  مختلف معاشرتی کروب کو ظاہر کیا ہے۔ زندگی میں  خوشی و غم، مصیبت و راحت، سکھ دکھ آتے  رہتے  ہیں۔ روزمرہ زندگی میں  عام انسان کو ان سے  پالا پڑتا ہے۔ زندگی میں  جہاں  مشکلیں  ہیں  وہاں  آسانیاں  بھی ہیں۔ اور جہاں  آسانیاں  ہیں  وہاں  مشکلات بھی ہیں۔ ان مع العسر یسراً فان مع العسر یسراً ؂
عیش ہو یا کہ رنج، نفرت ہو یا پیار
جیون کے  اسٹیج پر سب کچھ ہے  بے  کار
ہم بچپن سے  سنتے  آئے  ہیں  کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے، ان اللّٰہ مع الصابرین  (بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے  والوں  کے  ساتھ ہے ) واصبر فان اللّٰہ لا یضیع اجر المحسنین  (اور صبر کیجیے ! بیشک اللہ نیکوکاروں  کا اجر ضائع نہیں  کرتا)
ساحرؔ  صبر و ضبط کو کر کے  اپنی ڈھال
آلودہ ماحول میں  زندہ ہوں  تا حال
اہل زر کی تنگ دلی، تنگ نظری، خود غرضی کی طرف کس لطیف انداز میں  اشارہ کیا ہے۔ ؂
اس سے  یہ امید کیوں  مل جائے  گا پیار
بے  مطلب مزدور سے  کب ملتا ہے  زر دار
ساحرؔ  شیوی صاحب کی ایک حمدیہ دوہا غزل پیش کر رہا ہوں۔ ؂
گر ہے  گل میں  تازگی یا رب تیری شان
مہر و ماہ میں  روشنی یا رب تیری شان
بخشی کلیوں  کو ہنسی یا رب تیری شان
دی بو کو آوارگی یا رب تیری شان
ہم کو بخشی زندگی یا رب تیری شان
دل بھی تیرا جان بھی یا رب تیری شان
بخشی ایسی دلکشی یا رب تیری شان
دھرتی جنت بن گئی یا رب تیری شان
بخشی سب پر برتری یا رب تیری شان
یہ عظمت انسان کی یا رب تیری شان
جب بھی چاہی ڈھونڈ لی یا رب تیری شان
ذرے  ذرے  سے  ملی یا رب تیری شان
ایسی سنگلاخ اور مشکل زمین میں  ایسے  کامیاب اور سلاست بھرے  دوہے  ساحرؔ  شیوی جیسا قادر الکلام شاعر ہی کہہ سکتا ہے۔ بلا شبہ ساحرؔ  شیوی دور حاضر کے  ممتاز شاعر ہیں۔ انہوں  نے  جن اصناف کو بھی چھوا، انہیں  انفرادیت اور اعتبار بخشا ہے۔ مستقبل میں  ادبی تاریخ لکھنے  والا مورخ ساحرؔ  صاحب کے  کلام، ان کے  فن اور کام کو ہرگز ہرگز فراموش نہیں  کر سکتا۔ 
یا رب تجھ سے  ہے  دعا عزت عظمت پائے 
اپنے  دوہوں  کے  سبب ساحرؔ  شہرت پائے 
٭٭٭

جلیل ساز




جلیل ساز

تعارف:

علم و ادب میں  کافی شہرت یافتہ شہر یعنی ناگپور سے  جلیل سازؔ  صاحب کا تعلق ہے، آپ کی غزلیں  میں  نے  جستہ جستہ شاعر (مدیر: افتخار امام صدیقی، ممبئی)میں  دیکھیں، اچھی لگیں، اور دل کو چھو گئیں، اب جب کہ ان کا مکمل مجموعۂ کلام ’’نگاہ‘‘ میرے  سامنے  ہے  تو مجھے  خوشی اور مسرت محسوس ہو رہی ہے۔ شاعری پر گفتگو سے  قبل میں  ان کا تعارف کرا دینا مناسب سمجھتا ہوں، آپ کے  آباء و اجداد ۱۸۵۷؁ء کے  بعد مبارکپور، ضلع مؤ سے  ہجرت کر کے  ناگپور منتقل ہو گئے، والد کا نام تھا حاجی محمد رفیق، جن کی دوسری بیوی سے  تین لڑکے  یعنی جلیل سازؔ ، وکیل پرویز، عبد القدیر اور تین لڑکیاں  تولد ہوئیں، اور جلیل سازؔ  کی تاریخ پیدائش ہے  ۲  فروری ۱۹۳۱؁ء۔ آپ کی تعلیم دسویں  جماعت سے  آگے  نہیں  بڑھی، لیکن آپ کو تجربے  نے  اتنا کچھ سکھا دیا کہ زیادہ سے  زیادہ تعلیم یافتہ انسان بھی آپ کے  سامنے  ہیچ معلوم ہوتا ہے، عبد الصمد اختر، طرفہ قریشی، بھنڈاری اور احسان دانش سے  اپنے  کلام کی اصلاح لیتے  رہے، ۱۹۵۶؁ء میں  فارغ الاصلاح قرار دے  دیے  گئے، اس کے  بعد سے  آج تک مسلسل شاعری کر رہے  ہیں اور اردو کی خدمت میں  لگے  ہوئے  ہیں۔ شاعری کے  ساتھ ساتھ سیاسی مضامین لکھنے  اور سماجی خدمت کرنے  سے  بھی حد درجہ دلچسپی ہے۔ آپ ڈاکٹر ذاکر حسین ڈی۔ ایڈ کالج کے  بانی و صدر ہیں۔ نیز مجیدیہ گرلس ہائی اسکول اینڈ جونیر کالج (مومن پورہ) کے  بھی صدر ہیں۔ ۱۹۶۲؁ء سے  ۱۹۶۷؁ء تک محمد علی سرائے  کے  جوائنٹ سکریٹری رہ چکے  ہیں۔ مدرسۂ یعقوبیہ کے  بھی کئی سال سکریٹری رہ چکے  ہیں۔ جلیل سازؔ  نے  اپنے  تجربات کے  بارے  میں  لکھا ہے :
’’سیاسی وسماجی خدمات کے  دوران مجھ کو جو تجربے  اور مشاہدے  ہوئے  ہیں  میری فکر کا محور قرار پائے۔۔۔۔ میری تعلیم دسویں  سے  آگے  نہ جاسکی۔۔۔ میرے  جوہر کو بزرگوں  نے  نمایاں  کیا۔ بفضل تعالیٰ انگریزی، اردو، ہندی اور فارسی پر بخوبی گرفت ہے۔ میرے  دل میں  جو جذبات ہیں  وہ بھی بزرگوں  کی صحبت میں  رہنے  سے  پیدا ہوئے  ہیں۔ سچائی یہی ہے  کہ بزرگوں  کے  سائے  میں رہ کر انسان جو کچھ سیکھتا ہے  وہ بہت کارآمد ہوتا ہے۔ ‘‘
اخلاق سے  بھر پور شاعری

ہر مذہب (خواہ اس کا تعلق آسمانی مذاہب سے  ہو یا زمینی مذاہب سے ) میں  اچھے  اخلاق کو بے  حد اہمیت دی گئی ہے۔ نبی ا کرم ﷺ نے  عربوں  کے  دل حسن اخلاق کی بدولت جیتے  قرآن کریم نے  اس بات کی گواہی دی ہے  : وانک لعلیٰ خلق عظیم (ترجمہ: یقیناً آپ (یعنی رسول ﷺ)اخلاق کے  بلند ترین منصب پر فائز ہیں ) عروج یافتہ قوم کی نشانی عمدہ اخلاق ہوا کرتے  ہیں۔ کسی قوم کو جب زوال لاحق ہوتا ہے  تو سب سے  پہلے  حسن خلق کی صفت اس سے  چھین لی جاتی ہے، اسی کے  پیش نظر ہمارے  شاعر نے  بڑے  پیارے  اور رس بھرے  شعر کہے  ہیں۔ ملاحظہ کریں :
اخلاق کے  داعی ہم، وحدت کے  پیامی ہم
اس عالم فانی میں  ہیں  نقش دوامی ہم
مرے  خلوص کا ادنیٰ کمال یہ بھی ہے 
ہر ایک شخص لپٹتا ہوا نظر آیا
ہوس سیم و زر ہے  روح کا روگ
دے  مجھے  عافیت کا سرمایہ
ٹھہر جاتی ہے  سچائی جہاں  بھی
نکل آتے  ہیں  رستے  کربلا کے 
ملو تو سازؔ  خلوص اور سادگی سے  ملو
نہیں  پسند یہ بے  جا تکلفات مجھے 
انکے  دل کا آئینہ صاف تھا کدورت سے 
نسل کتنی پیاری تھی وہ کہانیوں  والی
ایسی زندگی سے  تو سازؔ  موت بہتر ہے 
چند سانسیں  اور وہ بھی مہربانیوں  والی
قدم زمیں  پہ جما کے  چلو تو بات بنے 
پھر اپنے  سر کو اٹھا کے  چلو تو بات بنے 
تجلیوں  سے  ہیں  محروم تک کئی گوشے 
وہاں  بھی دیپ جلا کے  چلو تو بات بنے 
سیاہ رات بہت ہے  یہاں  کدورت کی
دلوں  میں  پیار جگا کے  چلو تو بات بنے 
کھلے  بدن کی نمائش کا بڑھ گیا ہے  رواج
نظر کو اپنی جھکا کے  چلو تو بات بنے 
دوسروں  کی جستجو شام و سحر
آدمی خود کی خبر رکھتا نہیں 
اندھیرے  راستے  میں  جس کو روشن کر گیا کوئی
نچھاور اس دیے  کی روشنی پر ساری تنویریں 
ہمارے  عہد کے  رہبر کا سازؔ  اللہ حافظ ہے 
مسیحا خود اگر بیمار ہو تو کیسی تدبیریں 
طنزیہ شاعری

معاشرے  میں  دو قسم کے  افراد ہوتے  ہیں، ایک قسم کے  افراد تو وہ ہیں  جن کا تعلق بے  حسی، بے  ضمیری اور بے  شعوری سے  ہوتا ہے، وہ بڑی سے  بڑی برائی کو بھی معمول کی بات سمجھتے  ہیں  اور اس سے  ان کے  معمول پر کوئی فرق نہیں  پڑتا، دوسر قسم کے  افراد وہ ہیں جو بڑے  ہی حساس، دل دردمند رکھنے  والے  اور سارے  جہاں  کا درد رکھنے  والے  ہوتے  ہیں۔ دنیا میں  کہیں  بھی غلط ہو تو سب سے  پہلے  اس کا اثر ان کے  دل پر ہوتا ہے۔ اور صرف ذمہ داری محسوس کرنا کمال نہیں  ہے  بلکہ اسے  پورا کرنے  کی کوشش کرنا کمال ہے۔ اس احساس کو ظاہر کرنے  کے  لیے  کوئی شاعری کا سہارا لیتا ہے  تو کوئی نثر کا، کوئی تقریر کا سہارا لیتا ہے  تو کوئی تحریر کا، اور ہمارے  شاعر محترم جلیل سازؔ  کا تعلق معاشرے  کی اسی دوسری قسم سے  ہے۔ جی ہاں ! جلیل سازؔ  بڑے  حساس دل انسان ہیں، با ضمیر ہیں، معاشرے  کے  تعلق سے  وہ اپنی ذمہ داری پوری طرح محسوس کرتے  ہیں۔ اور اسے  نبھانے  کی کوشش بھی کرتے  ہیں۔ اور یہ کمال جلیل سازؔ  کے  اشعار سے  بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ جلیل سازؔ  نے  اپنے  حساس ہونے  کا ذکر اپنے  ایک شعر میں  اس طرح کیا ہے۔ 
احباب کا شکوہ کیا، دنیا سے  شکایت کیوں 
اے  ساز ہمیں  اپنے  احساس نے  مارا ہے 
سازؔ  کے  یہاں  ان اشعار کی کثرت ہے، جن میں  معاشرے  کے  برے  اور گندے  عناصر پر طنز، جھوٹی شان و شوکت پر طنز، کھوکھلے  دعووں، انا پرستی، دوسروں  کی تحقیر، اپنوں  کی بے  وفائی، خود غرضی، فحاشی، ننگا پن، بے  حسی، مردہ ضمیری، اپنے  آپ کو سب کچھ سمجھنا، زندگی کی مشکلیں، پریشانیاں، موجودہ ترقی یافتہ دور کی اخلاقی گراوٹ، جنسی انارکی، مال کی اور مالداروں  کی بے  جا تعریف و توصیف، غریبوں کی تحقیر ان تمام جذبوں  اور احساسات پر ان کی شاعری میں  بے  حد طنز پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ بار بار ہمیں  ان کی شاعری کے  ان کے  احساسات کے  صحیح ہونے  کی تصدیق کرنی پڑتی ہے، ان کے  مفروضات کو ماننا پڑتا ہے، وہ بار بار ہمیں  اپنے  زمین پر ہونے  کا احساس دلاتے  ہیں، یہ احساس اس وقت اور شدت اختیار کر لیتا ہے  جب وہ اپنے  اقارب کے  عقارب ہونے  کا تذکرہ کرتے  ہیں، انسانوں  کے  حیوان بننے  کا ذکر چھیڑتے  ہیں۔ 
سازؔ  نے  یہ طنزیہ اسلوب کہیں  شدت کے  ساتھ برتا ہے، تو کہیں  تمثیلی پیرایہ اختیار کیا ہے، کہیں  اشاروں  کنایوں  سے  کام لیا ہے  تو کہیں  تفصیلی انداز اختیار کیا ہے، سازؔ  کے  چند اشعار بطور نمونہ پیش کرنا چا ہوں  گا:
وہ سایہ بن کے  مرے  ساتھ ساتھ رہتا تھا
بڑھا اندھیرا تو ہٹتا ہوا نظر آیا
کل کے  قصے  نہ سنا آج حقیقت ہے  یہی
کون دنیا میں  وفاؤں  کا صلہ دیتا ہے 
ہے  زخم زخم بدن اور جی رہا ہوں  میں 
رہیں  گے  یاد عزیزوں  کے  التفات مجھے 
جہاں  میں  بھوک سے  نہیں  کوئی عظیم اے  سازؔ 
خدا کو بھول گئے  لوگ روٹیاں  پا کر
کھلے  بدن کی نمائش کا بڑھ گیا ہے  رواج
نظر کو اپنی جھکا کے  چلو تو بات بنے 
یاد آ کے  رہ جاتے  ہیں  اے  سازؔ  سلوک احباب
وقت کے  ساتھ سبھی زخم تو بھر جاتے  ہیں 
دوسروں  کی جستجو شام و سحر
آدمی خود کی خبر رکھتا نہیں 
ہم نے  بھی دنیا سے  سیکھا یارو بچ کر چلنا
ہم مشرب کو ساتھ میں  رکھا، کم ظرفوں  کو ٹالا
سادھو، گیانی، شکشک، نیتا، پاکھنڈی سب لوگ
مالک کیسے  مکاروں  سے  پڑ گیا اپنا پالا
اپنی کرتوتوں  کا جلوہ دیکھ رہی ہے  دنیا
پہلے  کی راتیں  کالی تھیں  اور اب کا دن کالا
ہر ایک آنکھ میں  نفرت ہے  کس سے  چاہ ملے 
سلگ رہی ہے  دشائیں، کہاں  پناہ ملے 
سب اپنے  اپنے  مفادات کے  محافظ ہیں 
یہ حال ہے  تو کہاں  کوئی خیر خواہ ملے 
طریق اپنا جدا ہے  دوستو اہل طریقت سے 
دکھاوے  کی عبادت اور دعا ہم سے  نہیں  ہو گی
عبادت کے  عوض آسائشِ فردوس حاصل ہو
کبھی اے  سازؔ  ایسی التجا ہم سے  نہیں  ہو گی
پھونک دے  گا مرا بھائی مری ساری کائنات
مٹھیوں  میں  ایٹمی ذرات لے  کر آئے  گا
سازؔ  ہے  مجھ کو یقیں  بیٹا مرا پردیس سے 
خوب سارے  سونے  چاندی ساتھ لے  کر آئے  گا
ہمارے  دوست بڑوں  کی خوشامدوں  میں  رہے 
کبھی کبھی تو غریبوں  کی دعا لے  لیتے 
اب تو یہ سمجھنا بھی دوستو! ہوا مشکل
کون ہے  مرا دشمن؟ کون ہے  مرا بھائی؟
عزم و حوصلے  کی شاعری

اس ناطے  سے  جب ہم سازؔ  کی شاعری پر نظر ڈالتے  ہیں  تو ہم کو مایوسی نہیں  ہوتی۔ عزم، حوصلہ اور ہمت کے  موضوع پر بہت سے  شعراء نے  شعر کہے  ہیں، مثال کے  طور پر:
عزم کامل ہو تو کشتی لب ساحل ہو گی
حوصلہ چاہیے  طوفان سے  ٹکرانے  کا
حزیمتوں  کے  راستے  بڑے  ہی پرخطر سہی
جو حوصلے  بلند ہوں  نشیب کیا فراز کیا
محترم جلیل سازؔ  کے  چند عزم و حوصلہ سے  بھرپور شعر ہیں، ان کا بانکپن، انداز بیان اور اسلوب ہی اور ہے۔ آپ کے  اشعار سے  ایک طرح کی تحریک اور ولولہ محسوس ہوتا ہے۔ نا امیدی اور یاس کی حالت میں  معمولی سا امید کا جگنو بھی انسان کو کامیاب و کامران کرنے  کے  لیے  کافی ہے۔ حوصلہ بڑھانا، یہ معمولی چیز نہیں  ہے، اللہ تعالیٰ نے  قرآن کریم میں  مومنوں  کو مخاطب کرتے  ہوئے  کہا کہ اللہ کی رحمت سے  مایوس نہ ہونا، اور ایک مقام پر کہا کہ اللہ کی رحمت سے  کافر ہی مایوس ہوتے  ہیں۔ گویا مایوسی کفر اور امید ایمان ہے۔ غالباً اسی کو مد نظر رکھ کر سازؔ  صاحب نے  اپنے  احساسات کو اشعار کا لباس پہنایا:
بلندیوں  پر پہنچنا نہیں  محال اے  سازؔ 
جو حوصلہ ہو تو دل میں  اٹھان کتنی ہے 
مرے  شعور کی تابندگی کو اپنا کر
جو ہو سکے  تو نئے  صبح و شام پیدا کر
سیاہ رات بہت ہے  یہاں  کدورت کی
دلوں  میں  پیار جگا کے  چلو تو بات بنے 
تجلیوں  سے  ہیں  محروم تک کئی گوشے 
وہاں  بھی دیپ جلا کے  چلو تو بات بنے 
جہالت کے  اندھیروں  سے  نکلنا بھی ضروری ہے 
بدل ڈالے  زمانے  کو بدلنا بھی ضروری ہے 
جدید الفاظ کا استعمال

جلیل سازؔ  نے  بہت سے  ایسے  الفاظ سے  اپنی شاعری کو گوندھا ہے  جنہیں  شاید ہی کسی دوسرے  شاعر نے  استعمال کیا ہو، نہ صرف استعمال کیا بلکہ اپنے  استعمال سے  ان الفاظ میں  جان ڈال دی ہے۔ قدرت نے  جلیل سازؔ  کو لفظ کے  استعمال کا بڑا پیارا سلیقہ بخشا ہے۔ اسی سے  کام لے  کر انہوں  نے  لفظ ٹیکس، فوٹو، کیمرہ، خط کو ایک نئے  انداز سے  حسین اسلوب میں  استعمال کیا ہے  کہ یہ لفظ اور حسین بن گئے  ہیں۔ مثال کے  طور پر یہ اشعار دیکھیے :
ہو ٹیکس ادا کیسے  بھلا فاقہ کشی میں 
برسات کا موسم ہے  مکاں  چھین رہے  ہیں 
(ٹیکس)
امیروں  کے  شبستانوں  کا فوٹو چھاپنے  والو!
شکستہ جھونپڑوں  کا حال بھی اخبار میں  لکھنا
(فوٹو)
مری عادت ہے  ہر خط میں  تقاضہ وصل کا کرنا
تری فطرت سہی اس کا جواب انکار میں  لکھنا
(خط)
سوز در سوز دے  گئی دنیا
دکھ نیا روز دے  گئی دنیا
میں  تو ساکت تھا کیمرے  کی طرح
مختلف پوز دے  گئی دنیا
(کیمرہ)
نوحۂ مسلم

مسلمان جنہوں  نے  ہزاروں  سالوں  تک دنیا میں  حکمرانی کی تھی، ساری دنیا کو امن وامان کا درس دیا تھا، آج بے  حد ذلیل و خوار ہیں، اس کے  اسباب کیا ہیں ؟ اس سے  ہمیں  بحث نہیں  ہے، بلکہ یہ تو ایک فطری چیز تھی، ہر عروج را زوال!، علامہ اقبالؒ نے  اس حوالے  سے  کتنی پیاری بات کہی تھی؛
آ تجھ کو بتاتا ہوں  تقدیر امم کیا ہے 
شمسیر و سناں  اول طاوٗس و رباب آخر
ہر حساس انسان کا دل اس المیے  پر کڑھتا ہے، اور مسلمانوں  کو دوبارہ عروج حاصل ہو اس بات کی دعاء ہر دردمند دل رکھنے  والا انسان کرتا ہے، جلیل سازؔ  نے  متفرق غزلوں  میں  اس حوالے  سے  لکھا ہے  اور بے  حد ڈوب کر دردو کرب کے  ساتھ لکھا ہے، ایسی بات نہیں  ہے  کہ انہوں  نے  رسمی طور پر اس سلسلے  میں  لکھا ہو، وہ خود مسلمان ہیں  اور اس درد کو بخوبی محسوس کر سکتے  ہیں، جلیل سازؔ  کے  اشعار اور ان کے  تیور (مسلمانوں  کے  زوال کے  تعلق سے) دیکھیے  اور ہماری تصدیق کیجیے، جلیل سازؔ  کے  یہ شعر درد کا بحر بے  کراں  ہیں، غم و الم کا بے  کنار سمندر ہیں، لفظ بھرپور کو انہوں  نے  اپنے  احساس سے  تر کر دیا ہے، پھر لفظ لفظ نہیں  رہا بلکہ مجسم احساس بن گیا ہے، اور قاری کے  دل کو اپنی مٹھی میں  لے  کر بھینچے  لگتا ہے، اس کے  دل پر کچوکے  لگاتا ہے، مسلمانوں  کی زبوں  حالی پر خون کے  آنسو رلاتا ہے :
ایک یہ بھی زمانہ ہے  ہم جڑ ہیں  فسادوں  کی
اک دور کہ دنیا میں  تھے  امن کے  حامی ہم
شیرازۂ ملت کو بکھرا ہوا پاتا ہوں 
اے  سازؔ  نہ ہو جائیں  مرہون غلامی ہم
اپنی کوتاہ نصیبی ہے  کہ محکوم ہیں  ہم
ہم کو مالک نے  بنایا تھا حکومت کے  لیے 
جذبات سے  عاری ہم،احساس سے  خالی ہم
وہ دور گیا جب تھے، دنیا میں  مثالی ہم
کل جس کی کفالت میں  تھے  ہاتھ کھلے  اپنے 
اس شخص کی چوکھٹ پر ہیں  آج سوالی ہم
تخریب پسندی کا دیتے  ہو ہمیں  طعنہ
نادانو! رہے  صدیوں  اس باغ کے  مالی ہم
جلیل سازؔ  کی ایک نظم ہے  ’’ تم کیسے  مسلمان ہو‘‘ یہ پوری نظم اسی کیفیت کی آئینہ دار ہے، اس میں  مسلمانوں  کی بزدلی کی طرف شاعر نے  اشارہ کیا ہے  تو ساتھ میں  یہ بھی کہا ہے  کہ اوصاف کریمانہ جو مسلمانوں  کا طرۂ امتیاز ہیں، یہی اوصاف مسلمانوں  کو وراثت میں  ملنے  چاہیے  تھے، مال نہیں ! مگر افسوس کہ ان اوصاف حمیدہ کی قدر مسلمانوں  کو نہیں  ہے، اوصاف حمیدہ و رذیلہ میں  امتیاز کرنے  کی حس سے  بھی وہ محروم کر دیے  گئے  ہیں۔ مسلمانوں  کی خدمت خلق سے  دوری، عزم و ہمت سے  دوری، بے  سمتی مقصدیت کا بحران، ایسی تمام چیزوں  کی طرف اس نظم میں  اشارے  دیے  گئے  ہیں، مثال کے  طور پر چند شعر:
تم عامل قرآں  ہو، تم حافظ قرآں  ہو
تم کیسے  مسلماں  ہو، کس بات پہ نازاں  ہو
جیتے  ہو تو جینے  کے  انداز نرالے  ہیں 
ڈرتے  ہو حوادث سے  طوفاں  سے  ہراساں  ہو
اوصاف بزرگوں  کے  تم میں  نہ رہے  باقی
تم صرف بزرگوں  کی عظمت کے  ثنا خواں  ہو
پردہ ہے  بصارت پر تکیہ ہے  قناعت پر
دعویٰ ہے  کہ عاقل ہو سچ یہ ہے  کہ ناداں  ہو
اعزاز جہانگیری کیا دے  گا خدا تم کو
تم لوگ تو غیروں  کی محکومی پہ نازاں  ہو
دل اور جگر دونوں  اے  سازؔ  ہوں  فولادی
اس قوم کی خدمت کا جس شخص کو ارماں  ہو
استعاراتی شاعری

جلیل سازؔ  نے  استعارہ، تشبیہ اور تمثیل کو اپنی شاعری میں  برتا ہے، ویسے  بھی بلاغت کے  ان فنون کا استعمال ایک اچھے  شاعر کے  لیے  ایک طرح سے  ناگزیر ہو جاتا ہے، اس کا مقصد آپ جانتے  ہیں  کہ قاری کے  دل میں  واضح انداز میں  بات بیٹھ جائے، تأثر میں  اضافہ ہو، بسا اوقات ایسا ہوتا ہے  کہ ایک بات وضاحت کے  ساتھ کھلم کھلا کہنے  سے  وہ بات پیدا نہیں  ہوتی جو کہ استعاراتی زبان میں  کہنے  سے  پیدا ہوتی ہے، جلیل سازؔ  کی شاعری پر نظر ڈالنے  سے  ایک پوری غزل ہی اس انداز کی ہمیں  نظر آتی ہے، بظاہر یہ غزل عام سی غزل معلوم ہوتی ہے، لیکن ذرا سا غور و فکر کرنے  اور تدبر سے  کام لینے  کی صورت میں  معانی کی پرتیں  یکے  بعد دیگرے  ہمارے  سامنے  کھلتی چلی جاتی ہیں، جن کے  علم کے  بعد ایک طرح کی خوشی، مسرت و فرحت حاصل ہوتی ہے۔ جلیل سازؔ  کی اس غزل کا مزہ بھی چکھ لیا جائے :
مہکے  زخم اپنے  نسترن کی طرح
دل کا آنگن ہوا چمن کی طرح
ان کے  نازک لبوں  پہ آئی ہنسی
صبح کی اولیں  کرن کی طرح
صبح چمکی برنگ روئے  حسیں 
رات سمٹی ترے  بدن کی طرح
اک جوالا مکھی ہے  ذہن تپاں 
دل بھی گردش میں  ہے  گگن کی طرح
ہے  خرد کا بھی تار تار لباس
اپنے  بوسیدہ پیرہن کی طرح
سازؔ  شکوہ ہے  اہل فن سے  مجھے 
فن کو برتا گیا نہ فن کی طرح
سیاسی شاعری

موجودہ دور کی سیاست گندگی کا پوٹ ہے، پچھلے  دور میں  یہی سیاست تھی جس سے  بڑے  سے  بڑے  علماء اور لیڈر وابستہ تھے، جنہوں  نے  عوام اور غریبوں  کی خوب خدمت کی، اور سیاست کو عبادت سمجھتے  رہے، مگر آج کے  سیاست داں  سیاست کو بھی کاروبار سمجھتے  ہیں۔ غریبوں  کی خدمت کے  نام پر ووٹ بٹورتے  ہیں، مگر غریبوں  کی خدمت کے  علاوہ سب کچھ کرتے  ہیں، ہمارے  لیڈروں  کے  اسی رویے  پر سازؔ  اس طرح طنز کرتے  ہیں :
جو اقتدار ملا ہے  تو سازؔ  گھر بھر لو
یہ تم سے  کس نے  کہا خدمت عوام کرو
اب سیاست بھی جفا کاروں  کا شیوہ ٹھہری
کون اٹھتا ہے  غریبوں  کی حمایت کے  لیے 
اسی طرح سازؔ  کی ایک نظم ہے  ’’تین کردار‘‘ جس میں  اہل زر، ماسٹر، منتری کے  تین عناوین کے  تحت تین تین شعر پیش کیے  ہیں، منتری کے  عنوان سے  جو شعر ہیں  وہ یقیناً توجہ کے  لائق ہیں، جن میں  پچھلے  دور کے  منتریوں  اور آج کے  منتریوں  کے  درمیان بڑا اچھا اور حقیقت سے  قریب موازنہ پیش کیا گیا ہے، میں  سمجھتا ہوں  کہ اس سے  اچھا موازنہ کسی شاعر نے  نہیں  کیا ہو گا:
ہمارے  دور میں  جو منتری تھے 
وہ بے  شک لائق صد سروری تھے 
تمہارے  دور میں  جو منتری ہیں 
لٹیرے  ہیں  کہاں  کے  سنتری ہیں 
کہ ان کی آہنی الماریوں  میں 
ہے  جتنا سونا چاندی اور نوٹیں 
گھوٹالوں  اور حوالوں  سے  بھری ہیں 
اس طرح کے  اور بھی متعدد موضوعات کو جلیل سازؔ  نے  بے  حد اچھے  انداز میں بہترین اسلوب میں  اور مناسب الفاظ میں  پیش کیا ہے، موضوعات کی ایک کہکشاں  ہے  جو ان کی شاعری کا مطالعہ کرنے  والے  کو سرور و فرحت بخشتی ہے۔ آگہی کے  نئے  در وا کرتی ہے۔ 
مشاہیر کی نظر میں

ہارون بی۔ اے  (مدیر بے  باک،مالیگاؤں ) نے  لکھا ہے  کہ:
’’جلیل سازؔ  ہمارے  دور کے  شاعر ہیں، ان کی شاعری کی جتنی عمر ہے  تب سے  میں  انہیں  جانتا ہوں، وہ ایک حساس اور خوش فکر شاعر ہی نہیں  بلکہ اچھا سماجی، تعلیمی، سیاسی اور فکری شعور بھی رکھتے  ہیں، جس کی وجہ سے  ان کی علمی، ادبی اور عوامی مقبولیت سے  کسی کافر کو بھی انکار کرنے  کی جرأت نہیں  ہو سکتی، ان کی زندگی اور ان کی شاعری کا ہر ورق آج کے  دانشوروں  اور نقادوں  کے  سامنے  دعوت فکر دیتا نظر آتا ہے۔ زندگی کے  سرد و گرم، آرائشوں  اور جدوجہد کے  درمیان تپا ہوا یہ شاعر اپنی قلبی واردات کو برملا اشعار میں  ڈھال کر زندگی کے  خوشگوار مستقبل کی بشارت دیتا ہوا بھی نظر آتا ہے۔ ‘‘
عبد الاحد سازؔ  کہتے  ہیں  کہ:
’’جلیل سازؔ  کے  تخلیقی سفر کے  مراحل سے  ہماری ادبی برادری ایک عرصۂ دراز سے  واقف ہے۔۔۔ گوناگوں  شخصی مشاہدوں، اطراف و اکناف کے  منتشر تجربوں  اور حالات حاضرہ کے  بکھراؤ کو بخشی ہوئی فہم کے  آپسی تال میل سے  ان کا شعری مواد برآمد ہوتا ہے۔۔۔ جلیل سازؔ  کی غزلوں  میں  بے  ساختگی اور ہوشمندی کا ایک امتزاج پایا جاتا ہے۔ ‘‘
٭٭٭