Monday, March 18, 2013

احمد کمال پروازی






 احمد کمال پروازی

اندھیری رات کا لمبا سفر تو بعد میں  ہے 
یہ جگمگاتا ہوا شہر کاٹتا ہے  ابھی
تمہارے  ساتھ گزارے  ہوئے  مہینوں  سے 
تمہیں  نکالتے  رہنے  کا سلسلہ ہے  ابھی
بچوں  کے  ساتھ کھیلے  ہوئے  دن گزر گئے 
کچھ روز پہلے  دوسرا مہمان گھر میں  تھا
ایسے  بہترین اور با معنیٰ اشعار کے  خالق جناب احمد کمال پروازی ہیں۔ کمالؔ  با کمال آدمی ہیں۔ ان کی شاعری ایک طرف غزل کے  روایتی موضوعات کی طرف اشارہ کرتی ہے، تو دوسری طرف محبت، خلوص، ایثار، اور وفاداری جیسے  جذبات کے  فقدان کا مرثیہ پڑھتی ہے۔ یہ وہ جذبات ہیں  جو معاشرے  کے  لیے  بہت ضروری ہیں۔ آج کے  ترقی یافتہ دور میں  یہ تمام چیزیں  ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ خلوص کا اتہ پتہ نہ رہا۔ اس حوالے  سے  وہ فرماتے  ہیں ؂
ابھی تو تیرے  عزیزوں  کا رول باقی ہے 
جو بچ گیا وہ تیرے  مہربان لے  لیں  گے 
کسی ذلیل کے  ہاتھوں  سے  بچ بھی جائے  تو کیا
شریف لوگ ترا سائبان لے  لیں  گے 
میں  تو کہتا ہوں  کہ عزت کی دعائیں  مانگو
جب یہ فیشن ہے  کہ ہر چیز خریدی جائے 
ڈر لگ رہا ہے  یہ بھی کوئی سانحہ نہ ہو
پہلے  تو اتنا تیز اجالا ہوا نہ تھا
احمد کمال پروازی نے  بہت سے  موضوعات کو پہلی بار چھوا ہے۔ انہوں  نے  بے  شمار موضوعات کو غزلایا ہے، جسے  کسی اور شاعر نے  غزل میں  موضوع سخن نہیں  بنایا۔ غربت اور غریبی کے  چہرے  کو جس زاویے  سے  انہوں  نے  برتا غالباً کسی اور شاعر نے  اس نظر سے  غربت کو دیکھنے  کی جرأت نہ کی۔ مثال کے  طور پر دو شعر ؂
غریبوں  کی طرح تم پھیل جاؤ
ہزاروں  سال تک زندہ رہو گے 
کمالؔ  آؤ چلو گندی بستیاں  دیکھیں 
دھواں  گھروں  سے  نکلتا ہوا مزہ دے  گا
غزل کے  لفظوں  میں  چاشنی، حسن، بانکپن، تازگی پیدا کرنے  کے  گر سے  وہ خوب واقف ہیں، وہ بڑے  سادہ الفاظ استعمال کرتے  ہیں۔ یہی وجہ ہے  کہ ان کی شاعری سروں  کے  اوپر سے  نہیں  گزرتی بلکہ دل کے  دریچوں  میں  داخل ہوتی ہے۔ باد صبا کی طرح خوشگوار احساس پیدا کرتی ہے۔ وہ بہت کم کہتے  ہیں، لفظ لفظ ناپ تول کر رکھتے  ہیں، الفاظ کے  انتخاب نے  انہیں  رسوا نہیں  کیا بلکہ اونچا بہت اونچا کیا۔ حتیٰ کہ وہ مختلف لب و لہجہ کے  شاعر کے  طور پر جانے  پہچانے  جاتے  ہیں۔ پروفیسر عتیق اللہ ان کی شاعری کے  حوالے  سے  کہتے  ہیں : ’’کمال کی شاعری اپنی ترکیب میں  مختلف پن کا شدید احساس دلاتی ہے ‘‘
احمد کمال نے  ہمارے  دور کے  تصادم کو بڑی شدت سے  محسوس کیا ہے، ویسے  بھی شاعر وہ شخص کہلاتا ہے  جو احساس کی شدت کا حامل ہوتا ہے۔ زندگی کی سفاک اور دردناک  تصاویر کو انہوں  نے  اپنی شاعری کے  فریم پر منعکس کیا ہے۔ انہوں  نے  اظہار حقیقت کے  باوجود غزل کے  لہجے  کی خوبصورتی بر قرار رکھی ہے۔ یقیناً یہ بہت بڑی بات ہے ؂
یہ بستی اک دشت کربلاء ہے 
ٹھہر جاؤ میں  پانی لا رہا ہوں 
خدا کے  فضل سے  سونا اگل رہی ہے  زمین
مگر کسان تو اب بھی کسان جیسا ہے 
بہت خوشحال رکھا ہے  اے  رسم زندگی تو نے 
بھروسہ تجھ پہ لیکن کم سے  کم ہوتا تو سب ہوتا
خیالات، جذبات، احساسات تو سب میں  ہوتے  ہیں، مگر سلیقے  سے  ان خیالات کے  اظہار کا فن بہت کم لوگوں  کو ودیعت ہوتا ہے۔ اظہار کا وہ سلیقہ جو قاری اور سامع پر یکساں  اثر ڈالے، احمد کمال پروازی کا امتیاز ہے۔ کہی اور انکہی کے  درمیان ان کی شاعری سفر کرتی ہے۔ ان کا یہ وصف خصوصی مجھے  بہت متاثر کرتا ہے  اور اچھا لگتا ہے۔ شہر دلّی سو مرتبہ لوٹا گیا، تباہ اور برباد ہونا اس شہر کی ایک روایت ہے، ’دل‘ جس طرح حرکت کرتا ہے  اور ایک حالت پر برقرار نہیں  رہتا، یہی حالت شہر دلّی کی ہے، دلّی کو کمالؔ  نے  بطور استعارہ استعمال کیا ہے۔ دو اشعار میں  دلّی کے  بکھرنے  کو مجسم شکل میں  ڈھال دیا ہے ؂
دلّی دربار نکھرنے  کے  لیے  ہوتا ہے 
شاہ مسند سے  اترنے  کے  لیے  ہوتا ہے 
اب دلوں  کو بھی مزاحاً دلّی ہونا چاہیے 
اپنی بستی کو دھوئیں  کا عادی ہونا چاہیے 
احمد کمال پروازی کا پہلا شعری مجموعہ 1988 میں  منظر عام پر آیا۔ ناقدین اور اردو ادب کے  شیدائی اس مختلف شعری مجموعے  ’’مختلف‘‘ کی طرف  متوجہ ہوئے، اگرچہ یہ مجموعہ کمیت کے  لحاظ سے  بہت مختصر ہے، مگر کیفیت میں  ’’مختلف‘‘ کی کیفیت ضخیم سے  ضخیم ترین شعری دیوان سے  کم نہیں  ہے۔ دوسرا شعری مجموعہ بہت دیر سے  یعنی 2005 میں  ’’برقرار‘‘ کے  نام سے  منظر عام پر آیا۔ اگر چہ ان دونوں  مجموعوں  میں  طویل زمانی بُعد ہے  مگر کیفیتی بُعد بالکل نہیں۔ وہ اپنی شناخت بنانے  اور اپنے  مخصوص اسلوب کو پوری طرح برقرار رکھنے  میں  کامیاب ہوئے  ہیں۔ 
مجھے  امید ہی نہیں  یقین ہے  کہ احمد کمال پروازی عرصے  تک یاد رکھے  جائیں  گے، انہوں  نے  موضوعاتی لحاظ سے  ہماری روایتی غزل میں  ایسے  اضافے  کیے  ہیں  جنہیں  بھلایا نہیں  جا سکتا، اردو زبان کے  تئیں  ان کے  عشق اور محبت کے  غماز شعر پر اپنے  مختصر مضمون کا اختتام کرتا ہوں۔ ؂
ہم اپنا کام کرتے  ہی چلے  جائیں  گے  محفل سے 
پھر اس کے  بعد اردو کی حفاظت تم کو کرنی ہے 
٭٭٭


احمد فراز



احمد فراز

پاکستان سے  فیض احمد فیضؔ  اور قتیل شفائی کے  بعد جو شعراء شہرت کی بلندیوں  تک پہونچ گئے، ان میں  سب سے  بڑا اور اہم مقام احمد فرازؔ  کا ہے۔ فرازؔ  بڑی بڑی باتیں  اور بہت خوبصورت باتیں  مشکل زمینوں  میں  رواں  دواں  انداز بیان میں  کہہ جاتے  ہیں۔ ہمارے  ہندوستان میں  جو بھی قابل ذکر اور بڑا مشاعرہ ہوتا ہے  اور اس میں  پاکستانی شعراء کو مدعو کرنے  کی بات کی جاتی ہے  تو سب سے  پہلے  احمد فرازؔ  کا نام آتا ہے۔ احمد فرازؔ  نے  حسن و خوبصورتی اور ہجر و وصال پر بڑے  خوبصورت اشعار کہے  ہیں۔ الفاظ میں  سادگی اور پرکاری کا حسن نمایاں  ہوتا ہے  کہ جس کی وجہ سے  ہر خاص و عام کی سمجھ میں  آپ کا شعر بہت اچھی طرح آ جاتا ہے  اور احمد فرازؔ  کی تمام حلقوں  میں  مقبولیت کا بھی یہی سبب ہے۔ انہوں  نے  اپنے  فکر اور تخیل سے  ایک نیا پیکر تخلیق کیا ہے  اور یہ پیکر ہندوستان اور پاکستان کے  لوگوں  کے  اذہان و قلوب میں  مشک و عنبر کی خوشبو کی طرح رچ بس گیا ہے۔ انہوں  نے  بہت تھوڑے  عرصے  میں  بڑی شہرت حاصل کی اور ان کے  اشعار کی خوشبو نہ صرف ہندوستان بلکہ اردو کی نئی بستیوں  تک پہونچ چکی ہے، اور آئے  دن آپ لندن، امریکہ وغیرہ کے  مشاعروں  میں  بھی مدعو کیے  جاتے  ہیں۔ آپ کی شاعری کا سب سے  بڑا حسن خود کلامی کی کیفیت ہے، اور یہ کیفیت تجربات و مشاہدات کے  بحر بیکراں  عبور کرنے  سے  ہوتی ہے۔ 
احمد فراز کا خاندانی نام سید احمد شاہ ہے۔ والد کا نام سید محمد شاہ برقؔ  ہے۔ (جو اپنے  وقت کے  نغز گو شاعر تھے۔ )احمد فراز ۱۴ جنوری ۱۹۳۱ء میں  پیدا ہوئے۔ اردو فارسی میں  M.A کی سند حاصل کی۔ فی الحال نیشنل بک فاؤنڈیشن کے  سربراہ ہیں۔ ایک درجن سے  زائد شعری مجموعے  شائع ہو چکے  ہیں۔ ابھی دہلی سے  ’’کلام احمد فرازؔ ‘‘ کے  نام سے  1060صفحات میں  احمد فرازؔ  کے  ۱۳ مجموعے  ایک ساتھ شائع  ہو چکے  ہیں۔ 
بقول ساحلؔ  احمد
’’وہ زندگی کو سرتاپہ محبت بنا دینے  کا جذبہ رکھتے  ہیں۔ ........ان کی نگاہیں  تجربات و مشاہدات سے  کبھی خالی نہیں  رہیں۔ رومان و انقلاب کے  مشترکہ احساس نے  ان کی غزلوں  میں  خود کلامی کی بھی کیفیت پیدا کی ہے۔ اور اکثر مقامات پر وہ میرؔ  کی طرح سخن طراز نظر آتے  ہیں۔ ان کا فن ماضی کی روایت سے  اور عصر حاضر کی جد و جہد سے  منسلک و مربوط ہے۔ ‘‘ 
جناب ساحل احمد کا یہ تجربہ کتنا حقیقت کے  قریب ہے  کہ ’’وہ میرؔ  کی طرح سخن طراز نظر آتے  ہیں ‘‘ میرؔ  کی شاعری میں  جو غم و آلام کی پرچھائیاں  ہیں، درد و کرب کے  سائے  ہیں ، فراق کی سوزش ہے، یقیناً یہ احمد فرازؔ  کی شاعری کا جز بن چکی ہے۔ آپ بالیدہ خیالات کو حسن وبیان کی زیبائش سے  ایسے  آراستہ وپیراستہ کرتے  ہیں  کہ ’’وہ کہیں  اور سنا کرے  کوئی‘‘ رواں دواں  اسلوب سے  قاری لطف اندوز ہوئے  بغیر نہیں  رہ سکتا۔ امن و آشتی کو زیادہ تر اپنی شاعری کا جز بنانا پسند کرتے  ہیں۔ آپ کی غزل کے  یہ شعر ملاحظہ ہوں۔ 
سنا ہے  لوگ اسے  آنکھ بھر کے  دیکھتے  ہیں 
سو اس کے  شہر میں  کچھ دن ٹھہر کے  دیکھتے  ہیں 
سنا ہے  درد کی گاہک ہے  چشم ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے  گزر کے  دیکھتے  ہیں 
سنا ہے  بولے  تو باتوں  سے  پھول جھڑتے  ہیں 
یہ بات ہے  تو چلو بات کر کے  دیکھتے  ہیں 
سنا ہے  حشر میں  اس کی غزال سی آنکھیں 
سنا ہے  اس کو ہرن دشت بھر کے  دیکھتے  ہیں 
بس اک نگاہ میں  لٹتا ہے  قافلہ دل کا
جو رہ روان تمنا ہیں  اسے  ڈر کے  دیکھتے  ہیں 
کسے  نصیب کہ بے  پیرہن اسے  دیکھے 
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے  دیکھتے  ہیں 
اب اس کے  شہر میں ٹھہریں  کہ کوچ کر جائیں 
فرازؔ  آؤ ستارے  سفر کے  دیکھتے  ہیں 

مولانا عامر عثمانی



مولانا عامر عثمانی

مولانا عامر عثمانی دیوبند کے  مایہ ناز فرزند تھے۔ دیوبند کے  کتب خانے  سے  انہوں  نے  بہت زیادہ استفادہ کیا۔ وہ حقیقی معنوں  میں  بحر العلوم تھے۔ ۱۹۲۰ء میں  ضلع ہردوئی میں  پیدا ہوئے، پورا نام امین الرحمن تھا، لیکن علمی و ادبی حلقوں  میں  عامر عثمانی کے  نام سے  معروف ہوئے۔ دیوبند سے  سند فراغت حاصل کرنے  کے  بعد متعدد علمی وادبی رسائل میں  لکھنے  لگے۔ بعد میں  اپنا ایک ذاتی رسالہ ’’تجلی‘‘ نکالا، دیوبند کے  طلباء کو یہ رسالہ پڑھنے  کی اجازت نہ تھی، لیکن پھر بھی طلباء چھپ چھپا کر کسی نہ کسی طرح مولانا کے  رسالے  کا مطالعہ کیا کرتے  تھے۔ آپ نے  ثابت کر دیا کہ ادب کے  ذریعہ بھی علم کی خدمت کی جا سکتی ہے۔ آپ کا انداز بیان اتنا جاذب و دلکش تھا کہ مخالفین لاکھ دشمنی وبغض کے  باوجود آپ کی تحریروں  سے  استفادہ کیا کرتے  تھے۔ ’’تجلی‘‘ نے  علمی و ادبی حلقوں  میں  ایک تہلکہ مچا دیا اور جب تک یہ رسالہ باقی رہا اپنی آن بان اور شان کیساتھ باقی رہا۔ ’’تجلی‘‘ نے  بہت جلد اپنا ایک علمی مقام بنا لیا، مولانا شاعری میں  کسی کے  شاگرد نہ تھے، مگر رئیس المتغزلین جگرؔ  مرادآبادی کے  رنگ میں  شعر کہنے  کی ضرور کوشش کرتے  تھے۔ آپ کا وجدان ہی آپ کا رہنما تھا۔ زبان بڑی ٹکسالی اور دھلی دھلائی تھی۔ جو کہنا چاہتے  بغیر کسی تکلف اور جھجھک کے  صاف صاف کہہ جاتے، کہیں  کسی قسم کے  آورد کا بالکل احساس نہیں  ہوتا۔ ’’تجلی‘‘ میں  ایک مستقل مزاحیہ کالم ’’مسجد سے  میخانے  تک‘‘ کے  عنوان سے  شائع ہوتا تھا۔ آپ ملا ابن العرب مکی کے  نام سے  یہ کالم لکھا کرتے  تھے۔ کتنا اچھوتا اور طنز و مزاح سے  بھر پور اندازِ بیان ہوتا تھا!  یہ کالم اتنا مقبول ہوا کہ اسی کو پڑھنے  کے  لیے  لوگ ’’تجلی‘‘ کے  خریدار بننے  لگے  اور معتقدین عامرؔ  عثمانی میں  روز افزوں  اضافہ ہونے  لگا۔ آپ نے  اپنے  اس کالم کے  ذریعہ ثابت کر دیا کہ طنز  و مزاح صرف تفریحی نہیں  ہوتا بلکہ مقصدی بھی ہوتا ہے۔ دین اسلام اور مسلمانوں  میں  جو کمزوریاں  قلت علم کی وجہ سے  پیدا ہو گئی تھیں، ان پر آپ بڑی گہری اور کاری چوٹ کیا کرتے  تھے  اور ’’نہ جائے  رفتن نہ پائے  ماندن‘‘ والا معاملہ ہوتا تھا۔ 
کبھی ایسا ہوتا تھا کہ مولویوں  کی پیٹ پالو ذہنیت پر بھی آپ چوٹ کرنے  سے  باز نہ آتے۔ (حالانکہ آپ بھی مولانا تھے۔

داوٗد نشاط



داوٗد نشاط
تعارف
حضرت داوٗد نشاط ۱۹۲۹ء میں  پیدا ہوئے۔ ۲۰  جولائی ۱۹۹۲ء میں  آپ کا انتقال ہوا۔ حضرت ابرار حسنی گنوری، حضرت طرفہ قریشی بھنڈاروی کے  سامنے  زانوئے  تلمذ تہہ کیا۔ کڈپہ کے  ادیبوں  اور شاعروں  میں  آپ کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ داوٗد نشاط کے  دو بیٹوں  محمود شاہد اور سعید نظرؔ  نے  ان کی ادبی وراثت کو بخوبی سنبھالا اور فی الحال پوری تن دہی سے  ادب کی خدمت میں  لگے  ہوئے  ہیں۔ ۱۹۹۳ء میں  ’’عالم نشاط‘‘ کے  نام سے  آپ کا شعری مجموعہ منظر عام پر آیا۔ 
شاعری 
نشاط کی نعتیں :
رسول ﷺ کی مدح میں  کہا جانے  والا کلام نعت سے  موسوم کیا جاتا ہے۔ لفظ نعت مدح رسول کے  لیے  بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ بہر کیف! داوٗد نشاط کی نعتوں  میں  قرآنی موضوعات کو زیادہ برتا گیا ہے۔ اطاعت رسول کو اطاعت الٰہی کہا گیا ہے۔ اور رسول کی اطاعت سے  ہی اللہ کی اطاعت کی تکمیل ہوتی ہے۔ دونوں  کی فرماں  برداری بیک وقت لازم ہے۔ اسی صورت میں  کامیابی کا حصول ممکن ہے۔ ورنہ کسی ایک کی اطاعت سے  کوئی انسان کبھی بھی کامیاب نہیں  ہو سکتا۔ اس حوالے  سے  نشاطؔ  نے  بڑے  سلیقے  سے  اشعار کہے  ہیں۔ ؂
جس سے  ترا مقصد نہ ہو عیاں 
کس کام کی وہ دولتِ ایماں  ترے  بغیر
میرے  تو ذہن میں  ہی خدا کا نہ تھا وجود
لاتا خدا پہ کیسے  میں  ایماں  ترے  بغیر
سکون و اطمینان رسول ﷺ سے  وابستگی میں  پنہاں  ہے۔ آج انسان چین، امن وسکون کو نہ جانے  کہاں  کہاں  تلاش کر رہا ہے  جب کہ حقیقت میں  امن اطاعت رسول میں  پوشیدہ ہے۔ اس حقیقت کی طرف اشارہ فرماتے  ہیں ؂
کوئی خوشی ہی کر نہ سکی اس کو مطمئن
ہے  آج بھی نشاطؔ  پریشاں  ترے  بغیر
حدیث قرآن کی تفسیر ہے۔ قرآن کریم حدیث کے  بغیر نا مکمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے  اپنی کتاب میں  اجمالی حکم بیان فرمایا تو رسول کریم ﷺ نے  اپنی احادیث میں  اس کی صراحت کی ہے۔ قرآن میں  کلیات کا ذکر ہے  تو احادیث میں  جزئیات کا ذکر ہے۔ کلیات پر عمل جزئیات کے  علم کے  بغیر ممکن نہیں ؂
ترے  سمجھانے  سے  انداز عبادت آ سکے 
نا مکمل ہے  خدا کی بندگی ترے  بغیر
اس کے  ساتھ شاعر کو روضے  میں  حاضری کی خواہش، رسول ﷺ کے  دیدار کی چاہت بے  چین کیے  رہتی ہے۔ رسول ﷺ کے  در پر حاضر ہونے  کی سعادت ہر ایک کے  نصیبے  میں  نہیں  ہوتی، وسائل کی موجودگی کے  باوجود بہت سے  لوگ اس دولت سے  محروم رہتے  ہیں۔ اور بعضے  لوگ وسائل کی عدم موجودگی کے  باوجود اس در پر حاضر ہو جاتے  ہیں، جو خیر البشر کا در ہے، جو اس ذات کا در ہے  جہاں  سے  ساری دنیا میں  ہدایت کے  چراغ روشن ہوئے۔ شاعر طیبہ کی حضوری کی خواہش ان الفاظ میں  بیان کرتا ہے ؂
کرم اتنا مجھ پر احمد مختار ہو جائے 
یہ عاصی بھی کسی دن حاضر دربار ہو جائے 
نیز شاعر کے  دل میں  رسول ﷺ کے  دیدار کی خواہش بھی انگڑائیاں  لینے  لگتی ہے ؂
کسی دن تو بہار آئے  مرے  باغ تمنا میں 
کسی شب تو مرے  سرکار کا دیدار ہو جائے 
داوٗ د نشاطؔ  نے  اپنی نعتوں  میں  خصوصیت کے  ساتھ ایک اور چیز کا ذکر کیا ہے  وہ ہے  بادۂ عرفاں۔ یعنی عرفان کی دولت، عرفان یعنی علم، خود شناسی کا علم، ایسا علم جو خدا کا خاص عطیہ ہے۔ یہ علم اللہ تعالیٰ اپنے  مخصوص بندوں  کو ہی عنایت کرتے  ہیں۔ داوٗد نشاطؔ  نے  جام عرفاں  کو کبھی مرکز انوار، کبھی سبب خمار بتایا ہے۔ نیز آپ نے  یہ بھی فرمایا کہ کائنات کا عرفان رسول ﷺ کے  بغیر ممکن نہیں ؂
عطا ہو مجھ کو ایسا جام عرفاں  ساقیٔ کوثر
کہ جس کے  پیتے  ہی دل مرکز انوار ہو جائے 
حشر تک طاری رہے  یہ کیفیت مرے  حضور
بادۂ عرفاں  سے  دل مرا بہت مخمور ہے 
عرفاں  ترے  بغیر نہ قرآں  ترے  بغیر
بے  سود ہے  حرارت ایماں  ترے  بغیر
مشکل تھا کائنات کا عرفاں  ترے  بغیر
پردے  میں  تھی مشیت یزداں  ترے  بغیر
رسول ﷺ کی ناراضگی شاعر کے  نزدیک سب سے  بڑی سزا ہے ؂
اک مرے  آقا سر محشر خفا مجھ سے  نہ ہوں 
ہر سزا اس کے  سوا یا رب مجھے  منظور ہے 
داوٗد نشاطؔ  کی غزلیں :
داوٗد نشاطؔ  کی غزلوں  کا مطالعہ بتاتا ہے  کہ ان کی غزل درد و غم سے  پر نور ہے، عشق کے  جذبات سے  معمور ہے، کبھی وہ وصل کا ذکر کرتے  ہیں  تو کبھی فصل کا، کبھی احباب کا شکوہ کرتے  ہیں  تو کبھی دنیا کو دار الامتحان قرار دیتے  ہیں۔ کبھی حقائق کی طرف اشارہ کرتے  ہیں  تو کبھی موجودہ انسانوں  سے  انسانیت کے  فقدان کا مرثیہ پڑھتے  ہیں۔ کبھی اپنے  محبوب کے  یاد کرتے  ہیں  تو کبھی غم کا ذکر ان الفاظ میں  کرتے  ہیں  کہ خوشی کے  مقابلے  میں  غم کی قدر و قیمت بڑھ جاتی ہے۔ کسی کے  غم کو اپنا غم سمجھنے  کو ہی انسانیت سمجھتے  ہیں۔ آئیے ! نشاطؔ  کی غزلوں  کے  موتیوں  سے  اپنا دامن بھرتے  ہیں۔ 
خوشی اور غم: 
حضرت زاہد اعظمی نے  فرمایا تھا ؂
زندگی میں  خوشی کی نہ کر جستجو
جستجو تیری ناکام ہو جائے  گی
غم کی دولت نہیں  جبکہ سب کے  لیے 
پھر مسرت ہی کیوں  عام ہو جائے  گی
داوٗد نشاطؔ  کی نظروں  میں  غم ایک ایسا ستارہ ہے  جس کے  بغیر زندگی کا تاریک آسمان روشن نہیں  ہو سکتا، خوشی پل بھر کے  لیے  آتی ہے۔ بالکل چودہویں  کے  چاند کی طرح، پھر نہ جانے  کہاں  غائب ہو جاتی ہے۔ مگر خوشی کا ایک پل بھی کسی کو میسر آ جائے  تو اس کے  کیا کہنے ! انسان شب و روز مسرت کے  حصول کے  لیے  کتنی محنت کرتا ہے، اس کی ساری کوششوں  کا محور حصول مسرت ہے ؂
اس دور میں  تو یہ بھی غنیمت ہے  دوستو!
پل بھر کے  کچھ خوشی بھی کسی کو اگر ملے 
اور ایک شعر میں  غمِ جاناں  کی آرزو اس طرح فرماتے  ہیں ؂
مجھ کو خوشی نہ ملے  اس کا غم نہیں 
یہ آرزو ہے  آپ کا غمِ معتبر ملے 
شجاعت:
بہادری اور بلند حوصلگی کو ہر زمانے  میں  سراہا جاتا ہے۔ یہ ایسا وصف ہے  جو ہر مسلک و مشرب کے  حامی کا پسندیدہ وصف ہے۔ شجاعت شاعر میں  ہو تو اور بھی قابلِ تعریف ہے۔ کیونکہ اکثر و بیشتر شاعر بزدل ہوتے  ہیں، سامنے  کسی کو کچھ کہنے  سے  گھبراتے  ہیں، اگر چہ کہ پیچھے  اپنے  دل کی بھڑاس ضرور نکالتے  ہیں۔ داوٗد نشاطؔ  کا حوصلہ ملاحظہ کیجیے ؂
کیا کیجیے  نشاطؔ  میں  طوفاں  پسند ہوں 
ساحل بھی اب نگاہ میں  ساحل نہیں  رہا
طوفاں  کا رخ سفینے  نے  پھیرا ہے  لاکھ بار
طوفاں  مرے  سفینے  کے  قابل نہیں  رہا
مرد وہ ہے  جو زمانے  میں  تغیر و تبدل کا سبب بنتا ہے، زمانہ ساز شخص ہی کامل انسان ہوتا ہے۔ وہ انسان ذکر کرنے  کے  لائق نہیں  جسے  زمانہ تگنی کا ناچ نچائے۔ ؂
رہا ہوں  ہر زمانے  میں  نشاطؔ  عنوانِ افسانہ
زمانہ مرے  افسانے  کا عنواں  ہو نہیں  سکتا
دور حاضر: 
دور حاضر کی عنایتیں  مت پوچھیے، بشر جن اوصاف کی وجہ سے  بشر ہے  آج اس سے  وہ اوصاف چھین لیے  گئے۔ بلکہ زمانے  نے  ایسا پلٹا کھایا کہ عیوب کو ہنر گردانا جانے  لگا۔ اخلاق کے  معیارات بدل گئے۔ خوش اخلاقی خوش اخلاقی نہ رہی۔ ایسے  تاریک زمانے  کے  حوالے  سے  نشاطؔ  نے  بڑے  پیارے  اور متأثر کن شعر کہے  ہیں۔ نشاطؔ  جب اس حوالے  سے  کہتے  ہیں  تو ان کا طنز نہایت کڑوا ہوتا ہے، موجودہ دور کی کثافتوں  کے  اظہار میں  وہ خود کلامی کا انداز اختیار کرتے  ہیں ؂
عنقاء ہے  زمانے  سے  مساوات و اخوت
اوصاف بشر ڈھونڈنے  نکلے  ہو بشر میں 
رہ رہ کے  اٹھ رہا ہے  ہر سمت کیوں  دھواں 
نفرت کی آگ شہر میں  ہر سو لگی نہ ہو
تا بکے  اڑتا رہے  گا آدمیت کا مذاق
اک تماشا بن کے  یارو زندگی رہ جائے  گی
ہر گام پہ فریب نیا دے  گئی مجھے 
تہذیب نو کی دوست نما دوستی مجھے 
موجودہ روشنی پہ نگاہیں  جو کیں  نشاطؔ 
رگ رگ میں  روشنی کو ملی تیرگی مجھے 
خود اپنی نگا ہوں  سے  گرنے  لگا ہے 
یہ کیا آج حال بشر دیکھتا ہوں 
جہاں  میں  عظمت انساں  کو ڈھونڈنے  والو!
اب آدمی ہے  کہاں  آدمی کا سایہ ہے 
اب یہ ظاہر ہو رہا ہے  صورت حالات سے 
آج کا انسان شاید آخری منزل میں  ہے 
شعر اور شاعری:
نشاطؔ  نے  اپنی شاعری میں  بعض مقامات پر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے  کہ شاعر کے  لیے  کون سی چیزیں  لازم ہیں، پر تأثیر شعر کب وجود میں  آتا ہے  اور شاعری کیا ہے ؟ شعر میں  درد ہی تاثیر کا اصل سبب ہے، درد نہ ہو تو آورد سے  کام لینا پڑتا ہے۔ آمد اور آورد کی شاعری کا فرق آپ اچھی طرح سمجھتے  ہیں۔ آپ کو اس کا بھی علم ہے  کہ دونوں  کی طرح کی شاعری میں  کس کا مرتبہ بلند ہے ؟ فکر سخن کے  لیے  وہ غم کو لازم و ضروری قرار دیتے  ہیں ؂
فکر سخن کے  واسطے  غم چاہیے  نشاطؔ 
جب تک کہ دل میں  درد نہ ہو شاعری نہ ہو
شاعر بے  حد ذہین اور چالاک ہوتا ہے، یہی وجہ ہے  کہ اس کا ذہن اتنی دور تک جا پہونچتا ہے  کہ ایک آدمی ان چیزوں  کے  بارے  میں  سوچ بھی نہیں  سکتا۔ کوئی شخص شاعر کے  ذہن کی وسعت کو پانا چاہے  تو اس کے  لیے  صدیوں  لگ جاتے  ہیں، شاعر کے  اسرار زمانہ کا امیں  ہونا اسی بات پر دلالت کرتا ہے ؂
اسرار زمانہ کا امیں  ہوتا ہے  شاعر
ہر شعر مرا وقت کے  سانچے  میں  ڈھلا ہے 
ایک فنکار نہ جانے  کتنا خون دل، خون جگر جلانے  کے  بعد شعر تخلیق کرنے  میں  کامیاب ہوتا ہے۔ جب تک شاعری میں  خون جگر شامل نہ ہو شاعری حقیقی شاعری نہیں  بن سکتی۔ جب شاعر اپنے  دل کا چراغ روشن کرتا ہے  تو ایک شعر وجود پذیر ہوتا ہے ؂
خون دل سے  فکر و فن کے  جب بھی جلتے  ہیں  چراغ
تب کہیں  ڈھلتا ہے  جا کر شعر اک تاثیر کا
جگرؔ  کا تتبع:
شان تغزل حضرت جگرؔ  مرادآبادی سے  بھلا ادب کا کون سا طالب علم واقف نہ ہو گا۔ سوزوگداز، کیف وسرمستی اور درد ان کی شاعری کے  نمایاں  اوصاف ہیں۔ ایسا لگتا ہے  کہ داوٗد نشاطؔ  جگرؔ  سے  بہت متاثر ہیں، جگرؔ  کی شاعری جگر کے  پار ہوتی ہے، شاید اسی لیے  بے  اختیار داوٗد نشاط نے  جگرؔ  کے  تتبع کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ 
شعروں  میں  نشاطؔ  اپنے  لاؤ گے  وہ رنگ کہاں  سے  
جو رنگ تغزل کا ہے  نغمات جگرؔ  میں 
خود شناسی:
داوٗد نشاطؔ  نے  بہت سی غزلوں  اور مقطعوں  میں  اس بات کی صراحت کی ہے  کہ ان کی شاعری عوام کی پسندیدہ شاعری ہے۔ ان کی شاعری میں  جدید رنگ تغزل ہے، نئے  مضامین ہیں، عصری حسیت ہے، جب یہ تین اوصاف کسی شاعری میں  جمع ہو جائیں تو بھلا ایسے  شخص کی شاعری عوام و خواص میں  کیسے  مقبولیت حاصل نہیں  کرے  گی۔ سرسری طور پر گزرنے  والے  جب نشاطؔ  کے  ان اشعار سے  گزریں  گے  جن اشعار میں  نشاطؔ   نے  اپنی شاعری کی تعریف کی ہے  تو اسے  شاعرانہ تعلّی پر محمول کرنے  سے  گریز نہیں  کریں  گے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے  کہ نشاطؔ  نے  حقیقت پسندی سے  کام لیا ہے، ان کی شاعری کا مطالعہ کرنے  والا ہر انصاف پسند قاری اور نقاد یقیناً ان کی شاعری کی عظمت کا اعتراف کرے  گا۔ 
نشاطؔ  اپنی شاعری کو تجربات کا نچوڑ کہتے  ہیں  اور بہت کچھ جاننے  کا دعویٰ کرتے  ہیں  تو اس کا مطلب یہ نہیں  کہ وہ غرور اور خود پسندی کا شکار ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے  کہ وہ خود شناس ہیں، انہیں  اپنے  وزن کا اندازہ ہے، انہیں  بخوبی علم ہے  کہ اردو ادب میں  ان کا مقام و مرتبہ کیا ہے ؂
کوئی بھی روپ ہو پہچان لوں  گا میں  تجھ کو
میں  کائنات کی ہر چیز سے  شناسا ہوں 
دلوں  میں  اتریں  نہ کیوں  سب مرے  شعر نشاطؔ  
جو بات کہتا ہوں  میں  تجربہ کی کہتا ہوں 
ہے  بادۂ اسرار دو عالم سے  یہ لبریز
خالی مرے  افکار کا مینا نہیں  ہوتا
طرز ماضی سے  کیا غرض ہے  نشاطؔ  
فکر نو ہو تو کوئی شعر ڈھلے 
پھر جھومنے  لگی ہے  مسرت سے  کائنات
میری غزل نشاطؔ  کوئی گا رہا ہے  کیا
جسے  سن کے  جھوم جائیں  سبھی بام و در وطن کے 
مجھے  اے  نشاطؔ  اپنی ذرا وہ غزل سنانا
فضا پہ چھاتا ہے  کیف و سرور کا عالم
نشاطؔ  اپنی غزل جب کہیں  سناتا ہے 
دلوں  سے  ہر کسی کے  داد و تحسین خود نکلتی ہے 
نشاطؔ  خوش نوا جب اپنی غزل سناتا ہے 
مشاہیر کی نظر میں :
ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید کہتے  ہیں  کہ داوٗد نشاطؔ  نے  بھی غزل کو لب اور رخسار اور شمع اور پروانہ تک محدود نہیں  رکھا، بلکہ اس نوعیت کے  اشعار ان کے  ہاں  کم ملتے  ہیں۔ ان کی غزل تو وہ غزل ہے  جس کو ہم نئی غزل سے  قریب پاتے  ہیں، جس میں  عصری مسائل کی گونج ملتی ہے، جس میں  ہم معاشرے  کے  شب و روز، درد و کرب اور زندگی کی دھڑکنوں  کو محسوس کیا جا سکتا ہے، کرب و بلا کو جس سے  آج کا انسان گزر رہا ہے، آج کی الجھنیں، انتشار، خلفشار، نیز اقتصادی، تہذیبی، سیاسی اور اخلاقی بحران کی جلوہ گری کم یا زیادہ نشاطؔ  کی غزلوں  میں  مل ہی جاتی ہے۔ داوٗد نشاطؔ  نے  زندگی کی ناہمواریاں  اجاگر کرنے  میں  کسی تکلف سے  کام نہیں  لیا بلکہ جہاں  تہاں  تو ان کا لہجہ دو ٹوک اور جرأت مندانہ بھی ہو جاتا ہے۔ 
محمود عالم کہتے  ہیں  کہ داوٗد نشاطؔ  کی غزلیں  کلاسیکی انداز کے  ساتھ ساتھ طرز جدید میں  فکر تازہ کی نئی کونپلوں  کو نمایاں  ہونے  کا موقعہ فراہم کرتی ہیں۔ نشاطؔ  کے  کلام میں  حد درجہ معنویت اور غنائیت ہے  اور یہی ان کی مقبولیت کا سبب ہے۔ 
٭٭٭