Saturday, January 17, 2015

سعودی عرب کی وادی جن اور کینیڈا کی مقناطیسی پہاڑی


مجھے کافی دوستوں کے مسیج آئےتھے کہ آپ سعودی عرب کی وادی جن کے متعلق ضرور بتائیں۔
سعودی عرب کے مقدس شہر مدینہ منورہ سے شمال مغرب کی جانب35کلو میٹر کے فاصلے پر واقع مقام وادی جن جنس و نسل کی قید سے آزاد ہر فرد کو اپنی طرف متوجہ کئے ہوئے ہے۔ یوں تو عرب کے تپتے صحراؤں میں بچھا ہوا سعو دی عرب ہر مسلما ن کے لئے تاریخی اور مذہبی حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے مگر ہر سال یہاں حج و دیگر ایام میں بھی عمرہ کی ادائیگی کے لئے دنیا بھر سے آنے والے لاکھوں مسلمانوں کے لئے اپنے مذہبی فرائض کی انجام دہی کے علاوہ پر سراروادی جن کو دیکھنا اور اس کی حقیقت کے بارے میں جاننے کی جستجو اپنی جگہ موجود رہتی ہے۔
وادی جن کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ یہاں آپ اگر اپنی گاڑی کے انجن کو بند کر دیں اور اس کے گیئر کو نیوٹرل پر رکھ دیں تو آپ کی گاڑی خود بخود 120کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چڑھائی پر چلنا شروع ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ 14کلو میٹر تک مسلسل جاری رہتا ہے۔
میں چونکہ ابھی تک حجاز مقدس گیا نہیں اس لئے مجھے اس کا تجربہ نہیں۔ میں یہاں اس کے متعلق ایک صاحب کا ذاتی تجربہ آپ کو پوسٹ کررہا ہوں۔ جن کا نام عبدالرحمن ہے۔ اور وہ قطر میں جاب کرتے ہیں ۔
اور آخر میں آپ کو اس مقام کے متعلق حدیث شریف بھی بتاؤں گا۔ اورایک اور مقام کےمتعلق بھی بتاؤں گا جو کہ تقریبا اس سے ملتا جلتا ہے۔
عبدالرحمن صاحب لکھتے ہیں۔
-------------------------------
بہت سے دوسرے افراد کی طرح مجھ میں بھی وادی جن کے واقعات کو سن کو اس کو خود سے دیکھنے اور تجربہ کرنے کی لگن پید ا ہوئی۔ وادی جن کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ یہاں آپ اگر اپنی گاڑی کے انجن کو بند کر دیں اور اس کے گیئر کو نیوٹرل پر رکھ دیں تو آپ کی گاڑی خود بخود 120کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنا شروع ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ 14کلو میٹر تک مسلسل جاری رہتا ہے۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ وادی جن میں جہاں پر گاڑی کاانجن بند کر دیا جائے اور اس کے گیئر کو نیوٹرل کردیا جائے وہ ایک چڑھائی ہے یعنی کے گاڑی نیچے سے اوپر کی جانب جاتی ہے اور وہ بھی 120کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے۔ وادی جن میں اپنی اور اپنے پاس گاڑی کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے بھی اس تجربے کو آزمایا اور ایسا کرنے کے بعد اس وادی سے منسلک واقعات پر یقین رکھنے کے علاوہ میرے پاس بھی کوئی چارہ نہیں رہا۔
میرے ذاتی تجربے سے یہ بھی ثابت ہو ا کہ وادی جن پر آپ اس مخصوص جگہ پر کوئی بھی چیز رکھ دیں جیسے کہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے پانی کو بہا یا تو وہ بھی خود بخود اوپر کی طرف بہنے لگ پڑا۔ یہاں وادی جن کے متعلق ایک اور بات بھی آپ کے علم میں لاتا چلوں کہ اگر آپ گاڑی کے انجن کو بند کئے بنا اس کو وہاں سے گزاریں گے تووہ 100کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زیادہ تیز نہیں چلے گی لیکن جب گاڑی کا انجن بند ہو اور اس کا گیئر نیوٹرل پر رکھا جائے تو وہ خود بخود 120کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے 14کلو میٹر کے فاصلے تک چلتی ہے۔وہاں کے مقامی لوگوں میں وادی جن کے حوالے سے مختلف باتیں زد عام ہیں کچھ کے نزدیک یہاں جنا ت رہتے ہیں جو کہ گاڑی یا وہاں پر رکھی کسی بھی چیز کو آگے کی طرف دھکیلتے ہیں اسی لئے اس وادی کو وادی جن کا نام دیا گیا ہے۔ اس مقام پر ذاتی تجربہ کرنے کے بعد اس سے جڑے واقعات اور اس کی پراسراریت پرمیرا یقین پختہ ہو گیا ہے۔
-------------------------
یہ بات مجھے کافی دوستوں نے مسیج میں لکھی ہے۔اور یہ ہی بات میرے کزن نے بھی اپنے ذاتی تجربے سے مجھے بتائی تھی۔کہ ہاں بالکل میں نے بھی گاڑی بند کردی تھی۔اور گاڑی خود بخود 120 کلومیڑ کی رفتار سے دوڑتی رہی۔
اب اس کی درست حقیقت سے میں بالکل ناواقف ہوں ۔ ہاں آپ کو اس مقا م کے متعلق ایک حدیث ضرور بتاتاہوں۔
یہ مقام اصل میں وادی جن نہیں بلکہ وادی بیدا ہے۔ اس کا ذکر
مسلم شریف کتاب الفتن: باب الخسف بالجیش الزی یوم البیت میں موجود ہے
عبیداللہ بن قبطیہ سے مروی ہے کہ
حارث بن ربیعہ اور عبداللہ بن صفوان حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے پاس گئے اور میں بھی ان کے ہمراہ تھا۔ انہوں نے ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے اس لشکر کے متعلق دریافت کیا جو زمین میں دھنسا دیا جائے گا اور یہ ان دنوں کی بات ہے جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ مکہ کے حاکم تھے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے: "ایک آدمی بیت اللہ میں پناہ لے گا تو ان کی طرف ایک لشکر بھیجا جائے گا جب وہ لشکر بیدا نامی جگہ پر پہنچے گا تو زمین میں دھنسا دیا جائے گا ۔ میں نے کہا: یارسول اللہ ! جو زبردستی اس لشکر کے ساتھ (مجبور ہو کر) شامل ہوا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا "وہ بھی لشکر کے ساتھ زمین میں دھنسا دیا جائے گا مگر روز قیامت اپنی نیت کے مطابق اٹھایا جائے گا۔
ابو جعفر فرماتے ہیں "بیدا مدینے کا ایک میدان ہے"
-------------
اس سے ملتا جلتا ایک اور مقام بھی دنیا میں موجود ہے جس کا نام ہے۔ مونکٹن کینیڈا کی مقناطیسی پہاڑی
Magnetic Hill, Moncton, New Brunswick
1930 میں جب سے یہ عجیب و غریب مقام دریافت ہوا ہے تب اس جادوگری کو دیکھنے کے لیے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس طرف کا رخ کرتی ہے-(جس طرح ہمارے پاکستانی وادی بیدا کا رخ کرتے ہیں)۔ اور اب تک کئی لوگ اس بات کا سراغ لگانے کی کوشش کر چکے ہیں کہ آیا اس جگہ پر گاڑیاں کس طرح نیچے سے اوپر کی جانب جاتی ہیں۔
تو اکثر کا نظریہ ا س کے متعلق یہ ہی کہ اس پہاڑی کی روڈ پر مقناطیسی طاقت موجود ہے جو گاڑیوں کو اپنی طرف نیچے سے اوپر کھینچتی ہے۔ اسی لئے اس کا نام بھی مقناطیسی پہاڑی ہی رکھ دیا گیا ہے۔
یقینا اصل راز سےتو اللہ کریم ہی جانتا ہے۔ کیونکہ اس میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور ہے۔ ایسے ہی یہ دو مقام مشہور نہیں ہوگئے ۔لیکن اصل وجہ کیا ہے۔۔ معلوم نہیں۔

لاکو خان کی بیٹی اورایک مسلمان عالم کادلچسپ مکالمہ

بیان کیا جاتا ہے کہ بغداد پر تاتاری فتح کے بعد، ہلاکو خان کی بیٹی بغداد میں گشت کررہی تھی کہ ایک ہجوم پر اس کی نظر پڑی۔ پوچھا لوگ یہاں کیوں اکٹھے ہیں؟ جواب آیا: ایک عالم کے پاس کھڑے ہیں۔ دخترِ ہلاکو نے عالم کو اپنے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا۔ عالم کو تاتاری شہزادی کے سامنے لا حاضر کیا گیا۔
شہزادی مسلمان عالم سے سوال کرنے لگی: کیا تم لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے؟
عالم: یقیناً ہم ایمان رکھتے ہیں
شہزادی: کیا تمہارا ایمان نہیں کہ اللہ جسے چاہے غالب کرتا ہے؟
عالم: یقیناً ہمارا اس پر ایمان ہے۔
شہزادی: تو کیا اللہ نے آچ ہمیں تم لوگوں پر غالب نہیں کردیا ہے؟
عالم: یقیناً کردیا ہے۔
شہزادی: تو کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ خدا ہمیں تم سے زیادہ چاہتا ہے؟
عالم: نہیں
شہزادی: کیسے؟
عالم: تم نے کبھی چرواہے کو دیکھا ہے؟
شہزادی: ہاں دیکھا ہے
عالم: کیا اس کے ریوڑ کے پیچھے چرواہے نے اپنے کچھ کتے بھی رکھ چھوڑے ہوتے ہیں؟
شہزادی: ہاں رکھے ہوتے ہیں۔
عالم: اچھا تو اگر کچھ بھیڑیں چرواہے کو چھوڑ کو کسی طرف کو نکل کھڑی ہوں، اور چرواہے کی سن کر دینے کو تیار ہی نہ ہوں، تو چرواہا کیا کرتا ہے؟
شہزادی: وہ ان کے پیچھے اپنے کتے دوڑاتا ہے تاکہ وہ ان کو واپس اس کی کمان میں لے آئیں۔
عالم: وہ کتے کب تک ان بھیڑوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں؟
شہزادی: جب تک وہ فرار رہیں اور چرواہے کے اقتدار میں واپس نہ آجائیں۔
عالم: تو آپ تاتاری لوگ زمین میں ہم مسلمانوں کے حق میں خدا کے چھوڑے ہوئے کتے ہیں؛ جب تک ہم خدا کے در سے بھاگے رہیں گے اور اس کی اطاعت اور اس کے منہج پر نہیں آجائیں گے، تب تک خدا تمہیں ہمارے پیچھے دوڑائے رکھے گا، تب تک ہمارا امن چین تم ہم پر حرام کیے رکھوگے؛ ہاں جب ہم خدا کے در پر واپس آجائیں گے اُس دن تمہارا کام ختم ہوجائے گا۔
*****
مسلمان عالم کے اس جواب میں آج ہمارے غوروفکر کےلیے بہت کچھ پوشیدہ ہے!
خدایا ہمارے اس بھٹکے ہوئے قافلے کو اپنے در پر واپس آنے کی توفیق دے!
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے

سیف الاسلام بن کرنل قذافی کی کہانی

قت بدلتے دیر نہیں لگتی۔
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
ایک ویران سی جگہ پر واقع کھنڈر نما مکان سے 19نومبر 2011کوایک ایسے شخص کو گرفتار کیا گیا جو اس کمرے میں تقریباً پچھلے پانچ یاچھ ماہ سے چھپا ہو ا تھا وہ شدید زخمی اور بیمار تھا کمرے کی حالت اتنی خستہ تھی کہ اس میں نہ تو کوئی روشنی کامناسب انتظام تھا اور نہ ہی کمرے میں تازہ ہوا آنے کا کوئی راستہ موجود تھا یہاں تک کہ کمرے میں باتھ روم تک کی سہولت بھی میسرنہ تھی۔ اُس شخص کا کھانا پینا سونا اور پیشاب وغیرہ کرنا سب کچھ اسی کمرے کی چار دیواری کے اندر ہی محدود تھا۔ جب اس شخص کو گرفتار کیا گیا تو اُس کی حالت دیکھ کر ایسے لگتا تھا جیسے وہ کئی دنوں سے بھوکا پیاسا ہے اور کئی ہفتوں سے نہایا ہوا بھی نہیں ہے۔ اس کمرے میں پڑ ا میٹرس تکیہ اور کمبل اس قدر گندہ اور بدبو دار تھا کہ ان کو استعمال کرنا تو دور کی بات اس کو دیکھ کر بھی گھن آرہی تھی۔ گندے اور بدبو دار کمبل میں لپٹا ہوا جو شخص گرفتار ہوا وہ شخص کوئی عام آدمی نہیں تھابلکہ کچھ عرصہ پہلے تک وہ دنیا کا ایک امیر ترین آدمی تھا اور اُسکا شمار دنیا کے چند بااثر اور امیر
ترین لوگوں میں ہوتا تھا ۔
وہ انتہائی آسائش کی زندگی گزارتا تھا اور اپنی عیاشیوں پر کروڑوں ڈالرز کچھ سکینڈ میں ہی خرچ کر دیتا تھاایک بار لند ن میں وہ اپنی کار میں سفر کررہا تھا کہ سفر کے دوران ہی اُسے شمالی لند ن کا ایک خوبصور ت گھر پسند آگیا اور اس نے گھر خریدنے کا فیصلہ کر لیا لیکن گھر کا مالک گھر بیچنے کو تیا ر نہیں تھا لیکن اس نے ضد میں آکر گھر کی ڈبل قیمت ادا کرکے وہیں کھڑے کھڑے ایک کروڑ برٹش پاؤنڈز کا وہ گھر خرید لیا جسکی قیمت پاکستانی کرنسی میں تقریباً ایک ارب چالیس کرو ڑ روپے بنتی ہے۔
2009 ء میں اُس نے اپنی 37سالگرہ منائی جس میں دنیا بھر کے امیر ترین لوگوں نے شرکت کی جن میں روس کے Albanian tycoon ،سونے کی کانوں کے مالک Peter Munkاور prince of Monaco Albertجیسی دنیا بھر کی مشہور شخصیا ت نے شرکت کی اور یہ سالگرہ اب تک کی دنیا کی مہنگی ترین سالگرہ شمار کی جاتی ہے۔ یہ شخص انتہائی مہنگی پینٹنگ خریدنے کا شیدائی تھا اس نے اربوں ڈالرز مالیت کی پینٹنگ کو اپنے محل کی زینت بنایا ہوا تھا ۔
2006ء میں اسے اسرائیل کی اداکارہ Orly weinermanسے عشق ہوگیا اور اس نے اُسے اپنی محبوبہ بنانے کے لیئے اس کے گرد دولت کے انبار لگادئیے چنانچہ orly weinermaاس کی گرل فرینڈبن گئی اور یہ دنیا کی مہنگی ترین گرل فرینڈتھی ۔
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیرکا وہ بیسٹ فرینڈتھا اور برطانوی شاہی خاندان اسے کئی بار اسے buckingham palaceاور winsley castleمیں لنچ اور ڈنر دئیے تھے یہ لندن اور پیرس میں پلے بوائے کی زندگی گزارتااور اسے دنیا جہان کے قانون توڑنے میں وہ بڑا فخر محسوس کرتاتھا اس نے ایک بار پیرس کی shanzelize street پر ایک سو تیس کلومیٹر فی رفتار سے گاڑی چلا کر پوری یورپی دنیا کو حیران کردیااور پیرس کی سٹی حکومت بھر پور کوشش کرنے کے باوجود اس کا چالان تک نہ کرسکی ۔اپنے ملک کی investment authorityکا یہ شخص سربراہ تھا اور یہ اتھارٹی اتنی پاور فل تھی کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی وقت 10 بلین ڈالر تک کی سرمایا کاری کرسکتی تھی اور یہ بہت بڑی بات تھی ۔
ایسی شان وشوکت سے زندگی گُزارنے والا شخص جو 19نومبر2011ء کو ایک چھوٹے سے بدبو دارکمرے میں بدبو دار کمبل میں لپٹا گرفتار ہوا وہ شخص کوئی اور نہیں وہ سیف الاسلام تھا دنیا کے تیسرے نمبر پر تیل سے مالامال ملک لیبیا کے سابق حکمران کرنل قذافی کا بیٹا تھا وہ قذافی کا جانشین اور لیبیا کا ولی عہدتھا یہ اپنے وقت میں لیبیا کا دوسرا بااثر ترین آدمی تھا یہ اتنا با اثر اور پاور فل تھا کہ کرنل قذافی کو نیوکلیئر پروگرام ترک کرنے کے لیئے بھی اسی نے قائل کیا تھا ۔
سیف الاسلا م اس وقت لیبیا کی موجودہ حکومت کی قید میں ہے اور موت سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔اس کی ایک ہاتھ کی انگلیاں بھی کاٹ دی گئی ہیں۔ یہ وہ سیف الاسلام تھا جس کا ایک قدم لیبیا میں تو دوسر ا لند ن یا پیرس میں ہوتا تھا۔ جس کے لیئے پیرس کی بڑ ی بڑی کمپنیاں خاص قسم کے خصوصی پرفیومز تیا ر کرتیں تھیں یہ وہی سیف الاسلام ہے جو کچھ عرصہ پہلے تک ملکہ برطانیہ کا شاہی مہمان بنتا تھا لیکن آج پوری دنیا کا کوئی بھی ملک اُسے پناہ دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔وہ سیف الاسلام جس کے لیئے لندن اور پیرس میں خصوصی لنچ اور ڈنر ز کا اہتمام کیئے جاتے تھے آج اُسے ایک وقت کا کھانا بھی بڑی مشکل سے نصیب ہوتا ہے ۔ ایک لمحے کے اندر ایک کروڑ پاؤنڈز میں گھر خریدنے والے کے پاس آج سر چھپانے کے لئے ایک چھت تک میسر نہیں ہے۔
جس کے کل تک دنیا کے اربوں پتی لوگ بیسٹ فرینڈز ہوا کرتے تھے آج وہی بے یارو مددگار مدد کے لیئے دہائیاں لگا رہا ہے لیکن کوئی بھی اس کی مدد کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔سیف الاسلام پلک جھپکتے ہی عرش سے فرش پر آگیا اور بادشاہ سے فقیر ہوگیا۔
یہ زمانے کا دستو ر ہےجو لوگ جوخدا کو بھول جاتے ہیں اور خود کو خدا تصور کرنے لگتے ہیں تو ایسے لوگوں پر ایک نہ ایک دن اﷲتعالیٰ کا عذاب قہر بن کر نازل ہوتا ہے جس سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا۔ ایسے حکمران جواقتدار کو ہی سب کچھ سمجھ لیتے ہیں اوراقتدار کے نشے میں بہک کر یہ خیال کرتے ہیں کہ اُن کے اقتدار کا سورج کبھی بھی غروب ہونے والا نہیں اور انکے مقدر کا ستارہ ہمیشہ ہی چمکتا رہے گا تو ایسے حکمرانوں سے سیف الاسلام کی کہانی چیخ چیخ کر یہ کہہ رہی ہے کہ عوام کا اعتماد کھو دینے والے بے حس اور خود کو خدا تصور کرنے والے حکمرانوں کا ایک نہ ایک دن ایسا ہی دردناک اور بھیانک انجام ہوتا ہے۔
کسی شاعر نے ہمیں ان اشعار میں خوب سمجھایا ہے۔
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سُو نمونے
مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بُو نے
کبھی غور سے بھی دیکھا ہے تو نے
جو معمور تھے وہ محل اب ہیں سُونے
ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے
مکیں ہو گٔیٔے لا مکاں کیسے کیسے
ھؤے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گٔیٔ نوجواں کیسے کیسے
اجل نے نہ کسریٰ ہی چھوڑا نہ دارا
اسی پہ سکندر فاتح بھی ہارا
ہر ایک چھوڑ کے کیا حسرت سدھارا
پڑا رہ گیا سب یہیں کھاٹ سارا
تجھے پہلے بچپن میں برسوں کھلایا
جوانی میں پھر تجھ کو مجنوں بنایا
بڑھاپے نے پھر آ کے کیا کیا ستایا
اجل تیرا کر دے گی بالکل صفایا
یہی تجھ کو دھُن ہے رہُوں سب سے بالا
ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا
جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا؟
تجھے حسنِ ظاہر نے دھوکے میں ڈالا
وُہ ہے عیش و عشرت کا کؤی محل بھی؟
جہاں ساتھ میں کھڑی ہو اجل بھی
بس اب اس جہالت سے تُو نکل بھی
یہ طرزِ معیشت اب اپنا بدل بھی
یہ دنیأے فانی ہے محبوب تجھ کو
ہؤی واہ کیا چیز مرغوب تجھ کو
نہی عقل اتنی بھی مجزوب تجھ کو
سمجھ لینا چاہیے اب خوب تجھ کو
بڑھاپے میں پا کے پیامِ قضا بھی
نہ چونکا نہ چیتا نہ سمبھلا ذرا بھی
کؤی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی؟
جنون چھوڑ کر اپنے ہوش آ بھی
جب اِس بزم سے دوست چل دیے اکثر
اور اُٹھے چلے جا رہے ہیں برابر
ہر وقت پیشِ نظر ہے یہ منظر
یہاں پر تِرا دل بہلتا ہے کیونکر
جہاں میں کہیں شورِ ماتم بپا ہے
کہیں فِکر و فاقہ سے آہ و بکا ہے
کہیں شکوہ جور و مکر و دغا ہے
ہر ہر طرف سے بس یہی صدا ہے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

Sunday, July 28, 2013

ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ


ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ
ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﺑﮍﮮ ﺍﻋﻠﯽٰ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺟﺲ
ﻟﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﺳﭽﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﻗﺴﻤﯿﮟ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺷﺎﻡ ﮐﻮ
ﺍﺳﯽ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﭘﺮ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﻓﺨﺮ
ﺳﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ"ﺑﭽﯽ ﭼﯿﮏ ﮐﺮ"ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﺮ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﺎ
ﻧﺎﻡ ﮔﮍﯾﺎ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ
ﺟﺬﺑﺎﺗﯽ ﮐﻔﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﻧﮧ
ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺋﮯ ۔ ﺍﻥ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮐﯽ ﺍﻭﻟﯿﻦ ﮐﻮﺷﺶ ﮨﻮﺗﯽ
ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﮔﺮﻝ ﻓﺮﯾﻨﮉ ﮐﯽ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﮐﺎ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ
ﻧﻤﺒﺮ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﮔﺮ ﻧﻤﺒﺮ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﭼﺎﺭ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﺳﮩﯿﻠﯽ
ﮐﯽ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﮐﺎ ﻧﻤﺒﺮ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻣﯿﮟ ﻟﮓ
ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﮐﻮ
ﺑﮯﺑﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﺍﺑﺎ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ
ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻣﺎﻡ ﮈﯾﮉ ﺳﮯ ﮐﻢ ﭘﺮ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﯾﮧ ﮨﺮ ﺭﻭﺯ
ﮔﺮﻝ ﻓﺮﯾﻨﮉ ﮐﻮ ﻓﻮﻥ ﭘﺮ ﺑﺘﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ
ﺍﻭﺭ ﺍﻣﯿﺮ ﻟﮍﮐﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﺩﮬﻮ ﮐﺮ ﺍﻧﮑﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭘﮍ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺑﻼ ﻭﺟﮧ ﻓﻮﻥ ﮐﺮﮐﮯ ﺗﻨﮓ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮﻭ ﮔﮍﯾﺎ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺩﻓﻌﮧ ﮈﺍﻧﭩﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺑﺎﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ
ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮨﮯ ﭼﮭﭩﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ
ﺁﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﭘﮍ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ،
ﺁﮔﮯ ﺳﮯ ﮔﮍﯾﺎ ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﻤﺒﺮ ﻣﺎﻧﮓ ﻟﮯ ﺗﻮ ﺑﮍﯼ
ﻣﻌﺼﻮﻣﯿﺖ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﯿﺴﺎ
ﻧﻤﺒﺮ ﻟﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﺳﮑﺮﯾﻦ ﭘﺮ ﺷﻮ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﻮﺗﺎ ﮔﮍﯾﺎ ﺑﮯﭼﺎﺭﯼ ﺳﺎﺭﯼ ﺭﺍﺕ ﺳﻮﭼﺘﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ
ﺍﻣﯿﺮ ﺯﺍﺩﯼ ﮐﺎ ﻓﻮﻥ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ
ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﺍﯾﮏ ﺟﻤﻠﮧ ﺑﮍﮮ ﺗﻮﺍﺗﺮ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﺘﮯ ﮨﯿﮟ"ﮔﮍﯾﺎ
ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻮﭨﮭﯽ، ﭘﯿﺴﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ
ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﻭﮌﻭﮞ ﮐﻤﺎ ﺳﮑﺘﺎ
ﮨﻮﮞ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﭘﯿﺴﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ
ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﺮ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﺗﯿﻦ ﺳﻮ
ﮐﺎ ﺁﮐﮍﮦ ﺍﺱ ﺍﻣﯿﺪ ﭘﺮﺿﺮﻭﺭ ﻟﮕﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺷﺎﯾﺪ ﭼﻨﺪ ﮨﺰﺍﺭ
ﺍﻧﻌﺎﻡ ﻟﮓ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮨﺮ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺑﻌﺪ ﮔﮍﯾﺎ ﮐﺎ
ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﻟﻤﺒﯽ ﻟﻤﺒﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﭼﮭﻮﮌﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺩﻝ
ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺳﻨﮕﺎ ﭘﻮﺭ ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺅ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ
ﺧﺪﺍ ﮔﻮﺍﮦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﮑﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﻨﮕﺎﭘﻮﺭ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺧﺎﻥ ﭘﻮﺭ ﺗﮏ
ﮐﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﯾﮧ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻟﮍﮐﯽ ﭘﺮ ﺭﻋﺐ
ﺑﮭﯽ ﭘﮍ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﺮﭼﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ
ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﻼﻧﮯ ﻟﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻮﭨﻞ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﺳﺮ
ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻭﮦ ﺷﭧ ﯾﺎﺭ ﺍﮮ ﭨﯽ ﺍﯾﻢ ﺗﻮ
ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺑﮭﻮﻝ ﺁﯾﺎ ﺍﺏ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﯾﮟ ؟ ﭼﻠﻮ ﺳﭩﮧ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔
ﺟﺒﮑﮧ ﺳﭽﯽ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﮮ ﭨﯽ ﺍﯾﻢ ﺗﻮ
ﮐﯿﺎ ﺑﻨﮏ ﺍﮐﺎﺅﻧﭧ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺳﭩﯿﭩﺲ ﮐﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﺑﮭﯽ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻧﮑﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋﺸﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﮯ ﮐﻠﭽﺮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﺍﻣﯿﺮ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮨﺮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺭﻭﺯ ﻟﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ
ﻓﺮﻣﺎﺋﺶ ﮐﺮﺗﺎ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﮐﮧ ﯾﺎﺭ ﭼﻠﻮ ﺗﻮ ﺳﮩﯽ ﻭﮨﺎﮞ
ﺳﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﯾﺎﺭ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻏﺮﯾﺐ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉ
ﺍﭘﻨﮯ ﮨﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺋﺶ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﭘﻠﯿﺰ ﻋﺎﺷﯽ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﮯ
ﮐﺎﺭ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﺰﻥ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺭﮨﺎ ﮐﺮﻭ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯿﮍﯾﮯ ﮨﻮﺗﮯ
ﮨﯿﮟ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺯﻋﻢ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ
ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﯽ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ
ﺍﻇﮩﺎﺭ ﻭﮦ ﺍﮐﺜﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﺮﻝ ﻓﺮﯾﻨﮉ ﺳﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ"
ﻋﺎﺷﯽ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮﻭ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮍﮮ ﻣﺎﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺑﯿﭩﯽ
ﺟﻮ ﺍﻧﺠﯿﻨﯿﺮ ﺑﻦ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺍﻧﭩﺮﺳﭩﺪ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ
ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﮯ ﮔﮭﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺭﺩﮔﺮﺩ ﮨﯽ
ﮔﮭﻮﻣﺘﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﺑﮭﺎﮒ ﺑﮭﺎﮒ ﮐﺮ ﭼﯿﺰﯾﮟ
ﻻﺗﯽ ﮨﮯ ، ﺩﻭ ﭼﺎﺭ ﺩﻓﻌﮧ ﺗﻮ ﺧﻮﺩﮐﺸﯽ ﮐﯽ ﺩﮬﻤﮑﯽ
ﺑﮭﯽ ﺩﮮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﺳﻤﺠﮭﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﮐﮧ ﯾﮧ ﺑﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ، ﺍﺏ ﻋﺎﺷﯽ ﺑﮯ ﭼﺎﺭﯼ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﭘﺘﮧ ﮐﮧ
ﺍﻧﮑﮯ ﻣﺎﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﺗﯿﻦ ﺑﯿﭩﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﯾﺴﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﻧﮯ ﮨﺮ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﺟﮭﺎﻧﺴﺎ
ﺩﮮ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮨﻢ ﺟﺐ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺭﻭﻧﯽ
ﺻﻮﺭﺕ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺳﺎﺭﺍ ﻣﻠﺒﮧ ﻣﺎﮞ ﭘﺮ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ
ﺑﻮﮐﮭﻼﮨﭧ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﮯ
ﮨﯿﮟ"ﻋﺎﺷﯽ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮﻭ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﯼ
ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﮓ ﻣﯿﺮﮮ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ
ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ:ﻣﯿﮟ ﻟﮍﮐﻮﮞ ﮐﯽ ﺭﮒ ﺭﮒ ﺳﮯ ﻭﺍﻗﻒ ﮨﻮﮞ
ﯾﮧ ﺑﮍﯼ ﭼﯿﺰ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ، ﭼﺎﮨﮯ ﺗﮭﯿﭩﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﺮﮔﺲ ﮐﺎ
ﮈﺍﻧﺲ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﮔﺮﻝ ﻓﺮﯾﻨﮉ ﮐﯽ
ﮐﺎﻝ ﺁﺟﺎﺋﮯ ﻓﻮﺭﺍ"ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﻣﯿﺴﺞ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﺎﻥ
ﺍﯾﮏ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ
ﺍﯾﺴﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮨﺮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ،
ﻟﮍﮐﯽ ﺍﮔﺮ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﮐﮧ ﮐﻞ ﺗﻮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻧﺌﯽ
ﮔﺎﮌﯼ ﻟﯿﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻓﻮﺭﺍ"ﻻﭘﺮﻭﺍﮨﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﮯ
ﮔﺎﮌﯼ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺴﻠﺌﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﻟﮯ ﻟﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ
ﺟﻮ ﻣﺰﮦ ﺳﮑﻮﭨﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﻭﮦ ﮔﺎﮌﯼ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﮞ ۔ ﺍﺱ
ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﮍﯼ ﻣﻌﺼﻮﻣﯿﺖ ﺳﮯ ﻟﮍﮐﯽ
ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺑﻘﮧ ﺍﻓﯿﺌﺮﺯ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﮭﺮ
ﻣﮑﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺁﻣﺎﺩﮦ ﮐﺮﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ
ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﺘﺎﺋﮯ ﻟﮍﮐﯽ ﺑﯿﭽﺎﺭﯼ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﮧ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﻮ
ﺳﻤﺠﮭﻮ ﭘﮭﺮ ﮔﺌﯽ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ
ﺍﻥ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮐﻮ ﻧﺌﯽ ﻧﺌﯽ ﺷﺮﭨﺲ ﭘﮩﻨﻨﮯ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ
ﺑﮩﺖ ﺷﻮﻕ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﮍﮮ ﻋﺎﻣﯿﺎﻧﮧ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ
ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺗﮏ ﮨﻔﺘﮯ ﻣﯿﮟlevi'sﮐﯽ ﺩﻭ ﺷﺮﭨﺲ
ﻧﮧ ﺧﺮﯾﺪ ﻟﻮﮞ ﭼﯿﻦ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﺍﻧﮑﯽ ﺍﮐﺜﺮ
ﺷﺮﭨﺲ ﺗﺐ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﺐ ﺍﺑﺎ ﮐﯽ ﺩﮬﻮﺗﯽ ﻣﯿﮟ ﺑُﺮ ﺁﻧﮯ
ﻟﮕﮯ ۔ ﯾﮧ ﺍﮐﺜﺮ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮈﯾﭧ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭨﯽ
ﺭﻭﺯ ﭘﺮﻓﯿﻮﻡ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﭼﺎﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻟﮍﮐﯽ ﺁﺩﮬﮯ
ﺭﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺑﮯ ﮨﻮﺵ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ
ﺳﻨﮩﺮﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﭘﺮ ﺧﺘﻢ
ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﭨﻮﭨﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﻠﭻ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﭘﭽﺎﺱ
ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎ ﭘﭩﺮﻭﻝ ﮈﻟﻮﺍ ﮐﺮ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﺳﯿﺮ ﮐﺮﻭﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺘﮯ
ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻋﺎﺷﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺰﻧﺲ ﮐﯽ
ﺍﯾﮏ ﺑﺮﺍﻧﭻ ﮐﯿﻨﯿﮉﺍ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﻮﻝ ﻟﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﺷﯽ ﺧﻮﺷﯽ
ﺳﮯ ﺟﮭﻮﻡ ﺍﭨﮭﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﺎﮨﻢ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﺭﺳﺘﮧ
ﺳﻮﭼﺘﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﻨﯿﮉﺍ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻗﻠﻨﺪﺭﯼ ﺩﺍﻝ
ﭼﺎﻭﻝ ﺑﮏ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮨﺮ ﺩﻭ ﻣﻨﭧ ﺑﻌﺪ
ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﺑﺎﻭﺭ ﮐﺮﻭﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﺎﻥ ﺍﮔﺮ
ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺩﻝ ﺑﮭﺮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮﺩﯾﻨﺎ ﺳﺎﺭﯼ
ﻋﻤﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎﺅﮞ ﮔﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺣﻘﯿﺖ ﯾﮧ ﮨﻮﺗﯽ
ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﮍﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺳﻮ ﺟﻮﺗﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﺭ ﻟﮯ
ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺗﮯ ۔ ﯾﮧ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺤﻔﻞ
ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻥ ﺑﻮﺟﮫ ﮐﺮ ﭘﺎﻣﺴﭩﺮﯼ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﭼﮭﯿﮍ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺳﮯ ﺗﻮﺟﮧ ﺩﯾﮟ ﺗﻮ ﺑﮍﯼ ﺑﮯ ﻧﯿﺎﺯﯼ ﺳﮯ
ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﺑﮩﺖ ﻋﺮﺻﮧ ﮨﻮﺍ
ﭼﮭﻮﮌ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭨﮭﯿﮏ ﺩﺱ ﻣﻨﭧ ﺑﻌﺪ ﮐﺴﯽ
ﻟﮍﮐﯽ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎﻣﮯ ﺑﮍﮮ ﺍﻧﮩﻤﺎﮎ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ
ﺑﺘﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﺑﮩﺖ
ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ
ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﻧﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﭼﺎﮨﮯ ﮐﺴﯽ ﻓﻘﯿﺮ ﮐﻮ
ﭼﻮﻧﯽ ﺗﮏ ﻧﮧ ﺩﯼ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﻟﮍﮐﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮ ﺗﻮ ﮨﺮ ﻓﻘﯿﺮ ﮐﻮ
ﺩﺱ ﮐﺎ ﻧﻮﭦ ﭘﮑﮍﺍ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﻟﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﮐﮩﺘﮯ ﮐﮧ ﻓﻼﮞ ﮐﺘﺎﺏ ﺧﺮﯾﺪ ﻟﻮ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﯽ ﮨﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﺍﯾﮏ
ﮨﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋﺶ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭘﻠﯿﺰ ﻋﺎﺷﯽ ﺍﺏ ﻭﯾﺐ ﮐﯿﻢ ﻟﮯ
ﺑﮭﯽ ﻟﻮ ﻧﺎ۔ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﻋﺎﺷﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﻝ ﺭﯾﮉﯼ ﻭﯾﺐ ﮐﯿﻢ
ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺭﺳﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮯ ﺳﮑﺘﯽ ۔ ﺍﺱ
ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮐﻮ ﮨﺮ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ
ﺯﻧﺪﮦ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﻮ
ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺭﻭﺯ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﺍﭨﮭﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ
ﻣﺠﮭﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﮑﮯ ﻧﺎﻣﮧ ﻋﺸﻖ ﻣﯿﮟ ﺩﺱ ﺑﯿﺲ
ﭼﻨﮕﮍﯾﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﻧﮕﯽ ۔ ﻣﯿﮟ ﮐﻞ ﮈﮐﺸﻨﺮﯼ ﻣﯿﮟ
ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺗﻼﺵ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﻐﺎﺕِ ﻋﺎﺷﻘﯿﮧ
ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮐﻮ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﭼﭙﮍﻗﻨﺎﻃﯿﮧ ﺍﻭﺭ
ﭘﻨﺠﺎﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﭼﻮّﻝ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺟﺎﻥ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ
ﻣﺴﺮﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺴﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ
ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮑﺎﺭﺍ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺷﮑﺮ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﻼﺗﯽ ﮨﮯ ﭘﻮﺭﮮ
ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﺳﮯ ﺑﻐﻠﻮﻝ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺑﻼﺗﯽ ﮨﮯ ﯾﮧ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺩﻝ
ﺳﮯ ﻋﺰﺕ
Like ·