Saturday, June 15, 2013

حکیم صاحب








حکیم صاحب
میرے ایک دوست نے ایک حکیم صاحب کے بارے ایک سچا قصہ سنایا . حکیم صاحب کے ایک
 مریض تھے جو سالہا سال سے حکیم صاحب علاج کروا رہے تھے لیکن افاقہ نہیں ہورہا تھا دوائی سے کچھ دن کیلئے آرام آ جاتا مگر جیسے ھی دوائی ختم ہوتی پھر بیمار پڑ جاتے . اس دوران حکیم صاحب کا بیٹا جوان ہوگیا اور پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن گیا . ایک بار حکیم صاحب کسی کام سے دوسرے شہر گئے ہوئے تھے ان کے بعد ان کا دائمی مریض دوائی لینے آ گیا . حکیم صاحب کا ڈاکٹر بیٹا بھی ان دنوں گھر آیا ھوا تھا . اس نے مریض کا اچھی طرح معائنہ کیا اور انجیکشن وغیرہ لگا کر اور کچھ دوائیاں بازار سے لینے کیلئے لکھ کر دیں . مریض نے ہفتہ دس دن دوائی لی اور بالکل تندرست ہوگیا. ادھر حکیم صاحب اس کے آنے کا انتظار کرتے رہے لیکن جب کئی ماہ تک ان کا مریض نہ آیا تو ان کو لگا کہ ان کا مریض اللہ کو پیارا ہوگیا ہے . ایک دن ایسے ھی ان کا مریض پھرتے پھراتے ان کے دوا خانے آ پہنچا . اس کو زندہ دیکھ کر ان کو مسرت ہوئی . حال احوال پوچھنے کے دوران مریض نے ان کو اپنی صحتیاب ہونے کی خوشخبری سنائی اور ان کے بیٹے کی بہت تعریف کی . حکیم صاحب کو دل ھی دل میں بیٹے پر بہت غصہ آیا لیکن اوپر سے انہوں نے بھی خوشی کا اظہار کیا. کچھ دنوں بعد ان کا ڈاکٹر بیٹا چھٹی پر گھر آیا تو حکیم صاحب نے اپنے بیٹے کو خوب ڈانٹ پلائی اور بولے کمبخت اسی مریض کی بدولت تجھے پڑھایا لکھایا ڈاکٹر بنایا ابھی تیری بہن کی شادی بھی کرنی تھی تو نے پہلے ھی میرے بزنس کا اہم بندہ ضائع کر دیا . بات سوچنے کی ہے کہ جس معاشرے میں مریض کا علاج بزنس سمجھا جائے . جہاں سڑک اس خیال سے ناکارہ بنائی جائے کہ سال چھ ماہ بعد ٹوٹ پھوٹ کے بعد پھر نئے سرے سے بنائی جائے تاکہ گلشن کا کاروبار جاری و ساری رہے . جہاں ھر چیز ایک نمبر دو نمبر تین نمبر کے حساب سے تیار کی جائے اور بتا کر بیچی جائے اس دس نمبری معاشرے میں بسنے والے بیس نمبری انسانوں کس کو رحم آئے گا ؟ جب میں تم سے صرف اس صورت میں بچ سکتا ہوں کہ اپنی کھلی رکھوں . جہاں مسجد میں سے نماز پڑھ کر اپنے جوتے غائب نہ ہونے پر دل کی گہرائیوں سے رب کا شکر ادا کیا جاتا ھو اس پاپوش نگر میں انسان سے زیادہ جوتا مہنگا ہوجائے تو تعجب کیسا ؟

•• ... قبر کے چار گھنٹے … ایک سبق آموز واقعہ ••

•• ... قبر کے چار گھنٹے … ایک سبق آموز واقعہ ••

یہ1967ء کا واقعہ ہے میرا ایک بہت اچھا دوست میاں نذیرچشتی ہے‘ بہت ہی امانت دار مستری تھا۔ ایک مرتبہ ہم نے شرط لگائی کہ قبر میں چار گھنٹے گزارنے ہیں۔ رات 12 بجے سے صبح 4 بجے تک۔ میاں نذیرچشتی مان گیا اور ایک قبر کھودی گئی اس میں 13 انچ کے سوراخ والے پائپ لگائے ہوا کیلئے۔۔۔۔ پھر میاں نذیرچشتی صاحب رات بارہ بجے اس میں لیٹ گئے اور ہم نے اوپر سے قبر بندکردی۔۔۔۔صبح چار بجے تک ہم نے بڑی بے چینی سے انتظار کیا اور صبح چار بجے ہم نے جب قبر کھودی تو دیکھا کہ میاں نذیرچشتی بے ہوش تھا اور اس کا رنگ جو کہ پہلے سرخ گولڈن سیب کی طرح تھا اب بالکل کالا سیاہ ہوچکا ہے۔
ہم نے جلدی سے اس کو نکالا اور ایک سائیڈ پر لے جاکر اس کے منہ میں پانی وغیرہ ڈالا کچھ دیر بعد اس کو ہوش آگیا‘ وہ بالکل بوکھلایا ہوا تھا‘ پھر ہم اس کو اس کے گھر چھوڑ آئے اس کے گھر والوں نے اس کو پہچاننے سے انکار کردیا دوست وغیرہ کے بتانے پر گھر والے اسے پہچان گئے۔ تین چار دن گزرنے کے بعد جب اس کی حالت سنبھلی تو ہم نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ قبر میں تمہارے ساتھ کیا ہوا۔ میاں نذیر کہنے لگا:۔جب آپ لوگوں نے قبر بند کی تو میں اپنے ساتھ سگریٹ لے کر گیا تھا میں نے سگریٹ نکالا اور جیسے ہی جلانے لگا کہ اچانک ایک طرف سے بہت تیز آگ میری طرف آئی تو دوسری طرف سے ایک روٹی آئی اور اس روٹی نے اس آگ کو ایک طرف دھکیل دیا‘ ابھی یہ واقعہ ختم بھی نہ ہوا تھا کہ ایک اور طرف سے آگ آئی اور اسی روٹی نے اس آگ کو بھی دھکیل کر ختم کردیا اس کے بعد میں بیہوش ہوگیا اور جب ہوش آیا تو آپ لوگوں کے پاس تھا۔پھر اس نے بتایا کہ ایک مرتبہ میں نے کسی مسافر کو کھانا کھلایا تھا اسی روٹی نے مجھے اس آگ سے بچالیا۔ اس کے بعد میاں نذیر اپنی آمدن کا سترفیصد سے بھی زائد اللہ کی راہ میں خرچ کردیتا اور لوگوں کو کھانا کھلاتا !

Sunday, May 26, 2013

میں نے لندن میں بادنگٹن کے علاقے میں رہائش رکھی ہوئی تھی

میں نے لندن میں بادنگٹن کے علاقے میں رہائش رکھی ہوئی تھی۔ آمدورفت کیلئے روزانہ زیر زمین ٹرین استعمال کرتا تھا۔ میں جس اسٹیشن سے سوار ہوتا تھا وہاں پر ایک عمر رسیدہ عورت کے سٹال سے ہو کر گزرنا پڑتا تھا۔ اُسکے سٹال پر ٹھہر کر اُس سے چند باتیں کرنا میرا معمول تھا اور ساتھ ہی میں روزانہ اُس سے ایک چاکلیٹ بھی خرید کر کھایا کرتا تھا جس کی قیمت ۱۸ پنس ہوا کرتی تھی۔ چاکلیٹ کے یہ بار قیمت کی آویزاں تختی کے ساتھ ایک شیلف پر ترتیب سے رکھے ہوا کرتے تھا۔ گاہک قیمت دیکھ کر اپنی پسند کا خود فیصلہ کر کے خرید لیتے تھے۔
حسب معمول ایک دن وہاں سے گُزرتے ہوئے میں اس عورت کے سٹال پر ٹھہرا اور اپنا پسندیدہ چاکلیٹ بار لینے کیلئے ہاتھ بڑھایا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آج وہ چاکلیٹ دو مختلف شیلف میں رکھے ہوئے تھے۔ ایک شیلف میں رکھے ہوئے کی قیمت حسبِ معمول ۱۸ پنس ہی تھی مگر دوسرے شیلف میں رکھے ہوئے کی قیمت ۲۰ پنس لکھی ہوئی تھی۔
میں نے حیرت کے ساتھ اُس عورت سے پوچھا؛ کیا یہ چاکلیٹ مختلف اقسام کی ہیں؟ تو اُس نے مختصرا کہا نہیں بالکل وہی ہیں۔ اچھا تو دونوں کے وزن میں اختلاف ہو گا؟ نہیں دونوں کے وزن ایک بھی جیسے ہیں۔ تو پھر یقینایہ دونوں مختلف فیکٹریوں کے بنے ہوئے ہونگے؟ نہیں دونوں ایک ہی فیکٹری کے بنے ہوئے ہیں۔
میری حیرت دیدنی تھی اور میں حقیقت جاننا چاہتا تھ، اسلیئے میں نے اس بار تفصیل سے سوال کر ڈالا؛ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ایک شیلف میں رکھے ہوئے چاکلیٹ کی قیمت ۱۸ پنس ہے جبکہ دوسرے شیلف میں رکھے ہوؤں کی قیمت ۲۰ پنس! ایسا کیوں ہے؟
اس بار اُس عورت نے بھی مُجھے پوری صورتحال بتانے کی غرض سے تفصیلی جواب دیتے ہوئے ہوئے کہا کہ آجکل نائجیریا میں جہاں سے کاکاؤ آتا ہے کُچھ مسائل چل رہے ہیں جس سے وجہ سے چاکلیٹ کی قیمتوں میں ناگہانی طور پر اضافہ ہو گیا ہے۔
میں نے یہاں عورت کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ مادام، آپ سے بیس پنس کی چاکلیٹ کون خریدے گا جبکہ وہی اٹھارہ پنس کی بھی موجود ہے؟ عورت نے کہا؛ میں جانتی ہوں ایسا کوئی بھی نہیں کرے گا۔ مگر جیسے ہی پُرانی قیمت والے چاکلیٹ ختم ہوں گے لوگ خود بخود نئی قیمتوں والے خریدنے لگیں گے۔
اپنی فطرت اور ماحول پروردہ خوبیوں کے ساتھ، روانی میں کہیئے یا اپنی عادتوں سے مجبور، میں نے کہا؛ مادام، آپ دونوں چاکلیٹ ایک ہی خانے میں رکھ کر بیس پنس والی نئی قیمت پر کیوں نہیں بیچ لیتیں؟
میری بات سُننا تھی کہ عورت کے تیور بدلے، چہرے پر موت جیسی پیلاہٹ مگر آنکھوں میں خوف اور غصے کی ملی جُلی کیفیت کے ساتھ لرزتی ہوئی آواز میں مُجھ سے بولی؛ کیا تو چور ہے؟
اب آپ خود ہی سوچ کر بتائیے کیا میں چور ہوں؟ یا وہ عورت جاہل اور پاگل تھی؟ اور شاید عقل و سمجھ سے نا بلد، گھاس چرنے والی حیوان
عورت!
اچھا میں مان لیتا ہوں کہ میں چور ہوں تو یہ سب کون ہیں جو غلہ اور اجناس خریدتے ہی اس وجہ سے ہیں کہ کل مہنگی ہونے پر بیچیں گے۔
کس جہنم میں ڈالنے کیلئے پیاز خرید کر رکھے جاتے ہیں جو مہنگے ہونے پر پھر نکال کر بیچتے ہیں۔
اُن لوگوں کیلئے تو میں کوئی ایک حرف بھی نہیں لکھنا چاہتا جن کی چینی گوداموں میں پڑے پڑے ہی مہنگی ہوجاتی ہے۔ نہ ہی مُجھے اُن لوگوں پر کوئی غصہ ہے جو قیمت بڑھاتے وقت تو نہیں دیکھتے کہ پہلی قیمت والا کتنا سٹاک پڑا ہے مگر قیمتیں کم ہونے پر ضرور سوچتے ہیں کہ پہلے مہنگے والا تو ختم کر لیں پھر سستا کریں گے۔
کیا ہمارے تجار نہیں جانتے کہ مخلوق خدا کو غلہ و اجناس کی ضرورت ہو اور وہ خرید کر اس نیت سے اپنے پاس روک رکھیںکہ جب او ر زیادہ گرانی ہو گی تو اسے بیچیں گے یہ احتکار کہلاتا ہے۔ روزِ محشر شفاعت کے طلبگار شافعیِ محشر صلی اللہ علیہ وسلم کاغلہ کے احتکار اور ذخیرہ اندوزی پر کیا فرمان اور کیا وعید ہے کو تو نہیں سُننا چاہتے کیونکہ وہ فی الحال اپنی توندوں اور تجوریوں کو جہنم کی آگ سے بھرنے میں جو لگے ہوئے ہیں۔
مُجھے کسی پر غصہ اور کسی سے کوئی ناراضگی نہیں، میں تو اُس جاہل عورت پر ناراض ہوں جس نے محض میرے مشورے پر مُجھے چور کا خطاب دیدیا۔ اچھا ہے جو وہ برطانیہ میں رہتی تھی، ادھر آتی تو حیرت سے دیکھتی اور سوچتی کہ وہ کس کس کو چور کہے! اور اُسے کیا پتہ کہ جسے بھی وہ چور کہنا چاہے گی وہ چور نہیں بلکہ ہمارے سید، پیر، مخدوم، شیخ، حکام اور ہمارے راہنما ہیں۔
جاہل کہیں کی!

Saturday, May 18, 2013

سابقہ بالی ووڈ سٹار کے قبول اسلام کی ایمان افروز داستان


سابقہ بالی ووڈ سٹار کے قبول اسلام کی ایمان افروز داستان
علی عمران شاہین کے قلم سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انہوں نے فون نمبر بڑی جان جوکھم سے حاصل کیا تھا کیونکہ وہ جسے فون کرنا چاہ رہے تھے، اس نے اپنا نمبر بدل کر نیا نمبر کسی پرانے تعلق دار کو نہیں دیا تھا۔ اب اس کے فون کی گھنٹی بار بار بج رہی تھی لیکن وہ جس کے ہاتھ میں تھا وہ ہاتھ فون سننے پر تیار نہ تھا.... فون کرنے والے بھی مصر تھے کہ وہ بات کر کے چھوڑیں گے۔ جب معاملہ حد سے بڑھا تو اس نے فون سن ہی لیا لیکن جب فون کرنے والوں کو جواب مکمل ”نہیں“ میں ملا تو جیسے ان کے قدموں تلے سے زمین ہی نکل گئی ہو۔
یہ فون دبئی میں کیا جا رہا تھا، جہاں بڑے بڑے میوزک شو کرنے والا ایک ایونٹ آرگنائزر سخت پریشان تھا کہ اس نے پروگرام ترتیب دیا ہے۔ لوگوں کو بھاری معاوضے پر ٹکٹ فروخت کر کے یقینی دعوت بھی دے دی گئی ہے لیکن وہ مرکزی کردار جس سے ساری محفل ”سجنی“ تھی، وہ تو اب الٹ راہوں پر چل پڑا تھا۔ کل تک سٹیج سجانے اور آج کا فون نہ سننے والی شخصیت نے جو جواب دیا تھا وہ تو سب پر بجلی گرا دینے والا تھا۔ 
”میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور ایک نو مسلم سے شادی بھی کر لی ہے، اس کے بعد اب میں ایسے کسی شو حصہ نہیں لوں گی“
یہ جواب تھا دنیا کی سب سے بڑے فلم نگری بالی ووڈ کی ماضی کی ہیروئن اور آج کی بہترین سٹیج اداکارہ ممتا کلکرنی کا، جس نے 10مئی کو باقاعدہ؟ قبول اسلام کر کا اعلان کر دیا تھا۔ 10 مئی کو یہ خبر کیا آئی ممتا کلکرنی کے قبول اسلام نے بھارت میں بھی شدید پریشانی کی لہر دوڑا دی تھی۔
ممتا کلکرنی 20اپریل 1972ءکو ممبئی میں پیدا ہوئی۔ اس نے زندگی کا بیشتر حصہ ممبئی میں ہی گزارا۔ اس نے اپنے اس دور میں فلمی دنیا میں قدم رکھا تو فحاشی و آوارگی کے وہ ریکارڈ قائم کئے تھے کہ ساری بالی ووڈ ہل کر رہ گئی تھی اور پھر اسے تصویر کشی کے دوران قانونی حدود ”عبور“ کرنے کی پاداش میں قانونی کارروائی کا سامنا ہوا تو مختلف ہندو مذہبی گروپوں اور عورتوں کی تنظیموں تک اس پر حملے کئے ۔ اس پر اس خاتون ممتا کلکرنی نے سب کو ”منافق“ قرار دیا۔ جولائی 2000ءمیں اس پر عدالت نے 15ہزار کا جرمانہ عائد کیا۔ ایک موقع پر ممتا کلکرنی نے جان بچانے کے لئے عدالت میں آتے وقت برقعہ کا استعمال کیا جس پر بہت لے دے ہوئی۔ مقامی مسلم کمیونٹی نے اس پر احتجاج بھی کیا کہ اس نے پردے کا غلط استعمال کیا ہے۔ بالآخر جنوری 2004ءمیں اسے ممبئی ہائیکورٹ نے بری کر دیا۔
برقعہ کا استعمال اور پھر اس کے ذریعے دفاع اور تحفظ نے ممتا کلکرنی کے ذہن اور سوچوں کے دھاروں کو تبدیل کرنا شروع کر دیا کہ اس کی جان تک کو جب خطرہ لاحق تھا تو اس کا تحفظ برقعہ نے کیا تھا۔ وہ ان حالات سے دلبرداشتہ ہو کر اکثر وقت دبئی گزارنے۔ پھر کئی سال بعد گمنامی کے بعد سٹیج پروگراموں میں شریک ہونے لگی۔ دبئی میں بھی اس نے زمینوں کی خریدوفروخت کا وسیع کاروبار بھی شروع کر دیا تو ساتھ ہی اسلام کی محبت اس کے دل میں داخل ہو چکی تھی اسی لئے اس نے اسلام کا مطالعہ شروع کر رکھا تھا۔ یہیں اس کا رابطہ دبئی کی جیل میں بند عالمی شہرت یافتہ منشیات سمگلرو کی گوسوامی سے ہوا جسے متحدہ عرب امارات کی حکومت نے 1997ءمیں گرفتار کر کے 25سال قید کی سزا سنا رکھی تھی۔ اس پر 6 ملین ڈالر مالیت کی 11.7ٹن مالیت کی منشیات سمگل کرنے کا الزام ثابت ہو چکا تھا۔ متحدہ عرب امارات میں یہ قانون موجود ہے کہ جو غیر مسلم قیدی اسلام قبول کرے یا مسلم قیدی اسلام کا مطالعہ کرے یا قرآن حفظ کرے تو اسے سزا میں رعایت دے دی جاتی ہے۔ بے تحاشہ دولت کے مالک گوسوامی سے رابطے کے بعد ممتا نے اپنے ساتھ اسے بھی اسلام کے مطالعہ کی پیشکش کی اور قرآن مجید کے ساتھ ساتھ اسلامی لٹریچر اسے پہنچایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے گوسوامی کی زندگی بھی بدلنے لگی۔ 16سال سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بڑے گوسوامی نے اسلام قبول کیا تو اسے رہائی کا مژدہ سنایا گیا۔ اسی دوران ممتا کلکرنی نے بھی اسلام قبول کر لیا اور پھر سرکاری گواہوں کی موجودگی میں دونوں کا نکاح کرا دیا گیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد دونوں بین الاقوامی شہرت یافتہ شخصیات نیروبی پہنچ گئیں اور پھر 10مئی کو ساری دنیا نے یہ حیرت ناک خبر سنی کہ قبول اسلام کے بعد ان کی شادی بھی ہو چکی ہے۔ ممتا کی ایک شادی اس سے قبل امریکہ میں ایک بھارتی نژاد ہندو شخص سے کی تھی جو کامیاب نہ ہو سکی تھی، شاید اللہ نے اس کے لئے کسی اور راہ کا انتخاب کیا تھا۔ آج ایک عالم، ایک جہاں، سکتے میں ہے کہ یہ کیا ہوا؟.... اسلام نے کیسے ان دلوں کو فتح کر لیا کہ جو دنیا کی عیش و آرام کی معراج پر تھے۔ کل تک جسم کی نمائش سے شہرت پانے والی ممتا آج اسلام کے پردے میں کیسے لپٹ کر باپردہ ہو گئیں....؟
یقینا یہ وہ روشنی ہے کہ جس نے بالآخر سارے جہاں کو منور کرنا ہے۔ اس کا سلسلہ جاری ہے، چاہئے کسی کو پسند ہو یا نہ ہو.... روشنی کا سفر جاری ہے اور جاری رہے گا۔
ان دونوں نے اسلام قبول کر لیا ہے تو ہم سب کو بھی ان کی استقامت کے لئے دعاگو رہنا چاہئے کہ اللہ انہیں استقامت دے کیونکہ ایسے لوگوں پر شیطانی پیروکاروں اور شیطان کے وار انتہائی سخت اور تباہ کن ہوتے ہیں۔ ہم اگر دعا کر سکتے ہیں تو وہی کر کے ان کے ایمان کے تحفظ و دفاع میں حصہ ڈال لیں