Saturday, January 17, 2015

سیف الاسلام بن کرنل قذافی کی کہانی

قت بدلتے دیر نہیں لگتی۔
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
ایک ویران سی جگہ پر واقع کھنڈر نما مکان سے 19نومبر 2011کوایک ایسے شخص کو گرفتار کیا گیا جو اس کمرے میں تقریباً پچھلے پانچ یاچھ ماہ سے چھپا ہو ا تھا وہ شدید زخمی اور بیمار تھا کمرے کی حالت اتنی خستہ تھی کہ اس میں نہ تو کوئی روشنی کامناسب انتظام تھا اور نہ ہی کمرے میں تازہ ہوا آنے کا کوئی راستہ موجود تھا یہاں تک کہ کمرے میں باتھ روم تک کی سہولت بھی میسرنہ تھی۔ اُس شخص کا کھانا پینا سونا اور پیشاب وغیرہ کرنا سب کچھ اسی کمرے کی چار دیواری کے اندر ہی محدود تھا۔ جب اس شخص کو گرفتار کیا گیا تو اُس کی حالت دیکھ کر ایسے لگتا تھا جیسے وہ کئی دنوں سے بھوکا پیاسا ہے اور کئی ہفتوں سے نہایا ہوا بھی نہیں ہے۔ اس کمرے میں پڑ ا میٹرس تکیہ اور کمبل اس قدر گندہ اور بدبو دار تھا کہ ان کو استعمال کرنا تو دور کی بات اس کو دیکھ کر بھی گھن آرہی تھی۔ گندے اور بدبو دار کمبل میں لپٹا ہوا جو شخص گرفتار ہوا وہ شخص کوئی عام آدمی نہیں تھابلکہ کچھ عرصہ پہلے تک وہ دنیا کا ایک امیر ترین آدمی تھا اور اُسکا شمار دنیا کے چند بااثر اور امیر
ترین لوگوں میں ہوتا تھا ۔
وہ انتہائی آسائش کی زندگی گزارتا تھا اور اپنی عیاشیوں پر کروڑوں ڈالرز کچھ سکینڈ میں ہی خرچ کر دیتا تھاایک بار لند ن میں وہ اپنی کار میں سفر کررہا تھا کہ سفر کے دوران ہی اُسے شمالی لند ن کا ایک خوبصور ت گھر پسند آگیا اور اس نے گھر خریدنے کا فیصلہ کر لیا لیکن گھر کا مالک گھر بیچنے کو تیا ر نہیں تھا لیکن اس نے ضد میں آکر گھر کی ڈبل قیمت ادا کرکے وہیں کھڑے کھڑے ایک کروڑ برٹش پاؤنڈز کا وہ گھر خرید لیا جسکی قیمت پاکستانی کرنسی میں تقریباً ایک ارب چالیس کرو ڑ روپے بنتی ہے۔
2009 ء میں اُس نے اپنی 37سالگرہ منائی جس میں دنیا بھر کے امیر ترین لوگوں نے شرکت کی جن میں روس کے Albanian tycoon ،سونے کی کانوں کے مالک Peter Munkاور prince of Monaco Albertجیسی دنیا بھر کی مشہور شخصیا ت نے شرکت کی اور یہ سالگرہ اب تک کی دنیا کی مہنگی ترین سالگرہ شمار کی جاتی ہے۔ یہ شخص انتہائی مہنگی پینٹنگ خریدنے کا شیدائی تھا اس نے اربوں ڈالرز مالیت کی پینٹنگ کو اپنے محل کی زینت بنایا ہوا تھا ۔
2006ء میں اسے اسرائیل کی اداکارہ Orly weinermanسے عشق ہوگیا اور اس نے اُسے اپنی محبوبہ بنانے کے لیئے اس کے گرد دولت کے انبار لگادئیے چنانچہ orly weinermaاس کی گرل فرینڈبن گئی اور یہ دنیا کی مہنگی ترین گرل فرینڈتھی ۔
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیرکا وہ بیسٹ فرینڈتھا اور برطانوی شاہی خاندان اسے کئی بار اسے buckingham palaceاور winsley castleمیں لنچ اور ڈنر دئیے تھے یہ لندن اور پیرس میں پلے بوائے کی زندگی گزارتااور اسے دنیا جہان کے قانون توڑنے میں وہ بڑا فخر محسوس کرتاتھا اس نے ایک بار پیرس کی shanzelize street پر ایک سو تیس کلومیٹر فی رفتار سے گاڑی چلا کر پوری یورپی دنیا کو حیران کردیااور پیرس کی سٹی حکومت بھر پور کوشش کرنے کے باوجود اس کا چالان تک نہ کرسکی ۔اپنے ملک کی investment authorityکا یہ شخص سربراہ تھا اور یہ اتھارٹی اتنی پاور فل تھی کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی وقت 10 بلین ڈالر تک کی سرمایا کاری کرسکتی تھی اور یہ بہت بڑی بات تھی ۔
ایسی شان وشوکت سے زندگی گُزارنے والا شخص جو 19نومبر2011ء کو ایک چھوٹے سے بدبو دارکمرے میں بدبو دار کمبل میں لپٹا گرفتار ہوا وہ شخص کوئی اور نہیں وہ سیف الاسلام تھا دنیا کے تیسرے نمبر پر تیل سے مالامال ملک لیبیا کے سابق حکمران کرنل قذافی کا بیٹا تھا وہ قذافی کا جانشین اور لیبیا کا ولی عہدتھا یہ اپنے وقت میں لیبیا کا دوسرا بااثر ترین آدمی تھا یہ اتنا با اثر اور پاور فل تھا کہ کرنل قذافی کو نیوکلیئر پروگرام ترک کرنے کے لیئے بھی اسی نے قائل کیا تھا ۔
سیف الاسلا م اس وقت لیبیا کی موجودہ حکومت کی قید میں ہے اور موت سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔اس کی ایک ہاتھ کی انگلیاں بھی کاٹ دی گئی ہیں۔ یہ وہ سیف الاسلام تھا جس کا ایک قدم لیبیا میں تو دوسر ا لند ن یا پیرس میں ہوتا تھا۔ جس کے لیئے پیرس کی بڑ ی بڑی کمپنیاں خاص قسم کے خصوصی پرفیومز تیا ر کرتیں تھیں یہ وہی سیف الاسلام ہے جو کچھ عرصہ پہلے تک ملکہ برطانیہ کا شاہی مہمان بنتا تھا لیکن آج پوری دنیا کا کوئی بھی ملک اُسے پناہ دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔وہ سیف الاسلام جس کے لیئے لندن اور پیرس میں خصوصی لنچ اور ڈنر ز کا اہتمام کیئے جاتے تھے آج اُسے ایک وقت کا کھانا بھی بڑی مشکل سے نصیب ہوتا ہے ۔ ایک لمحے کے اندر ایک کروڑ پاؤنڈز میں گھر خریدنے والے کے پاس آج سر چھپانے کے لئے ایک چھت تک میسر نہیں ہے۔
جس کے کل تک دنیا کے اربوں پتی لوگ بیسٹ فرینڈز ہوا کرتے تھے آج وہی بے یارو مددگار مدد کے لیئے دہائیاں لگا رہا ہے لیکن کوئی بھی اس کی مدد کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔سیف الاسلام پلک جھپکتے ہی عرش سے فرش پر آگیا اور بادشاہ سے فقیر ہوگیا۔
یہ زمانے کا دستو ر ہےجو لوگ جوخدا کو بھول جاتے ہیں اور خود کو خدا تصور کرنے لگتے ہیں تو ایسے لوگوں پر ایک نہ ایک دن اﷲتعالیٰ کا عذاب قہر بن کر نازل ہوتا ہے جس سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا۔ ایسے حکمران جواقتدار کو ہی سب کچھ سمجھ لیتے ہیں اوراقتدار کے نشے میں بہک کر یہ خیال کرتے ہیں کہ اُن کے اقتدار کا سورج کبھی بھی غروب ہونے والا نہیں اور انکے مقدر کا ستارہ ہمیشہ ہی چمکتا رہے گا تو ایسے حکمرانوں سے سیف الاسلام کی کہانی چیخ چیخ کر یہ کہہ رہی ہے کہ عوام کا اعتماد کھو دینے والے بے حس اور خود کو خدا تصور کرنے والے حکمرانوں کا ایک نہ ایک دن ایسا ہی دردناک اور بھیانک انجام ہوتا ہے۔
کسی شاعر نے ہمیں ان اشعار میں خوب سمجھایا ہے۔
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سُو نمونے
مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بُو نے
کبھی غور سے بھی دیکھا ہے تو نے
جو معمور تھے وہ محل اب ہیں سُونے
ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے
مکیں ہو گٔیٔے لا مکاں کیسے کیسے
ھؤے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گٔیٔ نوجواں کیسے کیسے
اجل نے نہ کسریٰ ہی چھوڑا نہ دارا
اسی پہ سکندر فاتح بھی ہارا
ہر ایک چھوڑ کے کیا حسرت سدھارا
پڑا رہ گیا سب یہیں کھاٹ سارا
تجھے پہلے بچپن میں برسوں کھلایا
جوانی میں پھر تجھ کو مجنوں بنایا
بڑھاپے نے پھر آ کے کیا کیا ستایا
اجل تیرا کر دے گی بالکل صفایا
یہی تجھ کو دھُن ہے رہُوں سب سے بالا
ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا
جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا؟
تجھے حسنِ ظاہر نے دھوکے میں ڈالا
وُہ ہے عیش و عشرت کا کؤی محل بھی؟
جہاں ساتھ میں کھڑی ہو اجل بھی
بس اب اس جہالت سے تُو نکل بھی
یہ طرزِ معیشت اب اپنا بدل بھی
یہ دنیأے فانی ہے محبوب تجھ کو
ہؤی واہ کیا چیز مرغوب تجھ کو
نہی عقل اتنی بھی مجزوب تجھ کو
سمجھ لینا چاہیے اب خوب تجھ کو
بڑھاپے میں پا کے پیامِ قضا بھی
نہ چونکا نہ چیتا نہ سمبھلا ذرا بھی
کؤی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی؟
جنون چھوڑ کر اپنے ہوش آ بھی
جب اِس بزم سے دوست چل دیے اکثر
اور اُٹھے چلے جا رہے ہیں برابر
ہر وقت پیشِ نظر ہے یہ منظر
یہاں پر تِرا دل بہلتا ہے کیونکر
جہاں میں کہیں شورِ ماتم بپا ہے
کہیں فِکر و فاقہ سے آہ و بکا ہے
کہیں شکوہ جور و مکر و دغا ہے
ہر ہر طرف سے بس یہی صدا ہے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

Sunday, July 28, 2013

ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ


ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ
ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﺑﮍﮮ ﺍﻋﻠﯽٰ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺟﺲ
ﻟﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﺳﭽﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﻗﺴﻤﯿﮟ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺷﺎﻡ ﮐﻮ
ﺍﺳﯽ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﭘﺮ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﻓﺨﺮ
ﺳﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ"ﺑﭽﯽ ﭼﯿﮏ ﮐﺮ"ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﺮ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﺎ
ﻧﺎﻡ ﮔﮍﯾﺎ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ
ﺟﺬﺑﺎﺗﯽ ﮐﻔﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﻧﮧ
ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺋﮯ ۔ ﺍﻥ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮐﯽ ﺍﻭﻟﯿﻦ ﮐﻮﺷﺶ ﮨﻮﺗﯽ
ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﮔﺮﻝ ﻓﺮﯾﻨﮉ ﮐﯽ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﮐﺎ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ
ﻧﻤﺒﺮ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﮔﺮ ﻧﻤﺒﺮ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﭼﺎﺭ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﺳﮩﯿﻠﯽ
ﮐﯽ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﮐﺎ ﻧﻤﺒﺮ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻣﯿﮟ ﻟﮓ
ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﮐﻮ
ﺑﮯﺑﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﺍﺑﺎ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ
ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻣﺎﻡ ﮈﯾﮉ ﺳﮯ ﮐﻢ ﭘﺮ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﯾﮧ ﮨﺮ ﺭﻭﺯ
ﮔﺮﻝ ﻓﺮﯾﻨﮉ ﮐﻮ ﻓﻮﻥ ﭘﺮ ﺑﺘﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ
ﺍﻭﺭ ﺍﻣﯿﺮ ﻟﮍﮐﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﺩﮬﻮ ﮐﺮ ﺍﻧﮑﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭘﮍ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺑﻼ ﻭﺟﮧ ﻓﻮﻥ ﮐﺮﮐﮯ ﺗﻨﮓ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮﻭ ﮔﮍﯾﺎ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺩﻓﻌﮧ ﮈﺍﻧﭩﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺑﺎﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ
ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮨﮯ ﭼﮭﭩﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ
ﺁﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﭘﮍ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ،
ﺁﮔﮯ ﺳﮯ ﮔﮍﯾﺎ ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﻤﺒﺮ ﻣﺎﻧﮓ ﻟﮯ ﺗﻮ ﺑﮍﯼ
ﻣﻌﺼﻮﻣﯿﺖ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﯿﺴﺎ
ﻧﻤﺒﺮ ﻟﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﺳﮑﺮﯾﻦ ﭘﺮ ﺷﻮ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﻮﺗﺎ ﮔﮍﯾﺎ ﺑﮯﭼﺎﺭﯼ ﺳﺎﺭﯼ ﺭﺍﺕ ﺳﻮﭼﺘﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ
ﺍﻣﯿﺮ ﺯﺍﺩﯼ ﮐﺎ ﻓﻮﻥ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ
ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﺍﯾﮏ ﺟﻤﻠﮧ ﺑﮍﮮ ﺗﻮﺍﺗﺮ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﺘﮯ ﮨﯿﮟ"ﮔﮍﯾﺎ
ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻮﭨﮭﯽ، ﭘﯿﺴﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ
ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﻭﮌﻭﮞ ﮐﻤﺎ ﺳﮑﺘﺎ
ﮨﻮﮞ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﭘﯿﺴﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ
ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﺮ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﺗﯿﻦ ﺳﻮ
ﮐﺎ ﺁﮐﮍﮦ ﺍﺱ ﺍﻣﯿﺪ ﭘﺮﺿﺮﻭﺭ ﻟﮕﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺷﺎﯾﺪ ﭼﻨﺪ ﮨﺰﺍﺭ
ﺍﻧﻌﺎﻡ ﻟﮓ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮨﺮ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺑﻌﺪ ﮔﮍﯾﺎ ﮐﺎ
ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﻟﻤﺒﯽ ﻟﻤﺒﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﭼﮭﻮﮌﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺩﻝ
ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺳﻨﮕﺎ ﭘﻮﺭ ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺅ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ
ﺧﺪﺍ ﮔﻮﺍﮦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﮑﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﻨﮕﺎﭘﻮﺭ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺧﺎﻥ ﭘﻮﺭ ﺗﮏ
ﮐﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﯾﮧ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻟﮍﮐﯽ ﭘﺮ ﺭﻋﺐ
ﺑﮭﯽ ﭘﮍ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﺮﭼﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ
ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﻼﻧﮯ ﻟﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻮﭨﻞ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﺳﺮ
ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻭﮦ ﺷﭧ ﯾﺎﺭ ﺍﮮ ﭨﯽ ﺍﯾﻢ ﺗﻮ
ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺑﮭﻮﻝ ﺁﯾﺎ ﺍﺏ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﯾﮟ ؟ ﭼﻠﻮ ﺳﭩﮧ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔
ﺟﺒﮑﮧ ﺳﭽﯽ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﮮ ﭨﯽ ﺍﯾﻢ ﺗﻮ
ﮐﯿﺎ ﺑﻨﮏ ﺍﮐﺎﺅﻧﭧ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺳﭩﯿﭩﺲ ﮐﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﺑﮭﯽ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻧﮑﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋﺸﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﮯ ﮐﻠﭽﺮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﺍﻣﯿﺮ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮨﺮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺭﻭﺯ ﻟﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ
ﻓﺮﻣﺎﺋﺶ ﮐﺮﺗﺎ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﮐﮧ ﯾﺎﺭ ﭼﻠﻮ ﺗﻮ ﺳﮩﯽ ﻭﮨﺎﮞ
ﺳﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﯾﺎﺭ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻏﺮﯾﺐ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉ
ﺍﭘﻨﮯ ﮨﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺋﺶ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﭘﻠﯿﺰ ﻋﺎﺷﯽ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﮯ
ﮐﺎﺭ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﺰﻥ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺭﮨﺎ ﮐﺮﻭ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯿﮍﯾﮯ ﮨﻮﺗﮯ
ﮨﯿﮟ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺯﻋﻢ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ
ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﯽ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ
ﺍﻇﮩﺎﺭ ﻭﮦ ﺍﮐﺜﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﺮﻝ ﻓﺮﯾﻨﮉ ﺳﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ"
ﻋﺎﺷﯽ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮﻭ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮍﮮ ﻣﺎﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺑﯿﭩﯽ
ﺟﻮ ﺍﻧﺠﯿﻨﯿﺮ ﺑﻦ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺍﻧﭩﺮﺳﭩﺪ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ
ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﮯ ﮔﮭﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺭﺩﮔﺮﺩ ﮨﯽ
ﮔﮭﻮﻣﺘﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﺑﮭﺎﮒ ﺑﮭﺎﮒ ﮐﺮ ﭼﯿﺰﯾﮟ
ﻻﺗﯽ ﮨﮯ ، ﺩﻭ ﭼﺎﺭ ﺩﻓﻌﮧ ﺗﻮ ﺧﻮﺩﮐﺸﯽ ﮐﯽ ﺩﮬﻤﮑﯽ
ﺑﮭﯽ ﺩﮮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﺳﻤﺠﮭﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﮐﮧ ﯾﮧ ﺑﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ، ﺍﺏ ﻋﺎﺷﯽ ﺑﮯ ﭼﺎﺭﯼ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﭘﺘﮧ ﮐﮧ
ﺍﻧﮑﮯ ﻣﺎﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﺗﯿﻦ ﺑﯿﭩﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﯾﺴﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﻧﮯ ﮨﺮ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﺟﮭﺎﻧﺴﺎ
ﺩﮮ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮨﻢ ﺟﺐ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺭﻭﻧﯽ
ﺻﻮﺭﺕ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺳﺎﺭﺍ ﻣﻠﺒﮧ ﻣﺎﮞ ﭘﺮ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ
ﺑﻮﮐﮭﻼﮨﭧ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﮯ
ﮨﯿﮟ"ﻋﺎﺷﯽ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮﻭ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﯼ
ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﮓ ﻣﯿﺮﮮ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ
ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ:ﻣﯿﮟ ﻟﮍﮐﻮﮞ ﮐﯽ ﺭﮒ ﺭﮒ ﺳﮯ ﻭﺍﻗﻒ ﮨﻮﮞ
ﯾﮧ ﺑﮍﯼ ﭼﯿﺰ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ، ﭼﺎﮨﮯ ﺗﮭﯿﭩﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﺮﮔﺲ ﮐﺎ
ﮈﺍﻧﺲ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﮔﺮﻝ ﻓﺮﯾﻨﮉ ﮐﯽ
ﮐﺎﻝ ﺁﺟﺎﺋﮯ ﻓﻮﺭﺍ"ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﻣﯿﺴﺞ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﺎﻥ
ﺍﯾﮏ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ
ﺍﯾﺴﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮨﺮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ،
ﻟﮍﮐﯽ ﺍﮔﺮ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﮐﮧ ﮐﻞ ﺗﻮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻧﺌﯽ
ﮔﺎﮌﯼ ﻟﯿﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻓﻮﺭﺍ"ﻻﭘﺮﻭﺍﮨﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﮯ
ﮔﺎﮌﯼ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺴﻠﺌﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﻟﮯ ﻟﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ
ﺟﻮ ﻣﺰﮦ ﺳﮑﻮﭨﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﻭﮦ ﮔﺎﮌﯼ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﮞ ۔ ﺍﺱ
ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﮍﯼ ﻣﻌﺼﻮﻣﯿﺖ ﺳﮯ ﻟﮍﮐﯽ
ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺑﻘﮧ ﺍﻓﯿﺌﺮﺯ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﮭﺮ
ﻣﮑﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺁﻣﺎﺩﮦ ﮐﺮﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ
ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﺘﺎﺋﮯ ﻟﮍﮐﯽ ﺑﯿﭽﺎﺭﯼ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﮧ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﻮ
ﺳﻤﺠﮭﻮ ﭘﮭﺮ ﮔﺌﯽ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ
ﺍﻥ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮐﻮ ﻧﺌﯽ ﻧﺌﯽ ﺷﺮﭨﺲ ﭘﮩﻨﻨﮯ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ
ﺑﮩﺖ ﺷﻮﻕ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﮍﮮ ﻋﺎﻣﯿﺎﻧﮧ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ
ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺗﮏ ﮨﻔﺘﮯ ﻣﯿﮟlevi'sﮐﯽ ﺩﻭ ﺷﺮﭨﺲ
ﻧﮧ ﺧﺮﯾﺪ ﻟﻮﮞ ﭼﯿﻦ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﺍﻧﮑﯽ ﺍﮐﺜﺮ
ﺷﺮﭨﺲ ﺗﺐ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﺐ ﺍﺑﺎ ﮐﯽ ﺩﮬﻮﺗﯽ ﻣﯿﮟ ﺑُﺮ ﺁﻧﮯ
ﻟﮕﮯ ۔ ﯾﮧ ﺍﮐﺜﺮ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮈﯾﭧ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭨﯽ
ﺭﻭﺯ ﭘﺮﻓﯿﻮﻡ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﭼﺎﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻟﮍﮐﯽ ﺁﺩﮬﮯ
ﺭﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺑﮯ ﮨﻮﺵ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ
ﺳﻨﮩﺮﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﭘﺮ ﺧﺘﻢ
ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﭨﻮﭨﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﻠﭻ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﭘﭽﺎﺱ
ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎ ﭘﭩﺮﻭﻝ ﮈﻟﻮﺍ ﮐﺮ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﺳﯿﺮ ﮐﺮﻭﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺘﮯ
ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻋﺎﺷﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺰﻧﺲ ﮐﯽ
ﺍﯾﮏ ﺑﺮﺍﻧﭻ ﮐﯿﻨﯿﮉﺍ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﻮﻝ ﻟﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﺷﯽ ﺧﻮﺷﯽ
ﺳﮯ ﺟﮭﻮﻡ ﺍﭨﮭﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﺎﮨﻢ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﺭﺳﺘﮧ
ﺳﻮﭼﺘﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﻨﯿﮉﺍ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻗﻠﻨﺪﺭﯼ ﺩﺍﻝ
ﭼﺎﻭﻝ ﺑﮏ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮨﺮ ﺩﻭ ﻣﻨﭧ ﺑﻌﺪ
ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﺑﺎﻭﺭ ﮐﺮﻭﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﺎﻥ ﺍﮔﺮ
ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺩﻝ ﺑﮭﺮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮﺩﯾﻨﺎ ﺳﺎﺭﯼ
ﻋﻤﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎﺅﮞ ﮔﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺣﻘﯿﺖ ﯾﮧ ﮨﻮﺗﯽ
ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﮍﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺳﻮ ﺟﻮﺗﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﺭ ﻟﮯ
ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺗﮯ ۔ ﯾﮧ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺤﻔﻞ
ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻥ ﺑﻮﺟﮫ ﮐﺮ ﭘﺎﻣﺴﭩﺮﯼ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﭼﮭﯿﮍ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺳﮯ ﺗﻮﺟﮧ ﺩﯾﮟ ﺗﻮ ﺑﮍﯼ ﺑﮯ ﻧﯿﺎﺯﯼ ﺳﮯ
ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﺑﮩﺖ ﻋﺮﺻﮧ ﮨﻮﺍ
ﭼﮭﻮﮌ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭨﮭﯿﮏ ﺩﺱ ﻣﻨﭧ ﺑﻌﺪ ﮐﺴﯽ
ﻟﮍﮐﯽ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎﻣﮯ ﺑﮍﮮ ﺍﻧﮩﻤﺎﮎ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ
ﺑﺘﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﺑﮩﺖ
ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ
ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﻧﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﭼﺎﮨﮯ ﮐﺴﯽ ﻓﻘﯿﺮ ﮐﻮ
ﭼﻮﻧﯽ ﺗﮏ ﻧﮧ ﺩﯼ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﻟﮍﮐﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮ ﺗﻮ ﮨﺮ ﻓﻘﯿﺮ ﮐﻮ
ﺩﺱ ﮐﺎ ﻧﻮﭦ ﭘﮑﮍﺍ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﻟﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﮐﮩﺘﮯ ﮐﮧ ﻓﻼﮞ ﮐﺘﺎﺏ ﺧﺮﯾﺪ ﻟﻮ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﯽ ﮨﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﺍﯾﮏ
ﮨﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋﺶ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭘﻠﯿﺰ ﻋﺎﺷﯽ ﺍﺏ ﻭﯾﺐ ﮐﯿﻢ ﻟﮯ
ﺑﮭﯽ ﻟﻮ ﻧﺎ۔ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﻋﺎﺷﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﻝ ﺭﯾﮉﯼ ﻭﯾﺐ ﮐﯿﻢ
ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺭﺳﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮯ ﺳﮑﺘﯽ ۔ ﺍﺱ
ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮐﻮ ﮨﺮ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ
ﺯﻧﺪﮦ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﻮ
ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺭﻭﺯ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﺍﭨﮭﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ
ﻣﺠﮭﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﮑﮯ ﻧﺎﻣﮧ ﻋﺸﻖ ﻣﯿﮟ ﺩﺱ ﺑﯿﺲ
ﭼﻨﮕﮍﯾﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﻧﮕﯽ ۔ ﻣﯿﮟ ﮐﻞ ﮈﮐﺸﻨﺮﯼ ﻣﯿﮟ
ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺗﻼﺵ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﻐﺎﺕِ ﻋﺎﺷﻘﯿﮧ
ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉﺯ ﮐﻮ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﭼﭙﮍﻗﻨﺎﻃﯿﮧ ﺍﻭﺭ
ﭘﻨﺠﺎﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﭼﻮّﻝ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺟﺎﻥ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ
ﻣﺴﺮﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺴﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ
ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮑﺎﺭﺍ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺷﮑﺮ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﻼﺗﯽ ﮨﮯ ﭘﻮﺭﮮ
ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﺳﮯ ﺑﻐﻠﻮﻝ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺑﻼﺗﯽ ﮨﮯ ﯾﮧ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺩﻝ
ﺳﮯ ﻋﺰﺕ
Like · 

ek waqia jo aap ko ruladega

ebratnak waqia
میری عمر پچیس برس تھی جب میں امریکہ آیا تھا۔یہاں آئے ہوئے پندرہ برس ہوگئے ہیں۔ اچھے وہ دن تھے جب قانونی ویزہ نہ ہونے کے باوجود جاب مل جاتی تھی۔گرین کارڈ کے لیے پیپر میرج کاعام رواج تھا۔ امریکی عورتیں ڈالروں کی لالچ میں معینہ مدت تک طلاق سے منحرف ہع جاتیں ،نوبت جھگڑے تک پہنچتی تو گرین کارڈ منسوخ کروانے کاکہہ کر بلیک میل کرتیں ۔بچے پیدا کرتیں،شوہر کی کمائی پر عیش کرتیں اور اس کی گردن کا طوق بن جاتیں۔ اس قسم کے واقعات نے مجھے خوفزدہ کر رکھا تھا۔ ویسے بھی جعلی شادی سے اللہ کا کوف لاحق تھا۔ضمیر والا انسان بڑا خوار ہوتا ہے۔جمعہکی نماز کے لیے مسجد چلا جاتا۔
ایک روز امام مسجد سےجس کا تعلق مصر سے تھا،اپنے دل کا مدعا بیان کیا تو انھوں نے کسی امریکی مسلماں عورت سے حقیقی شادی کے مسائل درپیش ہیں،اسلام قبول کرنے والوں میں سیاہ فام قوم کی اکثریت ہے۔انھوں نے مجھے ایک سیاہ فام عورت کا رشتہ بتایا،جسے قبول اسلام کی سزا میں عیسائی والدین نے گھر سے نکال دیا اور وہ مسجد کے قریب کسی مسلمان فیملی کے گھر ، ایک کرائے کے کمرے میں مقیم ہے اور اسلامی سکول میں جاب کرنے لگی ہے اگر تم اسے سہارا دے دو اللہ بھی راضی ہوگا اور تمہاری رہائش قانونی بھی ہوجائے گی۔میں نے اس خاتون کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی امام صاحب نے کہا مغرب کی نماز کے بعد آجانا میں اس سے تمہاری ملاقات کروا دوں گا ۔تمام رات سوچتا رہا کہ اگر سیاہ فام عورت سے شادی کرلی تو خاندان والے ذلیل کردیں گے کہ تمہیں امریکہ میں کوئی گوری نہیں ملی تھی ۔اگر کالی ہی کرنی تھی تو پاکستان میں کیا کمی تھی جیسے جملے کانوں میں گونجنے لگے۔خالہ کی لڑکی کا قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے رشتہ سے انکار کردیا تھا۔اب کوئی جینے نہیں دے گا۔نفس نے پریشان اور امریکی قانون نے سولی پر لٹکا دیا۔
دوسرے روزبعداز مغرب امام صاحب مسجد سے متصل باورچی خانہ میں لے گئے جہاں وہ عورت میز پر بیٹھی ہمارا انتظار کر رہی تھی ۔اس نے سیاہ برقع جسے عرف عام میں عباء کہتے ہیں اور نقاب پہن رکھا تھا۔ امام صاحب نے تعارف کرواتے ہوئے کہا یہ سسٹر صفیہ ہیں۔سلام کے بعداس نے نقاب کشائی کی تو میرا دل دھڑام سے سینے سے باہر آنے کو تھا اگر میں کرسی نہ تھام لیتا ۔دبلی پتلی ،نہایت سیاہ اور خوب صورت کہنابھی درست نہ ہوگا ۔اللہ کی تخلیق تھی لہذا کوئی بری بات بھی منہ سے نہیں نکال سکتا تھا چند منٹ کی سلام دعا کے بعد لڑکھڑاتے قدموں سے گھر آگیا۔
ہم پاکستانی مردوں کو رنگت کا احساس کمتری کیا کم ہے کہ صورت بھی بھلی نہ ملے ۔خالہ کی لڑکی حور لگنے لگی ۔اللہ نے مجھے اچھے قدوقامت اور صورت سے نواز رکھا تھا۔دل اور دماغ کی جنگ میں آخر جیت دماغ کی ہوئی ۔سوچا گھر والوں سے خفیہ شادی کرلوں، گریں کارڈ حاصل کرتے ہی طلاق دے دوں گا۔ان دنوں گرین کارڈ ایک سال کے دوران مل جاتا تھا۔امام صاھب سے ہاں کردی اور یوں دو ہفتہ بعد ہمارا نکاح کرادیا گیا۔میں صفیہ کو لے کر اپنے فلیٹ میں آگیا۔دل پر جبر کرکے شب روز بیتنے لگے ،صفیہ میری سرد مہری کا اندازہ لگا چکی تھی مگر اس نے کبھی ھرف شکایت نہ کہا۔ہم دونوں اپنی اپنی جاب پر چلے جاتے شام کولوٹتے ۔
وہ امریکی طرز کا کھانا بناتی ،میرے سامنے میز پر سجاتی ،گھر کے تمام کام کرتی ۔اس کے ہونٹوں کی جنبش سے ذکر الہی ٰ کی مہک آتی رہتی ۔کوئی فضول بات یا بحث نہ کرتی ۔میرے اکھڑے لہجہ پر خاموش رہتی ۔نماز ،پردہ ،قرآن ،میری خدمت ،خاموشی ،صبر و شکر ان سب کودیکھ کر میرا دل گھبرا جاتا۔صورت کے علاوہ کوئی برائی ہو تو میں اس کو تنگ کر سکوں جو کل کو طلاق کا سبب بن سکے ،مگر کچھ ایسی بات ہاتھ نہ لگی ۔مجھے اس سے محبت نہ ہوسکی ہاں البتہ خود پر غصہ آنے لگا کہ میں نے ایک نیک سیرت عورت کو دھوکا دیا ہے،شادی کے چار ماہ بعد میری جاب ختم ہوگئ۔نئی جاب کے لیے کوشش شروع کردی اور اس میں دو ماہ کا عرصہ بیت گیا۔ اس دوران صفیہ اکیلی کمانے والی تھی،مجھ بیروزگار کو گھر بٹھا کر کھلاتی تھی،محنت کرتی اور مجھے بھی حوصلہ دیتی ۔ایک میں تھا کہ شرمندگی سے اسے کسی دوست کے ہاں دعوت پر لے جانے سے کتراتا تھا۔
انہی دنوں ایک قریبی دوست کا بیوی سے جھگڑا چلتا رہا اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ اس کی بیوی خوبصورت تھی مگر مغرور اور بد زبان ،مہمان کے سامنے شوہر کوذلیل کر دیتی ۔اکے بدولت دوست کوگرین کارڈ ملا تھا۔نخروں کا یہ عالم کہ مہمانوں کے سامنے ٹانگ پر ٹانگ رکھے اپنے شوہر کی طرف دیکھ کر کہتی یہ جانتے ہیں میں کس قسم کے ماحول سے آئی ہوں؟ یعنی اپنے مائیکہ کی امارت کا رعب ڈالتی ۔وہ غریب جی حضوری میں گھر بچاتا تھا۔ دعست کو سمجھانے گیا تو بولا یار۔۔گھر عورت بناتی اور بچاتی ہے ،جس گھر کی بنیاد لالچ پر ہو اسے لاکھ سہارا دو،دیواریں گر جاتی ہیں۔گرین کارڈ جہنم بن گیا ہے میرے لیے ۔میرے سسرال والوں کو ڈاکٹر داماد چاہیے تھا ۔یہ لوگ بھی پاکستان شفٹ ہوئےہیں اور میں بھی ۔ فرق اتنا ہے ان کے ہاں ڈالر بولتے ہیں اور میں متوسط گھر سے تعلق رکھتا ہوں ۔ پاکستان جانا پسند نہیں کرتی اور کبھی چلے جائیں تو گاڑی ہی کا تقاضا کرتی ہے جب کہ میرے بھائی کے پاس موٹرسائکل ہے اور مجھے ٹیکسی پر ہر جگہ جانا پڑتا ہے۔
پاکستان میں ہوں یا امریکہ اس عورت نے مجھے ذلیل کردیا ہے۔ڈاکٹر کی بیگم تو بن گئی ہے مگر میری بیوی نہیں بن سکی۔یار۔۔ہم دونوں نے گرین کارڈ کے لالچ میں شادی کی ہے مگر تم خوش نصیب ہو جسے نیک عورت ملی ہے۔اسلام اس کی پسند ہے جب کہ ہمیں اسلام ناپسند کرتا ہے۔جمال اور مال نے مجھے کہیں کا نہیں رکھا۔تم کمال کی قدر کرو،اسی میں جمال ہے۔بھابی کی قدر کرو اور مجھے بھی معاف کر دو جس نے تیری شادی کا مزاق اڑایا تھا۔دوست کی حالت زار نے میرے دل شمع روشن ضمیر کو جھنجوڑا اور گھر جاتے ہی میں نے پہلی بار مسکرا کر صفیہ کی طرف دیکھا۔اس نے حیرت سے امریکی انداز میں کہا۔۔۔۔۔کیا جاب مل گئی ہے؟نہیں تم مل گئی ہو۔
اللہ نے ہمیں ایک بیٹا دیا ۔اس کی پیدائش اور گرین کارڈ ملنے کے بعد والدین کو اصل صورتحال سے آگاہ کیا۔اب گرین کارڈ ملنے کی صورت میں پاکستان آسکتا ہوں مگر نہیں ہم تینوں ۔والدین کو وقتی دکھ ہوا مگر پوتے کا سن کر خون نے جوش مارا اور ہماری آمد کے منتظررہنے لگے،جاب بھی مل چکی تھی۔ایک ماہ کی چھٹی پر وطن گئے۔ صفیہ نے حسب عادت برقع اوڑھ رکھا تھا ۔ لاہور سے گاوں جانے میں پانچ گھنٹے لگتے ہیں ۔گھر پہنچ کر صفیہ کے ساتھ وہی سلوک ہو جس کا مجھے یقین تھا۔اسے پنجابی نہیں آتی تھی مگر چہروں کی زبان کون نہیں جانتا۔وہ صبر کرتی رہی لیکن ایک لفظ شکایت کانہ کہا۔والد نے میرے ولیمہ اور پوتے کے عقیقہ کی خواہش پوری کی ۔ماں اور بھابی کی نسبت باپ اور بھائی نے صفیہ کوقبول کیا۔اور اس کی سیرت کوسراہا۔ماں بھی خاموش تھی مگر بھابی نے سب کے سامنے کہہ دیا تیری بیوی کو برقع اوڑھنے کی کیا ضرورت ہے ۔کون اس کی طرف دیکھے گا؟ نقاب تو حسن چھپانے کے لیے اوڑھتے ہیں۔
اس جملہ کے دو روز بعد ہم لاہور ہوائی اڈے پر تھے ۔میں اپنی باکمال بیوی کو مزید جہنم میں نہیں رکھ سکتا تھا۔پاکستان میں اکثریت کو جمال و مال کی ہوس ہے ۔لڑکی کارشتہ لینے جاتے ہیں تو بڑی معصومیت سے کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے ،نہ حسن اور نہ جہیز ہی لالچ ہوتا ہے،بس لڑکی نیک اور فرماں بردار ہو۔لڑکی کودیکھتے ہی ادارہ بدل جاتا ہےاور پھر کبھی لوٹ کر اس گھر نہیں جاتے ۔لڑکے سے زیادہ لڑکے کے گھر والوں کوحسن ومال کالالچ ہوتا۔صفیہ نے اپنی سیرت سے میرا دل موہ لیا مگر میرے گھر والوں کوقائل نہ کر سکی ۔بھابی جیسی بد زبان کو اس گھر میں مقام حاصل ہے ۔مگر صفیہ اپنی صورت کی وجہ سے وہاں ایک ماہ بھی خوشی سے نہ رہ سکی ۔گرین کارڈ کالالچ جہنم بھی ہے اور جنت بھی ۔میرے دوست کے لیے جہنم ثابت ہوئی اور میرے لیے جنت کوپانے کے لیے قربانی تو دینا بچالیے ۔میں نے سیرت کو صورت پر ترجیح دیتے ہوئے اپنادین ودنیا بچالیے۔آج میرے تین بچے ہیں ماں کے ہمراہ اسلامی سکول جاتے ہیں۔بیٹیاں اپنی ماں کی صورت پر ہیں۔میں دعاکرتاہوں کہ اے اللہ ۔۔۔۔میری بیٹیوں کومجھ جیسالالچ شوہر مت دیناجس کے نکاح کی بنیاد گریں کارڈ ہے نہ کہ اللہ کا خوف

"بات بات میں فرق"


"بات بات میں فرق"

کہتے ہیں کسی بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اُس کے سارے دانت ٹوٹ کر گر پڑے ہیں

بادشاہ نےخوابوں کی تعبیر و تفسیر بتانے والے ایک عالم کو بلوا کر اُسے اپنا خواب سُنایا

مفسر نے خواب سُن کر بادشاہ سے پوچھا؛ بادشاہ سلامت، کیا آپکو یقین ہے کہ آپ نے یہی خواب دیکھا ہے؟

بادشاہ نے جواب دیا؛ ہاں، میں نے یہی خواب دیکھا ہے۔

مفسر نے لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھا اور بادشاہ سے کہا؛ بادشاہ سلامت، اسکی تعبیر یہ بنتی ہے کہ آپکے سارے گھر والے آپ کے سامنے مریں گے۔

بادشاہ کا چہرہ غیض و غضب کی شدت سے لال ہو گیا۔ دربانوں کو حکم دیا کہ اس
مفسر کو فی الفور جیل میں ڈال دیں اور کسی دوسرے مفسر کا بندوبست کریں۔

دوسرے مفسر نے آ کر بادشاہ کا خواب سُنا اور کُچھ ویسا ہی جواب دیا اور بادشاہ نے اُسے بھی جیل میں ڈلوا دیا۔

تیسرے مفسر کو بلوایا گیا، بادشاہ نے اُسے اپنا خواب سُنا کر تعبیر جاننا چاہی۔ مفسر نے بادشاہ سے پوچھا؛ بادشاہ سلامت، کیا آپکو یقین ہے کہ آپ نے یہی خواب دیکھا ہے؟

بادشاہ نے کہا؛ ہاں مُجھے یقین ہے میں نے یہی خواب دیکھا ہے۔

مفسر نے کہا؛ بادشاہ سلامت تو پھر آپکو مُبار ک ہو۔ بادشاہ نے حیرت کے ساتھ پوچھا؛ کس بات کی مبارک؟

مفسر نے جواب دیا؛ بادشاہ سلامت، اس خواب کی تعبیر یہ بنتی ہے کہ آپ ماشاء اللہ اپنے گھر والوں میں سے سب سے لمبی عمر پائیں گے۔

بادشاہ نے مزید تعجب کے ساتھ مفسر سے پوچھا؛ کیا تمہیں یقین ہے کہ اس خواب کی یہی تعبیر ہی بنتی ہے؟

مفسر نے جواب دیا؛ جی بادشاہ سلامت، اس خواب کی بالکل یہی تعبیر بنتی ہے۔

بادشاہ نے خوش ہو کر مفسر کو انعام و اکرام دے کر رخصت کیا۔

سبحان اللہ، کیا اس بات کا یہی مطلب نہیں بنتا کہ اگر بادشاہ اپنے گھر والوں میں سے سب سے لمبی عمر پائے گا تو اُسکے سارے گھر والے اُس کے سامنے ہی وفات پائیں گے؟

جی مطلب تو یہی ہی بنتا ہے مگر بات بات میں فرق ہے