Sunday, July 28, 2013

ایک عورت گالف کھیل رہی تھی

ایک عورت گالف کھیل رہی تھی
 کہ ایک ہٹ کے بعد اس کی گیند قریبی جنگل میں‌ جا گری، بال ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ جھاڑیوں میں پہنچ گئی جہاں گیند پڑی تھی۔ اس نے دیکھا کہ ادھر ایک مینڈک کانٹے دار جھاڑی میں پھنسا ہوا ہے۔ مینڈک نے عورت کو دیکھ کر کہا، خاتون اگر آپ مجھے ان کانٹوں سے نجات دلا دیں گی تو میں آپ کی تین خواہشات پوری کروں گا۔ یہ سن کر خاتون نے فوراً ہاتھ بڑھا کر مینڈک کو کانٹوں سے نجات دلا دی۔
مینڈک نے کانٹوں سے نجات پا کر شکر ادا کیا اور خاتون سے کہنے لگا جی اب آپ کہیں کیا خواہش ہے آپ کی، مگر میں معافی چاہتا ہوں‌ کہ میں‌ آپ کو یہ بتانا بھول گیا کہ آپ جو کچھ مانگیں گی، آپ کے شوہر کو وہی چیز دس گنا ملے گی۔
خاتون کو یہ سن کر بڑا غصہ آیا، خیر انہوں نے کہا کوئی بات نہیں۔
میری پہلے خواہش ہے کہ میں‌ دنیا کہ سب سے خوبصورت عورت بن جاؤں۔ مینڈک نے کہا سوچ لیں آپ کا شوہر دس گنا خوبصورت ہو جائے گا؟ کوئی بات نہیں، میں سب سے خوبصورت ہوں گی، تو وہ مجھے ہی دیکھے گا خاتون نے کہا۔ مینڈک نے کوئی منتر پڑھا اور خاتون بے حد خوبصورت ہو گئی۔
دوسری خواہش کہ میں سب سے امیر ہو جاؤں۔ مینڈک نے کہا سوچ لیں آپ کا شوہر آپ سے بھی دس گنا امیر ہو جائے گا؟ خاتون نے کہا کوئی مسئلہ نہیں اس کی دولت یا میری، ایک ہی بات ہے۔ مینڈک کا منتر اور وہ خاتون شوں کر کے امیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی خاتون آپ کی تیسری خواہش؟ مینڈک نے پوچھا؟
مجھے ایک ہلکا سا دل کا دورہ یعنی ہارٹ اٹیک ہو جائے۔
اس کہانی کا سبق:‌ ’’خواتین بہت چالاک ہوتی ہیں، ان سے زیادہ ہوشیاری اچھی نہیں‘‘
.
.
.
خواتین پڑھنے والیوں کے لیے:
یہ لطیفہ ختم - اب آپ آرام سے اس سے مزے لیں اور بس۔۔۔۔۔۔
.
حضرات آپ آگے پڑھیں:
آپ کے لیے کچھ اور ہے آگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جی جناب - خاتون کے شوہر کو خاتون کے مقابلے میں دس گنا ہلکا ہارٹ اٹیک ہوا۔

اس کہانی کا اصل سبق:
’’خواتین خود کو بہت عقلمند سمجھتی ہیں حالانکہ ایسا ہے نہیں، انہیں یہ سمجھتے رہنے دیں اور محظوظ ہونے دیں۔

Saturday, July 6, 2013

بھنگ کا نشہ



جنگل میں ایک چیتا چرس پینے کی تیاری کررہا تھا کہ اچانک قریب سے چوہا گذرا اور بولا: او چیتے ! زندگی بہت خوبصورت ہے ۔ نشہ چھوڑو زندگی سے پیار کرو۔ اتنا خوبصورت جنگل ہے چلو گھومتے پھرتے ہیں۔ انجوائے کرتے ہیں"
چیتے کو چوہے کی بات اچھی لگی ۔ وہ چرس چھوڑ کر ساتھ ہولیا۔
تھوڑی آگے جا کر ایک ہاتھی شراب کی بوتل کھولنے کی کوشش کررہا تھا ۔
چوہا پھر بولا :" او انکل ہاتھی ! زندگی بہت خوبصورت ہے۔ زندگی سے پیار کرو۔ خوبصورت جنگل ہے چلو گھومتے پھرتے ہیں سیر کرتے ہیں "۔ ہاتھی کو چوہے کی بات بھا گئی اور وہ بھی ساتھ چل پڑا ۔
آگے جاکر دیکھا کہ شیر ہیروئن کی پڑی ہاتھ میں اٹھائے نشہ کرنے کی تیاری کررہا ہے۔
چوہا اسکے پاس بھی گیا اور بولا:" او جنگل کے بادشاہ۔ زندگی بہت خوبصورت ہے۔ یوں برباد مت کرو۔ زندگی سے پیار کرو ۔ چلو جنگل کی سیر کرتے ہیں "
شیر نے چوہے کو غصے سے دیکھا اور زور سے ایک تھپڑ رسید کیا۔
ہاتھی اور چیتا حیران ہوئے اور پوچھا ۔" شیر صاحب۔ چوہے نے تو اچھی بات کی ہے۔ تھپڑ کیوں مارا اسے؟"
شیر بولا " یہ خبیث کل بھی بھنگ کا نشہ کرکے آیا اور یہی بات کرکے مجھے 5 گھنٹے فضول گھماتا رہا

شہاب نامہ سے اقتباس از قدرت اللہ شہاب


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ،، سولہ آنے ،، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک روز ایک بے حد مفلوک الحال بڑھیا آئی۔ رو رو کر بولی کہ میری چند بیگھہ زمین ہے جسے پٹواری نے اپنے کاغذات میں اس کے نام منتقل کرنا ھے لیکن وہ رشوت لئے بغیر یہ کام کرنے سے انکاری ھے ۔ رشوت دینے کی توفیق نہیں۔ تین چار برس سے وہ طرح طرح کے دفتروں میں دھکے کھا رہی ہے لیکن کہیں سنوائی نہیں ہوئی۔

اس کی درد ناک بپتا سُن کر میں نے اسے اپنی کار میں بٹھایا اور جھنگ شہر سے ساٹھ ستر میل دور اس کے گاؤن کے پٹواری کو جا پکڑا۔ ڈپٹی کمشنر کو اپنے گاؤں میں یوں اچانک دیکھ کر بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ پٹواری نے سب کے سامنے قسم کھائی کہ یہ بڑھیا بڑی شرانگیز عورت ہے اور زمین کے انتقال ک بارے میں جھوٹی شکائیتں کرنے کی عادی ہے۔ اپنی قسم کی عملی طور پر تصدیق کرنے کے لئے پٹواری اندر سے ایک جزدان اٹھا کر لایا اور اسے اپنے سر پر رکھ کر کہنے لگا، "حضور دیکھئے میں اس مقدس کتاب کو سر پر رکھ کر قسم کھاتا ہوں"۔ گاؤں کے ایک نوجوان نے مسکرا کر کہا۔ "جناب ذرا یہ بستہ کھول کر دیکھ لیں"۔

ہم نے بستہ کھولا، تو اس میں قرآن شریف کی جلد نہیں بلکہ پٹوار خانے کے رجسٹر بندھے ہوئے تھے۔میرے حکم پر پٹواری بھاگ کر ایک اور رجسٹر لایا اور سر جھکا کر بڑھیا کی انتقال اراضی کا کام مکمل کر دیا۔

میں نے بڑھیا سے کہا۔"بی بی، لو تمہارا کام ہو گیا۔ اب خوش رہو"۔

بڑھیا کو میری بات کا یقین نہ آیا۔ اپنی تشفی کے لئے اس نے نمبر دار سے پوچھا "کیا سچ مچ میرا کام ہو گیا ہے؟"

نمبر دار نے اس بات کی تصدیق کی تو بڑھیا کی آنکھوں سے بے اختیار خوشی کے آنسو بہنے لگے۔ اس کے دوپٹے کے ایک کونے میں کچھ ریزگاری بندھی ہوئی تھی۔ اس نے اسے کھول کر سولہ آنے گن کر اپنی مٹھی میں لئے اور اپنی دانست میں دوسروں کی نظر بچا کر چپکے سے میری جیب میں ڈال دیئے۔ اس ادائے معصومانہ اور محبوبانہ پر مجھے بھی بے اختیار رونا آ گیا۔ یہ دیکھ کر گاؤں کے کئی دوسرے بڑے بوڑھے بھی آبدیدہ ہو گئے۔

یہ سولہ آنے واحد "رشوت" ہے جو میں نے اپنی ساری ملازمت کے دوران قبول کی۔ اگر مجھے سونے کا ایک پورا پہاڑ بھی مل جاتا، تو میری نظر میں ان سولہ آنوں کے سامنے اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی۔ میں نے ان آنوں کو ابھی تک خرچ نہیں کیا۔ کیونکہ میرا گمان ہے کہ یہ ایک ایسا متبرک تحفہ ہے جس نے مجھے ہمیشہ کے لئے مالا مال کر دیا۔

سولہ آنے ۔
،، شہاب نامہ سے اقتباس ،،
،، از قدرت اللہ شہاب ،،

Sunday, June 30, 2013

علامہ اقبال اور عشق رسول(اردو اشعار کی روشنی میں)

علامہ اقبال اور عشق رسول

(اردو اشعار کی روشنی میں)

نتھو رام نامی شخص نے انگریزی زبان میں تاریخ اسلام نامی کتاب لکھی اور اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازیبا تبصرہ کیا۔
مسلمانوں نے اس شاتم رسول کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی، مگر نتیجہ صفر رہا۔ 
ہزارہ کے ایک نوجوان عبد القیوم کو اس گستاخانہ حرکت کی خبر ملی، اس کی ایمانی غیرت وحمیت کے سمندر میں وہ جوش آیا کہ اس نے عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران ہی دھاردار چاقو سے اس گستاخ رسول پر حملہ کردیا اور موقع پر ہی اس کا قصہ تمام کردیا۔ 
عبد القیوم کو سزائے موت ہو گئی، مسلمانوں کے ایک وفد نے ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرانے کے لیے علامہ اقبال سے در خواست کی اگر وہ اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کریں تو وائسرائے سے مل کران کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کراسکتے ہیں۔ 
علامہ نے وفد کی باتیں سن کر یہ دریافت کیا کہ کیا عبد القیوم کمزور پڑ گیا ہے؟۔
وفد کے ارکان نے کہا کہ عبد القیوم کمزور کیوں پڑتا، اس نے تو عدالت میں ہر بار اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے اور وہ علی الاعلان یہ کہتا ہے کہ میں نے شہادت اپنی زندگی کی قیمت پر خریدی ہے۔ 
یہ سن کر علامہ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور کہنے لگے:
"جب وہ ( عبد القیوم) کہہ رہا ہے کہ میں نے شہادت خریدی ہے تو میں اس کے اجر وثواب کی راہ میں کیسے حائل ہو سکتا ہوں ؟ کیا تم یہ چاہتے ہوکہ میں ایسے مسلمان کے لیے وائسرائے کی خوشامد کروں جو زندہ رہا تو غازی ہے اور مر گیا تو شہید ہے۔"

اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے۔ 
راج پال نامی شخص نے لاہور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اطہر میں بد زبانی کی۔ 
انگریزوں کی عدالت نے اس کو بھی قرار واقعی سزا کا مستحق نہیں گردانا۔ 
آخر غازی علم الدین کی غیرت ایمانی نے جوش مارا اور اس گستاخ رسول کو جہنم رسید کردیا۔ 
انھیں بھی عدالت نے سزائے موت دی۔ 
محبت رسول کی راہ میں پروانہ وار اپنی قیمتی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے ان شہیدوں کی قربانی نے علامہ کو بہت متأثر کیا اور ”لاہور اور کراچی “ کے عنوان سے تین اشعار پر مشتمل قطعہ کہہ کر ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا:

نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور
موت کیا شے ہے، فقط عالم معنی کا سفر
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر
آہ! اے مرد مسلماں تجھے کیا یاد نہیں
حرف 'لا تدع مع اللہ الھاً آخر'
[ضرب کلیم]