Saturday, June 15, 2013

نورہدایت از: حافظ حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی


نورہدایت
از: حافظ حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی
’’وعبا د الرحمن الذین یمشون علی الارض ھو ناً و اذا خاطبھم الجاھلون قالو اسلما۔والذین یبیتون لربھم سجداً وقیا ماً۔ والذین یقولونربنااصرف عناعذاب جہنم ان عذابھاکان غراما۔ انھاسائتمستقراً ومقاما۔والذین اذاانفقوالم یسرفواولم یقترواوکان بین ذالک قواما ۔والذین لایدعون مع اللہ الٰھاً اٰخرولا یقتلون النفس التی حرم اللہالا بالحق ولایزنون ومن یفعل ذالک یلق اثاما۵‘‘
ترجمہ: اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں اور جن ان سے جہالت والے لوگ بات کرتے ہیں تو وہ رفع شرکی بات کہتے ہیں اور جو راتوں کو اپنے رب کے آگے سجدے اور قیام میں لگے رہتے ہیں اور جو دعائیں مانگتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم سے جہنم کے عذاب کو دور رکھئے کیوں کہ اس کا عذاب پوری تباہی ہے بے شک وہ جہنم برا ٹھکانا اور برا مقام ہے اور وہ جب خرچ کرنے لگتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا ان کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے اور جو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کی پرستش نہیں کرتے اور جس شخص کو اللہ نے حرام فرمایا ہے اس کو قتل کرتے ہاں مگر حق پر اور زنا نہیں کرتے اور جو کوئی یہ کام کرے گا وہ گناہ میں جاپڑے گا ۔ 
سورۂ نور سے متصل سورہ فرقان ہے ۔ نور کے معنی روشنی کا تھا تو فرقان کے معنی ایسی کسوٹی کا ہے جس کے ذریعہ کھرے اور کھوٹے کی تمیز ، اسلام اور کفر کی تفریق ،حق و باطل کی معرفت سچ اور جھوٹ کی پرکھ ،اصلی اور نقلی کی پہچان ہر صاحب بصیرت کے لئے بڑی آسان ہوجاتی ہے ۔جنگ بدر کو انہی سب مناسبتوں کی وجہ سے ’’یوم الفرقان‘‘ کا نام دیا گیا کیوں کہ وہ بڑا فیصلہ کن معرکہ تھا جس میں کھرے کھوٹے کا بڑا سخت امتحان تھا ۔ سورۂ فرقان چھ رکوعات کی ایک مختصر سورت ہے توحید ورسالت کے بنیادی مضامین کے ساتھ اثبات قیامت کا عقلی اور نقلی دلائل کے ساتھ ایسے واضح الفاظ میں بیان ہے کہ آدمی ذرا ساکان دھرے تو قیامت کا قائل ہوئے بنا رہ نہیں سکتا ۔
سورت کے آخری رکوع میں قیامت کے دن حساب و کتاب میں کامیاب ہونے والوں کے کچھ اوصاف و کمالات کا تذکرہ ہے اور ان اوصاف و کمالات کے متصف لوگوں کو’’ عبادالرحمن‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا ہے چنانچہ انہی آیتوں سے درس قرآن کی ابتداء ہے ۔
اللہ تعالیٰ انسانوں کو کن اوصاف سے متصف دیکھنا پسند کرتا ہے ان کو نمبر وار ملا حظہ فرمایئے ۔
(۱)زمین پر عاجزی اور انکساری کے ساتھ زندگی بسر کریں ۔(۲)کبروتعلی کے جرائم کو ختم کرنے کے لئے اپنے آپ کو نام کام اور عقیدہ ہرایک میں اللہ کا بندہ اور غلام ثابت کریں ۔ (۳)نادانوں سے دوستی اور دشمنی کرنے کے بجائے دعاسلام تک ہی تعلقا ت رکھیں اور برائی کے خاتمے کے تدابیر سوچتے رہیں۔(۴) راتوں کا ایک حصہ نیند کی قربانی دے کر اور ریا ونمود سے بچا کر اللہ کے آگے ذکر و اذکار اور مناجات میں مصروف رہیں ۔ (۵)جہنم کی ہولناکی کا تصور کرتے ہوئے اس کے عذاب سے بچنے کی دعا کرتے رہیں ۔ (۶)عذاب الہٰی کا مکمل یقین اور اس کی سنگینی کا بھر پور تصور ان کے ذہنوں پر چھایا رہے ۔(۷)خرچ و اخراجات کے سلسلے میں بخل کی رذالت اور اسراف کی حماقت سے اپنے دامن کو بچا کر اعتدال اور توازن کی روش پر قائم رہیں ۔(۸)ہر قسم کے شرک سے اپنے معتقدات کی حفاظت کرتے ہوں (۹)ناحق قتل و خون ریزی کا کوئی ایک قطرہ خون بھی ان کے اپنے دامن کو داغدار نہ کرتا ہو۔(۱۰) زنا اور اس کے لوازمات و مبادیات اور محرکات سے اپنی پاک دامنی کو آلودہ نہ کرتے ہیں ۔
یہ جملہ دس باتیں ہیں جو فضائل ورذائل پر مشتمل ہیں ۔فضائل سے متعلق باتوں پر عمل اور ذائل سے متعلق عادات سے اجتناب ہی انسانوں کو عبادالرحمن کے لقب اور خطاب مشرف اور ممتاز کرتا ہے اور انہی اوصاف سے متصف اشخاص اللہ کے نزدیک اونچے مقام و مرتبے کے مستحق ثواب تو ہیں ہی لیکن خو د دنیا والوں کے پاس بھی ہر ملک میں اور ہر دور میں ایسی ہستیاں بلا شبہ قابل رشک اور لائق احترام تسلیم ہوں گی ۔ قرآن کی تعلیمات تو کسی ایک خاص طبقے کے افراد کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ عالمی پیغام ساری دنیائے انسانیت کی ہدایت ورہنمائی اور اس کی نیک نامی و کامیابی کے لئے ہے۔۔۔
*****

گھر جلدى آيا كيجئے



گھر جلدى آيا كيجئے

مرد جب تك شادى نہيں كرتا آزاد ہے _ چاہے گھر ديرسے آئے يا جلدى _ ليكن جب شادى كرلے تو اس كو اپنا پروگرام ضرورتبديل كرنا چاہئے اور جلدى گھر آنا چاہئے _

شوہر كو يہ بات مد نظر ركھنا چاہئے كہ اس كى بيوى صبح و شام تك گھر ميں زحمت اٹھاتى رہتى ہے _ گھر كے كام انجام دے كر ، كھانا پكاكر، كپڑے دھوكر، اور گھر كو صاف ستھرا كركے اب اپنے شوہر كى منتظر ہے كہ اس كا شوہر آئے تو دونوں ساتھ بيٹھ كرباتيں كريں _ او رانس و محبت كى لذت سے محفوظ ہوں _ بچے بھى باپ كے منتظر رہتے ہيں _ يہ چيز انسانيت اورانصاف سے

بعيد ہے كہ مرد رات كو سيرو تفريح كے لئے يا كسى دوست كے يہاں وقت گزارنے يا گپ لڑانے كے لئے چلا جائے اور بيچارى بيوى اور بچے اس كے انتظار ميں بيٹھے رہيں ؟

كيا شوہر كا فرض بس اتنا ہى ہے كہ بيوى كو غذا اور لباس فراہم كردے ؟ بيوى شريك زندگى ہوتى ہے نہ كہ بغير تنخواہ واجرت كے خادمہ _ وہ شوہر كے گھر اس لئے نہيں آتى ہے كہ شب و روز محنت مشقت كرے اور بدلے ميں ايك ٹكڑا روئي كھالے _ بلكہ يہ اميد لے كر آئي ہے كہ دونوں دائمى طور پر ايك دوسرے كے مونس و غمگسار اور ساتھى و ہمدرد بن كر زندگى گزار يں گے بعض مرد انسانيت اور جذبات و احساسات سے بالكل عارى ہوتے ہيں اور بالكل انصاف سے كام نہيں ليتے اپنى پاكدامن اور باعصمت بيوى اورمعصوم بچوں كو گھر ميں چھوڑديتے ہيں اور خود آدھى آدھى رات تك گھر سے باہر عياشى اورسير و تفريح ميں گزارديتے ہيں _

وہ روپيہ پيسہ جيے گھر ميں خرچ ہونا چاہئے _ گھر سے باہر تلف كرديتے ہيں _ در اصل ان پيچاروں نے ابھى تك حقيقى محبت و انس كى لذت كو درك نہيں كيا ہے كہ فضول اور بيہودہ عيش و عشرت كو تفريح سمجھتے ہيں _ انھيں ذرا بھى خيال نہيں آتا كہ اس طرز عمل سے وہ اپنى حيثيت و آبرو كو خاك ميں ملائے دے رہے ہيں اور لوگوں كے درميان ايك ہوس باز و آوارہ مشہور ہوجاتے ہيں

اپنى بھى مٹى پليد كرتے ہيں اور بيچارے بيوى بچوں كى بھى _ آخر كار تنگ آكر ان كى بيوياں عليحدگى اور طلاق كا مطالبہ كرديتى ہيں اور شادى شدہ زندگى كے تانے بانے بكھر جاتے ہيں _

عبرت كے لئے ذيل كے واقعات پر توجہ فرمايئے

ايك شخص جس نے اپنى كو طلاق دے دى تھى عدالت ميں كہا: شادى كے ابتدائي ايام ميں جوانى كے نشے ميں ہر شب اپنى بيوى كو گھر ميں تنہا چھوڑكر اپنے خراب دوستوں كے ساتھ سيروتفريح اور عيش و عشرت كى خاطر گھر سے باہر چلا جاتا اور صبح كے قريب واپس آتا _ ميرى بيوى نے ميرى ان حركتوں سے عاجز آكر مجھ سے طلاق لے لى _ ہمارے دس بچے تھے _ يہ طے ہو اكہ

مہينے ميں دو مرتبيہ ان كو ديكھوں گا _ كافى دن تك يہ سلسلہ چلتا رہا _ ليكن اب ايك مدت سے وہ مجھ سے مخفى ہوگئے ہيں اور ميں اپنے بچوں كو ديكھنے كے لئے بہت بے چين ہوں _ 

ايك عورت كہتى ہے _ تنہائي سے ميں بے حد عاجز آچكى ہوں _ ميرے شوہر كو ميرى اورميرى جان ليوا تنہائي كا ذرا بھى احساس نہيں ہوتا _ ہر روز آدھى رات تك گھر سے باہر سير وتفريح ميں وقت گزارتا ہے _ 

جناب محترم آپ بيوى بچوں والے ہيں اب آپ كو ہرگز يہ حق نہيں ہے كہ پہلے كى طرح آزادنہ گھومتے پھريں _ اپنے مستقبل اور اپنے خاندان كى فكر كيجئے _ اب آوراہ گردى اورعياشى سے دستبردار ہوجايئے اپنے نامناسب دوستوں سے دامن چھڑا ليجئے _ كام سے فارغ ہوكر سيدھے گھر آيا كيجئے اور اپنے بيوى بچوں كے ساتھ بيٹھٹے _ اور زندگى كا حقيقى لطف اٹھايئے فرض كيجئے آپ اچھے دوستوں كے درميان اٹھتے بيٹھے ہوں اور ان كى محفل ميں وقت گزارتے ہوں ليكن نصف شب تك گھر سے باہر رہنا كسى طرح مناسب نہيں _ آپ كے لئے يہ چيز ہرگز فائدہ بخش نہيں ہوگى بلكہ آپ كى زندگى كو متلاطم كردے گى

بنی اسرائیل کے گناہ گار نوجوان کی توبہ

بنی اسرائیل کے گناہ گار نوجوان کی توبہ

بنی اسرائیل میں ایک نوجوان تھا، بڑا نافرمان تھا شہر والوں نے اس کا بائیکاٹ کر دیا اس کو شہر سے نکال دیا۔ وہ ویرانے میں چلا گیا، وہاں کوئی آنے جانے والا نہیں تھا۔ حالات کی تنگی اس پر آُپڑھی۔ کھانے پینے کو کچھ نہ تھا اچانک بیمار ہو گیا۔ لیکن اس کی اکڑ نہ ٹوٹی۔۔وقت کے ساتھ ساتھ جب اُسے موت کے اثرات نظر آنے لگے تو اپنی اللہ سے مخاطب ہوکر بولا! اے میرے رب ساری عمر تیری نافرمانی میں کٹ گئی آج تک کوئی اچھا کام نہیں کیا۔ اے میرے رب اگر مجھے یہ بتا ہوتا کہ تیرے عذاب دینے سے تیری سلطنت میں اضافہ ہو جائے گی اور مجھے معاف کرنے سے تیری طاقت اور سلطنت میں کمی ہو جائے گی تو میں تجھ سے کبھی نہ مانگتا۔۔میں جانتا ہوں کے تیرے عذاب دینے یا نہ دینے سے تیرے ملک میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں ہوتی۔

۔۔اے میرے رب میرا آج کوئی سنگی ساتھی نہیں رہا، میرا آج تیرے سوا کوئی سہارا نہیں رہا۔سب ناتے رشتے ٹوٹ گئے۔ آج میرے جسم نے بھی میرا ساتھ چھوڑ دیا۔ تُو مجھے اکیلا نہ چھوڑ۔۔ تو مجھے معاف فرما دے۔۔اے میرے رب مجھے معاف فرما دے۔۔اتنے میں اُس شخص کی جان نکل گئی۔
موسی علیہ سلام پر وحی نازل ہوہی۔ـ کہ اے موسی! میرا ایک دوست فلاں جنگل میں مر گیا ہے اس کےغسل کا انتظام کرو۔اس کا جنازہ پڑو۔اور ہاں سب کو اعلان کردو اج جو شخص اس کا جنازہ پڑےکا اس کی بخشش کر دی جائے گی۔چناچہ موسی علیہ سلام نے اعلان کروایا، لوگ بھاگے ہوئے آئے تاکہ بخشش ہوجائے اور اس نیک شخص کا دیدار نصیب ہو۔۔۔ لوگوں نے دیکھا کہ یہ وہی شخص ہے جسے لوگوں نے شہر سے نکال دیا تھا۔وہ موسی سے کہنے لگے اے موسی یہ تو بہت گناہ گار شخص تھا اج تک اس نے اللہ کے اگے سر نہیں جکایا تھا اور نہ ہی کوئی اچھا کام کیا تھا۔۔ موسی علیہ سلام نے اللہ سے مخاطب ہو کر کہا۔ اے اللہ یہ تو گناہ گار شخص تھا ہماری نظر میں آخر اس میں ایسی کون سی بات تھی کے یہ تیرا دوست بن گیا!!

اللہ تعالی نے فرمایا ۔اے موسی میں نے اسی دیکھا کہ یہ زلیل ہو کر،فقیر ہو کر تنہاہی میں مر رہا ہے اج اس کا کوئی دوست احباب نہیں تھا۔کوئی اس کی پکار سُننے ولا نہیں تھا نہ ہی اس کی پگار کا جواب دینے والا۔۔ لیکن جب اس نے مجھے پکارا تو میری رحمت اور محبت کو جوش آیا۔ اج میں اس کی پکار نہ سُنتا اور اسے معاف نہ کرتا تو اور کون اس کو جواب دیتا؟ میری غیرت کو جوش آٰیا کے سب اسے چھوڑ چکے لیکن میں اپنے بندے کو کیسے چھوڑ سکتا تھا۔۔۔ مجھے میری عزت کی قسم! اگر اج وہ پوری انسانیت کی بخشش کی دعا مانگتا تو میں سب کو معاف فرما دیت
ا۔
(اللہ پاک آج بھی ہماری ایک توبہ کا منتظر ہے۔۔سب دل سے کہیں یا اللہ ہمیں معاف فرما دے۔ یا اللہ ہمیں معاف فرما دے۔۔۔۔۔۔ خدا کی قسم اللہ پاک آپ کی توبہ کا جواب بھی دیتا ہے اور کہتا ہے فرشتو اج آسمانوں میں چراغاں کردواور جشن مناوٗ۔۔۔ اج میرے بندے نے مجٗھ سے صلہ کرلی۔۔۔سبحان اللہ)

ایک سبق آموز کہانی ۔ ۔ ۔ کاش ہمارے حکمران اس سے کچھ سبق سیکھیں!!!



ایک سبق آموز کہانی ۔ ۔ ۔ کاش ہمارے حکمران اس سے کچھ سبق سیکھیں!!!
- - - - - - - - - - - - - - -
ترکستان کا بادشاہ لمبی عمر کا خواہاں تھا‘ وہ مرنا نہیں چاہتا تھا‘ اس کے طبیبوں نے بتایا‘ ہندوستان کی سرزمین پر چند ایسی جڑی بوٹیاں پیدا ہوتی ہیں جن میں آب حیات کی تاثیر ہے‘ آپ اگر وہ جڑی بوٹیاں منگوا لیں تو ہم آپ کو ایک ایسی دواء بنا دیں گے جس کے کھانے کے بعد آپ جب تک چاہیں گے زندہ رہیں گے‘ ترکستان کے بادشاہ نے دس لوگوں کا ایک وفد تیار کیا اور یہ وفد ہندوستان کے راجہ کے پاس بھجوا دیا‘ اس وفد میں ترکستان کے طبیب بھی شامل تھے اور بادشاہ کے انتہائی قریبی مشیر بھی‘ وفد نے ہندوستان کے راجہ کو ترک بادشاہ کا پیغام پہنچا دیا‘ راجہ نے پیغام پڑھا‘ قہقہہ لگایا‘ سپاہی بلوائے اور وفد کو گرفتار کروا دیا‘ راجہ گرفتاری کے بعد انھیں سلطنت کے ایک بلند وبالا پہاڑ کے قریب لے گیا‘ اس نے پہاڑ کے نیچے خیمہ لگوایا‘ ان دس لوگوں کو اس خیمے میں بند کروایا اور اس کے بعد حکم جاری کیا‘ جب تک یہ پہاڑ نہیں گرتا‘ تم لوگ اس جگہ سے کہیں نہیں جا سکتے‘ تم میں سے جس شخص نے یہاں سے نکلنے کی کوشش کی اس کی گردن مار دی جائے گی۔
راجہ نے اپنا فوجی دستہ وہاں چھوڑا اور واپس شہر آگیا‘ ترکستانی وفد کو اپنی موت صاف نظر آنے لگی‘ وہ پہاڑ کو اپنی مصیبت سمجھنے لگے‘ مشکل کی اس گھڑی میں اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی حامی ‘ کوئی ناصر نہیں تھا‘ وہ زمین پر سجدہ ریز ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑانے لگے‘ وہ صرف کھانا کھانے‘ واش روم جانے یا پھر وضو کرنے کے لیے سجدے سے اٹھتے تھے اور پھر اللہ سے مدد مانگنے کے لیے سجدے میں گر جاتے تھے‘ اللہ تعالیٰ کو ان پر رحم آ گیا چنانچہ ایک دن زلزلہ آیا‘ زمین دائیں سے بائیں ہوئی‘ پہاڑ جڑوں سے ہلا اور چٹانیں اور پتھر زمین پر گرنے لگے‘ ان دس لوگوں اور سپاہیوں نے بھاگ کر جان بچائی‘ راجہ کے سپاہی دس لوگوں کو لے کر دربار میں حاضر ہو گئے‘ انھوں نے راجہ کو سارا ماجرا سنا دیا‘ راجہ نے بات سن کر قہقہہ لگایا اور اس کے بعد ان دس ایلچیوں سے کہا‘ آپ لوگ اپنے بادشاہ کے پاس جاؤ‘ اسے یہ واقعہ سناؤ اور اس کے بعد اسے میرا پیغام دو‘ اسے کہو ’’ دس لوگوں کی بددعا جس طرح پہاڑ کو ریزہ کر سکتی ہے بالکل اسی طرح دس بیس لاکھ عوام کی بددعائیں بادشاہ کی زندگی اور اقتدار دونوں کو ریت بنا سکتی ہیں‘ تم اگر لمبی زندگی اور طویل اقتدار چاہتے ہو تو لوگوں کی بددعاؤں سے بچو‘ تمہیں کسی دواء‘ کسی بوٹی کی ضرورت نہیں رہے گی‘‘