Saturday, June 15, 2013

گھر جلدى آيا كيجئے



گھر جلدى آيا كيجئے

مرد جب تك شادى نہيں كرتا آزاد ہے _ چاہے گھر ديرسے آئے يا جلدى _ ليكن جب شادى كرلے تو اس كو اپنا پروگرام ضرورتبديل كرنا چاہئے اور جلدى گھر آنا چاہئے _

شوہر كو يہ بات مد نظر ركھنا چاہئے كہ اس كى بيوى صبح و شام تك گھر ميں زحمت اٹھاتى رہتى ہے _ گھر كے كام انجام دے كر ، كھانا پكاكر، كپڑے دھوكر، اور گھر كو صاف ستھرا كركے اب اپنے شوہر كى منتظر ہے كہ اس كا شوہر آئے تو دونوں ساتھ بيٹھ كرباتيں كريں _ او رانس و محبت كى لذت سے محفوظ ہوں _ بچے بھى باپ كے منتظر رہتے ہيں _ يہ چيز انسانيت اورانصاف سے

بعيد ہے كہ مرد رات كو سيرو تفريح كے لئے يا كسى دوست كے يہاں وقت گزارنے يا گپ لڑانے كے لئے چلا جائے اور بيچارى بيوى اور بچے اس كے انتظار ميں بيٹھے رہيں ؟

كيا شوہر كا فرض بس اتنا ہى ہے كہ بيوى كو غذا اور لباس فراہم كردے ؟ بيوى شريك زندگى ہوتى ہے نہ كہ بغير تنخواہ واجرت كے خادمہ _ وہ شوہر كے گھر اس لئے نہيں آتى ہے كہ شب و روز محنت مشقت كرے اور بدلے ميں ايك ٹكڑا روئي كھالے _ بلكہ يہ اميد لے كر آئي ہے كہ دونوں دائمى طور پر ايك دوسرے كے مونس و غمگسار اور ساتھى و ہمدرد بن كر زندگى گزار يں گے بعض مرد انسانيت اور جذبات و احساسات سے بالكل عارى ہوتے ہيں اور بالكل انصاف سے كام نہيں ليتے اپنى پاكدامن اور باعصمت بيوى اورمعصوم بچوں كو گھر ميں چھوڑديتے ہيں اور خود آدھى آدھى رات تك گھر سے باہر عياشى اورسير و تفريح ميں گزارديتے ہيں _

وہ روپيہ پيسہ جيے گھر ميں خرچ ہونا چاہئے _ گھر سے باہر تلف كرديتے ہيں _ در اصل ان پيچاروں نے ابھى تك حقيقى محبت و انس كى لذت كو درك نہيں كيا ہے كہ فضول اور بيہودہ عيش و عشرت كو تفريح سمجھتے ہيں _ انھيں ذرا بھى خيال نہيں آتا كہ اس طرز عمل سے وہ اپنى حيثيت و آبرو كو خاك ميں ملائے دے رہے ہيں اور لوگوں كے درميان ايك ہوس باز و آوارہ مشہور ہوجاتے ہيں

اپنى بھى مٹى پليد كرتے ہيں اور بيچارے بيوى بچوں كى بھى _ آخر كار تنگ آكر ان كى بيوياں عليحدگى اور طلاق كا مطالبہ كرديتى ہيں اور شادى شدہ زندگى كے تانے بانے بكھر جاتے ہيں _

عبرت كے لئے ذيل كے واقعات پر توجہ فرمايئے

ايك شخص جس نے اپنى كو طلاق دے دى تھى عدالت ميں كہا: شادى كے ابتدائي ايام ميں جوانى كے نشے ميں ہر شب اپنى بيوى كو گھر ميں تنہا چھوڑكر اپنے خراب دوستوں كے ساتھ سيروتفريح اور عيش و عشرت كى خاطر گھر سے باہر چلا جاتا اور صبح كے قريب واپس آتا _ ميرى بيوى نے ميرى ان حركتوں سے عاجز آكر مجھ سے طلاق لے لى _ ہمارے دس بچے تھے _ يہ طے ہو اكہ

مہينے ميں دو مرتبيہ ان كو ديكھوں گا _ كافى دن تك يہ سلسلہ چلتا رہا _ ليكن اب ايك مدت سے وہ مجھ سے مخفى ہوگئے ہيں اور ميں اپنے بچوں كو ديكھنے كے لئے بہت بے چين ہوں _ 

ايك عورت كہتى ہے _ تنہائي سے ميں بے حد عاجز آچكى ہوں _ ميرے شوہر كو ميرى اورميرى جان ليوا تنہائي كا ذرا بھى احساس نہيں ہوتا _ ہر روز آدھى رات تك گھر سے باہر سير وتفريح ميں وقت گزارتا ہے _ 

جناب محترم آپ بيوى بچوں والے ہيں اب آپ كو ہرگز يہ حق نہيں ہے كہ پہلے كى طرح آزادنہ گھومتے پھريں _ اپنے مستقبل اور اپنے خاندان كى فكر كيجئے _ اب آوراہ گردى اورعياشى سے دستبردار ہوجايئے اپنے نامناسب دوستوں سے دامن چھڑا ليجئے _ كام سے فارغ ہوكر سيدھے گھر آيا كيجئے اور اپنے بيوى بچوں كے ساتھ بيٹھٹے _ اور زندگى كا حقيقى لطف اٹھايئے فرض كيجئے آپ اچھے دوستوں كے درميان اٹھتے بيٹھے ہوں اور ان كى محفل ميں وقت گزارتے ہوں ليكن نصف شب تك گھر سے باہر رہنا كسى طرح مناسب نہيں _ آپ كے لئے يہ چيز ہرگز فائدہ بخش نہيں ہوگى بلكہ آپ كى زندگى كو متلاطم كردے گى

بنی اسرائیل کے گناہ گار نوجوان کی توبہ

بنی اسرائیل کے گناہ گار نوجوان کی توبہ

بنی اسرائیل میں ایک نوجوان تھا، بڑا نافرمان تھا شہر والوں نے اس کا بائیکاٹ کر دیا اس کو شہر سے نکال دیا۔ وہ ویرانے میں چلا گیا، وہاں کوئی آنے جانے والا نہیں تھا۔ حالات کی تنگی اس پر آُپڑھی۔ کھانے پینے کو کچھ نہ تھا اچانک بیمار ہو گیا۔ لیکن اس کی اکڑ نہ ٹوٹی۔۔وقت کے ساتھ ساتھ جب اُسے موت کے اثرات نظر آنے لگے تو اپنی اللہ سے مخاطب ہوکر بولا! اے میرے رب ساری عمر تیری نافرمانی میں کٹ گئی آج تک کوئی اچھا کام نہیں کیا۔ اے میرے رب اگر مجھے یہ بتا ہوتا کہ تیرے عذاب دینے سے تیری سلطنت میں اضافہ ہو جائے گی اور مجھے معاف کرنے سے تیری طاقت اور سلطنت میں کمی ہو جائے گی تو میں تجھ سے کبھی نہ مانگتا۔۔میں جانتا ہوں کے تیرے عذاب دینے یا نہ دینے سے تیرے ملک میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں ہوتی۔

۔۔اے میرے رب میرا آج کوئی سنگی ساتھی نہیں رہا، میرا آج تیرے سوا کوئی سہارا نہیں رہا۔سب ناتے رشتے ٹوٹ گئے۔ آج میرے جسم نے بھی میرا ساتھ چھوڑ دیا۔ تُو مجھے اکیلا نہ چھوڑ۔۔ تو مجھے معاف فرما دے۔۔اے میرے رب مجھے معاف فرما دے۔۔اتنے میں اُس شخص کی جان نکل گئی۔
موسی علیہ سلام پر وحی نازل ہوہی۔ـ کہ اے موسی! میرا ایک دوست فلاں جنگل میں مر گیا ہے اس کےغسل کا انتظام کرو۔اس کا جنازہ پڑو۔اور ہاں سب کو اعلان کردو اج جو شخص اس کا جنازہ پڑےکا اس کی بخشش کر دی جائے گی۔چناچہ موسی علیہ سلام نے اعلان کروایا، لوگ بھاگے ہوئے آئے تاکہ بخشش ہوجائے اور اس نیک شخص کا دیدار نصیب ہو۔۔۔ لوگوں نے دیکھا کہ یہ وہی شخص ہے جسے لوگوں نے شہر سے نکال دیا تھا۔وہ موسی سے کہنے لگے اے موسی یہ تو بہت گناہ گار شخص تھا اج تک اس نے اللہ کے اگے سر نہیں جکایا تھا اور نہ ہی کوئی اچھا کام کیا تھا۔۔ موسی علیہ سلام نے اللہ سے مخاطب ہو کر کہا۔ اے اللہ یہ تو گناہ گار شخص تھا ہماری نظر میں آخر اس میں ایسی کون سی بات تھی کے یہ تیرا دوست بن گیا!!

اللہ تعالی نے فرمایا ۔اے موسی میں نے اسی دیکھا کہ یہ زلیل ہو کر،فقیر ہو کر تنہاہی میں مر رہا ہے اج اس کا کوئی دوست احباب نہیں تھا۔کوئی اس کی پکار سُننے ولا نہیں تھا نہ ہی اس کی پگار کا جواب دینے والا۔۔ لیکن جب اس نے مجھے پکارا تو میری رحمت اور محبت کو جوش آیا۔ اج میں اس کی پکار نہ سُنتا اور اسے معاف نہ کرتا تو اور کون اس کو جواب دیتا؟ میری غیرت کو جوش آٰیا کے سب اسے چھوڑ چکے لیکن میں اپنے بندے کو کیسے چھوڑ سکتا تھا۔۔۔ مجھے میری عزت کی قسم! اگر اج وہ پوری انسانیت کی بخشش کی دعا مانگتا تو میں سب کو معاف فرما دیت
ا۔
(اللہ پاک آج بھی ہماری ایک توبہ کا منتظر ہے۔۔سب دل سے کہیں یا اللہ ہمیں معاف فرما دے۔ یا اللہ ہمیں معاف فرما دے۔۔۔۔۔۔ خدا کی قسم اللہ پاک آپ کی توبہ کا جواب بھی دیتا ہے اور کہتا ہے فرشتو اج آسمانوں میں چراغاں کردواور جشن مناوٗ۔۔۔ اج میرے بندے نے مجٗھ سے صلہ کرلی۔۔۔سبحان اللہ)

ایک سبق آموز کہانی ۔ ۔ ۔ کاش ہمارے حکمران اس سے کچھ سبق سیکھیں!!!



ایک سبق آموز کہانی ۔ ۔ ۔ کاش ہمارے حکمران اس سے کچھ سبق سیکھیں!!!
- - - - - - - - - - - - - - -
ترکستان کا بادشاہ لمبی عمر کا خواہاں تھا‘ وہ مرنا نہیں چاہتا تھا‘ اس کے طبیبوں نے بتایا‘ ہندوستان کی سرزمین پر چند ایسی جڑی بوٹیاں پیدا ہوتی ہیں جن میں آب حیات کی تاثیر ہے‘ آپ اگر وہ جڑی بوٹیاں منگوا لیں تو ہم آپ کو ایک ایسی دواء بنا دیں گے جس کے کھانے کے بعد آپ جب تک چاہیں گے زندہ رہیں گے‘ ترکستان کے بادشاہ نے دس لوگوں کا ایک وفد تیار کیا اور یہ وفد ہندوستان کے راجہ کے پاس بھجوا دیا‘ اس وفد میں ترکستان کے طبیب بھی شامل تھے اور بادشاہ کے انتہائی قریبی مشیر بھی‘ وفد نے ہندوستان کے راجہ کو ترک بادشاہ کا پیغام پہنچا دیا‘ راجہ نے پیغام پڑھا‘ قہقہہ لگایا‘ سپاہی بلوائے اور وفد کو گرفتار کروا دیا‘ راجہ گرفتاری کے بعد انھیں سلطنت کے ایک بلند وبالا پہاڑ کے قریب لے گیا‘ اس نے پہاڑ کے نیچے خیمہ لگوایا‘ ان دس لوگوں کو اس خیمے میں بند کروایا اور اس کے بعد حکم جاری کیا‘ جب تک یہ پہاڑ نہیں گرتا‘ تم لوگ اس جگہ سے کہیں نہیں جا سکتے‘ تم میں سے جس شخص نے یہاں سے نکلنے کی کوشش کی اس کی گردن مار دی جائے گی۔
راجہ نے اپنا فوجی دستہ وہاں چھوڑا اور واپس شہر آگیا‘ ترکستانی وفد کو اپنی موت صاف نظر آنے لگی‘ وہ پہاڑ کو اپنی مصیبت سمجھنے لگے‘ مشکل کی اس گھڑی میں اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی حامی ‘ کوئی ناصر نہیں تھا‘ وہ زمین پر سجدہ ریز ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑانے لگے‘ وہ صرف کھانا کھانے‘ واش روم جانے یا پھر وضو کرنے کے لیے سجدے سے اٹھتے تھے اور پھر اللہ سے مدد مانگنے کے لیے سجدے میں گر جاتے تھے‘ اللہ تعالیٰ کو ان پر رحم آ گیا چنانچہ ایک دن زلزلہ آیا‘ زمین دائیں سے بائیں ہوئی‘ پہاڑ جڑوں سے ہلا اور چٹانیں اور پتھر زمین پر گرنے لگے‘ ان دس لوگوں اور سپاہیوں نے بھاگ کر جان بچائی‘ راجہ کے سپاہی دس لوگوں کو لے کر دربار میں حاضر ہو گئے‘ انھوں نے راجہ کو سارا ماجرا سنا دیا‘ راجہ نے بات سن کر قہقہہ لگایا اور اس کے بعد ان دس ایلچیوں سے کہا‘ آپ لوگ اپنے بادشاہ کے پاس جاؤ‘ اسے یہ واقعہ سناؤ اور اس کے بعد اسے میرا پیغام دو‘ اسے کہو ’’ دس لوگوں کی بددعا جس طرح پہاڑ کو ریزہ کر سکتی ہے بالکل اسی طرح دس بیس لاکھ عوام کی بددعائیں بادشاہ کی زندگی اور اقتدار دونوں کو ریت بنا سکتی ہیں‘ تم اگر لمبی زندگی اور طویل اقتدار چاہتے ہو تو لوگوں کی بددعاؤں سے بچو‘ تمہیں کسی دواء‘ کسی بوٹی کی ضرورت نہیں رہے گی‘‘

حکیم صاحب








حکیم صاحب
میرے ایک دوست نے ایک حکیم صاحب کے بارے ایک سچا قصہ سنایا . حکیم صاحب کے ایک
 مریض تھے جو سالہا سال سے حکیم صاحب علاج کروا رہے تھے لیکن افاقہ نہیں ہورہا تھا دوائی سے کچھ دن کیلئے آرام آ جاتا مگر جیسے ھی دوائی ختم ہوتی پھر بیمار پڑ جاتے . اس دوران حکیم صاحب کا بیٹا جوان ہوگیا اور پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن گیا . ایک بار حکیم صاحب کسی کام سے دوسرے شہر گئے ہوئے تھے ان کے بعد ان کا دائمی مریض دوائی لینے آ گیا . حکیم صاحب کا ڈاکٹر بیٹا بھی ان دنوں گھر آیا ھوا تھا . اس نے مریض کا اچھی طرح معائنہ کیا اور انجیکشن وغیرہ لگا کر اور کچھ دوائیاں بازار سے لینے کیلئے لکھ کر دیں . مریض نے ہفتہ دس دن دوائی لی اور بالکل تندرست ہوگیا. ادھر حکیم صاحب اس کے آنے کا انتظار کرتے رہے لیکن جب کئی ماہ تک ان کا مریض نہ آیا تو ان کو لگا کہ ان کا مریض اللہ کو پیارا ہوگیا ہے . ایک دن ایسے ھی ان کا مریض پھرتے پھراتے ان کے دوا خانے آ پہنچا . اس کو زندہ دیکھ کر ان کو مسرت ہوئی . حال احوال پوچھنے کے دوران مریض نے ان کو اپنی صحتیاب ہونے کی خوشخبری سنائی اور ان کے بیٹے کی بہت تعریف کی . حکیم صاحب کو دل ھی دل میں بیٹے پر بہت غصہ آیا لیکن اوپر سے انہوں نے بھی خوشی کا اظہار کیا. کچھ دنوں بعد ان کا ڈاکٹر بیٹا چھٹی پر گھر آیا تو حکیم صاحب نے اپنے بیٹے کو خوب ڈانٹ پلائی اور بولے کمبخت اسی مریض کی بدولت تجھے پڑھایا لکھایا ڈاکٹر بنایا ابھی تیری بہن کی شادی بھی کرنی تھی تو نے پہلے ھی میرے بزنس کا اہم بندہ ضائع کر دیا . بات سوچنے کی ہے کہ جس معاشرے میں مریض کا علاج بزنس سمجھا جائے . جہاں سڑک اس خیال سے ناکارہ بنائی جائے کہ سال چھ ماہ بعد ٹوٹ پھوٹ کے بعد پھر نئے سرے سے بنائی جائے تاکہ گلشن کا کاروبار جاری و ساری رہے . جہاں ھر چیز ایک نمبر دو نمبر تین نمبر کے حساب سے تیار کی جائے اور بتا کر بیچی جائے اس دس نمبری معاشرے میں بسنے والے بیس نمبری انسانوں کس کو رحم آئے گا ؟ جب میں تم سے صرف اس صورت میں بچ سکتا ہوں کہ اپنی کھلی رکھوں . جہاں مسجد میں سے نماز پڑھ کر اپنے جوتے غائب نہ ہونے پر دل کی گہرائیوں سے رب کا شکر ادا کیا جاتا ھو اس پاپوش نگر میں انسان سے زیادہ جوتا مہنگا ہوجائے تو تعجب کیسا ؟