Saturday, June 15, 2013

ایک سبق آموز کہانی ۔ ۔ ۔ کاش ہمارے حکمران اس سے کچھ سبق سیکھیں!!!



ایک سبق آموز کہانی ۔ ۔ ۔ کاش ہمارے حکمران اس سے کچھ سبق سیکھیں!!!
- - - - - - - - - - - - - - -
ترکستان کا بادشاہ لمبی عمر کا خواہاں تھا‘ وہ مرنا نہیں چاہتا تھا‘ اس کے طبیبوں نے بتایا‘ ہندوستان کی سرزمین پر چند ایسی جڑی بوٹیاں پیدا ہوتی ہیں جن میں آب حیات کی تاثیر ہے‘ آپ اگر وہ جڑی بوٹیاں منگوا لیں تو ہم آپ کو ایک ایسی دواء بنا دیں گے جس کے کھانے کے بعد آپ جب تک چاہیں گے زندہ رہیں گے‘ ترکستان کے بادشاہ نے دس لوگوں کا ایک وفد تیار کیا اور یہ وفد ہندوستان کے راجہ کے پاس بھجوا دیا‘ اس وفد میں ترکستان کے طبیب بھی شامل تھے اور بادشاہ کے انتہائی قریبی مشیر بھی‘ وفد نے ہندوستان کے راجہ کو ترک بادشاہ کا پیغام پہنچا دیا‘ راجہ نے پیغام پڑھا‘ قہقہہ لگایا‘ سپاہی بلوائے اور وفد کو گرفتار کروا دیا‘ راجہ گرفتاری کے بعد انھیں سلطنت کے ایک بلند وبالا پہاڑ کے قریب لے گیا‘ اس نے پہاڑ کے نیچے خیمہ لگوایا‘ ان دس لوگوں کو اس خیمے میں بند کروایا اور اس کے بعد حکم جاری کیا‘ جب تک یہ پہاڑ نہیں گرتا‘ تم لوگ اس جگہ سے کہیں نہیں جا سکتے‘ تم میں سے جس شخص نے یہاں سے نکلنے کی کوشش کی اس کی گردن مار دی جائے گی۔
راجہ نے اپنا فوجی دستہ وہاں چھوڑا اور واپس شہر آگیا‘ ترکستانی وفد کو اپنی موت صاف نظر آنے لگی‘ وہ پہاڑ کو اپنی مصیبت سمجھنے لگے‘ مشکل کی اس گھڑی میں اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی حامی ‘ کوئی ناصر نہیں تھا‘ وہ زمین پر سجدہ ریز ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑانے لگے‘ وہ صرف کھانا کھانے‘ واش روم جانے یا پھر وضو کرنے کے لیے سجدے سے اٹھتے تھے اور پھر اللہ سے مدد مانگنے کے لیے سجدے میں گر جاتے تھے‘ اللہ تعالیٰ کو ان پر رحم آ گیا چنانچہ ایک دن زلزلہ آیا‘ زمین دائیں سے بائیں ہوئی‘ پہاڑ جڑوں سے ہلا اور چٹانیں اور پتھر زمین پر گرنے لگے‘ ان دس لوگوں اور سپاہیوں نے بھاگ کر جان بچائی‘ راجہ کے سپاہی دس لوگوں کو لے کر دربار میں حاضر ہو گئے‘ انھوں نے راجہ کو سارا ماجرا سنا دیا‘ راجہ نے بات سن کر قہقہہ لگایا اور اس کے بعد ان دس ایلچیوں سے کہا‘ آپ لوگ اپنے بادشاہ کے پاس جاؤ‘ اسے یہ واقعہ سناؤ اور اس کے بعد اسے میرا پیغام دو‘ اسے کہو ’’ دس لوگوں کی بددعا جس طرح پہاڑ کو ریزہ کر سکتی ہے بالکل اسی طرح دس بیس لاکھ عوام کی بددعائیں بادشاہ کی زندگی اور اقتدار دونوں کو ریت بنا سکتی ہیں‘ تم اگر لمبی زندگی اور طویل اقتدار چاہتے ہو تو لوگوں کی بددعاؤں سے بچو‘ تمہیں کسی دواء‘ کسی بوٹی کی ضرورت نہیں رہے گی‘‘

حکیم صاحب








حکیم صاحب
میرے ایک دوست نے ایک حکیم صاحب کے بارے ایک سچا قصہ سنایا . حکیم صاحب کے ایک
 مریض تھے جو سالہا سال سے حکیم صاحب علاج کروا رہے تھے لیکن افاقہ نہیں ہورہا تھا دوائی سے کچھ دن کیلئے آرام آ جاتا مگر جیسے ھی دوائی ختم ہوتی پھر بیمار پڑ جاتے . اس دوران حکیم صاحب کا بیٹا جوان ہوگیا اور پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن گیا . ایک بار حکیم صاحب کسی کام سے دوسرے شہر گئے ہوئے تھے ان کے بعد ان کا دائمی مریض دوائی لینے آ گیا . حکیم صاحب کا ڈاکٹر بیٹا بھی ان دنوں گھر آیا ھوا تھا . اس نے مریض کا اچھی طرح معائنہ کیا اور انجیکشن وغیرہ لگا کر اور کچھ دوائیاں بازار سے لینے کیلئے لکھ کر دیں . مریض نے ہفتہ دس دن دوائی لی اور بالکل تندرست ہوگیا. ادھر حکیم صاحب اس کے آنے کا انتظار کرتے رہے لیکن جب کئی ماہ تک ان کا مریض نہ آیا تو ان کو لگا کہ ان کا مریض اللہ کو پیارا ہوگیا ہے . ایک دن ایسے ھی ان کا مریض پھرتے پھراتے ان کے دوا خانے آ پہنچا . اس کو زندہ دیکھ کر ان کو مسرت ہوئی . حال احوال پوچھنے کے دوران مریض نے ان کو اپنی صحتیاب ہونے کی خوشخبری سنائی اور ان کے بیٹے کی بہت تعریف کی . حکیم صاحب کو دل ھی دل میں بیٹے پر بہت غصہ آیا لیکن اوپر سے انہوں نے بھی خوشی کا اظہار کیا. کچھ دنوں بعد ان کا ڈاکٹر بیٹا چھٹی پر گھر آیا تو حکیم صاحب نے اپنے بیٹے کو خوب ڈانٹ پلائی اور بولے کمبخت اسی مریض کی بدولت تجھے پڑھایا لکھایا ڈاکٹر بنایا ابھی تیری بہن کی شادی بھی کرنی تھی تو نے پہلے ھی میرے بزنس کا اہم بندہ ضائع کر دیا . بات سوچنے کی ہے کہ جس معاشرے میں مریض کا علاج بزنس سمجھا جائے . جہاں سڑک اس خیال سے ناکارہ بنائی جائے کہ سال چھ ماہ بعد ٹوٹ پھوٹ کے بعد پھر نئے سرے سے بنائی جائے تاکہ گلشن کا کاروبار جاری و ساری رہے . جہاں ھر چیز ایک نمبر دو نمبر تین نمبر کے حساب سے تیار کی جائے اور بتا کر بیچی جائے اس دس نمبری معاشرے میں بسنے والے بیس نمبری انسانوں کس کو رحم آئے گا ؟ جب میں تم سے صرف اس صورت میں بچ سکتا ہوں کہ اپنی کھلی رکھوں . جہاں مسجد میں سے نماز پڑھ کر اپنے جوتے غائب نہ ہونے پر دل کی گہرائیوں سے رب کا شکر ادا کیا جاتا ھو اس پاپوش نگر میں انسان سے زیادہ جوتا مہنگا ہوجائے تو تعجب کیسا ؟

•• ... قبر کے چار گھنٹے … ایک سبق آموز واقعہ ••

•• ... قبر کے چار گھنٹے … ایک سبق آموز واقعہ ••

یہ1967ء کا واقعہ ہے میرا ایک بہت اچھا دوست میاں نذیرچشتی ہے‘ بہت ہی امانت دار مستری تھا۔ ایک مرتبہ ہم نے شرط لگائی کہ قبر میں چار گھنٹے گزارنے ہیں۔ رات 12 بجے سے صبح 4 بجے تک۔ میاں نذیرچشتی مان گیا اور ایک قبر کھودی گئی اس میں 13 انچ کے سوراخ والے پائپ لگائے ہوا کیلئے۔۔۔۔ پھر میاں نذیرچشتی صاحب رات بارہ بجے اس میں لیٹ گئے اور ہم نے اوپر سے قبر بندکردی۔۔۔۔صبح چار بجے تک ہم نے بڑی بے چینی سے انتظار کیا اور صبح چار بجے ہم نے جب قبر کھودی تو دیکھا کہ میاں نذیرچشتی بے ہوش تھا اور اس کا رنگ جو کہ پہلے سرخ گولڈن سیب کی طرح تھا اب بالکل کالا سیاہ ہوچکا ہے۔
ہم نے جلدی سے اس کو نکالا اور ایک سائیڈ پر لے جاکر اس کے منہ میں پانی وغیرہ ڈالا کچھ دیر بعد اس کو ہوش آگیا‘ وہ بالکل بوکھلایا ہوا تھا‘ پھر ہم اس کو اس کے گھر چھوڑ آئے اس کے گھر والوں نے اس کو پہچاننے سے انکار کردیا دوست وغیرہ کے بتانے پر گھر والے اسے پہچان گئے۔ تین چار دن گزرنے کے بعد جب اس کی حالت سنبھلی تو ہم نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ قبر میں تمہارے ساتھ کیا ہوا۔ میاں نذیر کہنے لگا:۔جب آپ لوگوں نے قبر بند کی تو میں اپنے ساتھ سگریٹ لے کر گیا تھا میں نے سگریٹ نکالا اور جیسے ہی جلانے لگا کہ اچانک ایک طرف سے بہت تیز آگ میری طرف آئی تو دوسری طرف سے ایک روٹی آئی اور اس روٹی نے اس آگ کو ایک طرف دھکیل دیا‘ ابھی یہ واقعہ ختم بھی نہ ہوا تھا کہ ایک اور طرف سے آگ آئی اور اسی روٹی نے اس آگ کو بھی دھکیل کر ختم کردیا اس کے بعد میں بیہوش ہوگیا اور جب ہوش آیا تو آپ لوگوں کے پاس تھا۔پھر اس نے بتایا کہ ایک مرتبہ میں نے کسی مسافر کو کھانا کھلایا تھا اسی روٹی نے مجھے اس آگ سے بچالیا۔ اس کے بعد میاں نذیر اپنی آمدن کا سترفیصد سے بھی زائد اللہ کی راہ میں خرچ کردیتا اور لوگوں کو کھانا کھلاتا !

Sunday, May 26, 2013

میں نے لندن میں بادنگٹن کے علاقے میں رہائش رکھی ہوئی تھی

میں نے لندن میں بادنگٹن کے علاقے میں رہائش رکھی ہوئی تھی۔ آمدورفت کیلئے روزانہ زیر زمین ٹرین استعمال کرتا تھا۔ میں جس اسٹیشن سے سوار ہوتا تھا وہاں پر ایک عمر رسیدہ عورت کے سٹال سے ہو کر گزرنا پڑتا تھا۔ اُسکے سٹال پر ٹھہر کر اُس سے چند باتیں کرنا میرا معمول تھا اور ساتھ ہی میں روزانہ اُس سے ایک چاکلیٹ بھی خرید کر کھایا کرتا تھا جس کی قیمت ۱۸ پنس ہوا کرتی تھی۔ چاکلیٹ کے یہ بار قیمت کی آویزاں تختی کے ساتھ ایک شیلف پر ترتیب سے رکھے ہوا کرتے تھا۔ گاہک قیمت دیکھ کر اپنی پسند کا خود فیصلہ کر کے خرید لیتے تھے۔
حسب معمول ایک دن وہاں سے گُزرتے ہوئے میں اس عورت کے سٹال پر ٹھہرا اور اپنا پسندیدہ چاکلیٹ بار لینے کیلئے ہاتھ بڑھایا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آج وہ چاکلیٹ دو مختلف شیلف میں رکھے ہوئے تھے۔ ایک شیلف میں رکھے ہوئے کی قیمت حسبِ معمول ۱۸ پنس ہی تھی مگر دوسرے شیلف میں رکھے ہوئے کی قیمت ۲۰ پنس لکھی ہوئی تھی۔
میں نے حیرت کے ساتھ اُس عورت سے پوچھا؛ کیا یہ چاکلیٹ مختلف اقسام کی ہیں؟ تو اُس نے مختصرا کہا نہیں بالکل وہی ہیں۔ اچھا تو دونوں کے وزن میں اختلاف ہو گا؟ نہیں دونوں کے وزن ایک بھی جیسے ہیں۔ تو پھر یقینایہ دونوں مختلف فیکٹریوں کے بنے ہوئے ہونگے؟ نہیں دونوں ایک ہی فیکٹری کے بنے ہوئے ہیں۔
میری حیرت دیدنی تھی اور میں حقیقت جاننا چاہتا تھ، اسلیئے میں نے اس بار تفصیل سے سوال کر ڈالا؛ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ایک شیلف میں رکھے ہوئے چاکلیٹ کی قیمت ۱۸ پنس ہے جبکہ دوسرے شیلف میں رکھے ہوؤں کی قیمت ۲۰ پنس! ایسا کیوں ہے؟
اس بار اُس عورت نے بھی مُجھے پوری صورتحال بتانے کی غرض سے تفصیلی جواب دیتے ہوئے ہوئے کہا کہ آجکل نائجیریا میں جہاں سے کاکاؤ آتا ہے کُچھ مسائل چل رہے ہیں جس سے وجہ سے چاکلیٹ کی قیمتوں میں ناگہانی طور پر اضافہ ہو گیا ہے۔
میں نے یہاں عورت کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ مادام، آپ سے بیس پنس کی چاکلیٹ کون خریدے گا جبکہ وہی اٹھارہ پنس کی بھی موجود ہے؟ عورت نے کہا؛ میں جانتی ہوں ایسا کوئی بھی نہیں کرے گا۔ مگر جیسے ہی پُرانی قیمت والے چاکلیٹ ختم ہوں گے لوگ خود بخود نئی قیمتوں والے خریدنے لگیں گے۔
اپنی فطرت اور ماحول پروردہ خوبیوں کے ساتھ، روانی میں کہیئے یا اپنی عادتوں سے مجبور، میں نے کہا؛ مادام، آپ دونوں چاکلیٹ ایک ہی خانے میں رکھ کر بیس پنس والی نئی قیمت پر کیوں نہیں بیچ لیتیں؟
میری بات سُننا تھی کہ عورت کے تیور بدلے، چہرے پر موت جیسی پیلاہٹ مگر آنکھوں میں خوف اور غصے کی ملی جُلی کیفیت کے ساتھ لرزتی ہوئی آواز میں مُجھ سے بولی؛ کیا تو چور ہے؟
اب آپ خود ہی سوچ کر بتائیے کیا میں چور ہوں؟ یا وہ عورت جاہل اور پاگل تھی؟ اور شاید عقل و سمجھ سے نا بلد، گھاس چرنے والی حیوان
عورت!
اچھا میں مان لیتا ہوں کہ میں چور ہوں تو یہ سب کون ہیں جو غلہ اور اجناس خریدتے ہی اس وجہ سے ہیں کہ کل مہنگی ہونے پر بیچیں گے۔
کس جہنم میں ڈالنے کیلئے پیاز خرید کر رکھے جاتے ہیں جو مہنگے ہونے پر پھر نکال کر بیچتے ہیں۔
اُن لوگوں کیلئے تو میں کوئی ایک حرف بھی نہیں لکھنا چاہتا جن کی چینی گوداموں میں پڑے پڑے ہی مہنگی ہوجاتی ہے۔ نہ ہی مُجھے اُن لوگوں پر کوئی غصہ ہے جو قیمت بڑھاتے وقت تو نہیں دیکھتے کہ پہلی قیمت والا کتنا سٹاک پڑا ہے مگر قیمتیں کم ہونے پر ضرور سوچتے ہیں کہ پہلے مہنگے والا تو ختم کر لیں پھر سستا کریں گے۔
کیا ہمارے تجار نہیں جانتے کہ مخلوق خدا کو غلہ و اجناس کی ضرورت ہو اور وہ خرید کر اس نیت سے اپنے پاس روک رکھیںکہ جب او ر زیادہ گرانی ہو گی تو اسے بیچیں گے یہ احتکار کہلاتا ہے۔ روزِ محشر شفاعت کے طلبگار شافعیِ محشر صلی اللہ علیہ وسلم کاغلہ کے احتکار اور ذخیرہ اندوزی پر کیا فرمان اور کیا وعید ہے کو تو نہیں سُننا چاہتے کیونکہ وہ فی الحال اپنی توندوں اور تجوریوں کو جہنم کی آگ سے بھرنے میں جو لگے ہوئے ہیں۔
مُجھے کسی پر غصہ اور کسی سے کوئی ناراضگی نہیں، میں تو اُس جاہل عورت پر ناراض ہوں جس نے محض میرے مشورے پر مُجھے چور کا خطاب دیدیا۔ اچھا ہے جو وہ برطانیہ میں رہتی تھی، ادھر آتی تو حیرت سے دیکھتی اور سوچتی کہ وہ کس کس کو چور کہے! اور اُسے کیا پتہ کہ جسے بھی وہ چور کہنا چاہے گی وہ چور نہیں بلکہ ہمارے سید، پیر، مخدوم، شیخ، حکام اور ہمارے راہنما ہیں۔
جاہل کہیں کی!