Monday, March 18, 2013

یس خان




یس خان
۶ جولائی ۲۰۰۶ء بروز جمعہ میں  اپنے  کمرے  میں  بیٹھا ہوا تھا۔ میرے  مالیگاؤں  کے  دوست ہلال احمد مشتاق احمد کا خط مجھے  ملا۔ جو ۲۸ جون ۲۰۰۶ء کا لکھا ہوا تھا، خط میں  کچھ نجی باتوں  کا ذکر کرنے  کے  بعد انہوں  نے  یس خان کی وفات کی اطلاع ان لفظوں  میں  دی تھی  ’’یہ خبر بڑے  دکھ کے  ساتھ پڑھی جائے  گی کہ ببّن استاذ جیسے  مقبولِ عام کردار کے  خالق یس. خان مؤرخہ ۱۸ جون ۲۰۰۶ء بروز اتوار صبح اپنی قیامگاہ جو گیشوری ممبئی میں  انتقال کر گئے۔ انا للہ۔۔۔۔ مرحوم گذشتہ مہینوں  سے  ’’برین ٹیومر‘‘ کے  شکار تھے۔ ‘‘
یس۔ خان کے  انتقال کی یہ اطلاع میرے  لیے  بالکل نئی تھی، کتنے  افسوس کی بات ہے  کہ بنگلور اور مدراس کے  کسی اخبار نے  بھی اس اطلاع کو شائع نہیں  کیا تھا۔ اگر وہی کوئی فلمی اداکار مر جاتا یا کوئی سیاستداں  رخصت ہو جاتا تو سارے  اخبارات ان خبروں  کو نمایاں  طور پر شائع کرتے، مضامین پر مضامین لکھے  جاتے، نہ جانے  اردو داں  حلقے  کی یہ بے  حسی کب ختم ہو گی۔ 
یس۔ خان منفرد اسلوب کے  مالک تھے۔ ان کی تخلیقات ’’بزم اطفال‘‘، ’’خیر اندیش‘‘ اور ’’نرالی دنیا‘‘ میں  مستقل شائع ہوتی تھیں۔ اور کبھی کبھی یس۔ خان ’’نور‘‘ کے  پر نور صفحات پر بھی نظر آ جاتے  تھے۔ انہوں  نے  ببن استاد جیسا لاثانی کردار تخلیق کیا تھا۔ بچپن بہت پریشانیوں  اور مصیبتوں  میں  گزرا۔ بچپن سے  ہی لکھنے  پڑھنے  کا شوق تھا۔ اسی شوق کی وجہ سے  وہ کہانی کے  میدان کی طرف آ گئے۔ یس۔ خان کی پہلی کہانی ممبئی کے  ایک روزنامے  ’’آج‘‘ میں  شائع ہوئی تھی۔ اس کے  بعد وہ لکھتے  رہے، لکھتے  رہے، حتیٰ کہ فلمی دنیا کی طرف آ گئے، فلم رائٹر کی حیثیت سے  اپنا منفرد مقام بنایا۔ 
ماہنامہ ’’نور‘‘ میں  ان کا ایک انٹرویو شائع ہوا تھا، اور ان سے  یہ انٹرویو خیال اثرؔ  نے  لیا تھا۔ جس میں  ان سے  ایک سوال کیا گیا تھا کہ آپ فلم اور ٹی۔ وی میں  لکھنے  کے  باوجود بچوں  کے  لیے  کیسے  وقت دے  پاتے  ہیں ؟ تو جواباً انہوں  نے  کہا تھا: ’’ میری شروعات ہی بچوں  کے  ادب سے  ہوئی ہے، اس لیے  میں  بچوں  کے  ادب کو کیسے  بھول سکتا ہوں ؟ بلکہ میں  بچوں  کے  رسالوں  اور بچوں  کے  صفحات شائع کرنے  والے  اخباروں  کا احسانمند ہوں  کہ آج میں  جو کچھ بھی ہوں  انہیں  کی وجہ سے  ہوں۔ ا س کامیابی میں  میرے  والد اور والدہ کی دعائیں  شامل ہیں۔ سچ بات یہ بھی ہے  کہ بچوں  کے  لیے  لکھنے  میں  مجھے  بڑا لطف آتا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ دکھ کی بات یہ بھی ہے  کہ بچوں  کے  لیے  لکھنے  والے  دھیرے  دھیرے  غائب ہوتے  جا رہے  ہیں۔ ‘‘
یس۔ خان نے  بچوں  کی ذہنیت کو مد نظر رکھتے  ہوئے  بڑی عمدہ اور خوبصورت کہانیاں  تخلیق کی ہیں۔ وہ چھوٹے  چھوٹے  بچوں  کو اردو کی طرف راغب کرنے  میں  پوری دلچسپی لیتے  تھے۔ اس غرض سے  انہوں  نے  ایک منفرد ماہنامہ’’ اسکول ٹائم‘‘ کے  نام سے  نکالا۔ دو سال تک اس رسالے  کو کسی طرح چلاتے  رہے، مگر کہیں  سے  ہمت افزائی نہ ہونے  کے  سبب مجبوراً ایسا بہترین رسالہ بند ہو گیا۔ 
’’بزم اطفال‘‘ اور ’’خیر اندیش‘‘ میں  مختلف طرح کے  انعامی مقابلے  منعقد کرتے  تھے۔ اور انعام یافتگان کو اپنی جیبِ خاص سے  کوئی مفید کتاب اور اسکول ٹیلنٹ سرٹیفیکٹ سے  نوازتے  تھے۔ بسا اوقات ’’بزم اطفال‘‘ میں  ان کی ہندی سے  ترجمہ شدہ کہانیاں  پڑھنے  کو مل جایا کرتی تھیں۔ 
غالباً  دو سال پہلے  کی بات ہے  کہ میں  نے  انہیں   ایک خط لکھا تھا، جس کا مضمون یہ تھا کہ میں  آپ کا تعارفی مضمون لکھنا چاہتا ہوں۔ تو جواب میں  انہوں  نے  اپنی کتاب ’’فلم رائٹر کیسے  بنیں ؟‘‘ اور اپنا تعارف میرے  نام ارسال کیا۔ اور جب میں  نے  ان پر مضمون مکمل کر لیا تو سالار ویکلی نے  ’’بچوں  کے  ادیب، یس۔ خان صاحب‘‘ کے  عنوان سے  نمایاں  طور پر شائع کیا۔ جس کی ایک کاپی میں  نے  ان کی خدمت میں  بھیجی، فوراً ان کی جانب سے  شکریے  کا خط آیا جس میں  مضمون کی پسندیدگی کا برملا اظہار کیا گیا تھا۔ 
ان کی کتاب ’’فلم رائٹر کیسے  بنیں ؟‘‘ ایک منفرد کتاب ہے۔ جس میں  پہلی بار فلم کے  ان گوشوں  پر روشنی ڈالی گئی تھی جن پر اردو زبان میں  کسی اور نے  روشنی نہیں  ڈالی۔ وہ بڑی simple زبان استعمال کرتے  تھے۔ زیادہ پر تکلف اور ثقیل الفاظ وہ حتیٰ الامکان استعمال کرنے  سے  گریز کرتے  تھے۔ بڑی سے  بڑی بات چند لفظوں  اور چند جملوں  میں  کہہ جاتے  تھے۔ 
رحمانی سلیم احمد نے  بزم اطفال پبلیکیشنز کے  زیر اہتمام یس۔ خان کی متعدد کتابیں  شائع کی ہیں  اور اپنی قدر افزائی کا ثبوت دیا ہے۔ یس۔ خان نے  بچوں  کے  ادب کے  حوالے  سے  جو سرمایہ چھوڑا ہے  وہ نہایت قابل قدر اور لائق تعریف ہے۔ بچوں  کے  ادب پر ان کے  جو احسانات ہیں  وہ بھلائے  نہیں  جا سکتے۔ ’’نور‘‘ کے  قریبی سالنامے  میں  ان کی ایک کہانی شائع ہوئی تھی جس میں  ابن صفی کا انہوں  نے  انداز اپنایا تھا۔ غالباً اس کہانی کا عنوان تھا ’’چیختے  پہاڑ‘‘، یہ کہانی مجھے  بے  حد پسند آئی۔ جس کا اظہار میں  نے  ’’نور‘‘ کے  مستقل کالم ’’آپ کا خط ملا‘‘ میں  کیا تھا۔ الغرض! ان کی کئی ایسی کہانیاں  ہیں  جن میں  متعدد سبق آموز پہلو اور عبرت انگیز گوشے  ہیں۔ 
مرنے  کو روزانہ سیکڑوں  لوگ مرتے  ہیں۔ لیکن کم ہی لوگ ایسے  ہوتے  ہیں  کہ جن پر سارا زمانہ آنسو بہاتا ہے۔ ان کی عمر تقریباً ۴۹ سال تھی۔ اتنی کم عمری میں  بھی بھلا کوئی مرتا ہے، مگر اللہ نے  موت کا جو وقت متعین کیا ہے  اس سے  موت نہ ایک پل کے  لیے  مؤخر ہو سکتی ہے  اور نہ مقدم۔ ’’برین ٹیومر‘‘ ان کے  لیے  جان لیوا ثابت ہوا۔ اب جب کہ میں  اپنا مضمون ختم کر رہا ہوں  بے  اختیار مجھے  ایک شعر یاد آتا ہے ؂
زندگی ایسی جیو کہ دشمنوں  کو رشک  ہو
موت ہو ایسی کہ دنیا دیر تک ماتم کرے 
٭٭٭


ارشد نظرؔ




 ارشد نظرؔ 
مالیگاؤں  سے  تعلق رکھنے  والے  شاعر جناب ارشد نظرؔ  کا شعری مجموعہ 2001 میں  منظر عام پر آیا۔ جس کا انتساب آپ نے  اپنے  استاذ محترم احمد نسیم مینا نگری کے  نام کیا ہے۔ ارشد نظرؔ  کا شعر بے  حد پر کیف ہوتا ہے۔ ان کی شاعری ٹھنڈا بادل ہے، کڑی دھوپ ہے، پر نور مسرت بخش چاندنی ہے، کانٹوں  کا درخت ہے، پیار و محبت کا اظہاریہ ہے۔ 
لفظ کے  استعمال میں  محتاط رویہ رکھنے  والے  شاعر ارشد نظرؔ  کے  بارے  میں  بشر نواز نے  لکھا ہے  کہ وہ بیک وقت جذبہ وفکر متحرک بھی کرتے  ہیں  اور متأثر بھی کرتے  ہیں۔ یہ اچھے  شعروں  کی اولین پہچان ہے۔ ارشد کا یہ رنگ بہت اچھا لگتا ہے۔ خصوصاً علم و ادب کے  شائقین اور روایتی شاعری سے  اوبے  ہوئے  لوگوں  کو ان کی شاعری اپنے  دامن میں  جگہ چھپا لیتی ہے۔ اور احساسات کے  ایک آسمان سے  آشنا کراتی ہے۔ دور حاضر کی تہذیبی کشمکش، اخلاقیات کا فقدان ان کی شاعری کا خاص موضوع ہے۔ اسی لیے  وہ دعویٰ کرتے  ہیں   ؂
کام اشعار سے  نشتر کا لیا جاتا ہے 
ہے  نظرؔ  بھی بڑا ہوشیار کہوں  یا نہ کہوں 
کبھی ہنگامے  کبھی فتنے  کبھی شرر جاگے 
کب ترے  شہر میں  تسکین کے  منظر جاگے 
ان کا اسلوب بہت ہی منفرد اور مختلف اسلوب ہے۔ لیکن وہ میرؔ  سے  بہت متأثر نظر آتے  ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے  کہ میرؔ  سا اندازِ بیان سب کو حاصل نہیں  ہوتا، میرؔ  انہیں  اپنے  انداز میں  کہنے  پر اکساتے  ہیں۔ مگر وہ اپنی انفرادیت بر قرار رکھنا چاہتے  ہیں۔ اس میں  ان کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 
میرؔ  کا طرز مسلّم لیکن
اپنا لہجہ بھی تو آسان نہیں 
میرؔ  کے  انداز واسلوب کی تعریف کرتے  ہوئے  وہ کہتے  ہیں 
شعر نظرؔ  بھی خوب ہیں  لیکن
میرؔ  کا لہجہ کیا لہجہ تھا
آخیر میں  وہ اعتراف کر لیتے  ہیں  کہ وہ میرؔ  کے  پیرو ہیں۔ ان کے  رنگ سخن کو اپنانا انہیں  اچھا لگتا ہے 
شاعر کتنا پیارا نظرؔ 
میرؔ  کے  جیسا لہجہ تھا
ٹھیک نہیں  تقلید کسی کی، پھر بھی نظرؔ  دل یہ کہتا ہے 
کبھو کبھو کا طرز سخن بھی میرؔ  سا تم دیوان میں  رکھنا
ارشد نظرؔ  کے  حوالے  سے  عبد المجید سرورؔ  لکھتے  ہیں کہ ’’ چاند کرتا ہے  گفتگو ہم سے ‘‘ ارشد نظرؔ  کی شاعری کے  امکانات کا ایک اور حسین وعدہ ہے۔ اس میں  انہوں  نے  بڑی جرأت اور فکری بلند آہنگی، تازگی اور شعوری روشنی کے  ساتھ نئی غزل کے  نئے  اسلوب، لفظیات کے  پردے  میں  او غزل کے  حسین انداز کو معنوی اور فکری حسن بخشا ہے ‘‘۔ سرور صاحب کا یہ تجزیہ حقیقت سے  کتنا قریب اور درست رائے  پر مبنی ہے  اس کے  بارے  میں  ارشد نظرؔ  کی شاعری کا مطالعہ کرنے  والے  خوب جانتے  ہیں۔ 
اب ہم ارشد نظرؔ  کے  موضوعات و لفظیات کے  حوالے  سے  گفتگو کریں  گے۔ ارشد نظرؔ  نے  لفظ پیاس کو بہت استعمال کیا ہے۔ لگتا ہے  کہ انہیں  اس لفظ سے  بے  حد محبت ہے۔ پیاس کے  اتنے  زاویوں  کو اپنی شاعری کی روشنی میں  مہکایا ہے  کہ پیاس پوری شدت و قوت کے  ساتھ روشن ہو جاتی ہے۔ پیاس کا اپنا الگ مزہ ہوتا ہے۔ جو دوسروں  کی تکلیفوں  اور مصیبتوں  کا احساس دلاتا ہے۔ اللہ کی نعمتوں  کی قدر شناسی کا جذبہ انسان میں  پیدا کراتا ہے۔ پیاس نہ ہو تو پانی کی قدر و قیمت کا اندازہ کیسے  ہو؟۔ آئیے ! پیاس کے  حوالے  سے  ارشد نظرؔ  کے  چند شعر پڑھتے  ہیں ؂
میں  دھوپ دھوپ گھنی پیاس پی چکا ہوں  بہت
کبھی تو ابر رواں  دشت بے  کراں  میں  اترا
نہر جو آنکھ کے  دریا سے  نکلتی ہے  نظرؔ 
خواب در خواب مری پیاس بجھا دیتی ہے 
ہوس کی آگ میں  کندن کی پیاس کس کو ملی
کسی پتنگ سا جل کر بکھرنے  والا بن
مری پیاس بجھائے  کون
پیاسا دریا کہتا تھا
ارشد نظرؔ  نے  تکلفات اور بناوٹ سے  پرہیز کیا ہے۔ جدت کے  ساتھ جدید لفظیات کا استعمال، انوکھا اور نیا لکھنے  کی خواہش انہیں  خوب سے  خوب تر، بہتر سے  بہتر شاعری کرنے  پر اکساتی ہے۔ انہیں  اس بات پر اکساتی ہے  کہ شاعری رسمی انداز میں  نہ ہو، چبائے  ہوئے  نوالے  نہ ہوں، کچھ اپنا ہو، کچھ خاص ہو، کچھ منفرد ہو، کچھ الگ ہو، جو ان کی پہچان ہو، خاص پہچان ہو، اسی پہچان کے  لیے  وہ غزل کو منفرد رنگوں  سے  مزین کرتے  ہیں  اور چاند سے  اس طرح گفتگو کرتے  ہیں ؂
خیالوں  کی نئی فصلیں  اگیں  گی
نظرؔ  احساس اپنا جاگتا ہے 
میرؔ  و غالبؔ  تو مسلم ہیں  لیکن
رنگ اپنا بھی جمایا جائے 
لیکن یہ احساس ان کو تکبر اور غرور میں  مبتلاء نہیں  کرتا۔ وہ اپنی خاکساری اور انکساری کو بر قرار رکھتے  ہیں۔ یہی انکساری ان کے  بڑے  ہونے  اور عظیم ہونے  کی دلیل ہے۔ ؂
تو یہ نہ کہہ مرے  بعد کوئی مجھ سا نہیں 
نظرؔ  ادب کا سمندر بڑا ہی گہرا ہے 
شعر وسخن کو وہ بڑی دولت مانتے  ہیں۔ لفظ کے  موتی، خیالات کے  ہیرے  اور احساسات کے  گہر جس کی ملکیت ہوں ، بھلا وہ کیسے  غریب ہو سکتا ہے ؟ غریب وہ ہے  جو ان خزینوں  سے  واقف نہیں ؂
کچھ نہیں  ہے  یہاں  سخن کے  سوا
سب سے  بہتر نظرؔ  یہ دولت ہے 
ارشد نظرؔ  کی شاعری میں  سب کچھ ہے۔ حسن و عاشقی، حق پرستی، کرب عالم، دین سے  محبت، خدا سے  محبت اور رنگ و بو کی داستانیں۔ ارشد نظرؔ  جانتے  ہیں  کہ حق پرستی آسان کام نہیں، اس میں  سب سے  بچھڑنا پڑتا ہے، اپنے  بیگانے  بن جاتے  ہیں، دوست دشمن بن جاتے  ہیں، رشتے  دار قطع رحمی کرنے  لگتے  ہیں۔ سچ کو کوئی پسند نہیں  کرتا، جھوٹی تعریف کو پل باندھنے  والے، جھوٹے  جذبوں  کا اظہار کرنے  والوں  کو سب سر پہ بٹھاتے  ہیں ؂
اپنوں  نے  وہ سلوک کیا ہے  ہمارے  ساتھ
اب دشمنوں  سے  کوئی شکایت نہیں  رہی
کیسے  نبرد آزما دشمن سے  ہو گیا
وحشی سا کوئی تو فنکار مجھ میں  تھا
دوست بھی اس کے  دشمن ہوتے 
میری طرح جو سچا ہوتا
سچائیوں  کو میں  نے  جو اپنا لیا نظرؔ 
برہم ہیں  ہم سے  حاشیہ بردار دیکھنا
دوڑ مت خواہشات کے  پیچھے 
کچھ تو ارشد نظرؔ  خدا سے  ڈر
ارشد نظرؔ  کی یہ رنگارنگ شاعری ہے۔ جس پر ناقدین کو سنجیدگی سے  توجہ دینے  کی ضرورت ہے۔ ارشد نظرؔ  کی شاعری پر چند مشاہیرِ ادب کی آراء پیش کرنا چا ہوں  گا۔ 
(۱)قمر اقبال: ارشد نظر کا تعلق وجد گھرانے  سے  ہے۔ لہٰذا شاعری ان کی گھٹی میں  پڑی ہوئی ہے۔ غزلیں  ہی نہیں ، افسانے  بھی لکھتے  ہیں  اور اردو دانوں  میں  اعتبار کا درجہ حاصل کرتے  جا رہے  ہیں۔ 
(۲)ڈاکٹر نجیب مسعود: آج بر صغیر میں  جو شاعری ہو رہی ہے  ارشد نظرؔ  نے  اس میں  ایک مقام ضرور بنا لیا ہے۔ 
ارشد نظرؔ  خود اپنے  بارے  میں  لکھتے  ہیں : آج کل کے  شاعر نئی لفظیات کو برت کر یہ سمجھتے  ہیں  کہ وہ انسانی معاشرے  کی روح تک پہونچ چکے  ہیں۔ جب کہ حقیقت حال اس کے  برعکس ہے۔ مجھے  اپنے  بارے  میں  کوئی خوش فہمی نہیں  ہے ، میری شاعری میں  جہاں  فکر ہے  وہیں  احساس کا کھردراپن بھی ہے۔ مجےا  یقین ہے  یہ اشعار ہر عہد مین زندہ رہیں  گے ؂
کس کے  غم میں  ہوائیں  روتی ہیں 
کوئی روشن دیا بجھا تو نہیں 
ان کی صداؤں  نے  ہر بار سنبھالا ہے 
دنیا کی اگر سنتا کب کا میں  بھٹک جاتا
گر کر بلندیوں  سے  نہ اٹھا کوئی نظرؔ 
یوں  تو دنیا میں  ڈوب کے  کتنے  خدا ہوئے 
دوڑ مت خواہشات کے  پیچھے 
کچھ تو ارشد نظرؔ  خدا سے  ڈر
میں  کیا ڈوبوں  تیرے  اندر
میرے  احساسات سمندر
٭٭٭